
سپریم کورٹ کے ججز جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس منیب اختر، جسٹس اطہر من اللہ، اور جسٹس عائشہ ملک کا چیف جسٹس آف پاکستان کو ایک مشترکہ خط ، جوڈیشل کمیشن آف پاکستان (جے سی پی) کے اجلاس کو مؤخر کرنے کی سفارش، خط میں ججز نے بنچ کی تشکیل، 26ویں آئینی ترمیم کیس، اور ججز کی منتقلی جیسے اہم امور پر سوالات اٹھا دیے۔
https://twitter.com/x/status/1887849380733927933
خط میں ججز نے بنچ کی تشکیل کے عمل پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس میں شفافیت اور معروضیت کی کمی ہے، جو عدلیہ کی ساکھ پر منفی اثر ڈال سکتی ہے۔ انہوں نے 26ویں آئینی ترمیم کیس کی سماعت کے لیے بنچ کی تشکیل پر بھی سوالات اٹھائے ہیں، اور اس بات پر زور دیا ہے کہ اس معاملے کی حساسیت کے پیش نظر بنچ کی تشکیل میں تمام متعلقہ ججز کی مشاورت ضروری ہے، 26ویں ترمیم پر فل کورٹ بنانے کا مطالبہ بھی کر دیا۔
https://twitter.com/x/status/1887851778533953825
مزید برآں، ججز نے ججز کی منتقلی کے عمل پر بھی تحفظات کا اظہار کیا ہے، اور اس بات کی نشاندہی کی ہے کہ منتقلی کے فیصلوں میں شفافیت اور معروضیت کو یقینی بنایا جانا چاہیے تاکہ عدلیہ کی آزادی اور خودمختاری برقرار رہے۔
https://twitter.com/x/status/1887852587178742101
خط میں ججز نے جوڈیشل کمیشن کے اجلاس کو مؤخر کرنے کی سفارش کی ہے تاکہ ان اہم امور پر تفصیلی غور و خوض کیا جا سکے اور عدلیہ کے اندرونی معاملات میں شفافیت اور معروضیت کو یقینی بنایا جا سکے۔
خط میں نشاندہی کی گئی ہے کہ آئینی ترمیم کا کیس ایک آئینی بینچ سن رہا ہے، جو کہ خود اسی ترمیم کے نتیجے میں تشکیل دیا گیا ہے۔ ججز نے اس معاملے پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے مؤقف اختیار کیا ہے کہ مقدمے کو فوری طور پر فل کورٹ کے سامنے مقرر کیا جائے تاکہ عدالتی کارروائی پر عوام کا اعتماد برقرار رہے۔
خط میں لکھا گیا ہے کہ اس سے قبل بھی ججز نے آئینی ترمیم کا کیس فل کورٹ میں مقرر کرنے کا مطالبہ کیا تھا، مگر یہ مطالبہ تسلیم نہیں کیا گیا۔ مزید برآں، آئینی بینچ نے بھی یہ مقدمہ طویل تاخیر کے بعد سماعت کے لیے مقرر کیا، جس سے عدالتی عمل کی ساکھ پر سوالات اٹھے۔
خط میں اس بات پر بھی اعتراض کیا گیا ہے کہ آئینی ترمیم کیس کی آئندہ سماعت سے پہلے ہی نئے ججز کی تعیناتی کے لیے جوڈیشل کمیشن کا اجلاس جلد بازی میں بلا لیا گیا۔ ججز نے نشاندہی کی کہ آئینی ترمیم کا کیس ابھی زیر سماعت ہے، اور اگر ترمیم کے تحت تعینات ہونے والے ججز اس بینچ کا حصہ بن جاتے ہیں تو اس سے عدالتی غیر جانبداری پر سنگین سوالات کھڑے ہوں گے۔
خط میں کہا گیا ہے کہ اگر آئینی بینچ فل کورٹ کی درخواستیں منظور کر بھی لیتا ہے تو پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس فل کورٹ کی تشکیل کون کرے گا؟ کیا اس میں وہی نئے ججز شامل ہوں گے جو آئینی ترمیم کے تحت تعینات کیے جا رہے ہیں؟ اور اگر یہ نئے ججز شامل نہ ہوئے تو پھر یہ اعتراض سامنے آئے گا کہ تشکیل کردہ بینچ درحقیقت فل کورٹ نہیں ہے۔مزید برآں، اگر موجودہ آئینی بینچ ہی کیس کی سماعت جاری رکھتا ہے تو عوامی اعتماد پہلے ہی اس پر متزلزل ہے۔ ججز نے متنبہ کیا ہے کہ موجودہ حالات میں عوام کو "کورٹ پیکنگ" کا تاثر مل رہا ہے، جو عدلیہ کی ساکھ اور غیر جانبداری کے لیے نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے۔
خط میں تجویز دی گئی ہے کہ فل کورٹ کی تشکیل اور آئینی ترمیم کیس کے فیصلے سے پہلے نئے ججز کی تعیناتی کا عمل روک دیا جائے۔ ججز نے زور دیا کہ عدالت کی غیر جانبداری اور شفافیت کو یقینی بنانے کے لیے ضروری ہے کہ جوڈیشل کمیشن کا اجلاس مؤخر کیا جائے اور آئینی ترمیم کیس کو فل کورٹ کے سامنے رکھا جائے تاکہ عوام کا اعتماد بحال رہے۔چار ججز نے حالیہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں ججز کے تبادلوں پر اپنے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ آئین کے مطابق ججز کا تبادلہ عارضی طور پر ہو سکتا ہے، مگر یہ مستقل نہیں ہو سکتا۔ ججز کا تبادلہ صرف مقررہ مدت کے لیے ممکن ہے، غیر معینہ مدت کے لیے نہیں۔ خط میں مزید وضاحت دی گئی ہے کہ مدت مقرر نہ ہونے کی صورت میں تبادلے کا حکم کسی بھی وقت واپس لیا جا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ، تبادلہ اسی صورت میں ممکن ہے جب ہائی کورٹ میں ججز کی تعداد پوری ہو، اور تبادلے کے بعد ججز کو آئینی طور پر حلف اٹھانا ضروری ہے۔ یہ حلف صرف اسی ہائی کورٹ کے لیے ہو سکتا ہے جس کے لیے ججز کو تعینات کیا گیا ہو۔ خط میں اس بات کی بھی نشاندہی کی گئی ہے کہ چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے آئینی نکات کو نظر انداز کرتے ہوئے از خود سنیارٹی کا تعین کر لیا، جس کے نتیجے میں لاہور ہائی کورٹ کے سنیارٹی میں پندرہے نمبر پر موجود جج کو اسلام آباد ہائی کورٹ کا سینئر ترین جج بنا دیا گیا
https://twitter.com/x/status/1887861595642167610
4 ججز نے اپنے خط کے پیراگراف نمبر 6 میں چیف جسٹس یحییٰ آفریدی پر سنگین سوالات اٹھاتے ہوئے کہا کہ "ہم یہ سوال کرتے ہیں کہ عدالت کو ایسی صورت حال میں کیوں ڈالا جا رہا ہے؟ کس کے ایجنڈے اور مفادات کی تکمیل کے لیے عدالت کو اس طرح بے توقیری اور شاید (ہمیں افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے) تمسخر کا سامنا کرنے پر مجبور کیا جا رہا ہے؟ عدالت کو اس قابلِ اجتناب مخمصے میں کیوں ڈالا جا رہا ہے؟ کیا یہ ضروری نہیں کہ نئے ججوں کی شمولیت کے معاملے پر نظرثانی کی جائے اور فی الحال اسے ایک طرف رکھ دیا جائے؟یہ سوالات خود ہی اپنے جوابات دیتے ہیں۔"
عدالت کو فل کورٹ کے اجلاس کے وقت اور اس کی تشکیل پر باریک بینی سے غور کرنا ہوگا تاکہ اس کی ساکھ اور وقار برقرار رہے، کیونکہ یہ صرف اعلیٰ ترین عدالتی ادارے کی نہیں بلکہ پورے قانونی نظام کی سالمیت کا معاملہ ہے۔ تاہم، اگر یہ اجلاس منعقد ہوتا ہے، تو اس سے ممکنہ طور پر ایسے کسی بھی موقع کو ختم کر دیا جائے گا۔ فل کورٹ کی جانب سے دیا گیا کوئی بھی فیصلہ (اگر یہ اجلاس نئے ججز کی تقرری کے بعد ہوتا ہے) شاید عوامی اعتماد اور بھروسہ حاصل نہ کر سکے۔ موجودہ صورتحال میں واحد مناسب حل اور راستہ یہ ہے کہ اجلاس کو مؤخر کر دیا جائے۔"
https://twitter.com/x/status/1887856954967560277
Last edited: