فوجی عدالتوں میں آرمی ایکٹ کے تحت عام شہریوں کے مقدمات چلانے کے خلاف سپریم کورٹ میں دائر درخواستوں پر سماعت کے دوران چیف جسٹس عمر رطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ یہاں دلائل کے بجائے دیگر حربے آزمائے جا رہے ہیں۔
چیئرمین پی ٹی آئی، سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ، معروف قانون دان اعتزاز احسن اور سول سائٹی کی جانب سے عام شہریوں مقدمات آرمی ایکٹ کے تحت فوجی عدالتوں میں چلانے کے خلاف درخواستوں پر جسٹس منصور علی شاہ کے 7 رکنی بینچ سے علیحدہ ہونے کے بعد سپریم کورٹ کا 6 رکنی بینچ سماعت کررہا ہے۔
6 رکنی لارجر بینچ چیف جسٹس عمر عطا بندیال کے علاوہ جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس منیب اختر، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس سید مظاہر علی اکبر اور جسٹس عائشہ ملک پر مشتمل ہے۔
سماعت کے آغاز پر چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل حامد خان روسٹرم پر آئے اور عدالت سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ ہماری درخواست پر نمبر نہیں لگا، چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اس معاملے ہر بعد میں آئیں گے، ابھی ہم ایک سیٹ بیک سے ریکور کر کے آرہے ہیں۔
چیف جسٹس نے حامد خان سے مکالمہ کرتے ہوئے مزید ریمارکس دیے کہ یہاں دلائل کے بجائے دیگر حربے آزمائے جا رہے ہیں، آپ نے درخواست میں بھی مختلف استدعائیں کر رکھی ہیں۔
حامد خان نے کہا کہ میں اِن میں سے صرف ملٹری کورٹ والی استدعا پر فوکس کروں گا، چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اس معاملے کو بعد میں دیکھیں گے۔
دریں اثنا درخواست گزار جنید رزاق کے وکیل سلمان اکرم راجا نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ میرے مؤکل کے بیٹے کا معاملہ ملٹری کورٹس میں ہے، ٹرائل صرف آرٹیکل 175 کے تحت تعینات کیا گیا جج کر سکتا ہے، ایف پی ایل ای کیس کا جب فیصلہ ہوا تب اختیارات کی تقسیم کا اصول واضح نہیں تھا۔
جسٹس عائشہ ملک نے استفسار کیا کہ ایف پی ایل ای کے ساتھ اس کیس سے کیسے متعلقہ ہے؟ اپنے پہلے دن کے سوال پر جاؤں گی کہ آرمی ایکٹ کے سیکشن 2 ڈی کا اطلاق کس پر ہوتا ہے؟
جسٹس منیب اختر نے استفسار کیا کہ کیا افواج کے افسران کا بھی ملٹری کورٹس میں کورٹ مارشل نہیں ہو سکتا؟ سلمان اکرم راجا نے کہا کہ برطانیہ اور امریکا میں مخصوص حالات میں فوجی افسران کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل ہوتے ہیں۔
جسٹس منصورعلی شاہ بینچ سے علیحدہ
قبل ازیں فوجی عدالتوں میں آرمی ایکٹ کے تحت عام شہریوں کے مقدمات چلانے کے خلاف سپریم کورٹ میں دائر درخواستوں پر آج 7 رکنی بینچ نے سماعت کا آغاز کیا تھا۔
7 رکنی لارجر بینچ چیف جسٹس عمر عطا بندیال کے علاوہ جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس منصور شاہ، جسٹس منیب اختر، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس سید مظاہر علی اکبر اور جسٹس عائشہ ملک پر مشتمل تھا۔
سماعت کے آغاز پر وفاقی حکومت نے جسٹس منصور علی شاہ کے بینچ میں شامل ہونے پر اعتراض اٹھا دیا، اٹارنی جنرل نے روسٹروم پر آ کر بینچ کے حوالے سے وفاقی حکومت کی ہدایات سے عدالت کو آگاہ کیا۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ ایک درخواست گزار جسٹس منصور علی شاہ کے رشتہ دار ہیں، اس لیے ان کے کنڈکٹ پر اثر پڑ سکتا ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ کی خواہش پر بینچ نہیں بن سکتے، حکومت عدلیہ کی تضحیک نہ کرے، حکومت ہمیں ہم خیال ججز کا طعنہ دیتی ہے، آپ کس بات پر اس عدالت کے معزز جج پر پر اعتراض اٹھا رہے ہیں؟ اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ میرا ذاتی طور پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔
چیف جسٹس نے مزید ریمارکس دیے کہ ہم نے ہمیشہ تحمل کا مظاہرہ کیا، ہم نے عدالتی فیصلوں پر عمل درآمد نہ کرنے والوں کو سزا نہیں سنائی، عدالت کے فیصلوں پر عمل درآمد اخلاقی ذمہ داری ہے، ہمارے پاس فیصلوں پر عمل کے لیے کوئی چھڑی نہیں، بہت سے لوگوں کے پاس چھڑی ہے لیکن ان کے پاس اخلاقی جواز کیا ہے؟
جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ میں نے تو پہلے ہی دن آکر کہا تھا کسی کو کوئی اعتراض ہے تو بتا دیں۔
دریں اثنا جسٹس منصور علی شاہ نے خود کو 7 رکنی بینچ سے الگ کر لیا جس کے نتیجے میں فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے خلاف کیس کی سماعت کے لیے تشکیل کردہ 9 رکنی لارجر بینچ ٹوٹنے کے بعد 7 رکنی بینچ بھی ٹوٹ گیا۔
چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے مکالمہ کیا کہ مفادات کے ٹکراؤ پر اعتراض اٹھا رہے ہیں، آپ ایک بہت اچھے کردار اور اچھی ساکھ کے مالک وکیل ہیں، ایک پوری سیریز ہے جس میں بینچ پر باربار اعتراض اٹھایا جا رہا ہے، پہلے یہ بحث رہی کہ پنجاب الیکشن کا فیصلہ 3 ججوں کا تھا یا 4 کا، جواد ایس خواجہ صاحب ایک درویش انسان ہیں، آپ ایک مرتبہ پھر بینچ کو متنازع بنا رہے ہیں۔
دوران سماعت شعیب شاہین نے کہا کہ یہ کسی کا ذاتی کیس نہیں یہ بنیادی حقوق کا کیس ہے جبکہ حامد خان نے ججز سے کیس سننے کی استدعا کی۔
جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ سمجھنے کی کوشش کریں، یہ ججز کا اپنا فیصلہ ہے، میں یہ کیس نہیں سن سکتا۔
سلمان اکرم راجا نے کہا کہ جسٹس منصور علی شاہ اپنے فیصلے پر نظرثانی کریں، جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ میں اپنا کنڈکٹ اچھی طرح جانتا ہوں، کوئی ایک انگلی بھی اٹھا دے میں پھر کبھی اس بینچ کا حصہ نہیں رہتا۔
حامد خان نے کہا کہ اس موقع پر اعتراض کی کوئی حیثیت نہیں، اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اب معزز جج خود ہی معذرت کر چکے ہیں۔
اس دوران فیصل صدیقی ایڈووکیٹ نے کہا کہ جسٹس ایم آر کیانی نے اپنے طلبہ سے مذاق میں ایک بات کہی تھی، انہوں نے کہا تھا کیس ہارنے لگو تو بینچ پر اعتراض کر دو، وفاقی حکومت اب یہی کر رہی ہے۔
دریں اثنا عدالتی عملے کی جانب سے فریقین کے لیے جاری ہدایت میں کہا گیا کہ 11 بجے بیچ دوبارہ آئیے گا، چیف جسٹس نیا بینچ تشکیل دیں گے۔
واضح رہے کہ گزشتہ سماعت میں سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ کے وکیل خواجہ احمد حسین کے دلائل مکمل ہونے کے بعد اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے دلائل کا آغاز کیا تھا۔
خیال رہے کہ مذکورہ درخواستوں پر چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں تشکیل دیے گئے 9 رکنی بینچ نے 22 جون سماعت کا آغاز کیا تھا، تاہم دورانِ سماعت جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس سردار طارق مسعود کے اعتراضات کے بعد 9 رکنی لارجر بینچ ٹوٹ گیا تھا جس کے بعد 7 رکنی بینچ نے سماعت کا دوبارہ آغاز کیا۔
7 رکنی لارجر بینچ چیف جسٹس عمر عطا بندیال کے علاوہ جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس منصور شاہ، جسٹس منیب اختر، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس سید مظاہر علی اکبر اور جسٹس عائشہ ملک پر مشتمل تھا۔
سماعت کے آغاز پر وفاقی حکومت نے جسٹس منصور علی شاہ کے بینچ میں شامل ہونے پر اعتراض اٹھا دیا، اٹارنی جنرل نے روسٹروم پر آ کر بینچ کے حوالے سے وفاقی حکومت کی ہدایات سے عدالت کو آگاہ کیا۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ ایک درخواست گزار جسٹس منصور علی شاہ کے رشتہ دار ہیں، اس لیے ان کے کنڈکٹ پر اثر پڑ سکتا ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ کی خواہش پر بینچ نہیں بن سکتے، حکومت عدلیہ کی تضحیک نہ کرے، حکومت ہمیں ہم خیال ججز کا طعنہ دیتی ہے، آپ کس بات پر اس عدالت کے معزز جج پر پر اعتراض اٹھا رہے ہیں؟ اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ میرا ذاتی طور پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔
چیف جسٹس نے مزید ریمارکس دیے کہ ہم نے ہمیشہ تحمل کا مظاہرہ کیا، ہم نے عدالتی فیصلوں پر عمل درآمد نہ کرنے والوں کو سزا نہیں سنائی، عدالت کے فیصلوں پر عمل درآمد اخلاقی ذمہ داری ہے، ہمارے پاس فیصلوں پر عمل کے لیے کوئی چھڑی نہیں، بہت سے لوگوں کے پاس چھڑی ہے لیکن ان کے پاس اخلاقی جواز کیا ہے؟
جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ میں نے تو پہلے ہی دن آکر کہا تھا کسی کو کوئی اعتراض ہے تو بتا دیں۔
دریں اثنا جسٹس منصور علی شاہ نے خود کو 7 رکنی بینچ سے الگ کر لیا جس کے نتیجے میں فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے خلاف کیس کی سماعت کے لیے تشکیل کردہ 9 رکنی لارجر بینچ ٹوٹنے کے بعد 7 رکنی بینچ بھی ٹوٹ گیا۔
چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے مکالمہ کیا کہ مفادات کے ٹکراؤ پر اعتراض اٹھا رہے ہیں، آپ ایک بہت اچھے کردار اور اچھی ساکھ کے مالک وکیل ہیں، ایک پوری سیریز ہے جس میں بینچ پر باربار اعتراض اٹھایا جا رہا ہے، پہلے یہ بحث رہی کہ پنجاب الیکشن کا فیصلہ 3 ججوں کا تھا یا 4 کا، جواد ایس خواجہ صاحب ایک درویش انسان ہیں، آپ ایک مرتبہ پھر بینچ کو متنازع بنا رہے ہیں۔
دوران سماعت شعیب شاہین نے کہا کہ یہ کسی کا ذاتی کیس نہیں یہ بنیادی حقوق کا کیس ہے جبکہ حامد خان نے ججز سے کیس سننے کی استدعا کی۔
جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ سمجھنے کی کوشش کریں، یہ ججز کا اپنا فیصلہ ہے، میں یہ کیس نہیں سن سکتا۔
سلمان اکرم راجا نے کہا کہ جسٹس منصور علی شاہ اپنے فیصلے پر نظرثانی کریں، جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ میں اپنا کنڈکٹ اچھی طرح جانتا ہوں، کوئی ایک انگلی بھی اٹھا دے میں پھر کبھی اس بینچ کا حصہ نہیں رہتا۔
حامد خان نے کہا کہ اس موقع پر اعتراض کی کوئی حیثیت نہیں، اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اب معزز جج خود ہی معذرت کر چکے ہیں۔
اس دوران فیصل صدیقی ایڈووکیٹ نے کہا کہ جسٹس ایم آر کیانی نے اپنے طلبہ سے مذاق میں ایک بات کہی تھی، انہوں نے کہا تھا کیس ہارنے لگو تو بینچ پر اعتراض کر دو، وفاقی حکومت اب یہی کر رہی ہے۔
دریں اثنا عدالتی عملے کی جانب سے فریقین کے لیے جاری ہدایت میں کہا گیا کہ 11 بجے بیچ دوبارہ آئیے گا، چیف جسٹس نیا بینچ تشکیل دیں گے۔
واضح رہے کہ گزشتہ سماعت میں سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ کے وکیل خواجہ احمد حسین کے دلائل مکمل ہونے کے بعد اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے دلائل کا آغاز کیا تھا۔
خیال رہے کہ مذکورہ درخواستوں پر چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں تشکیل دیے گئے 9 رکنی بینچ نے 22 جون سماعت کا آغاز کیا تھا، تاہم دورانِ سماعت جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس سردار طارق مسعود کے اعتراضات کے بعد 9 رکنی لارجر بینچ ٹوٹ گیا تھا جس کے بعد 7 رکنی بینچ نے سماعت کا دوبارہ آغاز کیا۔
درخواستوں کا متن
واضح رہے کہ 21 جون کو چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال نے فوجی عدالتوں میں آرمی ایکٹ کے تحت عام شہریوں کے مقدمات چلانے کے خلاف دائر 4 درخواستوں کو سماعت کے لیے مقرر کرتے ہوئے اپنی سربراہی میں 9 رکنی لارجر بینچ تشکیل دیا تھا۔
چیئرمین پی ٹی آئی، سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ، معروف قانون دان اعتزاز احسن اور سول سائٹی کی جانب سے عام شہریوں مقدمات آرمی ایکٹ کے تحت فوجی عدالتوں میں چلانے کے خلاف درخواستیں دائر کی گئی تھیں۔
20 جون کو جسٹس جواد ایس خواجہ نے اپنے وکیل ایڈووکیٹ خواجہ احمد حسین کے توسط سے دائر درخواست میں سپریم کورٹ سے فوجی عدالتوں کے ذریعے شہریوں کے ٹرائل کو غیر آئینی قرار دینے کی استدعا کی تھی۔
وکیل عزیر چغتائی کے توسط سے عدالت عظمیٰ میں دائر کی گئی درخواست میں استدعا کی گئی ہے کہ عام عدالتیں ہوتے ہوئے ملٹری عدالتوں کے ذریعے عام شہریوں کا ٹرائل غیر آئینی قرار دیا جائے اور آرمی ایکٹ کے مختلف سیکشنز آئین میں دیے گئے بنیادی حقوق سے متصادم ہیں جنہیں کالعدم قرار دیا جائے۔
اس درخواست سے قبل مختلف شہروں سے سول سوسائٹی کے 5 ارکان نے اپنے وکیل فیصل صدیقی کے ذریعے 9 مئی کے تشدد کے سلسلے میں فوجی عدالتوں میں عام شہریوں کے ٹرائل کو غیر قانونی قرار دینے کی درخواست دائر کی تھی۔
اسی طرح 18 جون کو پاکستان پیپلزپارٹی کے رہنما اور سپریم کورٹ آف پاکستان کے سینئر وکیل اعتزاز احسن نے 9 مئی کے واقعات میں ملوث شہریوں کے مقدمات فوجی عدالتوں میں چلانے کے خلاف سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی تھی۔
اعتزاز احسن کی جانب سے وکیل سلمان اکرم راجا نے درخواست دائر کی جس میں شہریوں کےفوجی عدالتوں میں ٹرائل کو غیر آئینی قرار دینے اور وفاقی حکومت کا فوجی عدالتوں میں ٹرائل کا فیصلہ کالعدم قرار دینے کی استدعا کی گئی۔
درخواست میں کہا گیا تھا کہ وفاقی حکومت نے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کے کور کمانڈر فیصلہ پر ربر اسٹمپ کا کردار ادا کیا، سویلین کا ٹرائل آرمی ایکٹ کے سیکشن 2 اور 59 آئین سے متصادم ہیں، آرمی ایکٹ قانون کے سیکشن 2 اور 59 کو کالعدم قرار دیا جائے۔
چیئرمین پی ٹی آئی، سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ، معروف قانون دان اعتزاز احسن اور سول سائٹی کی جانب سے عام شہریوں مقدمات آرمی ایکٹ کے تحت فوجی عدالتوں میں چلانے کے خلاف درخواستیں دائر کی گئی تھیں۔
20 جون کو جسٹس جواد ایس خواجہ نے اپنے وکیل ایڈووکیٹ خواجہ احمد حسین کے توسط سے دائر درخواست میں سپریم کورٹ سے فوجی عدالتوں کے ذریعے شہریوں کے ٹرائل کو غیر آئینی قرار دینے کی استدعا کی تھی۔
وکیل عزیر چغتائی کے توسط سے عدالت عظمیٰ میں دائر کی گئی درخواست میں استدعا کی گئی ہے کہ عام عدالتیں ہوتے ہوئے ملٹری عدالتوں کے ذریعے عام شہریوں کا ٹرائل غیر آئینی قرار دیا جائے اور آرمی ایکٹ کے مختلف سیکشنز آئین میں دیے گئے بنیادی حقوق سے متصادم ہیں جنہیں کالعدم قرار دیا جائے۔
اس درخواست سے قبل مختلف شہروں سے سول سوسائٹی کے 5 ارکان نے اپنے وکیل فیصل صدیقی کے ذریعے 9 مئی کے تشدد کے سلسلے میں فوجی عدالتوں میں عام شہریوں کے ٹرائل کو غیر قانونی قرار دینے کی درخواست دائر کی تھی۔
اسی طرح 18 جون کو پاکستان پیپلزپارٹی کے رہنما اور سپریم کورٹ آف پاکستان کے سینئر وکیل اعتزاز احسن نے 9 مئی کے واقعات میں ملوث شہریوں کے مقدمات فوجی عدالتوں میں چلانے کے خلاف سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی تھی۔
اعتزاز احسن کی جانب سے وکیل سلمان اکرم راجا نے درخواست دائر کی جس میں شہریوں کےفوجی عدالتوں میں ٹرائل کو غیر آئینی قرار دینے اور وفاقی حکومت کا فوجی عدالتوں میں ٹرائل کا فیصلہ کالعدم قرار دینے کی استدعا کی گئی۔
درخواست میں کہا گیا تھا کہ وفاقی حکومت نے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کے کور کمانڈر فیصلہ پر ربر اسٹمپ کا کردار ادا کیا، سویلین کا ٹرائل آرمی ایکٹ کے سیکشن 2 اور 59 آئین سے متصادم ہیں، آرمی ایکٹ قانون کے سیکشن 2 اور 59 کو کالعدم قرار دیا جائے۔
9 مئی کی ہنگامہ آرائی اور بعد کے حالات
خیال رہے کہ رواں سال 9 مئی کو قومی احتساب بیورو (نیب) نے پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان کو پیراملٹری فورس رینجرز کی مدد سے القادر ٹرسٹ کیس میں گرفتار کیا جس کے بعد ملک بھر میں ہوئے پر تشدد احتجاج کے دوران املاک کی توڑ پھوڑ جلاؤ گھیراؤ دیکھنے میں آیا۔
احتجاج کے دوران مشتعل افراد نے فوجی تنصیبات، بشمول کور کمانڈر لاہور کی رہائش گاہ اور پاکستان بھر میں ریاستی املاک کو نقصان پہنچایا گیا۔
اس واقعے کے بعد، فوج نے اس دن کو ملکی تاریخ کا ایک ’سیاہ باب‘ قرار دیا تھا اور توڑ پھوڑ میں ملوث تمام افراد کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کا عزم کیا تھا۔
بعد میں مزید سخت قدم اٹھاتے ہوئے حکومت نے سول اور فوجی تنصیبات پر حملے اور آتش زنی کرنے والوں کو پاکستان آرمی ایکٹ اور آفیشل سیکریٹ ایکٹ سمیت متعلقہ قوانین کے تحت انصاف کے کٹہرے میں لانے کا فیصلہ کیا۔
اس فیصلے کی قومی سلامتی کمیٹی نے بھی توثیق کی تھی، جو کہ قومی سلامتی کے امور کے لیے ملک کا اعلیٰ ترین فورم برائے رابطہ کاری ہے۔
بعد ازاں 20 مئی کو آرمی چیف نے کہا کہ مئی کے سانحے میں ملوث منصوبہ سازوں، اکسانے والوں، حوصلہ افزائی کرنے والوں اور مجرموں کے خلاف مقدمے کا قانونی عمل آئین سے ماخوذ موجودہ اور قائم شدہ قانونی طریقہ کار کے مطابق پاکستان آرمی ایکٹ اور آفیشل سیکریٹ ایکٹ کے تحت شروع ہو گیا ہے۔
اس کے بعد فوج اور حکومت نے شہدا کی قربانیوں کو یاد کرنے اور ان کے خاندانوں کو عزت دینے کے لیے 25 مئی کو ’یوم تکریم شہدا‘ منانے کا فیصلہ کیا۔
اس سلسلے میں ملک بھر میں قائم یادگار شہدا پر متعدد یادگاری تقریبات کا انعقاد کیا گیا۔
خیال رہے کہ 26 مئی کو ایک نیوز کانفرنس میں وفاقی وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ نے کہا تھا کہ 9 مئی سے متعلق صرف 6 مقدمات میں 33 ملزمان کو فوجی حکام کے حوالے کیا گیا ہے۔
گزشتہ دنوں وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا تھا کہ فوج کے قوانین کے تحت مقدمات بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ تقاضوں کو پورا کرتے ہیں جو کہ منصفانہ ٹرائل کی بنیاد ہیں۔
Source
احتجاج کے دوران مشتعل افراد نے فوجی تنصیبات، بشمول کور کمانڈر لاہور کی رہائش گاہ اور پاکستان بھر میں ریاستی املاک کو نقصان پہنچایا گیا۔
اس واقعے کے بعد، فوج نے اس دن کو ملکی تاریخ کا ایک ’سیاہ باب‘ قرار دیا تھا اور توڑ پھوڑ میں ملوث تمام افراد کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کا عزم کیا تھا۔
بعد میں مزید سخت قدم اٹھاتے ہوئے حکومت نے سول اور فوجی تنصیبات پر حملے اور آتش زنی کرنے والوں کو پاکستان آرمی ایکٹ اور آفیشل سیکریٹ ایکٹ سمیت متعلقہ قوانین کے تحت انصاف کے کٹہرے میں لانے کا فیصلہ کیا۔
اس فیصلے کی قومی سلامتی کمیٹی نے بھی توثیق کی تھی، جو کہ قومی سلامتی کے امور کے لیے ملک کا اعلیٰ ترین فورم برائے رابطہ کاری ہے۔
بعد ازاں 20 مئی کو آرمی چیف نے کہا کہ مئی کے سانحے میں ملوث منصوبہ سازوں، اکسانے والوں، حوصلہ افزائی کرنے والوں اور مجرموں کے خلاف مقدمے کا قانونی عمل آئین سے ماخوذ موجودہ اور قائم شدہ قانونی طریقہ کار کے مطابق پاکستان آرمی ایکٹ اور آفیشل سیکریٹ ایکٹ کے تحت شروع ہو گیا ہے۔
اس کے بعد فوج اور حکومت نے شہدا کی قربانیوں کو یاد کرنے اور ان کے خاندانوں کو عزت دینے کے لیے 25 مئی کو ’یوم تکریم شہدا‘ منانے کا فیصلہ کیا۔
اس سلسلے میں ملک بھر میں قائم یادگار شہدا پر متعدد یادگاری تقریبات کا انعقاد کیا گیا۔
خیال رہے کہ 26 مئی کو ایک نیوز کانفرنس میں وفاقی وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ نے کہا تھا کہ 9 مئی سے متعلق صرف 6 مقدمات میں 33 ملزمان کو فوجی حکام کے حوالے کیا گیا ہے۔
گزشتہ دنوں وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا تھا کہ فوج کے قوانین کے تحت مقدمات بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ تقاضوں کو پورا کرتے ہیں جو کہ منصفانہ ٹرائل کی بنیاد ہیں۔
Source