منگل کی دوپہر میری ایک اہم ملک کے سفیر سے دوپہر کے کھانے پر ملاقات بہت دن پہلے طے ہوچکی تھی۔ میں وقتِ مقررہ پر اسلام آباد میں سکیورٹی کے حوالے سے سب سے زیادہ محفوظ سمجھے جانے والے ہوٹل پہنچا تو اس کی اندرونی پارکنگ میں کوئی جگہ نہ تھی۔ گاڑی چلاتا ہوا اس کی بیرونی پارکنگ میں آیا تو وہ تقریباً خالی تھی۔ مگر اس کے زیادہ تر حصوں کو بلاک لگاکر ’’ناقابلِ پارک‘‘ بنادیا گیا تھا۔ کافی دیر بعد ایک کونے تک پہنچا جہاں پہلے سے پانچ گاڑیاں کھڑی تھیں۔ میں نے ایک گاڑی کے پیچھے اپنی گاڑی لگا کر بند کی تو اسلام آباد پولیس کے ایک اہلکار تشریف لائے۔ انھوں نے مجھے مطلع کیا کہ میں اس مقام پر گاڑی کھڑی نہیں کرسکتا۔ میں جوانی کے دنوں میں بھی پولیس والوں کو ’’تمہیں پتہ نہیں ہم صحافی ہوتے ہیں‘‘ والا فقرہ کہنے کا عادی نہیں رہا۔ اب تو قویٰ ویسے بھی مضمحل ہوچکے ہیں۔ توتکار اور ہاتھا پائی سے محفوظ رہنے کی ہر ممکن کوشش کرنے پر طبعی حوالے سے بھی مجبور ہوچکا ہوں۔
بڑے عزت واحترام سے صرف یہ جاننا چاہا کہ پانچ دیگر گاڑیوں کی موجودگی میں میری گاڑی کا وہاں پارک ہوجانا سکیورٹی کے حوالے سے کیوں مناسب نہیں سمجھا جاسکتا۔ جواباً انھوں نے ایک موٹی سی گالی دے کر مجھے مطلع کیا کہ وہ اس مقام پر VVIP سکیورٹی فراہم کرنے کھڑے ہیں۔ میرے جیسے لوگوں کے بیہودہ سوالات کا جواب دینے نہیں۔ ہماری گفتگو کو وہاں متعین ایلیٹ کمانڈو کا عملہ ایک جیپ میں بیٹھا مزے لیتا ہوا سن رہا تھا۔ ان میں سے ایک نوجوان نیچے اُترا۔ اس نے اپنی جیپ کے ساتھ لگا ایک چھوٹا بلاک ذرا سرکایا اور مجھے کہا کہ میں بجائے اس اہلکار کا خطاب سننے کے اپنی گاڑی وہاں کھڑی کرکے ہوٹل چلاجائوں۔ میں نے فوراً تعمیل کی۔ اپنی گاڑی کو اس کے بتائے مقام پر کھڑا کرکے چابی گھماکر ہوٹل کی جانب بڑھا تو ٹریفک پولیس والے نے ایک اور زیادہ موٹی گالی کے ساتھ پہلے میری دماغی حالت کی بابت جاننا چاہا اور پھر مجھے مطلع کیا کہ وہ فیصلہ دے چکا ہے کہ میری گاڑی وہاں کسی صورت کھڑی نہیں کی جاسکتی۔
میں نے مسکرا کر مودبانہ التجا کی کہ ہر فیصلے کے خلاف کوئی اپیل تو سنی جاسکتی ہے۔ دوسرا مجھے ایلیٹ سکیورٹی والوں نے گاڑی کھڑی کرنے کی جگہ بناکر دی ہے۔ اس نے جواباً ایک اور گالی سے نواز کر حکم دیا کہ میں اپنی گاڑی میں واپس جائوں اور اس مقام سے ہٹالوں۔ میں خوف کے مارے فوراََ اپنی گاڑی کا دروازہ کھول کر ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھ گیا اور اپنے چند ساتھیوں سے درخواست کی کہ وہ متعلقہ اہلکار کے فیصلے کے خلاف کوئی اپیل کرنے کا بندوبست کریں۔ انھوں نے وہیں رکنے کا مشورہ دیا۔ چلچلاتی دھوپ کے نیچے کھڑے ایک ایک لمحہ کافی کڑا محسوس ہورہا تھا۔ پھر دو لوگوں کے فون آئے جنھوں نے حکم دیا کہ وہ میری اس اہلکار سے بات کروا دیں۔ میں فون لے کر اس اہلکار کی طرف جاتا تو وہ درشتی سے فرما دیتے کہ میں کسی کا فون نہیں سنوں گا۔ میں زچ کر اپنی گاڑی میں آیا۔ ہوٹل میں انتظار کرتے سفارتکار سے فون پر معذرت کی اور گھر کی جانب چل دیا۔
گھر لوٹتے ہوئے بجائے غصہ ہونے کے میں دل ہی دل میں اس بات پر بہت شاداں محسوس کرتا رہا کہ بالآخر پاکستان میں وہ دن آگیا ہے جب قانون نافذ کرنے والے اہلکار ڈیوٹی کے مقام پر کھڑے ہوئے اپنے فیصلے خود کرنے کے مجاز ہوگئے ہیں۔ سچی بات ہے کہ میرے جیسے صحافی تو دن اسی دن کے لیے گن رہے تھے۔ پورے پاکستان کے عوام نہیں کم از کم اسلام آباد کے شہریوں کو مبارک ہوکہ انھیں یہ دن دیکھنا نصیب ہوا۔ امید ہے بہت جلد قانون نافذ کرنے والے اداروں کے چھوٹے سے چھوٹے اہلکار کی قانون کو بالادست رکھنے کے حوالے سے ملی خود مختاری کی یہ روایت بہت جلد باقی ملک میں بھی پھیل جائے گی۔ شہباز شریف صاحب کو بھی لاہور کے ڈی آئی جی (آپریشنل) کو خود فون کرکے یہ بتانے کی ضرورت نہیں رہے گی کہ تحریکِ انصاف کے احتجاجی کارکنوں کے ساتھ معاملات کیسے بنائے جائیں۔ نہ ہی وزیر اعظم کو اپنے سگے بھائی کو فون کرکے یہ بتانے کی ضرورت کہ احتجاج سیاسی کارکنوں کا حق ہوا کرتا ہے، اسے ریاستی جبر سے خواہ مخواہ روکنے کی ضرورت نہیں۔
آئین اور قانون کی بالادستی کے پھل پھول کھلنے کا یہ موسم ایک بہت بڑے پیمانے پر اس وقت تو بہت ہی سہانا دکھتا ہے جب اطلاع آتی ہے کہ بالآخر وزیر اعظم صاحب کی قیادت میں قومی سلامتی کی ایک کمیٹی بنادی گئی ہے۔ اس کمیٹی میں عسکری اداروں کی بھرپور نمائندگی بھی یقینی بنادی گئی ہے۔ اس کے بعد ایک دن آئے گا جب لوگ جان لیں گے کہ پاکستان میں عسکری اور سیاسی قیادت قومی سلامتی کے امور کو الگ الگ زاویوں سے نہیں ایک نظر سے دیکھتی ہے۔ جنرل ضیاء الحق نے جب 1985ء میں غیر جماعتی انتخابات کے ذریعے پاکستان کو صالح جمہوریت کی راہ پر ڈالنے کی کوشش کی تو قومی سلامتی کونسل کا ذکر شروع ہوا۔ ہمارے ’’بدعنوان اور نااہل سیاستدان‘‘ مگر اس ادارے کے قیام کے پیچھے موجود مقاصد سمجھ نہ پائے۔ باور کر بیٹھے کہ ایسے ادارے کے ذریعے عسکری قیادت ملک کے دفاعی اور خارجہ امور پر اپنا مکمل کنٹرول قائم اور برقرار رکھنا چاہتی ہے۔
جونیجو مرحوم اور ان کے حامی اور سیاسی مخالفین اس ادارے کی مخالفت میں یکجا ہوگئے۔ اسی لیے تنگ آکر ضیاء الحق کو بالآخر ان کی اسمبلی اور حکومت توڑنا پڑی۔ پھر غلام اسحاق خان کو جنرل ضیاء والے اختیارات مل گئے جو انھوں نے ایک نہیں دو بار پھر استعمال کیے۔ حتیٰ کہ جب پیپلز پارٹی نے محترمہ بے نظیر بھٹو کے ’’فاروق بھائی‘‘ کو اس ملک کا صدر بنوایا تو وہ بھی ایک اسمبلی توڑ گئے۔ نواز شریف کی دوسری حکومت کا انجام بھی شاید مختلف نہ ہوتا۔ مگر لاہور سے آئے وزیر اعظم نے اپنی دو تہائی اکثریت کا پورا فائدہ اُٹھا کر خود کو آئینی طورپر محفوظ بنالیا۔ یہ الگ بات ہے کہ ان کی دو تہائی اکثریت 12اکتوبر 1999ء کے روز ان کے کوئی کام نہ آئی۔ جنرل مشرف مضبوط ہوئے تو انھوں نے نیشنل سکیورٹی کونسل کو بحال کردیا۔ ایم ایم اے میں موجود صالح جمہوریت پسندوں نے جو آج کل پاکستان میں مصر پر فوجی قبضے کے خلاف جلوس وغیرہ نکال رہے ہیں، اس کونسل کو آئینی تحفظ فراہم کردیا۔ یہ تحفظ بالآخر پرویز مشرف کے بھی کوئی کام نہ آیا۔ ان کی جگہ زرداری صاحب آگئے۔ ان کی حکومت نے پانچ سال پورے کیے تو نواز شریف صاحب تیسری مرتبہ وزیر اعظم بن گئے ہیں۔
اس بار وہ اپنے وزیر خارجہ اور وزیر دفاع بھی خود ہیں۔ ہاتھی کے پائوں میں سب کے پائوں ہیں اور قومی سلامتی کونسل اب قومی سلامتی کمیٹی کا روپ دھار کر قائم ہوچکی ہے۔ لیکن اس ادارے کی ایک نئے نام کے ساتھ بحالی کے چند ہی دن بعد ایم کیو ایم کے ڈاکٹر فاروق ستار نے قومی اسمبلی میں کھڑے ہوکر کراچی کو فوج کے حوالے کرنے کا مطالبہ کردیا ہے۔ ان کی خواہش اس شہر میں امن وامان کی بحالی ہے۔ مجھے سمجھ نہیں آرہی اگر اسلام آباد میں متعین پولیس اہلکار اپنے اپنے فرائض پوری خود مختاری سے سرانجام دینا شروع ہوگئے ہیں تو کراچی میں ایسا کیوں نہیں ہوسکتا؟ ڈاکٹر فاروق ستار سے مودبانہ درخواست ہے کہ وہ کراچی کو فوج کے حوالے کرنے والا آخری آپشن کے استعمال کا مطالبہ دہرانے سے پہلے وزیراعظم سے بڑی شدت کے ساتھ فریاد کریں کہ کراچی کو ان فرض شناس پولیس افسروں کے حوالے کیا جائے جنھوں نے اسلام آباد کو پاکستان کا سب سے زیادہ قانون پسند شہر بنادیا ہے۔ مثالی پولیس کے ہوتے ہوئے فوج کو پکارنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ یہ مثالی پولیس صرف قانون ہی نافذ نہیں کرتی۔ سکندر نام کا کوئی جنونی دو کلاشنکوف لے کر شہر میں آجائے تو اسے گھیرے میں لے کر ہماری ٹیلی وژن اسکرینوں پر پانچ گھنٹے کی Live تفریح بھی فراہم کرتی ہے۔ اور کیا چاہیے؟!!
http://www.express.pk/story/168251/
بڑے عزت واحترام سے صرف یہ جاننا چاہا کہ پانچ دیگر گاڑیوں کی موجودگی میں میری گاڑی کا وہاں پارک ہوجانا سکیورٹی کے حوالے سے کیوں مناسب نہیں سمجھا جاسکتا۔ جواباً انھوں نے ایک موٹی سی گالی دے کر مجھے مطلع کیا کہ وہ اس مقام پر VVIP سکیورٹی فراہم کرنے کھڑے ہیں۔ میرے جیسے لوگوں کے بیہودہ سوالات کا جواب دینے نہیں۔ ہماری گفتگو کو وہاں متعین ایلیٹ کمانڈو کا عملہ ایک جیپ میں بیٹھا مزے لیتا ہوا سن رہا تھا۔ ان میں سے ایک نوجوان نیچے اُترا۔ اس نے اپنی جیپ کے ساتھ لگا ایک چھوٹا بلاک ذرا سرکایا اور مجھے کہا کہ میں بجائے اس اہلکار کا خطاب سننے کے اپنی گاڑی وہاں کھڑی کرکے ہوٹل چلاجائوں۔ میں نے فوراً تعمیل کی۔ اپنی گاڑی کو اس کے بتائے مقام پر کھڑا کرکے چابی گھماکر ہوٹل کی جانب بڑھا تو ٹریفک پولیس والے نے ایک اور زیادہ موٹی گالی کے ساتھ پہلے میری دماغی حالت کی بابت جاننا چاہا اور پھر مجھے مطلع کیا کہ وہ فیصلہ دے چکا ہے کہ میری گاڑی وہاں کسی صورت کھڑی نہیں کی جاسکتی۔
میں نے مسکرا کر مودبانہ التجا کی کہ ہر فیصلے کے خلاف کوئی اپیل تو سنی جاسکتی ہے۔ دوسرا مجھے ایلیٹ سکیورٹی والوں نے گاڑی کھڑی کرنے کی جگہ بناکر دی ہے۔ اس نے جواباً ایک اور گالی سے نواز کر حکم دیا کہ میں اپنی گاڑی میں واپس جائوں اور اس مقام سے ہٹالوں۔ میں خوف کے مارے فوراََ اپنی گاڑی کا دروازہ کھول کر ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھ گیا اور اپنے چند ساتھیوں سے درخواست کی کہ وہ متعلقہ اہلکار کے فیصلے کے خلاف کوئی اپیل کرنے کا بندوبست کریں۔ انھوں نے وہیں رکنے کا مشورہ دیا۔ چلچلاتی دھوپ کے نیچے کھڑے ایک ایک لمحہ کافی کڑا محسوس ہورہا تھا۔ پھر دو لوگوں کے فون آئے جنھوں نے حکم دیا کہ وہ میری اس اہلکار سے بات کروا دیں۔ میں فون لے کر اس اہلکار کی طرف جاتا تو وہ درشتی سے فرما دیتے کہ میں کسی کا فون نہیں سنوں گا۔ میں زچ کر اپنی گاڑی میں آیا۔ ہوٹل میں انتظار کرتے سفارتکار سے فون پر معذرت کی اور گھر کی جانب چل دیا۔
گھر لوٹتے ہوئے بجائے غصہ ہونے کے میں دل ہی دل میں اس بات پر بہت شاداں محسوس کرتا رہا کہ بالآخر پاکستان میں وہ دن آگیا ہے جب قانون نافذ کرنے والے اہلکار ڈیوٹی کے مقام پر کھڑے ہوئے اپنے فیصلے خود کرنے کے مجاز ہوگئے ہیں۔ سچی بات ہے کہ میرے جیسے صحافی تو دن اسی دن کے لیے گن رہے تھے۔ پورے پاکستان کے عوام نہیں کم از کم اسلام آباد کے شہریوں کو مبارک ہوکہ انھیں یہ دن دیکھنا نصیب ہوا۔ امید ہے بہت جلد قانون نافذ کرنے والے اداروں کے چھوٹے سے چھوٹے اہلکار کی قانون کو بالادست رکھنے کے حوالے سے ملی خود مختاری کی یہ روایت بہت جلد باقی ملک میں بھی پھیل جائے گی۔ شہباز شریف صاحب کو بھی لاہور کے ڈی آئی جی (آپریشنل) کو خود فون کرکے یہ بتانے کی ضرورت نہیں رہے گی کہ تحریکِ انصاف کے احتجاجی کارکنوں کے ساتھ معاملات کیسے بنائے جائیں۔ نہ ہی وزیر اعظم کو اپنے سگے بھائی کو فون کرکے یہ بتانے کی ضرورت کہ احتجاج سیاسی کارکنوں کا حق ہوا کرتا ہے، اسے ریاستی جبر سے خواہ مخواہ روکنے کی ضرورت نہیں۔
آئین اور قانون کی بالادستی کے پھل پھول کھلنے کا یہ موسم ایک بہت بڑے پیمانے پر اس وقت تو بہت ہی سہانا دکھتا ہے جب اطلاع آتی ہے کہ بالآخر وزیر اعظم صاحب کی قیادت میں قومی سلامتی کی ایک کمیٹی بنادی گئی ہے۔ اس کمیٹی میں عسکری اداروں کی بھرپور نمائندگی بھی یقینی بنادی گئی ہے۔ اس کے بعد ایک دن آئے گا جب لوگ جان لیں گے کہ پاکستان میں عسکری اور سیاسی قیادت قومی سلامتی کے امور کو الگ الگ زاویوں سے نہیں ایک نظر سے دیکھتی ہے۔ جنرل ضیاء الحق نے جب 1985ء میں غیر جماعتی انتخابات کے ذریعے پاکستان کو صالح جمہوریت کی راہ پر ڈالنے کی کوشش کی تو قومی سلامتی کونسل کا ذکر شروع ہوا۔ ہمارے ’’بدعنوان اور نااہل سیاستدان‘‘ مگر اس ادارے کے قیام کے پیچھے موجود مقاصد سمجھ نہ پائے۔ باور کر بیٹھے کہ ایسے ادارے کے ذریعے عسکری قیادت ملک کے دفاعی اور خارجہ امور پر اپنا مکمل کنٹرول قائم اور برقرار رکھنا چاہتی ہے۔
جونیجو مرحوم اور ان کے حامی اور سیاسی مخالفین اس ادارے کی مخالفت میں یکجا ہوگئے۔ اسی لیے تنگ آکر ضیاء الحق کو بالآخر ان کی اسمبلی اور حکومت توڑنا پڑی۔ پھر غلام اسحاق خان کو جنرل ضیاء والے اختیارات مل گئے جو انھوں نے ایک نہیں دو بار پھر استعمال کیے۔ حتیٰ کہ جب پیپلز پارٹی نے محترمہ بے نظیر بھٹو کے ’’فاروق بھائی‘‘ کو اس ملک کا صدر بنوایا تو وہ بھی ایک اسمبلی توڑ گئے۔ نواز شریف کی دوسری حکومت کا انجام بھی شاید مختلف نہ ہوتا۔ مگر لاہور سے آئے وزیر اعظم نے اپنی دو تہائی اکثریت کا پورا فائدہ اُٹھا کر خود کو آئینی طورپر محفوظ بنالیا۔ یہ الگ بات ہے کہ ان کی دو تہائی اکثریت 12اکتوبر 1999ء کے روز ان کے کوئی کام نہ آئی۔ جنرل مشرف مضبوط ہوئے تو انھوں نے نیشنل سکیورٹی کونسل کو بحال کردیا۔ ایم ایم اے میں موجود صالح جمہوریت پسندوں نے جو آج کل پاکستان میں مصر پر فوجی قبضے کے خلاف جلوس وغیرہ نکال رہے ہیں، اس کونسل کو آئینی تحفظ فراہم کردیا۔ یہ تحفظ بالآخر پرویز مشرف کے بھی کوئی کام نہ آیا۔ ان کی جگہ زرداری صاحب آگئے۔ ان کی حکومت نے پانچ سال پورے کیے تو نواز شریف صاحب تیسری مرتبہ وزیر اعظم بن گئے ہیں۔
اس بار وہ اپنے وزیر خارجہ اور وزیر دفاع بھی خود ہیں۔ ہاتھی کے پائوں میں سب کے پائوں ہیں اور قومی سلامتی کونسل اب قومی سلامتی کمیٹی کا روپ دھار کر قائم ہوچکی ہے۔ لیکن اس ادارے کی ایک نئے نام کے ساتھ بحالی کے چند ہی دن بعد ایم کیو ایم کے ڈاکٹر فاروق ستار نے قومی اسمبلی میں کھڑے ہوکر کراچی کو فوج کے حوالے کرنے کا مطالبہ کردیا ہے۔ ان کی خواہش اس شہر میں امن وامان کی بحالی ہے۔ مجھے سمجھ نہیں آرہی اگر اسلام آباد میں متعین پولیس اہلکار اپنے اپنے فرائض پوری خود مختاری سے سرانجام دینا شروع ہوگئے ہیں تو کراچی میں ایسا کیوں نہیں ہوسکتا؟ ڈاکٹر فاروق ستار سے مودبانہ درخواست ہے کہ وہ کراچی کو فوج کے حوالے کرنے والا آخری آپشن کے استعمال کا مطالبہ دہرانے سے پہلے وزیراعظم سے بڑی شدت کے ساتھ فریاد کریں کہ کراچی کو ان فرض شناس پولیس افسروں کے حوالے کیا جائے جنھوں نے اسلام آباد کو پاکستان کا سب سے زیادہ قانون پسند شہر بنادیا ہے۔ مثالی پولیس کے ہوتے ہوئے فوج کو پکارنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ یہ مثالی پولیس صرف قانون ہی نافذ نہیں کرتی۔ سکندر نام کا کوئی جنونی دو کلاشنکوف لے کر شہر میں آجائے تو اسے گھیرے میں لے کر ہماری ٹیلی وژن اسکرینوں پر پانچ گھنٹے کی Live تفریح بھی فراہم کرتی ہے۔ اور کیا چاہیے؟!!
http://www.express.pk/story/168251/