http://www.masoodanwar.com
[email protected]
لکھنا تو مجھے مصر میں رنگین انقلاب پر تھا کہ تمرد کے پس پشت کون لوگ موجود تھے اور کس طرح انہوں نے اس تحریک کو کامیابی سے ہمکنار کیا۔ مگر شام کی صورتحال میں ہونے والی تبدیلی کی بناء پر آج کا کالم شام کے معاملات پر۔ انشاء اللہ آئندہ کالم مصر میں عالمگیر کھلاڑیوں کے کردار پر۔
دمشق کے نواح میں کیمیائی حملے کے بعد شام کی سرزمین پر حملے کے لئے طبل جنگ بجادیا گیا ہے ۔ بشار الاسد کی جانب سے غیر متوقع مزاحمت کے بعد شام میں کھیل مقررہ وقت سے بڑھ کر اضافی وقت تک چلا گیا تھا، ایسا محسوس ہوتا ہے کہ عالمی سازش کاروں نے اب شام میں بساط لپیٹنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ اسی لئے انہوں نے اپنی انٹری کے لئے کیمیائی حملے کا ترپ کارڈ کھیلا اوروہ اب تب میں دمشق پر حملہ آور ہوئے جاتے ہیں۔
دمشق پر حملہ آور تو وہ پہلے سے ہی ہیں۔ پہلے وہ یہ حملہ باغیوں کی صورت میں کررہے تھے۔ شام میں موجود باغیوں کی تعداد کو دیکھا جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ اس میں شامی خود تو نہ ہونے کے برابر ہیں۔مگر پوری دنیا سے جنگجووٴں کو مختلف نعروں اور جھنڈوں کے زیر تلے لاکر وہاں جمع کردیا گیا۔ افغانستان کی طرح ، پہلے دن سے ہی کوشش کی گئی کہ شام میں جنگجو کسی ایک جھنڈے تلے متحد نہ ہوں تاکہ بعد میں وہ مشکل نہ پیدا کرسکیں اور کام نکلنے کے بعد ان کی تطہیر میں آسانی ہو۔ان جنگجووٴں کو ہر طرح کی معاونت پڑوسی ریاستوں ترکی، اردن، مصر ، لبنان اور اسرائیل سے فراہم کی گئی۔ مالی معاونت براہ راست ناٹو نے بذریعہ ترکی اور اردن بھی فراہم کی اور بالواسطہ طور پر عرب ممالک کا راستہ بھی استعمال کیا۔ فوجی معاونت کے لئے برطانوی، فرانسیسی اور امریکی فوجی اہلکار مسلسل ترکی میں موجود رہے اور بہ وقت ضرورت شام میں باغیوں کے زیر قبضہ علاقوں کا بھی دورہ کرتے رہے۔ انہیں ناٹو کے رکن ممالک کی مواصلاتی معاونت و مدد بھی حاصل رہی۔ تاہم اب ان عالمگیر سازش کاروں نے ون ورلڈ گورنمنٹ کی فوج ناٹو کو براہ راست شام میں اتارنے کا فیصلہ کیا ہے ۔
اندیشوں کے عین مطابق ، اس کھیل میں بھی انہیں اقوام متحدہ کی آشیر باد حاصل ہوگی۔ سارے ہمنواوٴں نے مل کر ایک ہی راگ الاپنا شروع کردیا ہے اور وہ ہے شام پر حملہ۔ جرمنی، فرانس، برطانیہ، ترکی اور امریکا کے ساتھ ساتھ عرب ممالک کا بین کرنا تو دیکھیں۔ان سب کا ایک ہی کہنا ہے کہ اگر اقوام متحدہ نے اس کارروائی کی اجازت نہ دی تو وہ خود ہی اس کارروائی کا حق رکھتے ہیں۔ ان ممالک کو شام پر حملہ کرنے سے کون روک سکتا ہے مگر اقوام متحدہ کی چھتری حاصل کرنے سے انہیں ایک تو نام نہاد قانونی جواز میسر آجاتا ہے اور دوسری جانب اس کے اخراجات کے لئے رکن ممالک کے عوام کو بے وقوف بنانا آسان ہوجاتا ہے۔
اب تک دیکھنے میں ایسا تاثر دیا گیاتھا کہ روس امریکا اور اتحادیوں کے برخلاف بشار الاسد حکومت کی حمایت جاری رکھے گا۔ بشارالاسد کا خاندان ایک روسی جنگی جہاز پر ہی پناہ حاصل کئے ہوئے ہے۔مگر جیسے ہی عالمی سازش کاروں نے شام پر حملے کا اشارہ کیا ہے، روس نے بھی شامی حکومت کو ہری جھنڈی دکھادی ہے اور صاف صاف کہہ دیا ہے کہ وہ شام پر حملے کی صورت میں کسی تنازعہ میں نہیں پڑے گا۔ یعنی روس نے پوری دنیا کو بتادیا ہے کہ شام میں بھی اس کا وہی کردار ہوگا جو لیبیا اور عراق وغیرہ میں رہا ہے۔ایسا ہی کردار چین کا بھی ہوگا۔
سوال یہ نہیں ہے کہ شام پر حملہ ہوگا یا نہیں۔ یہ تو ہونا ہی ہے۔ بس اتنا ہوا کہ میچ دیر سے ختم ہورہا ہے کیوں کہ مخالف ٹیم نے توقع سے زیادہ مزاحمت کا مظاہرہ کیا۔ سوال یہ ہے کہ شام پر حملے کے بعد کیا ہوگا؟ اس کے بارے میں ، میں پہلے سے لکھ چکا ہوں کہ عالمی سازش کاروں کے ایجنٹ اس کے واضح اشارے دے چکے ہیں کہ وہ شام کو کئی خود مختار ریاستوں میں توڑنے کا تہیہ کرچکے ہیں اور وہ ایسا ہی کریں گے۔ شام پر حملے کی صورت میں ایران نے وہی بڑھک ماری ہے جو صدام حسین نے عراق پر حملے کی صورت میں ماری تھی یعنی اسرائیل پر حملہ۔ تو وہ اس کا انتظام پہلے سے ہی کرچکے ہیں۔ حماس سے اسرائیل پر حملہ کروا کر انہوں نے یہی تو کیا تھا جس کی نشاندہی میں اپنے کالم ’ اسرائیل کا غزہ پر حملہ‘ میں کرچکا ہوں۔ یہ کالم 16 نومبر 2012 کو شائع ہوا تھا اور میری ویب سائیٹ پر ابھی بھی موجود ہے۔
اس کالم میں ، میں نے واضح کیا تھا کہ اس وقت حماس سے حملہ کروانے کا مقصد اسرائیل میں میزائیل سے دفاعی شیلڈ کی تنصیب ہے جو وہ آہنی گنبدوں کی صورت میں کررہے ہیں۔ دوسری جانب وہ حماس کا اسٹاک ختم کرنا چاہتے ہیں تاکہ شام پر حملہ کی صورت میں اس کی حالت ایک چلے ہوئے کارتوس کی سی ہو۔ سب سے پہلی حقیقت تو یہی ہے کہ چاہے صدام رہے ہوں یا موجودہ ایرانی قیادت، ان میں سے کسی میں بھی ہمت نہیں ہے کہ دیئے ہوئے اسکرپٹ سے ایک نقطہ بھی ادھر ادھر ہوں۔ صدام شکست کھا گیا اور مرگیا مگر اسرائیل پر چند میزائلوں کے نمائشی حملوں کے سوا کچھ بھی نہ کرسکا۔ جان لیجئے کہ صرف صدام جیسے ہی لوگ ان کے ایجنٹ نہیں ہوتے بلکہ انتہائی نچلی سطح تک ان کے ایجنٹوں کی فوج ظفر موج موجود ہوتی ہے جو دیئے گئے احکاما ت پر انتہائی تابعداری سے عمل کرتی ہے۔
پاکستان کا ہی حال دیکھ لیجئے، ڈاکٹر عافیہ کو امریکا کے حوالے کس نے کیا تھا۔ ڈی ایس پی کی سطح کے ایک ننھے سے پولیس افسر نے۔ پورے پاکستان میں القاعدہ کی تطہیر ہی ان سازش کاروں نے پولیس کے نچلی سطح کے افسران کے ذریعے کی۔ اسی طرح ایرانی قیادت اگر چاہے بھی تو اسرائیل پر حملہ آور نہیں ہوسکتی سوائے میزائیلوں کے چند حملوں کے۔
شام پر حملے کی صورت میں پھر کئی جہتی مقاصد حاصل ہوں گے۔ سب سے پہلے تو شام کے حصے بخرے ہی ہیں۔ پھر اس میں ایران ملوث ہوگا اور جس کا نتیجہ ایران پر حملہ ہے جو کھیل کا اگلا مرحلہ ہے۔ عالمی سازش کاروں کا کھیل فراہم کئے گئے اسکرپٹ کے عین مطابق آگے بڑھ رہا ہے۔ ایک مرتبہ سے پھر جان لیجئے کہ اس کا اصل مقصد نہ تو ایران و شام کے وسائل پر قبضہ ہے اور نہ ہی یہ عالمی طاقتوں کی کوئی جنگ ہے۔ اس کا ایک ہی مقصد ہے اور وہ ہے اس دنیا پر ایک عالمگیر شیطانی حکومت ون ورلڈ گورنمنٹ کا قیام۔
اس دنیا پر ایک عالمگیر شیطانی حکومت کے قیام کی سازشوں سے خود بھی ہشیار رہئے اور اپنے آس پاس والوں کو بھی خبردار رکھئے۔ ہشیار باش۔
[email protected]
لکھنا تو مجھے مصر میں رنگین انقلاب پر تھا کہ تمرد کے پس پشت کون لوگ موجود تھے اور کس طرح انہوں نے اس تحریک کو کامیابی سے ہمکنار کیا۔ مگر شام کی صورتحال میں ہونے والی تبدیلی کی بناء پر آج کا کالم شام کے معاملات پر۔ انشاء اللہ آئندہ کالم مصر میں عالمگیر کھلاڑیوں کے کردار پر۔
دمشق کے نواح میں کیمیائی حملے کے بعد شام کی سرزمین پر حملے کے لئے طبل جنگ بجادیا گیا ہے ۔ بشار الاسد کی جانب سے غیر متوقع مزاحمت کے بعد شام میں کھیل مقررہ وقت سے بڑھ کر اضافی وقت تک چلا گیا تھا، ایسا محسوس ہوتا ہے کہ عالمی سازش کاروں نے اب شام میں بساط لپیٹنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ اسی لئے انہوں نے اپنی انٹری کے لئے کیمیائی حملے کا ترپ کارڈ کھیلا اوروہ اب تب میں دمشق پر حملہ آور ہوئے جاتے ہیں۔
دمشق پر حملہ آور تو وہ پہلے سے ہی ہیں۔ پہلے وہ یہ حملہ باغیوں کی صورت میں کررہے تھے۔ شام میں موجود باغیوں کی تعداد کو دیکھا جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ اس میں شامی خود تو نہ ہونے کے برابر ہیں۔مگر پوری دنیا سے جنگجووٴں کو مختلف نعروں اور جھنڈوں کے زیر تلے لاکر وہاں جمع کردیا گیا۔ افغانستان کی طرح ، پہلے دن سے ہی کوشش کی گئی کہ شام میں جنگجو کسی ایک جھنڈے تلے متحد نہ ہوں تاکہ بعد میں وہ مشکل نہ پیدا کرسکیں اور کام نکلنے کے بعد ان کی تطہیر میں آسانی ہو۔ان جنگجووٴں کو ہر طرح کی معاونت پڑوسی ریاستوں ترکی، اردن، مصر ، لبنان اور اسرائیل سے فراہم کی گئی۔ مالی معاونت براہ راست ناٹو نے بذریعہ ترکی اور اردن بھی فراہم کی اور بالواسطہ طور پر عرب ممالک کا راستہ بھی استعمال کیا۔ فوجی معاونت کے لئے برطانوی، فرانسیسی اور امریکی فوجی اہلکار مسلسل ترکی میں موجود رہے اور بہ وقت ضرورت شام میں باغیوں کے زیر قبضہ علاقوں کا بھی دورہ کرتے رہے۔ انہیں ناٹو کے رکن ممالک کی مواصلاتی معاونت و مدد بھی حاصل رہی۔ تاہم اب ان عالمگیر سازش کاروں نے ون ورلڈ گورنمنٹ کی فوج ناٹو کو براہ راست شام میں اتارنے کا فیصلہ کیا ہے ۔
اندیشوں کے عین مطابق ، اس کھیل میں بھی انہیں اقوام متحدہ کی آشیر باد حاصل ہوگی۔ سارے ہمنواوٴں نے مل کر ایک ہی راگ الاپنا شروع کردیا ہے اور وہ ہے شام پر حملہ۔ جرمنی، فرانس، برطانیہ، ترکی اور امریکا کے ساتھ ساتھ عرب ممالک کا بین کرنا تو دیکھیں۔ان سب کا ایک ہی کہنا ہے کہ اگر اقوام متحدہ نے اس کارروائی کی اجازت نہ دی تو وہ خود ہی اس کارروائی کا حق رکھتے ہیں۔ ان ممالک کو شام پر حملہ کرنے سے کون روک سکتا ہے مگر اقوام متحدہ کی چھتری حاصل کرنے سے انہیں ایک تو نام نہاد قانونی جواز میسر آجاتا ہے اور دوسری جانب اس کے اخراجات کے لئے رکن ممالک کے عوام کو بے وقوف بنانا آسان ہوجاتا ہے۔
اب تک دیکھنے میں ایسا تاثر دیا گیاتھا کہ روس امریکا اور اتحادیوں کے برخلاف بشار الاسد حکومت کی حمایت جاری رکھے گا۔ بشارالاسد کا خاندان ایک روسی جنگی جہاز پر ہی پناہ حاصل کئے ہوئے ہے۔مگر جیسے ہی عالمی سازش کاروں نے شام پر حملے کا اشارہ کیا ہے، روس نے بھی شامی حکومت کو ہری جھنڈی دکھادی ہے اور صاف صاف کہہ دیا ہے کہ وہ شام پر حملے کی صورت میں کسی تنازعہ میں نہیں پڑے گا۔ یعنی روس نے پوری دنیا کو بتادیا ہے کہ شام میں بھی اس کا وہی کردار ہوگا جو لیبیا اور عراق وغیرہ میں رہا ہے۔ایسا ہی کردار چین کا بھی ہوگا۔
سوال یہ نہیں ہے کہ شام پر حملہ ہوگا یا نہیں۔ یہ تو ہونا ہی ہے۔ بس اتنا ہوا کہ میچ دیر سے ختم ہورہا ہے کیوں کہ مخالف ٹیم نے توقع سے زیادہ مزاحمت کا مظاہرہ کیا۔ سوال یہ ہے کہ شام پر حملے کے بعد کیا ہوگا؟ اس کے بارے میں ، میں پہلے سے لکھ چکا ہوں کہ عالمی سازش کاروں کے ایجنٹ اس کے واضح اشارے دے چکے ہیں کہ وہ شام کو کئی خود مختار ریاستوں میں توڑنے کا تہیہ کرچکے ہیں اور وہ ایسا ہی کریں گے۔ شام پر حملے کی صورت میں ایران نے وہی بڑھک ماری ہے جو صدام حسین نے عراق پر حملے کی صورت میں ماری تھی یعنی اسرائیل پر حملہ۔ تو وہ اس کا انتظام پہلے سے ہی کرچکے ہیں۔ حماس سے اسرائیل پر حملہ کروا کر انہوں نے یہی تو کیا تھا جس کی نشاندہی میں اپنے کالم ’ اسرائیل کا غزہ پر حملہ‘ میں کرچکا ہوں۔ یہ کالم 16 نومبر 2012 کو شائع ہوا تھا اور میری ویب سائیٹ پر ابھی بھی موجود ہے۔
اس کالم میں ، میں نے واضح کیا تھا کہ اس وقت حماس سے حملہ کروانے کا مقصد اسرائیل میں میزائیل سے دفاعی شیلڈ کی تنصیب ہے جو وہ آہنی گنبدوں کی صورت میں کررہے ہیں۔ دوسری جانب وہ حماس کا اسٹاک ختم کرنا چاہتے ہیں تاکہ شام پر حملہ کی صورت میں اس کی حالت ایک چلے ہوئے کارتوس کی سی ہو۔ سب سے پہلی حقیقت تو یہی ہے کہ چاہے صدام رہے ہوں یا موجودہ ایرانی قیادت، ان میں سے کسی میں بھی ہمت نہیں ہے کہ دیئے ہوئے اسکرپٹ سے ایک نقطہ بھی ادھر ادھر ہوں۔ صدام شکست کھا گیا اور مرگیا مگر اسرائیل پر چند میزائلوں کے نمائشی حملوں کے سوا کچھ بھی نہ کرسکا۔ جان لیجئے کہ صرف صدام جیسے ہی لوگ ان کے ایجنٹ نہیں ہوتے بلکہ انتہائی نچلی سطح تک ان کے ایجنٹوں کی فوج ظفر موج موجود ہوتی ہے جو دیئے گئے احکاما ت پر انتہائی تابعداری سے عمل کرتی ہے۔
پاکستان کا ہی حال دیکھ لیجئے، ڈاکٹر عافیہ کو امریکا کے حوالے کس نے کیا تھا۔ ڈی ایس پی کی سطح کے ایک ننھے سے پولیس افسر نے۔ پورے پاکستان میں القاعدہ کی تطہیر ہی ان سازش کاروں نے پولیس کے نچلی سطح کے افسران کے ذریعے کی۔ اسی طرح ایرانی قیادت اگر چاہے بھی تو اسرائیل پر حملہ آور نہیں ہوسکتی سوائے میزائیلوں کے چند حملوں کے۔
شام پر حملے کی صورت میں پھر کئی جہتی مقاصد حاصل ہوں گے۔ سب سے پہلے تو شام کے حصے بخرے ہی ہیں۔ پھر اس میں ایران ملوث ہوگا اور جس کا نتیجہ ایران پر حملہ ہے جو کھیل کا اگلا مرحلہ ہے۔ عالمی سازش کاروں کا کھیل فراہم کئے گئے اسکرپٹ کے عین مطابق آگے بڑھ رہا ہے۔ ایک مرتبہ سے پھر جان لیجئے کہ اس کا اصل مقصد نہ تو ایران و شام کے وسائل پر قبضہ ہے اور نہ ہی یہ عالمی طاقتوں کی کوئی جنگ ہے۔ اس کا ایک ہی مقصد ہے اور وہ ہے اس دنیا پر ایک عالمگیر شیطانی حکومت ون ورلڈ گورنمنٹ کا قیام۔
اس دنیا پر ایک عالمگیر شیطانی حکومت کے قیام کی سازشوں سے خود بھی ہشیار رہئے اور اپنے آس پاس والوں کو بھی خبردار رکھئے۔ ہشیار باش۔