شہباز شریف کی اتحادی حکومت آئین میں کونسی 53 ترامیم کرنا چاہتی ہے؟

14shehhbabbamsdmenktjkjfkf.png

حکومت کی جانب سے آئین میں 53 ترامیم کا مسودہ تیار کیا گیا ہےجن کی تفصیلات سامنے آگئی ہیں۔

خبررساں ادارے جیو نیوز کی ایک رپورٹ میں ممکنہ طور پر آئین میں کی جانے میں 53 ترامیم کے حوالے سے تفصیلات شیئر کی گئی ہیں جن کے مطابق آئین کے آرٹیکل91اے میں"صاف ماحول ہر فرد کا بنیاد حق" کی لائن کا اضافہ کیا جائے گا۔

آئین کے آرٹیکل 17 اے میں لفظ سپریم کورٹ کو وفاقی آئینی عدالت سے تبدیل کیاجائے گا اور پاکستان کے خلاف کام کرنے والی جماعت کے معاملے کو سپریم کورٹ کے بجائے وفاقی آئینی عدالت کو بھیجا جائے گا۔

آئین کےآرٹیکل 48 میں ترمیم کی جائے گی جس کے تحت وزیراعظم ، کابینہ کی صدر کو بھیجی گئی ایڈوائز کو کسی عدالت یا ٹریبونل میں چیلنج نہیں کیا جاسکے گا، آئین کے آرٹیکل 68 میں ترمیم کے بعد وفاقی آئینی عدالت کے جج کے خلاف پارلیمان میں بات کرنے پر پابندی ہو گی۔

آرٹیکل 78 میں ترمیم کے تحت آئینی عدالت میں جمع رقم وفاقی حکومت کو منتقل کی جائے گی، آرٹیکل 81 میں تین ترامیم کی گئی جن میں لفظ وفاقی آئینی عدالت کو شامل کرنا ہے۔

آرٹیکل 100 میں ترمیم کے تحت اٹارنی جنرل اس شخص کو تعینات کیا جائے گا جو سپریم کورٹ یا وفاقی آئینی عدالت کا جج بننے کی اہلیت رکھتا ہو، آرٹیکل 111 میں ترمیم کے تحت ایڈوائزرز صوبائی اسمبلیوں اور کمیٹیوں کے اجلاس میں شرکت کرسکیں گے، آرٹیکل 114 میں ترمیم میں صوبائی اسمبلیوں میں وفاقی آئینی عدالت کے ججز پر بات کرنے پابندی عائد کی گئی ہے۔

آرٹیکل 165 اے میں ترمیم کے بعد وفاقی آئینی عدالت کا لفظ شامل کیا گیا، آرٹیکل 175 اے میں ترمیم کرکے آئنی عدالت کے ججز کی تعیناتی اور ہائی کورٹ کے ججز کی کارکردگی کا جائزہ شامل کیا گیا،

اسی آرٹیکل میں کرکے جوڈیشل کمیشن میں تبدیلی کی گئی اور اس کمیشن کیلئے وفاقی آئینی عدالت کے سربراہ کو چیئر پرسن مقرر کیا گیا،چیرمین کے علاوہ کمیشن کے ارکان کی 12 قرار دی گئی، کمیشن میں چیف جسٹس آف پاکستان، آئینی عدالت کے دوججز، سپریم کورٹ کے دو سینئر ترین ججز، وزیر قانون، اٹارنی جنرل، بار کونسل کا ایک نمائندہ، قومی اسمبلی اور سینیٹ سے سے حکومت اور اپوزیشن کے نمائندے شامل ہوں گے۔

آرٹیکل 175 اے میں ترمیم کرکےسپریم کورٹ کے ججز کی تعیناتی کیلئے چیف جسٹس پاکستان کو کمیشن کا چیئرپرسن مقرر کیا گیا ہے، آئینی عدالت کے ججز کی تعیناتی کیلئے اسپیکر کی نامزد کردہ 8 رکنی کمیٹی سفارش کرے گی، آئینی عدالت کے ججز کی پہلی بار تعیناتی کیلئے صدر مملک چیف جسٹس وفاقی آئینی عدالت سے مشاورت کریں گے۔

اس آرٹیکل میں ترمیم کے نتیجے میں چیف جسٹس سپریم کورٹ کی تعیناتی کے طریقہ کار میں بھی تبدیلی کردی گئی ہے ، نئے چیف جسٹس کیلئے تین سینئر ترین ججز کی کمیٹی ایک نام تجویز کرے گی، ایک کمیشن ہائی کورٹ کے ججز کی کارکردگی کا سالانہ بنیادوں پر جائزہ لے گا، کسی جج کی کارکردگی تسلی بخش نا ہونے پر کمیشن سپریم جوڈیشل کونسل کو رپورٹ بھیجے گا۔

آرٹیکل175 بی میں ترمیم کرکے چیف جسٹس وفاقی آئینی عدالت کی تعیناتی اور دائرہ کار بیان کیا گیا ہے جب کہ آرٹیکل 176 میں ترمیم کرکے چیف جسٹس پاکستان کو چیف جسٹس سپریم کورٹ قرار دیا گیا ہے، آرٹیکل 176 اے کے تحت دوہری شہریت کے مالک شخص کو وفاقی آئینی عدالت کا جج تعینات ہونے کیلئے نااہل قرار دیا گیا ہے۔

آرٹیکل 177 کے تحت سپریم کورٹ کے ججز کی اہلیت بیان کی گئی ہے، 177 اے میں چیف جسٹس وفاقی آئینی عدالت کے حلف کے حوالے سے تفصیلات بتائی گئی ہیں جبکہ آرٹیکل 178 اے میں وفاقی آئینی عدالت کے ججز کی ریٹائرمنٹ کی عمر 68 برس مقرر کی گئی ہے۔

آرٹیکل 179 کے تحت چیف جسٹس سپریم کورٹ کی ریٹائر منٹ کی عمر 65 سال مقرر کی گئی ہے، 179 اے اور 179 بی میں کہا گیا ہے کہ وفاقی آئینی عدالت کے جج کی عدم موجودگی میں سپریم کورٹ کا جج صدر مملکت عارضی طور پر تعینات ہوں گے،آرٹیکل 182 کے مطابق وفاقی آئینی عدالت اسلام آباد میں واقع ہوگی، آرٹیکل 184 کے مطابق دو یا زیادہ حکومتوں کے درمیان کسی بھی تنازعے کو وفاقی آئینی عدالت دیکھے گی، مفاد عامہ کے معاملات آئینی عدالت سنے گی اور سپریم کورٹ سے تمام مفاد عامہ کے معاملات آئینی عدالت منتقل کیاجائیں گے۔

آرٹیکل 184 اے کے مطابق ہائی کورٹس کے آئینی معاملات پر سنائے گئے فیصلوں کو وفاقی آئینی عدالت میں چیلنج کیا جاسکے گا، آرٹیکل 185 کے تحت ہائی کورٹس کی اپیلوں کو سپریم کورٹ میں سنا جائے گاجبکہ آئینی سوالات کو وفاقی آئینی عدالت سنے گی، آرٹیکل 186 کے مطابق صدارتی ریفرنسز پر آئینی عدالت سماعت کرے گی جبکہ آرٹیکل 186 کے تحت سپریم کورٹ کو کسی بھی مقدمے کو ایک ہائی کورٹ سے دوسری ہائی کورٹ بھجوانے کا اختیار دیا گیا ہے۔

آرٹیکل 187 کے مطابق وفاقی آئینی عدالت کسی بھی متعلقہ شخص کو طلب کرنے کا اختیار رکھتی ہے، آرٹیکل 188 کے تحت وفاقی آئینی عدالت و سپریم کورٹ اپنے فیصلوں پر نظرثانی کا اختیار رکھیں گی، آرٹیکل 189 کے مطابق وفاقی آئینی عدالت کا کسی بھی قانونی معاملے میں جاری کردہ حکم نامے کو سپریم کورٹ سمیت تمام عدالتوں کیلئے بائنڈنگ قرار دیا گیا ہے جبکہ سپریم کورٹ کا کوئی بھی فیصلہ وفاقی آئینی عدالت پر بائنڈنگ نہیں ہوگا۔

آرٹیکل 190 کے مطابق وفاقی آئینی عدالت کی مدد کیلئے تمام جوڈیشل اتھارٹیز کو پابند کیا گیا ہے، آرٹیکل 191 کے تحت سپریم کورٹ و فاقی آئینی عدالت کو اپنے قواعد وضوابط بنانے کا اختیار دیا گیا ہے،192 کے تحت ایکٹ آف پارلیمنٹ سے ہائی کورٹس کے ججز کی تعداد کا تعین کیا گیا ہے جبکہ آرٹیکل 1932 کے تحت ہائی کورٹس کے ججز کی تعیناتی کے طریقہ کاری میں تبدیلی کی گئی ہے۔

آرٹیکل 199 کے تحت ہائی کورٹ کو از خود آرڈر جاری کرنے سے روکا گیا ہے جبکہ آرٹیکل 200 میں کہا گیا ہے کہ جوڈیشل کمیشن کی سفارش پر صدر کسی بھی جج کو ایک ہائیکورٹ سے دوسری ہائی کورٹ منتقل کرسکتے ہیں، آرٹیکل 202 کے تحت ہائی کورٹ کو ایکٹ آف پارلیمنٹ کے تحت قواعد وضوابط بنانے کا کہا گیا ہے جبکہ آرٹیکل 204 کے تحت توہین عدالت میں وفاقی آئینی عدالت کو شامل کرنے کی تجویز دی گئی ہے، آرٹیکل 205 میں آئینی عدالت کے ججز کی تنخواہوں، آرٹیکل 206 میں آئینی عدالت کے ججز کے استعفے اور آرٹیکل 207 میں وفاقی آئینی عدالت کو شامل کیا گیا اور کہا گیا ہے کہ کوئی جج آفس آف پرافٹ نہیں لے سکتا۔

آرٹیکل 208 میں وفاقی آئینی عدالت کے افسران کی تعیناتیوں، 209 میں سپریم جوڈیشل کونسل کی تشکیل میں تبدیلیوں کا ذکر کیا گیا ہے، آرٹیکل 210 میں کہا گیا ہے کہ کسی فرد کو طلب کرنے کا کونسل کا اختیار وفاقی آئینی عدالت کے پاس ہوگا، آرٹیکل 215 کے مطابق چیف الیکشن کمشنر یا رکن الیکشن کمیشن نئی تعیناتی تک عہدے پر برقرار رہیں گے۔

آرٹیکل 215 میں شق ون اے کا اضافہ بھی کیا گیا ہےجس کے مطابق چیف الیکشن کمشنر یا کوئی رکن کمیشن قومی اسمبلی و سینیٹ سے اکثریتی قرار دوں کے ذریعے دوبارہ نئی ٹرم کیلئے تعینات ہوسکتا ہے، آرٹیکل 239 کے مطابق آئینی ترامیم کے خلاف کسی بھی عدالت کا کوئی بھی حکم نامہ موثر نہیں ہوگا، آرٹیکل243 کے مطابق مسلح افواج کے سربراہان کی تعیناتیاں، دوبارہ تعیناتیاں، مدت ملازمت میں توسیع صرف پاک فوج کے قرانین کے مطابق ہوں گی اور انہیں دو تہائی اکثریت کے بغیر تبدیل نہیں کیا جاسکے گا۔

آرٹیکل 248 میں ترمیم کے تحت صدر، گورنرز اور آئین و قانون کے تحت قائم عدالتوں سے آئینی تحفظ فراہم کیا گیا ہے، آرٹیکل 259 کے تحت صدارتی ایوارڈز میں ادویات، آرٹس، سائنس و ٹیکنالوجی جیسے شعبوں کا اضافہ کیا گیا ہے، آرٹیکل 260، شیڈول پانچ میں وفاقی آئینی عدالت کے لفظ کا اضافہ کیا گیا ہے جبکہ شیڈول تین میں حلف نامے میں وفاقی آئینی عدالت کا حلف شامل کیا گیا ہے۔

شیڈول چا ر میں کنٹونمٹ ایریاز کے الفاظ شامل کیے گئے ہیں اور لوکل ٹیکس، ٹول، فیس ، سیس اور دیگر چارجز کو بھی شامل کیا گیا ہے۔
 

ocean5

Senator (1k+ posts)
14shehhbabbamsdmenktjkjfkf.png

حکومت کی جانب سے آئین میں 53 ترامیم کا مسودہ تیار کیا گیا ہےجن کی تفصیلات سامنے آگئی ہیں۔

خبررساں ادارے جیو نیوز کی ایک رپورٹ میں ممکنہ طور پر آئین میں کی جانے میں 53 ترامیم کے حوالے سے تفصیلات شیئر کی گئی ہیں جن کے مطابق آئین کے آرٹیکل91اے میں"صاف ماحول ہر فرد کا بنیاد حق" کی لائن کا اضافہ کیا جائے گا۔

آئین کے آرٹیکل 17 اے میں لفظ سپریم کورٹ کو وفاقی آئینی عدالت سے تبدیل کیاجائے گا اور پاکستان کے خلاف کام کرنے والی جماعت کے معاملے کو سپریم کورٹ کے بجائے وفاقی آئینی عدالت کو بھیجا جائے گا۔

آئین کےآرٹیکل 48 میں ترمیم کی جائے گی جس کے تحت وزیراعظم ، کابینہ کی صدر کو بھیجی گئی ایڈوائز کو کسی عدالت یا ٹریبونل میں چیلنج نہیں کیا جاسکے گا، آئین کے آرٹیکل 68 میں ترمیم کے بعد وفاقی آئینی عدالت کے جج کے خلاف پارلیمان میں بات کرنے پر پابندی ہو گی۔

آرٹیکل 78 میں ترمیم کے تحت آئینی عدالت میں جمع رقم وفاقی حکومت کو منتقل کی جائے گی، آرٹیکل 81 میں تین ترامیم کی گئی جن میں لفظ وفاقی آئینی عدالت کو شامل کرنا ہے۔

آرٹیکل 100 میں ترمیم کے تحت اٹارنی جنرل اس شخص کو تعینات کیا جائے گا جو سپریم کورٹ یا وفاقی آئینی عدالت کا جج بننے کی اہلیت رکھتا ہو، آرٹیکل 111 میں ترمیم کے تحت ایڈوائزرز صوبائی اسمبلیوں اور کمیٹیوں کے اجلاس میں شرکت کرسکیں گے، آرٹیکل 114 میں ترمیم میں صوبائی اسمبلیوں میں وفاقی آئینی عدالت کے ججز پر بات کرنے پابندی عائد کی گئی ہے۔

آرٹیکل 165 اے میں ترمیم کے بعد وفاقی آئینی عدالت کا لفظ شامل کیا گیا، آرٹیکل 175 اے میں ترمیم کرکے آئنی عدالت کے ججز کی تعیناتی اور ہائی کورٹ کے ججز کی کارکردگی کا جائزہ شامل کیا گیا،

اسی آرٹیکل میں کرکے جوڈیشل کمیشن میں تبدیلی کی گئی اور اس کمیشن کیلئے وفاقی آئینی عدالت کے سربراہ کو چیئر پرسن مقرر کیا گیا،چیرمین کے علاوہ کمیشن کے ارکان کی 12 قرار دی گئی، کمیشن میں چیف جسٹس آف پاکستان، آئینی عدالت کے دوججز، سپریم کورٹ کے دو سینئر ترین ججز، وزیر قانون، اٹارنی جنرل، بار کونسل کا ایک نمائندہ، قومی اسمبلی اور سینیٹ سے سے حکومت اور اپوزیشن کے نمائندے شامل ہوں گے۔

آرٹیکل 175 اے میں ترمیم کرکےسپریم کورٹ کے ججز کی تعیناتی کیلئے چیف جسٹس پاکستان کو کمیشن کا چیئرپرسن مقرر کیا گیا ہے، آئینی عدالت کے ججز کی تعیناتی کیلئے اسپیکر کی نامزد کردہ 8 رکنی کمیٹی سفارش کرے گی، آئینی عدالت کے ججز کی پہلی بار تعیناتی کیلئے صدر مملک چیف جسٹس وفاقی آئینی عدالت سے مشاورت کریں گے۔

اس آرٹیکل میں ترمیم کے نتیجے میں چیف جسٹس سپریم کورٹ کی تعیناتی کے طریقہ کار میں بھی تبدیلی کردی گئی ہے ، نئے چیف جسٹس کیلئے تین سینئر ترین ججز کی کمیٹی ایک نام تجویز کرے گی، ایک کمیشن ہائی کورٹ کے ججز کی کارکردگی کا سالانہ بنیادوں پر جائزہ لے گا، کسی جج کی کارکردگی تسلی بخش نا ہونے پر کمیشن سپریم جوڈیشل کونسل کو رپورٹ بھیجے گا۔

آرٹیکل175 بی میں ترمیم کرکے چیف جسٹس وفاقی آئینی عدالت کی تعیناتی اور دائرہ کار بیان کیا گیا ہے جب کہ آرٹیکل 176 میں ترمیم کرکے چیف جسٹس پاکستان کو چیف جسٹس سپریم کورٹ قرار دیا گیا ہے، آرٹیکل 176 اے کے تحت دوہری شہریت کے مالک شخص کو وفاقی آئینی عدالت کا جج تعینات ہونے کیلئے نااہل قرار دیا گیا ہے۔

آرٹیکل 177 کے تحت سپریم کورٹ کے ججز کی اہلیت بیان کی گئی ہے، 177 اے میں چیف جسٹس وفاقی آئینی عدالت کے حلف کے حوالے سے تفصیلات بتائی گئی ہیں جبکہ آرٹیکل 178 اے میں وفاقی آئینی عدالت کے ججز کی ریٹائرمنٹ کی عمر 68 برس مقرر کی گئی ہے۔

آرٹیکل 179 کے تحت چیف جسٹس سپریم کورٹ کی ریٹائر منٹ کی عمر 65 سال مقرر کی گئی ہے، 179 اے اور 179 بی میں کہا گیا ہے کہ وفاقی آئینی عدالت کے جج کی عدم موجودگی میں سپریم کورٹ کا جج صدر مملکت عارضی طور پر تعینات ہوں گے،آرٹیکل 182 کے مطابق وفاقی آئینی عدالت اسلام آباد میں واقع ہوگی، آرٹیکل 184 کے مطابق دو یا زیادہ حکومتوں کے درمیان کسی بھی تنازعے کو وفاقی آئینی عدالت دیکھے گی، مفاد عامہ کے معاملات آئینی عدالت سنے گی اور سپریم کورٹ سے تمام مفاد عامہ کے معاملات آئینی عدالت منتقل کیاجائیں گے۔

آرٹیکل 184 اے کے مطابق ہائی کورٹس کے آئینی معاملات پر سنائے گئے فیصلوں کو وفاقی آئینی عدالت میں چیلنج کیا جاسکے گا، آرٹیکل 185 کے تحت ہائی کورٹس کی اپیلوں کو سپریم کورٹ میں سنا جائے گاجبکہ آئینی سوالات کو وفاقی آئینی عدالت سنے گی، آرٹیکل 186 کے مطابق صدارتی ریفرنسز پر آئینی عدالت سماعت کرے گی جبکہ آرٹیکل 186 کے تحت سپریم کورٹ کو کسی بھی مقدمے کو ایک ہائی کورٹ سے دوسری ہائی کورٹ بھجوانے کا اختیار دیا گیا ہے۔

آرٹیکل 187 کے مطابق وفاقی آئینی عدالت کسی بھی متعلقہ شخص کو طلب کرنے کا اختیار رکھتی ہے، آرٹیکل 188 کے تحت وفاقی آئینی عدالت و سپریم کورٹ اپنے فیصلوں پر نظرثانی کا اختیار رکھیں گی، آرٹیکل 189 کے مطابق وفاقی آئینی عدالت کا کسی بھی قانونی معاملے میں جاری کردہ حکم نامے کو سپریم کورٹ سمیت تمام عدالتوں کیلئے بائنڈنگ قرار دیا گیا ہے جبکہ سپریم کورٹ کا کوئی بھی فیصلہ وفاقی آئینی عدالت پر بائنڈنگ نہیں ہوگا۔

آرٹیکل 190 کے مطابق وفاقی آئینی عدالت کی مدد کیلئے تمام جوڈیشل اتھارٹیز کو پابند کیا گیا ہے، آرٹیکل 191 کے تحت سپریم کورٹ و فاقی آئینی عدالت کو اپنے قواعد وضوابط بنانے کا اختیار دیا گیا ہے،192 کے تحت ایکٹ آف پارلیمنٹ سے ہائی کورٹس کے ججز کی تعداد کا تعین کیا گیا ہے جبکہ آرٹیکل 1932 کے تحت ہائی کورٹس کے ججز کی تعیناتی کے طریقہ کاری میں تبدیلی کی گئی ہے۔

آرٹیکل 199 کے تحت ہائی کورٹ کو از خود آرڈر جاری کرنے سے روکا گیا ہے جبکہ آرٹیکل 200 میں کہا گیا ہے کہ جوڈیشل کمیشن کی سفارش پر صدر کسی بھی جج کو ایک ہائیکورٹ سے دوسری ہائی کورٹ منتقل کرسکتے ہیں، آرٹیکل 202 کے تحت ہائی کورٹ کو ایکٹ آف پارلیمنٹ کے تحت قواعد وضوابط بنانے کا کہا گیا ہے جبکہ آرٹیکل 204 کے تحت توہین عدالت میں وفاقی آئینی عدالت کو شامل کرنے کی تجویز دی گئی ہے، آرٹیکل 205 میں آئینی عدالت کے ججز کی تنخواہوں، آرٹیکل 206 میں آئینی عدالت کے ججز کے استعفے اور آرٹیکل 207 میں وفاقی آئینی عدالت کو شامل کیا گیا اور کہا گیا ہے کہ کوئی جج آفس آف پرافٹ نہیں لے سکتا۔

آرٹیکل 208 میں وفاقی آئینی عدالت کے افسران کی تعیناتیوں، 209 میں سپریم جوڈیشل کونسل کی تشکیل میں تبدیلیوں کا ذکر کیا گیا ہے، آرٹیکل 210 میں کہا گیا ہے کہ کسی فرد کو طلب کرنے کا کونسل کا اختیار وفاقی آئینی عدالت کے پاس ہوگا، آرٹیکل 215 کے مطابق چیف الیکشن کمشنر یا رکن الیکشن کمیشن نئی تعیناتی تک عہدے پر برقرار رہیں گے۔

آرٹیکل 215 میں شق ون اے کا اضافہ بھی کیا گیا ہےجس کے مطابق چیف الیکشن کمشنر یا کوئی رکن کمیشن قومی اسمبلی و سینیٹ سے اکثریتی قرار دوں کے ذریعے دوبارہ نئی ٹرم کیلئے تعینات ہوسکتا ہے، آرٹیکل 239 کے مطابق آئینی ترامیم کے خلاف کسی بھی عدالت کا کوئی بھی حکم نامہ موثر نہیں ہوگا، آرٹیکل243 کے مطابق مسلح افواج کے سربراہان کی تعیناتیاں، دوبارہ تعیناتیاں، مدت ملازمت میں توسیع صرف پاک فوج کے قرانین کے مطابق ہوں گی اور انہیں دو تہائی اکثریت کے بغیر تبدیل نہیں کیا جاسکے گا۔

آرٹیکل 248 میں ترمیم کے تحت صدر، گورنرز اور آئین و قانون کے تحت قائم عدالتوں سے آئینی تحفظ فراہم کیا گیا ہے، آرٹیکل 259 کے تحت صدارتی ایوارڈز میں ادویات، آرٹس، سائنس و ٹیکنالوجی جیسے شعبوں کا اضافہ کیا گیا ہے، آرٹیکل 260، شیڈول پانچ میں وفاقی آئینی عدالت کے لفظ کا اضافہ کیا گیا ہے جبکہ شیڈول تین میں حلف نامے میں وفاقی آئینی عدالت کا حلف شامل کیا گیا ہے۔

شیڈول چا ر میں کنٹونمٹ ایریاز کے الفاظ شامل کیے گئے ہیں اور لوکل ٹیکس، ٹول، فیس ، سیس اور دیگر چارجز کو بھی شامل کیا گیا ہے۔
supreme court ko chud ker naee wafakee adalat banaee jai gee