ڈاکٹر عیڈم صاحب ! آپ اللہ ولوں ہی احمق ہیں یا اپنے آپکو ان حالوں پہنچانے میں آپکی ذاتی محنت بھی شامل ہے؟
کیا آپکو نہیں پتا کہ ہر مجرم کو اپنا مقدمہ لڑنے اور قانون میں دستیاب ہر گنجائش سے استفادہ کا حق حاصل ہوتا ہے؟
دنیا بھر کے قوانین میں عمر، جنس، کسی کے مجرمانہ ریکارڈ, انسانی ہمدردی اور ناقص صحت وغیرہ کو مد نظر رکھ کر جو گنجائشیں رکھی جاتی ہیں وہ بے سبب نہیں ہوتیں۔ اگر گرہ اجازت دے تو ہر ملزم کو اچھے سے اچھا وکیل کرنے کا استحقاق بھی حاصل ہوتا ہے۔
سارا دن فارغ بیٹھے انگلیوں سے کیبورڈ کھسی کرتے رہنے کی وجہ سے لگتا ہے آپکا دماغ بھی کھسی ہو چکا ہے لیکن اتمام حجت کی خاطر پھر بھی سمجھائے دیتا ہوں۔
مثلاً آپ ہسپتال سے دوائیاں چوری کرتے ہوئے بمع مال مسروقہ پکڑے جائیں اور آپ پر مقدمہ درج ہو جائے۔ کیا آپ اپنا جرم بلا چوں چراں قبول کرتے ہوئے سیدھے جیل جائیں گے یا مقدمہ لڑیں گے؟
آپ جتنے بھی احمق ہوں مگر اتنے نہیں، ظاہر ہے مقدمہ لڑیں گے۔
اسی مثال کو تھوڑا آگے بڑھاتا ہوں، اگر آپ حرام کی اندھی کمائی کے بل پر اعتزاز احسن جیسا نامور وکیل کرنے کی صلاحیت رکھتے ہوں تو آپ کیا سمجھتے ہیں کہ اعتزاز احسن آپکو جیل میں سڑنے دے اور وکیل کی بجائے جج بن کر آپکا کیس دیکھتے ہی آپکو چار گالیاں دے کر اپنے آفس سے دھکے مار کے نکال دے؟
عیڈم صاحب! کیا آئین و تعزیرات پاکستان مجرم کو حق صفائی نہیں دیتے؟
اگر آپکے دماغ کا کوئی حصہ قابل استعمال رہ گیا ہے تو اسکا استعمال کر کے سوچیں کہ کسی کے بے گناہ یا مجرم ہونے کا فیصلہ جج کرتا ہے یا وکیل؟
دنا بھر کی عدالتوں میں یہی ہوتا ہے کہ وکیل اپنے موکل کا مقدمہ جس قدر ممکن ہو قانونی دائرے میں رہتے ہوئے لڑتا ہے۔ اسکی کونسی دلیل بمطابق قانون ہے اور کونسی خلاف اس کا فیصلہ عدالت کرتی ہے، وکیل اپنے دلائل دے کر بیٹھ جاتا ہے۔
امید ہے اتنی آسانی سے سمجھانے پر آپکو سمجھ آ گئی ہوگی، اگر نہیں آئی تو مذید وضاحت کیلئے بندہ حاضر ہے۔
نوٹ: میرا مقصد صرف اور صرف آپکو سمجھانا ہے کہیں بین السطور بھی شکیل الرحمان کی طرفداری مقصود نہیں بلکہ مجھے خوشی ہے کہ ملک کا سب سے بڑا میڈیا لارڈ شکنجے میں آیا جو ہمیشہ سمجھتا رہا کہ حکومتیں بنانے اور گرانے کے فیصلے اسکا اخباری گروپ کرے گا۔