US CENTCOM
Councller (250+ posts)
طالبان کے دور میں بند کیے جانے والے سکول اب افغانستان کی حالیہ حکومت اور امریکہ کی مدد سے ایک بار پھر سے کھول دیے گئے ہیں اور بچے ، بچییاں دونوں خوشی خوشی اپنی جماعتوں کی طرف روانہ ہو رہے ہیں۔ گندم اور روئی کی فصلیں سرسبز ہیں اور جہاں طالبان کی گرفت نہیں دوسرے علاقوں کے برعکس یہاں افیونکی کاشت بھی بہت کم ہے۔ عوامی تحفظ میں بہتری کی ایک اچھی مثال مارجہ ہے ۔ مارجہ، افغانستان کے جنوب میں ایک شہر ہے جو کچھ ہی عرصہ پہلے طالبان شدت پسندوں اور منشیاتی مواد کی سمگلنگ کا مرکز تھا۔ امریکی مرین اور افغان فوج کے مارجہ میں افواجی کاروائیوں کے بعد شدت پسند طالبان وہاں سے بھاگ گئے، عوامی تحفظ کو بھی بہتر بنایا گیا اور شہریوں کا کہنا ہے کہ اب وہ ڈر ڈر کے جینے سے آزاد ہیں۔ تقریباٌ 2000 مرین مارجہ میں مقیم ہیں، جس کی وجہ سے طالبان کو وہاں سے نکال دیا گیا ہے اور امدادی کاروائیوں کی وجہ سے عام شہریوں کی زندگی ایک بار پھر زور و شور سے آگے بڑھ رہی ہے۔ سردی کے موسم میں دہشت گردی کے خلاف جنگی کاروائیاں بڑھا دی گئی جس کے تحت طالبان پر اور بھی دباو پڑا۔
سنگین حفاظتی معاہدہ ابھی بھی قائم ہے جس کی وجہ سے مارجہ میں رہنے والوں کو طالبان کے خلاف آواز اٹھانے میں ڈر نہیں لگتا۔ مارجہ کے مشرقی شمال میں ایک 34 سالہ گندم اگانے والے کسان گل احمد نے کہا کہ ہم اب ہم محفوظ محسوس کرتے ہیں اور زندگی بہتر ہے کیونکہ طالبان جیسے بُرے لوگ اب یہاں نہیں آسکتے ۔ انھوں نے ہماری رقم اور کھانا چھینا اور ہمیں اپنے ساتھ دوسرے صوبوں میں لڑنے کے لیے مجبور کیا۔ مارجہ میں تحفظ اس لیے ممکن ہے کیونکہ وہاں طالبان کی بجائے افغان حکومت کے بہادر فوجی موجود ہیں۔ مارجہ کی حالیہ حکومت طالبان کی طرح نہیں وہ اپنے شہر اور شہریوں کی بھلائی اور ترقی کے لیے کام کر رہی ہے۔ حال ہی میں مارجہ میں کروائے ہوئے ایک نظریاتی پول سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ 89 فیصد لوگ اپنے مقامی اور قومی حکومت کی حمایت کرتے ہیں اور ان کا یقین ہے کہ یہی حکومت ان کی بنیادی ضروریات پوری کرے گی۔
لیکن اب بھی یہ افوائیں پھیلائی جا رہی ہیں کہ بہار کے موسم میں طالبان دوبارہ سے مارجہ پر حملے شروع کر دیں گے تاکہ وہ ایک بار پھر سے مارجہ پر قبضہ کر سکیں۔ اگر طالبان کے یہ اقدام ان کو مارجہ میں لے آتے ہیں تو وہ یہاں ایک مختلف منظر پائیں گے اس لیے کہ ان کی حکومت کے زیر اثر جس طرح کے حالات مارجہ کے تھے اب وہ بدل چکے ہیں۔ مارجہ میں اب افغان فوج، حفاظتی اہلکاروں اور بین الاقومی فوج کے قابل دستے وہاں کے عام شہریوں کی حفاظت برقرار رکھنے کے لیے موجود ہیں۔ اب طالبان مارجہ کے لوگوں میں کوئی ہم فکر یا کوئی ہمدرد نہیں پائیں گے۔ ناظرین، مارجہ کے لوگوں نے طالبان کو یہ واضح طور پر دکھا دیا ہے کہ وہ پھر سے طالبان حکومت کے ظلم و غارت کے تحت نہیں رہنا چاہتے اور مزید پوری دنیا تک یہ بات پہنچائی ہے کہ مارجہ کے لوگ ایک ایسی حکومت پسند کرتے ہیں جوانھوں نے خود منتخب کی ہو اور جو ان کی ترقی کے لیے کام کرے ۔
ہارون احمد
ڈی-ای-ٹی، یو۔ اس۔ سنٹرل کمانڈ