پیر, 10 جنوری 2011 14:23 ثروت جمال اصمعی
جاہل اور وحشی کہلانے والے چنگیز ی لشکروں نے اگر آج سے صدیوں پہلے بغداد کے کتب خانوں کو جلاکر راکھ کردیا تھا تو دنیا میں علم و ہنر کی روشنی پھیلانے کے دعویدار تہذیب جدید کے امام بھی ان سے پیچھے نہیں بلکہ دو قدم آگے ہی ہیں۔ عراق پر امریکا اور اس کے اتحادی مغربی ملکوں کے قبضے کے فوراً بعد، کتابوں ہی کو نہیں، کتابیں لکھنے اور کتابیں پڑھانے والوں کو بھی صفحہ ہستی سے مٹانے کا ایک نہایت منظم سلسلہ شروع ہوا جو اَب تک جاری ہے۔ پچھلے سات سال میں عراقی یونیورسٹیوں کے سینکڑوں پروفیسر صاحبان اس کا نشانہ بن چکے ہیں اور ہزاروں خوف زدہ ہوکر بیرون ملک جاچکے ہیں، مگر اس علم دشمن مہم کی تفصیلات بہت کم ہی سامنے آئی ہیں۔ بروسلز ٹریبونل نامی ادارے کی ویب سائٹ پر دنیائے دانش کے ان ڈبو دیے جانے والے ستاروں کی ایک فہرست موجود ہے جسے حتمی تو نہیں کہا جاسکتا مگر اس میں پچھلے سال کے اواخر تک تمام دستیاب معلومات کا احاطہ کیا گیا ہے ۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ گزشتہ سال یعنی2010ء میں بھی مختلف عراقی یونیورسٹیوں کے گیارہ پروفیسر نامعلوم قاتلوں کا نشانہ بنے۔اس قتل عام کو فرقہ واریت سے نہیں جوڑا جاسکتا۔ عراق پر غاصبانہ قبضہ کرنے والی استعماری طاقتوں کی جانب سے ان واقعات کی روک تھام کی کوئی کوشش کی گئی نہ ان کے ذمہ داروں کو سامنے لانے کی ۔ عراق کی اصل مقتدر قوتوں کا یہ رویہ اس شبہ کی پوری گنجائش فراہم کرتا ہے کہ علم دشمنی کی یہ مہم ان کی مرضی اور منشاء کے مطابق بلکہ ممکنہ طور پر ان ہی کی خفیہ ایجنسیوں کے ہاتھوں چل رہی ہے۔
مغرب کے مین اسٹریم میڈیا میں تو اہل علم و دانش کے اس قتل عام کا کوئی خاص ذکر نہیں ہوا کیونکہ اس کا رویہ عموماً سرکاری پالیسیوں کے تابع ہوتا ہے،تاہم مغرب کے باضمیر اور انصاف پسند اہل قلم نے جس طرح نائن الیون کی حقیقت سمیت افغانستان اور عراق کے خلاف جھوٹے الزامات کی بنیاد پر سراسر ناجائز فوجی کارروائی کے بہت سے گوشے بے نقاب کیے ہیں ، اسی طرح وہ عراق میں ہونے والے اہل علم کے اس قتل عام کے حقائق کو بھی منظر عام پر لانے کے لیے کوشاں ہیں۔ وکی لیکس کے حالیہ انکشافات نے بھی اس موضوع کو ازسرنو گرم کردیاہے۔فارن پالیسی اِن فوکس نامی ایک آزاداور ممتاز امریکی تحقیقی ادارے کی ایک تازہ رپورٹ کے مطابق اعلیٰ تعلیمی اداروں کے اساتذہ کے اس قتل عام کے بارے میں سب سے پہلے اپریل 2004ء میں عراقی ایسوسی ایشن آف یونیورسٹی ٹیچرز کی جانب سے یہ انکشاف کیا گیا کہ امریکی حملے کے بعد سے ایک سال کی مدت میں متعدد جامعات کی مختلف فیکلٹیوں کے سربراہوں سمیت ڈھائی سو سے زیادہ اساتذہ قتل کیے جاچکے ہیں۔برطانیہ کی ٹائمز ہائر ایجوکیشن نامی تنظیم کی ویب سائٹ پر دس ستمبر 2004ء کی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ عراق کے لوگ قتل کی ان وارداتوں کے محرکات واضح نہیں کرسکتے جن میں بڑا تناسب عمرانی علوم کی فیکلٹیوں کے ارکان کا ہے۔ بغداد یونیورسٹی میں جیالوجی کے ایک سابق استاد ساحل السِنَوی نے حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ عراقی سائنسدانوں کو تو دھمکیاں ملا کرتی تھیں مگر سمجھ میں نہیں آتا کہ لسانیات کے اساتذہ کو کیوں قتل کیا جارہا ہے؟ ممتاز برطانوی صحافی رابرٹ فسک نے 2004ء کے اوائل ہی میں عراقی اساتذہ کے قتل عام کی جانب توجہ دلائی تھی مگر مغربی خصوصاً امریکی میڈیا نے اس کاکوئی قابل ذکر نوٹس نہیں لیا۔ تاہم سات دسمبر 2006ء کو ایک معروف برطانوی روزنامے نے Iraq's universities are in meltdown کے عنوان سے شائع کی گئی رپورٹ میں بتایا کہ امریکی حملے کے بعد ساڑھے تین سال کی مدت میں 470 یونیورسٹی اساتذہ قتل کیے جاچکے ہیں۔جبکہ برطانیہ ہی کے ایک اور ممتاز اخبار نے بارہ دسمبر 2006ء کو Professors in penury کے عنوان سے اسی موضوع پر رپورٹ شائع کی ۔ اس کی ذیلی سرخی کے الفاظ تھے اساتذہ عراق میں یقینی موت سے بچنے کے لیے فرار پر مجبور ہیں مگر برطانیہ میں انہیں انتہائی غیریقینی زندگی کا سامنا ہے۔ رپورٹ میں انکشاف کیا گیا تھا کہ صرف بغداد اور بصرہ کی یونیورسٹیوں کے پانچ سو کے قریب اساتذہ قتل کیے جاچکے ہیں۔عراق میں ثقافتی صفایا (Cultural Cleansing in Iraq) نامی کتاب کے مطابق( جس میں عراقی لائبریریوں کے نذر آتش کیے جانے، عجائب گھروں کے لوٹے جانے اور اہل علم کے قتل کیے جانے کی روح فرسا تفصیلات بیان کی گئی ہیں) مقتول اساتذہ میں سے 57 فی صد کا تعلق بغداد یونیورسٹی اور 14فی صد کا بصرہ یونیورسٹی سے تھا جبکہ 35فی صد اساتذہ سیکوریٹی فورسز کے ہاتھوں گرفتار یا اغواء ہونے کے بعد دوران حراست ہلاک ہوئے۔قتل ہونے والے اساتذہ میں سے44 فی صد دستی بندوقوں یا خودکار ہتھیاروں کے ذریعے ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنائے گئے۔
فارن پالیسی ان فوکس کی رپورٹ میں اس نہایت معنی خیز بات کی نشان دہی بھی کی گئی ہے کہ ان اساتذہ کے قتل کی نہ کسی نے ذمہ داری قبول کی نہ اس سلسلے میں کوئی گرفتاری عمل میں آئی۔عراق کے لوگ مارے جانے والوں سے تو براہ راست واقف ہیں مگر مارنے والوں کو کوئی نہیں جانتا۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اساتذہ کے قتل عام کی اس منظم مہم کے ساتھ ساتھ پوری اساتذہ برادری کو قتل کی دھمکیوں کی وجہ سے ہزاروں عراقی اساتذہ اپنا وطن چھوڑ چکے ہیں۔ پوری دنیا کے لوگ یہ بھی جانتے ہیں کہ ایسی کوئی سنجیدہ اورشفاف تحقیقات کبھی نہیں کرائی جائے گی کیونکہ انسانیت کے خلاف اس جرم میں اگر عراق پر قابض غاصب قوتیں خود شریک نہ ہوتیں تو یہ سلسلہ یوں بے روک ٹوک جاری ہی کیوں رہتا، اور یقینا یہی رویہ آج کے دور میں ہلاکو اور چنگیز کی یاد تازہ کردینے والی طاقتوں کے انسانیت سوز جرائم کا سب سے بڑا اور یقینی ثبوت ہے۔
بشکریہ روزنامہ جنگ
 
بیت المقدس کسی ایوبی کے انتظار میں


آج جس فلسطین کیلیے خیر و شر اور حق و باطل کی قوتیں باہم ستیزہ کار ہیں یہ کوئی نئی بات نہیں ہے ۔اس مقدس شہر کی تاریخ ایسی ہنگامہ آرائی اور معرکہ خیزیوں سے بھری پڑی ہے جس میں تین آسمانی مذاہب کے مقدس مقامات و آثار پائے جاتے ہیں ۔اسی متبرک سرزمین کی بابت اس کے صحیح حقداروں اور اس کے جھوٹے دعویداروں کے درمیان ایک مستقل آویزش اور کشمکش چل رہی ہے
طاغوتی قوتیں شب و روز اسے نقصان پہنچانے پر تلی ہوئی ہیں ۔انہوں نے اسرائیل کو اپنا آلہ کاربنا کر اسلام کی مقدس ترین مسجد مسجد اقصیٰ کو نذر آتش کیا جس کا مقصد سوائے اس کے اور کچھ بھی نہیں کہ بتدریج اس مقدس سرزمین سے مسلمانوں اور اسلام کا نام و نشان مٹا دیا جائے۔
اس مقدس سرزمین کا تعارف بیان کرتے ہوئے فاتح اعظم سلطان صلاح الدین ایوبی اپنے سپاہیوں سے کہتے ہیں : "ا ے میرے رفیقو16ہجری کا ربیع الاول یاد کرو جب عمربن العاص اور ان کے ساتھیوں نے بیت المقدس کو کفار سے آزاد کرایا تھا ۔ حضرت عمر اس وقت خلیفہ تھے وہ بیت المقدس گئے۔ حصرت بلال رضی اللہ تعالی عنہ ان کے ساتھ تھے۔ حصرت بلال رضی اللہ تعالی عنہ حضورۖ کی وفات کے بعد ایسے خاموش ہوئے تھے کہ لوگ ان کی پرسوز آواز کو ترس گئے تھے۔انہوں نے اذان دینی چھوڑ دی تھی مگر مسجد اقصیٰ میں آ کر حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے انہیں کہا کہ بلال رضی اللہ تعالی عنہ !مسجد اقصیٰ اور بیت المقدس کے درودیوار نے بڑی لمبی مدت سے اذان نہیں سنی۔ آزادی کی پہلی اذان تم نہیں دو گے؟حضوراکرم ۖ کی و فات کے بعد پہلی بار حضرب بلال رضی اللہ تعالی عنہ نے پہلی بار اذان دی اور جب انہوں نے کہا کہ اشہدان محمد رسول اللہ۔ تو مسجد اقصیٰ میں سب کی دھاڑیں نکل گئیں۔
ہمارے دور میں مسجد اقصیٰ اذان کو ترس رہی ہے ۔ نوے برس سے اس مسجد کے دو و دیوار کسی موذن کی راہ دیکھ رہے ہیں ۔ یاد رکھو۔ مسجد اقصیٰ کی اذانیں ساری دنیا میں سنائی دیتی ہیں ۔صلیبی ان اذانوں کا گلہ گھونٹ رہے ہیں ، اس عظیم مقصد کو سامنے رکھو۔ہم کوئی عام سی جنگ لڑنے نہیں جا رہے ہیں ہم اپنے خون سے تاریخ کا وہ باب پھر لکھنے جار ہے ہیں جو عمربن العاص رضی اللہ تعالی عنہ اور ان کے ساتھیوں نے لکھا تھا اور ان کے بعد آنے والوں نے اس درخشان باب پر سیاہی پھیر دی تھی۔اگر چاہتے ہو کہ خدا کے حضور ماتھے پر روشنی لے کر جاو اور اگر چاہتے ہو کہ آنے والی نسلیں تمہاری قبروں پر آ کر پھول چڑھایا کریں تو تمہیں بیت المقدس میں یہ منبر رکھنا ہو گا جو بیس سال گزرنے نورالدین زنگیورحمتہ اللہ مغفور نے وہاں رکھنے کیلیے بنوایا تھا۔بیت المقدس آج بھی ایک بہترین یادگار کے طور پر موجود ہے ۔ قرون اولیٰ میں بھی وہ ایک قدیم شہر تھا ۔ یہاں حضرت داؤد علیہ السلام کی محراب اور حصرت سلیمان علیہ السلام کا تخت تھا۔اس میں وہ عظیم مسجد بھی تھی جس کا ذکر قرآن مجید میں موجود ہے جس میں امام الانبیاء ۖ اس رات کو تشریف لے گئے جس رات کو معراج ہوئی تھی۔اس مسجد کا نام مسجد اقصیٰ (بیت المقدس)ہے ۔ جہاں رسول اللہۖ نے تمام پیغمبروں کی امامت فرمائی۔اللہ رب العزت قرآن کریم میں اس واقعے کو اس طرح بیان فرما تا ہے : پاکی ہے اسے جو اپنے بندے کو راتوں رات لے گیا ، مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک ۔ آج اسی بیت المقدس پر یہودی قابض ہیں ، مسجداقصیٰ کے دروازے مسلمانوں کیلیے بند ہیں ۔ محراب و مبنر کی بے حرمتی ہو رہی ہے ۔ مقامات مقدس کا احترام ختم ہو چکا ہے ۔ بیت المقدس کے صحن میں ظالم یہودی خون خرابہ کر رہے ہیں ۔ مسلمانوں کے قبلہ اول میں داخل ہونے والے مسلمانوں کو گولیوں سے چھلنی کر دیا جاتا ہے اور آج فلسطین ، بیت المقدس کے درودیوار ایک نئے صلاح الدین ایوبی کا انتظار کر رہے ہیں ۔
بیت المقدس کو یہودیو ں کے ناپاک تسلط سے رہا کرنے کیلیے حضرت خالد بن ولیدنے سب سے پہلے جنگ کی تھی۔یہ جنگ آج بھی جاری ہے اور اس وقت تک جاری رہے گی جب تک دنیا سے ظلم و ستم اور بے انصافی کا خاتمہ نہیں ہو جاتا۔الحاد اور بے دینی ختم نہ ہو جائے گی اور طاغوتی طاقتیں اپنی شکست تسلیم نہ کر لیں گی۔آخر فلسطینیوں کا صبر و تحمل ، ایثار و قربانی رنگ لایااور فلسطین سے ناپاک یہودی بستیوں کا اجاڑااور یہودیوں کا انخلا شروع ہو گیا ہے ۔فلسطینیوں کی جس زمین پر یہودی اپنا پیدائشی دعوی سمجھتے تھے اب اس زمین سے خود اسرائیل کی فوجیں ہی انہیں نکال رہی ہیں ۔
اسرائیل نے غزہ پر قبضہ کیا تھا مگر اب جو وہاں حالات ہیں اس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ایک سو چالیس کلومیٹر کے اس علاقے میں نو ہزار یہودی اکیس بستیوں میں آباد تھے ۔ یہ یہووی بستیاں تیرافلسطینیوں کی گنجان آباد علاقوں میں گھری ہوئی تھی۔ وہ فلسطین جس کا ذکر قرآن میں موجود ہے وہاں سے یہودیوں کے انخلاء سے پہلے امریکی وبرطانوی صدرنے کہا تھا کہ فلسطین یہودیوں کا ہی علاقہ ہے انہیں وہاں سے نکالا نہیں جا سکتا۔
یہ بیان بالکل ایسے ہی کہ جب 27اگست 1897کو سوئٹزلینڈ کے شہر سبیل میں یہودیوں کا پہلا اجلاس ہوا تھا جس میں مختلف ممالک کے یہودیوں نے شرکت کی تھی۔اس کانفرنس میں یہ طے کیا گیا تھا کہ فلسطین کو یہودیوں کا وطن بنایا جائے یہ تحریک ناکام ہو گئی۔ 1902میں ڈاکٹر تھیوردورہزل کا انتقال ہوا اپنی وفات سے قبل وہ یہود نوآبادیاتی بنک اور یہودی بیت المال قائم کر گیا۔ان اداروں نے بعد میں یہود کے لیے فلسطین میں زمین کی خریداری اور نوآبادیوں کی تعمیر میں اہم رول ادا کیا اور سالانہ خرچ دیا کرتے ہیں ۔
یہودیوں کی صہیونیت اور عیسائیوں کی صلیبیت یا امریکا کی سی آئی اے اور اسرائیل کی موساد کے درمیان ایک عملی یا خاموش معاہدہ ہے کہ اپنے تاریخی اختلافات سے قطع نظر کرتے ہوئے اور ملکی مفادات کو ایک حد تک نظر انداز کرتے ہوئے ہمیں اس وقت صرف اور صرف عالم اسلام کو نشانہ بنانا ہے ۔ قرآن کو مشق ستم بنایا ہے ، مسلمانوں کا خائف اور مرعوب کرنا ہے۔افغانوں کی غیر ت ملی کو کچلنا ہے، عراقیوں کی حمیت قومی کو خاک میں ملانا ہے۔ فلسطینیوں کو یہودیوں سے لڑا کر فلسطین کو یہودیوں کے حوالے کرنا ہے۔عربوں کی توہین و تذلیل کرنی ہے اور جس طرح بھی ہو سکے سارے عالم اسلام کو سرنگوں کر کے شوکت اسلام کا جنازہ نکال دینا ہے۔
کبھی آپ نے سوچا کہ آخر غزہ کی پٹی سے یہودیوں کا انخلا کیوں ہو ا ہے۔اس کا جواب اس کے علاوہ کچھ اور نہیں ہو سکتا کہ اسرائیل امریکا نے کوئی چال چلی ہو گی کہ اس انخلاء کے بعد فلسطینیوں کو آرام سے ان کے علاقوں سے نکالا جا سکتا ہے۔اپنے ساتھیوں کونکال دینے کے بعد وہاں سے ان کا صفایا ہو جائے گاجس سے اگر ہم ان سے لڑیں تو اپنے ساتھیوں کی بستیاں اور یہودیوں پر کوئی آنچ نہ آئے۔اس انخلاء کے پیچھے کیا چھپا ہے اور اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ امن یا دہشت گردی۔۔۔۔۔

بشکریہ اعتماد
 
خواص اور عوام

ہمارے دور میں اسلام کے حوالے سے عوام کی بے عملی کی کئی وجوہ ہیں۔ مثلاً ایک وجہ یہ ہے کہ عوام اسلام کا علم ہی نہیں رکھتے۔ چونکہ ان کا علم ناقص ہے اس لیے ان کا عمل بھی ناقص ہے۔ اصول ہے کہ جیسا جس کا علم ہوتا ہے ویسا ہی اس کا عمل ہوتا ہے۔ عوام کی بے عملی کی ایک اور وجہ یہ ہے کہ ان کے ماحول میں تربیت کی کمی ہے۔ کسی زمانے میں گھر تربیت کا سب سے بڑا ادارہ تھا، مگر اب گھروں کا تربیتی نظام کمزور پڑ گیا ہے۔ تربیت کا دوسرا اہم ادارہ مدرسہ، خانقاہ اور اسکول تھا، لیکن یہ ادارے بھی اب تربیت کی فراہمی کے موثر وسیلے نہیں رہے۔ لیکن عوام کی بے عملی کا اہم پہلو خواص کا فکر و عمل ہے۔
تاریخ کا مطالعہ بتاتا ہے کہ خواص جب عزیمت کی راہ اختیار کرتے ہیں تو عوام رخصت کو بسر کرتے ہیں۔ لیکن جب خواص عزیمت کو ترک کرکے رخصت پر آجاتے ہیں تو عوام میں بے عملی کا مرض درآتا ہے۔ اس بات کو اس طرح سمجھیے کہ عزیمت اسلام پر سو فیصد عمل کا نام ہے اور رخصت 50 فیصد عمل کا نام۔ خواص جب اسلام پر سو فیصد عمل کرتے ہیں تب عوام اسلام پر 50 فیصد عمل کرتے ہیں، لیکن جب خواص خود 50 فیصد عمل پر آجاتے ہیں تو عوام کا عمل پانچ دس فیصد پر آجاتا ہے، اور یہی عوام کی بے عملی ہوتی ہے۔ لیکن یہاں سوال یہ ہے کہ خواص اور عوام کے درمیان تعلق کی یہ نوعیت کیوں ہے؟
اس سوال کا ایک جواب یہ ہے کہ خواص عوام کے امکانات کا دوسرا نام ہیں۔ عوام کو عوام کہا ہی اس لیے جاتا ہے کہ وہ نہ ازخود کچھ سوچتے ہیں نہ عمل کرتے ہیں۔ خواص سوچتے اور عمل کرتے ہیں تو عوام اپنی گنجائش کے مطابق اس کی تقلید کرتے ہیں۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو خواص عوام کے امکانات ہی نہیں ان کی قوت ِمحرکہ بھی ہوتے ہیں۔ خواص اور عوام کے تعلق کو واضح کرنے کے لیے یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ خواص عوام کا آئینہ ہوتے ہیں۔ عوام خواص میں اپنا عکس دیکھتے ہیں۔ آئینہ جتنا شفاف ہوتا ہے عکس بھی اتنا ہی عیاں ہوتا ہے۔ آئینہ دھندلا ہو تو عکس بھی مسخ ہوجاتا ہے۔ بڑے آدمیوں کی ایک پہچان یہ ہوتی ہے کہ وہ چھوٹوں کو بھی بڑا بنادیتے ہیں۔ بڑے لوگ کلام کرتے ہیں تو گونگوں کو زبان مل جاتی ہے۔ بڑے لوگ تاریخ کے آرپار دیکھتے ہیں تو اندھوں کو بینائی عطا ہوجاتی ہے۔لیکن سوال تو یہ بھی ہے کہ خواص عزیمت ترک کرکے رخصت کیوں اختیار کرلیتے ہیں؟
اسلامی تاریخ و تہذیب کے تناظر میں اس سوال کا جواب یہ ہے کہ خواص کے لیے کسی نہ کسی درجے میں دنیا نقد اور آخرت ادھار ہوجاتی ہے۔ یعنی آخرت انہیں کچھ نہ کچھ غیر حقیقی اور دنیا زیادہ حقیقی لگنے لگتی ہے۔ آخرت میں ان کا حصہ کم ہوجاتا ہے اور دنیا میں ان کا حصہ بڑھ جاتا ہے۔ یہ صورت ِ حال نہ صرف یہ کہ عزیمت کو مشکل بنا دیتی ہے بلکہ اس سے ان کے اخلاق و کردار اور ان کے فکر و عمل پر بھی گہرا اثر پڑتا ہے۔ انہیں زندگی سے محبت اور موت سے کراہیت محسوس ہونے لگتی ہے۔ چنانچہ وہ خواص رہتے ہوئے عام بن جاتے ہیں۔ ان کی شخصیت اکائی سے محروم ہوجاتی ہے اور دو نیم ہوجاتی ہے، جس سے ان کے فکر و عمل میں تضادات ابھرنے لگتے ہیں۔ وہ کہتے کچھ ہیں اور کرتے کچھ اور ہیں۔ اس صورت سے ان کی اثر پذیری کم ہونے لگتی ہے۔ ان کے فکر و عمل کے تضادات خیر پر عوام کے یقین کو کمزور کرنے لگتے ہیں۔
ایمان اور یقین کی کمزوری ایک سنگین نفسیاتی مسئلے کو جنم دیتی ہے۔ انسان کو اپنا خیال عمل کا نعم البدل محسوس ہونے لگتا ہے۔ یعنی انسان صرف سوچتا ہے مگر اسے لگتا ہے کہ اس نے صرف سوچا نہیں ہے، عمل کیا ہے۔ علما، دانش وروں اور سیاسی رہنماﺅں میں جو لوگ فنِ خطابت میں ماہر ہوتے ہیں اُن کے لیے گفتگو کا جوش اور گرمی قول کو فعل کا زیادہ حقیقی نعم البدل بنادیتے ہیں۔ وہ رخصت کے دائرے میں ہوتے ہیں لیکن گفتگو کا جوش انہیں عزیمت کا لطف دے رہا ہوتا ہے۔ یہ خودفریبی کی ایک صورت ہوتی ہے مگر عوام تک غیر محسوس انداز میں اصل حقیقت کا ابلاغ ہوجاتا ہے اور ان کے کردار و عمل میں تغیر رونما ہوجاتا ہے۔
عزیمت عشق کا راستہ ہے اور عشق میں دلیلوں کی ضرورت نہیں ہوتی۔ رخصت سمجھوتے کا راستہ ہے اور سمجھوتہ اپنے جواز کے لیے دلائل کا محتاج ہوتا ہے۔ تاریخ میں کبھی کبھی یہ بھی ہوا ہے کہ دلائل کی عدم موجودگی ایک کام کی اہمیت کو کم باور کراتی ہے اور دوسری جگہ دلائل کی فراوانی کام کی اہمیت کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتی ہے اور انسان تعقل کے زیراثر آجاتا ہے۔
خواص اور عوام کے اس تعلق کا ایک اہم گوشہ یہ ہے کہ خواص عزیمت کی راہ ترک کرکے رخصت اختیار کرلیتے ہیں، مگر وہ اس کا اعتراف نہیں کرتے، جس سے صورت ِ حال نہ صرف یہ کہ مبہم ہوجاتی ہے بلکہ کافی عرصے تک جاری رہتی ہے، جس سے عوام میں دین کے حوالے سے بے عملی بڑھتی چلی جاتی ہے۔ ہمارے عہد میں بھی یہی ہورہا ہے۔ خواص کو ساری خرابیاں اور برائیاں عوام میں نظر آرہی ہیں، یہاں تک کہ انہوں نے اپنی خامیاں بھی عوام سے منسوب کردی ہیں۔ یہ خواص اور عوام کے تعلق کو سر کے بل کھڑا کردینے کی ایک صورت ہے۔ خواص اگر اپنی کمزوریوں کا اعتراف کرلیں تو وہ نہ صرف یہ کہ خواص الخواص بن سکتے ہیں بلکہ دین پر عوام کی بے عملی یا کم عملی کا بھی ازالہ ہوسکتا ہے۔
 

bankalalookheti

MPA (400+ posts)
Re: بیت المقدس کسی ایوبی کے انتظار میں

او خدا کے بندوں اپنے جلتے گھر کی پہلے فکر کرو فلسطین بھی کبھی آزاد ہو جائے گا دنیا پہ امّہ کی حکمرانی بھی قائم ہو جائے گی امام مہدی بھی آجائیں گے حق و باطل کا آخری معرکہ بھی سر ہو جائے گا لیکن فل وقت اپنے جلتے گھر کی فکر کرو بھائی. اپنے بچوں کی تعلیم اور ان کے مستقبل کیلیے تو پہلے کچھ کر لو اپنا مستقبل مکمل تاریک ہے اور فلسطین آزاد کرنے کی فکر ہے
 

atensari

(50k+ posts) بابائے فورم
Ohhh sad newsss....... Amrika iraq may shia sunni ikhtilaaf ki waja se faida utha raha hay..

امریکہ نے اعراق پر ڈبلیو ایم ڈیز کے بہانے حملہ کیا تھا نا کے شیعہ سنی اختلاف کی وجہ سے. حملہ کرنے کا بہانہ اور تھا قبضہ قائم رکھنے کا بہانہ اور ہے
 
Last edited:

atensari

(50k+ posts) بابائے فورم
Re: بیت المقدس کسی ایوبی کے انتظار میں

او خدا کے بندوں اپنے جلتے گھر کی پہلے فکر کرو فلسطین بھی کبھی آزاد ہو جائے گا دنیا پہ امّہ کی حکمرانی بھی قائم ہو جائے گی امام مہدی بھی آجائیں گے حق و باطل کا آخری معرکہ بھی سر ہو جائے گا لیکن فل وقت اپنے جلتے گھر کی فکر کرو بھائی. اپنے بچوں کی تعلیم اور ان کے مستقبل کیلیے تو پہلے کچھ کر لو اپنا مستقبل مکمل تاریک ہے اور فلسطین آزاد کرنے کی فکر ہے

جب روس افغانستان میں تھا اس وقت عرب اور افریقی اور دوسرے غیر ملکی نوجوانوں کو مشورہ دیا تھا، تم لوگ کو کیا پڑی ہے جو اپنے ملک چھوڑ افغانستان میں آ گۓ ہو
سب سے پہلے پاکستان کے دلفریب نعرے نے کیا دے دیا پاکستان کو، سوائے اپنوں کی دشمنی کے. بھائی بھائی کا دشمن بن گیا ہے اور اصلی دشمن بیٹھ کر تماشا دیکھ رہا ہے

پاکستان کو کیا پڑی تھی ایک فون کے بدلے غیر جنگ میں حصہ لینے کی
 
Last edited:

Khan Baba

Voter (50+ posts)
Re: بیت المقدس کسی ایوبی کے انتظار میں

او خدا کے بندوں اپنے جلتے گھر کی پہلے فکر کرو فلسطین بھی کبھی آزاد ہو جائے گا دنیا پہ امّہ کی حکمرانی بھی قائم ہو جائے گی امام مہدی بھی آجائیں گے حق و باطل کا آخری معرکہ بھی سر ہو جائے گا لیکن فل وقت اپنے جلتے گھر کی فکر کرو بھائی. اپنے بچوں کی تعلیم اور ان کے مستقبل کیلیے تو پہلے کچھ کر لو اپنا مستقبل مکمل تاریک ہے اور فلسطین آزاد کرنے کی فکر ہے


I agree with you.........

punjab sindh balochistan, sarhad may govt school ka bora haal hay.... jagirdar,wadairay,sarmayadaar gareeb k bachoo ko parhnay nahi daingay...or jamat islami koe bhi issue bana kar uchal kood karti hay busssssss
 

Raaz

(50k+ posts) بابائے فورم
Re: بیت المقدس کسی ایوبی کے انتظار میں



I agree with you.........

punjab sindh balochistan, sarhad may govt school ka bora haal hay.... jagirdar,wadairay,sarmayadaar gareeb k bachoo ko parhnay nahi daingay...or jamat islami koe bhi issue bana kar uchal kood karti hay busssssss

Next time if JI ask for Jihad, make sure Qazi Go with the people, and his family too. to the battle field.
Molana Fazal also go with them , along with his sons.

I think they will not for jihad next time. because their jihad is war for America . Not against America.
 
Last edited:

Bangash

Chief Minister (5k+ posts)
Re: بیت المقدس کسی ایوبی کے انتظار میں

او خدا کے بندوں اپنے جلتے گھر کی پہلے فکر کرو فلسطین بھی کبھی آزاد ہو جائے گا دنیا پہ امّہ کی حکمرانی بھی قائم ہو جائے گی امام مہدی بھی آجائیں گے حق و باطل کا آخری معرکہ بھی سر ہو جائے گا لیکن فل وقت اپنے جلتے گھر کی فکر کرو بھائی. اپنے بچوں کی تعلیم اور ان کے مستقبل کیلیے تو پہلے کچھ کر لو اپنا مستقبل مکمل تاریک ہے اور فلسطین آزاد کرنے کی فکر ہے

یہ حقیقت ہے جو اپنے پیروں پر نہیں کھڑے ہوسکتے دوسروں کی کیا مدد کرینگیں خود ہاتھ بھلاتے ہیں دوشمن کو اور انہی کے شکنجے میں اور مضبوطی سے پھنس جاتے ہیں