ایک تو ہوتی ہے روشنی اور دوسری ہوتی ہے آگ- ایک کا کام ہے روشن کرنا اور دوسری کا جلا دینا- ایک پیغام ہے زندگی کا تو دوسرا موت کا- ایک اندھیروں سے لڑتی ہے جبکہ دوسری راکھ اور دھویں کے ساتھ اندھیرا لے کر آتی ہے-
جنوبی ایشیائی مہاجروں کا ایک چھوٹا سا گروہ تھا جو اس ہفتے پوٹومک، میری لینڈ میں ایک مقامی ڈاکٹر محمّد خالد کے بیسمنٹ میں اکٹھا ہوا-
مباحثہ، جو کہ اکثر مہاجرین کے گروپس کے درمیان ہوتا ہے کہ وہ کس طرح اپنے دیس کے مسائل حل کرنے کے لئے کچھ بہتر کر سکیں، اور اسی دوران پردیس میں بھی اپنا کردار مثبت طریقے سے نبھائیں-
ایک نوجوان جنوب ایشیائی امریکی، احمد، اس بحث میں بڑی دلچسپی رکھتا ہے- جب وہ اپنے دیس واپس گیا تو اس نے روشنی اور آگ کا فرق سمجھنے کے لئے اپنے طور پر ایک چھوٹا سا تجربہ کیا-
احمد نے اپنے کمرے کی بتیاں بجھا دیں اور ایک موم بتی جلا کر تھوڑا محفوظ فاصلے پر رکھ دی- پہلے تو اس نے دونوں انگلیوں کے بیچ موم بتی کا شعلہ پکڑنے کی کوشش کی- انگلیوں کو شعلے کے اتنے قریب لے گیا کہ اسکی تپش محسوس ہو اور پھر کوئی نقصان پنہچنے سے پہلے ہاتھ ہٹا لیا-
پھر اس نے تین طرف سے موم بتی کو ڈھانک کر، کھلی جانب سے اسے تکنا شروع کیا اور تب تک تکتا رہا جب تک اسکی آنکھوں میں پانی نہ آ گیا- پھر اس نے آنکھیں بند کر لیں-
اس نے پہلے بھی یہ مشق کی تھی- پہلے اس نے کسی غیر متحرک چیز سے شروعات کی، جیسے عربی میں لکھا ہوا الله کا نام، اس کے بعد وہ موم بتی کی طرف مڑ گیا-
یہ مراقبے کی ایک پرانی مشق ہے- جسے سنسکرت میں تراتکا کہا جاتا ہے یہ مشق مسلمان صوفیوں نے ہندو سادھوؤں سے سیکھی تھی-
اس مشق کا احمد پر ہمیشہ ایک حیرت انگیز اثر ہوتا تھا- تھوڑی کوششوں کے بعد اسے وہ شعلہ ایک روشن ہالے کی شکل میں تبدیل ہوتا نظر آنے لگا- اور تھوڑی کوششوں کے بعد اس نے اس روشنی کے ذریعہ اپنی پریشانیوں کو ختم کرنا سیکھ لیا-
اس کے بعد اتنا سکون چھا جاتا کہ اس کے اعصاب پرسکون ہو جاتے- اور پھر جب اسکا ذہن دوبار کام کرنا شروع کرتا تو اسے کسی کی موجودگی کا احساس ہوتا اور وہ احساس انتہائی قوی ہوتا-
احمد کے لئے اس وجود کی تعریف ممکن نہ تھی- کبھی کبھار اسے بات کرنے کی خواہش پیدا ہوتی لیکن اس خوف سے کہ کہیں یہ اسے کسی اور بھی بڑی ہستی تک نہ لے جاۓ جسے وہ سنبھال نہ پاۓ، احمد نے کبھی بولنے کی کوشش نہ کی-
احمد جب موم بتی پر توجہ مرکوز کر رہا تھا تو اسے اس شام کے مقررین میں سے ایک کی بات یاد آئی- علی عمران نے پوچھا تھا، روشنی کیا ہے؟ یہ کوئی عام سی چیز نہیں ہے- لیکن پہلے آپ کو اسے دیکھنا ہوگا سمجھنا ہوگا، پھر اس سے رابطہ جوڑنا ہوگا- پھر کہیں جا کر آپ کو روشنی کی حقیقت معلوم ہوگی-
احمد نے اپنے آپ سے پوچھا، “روشنی کیا ہے؟ یقیناً یہ سکون بخش ہے لیکن یہ اتنی وسیع ہے کہ اسے سنبھالنا مشکل ہے”-
“اسے قابو کرنے کی کوشش نہ کرو، کیوں کہ تم نہیں کر سکتے- یہ خدائی شے ہے- اس سے رابطہ قائم کرنے کے لئے پہلے اس کی وسعت میں سے ایک کرن کو الگ کرنے کی کوشش کرو”، اس کے صوفی استاد نے ایک بار اسے سمجھایا-
احمد نے تو ابھی تک روشنی سے ایک کرن کو الگ کرنا نہیں سیکھا تھا، رابطہ قائم کرنا تو بعد کی بات تھی- “اسے سمجھنے کے لئے کافی وقت درکار ہے”، احمد نے سوچا- “آگ کو سمجھنا آسان ہے، چاہے یہ کتنی شدید کیوں نہ ہو”-
اسے بحث میں شامل ایک اور مقرر یاد آیا جو لوگوں کو بتا رہا تھا کہ نیوکلیئر پاور موجود ہے اور یہ انسانیت کے لئے بہت بڑا خطرہ ہے- “ایک چھوٹی سی غلطی، ایک ننھی سی غلط فہمی، حد یہ کہ زبان کی ذرا سی لغزش پوری دنیا کو نیوکلیئر جہنم میں دھکیل سکتی ہے”، ڈاکٹر خالد نے کہا، جو ایک نوبل انعام یافتہ تنظیم “فزیشن فور سوشل رسپونسبلیٹی” کے سربراہ ہیں-
مقرر نے کہا “نیوکلیئر جنگ تو ایک انتہائی شدت پسند سیناریو ہے، لیکن افزودہ یورینیم کا استعمال عراق اور افغانستان میں کیا جا چکا ہے- اور اس سے پیدا ہونے والی تابکاری کے اثرات صدیوں تک رہیں گے اور جسمانی معذوریاں اور بیماریاں جنم لیتی رہیں گی”-
احمد کے جدید دماغ کے لئے اس طرح کے خطرات کو سمجھنا آسان تھا کیوں کہ انکا تعین کیا جا سکتا تھا- دوسرے تصورات جیسے انسانی رویوں کو سمجھنا، اس کے لئے مشکل تھا- “لوگ بالکل غیر متوقع ہوتے ہیں”، اس نے سوچا- “لیکن یہ تصورات کسی مخصوص واقعہ سے وابستہ ہوں تو انہیں سمجھا جا سکتا ہے کیوں کہ پھر انکا تعین کرنا آسان ہوگا”- وہ اس شام کی ایک اور مقرر، امینہ ہوتی، کی تقریر کے دوران بڑبڑایا-
کیمبرج یونیورسٹی سے وابستہ سینٹر فور اسٹڈی مسلم-جوئش ریلیشنز کی کو-فاؤنڈر اور ڈائریکٹر، ہوتی، “بین العقائد تفہیم پیدا کرنے” اور “دہشت کی اس دنیا کے زخم جداگانہ شناخت کے ذریعہ بھرنے کی ضرورت پر بات کر رہی تھیں”-
احمد یہ جانتا تھا کہ 9/11 سے پہلے، جس اسکول سے اس نے گریجویشن کیا تھا وہاں بہت کم ایسے تھے جو اس طرح کے خیالات کو سمجھنے کی زحمت کرتے- لیکن اس سال اس نے اپنے کالج میں اس موضوع سے متعلق پہلے ہی دو لیکچرز میں شرکت کی تھی-
“ہاں، 9/11، افغانستان، عراقی جنگ اور دہشتگردی میں ہونے والی اموات تمام شماریات ہیں، چناچہ ہم انہیں اور ان واقعات سے متعلق طرز فکر کو سمجھ سکتے ہیں”-
ہوتی، جو اپنے کام کو ایک ’پل باندھنے’ کا نام دیتی ہیں، اسلام آباد میں دنیا کی پہلی بین العقائد یونیورسٹی بنانا چاہتی ہیں، جو مقامی اسکولوں کے طلباء اور بالغان، جیسے پالیسی سازوں، پولیس اہلکاروں اور صحافیوں کے لئے بھی کھلی ہو- یونیورسٹی مختلف موضوعات پر کورسز پیش کرے گی جس میں ابراہیمی روایات میں خواتین کے کردار سے لے کر میڈیا میں مذہبی گروہوں کے کردار تک کے موضوعات موجود ہونگے-
“9/11 کے بعد کی دنیا میں تعلیمی اداروں کو ایسے نئے اور جدید موضوعات متعارف کروانے پڑیں گے جنہیں لازماً ایسے خیالات کو متعارف کروانا چاہیے جن میں باہمی احترام اور اتفاق راۓ کی حوصلہ افزائی کی جاۓ”، انہوں نے کہا-
ڈاکٹر خالد نے ان سے اتفاق کیا کہ موجود گلوبل ولیج میں، ہمیں ایک دوسرے کو سمجھنا اور تسلیم کرنا ہو گا ورنہ ہم سب تباہ ہو جائیں گے-
اور پھر انہوں نے ایک چھوٹی سی ڈاکومنٹری دکھائی کہ کس طرح یہ نیوکلیئر’آگ’ اس گاؤں کو تباہ کر دے گی اگر ہم نے برداشت کرنا نہ سیکھا-
اس ویڈیو میں مختلف تحقیق کا حوالہ دیا گیا جن میں یہ بتایا گیا تھا کہ کس طرح ہندوستان اور پاکستان کے درمیان جوہری تبادلوں کی وجہ سے انسانی ہلاکتوں کے لحاظ سے سب سے زیادہ نقصان دہ نتائج کا خطرہ ہے-
ہندوستانی اور پاکستانی شہروں پر زمینی حملے، انتہائی فوری اور طویل مدتی اموات کے حامل ہونگے اور دونوں میں سے کسی بھی ملک میں اس طرح سانحہ سے نمٹنے کے لئے طبی اور سیکورٹی سہولیات دستیاب نہیں ہیں- بیرونی امداد کا وقت پر پنہچنا مشکل ہو گا-
حد یہ کہ پاکستان اور ہندوستان کے بیچ ایک محدود علاقائی نیوکلیئر جنگ بھی، دنیا بھر کی آب و ہوا پر بہت بری طرح اثر انداز ہو گی-
امریکا میں مکئی کی پیداوار پوری ایک دہائی کے لئے اوسطاً دس فیصد تک گر جاۓ گی، انتہائی شدید کمی کے ساتھ جو تقریباً پانچ سال میں بیس فیصد بنتی ہے- اسی طرح کی کمی سویابین کی پیداوار میں بھی آۓ گی جو کہ ایک بار پھر شدید خسارے کے ساتھ پانچ سال میں بیس فیصد ہو گی-
ایک دوسری تحقیق میں چینی مڈ سیزن چاولوں کی پیداوار میں نمایاں کمی دریافت کی گئی ہے- ابتدائی چار سالوں میں چاولوں کی پیداوار اکیس فیصد تک گر جاۓ گی، اگلے چھ سالوں میں یہ کمی اوسطاً دس فیصد ہو گی-
دنیا میں 925 ملین لوگ مسلسل خوراک کی کمی کا شکار ہیں- ان کی خوراک کی یومیہ کھپت 1,750 کلوریز سے بھی کم ہے- انکی خوراک میں دس فیصد تک کی بھی کمی اس پورے گروپ کو خطرے میں ڈال دے گی-
نیوکلیئر جنگ سے پیدا ہونے والے قحط کے شکار لوگوں کی تعداد ایک بلین سے اوپر ہو جاۓ گی-
“یہ ہے آگ”، جب اسے اس شام کی گفتگو یاد آئی تب احمد نے اپنے آپ سے کہا- “ہاں یہ پوری دنیا کو تباہ کر سکتی ہے، لیکن اس ہولناک تباہی کو روکنے کے لئے روشنی کیا کر سکتی ہے؟”
“فقط ایک کرن کو روشنی سے الگ کر کے اس پر توجہ مرکوز کرنے سے کچھ حاصل نہیں ہو گا”، اس نے سوچا- “ہمیں یہ روشننی دوسروں تک پہچانی ہوگی تاکہ وہ بھی روشنی اور آگ کا فرق پہچان سکیں”-
source
جنوبی ایشیائی مہاجروں کا ایک چھوٹا سا گروہ تھا جو اس ہفتے پوٹومک، میری لینڈ میں ایک مقامی ڈاکٹر محمّد خالد کے بیسمنٹ میں اکٹھا ہوا-
مباحثہ، جو کہ اکثر مہاجرین کے گروپس کے درمیان ہوتا ہے کہ وہ کس طرح اپنے دیس کے مسائل حل کرنے کے لئے کچھ بہتر کر سکیں، اور اسی دوران پردیس میں بھی اپنا کردار مثبت طریقے سے نبھائیں-
ایک نوجوان جنوب ایشیائی امریکی، احمد، اس بحث میں بڑی دلچسپی رکھتا ہے- جب وہ اپنے دیس واپس گیا تو اس نے روشنی اور آگ کا فرق سمجھنے کے لئے اپنے طور پر ایک چھوٹا سا تجربہ کیا-
احمد نے اپنے کمرے کی بتیاں بجھا دیں اور ایک موم بتی جلا کر تھوڑا محفوظ فاصلے پر رکھ دی- پہلے تو اس نے دونوں انگلیوں کے بیچ موم بتی کا شعلہ پکڑنے کی کوشش کی- انگلیوں کو شعلے کے اتنے قریب لے گیا کہ اسکی تپش محسوس ہو اور پھر کوئی نقصان پنہچنے سے پہلے ہاتھ ہٹا لیا-
پھر اس نے تین طرف سے موم بتی کو ڈھانک کر، کھلی جانب سے اسے تکنا شروع کیا اور تب تک تکتا رہا جب تک اسکی آنکھوں میں پانی نہ آ گیا- پھر اس نے آنکھیں بند کر لیں-
اس نے پہلے بھی یہ مشق کی تھی- پہلے اس نے کسی غیر متحرک چیز سے شروعات کی، جیسے عربی میں لکھا ہوا الله کا نام، اس کے بعد وہ موم بتی کی طرف مڑ گیا-
یہ مراقبے کی ایک پرانی مشق ہے- جسے سنسکرت میں تراتکا کہا جاتا ہے یہ مشق مسلمان صوفیوں نے ہندو سادھوؤں سے سیکھی تھی-
اس مشق کا احمد پر ہمیشہ ایک حیرت انگیز اثر ہوتا تھا- تھوڑی کوششوں کے بعد اسے وہ شعلہ ایک روشن ہالے کی شکل میں تبدیل ہوتا نظر آنے لگا- اور تھوڑی کوششوں کے بعد اس نے اس روشنی کے ذریعہ اپنی پریشانیوں کو ختم کرنا سیکھ لیا-
اس کے بعد اتنا سکون چھا جاتا کہ اس کے اعصاب پرسکون ہو جاتے- اور پھر جب اسکا ذہن دوبار کام کرنا شروع کرتا تو اسے کسی کی موجودگی کا احساس ہوتا اور وہ احساس انتہائی قوی ہوتا-
احمد کے لئے اس وجود کی تعریف ممکن نہ تھی- کبھی کبھار اسے بات کرنے کی خواہش پیدا ہوتی لیکن اس خوف سے کہ کہیں یہ اسے کسی اور بھی بڑی ہستی تک نہ لے جاۓ جسے وہ سنبھال نہ پاۓ، احمد نے کبھی بولنے کی کوشش نہ کی-
احمد جب موم بتی پر توجہ مرکوز کر رہا تھا تو اسے اس شام کے مقررین میں سے ایک کی بات یاد آئی- علی عمران نے پوچھا تھا، روشنی کیا ہے؟ یہ کوئی عام سی چیز نہیں ہے- لیکن پہلے آپ کو اسے دیکھنا ہوگا سمجھنا ہوگا، پھر اس سے رابطہ جوڑنا ہوگا- پھر کہیں جا کر آپ کو روشنی کی حقیقت معلوم ہوگی-
احمد نے اپنے آپ سے پوچھا، “روشنی کیا ہے؟ یقیناً یہ سکون بخش ہے لیکن یہ اتنی وسیع ہے کہ اسے سنبھالنا مشکل ہے”-
“اسے قابو کرنے کی کوشش نہ کرو، کیوں کہ تم نہیں کر سکتے- یہ خدائی شے ہے- اس سے رابطہ قائم کرنے کے لئے پہلے اس کی وسعت میں سے ایک کرن کو الگ کرنے کی کوشش کرو”، اس کے صوفی استاد نے ایک بار اسے سمجھایا-
احمد نے تو ابھی تک روشنی سے ایک کرن کو الگ کرنا نہیں سیکھا تھا، رابطہ قائم کرنا تو بعد کی بات تھی- “اسے سمجھنے کے لئے کافی وقت درکار ہے”، احمد نے سوچا- “آگ کو سمجھنا آسان ہے، چاہے یہ کتنی شدید کیوں نہ ہو”-
اسے بحث میں شامل ایک اور مقرر یاد آیا جو لوگوں کو بتا رہا تھا کہ نیوکلیئر پاور موجود ہے اور یہ انسانیت کے لئے بہت بڑا خطرہ ہے- “ایک چھوٹی سی غلطی، ایک ننھی سی غلط فہمی، حد یہ کہ زبان کی ذرا سی لغزش پوری دنیا کو نیوکلیئر جہنم میں دھکیل سکتی ہے”، ڈاکٹر خالد نے کہا، جو ایک نوبل انعام یافتہ تنظیم “فزیشن فور سوشل رسپونسبلیٹی” کے سربراہ ہیں-
مقرر نے کہا “نیوکلیئر جنگ تو ایک انتہائی شدت پسند سیناریو ہے، لیکن افزودہ یورینیم کا استعمال عراق اور افغانستان میں کیا جا چکا ہے- اور اس سے پیدا ہونے والی تابکاری کے اثرات صدیوں تک رہیں گے اور جسمانی معذوریاں اور بیماریاں جنم لیتی رہیں گی”-
احمد کے جدید دماغ کے لئے اس طرح کے خطرات کو سمجھنا آسان تھا کیوں کہ انکا تعین کیا جا سکتا تھا- دوسرے تصورات جیسے انسانی رویوں کو سمجھنا، اس کے لئے مشکل تھا- “لوگ بالکل غیر متوقع ہوتے ہیں”، اس نے سوچا- “لیکن یہ تصورات کسی مخصوص واقعہ سے وابستہ ہوں تو انہیں سمجھا جا سکتا ہے کیوں کہ پھر انکا تعین کرنا آسان ہوگا”- وہ اس شام کی ایک اور مقرر، امینہ ہوتی، کی تقریر کے دوران بڑبڑایا-
کیمبرج یونیورسٹی سے وابستہ سینٹر فور اسٹڈی مسلم-جوئش ریلیشنز کی کو-فاؤنڈر اور ڈائریکٹر، ہوتی، “بین العقائد تفہیم پیدا کرنے” اور “دہشت کی اس دنیا کے زخم جداگانہ شناخت کے ذریعہ بھرنے کی ضرورت پر بات کر رہی تھیں”-
احمد یہ جانتا تھا کہ 9/11 سے پہلے، جس اسکول سے اس نے گریجویشن کیا تھا وہاں بہت کم ایسے تھے جو اس طرح کے خیالات کو سمجھنے کی زحمت کرتے- لیکن اس سال اس نے اپنے کالج میں اس موضوع سے متعلق پہلے ہی دو لیکچرز میں شرکت کی تھی-
“ہاں، 9/11، افغانستان، عراقی جنگ اور دہشتگردی میں ہونے والی اموات تمام شماریات ہیں، چناچہ ہم انہیں اور ان واقعات سے متعلق طرز فکر کو سمجھ سکتے ہیں”-
ہوتی، جو اپنے کام کو ایک ’پل باندھنے’ کا نام دیتی ہیں، اسلام آباد میں دنیا کی پہلی بین العقائد یونیورسٹی بنانا چاہتی ہیں، جو مقامی اسکولوں کے طلباء اور بالغان، جیسے پالیسی سازوں، پولیس اہلکاروں اور صحافیوں کے لئے بھی کھلی ہو- یونیورسٹی مختلف موضوعات پر کورسز پیش کرے گی جس میں ابراہیمی روایات میں خواتین کے کردار سے لے کر میڈیا میں مذہبی گروہوں کے کردار تک کے موضوعات موجود ہونگے-
“9/11 کے بعد کی دنیا میں تعلیمی اداروں کو ایسے نئے اور جدید موضوعات متعارف کروانے پڑیں گے جنہیں لازماً ایسے خیالات کو متعارف کروانا چاہیے جن میں باہمی احترام اور اتفاق راۓ کی حوصلہ افزائی کی جاۓ”، انہوں نے کہا-
ڈاکٹر خالد نے ان سے اتفاق کیا کہ موجود گلوبل ولیج میں، ہمیں ایک دوسرے کو سمجھنا اور تسلیم کرنا ہو گا ورنہ ہم سب تباہ ہو جائیں گے-
اور پھر انہوں نے ایک چھوٹی سی ڈاکومنٹری دکھائی کہ کس طرح یہ نیوکلیئر’آگ’ اس گاؤں کو تباہ کر دے گی اگر ہم نے برداشت کرنا نہ سیکھا-
اس ویڈیو میں مختلف تحقیق کا حوالہ دیا گیا جن میں یہ بتایا گیا تھا کہ کس طرح ہندوستان اور پاکستان کے درمیان جوہری تبادلوں کی وجہ سے انسانی ہلاکتوں کے لحاظ سے سب سے زیادہ نقصان دہ نتائج کا خطرہ ہے-
ہندوستانی اور پاکستانی شہروں پر زمینی حملے، انتہائی فوری اور طویل مدتی اموات کے حامل ہونگے اور دونوں میں سے کسی بھی ملک میں اس طرح سانحہ سے نمٹنے کے لئے طبی اور سیکورٹی سہولیات دستیاب نہیں ہیں- بیرونی امداد کا وقت پر پنہچنا مشکل ہو گا-
حد یہ کہ پاکستان اور ہندوستان کے بیچ ایک محدود علاقائی نیوکلیئر جنگ بھی، دنیا بھر کی آب و ہوا پر بہت بری طرح اثر انداز ہو گی-
امریکا میں مکئی کی پیداوار پوری ایک دہائی کے لئے اوسطاً دس فیصد تک گر جاۓ گی، انتہائی شدید کمی کے ساتھ جو تقریباً پانچ سال میں بیس فیصد بنتی ہے- اسی طرح کی کمی سویابین کی پیداوار میں بھی آۓ گی جو کہ ایک بار پھر شدید خسارے کے ساتھ پانچ سال میں بیس فیصد ہو گی-
ایک دوسری تحقیق میں چینی مڈ سیزن چاولوں کی پیداوار میں نمایاں کمی دریافت کی گئی ہے- ابتدائی چار سالوں میں چاولوں کی پیداوار اکیس فیصد تک گر جاۓ گی، اگلے چھ سالوں میں یہ کمی اوسطاً دس فیصد ہو گی-
دنیا میں 925 ملین لوگ مسلسل خوراک کی کمی کا شکار ہیں- ان کی خوراک کی یومیہ کھپت 1,750 کلوریز سے بھی کم ہے- انکی خوراک میں دس فیصد تک کی بھی کمی اس پورے گروپ کو خطرے میں ڈال دے گی-
نیوکلیئر جنگ سے پیدا ہونے والے قحط کے شکار لوگوں کی تعداد ایک بلین سے اوپر ہو جاۓ گی-
“یہ ہے آگ”، جب اسے اس شام کی گفتگو یاد آئی تب احمد نے اپنے آپ سے کہا- “ہاں یہ پوری دنیا کو تباہ کر سکتی ہے، لیکن اس ہولناک تباہی کو روکنے کے لئے روشنی کیا کر سکتی ہے؟”
“فقط ایک کرن کو روشنی سے الگ کر کے اس پر توجہ مرکوز کرنے سے کچھ حاصل نہیں ہو گا”، اس نے سوچا- “ہمیں یہ روشننی دوسروں تک پہچانی ہوگی تاکہ وہ بھی روشنی اور آگ کا فرق پہچان سکیں”-
source