ابابیل
Senator (1k+ posts)
دو عیدیں عید الفطر اور عید الا ضحی
شفیق الرحمن
یہ بھی اسلام کا نرالا انداز ہے کہ پور ے سال میں صرف دو تہوار اور دوعیدیں مقررکی گئی ہیں، جب کہ دنیا کے تمام دوسر ے مذاہب میں قدیم زمانہ سے تہواروں کا رواج چلا آرہا ہے۔ لوگ تہوار میں آراستہ پیراستہ ہوکر نکلتے ہیں اور خوشی مناتے ہیں۔ عیسائیوں کے تہوار الگ ہیں، یہودیوں کے تہوار الگ ہیں، ہندوؤں کے تہوار الگ ہیں، مجوسیوں کے تہوار الگ ہیں، لیکن اسلام نے صرف دو تہوارمقرر کئے ہیں، ایک عید الفطراور دوسری عید الاضحیٰ۔ اوران دونوں تہواروں کو منانے کیلئے جن دنوں کاانتخاب کیا گیا، وہ بھی دنیا سے نرالے ہیں، اگرآپ دوسر ے مذاہب کے تہواروں پرغورکریں گے تو یہ نظر آئے گاکہ وہ لوگ ماضی میں پیش آنے او لے کسی اہم واقعے کی یاگار میں تہوار مناتے ہیں۔ مثلاً عیسائی ۲۵/دسمبرکوکرسمس کا تہوار مناتے ہیں، اور بقول ان کے یہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش کا دن ہے، حالانکہ تاریخ کے اعتبار سے یہ بات درست نہیں، لیکن انہوں نے اپنے طورپر یہ سمجھ لیا ہے کہ ۲۵/دسمبر کوحضرت عیسیٰ علیہ السلام دنیا میں تشریف لائے تھے، چنانچہ آپ کی یاد میں انہوں نےکرسمسکے دن کو تہوارکیلئے مقررکر لیا ہے۔
جس دن حضرت موسیٰ علیہ السلام کو اور بنی اسرائیل کوفرعون سے نجات ملی اورفرعون غرق ہوگیا اور موسیٰ علیہ السلام بنی اسرائیل کو لے کر چلے گئے۔ اس دن کی یاد میں یہودی لوگ اپنا تہوار منا تے ہیں۔ ہندوؤں کے یہاں بھی تہوار ہیں وہ بھی ماضی کے کسی نہ کسی واقعہ کی یاد میں منائے جاتے ہیں۔ مجوسیوں کے دو تہوار، نوروز(۲۱ تا ۲۵مارچ) اور مَہر جان (۲۲ستمبر تا ۱۲۲کتوبر) قومی تہوار تھے ،غالباً اب بھی ایران میں منائے جاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ اپنے فضل وکرم سے ہم سب مسلمانوں کو اس بدعت اوراس کام سے محفوظ فرمائے ۔ جبکہ اسلام نے جو دوتہوارعید الفطر اورعید الاضحیٰ مقرر کئے ہیں، ماضی کا کوئی واقعہ اس دن کے ساتھ وابستہ نہیں۔ یکم شوال کوعید الفطرمنائی جاتی ہے۔ اوردس ذی الحجہ کوعید الاضحیٰ منائی جاتی ہے۔ ان دونوں تاریخوں میں کوئی واقعہ پیش نہیں آیا۔
اسلام نے نہ تو حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی ولادت کے دن کوعیدالفطراورعید الاضحیٰ قرار دیا، نہ ہی حضوراقدس صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے بدرکے میدان میں فتح حاصل کرنے کے واقعہ کوعید کا دن قراردیا، نہ ہی حضوراقدس صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے مکہ مکرمہ سے مدینہ طیبہ کی طرف ہجرت کر نے کے واقعہ کوعید کا دن قرادیا، نہ ہی غزوہ احد اورغزوہ احزاب کے دن کوعید کا دن قراردیا، اور جس دن مکہ فتح ہوا اور بیت اللہ کی چھت سے حضرت بلال ؓ کی اذان کی آواز پہلی مرتبہ گونجی ، اس دن کوبھیعید کادن قرار نہیں دیا۔ اسلام کی پوری تاریخ اور خاص طور پر حضورصلی اللہ علیہ والہ وسلم کی حیات طیبہ ایسے واقعات سے مالامال ہے۔ لیکن اسلام نے ان میں سے کسی واقعہ کوعید کا دن قرار نہیں دیا۔
جن ایام کواسلام نے تہوار کیلئے مقرر فرمایا، ان کے ساتھ ایسا کوئی واقعہ وابستہ نہیں جو ماضی میں ایک مرتبہ پیش آکرختم ہوچکاہو ، بلکہ اس کے بجائے ایسے خوشی کے واقعات کو تہوار کی بنیاد قراردیا جو ہر سال پیش آتے ہیں۔ اور ان کی خوشی میں عید منائی جاتی ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے دونوںعیدیںکو ایسے موقع پر مقرر فرمائی ہیں، جب مسلمان کسی عبادت کی تکمیل سے فارغ ہوتے ہیں۔ چنانچۃ عید الفطر رمضان کے گزرنے کے بعد رکھی ہے کہ میر ے بند ے پورے مہینے عبادت کے اندر مشغول رہے۔ اور پو ر ے مہینے انہوں نے میری خاطر کھانا پیناچھوڑ ے رکھا، نفسانی خواہشات کو چھوڑ ے رکھا، اور پورا مہینہ عبادت کے اندر گزارا، اس کی خوشی اور انعام میں عیدالفطر مقرر فرمائی۔جب آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم ہجرت فرما کر مدینہ منورہ تشریف لائے توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا کہ لوگ سال میں دو مرتبہ خوشیاں مناتے ہیں۔
آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے پوچھا:یہ دن کیاہیں؟ لوگوں نے عرض کیا: ہم ان دنوں میں زمانئہ جاہلیت سے کھیلتے آئے ہیں یعنی یہ ہمار ے قدیمی تہوار ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے بحکم الٰہی امتِ مسلمہ کی خوشی کے لئے دوسر ے دو دن تجویز فرمائے،اورارشاد فرمایا کہ یہ تمہار ے لئے اُن دنوں سے بہتر ہیں یعنی عید الفطر اورعید الا ضحیٰ۔ (مشکوٰۃ حدیث ۱۴۳۹)ان دنوں کی تبد یلی میں حکمت یہ ہے کہ ہر تہوار کے پیچھے چند اسباب کار فرما ہوتے ہیں۔ مثلاً کسی مذہب کے شعائر کی تشہیر کرنا یا کسی مذہب کے پیشواؤں کی ہمنوائی کرنا یا کسی چیزکی یادگار منا نا وغیرہ۔ پس آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو اندییشہ لاحق ہو ا کہ اگر کوئی اسلامی تہوا رمقر رنہ کیا گیا تو لوگ فطری جذبہ سے کسی نہ کسی تہوار کو اپنائیں گے۔ اور اس سے جاہلیت کے شعائرکی تشہیر ہوگی یاجاہلیت کے بڑوں کا طریقہ رائج ہوگا۔ اس لئے شریعت نے علاج بالمثل کیا۔ اور مسلمانوں کی خوشی کے اظہار کے لئے ایسے دو دن مقرر کئے جن سے ملتِ ابراہیمی کے شعائر کی تشہیر ہوتی ہے۔ اور ان کو صرف تہوار نہیں بلکہ عبادت کے ایام بنادیا۔اس طرح کہ خوشی کے اِن دنوں میں زبیائش کے ساتھ دوگانئہ عید اداکر نے کا حکم دیا ۔ اور دیگر محتلف قسم کی عبادتیں اس میں شامل کیں۔ تاکہ مسلمانوں کا اجتماع محض سیری تفریحی اجتماع ہوکر نہ رہ جائے، بلکہ اس کے ذریعہاللہ تعالیٰ کا بول بالا ہو اوردینِ اسلام کو فروغ ملے۔
شفیق الرحمن
یہ بھی اسلام کا نرالا انداز ہے کہ پور ے سال میں صرف دو تہوار اور دوعیدیں مقررکی گئی ہیں، جب کہ دنیا کے تمام دوسر ے مذاہب میں قدیم زمانہ سے تہواروں کا رواج چلا آرہا ہے۔ لوگ تہوار میں آراستہ پیراستہ ہوکر نکلتے ہیں اور خوشی مناتے ہیں۔ عیسائیوں کے تہوار الگ ہیں، یہودیوں کے تہوار الگ ہیں، ہندوؤں کے تہوار الگ ہیں، مجوسیوں کے تہوار الگ ہیں، لیکن اسلام نے صرف دو تہوارمقرر کئے ہیں، ایک عید الفطراور دوسری عید الاضحیٰ۔ اوران دونوں تہواروں کو منانے کیلئے جن دنوں کاانتخاب کیا گیا، وہ بھی دنیا سے نرالے ہیں، اگرآپ دوسر ے مذاہب کے تہواروں پرغورکریں گے تو یہ نظر آئے گاکہ وہ لوگ ماضی میں پیش آنے او لے کسی اہم واقعے کی یاگار میں تہوار مناتے ہیں۔ مثلاً عیسائی ۲۵/دسمبرکوکرسمس کا تہوار مناتے ہیں، اور بقول ان کے یہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش کا دن ہے، حالانکہ تاریخ کے اعتبار سے یہ بات درست نہیں، لیکن انہوں نے اپنے طورپر یہ سمجھ لیا ہے کہ ۲۵/دسمبر کوحضرت عیسیٰ علیہ السلام دنیا میں تشریف لائے تھے، چنانچہ آپ کی یاد میں انہوں نےکرسمسکے دن کو تہوارکیلئے مقررکر لیا ہے۔
جس دن حضرت موسیٰ علیہ السلام کو اور بنی اسرائیل کوفرعون سے نجات ملی اورفرعون غرق ہوگیا اور موسیٰ علیہ السلام بنی اسرائیل کو لے کر چلے گئے۔ اس دن کی یاد میں یہودی لوگ اپنا تہوار منا تے ہیں۔ ہندوؤں کے یہاں بھی تہوار ہیں وہ بھی ماضی کے کسی نہ کسی واقعہ کی یاد میں منائے جاتے ہیں۔ مجوسیوں کے دو تہوار، نوروز(۲۱ تا ۲۵مارچ) اور مَہر جان (۲۲ستمبر تا ۱۲۲کتوبر) قومی تہوار تھے ،غالباً اب بھی ایران میں منائے جاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ اپنے فضل وکرم سے ہم سب مسلمانوں کو اس بدعت اوراس کام سے محفوظ فرمائے ۔ جبکہ اسلام نے جو دوتہوارعید الفطر اورعید الاضحیٰ مقرر کئے ہیں، ماضی کا کوئی واقعہ اس دن کے ساتھ وابستہ نہیں۔ یکم شوال کوعید الفطرمنائی جاتی ہے۔ اوردس ذی الحجہ کوعید الاضحیٰ منائی جاتی ہے۔ ان دونوں تاریخوں میں کوئی واقعہ پیش نہیں آیا۔
اسلام نے نہ تو حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی ولادت کے دن کوعیدالفطراورعید الاضحیٰ قرار دیا، نہ ہی حضوراقدس صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے بدرکے میدان میں فتح حاصل کرنے کے واقعہ کوعید کا دن قراردیا، نہ ہی حضوراقدس صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے مکہ مکرمہ سے مدینہ طیبہ کی طرف ہجرت کر نے کے واقعہ کوعید کا دن قرادیا، نہ ہی غزوہ احد اورغزوہ احزاب کے دن کوعید کا دن قراردیا، اور جس دن مکہ فتح ہوا اور بیت اللہ کی چھت سے حضرت بلال ؓ کی اذان کی آواز پہلی مرتبہ گونجی ، اس دن کوبھیعید کادن قرار نہیں دیا۔ اسلام کی پوری تاریخ اور خاص طور پر حضورصلی اللہ علیہ والہ وسلم کی حیات طیبہ ایسے واقعات سے مالامال ہے۔ لیکن اسلام نے ان میں سے کسی واقعہ کوعید کا دن قرار نہیں دیا۔
جن ایام کواسلام نے تہوار کیلئے مقرر فرمایا، ان کے ساتھ ایسا کوئی واقعہ وابستہ نہیں جو ماضی میں ایک مرتبہ پیش آکرختم ہوچکاہو ، بلکہ اس کے بجائے ایسے خوشی کے واقعات کو تہوار کی بنیاد قراردیا جو ہر سال پیش آتے ہیں۔ اور ان کی خوشی میں عید منائی جاتی ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے دونوںعیدیںکو ایسے موقع پر مقرر فرمائی ہیں، جب مسلمان کسی عبادت کی تکمیل سے فارغ ہوتے ہیں۔ چنانچۃ عید الفطر رمضان کے گزرنے کے بعد رکھی ہے کہ میر ے بند ے پورے مہینے عبادت کے اندر مشغول رہے۔ اور پو ر ے مہینے انہوں نے میری خاطر کھانا پیناچھوڑ ے رکھا، نفسانی خواہشات کو چھوڑ ے رکھا، اور پورا مہینہ عبادت کے اندر گزارا، اس کی خوشی اور انعام میں عیدالفطر مقرر فرمائی۔جب آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم ہجرت فرما کر مدینہ منورہ تشریف لائے توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا کہ لوگ سال میں دو مرتبہ خوشیاں مناتے ہیں۔
آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے پوچھا:یہ دن کیاہیں؟ لوگوں نے عرض کیا: ہم ان دنوں میں زمانئہ جاہلیت سے کھیلتے آئے ہیں یعنی یہ ہمار ے قدیمی تہوار ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے بحکم الٰہی امتِ مسلمہ کی خوشی کے لئے دوسر ے دو دن تجویز فرمائے،اورارشاد فرمایا کہ یہ تمہار ے لئے اُن دنوں سے بہتر ہیں یعنی عید الفطر اورعید الا ضحیٰ۔ (مشکوٰۃ حدیث ۱۴۳۹)ان دنوں کی تبد یلی میں حکمت یہ ہے کہ ہر تہوار کے پیچھے چند اسباب کار فرما ہوتے ہیں۔ مثلاً کسی مذہب کے شعائر کی تشہیر کرنا یا کسی مذہب کے پیشواؤں کی ہمنوائی کرنا یا کسی چیزکی یادگار منا نا وغیرہ۔ پس آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو اندییشہ لاحق ہو ا کہ اگر کوئی اسلامی تہوا رمقر رنہ کیا گیا تو لوگ فطری جذبہ سے کسی نہ کسی تہوار کو اپنائیں گے۔ اور اس سے جاہلیت کے شعائرکی تشہیر ہوگی یاجاہلیت کے بڑوں کا طریقہ رائج ہوگا۔ اس لئے شریعت نے علاج بالمثل کیا۔ اور مسلمانوں کی خوشی کے اظہار کے لئے ایسے دو دن مقرر کئے جن سے ملتِ ابراہیمی کے شعائر کی تشہیر ہوتی ہے۔ اور ان کو صرف تہوار نہیں بلکہ عبادت کے ایام بنادیا۔اس طرح کہ خوشی کے اِن دنوں میں زبیائش کے ساتھ دوگانئہ عید اداکر نے کا حکم دیا ۔ اور دیگر محتلف قسم کی عبادتیں اس میں شامل کیں۔ تاکہ مسلمانوں کا اجتماع محض سیری تفریحی اجتماع ہوکر نہ رہ جائے، بلکہ اس کے ذریعہاللہ تعالیٰ کا بول بالا ہو اوردینِ اسلام کو فروغ ملے۔
Last edited by a moderator: