مولانا سید وصی مظہر ندوی جماعت اسلامی سے تحریک اسلامی تک محمد اسحق
جماعت اسلامی کی تاریخ میں ۵۶۔۱۹۵۸ء کا دور ایسا تھا کہ جماعت اسلامی کی تاسیس سے تا امروز اس دور سے زیادہ شدید بحران نہیں آیا۔ اس دور میں جماعت اسلامی نے بقول اہلیہ شیخ سلطان احمد صاحب (رکن جماعت اسلامی) اپنی جھولی سے ہیرے نکال پھینکے تھے۔ اس بحرانی دور میں جب جائزہ کمیٹی کی رپورٹ پر شوریٰ میں بحث جاری تھی تو مولانا ندوی مولانا مودودی کے رویے سے بہت دل برداشتہ ہوئے اور انھوں نے شوریٰ سے واپسی کے بعد مولانا مودودی کو خط میں لکھا کہ :
مجھے شوریٰ میں آپ کے رویے سے بہت دکھ ہوا آپ میں وہ صبر و تحمل نہیں تھا جو آپ کے مزاج کا حصہ رہا ہے۔ آپ ان لوگوں کی پیٹھ ٹھونک رہے تھے کہ جو آپ کی تائید کر رہے تھے اور ان لوگوں کی تقاریر میں مداخلت کر رہے تھے جو آپ کی مخالفت کر رہے تھے۔
اس کے جواب میں مولانا مودودی نے مولانا ندوی کو سخت الفاظ میں ایک خط لکھا جس کا مفہوم یہ تھا کہ جماعت میں اگر کسی کو کچھ کام کرنے کا موقع ملا ہے تو اسے اپنی حیثیت پہچاننی چاہیے۔مولانا ندوی نے اس خط کے بعد رکنیت جماعت اور شوریٰ کی رکنیت کے علاوہ سب عہدوں سے استعفیٰ دے دیا۔ مولانا ندوی اس زمانے میں بقیہ ارکان جماعت کو بھی سمجھاتے رہے کہ استعفیٰ دینے کے بجائے جماعت کے اندر رہ کر اصلاح کرنے کی کوشش کی جائے۔ کوٹ شیر سنگھ میں شوریٰ کا اجتماع رکھا گیا۔ اس اجتماع میں مولانا مودودی نے جو تقریر ارکان شوریٰ کو بریف کرنے کے لیے کی، اس میں کہا کہ :
جمہوریت جو کسی اسٹیٹ میں ہوتی ہے، وہ اور ہوتی ہے اور جو جمہوریت کسی تحریک میں ہوتی ہے، وہ دوسری قسم کی ہوتی ہے، مثلاً اسٹیٹ کی جمہوریت میں حزب اختلاف وغیرہ ہو سکتی ہے، لیکن تحریک میں اصل کام امیر کا ہوتا ہے اور اصل ذمہ داری بھی، وہی پارٹی لائن طے کرتا ہے، جبکہ شوریٰ امیر کی رائے کو زیادہ بہتر بنانے کے لیے صرف تجاویز دے، یہ نہ ہو کہ شوریٰ امیر کی رائے کے خلاف کوئی رائے دے؟
مولانا مودوی کی اس تقریر کے بعد مولانا ندوی نے اپنی تقریر یہ کہتے ہوئے شروع کی کہ مولانا مودودی کے افتتاحی خطاب کے بعد تو مجھے یہ تقریر کرنا ہی نہیں چاہیے تھی، کیونکہ اس سے جماعت میں پھر حزب اختلاف بنے گی، لیکن یہ قرارداد اس لیے پیش کرنا ضروری ہے کہ میری نظر میں مولانا کا نقطۂ نظر غلط ہے۔ میں اس سے متفق نہیں ہوں، کیونکہ جس تحریک میں اختلاف رائے اور اظہار خیال کی آزادی نہ ہو گی، جب وہ کامیاب ہو کرایک اسٹیٹ میں تبدیل ہو گی تو اس میں بھی یہی صورت حال ہو گی اور کہا جائے گا کہ اسٹیٹ کے دشمن بہت ہیں، لہٰذا اسٹیٹ میں اختلافی رائے یا حزب اختلاف کو برداشت نہیں کیا جائے گا۔
He wrote Introduction Quran/ Shan e Nazul e Quran and Mariful Koran. He was on death row at that time.
Please correct if I make any mistake in this post.