عاصم موٹا اور ماڈل آیان علی
چودہ مارچ دو ہزار پندرہ کی تاریخ اور ہفتہ کا دن۔ عاصم موٹا اپنی موبائلز ریپیرنگ کی دکان پر بیٹھا ہوا تھا اور اچانک پولیس آن دھمکی۔ عاصم تم ہی ہو؟ ایک موٹی رشوت زدہ توند والے حوالدار نے عاصم موٹے سے کرخت لہجے میں پوچھا۔ ج ج جی میں ہی ہوں مگر بات کیا ہے۔ تیری۔۔۔۔۔ اپنی توند کے جیسی موٹی سی پنجابی گالی دینے کے ساتھ ہی حوالدار کا بھاری بھر کم ہاتھ عاصم موٹے کے منہ پر پڑا۔ پولیس عاصم کو سرکاری موٹر سائیکل پر بٹھا کر کوئی وجہ بتائے بنا اپنے ساتھ تھانے لے گئی اور عاصم موٹا گرفتار۔
چودہ مارچ دو ہزار پندرہ کی تاریخ اور ہفتہ کا دن۔ بینظیر انٹرنیشنل ایرپورٹ پر دبئ جانے والی پرواز کی ایک مسافرآیان علی کے پاس پانچ لاکھ امریکی ڈالر کیش برآمد۔ قانونی طور پرپاکستان میں اپنے ساتھ کیش لے جانے کی حد دس ہزار امریکی ڈالر۔ آیان علی کے پاس پانچ لاکھ امریکی ڈالر۔ کسٹم آفیسر نے کیس بنا کرمکمل ثبوت کے ساتھ پولیس کے حوالے کیا اور ماڈل آیان علی گرفتار۔
ایک ہی دن ایک ہی تاریخ اور ایک ہی ملک کے دو مختلف شہری گرفتار۔
عاصم موٹے کی تھانے میں جا کر خوب چھترول۔ ابھی نہ کیس بنا۔ نہ جرم بتایا۔ نہ ایف آئی آر۔ نہ گرفتاری وارنٹ۔ مگر مار مار کر عاصم موٹے کا کچومر نکال دیا۔
عاصم موٹے کے دو بڑے بھائی ہیں۔ ایک موٹر سائیکل مکینک اور ایک کی چھوٹی سی ذاتی فوٹوگرافرشاپ۔ مگر دونوں اپنے اپنے بال بچوں کے ساتھ الگ رہتے ہیں۔ والد چند سال پہلے انتقال کر گئے۔ والدہ شوگر کی مریضہ۔ جو عاصم موٹے اور اس کی بیوی کے ساتھ رہتی ہے۔ موبائلزر یپرنگ کی شاپ سےعاصم موٹا اسکی بیوی اور والدہ گزر بسر کررہے ہیں۔ چودہ مارچ کو گرفتاری ہوئی اور وجہ نہ معلوم۔
عاصم موٹے کے بھائی پولیس اسٹیشن گئے تو اس کے اس سنگین جرم سے پردہ اٹھا کہ وہ دور والے گاؤں کےایک با اثر شخص کی بیٹی سے فون پر باتیں کرتا تھا۔ تنگ نہیں کرتا تھا باتیں کرتا تھا۔ مطلب لڑکی اپنی مرضی سے اس سے بات کرتی تھی۔ ایک دن پکڑی گئی۔ با اثرباپ نے پتا لگوایا کہ لڑکا کون ہے۔ پولیس کو پیسے دیے اورپنجاب پولیس کے بہادرجوانوں نے فوری کاروائی کرتے ہوئے عاصم موٹے کی دکان پر ریڈ کر دی۔ نہ پرچہ۔ نہ گرفتاری وارنٹ۔ بس چند ہرے نیلے نوٹ اور عاصم موٹا اندر۔ چلو پکڑہی لیا مگر صرف اسی پر بس کہاں۔ مار مار کر دھنیہ نکال دیا اس کا۔ عاصم موٹے کے بھائی اپنی گزر بسر مشکل سے کرتے ہیں۔ محرر نے کہا بھی کہ ابھی ایف آئی آر نہیں کاٹی تیس ہزار ایس ایچ او صاحب کو دے دو ۔ معاملہ یہیں ختم کر دیتے ہیں۔ مگر وہ نہ دے سکے۔
عاصم موٹے کو کچھ دن تھانے میں رکھ کر جیل بھیج دیا گیا۔
چودہ مارچ دو ہزار پندرہ کی تاریخ اور آج کا دن۔ عاصم موٹا ابھی تک جیل میں ہے۔ پولیس عاصم موٹے کو جیل بھیج کر بھول گئی ہےکہ کوئی اسکے پیچھے ٹرنے والا نہیں اور نہ ہی عاصم موٹا ماڈل آیان علی ہے کہ جس کی خبر روز ٹی وی پر آئے۔ عاصم موٹے کا جیل سے نکلنا مشکل ہے۔ عاصم موٹے کے پاس سے پانچ لاکھ امریکی ڈالر برآمد نہیں ہوئےہیں نہ ہی کسی زرداری کا نام ہے اس کے پیچھے۔
عاصم موٹا چار ماہ سے اندر ہے۔ گجرات جیل میں۔ اور جانے کتنے ماہ اور اندر رہے۔ کچھ خبر نہیں۔ کہ کسی زرداری کو اس کی فکر نہیں۔ کہ عاصم موٹے کا جرم بہت سنگین ہے۔ عاصم موٹآ ماڈل آیان علی نہیں ہے۔
چودہ مارچ دو ہزار پندرہ کی تاریخ اور ہفتہ کا دن۔ بینظیر انٹرنیشنل ایرپورٹ پر دبئ جانے والی پرواز کی ایک مسافرآیان علی کے پاس پانچ لاکھ امریکی ڈالر کیش برآمد۔ قانونی طور پرپاکستان میں اپنے ساتھ کیش لے جانے کی حد دس ہزار امریکی ڈالر۔ آیان علی کے پاس پانچ لاکھ امریکی ڈالر۔ کسٹم آفیسر نے کیس بنا کرمکمل ثبوت کے ساتھ پولیس کے حوالے کیا اور ماڈل آیان علی گرفتار۔
ایک ہی دن ایک ہی تاریخ اور ایک ہی ملک کے دو مختلف شہری گرفتار۔
عاصم موٹے کی تھانے میں جا کر خوب چھترول۔ ابھی نہ کیس بنا۔ نہ جرم بتایا۔ نہ ایف آئی آر۔ نہ گرفتاری وارنٹ۔ مگر مار مار کر عاصم موٹے کا کچومر نکال دیا۔
عاصم موٹے کے دو بڑے بھائی ہیں۔ ایک موٹر سائیکل مکینک اور ایک کی چھوٹی سی ذاتی فوٹوگرافرشاپ۔ مگر دونوں اپنے اپنے بال بچوں کے ساتھ الگ رہتے ہیں۔ والد چند سال پہلے انتقال کر گئے۔ والدہ شوگر کی مریضہ۔ جو عاصم موٹے اور اس کی بیوی کے ساتھ رہتی ہے۔ موبائلزر یپرنگ کی شاپ سےعاصم موٹا اسکی بیوی اور والدہ گزر بسر کررہے ہیں۔ چودہ مارچ کو گرفتاری ہوئی اور وجہ نہ معلوم۔
عاصم موٹے کے بھائی پولیس اسٹیشن گئے تو اس کے اس سنگین جرم سے پردہ اٹھا کہ وہ دور والے گاؤں کےایک با اثر شخص کی بیٹی سے فون پر باتیں کرتا تھا۔ تنگ نہیں کرتا تھا باتیں کرتا تھا۔ مطلب لڑکی اپنی مرضی سے اس سے بات کرتی تھی۔ ایک دن پکڑی گئی۔ با اثرباپ نے پتا لگوایا کہ لڑکا کون ہے۔ پولیس کو پیسے دیے اورپنجاب پولیس کے بہادرجوانوں نے فوری کاروائی کرتے ہوئے عاصم موٹے کی دکان پر ریڈ کر دی۔ نہ پرچہ۔ نہ گرفتاری وارنٹ۔ بس چند ہرے نیلے نوٹ اور عاصم موٹا اندر۔ چلو پکڑہی لیا مگر صرف اسی پر بس کہاں۔ مار مار کر دھنیہ نکال دیا اس کا۔ عاصم موٹے کے بھائی اپنی گزر بسر مشکل سے کرتے ہیں۔ محرر نے کہا بھی کہ ابھی ایف آئی آر نہیں کاٹی تیس ہزار ایس ایچ او صاحب کو دے دو ۔ معاملہ یہیں ختم کر دیتے ہیں۔ مگر وہ نہ دے سکے۔
عاصم موٹے کو کچھ دن تھانے میں رکھ کر جیل بھیج دیا گیا۔
چودہ مارچ دو ہزار پندرہ کی تاریخ اور آج کا دن۔ عاصم موٹا ابھی تک جیل میں ہے۔ پولیس عاصم موٹے کو جیل بھیج کر بھول گئی ہےکہ کوئی اسکے پیچھے ٹرنے والا نہیں اور نہ ہی عاصم موٹا ماڈل آیان علی ہے کہ جس کی خبر روز ٹی وی پر آئے۔ عاصم موٹے کا جیل سے نکلنا مشکل ہے۔ عاصم موٹے کے پاس سے پانچ لاکھ امریکی ڈالر برآمد نہیں ہوئےہیں نہ ہی کسی زرداری کا نام ہے اس کے پیچھے۔
عاصم موٹا چار ماہ سے اندر ہے۔ گجرات جیل میں۔ اور جانے کتنے ماہ اور اندر رہے۔ کچھ خبر نہیں۔ کہ کسی زرداری کو اس کی فکر نہیں۔ کہ عاصم موٹے کا جرم بہت سنگین ہے۔ عاصم موٹآ ماڈل آیان علی نہیں ہے۔