دو عیدیں

ابابیل

Senator (1k+ posts)
دو عیدیں عید الفطر اور عید الا ضحی

شفیق الرحمن

یہ بھی اسلام کا نرالا انداز ہے کہ پور ے سال میں صرف دو تہوار اور دوعیدیں مقررکی گئی ہیں، جب کہ دنیا کے تمام دوسر ے مذاہب میں قدیم زمانہ سے تہواروں کا رواج چلا آرہا ہے۔ لوگ تہوار میں آراستہ پیراستہ ہوکر نکلتے ہیں اور خوشی مناتے ہیں۔ عیسائیوں کے تہوار الگ ہیں، یہودیوں کے تہوار الگ ہیں، ہندوؤں کے تہوار الگ ہیں، مجوسیوں کے تہوار الگ ہیں، لیکن اسلام نے صرف دو تہوارمقرر کئے ہیں، ایک عید الفطراور دوسری عید الاضحیٰ۔ اوران دونوں تہواروں کو منانے کیلئے جن دنوں کاانتخاب کیا گیا، وہ بھی دنیا سے نرالے ہیں، اگرآپ دوسر ے مذاہب کے تہواروں پرغورکریں گے تو یہ نظر آئے گاکہ وہ لوگ ماضی میں پیش آنے او لے کسی اہم واقعے کی یاگار میں تہوار مناتے ہیں۔ مثلاً عیسائی ۲۵/دسمبرکوکرسمس کا تہوار مناتے ہیں، اور بقول ان کے یہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش کا دن ہے، حالانکہ تاریخ کے اعتبار سے یہ بات درست نہیں، لیکن انہوں نے اپنے طورپر یہ سمجھ لیا ہے کہ ۲۵/دسمبر کوحضرت عیسیٰ علیہ السلام دنیا میں تشریف لائے تھے، چنانچہ آپ کی یاد میں انہوں نےکرسمسکے دن کو تہوارکیلئے مقررکر لیا ہے۔

جس دن حضرت موسیٰ علیہ السلام کو اور بنی اسرائیل کوفرعون سے نجات ملی اورفرعون غرق ہوگیا اور موسیٰ علیہ السلام بنی اسرائیل کو لے کر چلے گئے۔ اس دن کی یاد میں یہودی لوگ اپنا تہوار منا تے ہیں۔ ہندوؤں کے یہاں بھی تہوار ہیں وہ بھی ماضی کے کسی نہ کسی واقعہ کی یاد میں منائے جاتے ہیں۔ مجوسیوں کے دو تہوار، نوروز(۲۱ تا ۲۵مارچ) اور مَہر جان (۲۲ستمبر تا ۱۲۲کتوبر) قومی تہوار تھے ،غالباً اب بھی ایران میں منائے جاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ اپنے فضل وکرم سے ہم سب مسلمانوں کو اس بدعت اوراس کام سے محفوظ فرمائے ۔ جبکہ اسلام نے جو دوتہوارعید الفطر اورعید الاضحیٰ مقرر کئے ہیں، ماضی کا کوئی واقعہ اس دن کے ساتھ وابستہ نہیں۔ یکم شوال کوعید الفطرمنائی جاتی ہے۔ اوردس ذی الحجہ کوعید الاضحیٰ منائی جاتی ہے۔ ان دونوں تاریخوں میں کوئی واقعہ پیش نہیں آیا۔

اسلام نے نہ تو حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی ولادت کے دن کوعیدالفطراورعید الاضحیٰ قرار دیا، نہ ہی حضوراقدس صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے بدرکے میدان میں فتح حاصل کرنے کے واقعہ کوعید کا دن قراردیا، نہ ہی حضوراقدس صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے مکہ مکرمہ سے مدینہ طیبہ کی طرف ہجرت کر نے کے واقعہ کوعید کا دن قرادیا، نہ ہی غزوہ احد اورغزوہ احزاب کے دن کوعید کا دن قراردیا، اور جس دن مکہ فتح ہوا اور بیت اللہ کی چھت سے حضرت بلال ؓ کی اذان کی آواز پہلی مرتبہ گونجی ، اس دن کوبھیعید کادن قرار نہیں دیا۔ اسلام کی پوری تاریخ اور خاص طور پر حضورصلی اللہ علیہ والہ وسلم کی حیات طیبہ ایسے واقعات سے مالامال ہے۔ لیکن اسلام نے ان میں سے کسی واقعہ کوعید کا دن قرار نہیں دیا۔

جن ایام کواسلام نے تہوار کیلئے مقرر فرمایا، ان کے ساتھ ایسا کوئی واقعہ وابستہ نہیں جو ماضی میں ایک مرتبہ پیش آکرختم ہوچکاہو ، بلکہ اس کے بجائے ایسے خوشی کے واقعات کو تہوار کی بنیاد قراردیا جو ہر سال پیش آتے ہیں۔ اور ان کی خوشی میں عید منائی جاتی ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے دونوںعیدیںکو ایسے موقع پر مقرر فرمائی ہیں، جب مسلمان کسی عبادت کی تکمیل سے فارغ ہوتے ہیں۔ چنانچۃ عید الفطر رمضان کے گزرنے کے بعد رکھی ہے کہ میر ے بند ے پورے مہینے عبادت کے اندر مشغول رہے۔ اور پو ر ے مہینے انہوں نے میری خاطر کھانا پیناچھوڑ ے رکھا، نفسانی خواہشات کو چھوڑ ے رکھا، اور پورا مہینہ عبادت کے اندر گزارا، اس کی خوشی اور انعام میں عیدالفطر مقرر فرمائی۔جب آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم ہجرت فرما کر مدینہ منورہ تشریف لائے توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا کہ لوگ سال میں دو مرتبہ خوشیاں مناتے ہیں۔

آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے پوچھا:یہ دن کیاہیں؟ لوگوں نے عرض کیا: ہم ان دنوں میں زمانئہ جاہلیت سے کھیلتے آئے ہیں یعنی یہ ہمار ے قدیمی تہوار ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے بحکم الٰہی امتِ مسلمہ کی خوشی کے لئے دوسر ے دو دن تجویز فرمائے،اورارشاد فرمایا کہ یہ تمہار ے لئے اُن دنوں سے بہتر ہیں یعنی عید الفطر اورعید الا ضحیٰ۔ (مشکوٰۃ حدیث ۱۴۳۹)ان دنوں کی تبد یلی میں حکمت یہ ہے کہ ہر تہوار کے پیچھے چند اسباب کار فرما ہوتے ہیں۔ مثلاً کسی مذہب کے شعائر کی تشہیر کرنا یا کسی مذہب کے پیشواؤں کی ہمنوائی کرنا یا کسی چیزکی یادگار منا نا وغیرہ۔ پس آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو اندییشہ لاحق ہو ا کہ اگر کوئی اسلامی تہوا رمقر رنہ کیا گیا تو لوگ فطری جذبہ سے کسی نہ کسی تہوار کو اپنائیں گے۔ اور اس سے جاہلیت کے شعائرکی تشہیر ہوگی یاجاہلیت کے بڑوں کا طریقہ رائج ہوگا۔ اس لئے شریعت نے علاج بالمثل کیا۔ اور مسلمانوں کی خوشی کے اظہار کے لئے ایسے دو دن مقرر کئے جن سے ملتِ ابراہیمی کے شعائر کی تشہیر ہوتی ہے۔ اور ان کو صرف تہوار نہیں بلکہ عبادت کے ایام بنادیا۔اس طرح کہ خوشی کے اِن دنوں میں زبیائش کے ساتھ دوگانئہ عید اداکر نے کا حکم دیا ۔ اور دیگر محتلف قسم کی عبادتیں اس میں شامل کیں۔ تاکہ مسلمانوں کا اجتماع محض سیری تفریحی اجتماع ہوکر نہ رہ جائے، بلکہ اس کے ذریعہاللہ تعالیٰ کا بول بالا ہو اوردینِ اسلام کو فروغ ملے۔
 
Last edited by a moderator:

mrlalamusa

MPA (400+ posts)
[FONT=&amp]اسلام میں صرف دو عیدیں کہنے والوں کی عیدیں اور عید میلاد النبی ﷺ[/FONT]
[FONT=&amp]٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭[/FONT]
[FONT=&amp]جماعت اہلحدیث کے بالعموم اورحافظ عبد القادر روپڑی کے بالخصوص ترجمان ہفت روزہ (تنظیم اہلحدیث ) لاہور نے 17 مئی 1963 ء کی اشاعت میں لکھا ہے کہ مومن کی پانچ عیدیں ہیں ، جس دن گناہ سے محفوظ رہے ، جس دن خاتمہ بالخیر ہو ، جس دن پل سے سلامتی کے ساتھ گزرے ، جس دن جنت میں داخل ہو اور جب پردردگار کے دیدار سے بہر ہ یاب ہو ۔[/FONT]
[FONT=&amp]
[/FONT]

[FONT=&amp]۔تنظیم اہلحدیث کا یہ بیان حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے ۔(درۃ الناصحین صفحہ 263 ) مقام انصاف ہے کہ جب مومن کی اکھٹی پانچ عیدیں تکمیل دین کے خلاف نہیں تو جن کے صدقہ و وسیلہ سے ایمان قرآن اور خود رحمان ملا ، ان کے یوم میلاد کو عید کہہ دینے سے دین میں کونسا رخنہ پڑجائے گا ؟[/FONT]
[FONT=&amp]
[/FONT]

[FONT=&amp]جبکہ عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم نہ عید الفطر اور عید الاضحٰی کے مقابلے کے لئے ہے اور نہ ان کی شرعی حیثیت ختم کرنا مقصود ہے ،[/FONT]
[FONT=&amp]
[/FONT]

[FONT=&amp]اہلحدیث مزید لکھا ہے کہ ( اگر عید کے نام پر ہی آپ کا یوم ولادت منانا ہے تو رحمۃ اللعالمین صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی کی طرف دیکھیں کہ آپ نے یہ دن کیسے منایا تھا ؟ سنئے ! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دن منایا پر اتنی ترمیم کے ساتھ کہ اسے تنہا عید میلاد نہیں رہنے دیا بلکہ عید میلاد اور عید بعث کہہ کر منایا اور منایا بھی روزہ رکھ کر اور سال بہ سال نہیں بلکہ ہر ہفتہ منایا ۔[/FONT]
[FONT=&amp]( ہفت روزہ اہلحدیث لاہور 27 مارچ 1981 ئ)[/FONT]
[FONT=&amp]
[/FONT]

[FONT=&amp]سبحان اللہ ! اہلحدیث نے تو حد کردی کہ صرف حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے عید میلاد منانے ہی کی تصریح نہیں کی بلکہ ایک اور عید یعنی عید بعث منانے کا بھی اضافہ کردیا اور وہ بھی ہفتہ وار۔[/FONT]
[FONT=&amp]
[/FONT]

[FONT=&amp]ماہنامہ دارلعلوم دیوبند نومبر 1957 ء کی اشاعت میں ایک نعت شریف شائع ہوئی ہے کہ ؛[/FONT]
[FONT=&amp]یہ آمد ، آمد اس محبوب کی ہے[/FONT]
[FONT=&amp]کہ نور جاں ہے جس کا نام نامی[/FONT]
[FONT=&amp]خوشی ہے عید میلاد النبی کی[/FONT]
[FONT=&amp]یہ اہل شوق کی خوشی انتظامی[/FONT]
[FONT=&amp]کھڑے ہیں باادب صف بستہ قدسی[/FONT]
[FONT=&amp]حضور سرور ذات گرامی ﷺ[/FONT]
[FONT=&amp]
[/FONT]

[FONT=&amp]الحمد اللہ ! اس تمام تفصیل اور لاجواب و ناقابل تردید تحقیقی و الزامی حوالہ جات سے عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم منانے اس نعمت کا چرچا کرنے شکر گزاری و خوشی کرنے محافل میلاد کے انعقاد و جلوس نکالنے کی روز روشن کی طرح تحقیق و تائید ہوگئی اور وہ بھی وہاں وہاں سے جہاں سے پہلے شرک و بدعت کی آوازیں سنائی دیتی تھیں ، ماشا ءاللہ عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی عظمت و قوت عشق سے اپنی حقانیت کا لوہا منوالیا ، مگر ضروری ہے کہ میلاد شریف کے سب پروگرام بھی شریعت کے مطابق ہو ں اور منانے والے بھی شریعت و سنت کی پابندی کریں کیونکہ عشق رسالت کے ساتھ اتباع سنت بھی ضروری ہے ۔[/FONT]
[FONT=&amp]
[/FONT]

[FONT=&amp]مسئلہ بدعت :۔[/FONT]
[FONT=&amp]مذکورہ تمام تفصیل و تحقیق کے بعد اب تو کسی بدعت و دت کا خطرہ نہیں ہونا چاہئے ، کیونکہ بدعت و ناجائز تو وہ کام ہوتا ہے جس کی دین میں کوئی اصل نہ ہو مگر عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اصل و بنیاد اور مرجع و مآخذ قرآن و حدیث ، صحابہ کرام ، جمہور اہل علم ، محدثین ، مفسرین بلکہ اجماع امت اور خود منکرین میلاد کے اقوال سے ثابت کرچکے ہیں ، لہذا اب تو اس کو بدعت تصور کرنا بھی بدعت و ناجائز اور محرومی و بے نصیبی کا باعث ہے ۔[/FONT]
[FONT=&amp]
[/FONT]

[FONT=&amp]میرے مولا کے میلاد کی دھوم ہے :: ہے وہ بد بخت جو آج محروم ہے[/FONT]
[FONT=&amp]
[/FONT]

[FONT=&amp]استفسار : اگر اب بھی کوئی میلاد شریف کا قائل نہ ہو ، تو پھر اسے کوئی حق نہیں پہنچتا کہ وہ سیرت کانفرنس ، سیرت کے اجلاس ، سالانہ تبلیغی اجتماعات ، اہلحدیث کانفرنسیں اور مدارس کے سالانہ پروگرام وغیرہ منعقد کرے ۔ورنہ وہ وجہ فرق بیان کرے کہ عید میلاد النبی صلی اللہ وسلم کیوں بدعت ہے اور باقی مذکورہ امور کس دلیل سے توحید و سنت کے مطابق ہیں اور ہمارے دلائل اور جلیل القدر محدثین و اکابر کے حوالہ جات کا[/FONT]
[FONT=&amp]کیا جواب ہے ؟[/FONT]
[FONT=&amp]تم جو بھی کرو بدعت و ایجاد روا ہے :: اور ہم جو کریں محفل میلاد براہے منکرین میلاد کا کردار :۔[/FONT]
[FONT=&amp]جو بچہ ہو پیدا تو خوشیاں منائیں[/FONT]
[FONT=&amp]مٹھائی بٹے اور لڈو بھی آئیں[/FONT]
[FONT=&amp]مبارک کی ہر سو آئیں صدائیں[/FONT]
[FONT=&amp]مگر[/FONT]
[FONT=&amp]محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم کا جب یوم میلاد آئے[/FONT]
[FONT=&amp]تو بدعت کے فتوے انہیں یاد آئے[/FONT]
 

mrlalamusa

MPA (400+ posts)
[FONT=&amp] لغت میں عید ایسی چیز کو کہتے ہیں جو بار بار لوٹ کر آئے، اور کیونکہ یہ دونوں مذہبی تہوار ہر سال آتے ہیں اس لیے ان کو عید کہتے ہیں، پھر مج[/FONT][FONT=&amp]ازاً اسے خوشی کے موقع کے لیے بھی استعمال کرنے لگے۔
آئیے اب یہ دیکھتے ہیں کہ کیا خوشی کے ان دو اَیام کے علاوہ کسی دوسرے دن کو عید کہنا جائز ہے یا نہیں؟
بخاری و مسلم کی حدیث میں ہے کہ حضرت سیدنا عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس ایک یہودی آیا اور اس نے کہا کہ اے امیرالمومنین آپ کی کتاب میں ایک آیت ہے اگر وہ ہم یہودیوں پر نازل ہوئی ہوتی تو ہم اس کے نزول کے دن کو ضرور عید مناتے، فرمایا کون سی آیت ؟ اس نے آیت ''الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ''[المائدۃ:03] پڑھی آپ نے فرمایا میں اس دن کو جانتا ہوں جس میں یہ نازل ہوئی تھی اور اس کے مقامِ نُزول کو بھی پہچانتا ہوں وہ مقام عرفات کا تھا اور دن جمعہ کا۔(صحيح بخاري، کتاب الإيمان، باب زيادة الإيمان ونقصانه)
آپ کی مراد اس سے یہ تھی کہ ہمارے لئے وہ دن عید ہے ۔
ترمذی شریف میں حضرت ابنِ عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے مروی ہے آپ سے بھی ایک یہودی نے ایسا ہی کہا آپ نے فرمایا کہ جس روز یہ نازل ہوئی اس دن ۲ دو عیدیں تھیں جمعہ و عرفہ ۔(سنن الترمذي، کتاب تفسيرآن، باب ومن سورة المائدة)
یوں عید الفطر اور عید الاضحی کے علاوہ سال میں 53 عیدیں ہوئیں، 52جمعہ اور 11یوم عرفہ،تو ان 53عیدوں کے بارے میں آپ کیا کہیں گے؟
جس دن نعمت حاصل ہو اس دن عیدمنانا انبیاء کرام علیہم السلام کی سنت ہے، قرآن حکیم میں ہے : حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے عرض کی: اللَّهُمَّ رَبَّنَا أَنْزِلْ عَلَيْنَا مَائِدَةً مِنَ السَّمَاءِ تَكُونُ لَنَا عِيدًا لِّأَوَّلِنَا وَآخِرِنَا، اے ہمارے رب! ہم پر آسمان سے (کھانوں کا) ایک دستر خوان نازل کر جو ہمارے پہلے اور پچھلے (سب کیلئے) عید بن جائے"۔[سورۃ البقرۃ:91]
معلوم ہوا کہ نزول نعمت کے دن عید اور جشن منانے کی اصل قرآن مجید میں موجود ہے، اسی قرآنی اُصول کے تحت اللہ کریم کی سب سے بڑی نعمت اور رحمت حضور سید عالم ﷺ کی دنیا میں تشریف آوری کے دن عید منانا شرعاً جائز و مستحسن ہے[/FONT]
 

There is only 1

Chief Minister (5k+ posts)
کسی دن یہ بندہ سارے کا سارا جل مرے گا صرف ھڈیاں باقی رہ جایئں گی

غور سے سن ناصبی ! ہم یہ دن ثواب کی نیت سے نہیں مناتے ہم صرف اس لئے مناتے ہیں کہ ہمیں خوشی ملتی ہے تو اپنے فتوے اپنے پاس رکھ اور چلو بھر پانی میں ڈوب مر
 

ابابیل

Senator (1k+ posts)
جشن عید میلاد النبی ﷺ ممنوع و مردود ہے

*لم يكن من سنة الرسول صلى الله عليه وسلم ولا من سنة خلفائه . وما كان كذلك فهو من البدع الممنوعة

یہ نا رسول اللہ ﷺ کی سنت ہے اور نہ ہی خلفائے راشدین کی اور جو رسول ﷺ و خلفاء کا طریقہ نہ ہو وہ بدعتِ ممنوعہ ہے
ہمارے پہلے نکتہ پر دلیل :-

( عليكم بسنتي وسنة الخلفاء الراشدين المهديين من بعدي ، تمسكوا بها وعضوا عليها بالنواجذ ، وإياكم ومحدثات الأمور ، فإن كل محدثة بدعة ، وكل بدعة ضلالة )

جو میرے بعد تم میں سے زندہ رہے گا عنقریب وہ بہت سے اختلافات دیکھے گا، تو تم میری سنت اور ہدایت یافتہ خلفاء راشدین کے طریقہ کار کو لازم پکڑنا، تم اس سے چمٹ جانا، اور اسے دانتوں سے مضبوط پکڑ لینا، اور دین میں نکالی گئی نئی باتوں سے بچتے رہنا، اس لیے کہ ہر نئی بات بدعت ہے، اور ہر بدعت گمراہی ہے “

۔(سنن ابی داود)4607
تخریج دارالدعوہ: سنن الترمذی/العلم ۱۶ (۲۶۷۶)، سنن ابن ماجہ/المقدمة ۶ (۴۳، ۴۴)، (تحفة الأشراف: ۹۸۹۰)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۴/۱۲۶)، سنن الدارمی/المقدمة ۱۶ (۹۶) ۔"قال الشيخ الألباني: صحيح"

*جشن عید میلاد النبیﷺ دینِ اسلام میں بگاڑ پیدا کرنے کے لئے قرونِ مفضلہ کے بابرکت دور کے بعد فاطمی شیعوں کی ایجاد کردہ بدعت ہے
اس بدعت کا اقرار نامہ ہم میلادیوں کے گھر سے پیش کرتے ہیں

علامہ تاج الدین فاکهانی
نے کہا کہ محفل میلاد کی کوئی اصل، کتاب وسنت سے مجھے نہیں ملی اور نہ ایسے علماء سے منقول ہے جو دین کے پیشوا اور آثار ِسلف سے تمسک کر نے والے تهے بلکہ وہ ایک بدعت ہے جسے باطل پرستوں نے ایجاد کیا ہے
(حوالہ المنکرات فی العقائد )

اور جس نے تقرّبِ الہٰی کی غرض سے ایسا کام کیا جس کو رسول اللہﷺ نے نہیں کیا اور نہ ہی اس کے کرنے کا حکم دیا ہو ،اور آپ کے بعد خلفائے راشدین نے نہ کیا ہو تو اس کا یہ کام نبی محترم ﷺ پر تہمت لگانا ہوا کہ آپ نے دین کو واضح واضح بیان نہیں کیا اور اس مستحسن کام کو صحابہؓ سے چھپادیا اور انہیں ثواب سے محروم کردیا ؛
اور اس نے اللہ کے اس فرمان کو جھٹلادیا اور دین کو زبانِ حال سے ناقص سمجھا :-
** اليوم أكملت لكم دينكم ** [المائدة/3]

*جشن عید میلاد النبی ﷺ کا انعقاد کرنا نصاریٰ کی مشابہت کرنا ہوا اس لئے کہ وہ مسیح علیہ السلام کا میلاد مناتے ہیں اور اسلام میں کفار سے مشابہت پر سختی سے حرمت آئی ہے اور ان کی مخالفت کا حکم دیا گیا ہے

: (من تشبه بقوم فهو منهم ) [أخرجه أحمد 2/50 ، وأبو داود 4/314]

میلادی نصاریٰ کی مشابہت کی وجہ سے بعید نہیں انہی میں سے ہوجائیں

نبی ﷺ نے ہمیں حکم دیا : ( خالفوا المشركين) [أخرجه مسلم 1/222 رقم 259 ]

اس لئے ہم تمہاری مخالفت کرتے ہیں اور تشبہ بالکفار سے احتراز کرتے ہیں
 

mrlalamusa

MPA (400+ posts)
جشن عید میلاد النبی ﷺ ممنوع و مردود ہے

*لم يكن من سنة الرسول صلى الله عليه وسلم ولا من سنة خلفائه . وما كان كذلك فهو من البدع الممنوعة

یہ نا رسول اللہ ﷺ کی سنت ہے اور نہ ہی خلفائے راشدین کی اور جو رسول ﷺ و خلفاء کا طریقہ نہ ہو وہ بدعتِ ممنوعہ ہے
ہمارے پہلے نکتہ پر دلیل :-

( عليكم بسنتي وسنة الخلفاء الراشدين المهديين من بعدي ، تمسكوا بها وعضوا عليها بالنواجذ ، وإياكم ومحدثات الأمور ، فإن كل محدثة بدعة ، وكل بدعة ضلالة )

جو میرے بعد تم میں سے زندہ رہے گا عنقریب وہ بہت سے اختلافات دیکھے گا، تو تم میری سنت اور ہدایت یافتہ خلفاء راشدین کے طریقہ کار کو لازم پکڑنا، تم اس سے چمٹ جانا، اور اسے دانتوں سے مضبوط پکڑ لینا، اور دین میں نکالی گئی نئی باتوں سے بچتے رہنا، اس لیے کہ ہر نئی بات بدعت ہے، اور ہر بدعت گمراہی ہے

۔(سنن ابی داود)4607
تخریج دارالدعوہ: سنن الترمذی/العلم ۱۶ (۲۶۷۶)، سنن ابن ماجہ/المقدمة ۶ (۴۳، ۴۴)، (تحفة الأشراف: ۹۸۹۰)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۴/۱۲۶)، سنن الدارمی/المقدمة ۱۶ (۹۶) ۔"قال الشيخ الألباني: صحيح"

*جشن عید میلاد النبیﷺ دینِ اسلام میں بگاڑ پیدا کرنے کے لئے قرونِ مفضلہ کے بابرکت دور کے بعد فاطمی شیعوں کی ایجاد کردہ بدعت ہے
اس بدعت کا اقرار نامہ ہم میلادیوں کے گھر سے پیش کرتے ہیں

علامہ تاج الدین فاکهانی
نے کہا کہ محفل میلاد کی کوئی اصل، کتاب وسنت سے مجھے نہیں ملی اور نہ ایسے علماء سے منقول ہے جو دین کے پیشوا اور آثار ِسلف سے تمسک کر نے والے تهے بلکہ وہ ایک بدعت ہے جسے باطل پرستوں نے ایجاد کیا ہے
(حوالہ المنکرات فی العقائد )

اور جس نے تقرّبِ الہٰی کی غرض سے ایسا کام کیا جس کو رسول اللہﷺ نے نہیں کیا اور نہ ہی اس کے کرنے کا حکم دیا ہو ،اور آپ کے بعد خلفائے راشدین نے نہ کیا ہو تو اس کا یہ کام نبی محترم ﷺ پر تہمت لگانا ہوا کہ آپ نے دین کو واضح واضح بیان نہیں کیا اور اس مستحسن کام کو صحابہؓ سے چھپادیا اور انہیں ثواب سے محروم کردیا ؛
اور اس نے اللہ کے اس فرمان کو جھٹلادیا اور دین کو زبانِ حال سے ناقص سمجھا :-
** اليوم أكملت لكم دينكم ** [المائدة/3]

*جشن عید میلاد النبی ﷺ کا انعقاد کرنا نصاریٰ کی مشابہت کرنا ہوا اس لئے کہ وہ مسیح علیہ السلام کا میلاد مناتے ہیں اور اسلام میں کفار سے مشابہت پر سختی سے حرمت آئی ہے اور ان کی مخالفت کا حکم دیا گیا ہے

: (من تشبه بقوم فهو منهم ) [أخرجه أحمد 2/50 ، وأبو داود 4/314]

میلادی نصاریٰ کی مشابہت کی وجہ سے بعید نہیں انہی میں سے ہوجائیں

نبی ﷺ نے ہمیں حکم دیا : ( خالفوا المشركين) [أخرجه مسلم 1/222 رقم 259 ]

اس لئے ہم تمہاری مخالفت کرتے ہیں اور تشبہ بالکفار سے احتراز کرتے ہیں

[FONT=&amp] دس محرم ہی کے دن اللہ تعالی نے حضرت موسی علیہ السلام اور ان کی قوم کو فرعون سے نجات دلائی تو حضرت موسی علیہ السلام نے اس دن بطور شکرانے کے روزہ رکھا ،اس لیے یہودی بھی اس دن شکرانے کے طور پر روزہ رکھتے تھے ، حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے علم میں جب یہ بات آئی تو آپ نے فرمایا کہ :ہم موسی علیہ السلام کے طرز عمل کو اپنانے کے لیے تم(یہودیوں) سے زیادہ حق دار ہیں سو آپ نے خود بھی دس محرم کا روزہ رکھا اور صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین کو بھی روزہ رکھنے کا حکم دیا۔ (صحیحین)۔
ہم نصاریٰ کی پیروی نہیں کرتے قران کے فرمان کے مطابق اللہ کریم کی نعمت کا چرچا کرتے ہیں

آپ بدعت کی مستند اور جامع تعریف کر دیں[/FONT]
 

ابابیل

Senator (1k+ posts)
احمد یار خاں نعیمی بریلوی صاحب لکھتے کرتے ہیں ۔
"لَمْ یَفْعَلْہُ أَحَدٌ مِّنَ الْقُرُونِ الثَّلَاثَۃِ، إِنَّمَا حَدَثَ بَعْدُ" (جاء الحق : ١/٢٣٦)
ترجمہ : میلاد شریف تینوں زمانوں میں کسی نے نہ کیا ، بعد میں ایجاد ہوا ۔


اس کا مطلب یہ ہوا کہ جشن عیدمیلاد کی نبی ﷺ یا صحابہ یا تابعین وغیرہم کے دور میں کوئی اصل موجود نہ تھی ، بعد میں ایجاد کی گئی ۔ اور یہ بعد کی ایجاد شدہ چیز بدعت ہے جیساکہ بدعت کی تعریف کرتے ہوئے جناب احمد یار خان نعیمی اپنی مشہور کتاب"جاء الحق "کے صفحہ ٢٠٤میں لکھتے ہیں
وہ اعتقاد یا وہ اعمال جو کہ حضور علیہ الصلاة والسلام کے زمانہ حیات ظاہری میں نہ ہوں بعد میں ایجاد ہوئے

اس جشن میں شرک بھی ہے ، بدعت بھی اور حرام کام بھی لہذا یہ جشن شرک و بدعت کے ساتھ حرام بھی ٹھہرا۔

جہاں تک آپ ﷺ کا سوموار کے دن روزہ رکھنا ہے تو یہ صرف ولادت کی وجہ سے نہیں بلکہ اس دن اللہ کے حضور نامہ اعمال پیش کئے جاتے ہیں ۔ اگر کسی کو رسول اللہ ﷺ سے محبت ہے تو آپ ﷺ کی اتباع میں سوموار کا روزہ رکھے اور اس روزے کا 12/ربیع الاول سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ نبی ﷺ اور صحابہ کے دور میں کتنے 12/ربیع الاول آئے مگر اس مناسبت سے آپ نے روزہ نہیں رکھا ۔

اللہ تعالی جس کے ساتھ بھلائی کا ارادہ کرتا ہے اسے دین کی سمجھ عطا فرما دیتا ہے ۔(بخاری ومسلم)
 

انجام

MPA (400+ posts)
جس نے ماننا ہے ،اور منانا ہے اس کے پاس دلائل ہیں اور جس نے انکار کرنا ہے اس نے حجتیں نکال لینی ہیں۔ ابھی ایک صاحب نے کہا اس میں شرک بھی ہے حالانکہ لفظ میلاد اپنے معنی میں ہی نفی شرک پر دلیل ہے۔
 

Veila Mast

Senator (1k+ posts)
روز جمعہ بھی عید ہے، بعض لوگ جمعہ مبارک بھی کہہ دیتے ہیں، اب یار لوگوں کے ہاں جمعہ کو مبارک کہنے کی دلیل موجود نہیں، اس لیے جمعہ مبارک کہنا بدعت ہے، یہی نہیں اللہ کو خدا کہنے سے بھی شرک کی بو آتی ہے کیونکہ خدا فارسی کا لفظ ہے اور بالیقین اس دور میں مستعمل نہیں تھا، اب بندہ کہاں تک شرک و بدعت سے دامن چھڑائے، یا پھر ایسی سوچ سے ہی دامن چھڑائے

کیا خیال ہے؟

حضرت آدم علیہ السلام کی حیات و ممات کا دن جمعہ ٹھہرا، اب ایسے دن کو عید کہنا کیونکر روا ہوا؟
 
Last edited:

mrlalamusa

MPA (400+ posts)
[quote
بدعت کی تعریف کرتے ہوئے جناب احمد یار خان نعیمی اپنی مشہور کتاب"جاء الحق "کے صفحہ ٢٠٤میں لکھتے ہیں
وہ اعتقاد یا وہ اعمال جو کہ حضور علیہ الصلاة والسلام کے زمانہ حیات ظاہری میں نہ ہوں بعد میں ایجاد ہوئے

اللہ تعالی جس کے ساتھ بھلائی کا ارادہ کرتا ہے اسے دین کی سمجھ عطا فرما دیتا ہے ۔(بخاری ومسلم)
[/quote]

صحیح بخاری
كتاب صلاة التراويح
کتاب نماز تراویح پڑھنے کا بیان
THE BOOK OF TARAWIH PRAYERS.

باب فضل من قام رمضان:
باب: رمضان میں تراویح پڑھنے کی فضیلت
(1) CHAPTER. The superiority of praying (Nawafil) at night in Ramadan.
[TABLE="width: 100%"]
[TR]
[TD="width: 62%"]حدیث نمبر: 2010
[/TD]
[TD="width: 38%"]
  • === إخفاء التشكيل
  • إظهار التشكيل
[/TD]
[/TR]
[/TABLE]


وعن ابن شهاب عن عروة بن الزبير عن عبد الرحمن بن عبد القاري انه قال:‏‏‏‏"خرجت مع عمر بن الخطاب رضي الله عنه ليلة في رمضان إلى المسجد فإذا الناس اوزاع متفرقون يصلي الرجل لنفسه ويصلي الرجل فيصلي بصلاته الرهط فقال عمر:‏‏‏‏إني ارى لو جمعت هؤلاء على قارئ واحد لكان امثل ثم عزم فجمعهم على ابي بن كعب ثم خرجت معه ليلة اخرى والناس يصلون بصلاة قارئهم قال عمر:‏‏‏‏ نعم البدعة هذه والتي ينامون عنها افضل من التي يقومون يريد آخر الليل وكان الناس يقومون اوله".

وَعَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَبْدٍ الْقَارِيِّ، أَنَّهُ قَالَ:‏‏‏‏"خَرَجْتُ مَعَ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِرَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ لَيْلَةً فِي رَمَضَانَ إِلَى الْمَسْجِدِ، فَإِذَا النَّاسُ أَوْزَاعٌ مُتَفَرِّقُونَ، يُصَلِّي الرَّجُلُ لِنَفْسِهِ، وَيُصَلِّي الرَّجُلُ فَيُصَلِّي بِصَلَاتِهِ الرَّهْطُ، فَقَالَ عُمَرُ:‏‏‏‏إِنِّي أَرَى لَوْ جَمَعْتُ هَؤُلَاءِ عَلَى قَارِئٍ وَاحِدٍ لَكَانَ أَمْثَلَ، ثُمَّ عَزَمَ فَجَمَعَهُمْ عَلَى أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ، ثُمَّ خَرَجْتُ مَعَهُ لَيْلَةً أُخْرَى وَالنَّاسُ يُصَلُّونَ بِصَلَاةِ قَارِئِهِمْ، قَالَ عُمَرُ:‏‏‏‏ نِعْمَ الْبِدْعَةُ هَذِهِ، وَالَّتِي يَنَامُونَ عَنْهَا أَفْضَلُ مِنَ الَّتِي يَقُومُونَ يُرِيدُ آخِرَ اللَّيْلِ، وَكَانَ النَّاسُ يَقُومُونَ أَوَّلَهُ".


اور ابن شہاب سے (امام مالک رحمہ اللہ) کی روایت ہے، انہوں نے عروہ بن زبیر رضی اللہ عنہ سے اور انہوں نے عبدالرحمٰن بن عبدالقاری سے روایت کی کہ انہوں نے بیان کیا میں عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے ساتھ رمضان کی ایک رات کو مسجد میں گیا۔ سب لوگ متفرق اور منتشر تھے، کوئی اکیلا نماز پڑھ رہا تھا، اور کچھ کسی کے پیچھے کھڑے ہوئے تھے۔ اس پر عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا، میرا خیال ہے کہ اگر میں تمام لوگوں کو ایک قاری کے پیچھے جمع کر دوں تو زیادہ اچھا ہو گا، چنانچہ آپ نے یہی ٹھان کر ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کو ان کا امام بنا دیا۔ پھر ایک رات جو میں ان کے ساتھ نکلا تو دیکھا کہ لوگ اپنے امام کے پیچھے نماز (تراویح) پڑھ رہے ہیں۔ عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا، یہ نیا طریقہ بہتر اور مناسب ہے اور (رات کا) وہ حصہ جس میں یہ لوگ سو جاتے ہیں اس حصہ سے بہتر اور افضل ہے جس میں یہ نماز پڑھتے ہیں۔ آپ کی مراد رات کے آخری حصہ (کی فضیلت) سے تھی کیونکہ لوگ یہ نماز رات کے شروع ہی میں پڑھ لیتے تھے۔

'Abdur Rahman bin 'Abdul Qari said, "I went out in the company of 'Umar bin Al-Khattab one night in Ramadan to the mosque and found the people praying in different groups. A man praying alone or a man praying with a little group behind him. So, 'Umar said, 'In my opinion I would better collect these (people) under the leadership of one Qari (Reciter) (i.e. let them pray in congregation!)'. So, he made up his mind to congregate them behind Ubai bin Ka'b. Then on another night I went again in his company and the people were praying behind their reciter. On that, 'Umar remarked, 'What an excellent Bid'a (i.e. innovation in religion) this is; but the prayer which they do not perform, but sleep at its time is better than the one they are offering.' He meant the prayer in the last part of the night. (In those days) people used to pray in the early part of the night."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 3, Book 32, Number 227

حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے اس قول سے پتا چلتا ہے کے ایک بدعت حسنہ بھی ہوتی ہے جو شریعت کے کسی کام سے ٹکراتی نہیں ہے
مفتی صاحب نے جو بدعت کی تعریف کی ہے آپ نے ادھی لکھ کر خیانت کی ہے
اللہ کریم آپ کو دین کی سمجھ عطا فرمائے

 

ابابیل

Senator (1k+ posts)
[quote


حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے اس قول سے پتا چلتا ہے کے ایک بدعت حسنہ بھی ہوتی ہے جو شریعت کے کسی کام سے ٹکراتی نہیں ہے
مفتی صاحب نے جو بدعت کی تعریف کی ہے آپ نے ادھی لکھ کر خیانت کی ہے
اللہ کریم آپ کو دین کی سمجھ عطا فرمائے


کوئی بدعت "حسنہ" نہیں ہوتی

عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے اپنے دور خلافت میں لوگوں کو تراویح کے لئے جمع کیا تھا اور پھر فرمایا تھا:۔
(نِعْمَتِ الْبِدْعَةُ ھٰذِہِ)یہ کتنی اچھی بدعت ہے! (بخاری)


عمر رضی اللہ عنہ کا یہ قول شریعت کے اندر بدعت حسنہ کی دلیل نہیں بن سکتا، کیونکہ یہاں انھوں نے اس کا لغوی مفہوم مراد لیا ہے۔ اس لئے کہ یہ عمل ہر اعتبار سے سنت تھا:
خود قیام رمضان سنت ہے۔آپ ۖ نے اس کی ترغیب فرمائی ہے۔آپ نے فرمایا ہے

مَنْ قَامَ رَمَضَانَ ِیْمَاناً وَّاحْتِسَاباً غُفِرَ لَہُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِہِ (بخاری)
**جس نے ایمان کے ساتھ اور حصول ثواب کی نیت سے رمضان کا قیام کیا(تراویح پڑھی)اس کے تمام پچھلے گناہ بخش دیئے جائیں گے**۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ کو کئی راتیں باجماعت تراویح پڑھائی، جب لوگوں کی تعداد کافی بڑھ گئی تو آپ اس اندیشہ کی وجہ سے کہ کہیں اسے فرض نہ کردیا جائے لوگوں کی طرف نکلنے سے باز رہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات تک معاملہ اسی پر باقی رہا۔ (ملاحظہ ہو بخاری شریف)۔
جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوگئی،اور وحی کے بند ہوجانے کی وجہ سے اس کے فرض کردیئے جانے کا اندیشہ ختم ہوگیا، تو عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے اپنے عہد خلافت میں لوگوں کو ایک امام پر جمع کردیا، اور اس بات پر صحابہ کا اجماع ہوگیا۔
٭نیز یہ بات بھی ملحوظ رہے کہ یہ ایک خلیفۂ راشد کی سنت ہے جن کی اتباع کا ہمیں حکم دیا گیا ہے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:۔
فَعَلَیْکُمْ بِسُنَّتِْ وَسُنَّةِ الْخُلَفَائِ الرَّاشِدِیْنَ الْمَہْدِیِّیْنَ مِنْ بَعْدِْ
(مسند احمدو،ترمذی)

آپ بدعت کی تعریف پوری لکھ کر امانت کا ثبوت دے دیں
اللہ کریم آپ کو دین کی سمجھ عطا فرمائے

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:۔
"میں حوض کوثر پر تمہارا انتظار اور بندوبست کروں گا اور ضرور بالضرور تم میں سے کچھ لوگ دکھانے کے لیے ظاہر کیے جائيں گے- پھر ضرور انہیں مجھ سے دور کھینچ لیا جائے گا- میں کہوں گا، میرے پروردگار! میرے ساتھی ہیں- کہا جائے گا، بےشک آپ نہیں جانتے جو انہوں نے آپ کے بعد نئے کام ایجاد کرلیے تھے (یعنی دین میں بدعات کو رواج دیا تھا)۔
بخاری، کتاب الرقاق، باب فی الحوض (6576)۔

انس رضی اللہ عنہ نے حدیث بیان کی کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:۔
حوض پر میرے ساتھیوں (مسلمانوں) میں سے کچھ لوگ صرف میرے پاس پانی پینے کے لیے آئيں گے حتی کہ جب میں انہیں پہچان لوں گا تو مجھہ سے دور کھینچ لیے جائيں گے- میں کہوں گا، میرے ساتھی (مسلمان )ہیں- اللہ فرمائے گا آپ نہیں جانتے جو انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے (وفات کے) بعد دین میں نئے کام ایجاد کرلیے تھے۔
بخاری، کتاب الرقاق، باب فی الحوض (6582)۔

ان اوپر بیان کی گئی احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ بدعتی لوگ (جو لوگ دین میں ثواب کی خاطر نئے کام ایجاد کریں) حوض کوثر کے پانی سے محروم رہیں گے- بدعت ایسا قبیح گناہ لے کہ اس سے توبہ بھی انتہائی مشکل ہے کیونکہ انسان اسے برا سمجھ کر نہیں بلکہ نیک اورباعث اجر و ثواب سمجھ کر بجا لاتا ہے- نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:۔
**من احدث فی امرنا ھذا ما لیس فیہ فھو رد**
" جس نے ہمارے اس معاملے (دین) میں کوئی ایسا کام ایجاد کیا جو اس میں نہیں تھا تو وہ مردود ہے-"۔
(صحیح بخاری، کتاب الصلح، باب اذا اصطلحوا علی صلح جور-)
 

mrlalamusa

MPA (400+ posts)
index.php
کوئی بدعت "حسنہ" نہیں ہوتی

عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے اپنے دور خلافت میں لوگوں کو تراویح کے لئے جمع کیا تھا اور پھر فرمایا تھا:۔
(نِعْمَتِ الْبِدْعَةُ ھٰذِہِ)یہ کتنی اچھی بدعت ہے! (بخاری)


عمر رضی اللہ عنہ کا یہ قول شریعت کے اندر بدعت حسنہ کی دلیل نہیں بن سکتا، کیونکہ یہاں انھوں نے اس کا لغوی مفہوم مراد لیا ہے۔ اس لئے کہ یہ عمل ہر اعتبار سے سنت تھا:
خود قیام رمضان سنت ہے۔آپ ۖ نے اس کی ترغیب فرمائی ہے۔آپ نے فرمایا ہے

مَنْ قَامَ رَمَضَانَ ِیْمَاناً وَّاحْتِسَاباً غُفِرَ لَہُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِہِ (بخاری)
**جس نے ایمان کے ساتھ اور حصول ثواب کی نیت سے رمضان کا قیام کیا(تراویح پڑھی)اس کے تمام پچھلے گناہ بخش دیئے جائیں گے**۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ کو کئی راتیں باجماعت تراویح پڑھائی، جب لوگوں کی تعداد کافی بڑھ گئی تو آپ اس اندیشہ کی وجہ سے کہ کہیں اسے فرض نہ کردیا جائے لوگوں کی طرف نکلنے سے باز رہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات تک معاملہ اسی پر باقی رہا۔ (ملاحظہ ہو بخاری شریف)۔
جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوگئی،اور وحی کے بند ہوجانے کی وجہ سے اس کے فرض کردیئے جانے کا اندیشہ ختم ہوگیا، تو عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے اپنے عہد خلافت میں لوگوں کو ایک امام پر جمع کردیا، اور اس بات پر صحابہ کا اجماع ہوگیا۔
٭نیز یہ بات بھی ملحوظ رہے کہ یہ ایک خلیفۂ راشد کی سنت ہے جن کی اتباع کا ہمیں حکم دیا گیا ہے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:۔
فَعَلَیْکُمْ بِسُنَّتِْ وَسُنَّةِ الْخُلَفَائِ الرَّاشِدِیْنَ الْمَہْدِیِّیْنَ مِنْ بَعْدِْ
(مسند احمدو،ترمذی)

آپ بدعت کی تعریف پوری لکھ کر امانت کا ثبوت دے دیں
اللہ کریم آپ کو دین کی سمجھ عطا فرمائے

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:۔
"میں حوض کوثر پر تمہارا انتظار اور بندوبست کروں گا اور ضرور بالضرور تم میں سے کچھ لوگ دکھانے کے لیے ظاہر کیے جائيں گے- پھر ضرور انہیں مجھ سے دور کھینچ لیا جائے گا- میں کہوں گا، میرے پروردگار! میرے ساتھی ہیں- کہا جائے گا، بےشک آپ نہیں جانتے جو انہوں نے آپ کے بعد نئے کام ایجاد کرلیے تھے (یعنی دین میں بدعات کو رواج دیا تھا)۔
بخاری، کتاب الرقاق، باب فی الحوض (6576)۔

انس رضی اللہ عنہ نے حدیث بیان کی کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:۔
حوض پر میرے ساتھیوں (مسلمانوں) میں سے کچھ لوگ صرف میرے پاس پانی پینے کے لیے آئيں گے حتی کہ جب میں انہیں پہچان لوں گا تو مجھہ سے دور کھینچ لیے جائيں گے- میں کہوں گا، میرے ساتھی (مسلمان )ہیں- اللہ فرمائے گا آپ نہیں جانتے جو انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے (وفات کے) بعد دین میں نئے کام ایجاد کرلیے تھے۔
بخاری، کتاب الرقاق، باب فی الحوض (6582)۔

ان اوپر بیان کی گئی احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ بدعتی لوگ (جو لوگ دین میں ثواب کی خاطر نئے کام ایجاد کریں) حوض کوثر کے پانی سے محروم رہیں گے- بدعت ایسا قبیح گناہ لے کہ اس سے توبہ بھی انتہائی مشکل ہے کیونکہ انسان اسے برا سمجھ کر نہیں بلکہ نیک اورباعث اجر و ثواب سمجھ کر بجا لاتا ہے- نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:۔
**من احدث فی امرنا ھذا ما لیس فیہ فھو رد**
" جس نے ہمارے اس معاملے (دین) میں کوئی ایسا کام ایجاد کیا جو اس میں نہیں تھا تو وہ مردود ہے-"۔
(صحیح بخاری، کتاب الصلح، باب اذا اصطلحوا علی صلح جور-)
 

mrlalamusa

MPA (400+ posts)
index.php
index.php
index.php
index.php
index.php
index.php
index.php
index.php
کوئی بدعت "حسنہ" نہیں ہوتی

عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے اپنے دور خلافت میں لوگوں کو تراویح کے لئے جمع کیا تھا اور پھر فرمایا تھا:۔
(نِعْمَتِ الْبِدْعَةُ ھٰذِہِ)یہ کتنی اچھی بدعت ہے! (بخاری)


عمر رضی اللہ عنہ کا یہ قول شریعت کے اندر بدعت حسنہ کی دلیل نہیں بن سکتا، کیونکہ یہاں انھوں نے اس کا لغوی مفہوم مراد لیا ہے۔ اس لئے کہ یہ عمل ہر اعتبار سے سنت تھا:
خود قیام رمضان سنت ہے۔آپ ۖ نے اس کی ترغیب فرمائی ہے۔آپ نے فرمایا ہے

مَنْ قَامَ رَمَضَانَ ِیْمَاناً وَّاحْتِسَاباً غُفِرَ لَہُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِہِ (بخاری)
**جس نے ایمان کے ساتھ اور حصول ثواب کی نیت سے رمضان کا قیام کیا(تراویح پڑھی)اس کے تمام پچھلے گناہ بخش دیئے جائیں گے**۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ کو کئی راتیں باجماعت تراویح پڑھائی، جب لوگوں کی تعداد کافی بڑھ گئی تو آپ اس اندیشہ کی وجہ سے کہ کہیں اسے فرض نہ کردیا جائے لوگوں کی طرف نکلنے سے باز رہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات تک معاملہ اسی پر باقی رہا۔ (ملاحظہ ہو بخاری شریف)۔
جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوگئی،اور وحی کے بند ہوجانے کی وجہ سے اس کے فرض کردیئے جانے کا اندیشہ ختم ہوگیا، تو عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے اپنے عہد خلافت میں لوگوں کو ایک امام پر جمع کردیا، اور اس بات پر صحابہ کا اجماع ہوگیا۔
٭نیز یہ بات بھی ملحوظ رہے کہ یہ ایک خلیفۂ راشد کی سنت ہے جن کی اتباع کا ہمیں حکم دیا گیا ہے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:۔
فَعَلَیْکُمْ بِسُنَّتِْ وَسُنَّةِ الْخُلَفَائِ الرَّاشِدِیْنَ الْمَہْدِیِّیْنَ مِنْ بَعْدِْ
(مسند احمدو،ترمذی)

آپ بدعت کی تعریف پوری لکھ کر امانت کا ثبوت دے دیں
اللہ کریم آپ کو دین کی سمجھ عطا فرمائے

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:۔
"میں حوض کوثر پر تمہارا انتظار اور بندوبست کروں گا اور ضرور بالضرور تم میں سے کچھ لوگ دکھانے کے لیے ظاہر کیے جائيں گے- پھر ضرور انہیں مجھ سے دور کھینچ لیا جائے گا- میں کہوں گا، میرے پروردگار! میرے ساتھی ہیں- کہا جائے گا، بےشک آپ نہیں جانتے جو انہوں نے آپ کے بعد نئے کام ایجاد کرلیے تھے (یعنی دین میں بدعات کو رواج دیا تھا)۔
بخاری، کتاب الرقاق، باب فی الحوض (6576)۔

انس رضی اللہ عنہ نے حدیث بیان کی کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:۔
حوض پر میرے ساتھیوں (مسلمانوں) میں سے کچھ لوگ صرف میرے پاس پانی پینے کے لیے آئيں گے حتی کہ جب میں انہیں پہچان لوں گا تو مجھہ سے دور کھینچ لیے جائيں گے- میں کہوں گا، میرے ساتھی (مسلمان )ہیں- اللہ فرمائے گا آپ نہیں جانتے جو انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے (وفات کے) بعد دین میں نئے کام ایجاد کرلیے تھے۔
بخاری، کتاب الرقاق، باب فی الحوض (6582)۔

ان اوپر بیان کی گئی احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ بدعتی لوگ (جو لوگ دین میں ثواب کی خاطر نئے کام ایجاد کریں) حوض کوثر کے پانی سے محروم رہیں گے- بدعت ایسا قبیح گناہ لے کہ اس سے توبہ بھی انتہائی مشکل ہے کیونکہ انسان اسے برا سمجھ کر نہیں بلکہ نیک اورباعث اجر و ثواب سمجھ کر بجا لاتا ہے- نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:۔
**من احدث فی امرنا ھذا ما لیس فیہ فھو رد**
" جس نے ہمارے اس معاملے (دین) میں کوئی ایسا کام ایجاد کیا جو اس میں نہیں تھا تو وہ مردود ہے-"۔
(صحیح بخاری، کتاب الصلح، باب اذا اصطلحوا علی صلح جور-)
 

Amal

Chief Minister (5k+ posts)
روز جمعہ بھی عید ہے، بعض لوگ جمعہ مبارک بھی کہہ دیتے ہیں، اب یار لوگوں کے ہاں جمعہ کو مبارک کہنے کی دلیل موجود نہیں، اس لیے جمعہ مبارک کہنا بدعت ہے، یہی نہیں اللہ کو خدا کہنے سے بھی شرک کی بو آتی ہے کیونکہ خدا فارسی کا لفظ ہے اور بالیقین اس دور میں مستعمل نہیں تھا، اب بندہ کہاں تک شرک و بدعت سے دامن چھڑائے، یا پھر ایسی سوچ سے ہی دامن چھڑائے

کیا خیال ہے؟

حضرت آدم علیہ السلام کی حیات و ممات کا دن جمعہ ٹھہرا، اب ایسے دن کو عید کہنا کیونکر روا ہوا؟





اس سوچ سے دامن چھڑانے والے اس وقت کی تیاری بھی کرلیں

حضرت عبداللّٰہ بن مسعود رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے کہ..نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا
''میں حوضِ کوثر پر تم لوگوں کا پیش خیمہ ہوں گا اور تم میں سے کچھ لوگ میری طرف آئیں گےجب میں انہیں (حوض کاپانی) دینے کیلئے جھکوں گا توانہیں میرے سامنے سے کھینچ لیاجائے گا۔ میں کہونگا اے میرے رب ! یہ تو میری امت کے لوگ ہیں۔ اللّٰہ تعالٰی فرمائے گا آپ کو معلوم نہیں کہ آپ کےبعد دین میں کیا نئ باتیں نکال لیں تھیں.
(صحیح البخاری۔ حدیث نمبر۔7049) جلد- 8
 

Conservative liberal

Senator (1k+ posts)
i like the discussion here but what I completely dislike is the fact that you both are saying to each other

[FONT=&quot]اللہ کریم آپ کو دین کی سمجھ عطا فرمائے[/FONT]
[FONT=&quot]آمین ۔۔۔۔۔۔۔۔

[/FONT]
what about your own self? is m apko ki bajae hume samajh nahe hona chaheye? kiya ap samjhte hain k apko deen ki sahi samajh hai aur dosre bandey ko nahe? Very strange![FONT=&quot]

[/FONT]
 

Kavalier

Chief Minister (5k+ posts)
Lagay raho bus chwalon ki trha, aisi behas banda tab karay jab society mayn har taraf sukh, sakoon aur khushhali ho, har bnda apnay zimmay haqooq ul ebad pooray kar raha ho aur kisi kisam ki khayanat ka khayal bhi dil mayn na ho..... baqi kuch karna nahi bus tamam behas aisay bay-matlab topics pay karni hay k jesay Darhi kitni honi chayey, Biddat kiya hay, hath khol k namaaz parhay ya nahi ya aisay hi aur fazool topics..... bahi apka aqeeda apkay aamal say wazeh hota hay nakay symbols say....
 

Veila Mast

Senator (1k+ posts)
اس سوچ سے دامن چھڑانے والے اس وقت کی تیاری بھی کرلیں

حضرت عبداللّٰہ بن مسعود رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے کہ..نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا
''میں حوضِ کوثر پر تم لوگوں کا پیش خیمہ ہوں گا اور تم میں سے کچھ لوگ میری طرف آئیں گےجب میں انہیں (حوض کاپانی) دینے کیلئے جھکوں گا توانہیں میرے سامنے سے کھینچ لیاجائے گا۔ میں کہونگا اے میرے رب ! یہ تو میری امت کے لوگ ہیں۔ اللّٰہ تعالٰی فرمائے گا آپ کو معلوم نہیں کہ آپ کےبعد دین میں کیا نئ باتیں نکال لیں تھیں.
(صحیح البخاری۔ حدیث نمبر۔7049) جلد- 8

اس حدیث کا متن بھی ساتھ ہو جاتا تو کیا ہی بات ہوتی، خان سلطان کو بھی ایک موقع مل جاتا، کیا خیال ہے؟

اس حدیث کی اپنی اپنی تشریحات ہیں، اسی حدیث سے آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے علم غیب کی نفی پر دلیل لاتے ہیں، اہل تشیع صحابہ رضوان اللہ تعالیٰ اجمعین کی معاذ اللہ گمراہی پر دلیل لاتے ہیں

رہی بات ترجمے کی، حضرت عمر رضی اللہ عنہ ایمان لائے تو اللہ نے فرمایا جس کا مفہوم یوں کہ اے نبی نا صرف تجھے اللہ کافی ہے بلکہ یہ لوگ جو تیرے پیرو ہوئے، آپ نے اس کا ترجمہ یوں کر ڈالا، اللہ تجھے بھی کافی ہے اور ان لوگوں کو بھی جو تیرے پیرو ہوئے

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نور پر ثبوت کو مصننف عبدالرزاق کی حدیث، مگر جس باب میں یہ حدیث رقم تھی وہ پورا باب ہی مصننف عبدالرزاق سے اڑا دیا اور اسے حکومت کے خرچے پر چھاپا

نور و بشر دو مختلف صفات ہیں، مخالف صفات نہیں، مخالف یکجا نہیں ہو سکتی، مختلف یک جا ہو سکتی ہیں، دن اور رات مخالف ہیں یہ یکجا نہیں ہو سکتی، رات ہونا اور خنکی ہونا یہ مختلف صفات ہیں اور یکجا ہو سکتی ہیں، آپ نے اس قدر ابہام پیدا کیا کہ اہل سنت پر الزام داغا کہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بشر ہی نہیں مانتے، اور نور کی مخالفت پر آپ ہمیشہ وہ آیتیں لائے جو بشر ہونے پر تھیں، حالانکہ ہمارا عقیدہ نور و بشر دونوں کا ہے اور یہ دونوں مختلف صفات ہیں مخالف نہیں، مثال دے چکا کہ مخالف اور مختلف میں کیا فرق ہے

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وسیلے پر بات ہو تو آپ پہلے تو منکر ہو جاتے ہیں پھر زندہ و مردہ کی تقسیم کرتے ہیں، کسی ایک قرآن کی آیت سے ثابت کریں کہ زندہ کا وسیلہ تو جائز ہے مگر جو اس دنیا سے گزر گئے جنہیں آپ مردہ کہتے ہیں ان کا وسیلہ جائز نہیں

آپ اپنے موقف کو آیات لاتے ہیں تو وہی جن کے متعلق امام بخاری نے عبداللہ ابن عمر سے نقل کیا کہ بتوں والی آیات مسلمانوں پر چسپاں کرتے ہیں، رہی بات باپ دادا کی تو باپ دادا اچھے ہوں تو سارے ان کی پیروی کرتے ہیں، آپ باب دادا کی بات کرتے ہیں تو وہاں اللہ نے مشرک باپ دادوں کی نفی کی ہے جبکہ اسی قرآن میں حضرت یعقوب علیہ السلام کا قول درج ہے جب وہ فوت ہو رہے تھے تو اپنے بیٹوں سے پوچھا کہ کس پر ایمان لاو گے تو بیٹوں نے فرمایا جو تیرا دین ہے جو تیرے جد کا دین ہے

رہی بات وسیلے کی، سورت بقرہ میں موجود ہے کہ یہود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریف آوری سے پہلے ہی آپ کے وسیلے سے دعائیں کرتے تھے، کیا قرآن آپ نے نہیں پڑھا؟

حکومت مل جانے سے عقیدے نہیں بدلتے، اہل سننت کا چودہ سو سال کا ایک ہی عقیدہ ہے اور اس میں رد و بدل نہیں ہوئی، آپ کو یہ غلط فہمی ہوئی ہے کہ اہل سنت نے عقائد میں رد و بدل کی ہے

فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے، اللہ میری امت کو گمراہی پر جمع نہیں کر سکتا، آج الحمد للہ ساری دنیا میں میلاد مبارک منایا جاتا ہے بشمول حجاز مقدس میں اور یہ حدیث دال ہے

حشر تک ڈالیں گے ہم پیدائش مولا کی دھوم
مثل فارس نجد کے قلعے گراتے جائیں گے
 

Back
Top