muntazir
Chief Minister (5k+ posts)
Re: خفیہ حلالہ سینٹر کے مولوی نے مختلف مردوں س
بسمہ سبحانہ و بذکر ولیہ
تین طلاق ایک نشست میں
اﷲ سبحانہ و تعالی قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے کہ : الطلاق مرتان فامسک بمعروف او تسریح باحسان ولا یحل لکم ان تا خذوا مما اٰتیتمو ھن شیئا الآ ان یخافآ الا یقیما حدود اﷲ ط فان خفتم الا یقیما حدود اﷲ لا فلا جناح علیھما فیما افتدت بہ ط تلک حدود اﷲ فلا تعتدوھا ج ومن یتعد حدود اﷲ فاولٰٰٓئک
ھم الظالمون۔ سورۃ البقرۃ آیت ۲۲۹۔
طلاق دو مرتبہ ہے اور مناسب طریقے سے اپنی بیوی کو اپنے پاس رکھے یا نیکی کے ساتھ اُسے چھوڑدے اور تمہارے لئے حلال نہیں کہ اُنہیں جو چیز دی ہے وہ اُن سے واپس لو۔ مگر یہ کہ دونوں اس سے ڈریں کہ حدود الٰہی کی پاسداری نہیں کرسکیں گے اگر اُنہیں خوف ہے کہ وہ حدود الٰہی کا لحاظ نہ کرسکیں گے تو پھر اُن کے لئے کوئی حرج نہیں کہ عورت معاوضہ دے دے( اور طلاق لے لے) یہ حدود اور خدائی سرحدیں ہیں۔ اُن سے تجاوز نہ کرو اور جو شخص اُن سے تجاوز کرے وہ ظالم ہے۔(سور بقرہ آیت ۲۲۹)
زیر بحث آیت میں ارشاد ہے کہ دو مرتبہ طلاق اور دو مرتبہ رجوع صحیح ہے لیکن اگر تیسری مرتبہ طلاق انجام پذیر ہوئی تو پھر رجوع کا حق نہیں ہے۔ اور آخری طلاق یہی تیسری طلاق ہے ۔ البتہ ’’ الطلاق مرتان‘‘ سے مراد ہے وہ طلاق جس میں رجوع ممکن ہے اور جس کے بارے میں ’’ امساک بمعروف‘‘
صادق آتا ہے جو دو سے زیادہ نہیں اور تیسری طلاق میں رجوع نہیں ہے جیسا کے آیت کریمہ گواہی دیتی ہے۔
’’امساک‘‘ کے معنی ہیں روکے رکھنا اور ’’تسریح‘‘ کے معنی ہے رخصت کردینا۔ جب کشمکش ، پھر طلاق پھر صلح پھر رجوع دو مرتبہ گزرے تو پھر مرد کو چاہئے کہ معاملے کو ایک طرف کردے۔
شیعہ مکتب میں یہ مسئلہ متفق علیہ ہے لیکن اہل سنت کے درمیان اس سلسلے میں اختلافِ ہے ۔
چنانچہ مفتی عزیز الرحمن روزنامہ ’’ انقلاب ‘‘ مبمئی ہندوستان نے ایک سوال کے جواب میں یہ دلیل پیش کی: ’’ آیت ِکریمہ میں اصل لفظ مرّتان ہے قرآن ِکریم میں ایک دوسرے موقع پر بھی یہ لفظ استعمال ہوا جہاں یکے بعد دیگرے کا بھی کوئی تصور نہیں چہ جائیکہ الگ الگ مجلسوں اورمہینوں کا ۔ چنانچہ سورۂ احزاب میں ارشادِ ربانی ہے نؤ تہا اجر ہا مرتین مشہوراہل حدیث عالم مولانا محمد جونا گڑھی اس کا ترجمہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں :’’ اور تم میں سے کوئی اللہ او راس کے رسول (ﷺ) کی فرماںبرداری کریگی اور نیک کام کریگی ہم اُسے اجر بھی دُہرا دیں گے ‘‘۔کوئی کہہ سکتا ہے کہ یہ اجر الگ الگ مہینوں میں دیا جائیگا نیز علامہ ابن جریر نے مرتا ن کی تفسیرسے یہ واضح کر دیا ہے کہ مجلس یا طہر کے الگ الگ ہونے کا اس لفظ کے ساتھ کوئی تصور نہیں ۔ بخاری شریف کی روایت ہے کہ حضور ﷺ نے وضو کیا مرۃً مرۃً مرًتین مرًتین اور ثلاثا ثلاثا ظاہر ہے اعضأ وضو کا دھونا دو دو مرتبہ ہو یا تین تین مرتبہ ایک ہی مجلس میں تھا ایسا حضورﷺنے وضو کرتے ہوئے اعضائے وضو کو دو یا تین الگ الگ مجلسوں یا مہینوں میں دھویا تھا ۔
قرآن کریم نے یہ بتایا ہے کہ تین کے بعد عورت ہمیشہ کیلئے حرام ہے یہ آیت یعنی آیت ۲۳۰ عربی کے حر ف ِعطف فا ء سے شروع ہوئی ہے قواعد عربی
میں فاء صرف ترتیب کو بتلاتاہے تاخیر کا اس میں کوئی مفہوم نہیں تاخیر کے مواقع میں ثُمَّ استعمال ہوتا ہے لہٰذا اگر یہ تیسری طلاق تیسرے مہینے یا اطہر میں د ی جانے والی طلاق ہوتی تو فاء کے بجائے ثُم کا استعمال کیا جاتا حرف فاء کا لایا جانا بتلارہا ہے ۔(ختم بیان مفتی عزیز الرحمن ’’انقلاب‘‘ حرف بہ حرف نقل ہے)۔
حسب بالادلیل کاجواب صرف قرآن مجید ہی سے ممکن ہے اور وہ ہے سورہ بنی اسرآئیل( اسراء) کی آیت (۴ )اور (۵)۔ اﷲ تعالی ارشاد فرماتا ہے وقضینآ الیٰ بنی اسرآء یل فی الکتٰب لتفسدن فی الارض مرتین ولتعلن علوا کبیرا ۴۔ فاذا جآء وعدا ولٰھما بعثنا علیکم عبادا لنا ٓاُلی باس شدید فجاسوا خلٰل الدیارط وکان وعدا مفعولا ۵۔
تمام مفسرین نے یہ لکھا کہ اﷲ سبحانہ و تعالی ارشاد فرماتا ہے کہ ہم نے بنی اسرائیل کو کتاب میں بتلادیا تھا کہ زمین میں دو مرتبہ (مرتین )فساد برپا کروگے اور بڑی سرکشی کروگے۔ جب ان میں سے پہلی سرکشی کا موقع آیا تو ہم تمہارے اوپر نہایت زور آور لو گ بھیجیں گے گھروں کی تلاشی لیں گے اور یہ وعدہ قطعی
ہے۔ مفسرین لکھتے ہیں کہ یہ دونوں واقع کے درمیان برسوں کا فاصلہ ہے یعنی ایک کے بعد ایک بلا فصل نہیں ہوئے۔ اور آیت ۵ بھی باوجود تاخیر کے لفظ ’’فا‘‘ سے ہی شروع ہورہی ’’ ثم‘‘ سے نہیں۔ لہذا جو دلیل مولانا مفتی عزئز الرحمن صاحب نے قرآن سے دی وہ اس آیت قرآنی سے رد ہوجائے گی۔
یہاں دو نکات قابل توجہ ہیں:۔
۱۔ جس طرح رجوع کرنے اور عورت کو روکے رکھنے میں ’’معروف‘‘ کی شرط ہے، یعنی رجوع اور روکے رکھنا صلح و صفائی اور خلوص و محبت کی بنیاد پر ہو اُسی طرح جدائی بھی ’’احسان‘‘ کے ساتھ مقید ہے۔ یعنی علٰیحدگی اور جدائی ہر طرح کے نا پسندیدہ امر سے پاک ہو۔ مثلاً انتقام، غیض ، غضب، اورکینہ سے مبرّا ہو۔
۲۔ الطلاق مرتان۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ دو یا تین طلاقیں ایک ہی نشست میں انجام نہیں پاسکتیں اور چاہئے کہ متعدد مواقع پر واقع ہوں۔ خصوصاً جب تعداد طلاق کا مقصد یہ ہے کہ رجوع کا زیادہ موقع مل سکے اور شائد پہلی کشکمش کے بعد صلح و صفائی برقرار ہوجائے، اور اگر پہلی مرتبہ صلح و صفائی نہ ہوسکے تو شائد دوسری مرتبہ صلح اور محبت پیدا ہوجائے۔ لیکن ایک ہی موقع پر متعدد طلاق ، طلاق، طلاق سے یہ راستہ صلح و صفائی کا بند ہوجائے گا۔ اور میاں بیوی ہمیشہ کے لئے ایک دوسرے سے جدا ہو جاتے ہیں اور اس طرح تین طلاق عملی طور بے اثر ہوکر رہ جاتے ہیں ۔
اس کو احادیث کی روشنی میں ملاحظہ فرمائیں:۔
کان الیٰ سنتین من عھد عمر طلاق الثلٰث واحدۃ فقال ان الناس قد استعجلوا فامضاہ علیھمـ ثلٰثا ۔ آنحضرت ؐ اور حضرت ابوبکراور خلافت حضرت عمر میں بھی دو برس تک یہی حکم رہا کہ اگر کوئی شخص تین طلاق ایک ہی نشست میں ایک بار دیدے تو صرف ایک طلاق پڑتی تھی (شمار کی جاتی تھی) پھر حضرت عمرنے کہا لوگوں نے طلاق دینے میں جلدی شروع (کثرت شروع ) کی ہے تو انھوں نے تین طلاق پڑجانے کا (شمار کرنیکا) حکم جاری کیا۔ صحیح مسلم کتاب الطلاق باب الطلاق الثلاثہ ج۳ ص۱۸۳؛ مسند احمدابن حنبل ج ۱ ص ۳۱۴؛ المغنی ج۸ ص ۲۴۳؛ الشرح الکبیر ج۸ ص۲۶۰؛ سنن نسائی کتاب طلاق ج ۶ ص ۱۴۵؛ مستدرک الصحیحین ج ۲ ص ۱۹۶؛ فتح الباری ابن حجر ج ۹ ص۲۹۷؛ شرح مسلم النووی ج ۱۰ ص ۷۰؛الدیباج علی مسلم جلال الدین سیوطی ج ۴ ص۸۸؛ عون المعبود عظیم العبادی ج ۶ ص ۱۹۰؛المصنف ج۶ص ۳۹۲ عبد الرزاق الصنعانی؛ المعجم الکبیر طبرانی ج۱۱ ص ؛۱۹ تفسیر قرطبی ج۳ ص ۱۳۰؛تفسیر در المنثور ج۱ ص ۲۷۹؛ المحلی ابن حزم ج ۱۰ ص۱۶۸؛ نیل الوطار الشوکانی ص ۱۱ تا ۱۴؛ سبل السلام ابن حجر عسقلانی ج ۳ ص ۱۷۱؛المجموع نووی ج ۱۷ ص ۸۵و ۱۲۲؛
حاشیہ رد المختار ابن عابدین ج ۳ ص ۲۵۶؛المغنی ابن القدامہ ج ۸ ص ۲۴۳ ؛لغات الحدیث علامہ وحید الزمان حرف ’’ط ‘‘۔ص ۳۸
الطلاق الثلاث: قال ابن عباس: کان الطلاق في عھد رسول اﷲ ﷺ وأبی بکر و سنتین من خلافۃ عمر طلاق الثلاث، واحدۃ، فقال عمر : إن الناس قد استعجلوا في أمر کانت لھم فیہ أناۃ فلو أمضیناہ علیھم فأمضاہ علیھم،وروی عکرمۃ عن ابن عباس قال: طلق رکانۃ امرأتہ ثلاثا في مجلس واحد، فحزن علیھا حزنا شدیدا فسألہ النبي ﷺ کیف طلقتھا ؟ فقال طلقتھا ثلاثا: فقال في مجلس واحد؟ فقال :نعم۔ قال فإنما تلک واحدۃ فإن شئت فراجعھا۔ محاضرات الادباء الامام الادیب الاراغب
الاصفھانی متوفی ۵۰۲ ھطبع شرکۃ دار الارقم بیروت جلد اول ص ۲۴۶۔
اسی روایت کو دوسرے طریقے سے یوں بیان کی گئی ہے:۔
حدثنا عبد اﷲ حدثنی أبی سعد بن ابراھیم ثنا أبی عن محمد ابن اسحاق حدثنی داود بن الحصین عن عکرمۃ مولی ابن عباس عن ابن عباس قال طلق رکانۃ بن عبد یزید أخو بنی مطلب امأتہ ثلاثا في مجلس واحد فحزن علیھا حزنا شدیدا قال فسألہ رسول اﷲ ﷺ کیف طلقتھا قال طلقتھا ثلاثا قال فقال في مجلس واحد قال نعم قال فانما تلک واحدۃ فارجعھا ان شئت قال فرجعھا فکان ابن عباس یری انما الطلاق عند کل طھر۔ مسند امام احمد ج۱ ص۲۶۵؛السنن الکبری البھیقی ج۷ ص ۳۳۹؛ فتح الباری ج۹ ص۲۹۷؛ مسند ابی یعلی
الموصلی ج۴ ص۳۷۹ سلسہ ۲۵۰۰؛ کنزالعمال ج۹ ص ۷۰۵ سلسلہ ۲۸۰۶۰؛ عون المعبود محمد شمس الحق العظیم
آبادی ج ۶ ص۱۹۰؛ المصنف عبدالرزاق ج۷ ص۱۲؛ الکفایۃ فی علم الروایۃ خطیب بغدادی ص۱۸۱۔
شاہ ولی اﷲ محد ث دھلوی ازالۃ الخفاء عن خلافۃ الخفاء طبع قدیمی کتاب خانہ کراچی جلد سوم ص ۴۱۶ تا ۴۱۹ میں تحریر فرماتے ہیں:۔ کے شافعیؒ طاؤس سے روایت کرتے ہیں کہ ابو الصہباء نے ابن عباسؓ سے سوال کیا کہ تین طلاقیں رسول اﷲ ﷺ کے زمانے میں ایک طلاق قرار دی جاتی تھی اور عہد حضرت ابوبکر میں بھی اور حضرت عمرکے ابتدائے امارت کے تین سال تک اسی پر عمل ہوتا رہا؟ ابن عباس ؓ نے کہا :ہاں۔ مسلم طاؤس سے وہ ابن عباسؓ سے کہ رسول اﷲ ﷺ اور حضرت ابوبکر کے زمانے میں اور حضرت عمرکی خلافت کے دوسال تک تین طلاق کو ایک قرار دیا جاتا تھا۔ پھر حضرت عمرابن خطاب نے کہا کہ لوگوں نے عجلت کرنا شروع کردیا اس امر میں جس میں اُن کو مہلت دی گئی تھی تو کیوں نہ ہم اُن پر اُس کو جاری کردیں(یعنی تین طلاق کو تین ہی قرار دیں)۔
کتاب’’ المسند ‘‘ ص ۱۹۲ دارالکتب العلمیۃ بیروت الاما م شافعی ؒ متوفی ۲۰۴ ھ ؛ صحیح مسلم ج ۴ ص۱۸۴؛ سنن ابو داؤد ؒ باب تفریع ابواب الطلاق سلسلہ ۲۱۹۹ ج اول ص۴۹۰؛سنن النسائی کتاب الطلاق ج۶ ص۱۴۵؛ السنن الکبری ج۷ ص۳۳۶ ۔
اسی کتاب ازالۃ الخفاء جلدچہارم ص ۲۳۶ میںعمران بن سوادۃ اللیثی سے روایت ہے کہ حضرت عمر نے اقرار کیا کہ انہوں نے جو تبدلیاں کئیںاُن میں تین طلاق بھی شامل ہے۔
علامہ قاضی محمد ثناء اﷲ پانی پتی تفسیر مظہری جلد اول صفحہ ۴۹۳میں اسی سورہ بقرہ کی آیت ۲۲۹ کے تحت لکھتے ہیں : اﷲ تعالی کے مرتان فرمانے اوثنتان نہ فرمانے میں اس امر کی دلیل ہے کہ ایک ہی دفعہ دو طلاقیں مکروہ ہے کیونکہ مرتان کا لفظ عبارۃ ً تو تفریق کی دلالت کرتا ہے اور اشارۃً عدد پر اور الطلاق میں حرف’’ لام ‘‘جنس کے لئے ہے اور جنس کے علاوہ کوئی اور کچھ نہیں ہے پس قیاس تو یہ چاہتا ہے کہ اکھٹی دو طلاقیں معتبر نہ ہوں اور جب دو
طلاقیں معتبر نہ ہوئیں تو تین طلاقیں اکھٹی دیدینی تو بدرجہ اولیٰ معتبر نہ ہوگی کیونکی تین میں دو کے علاوہ اور زیادتی ہے۔
بعض کا قول یہ ہے کہ طلاق سے مراد تطلیق ہے اور معنٰی (آیت کے) یہ ہیں کہ شرعی طلاق دینا یہ ہے کہ اطہار میں متفرق طور پر یکے بعد دیگرے طلاق دے نہ کہ اکھٹی اور اِس وقت مرتین سے تثنیہ مراد نہ ہوگا بلکہ تکریر (تکرار)مقصود ہوگی جیسا کہ اﷲ تعالیٰ کے اس قول میں ہے ثم ارجع البصر کرتین۔ یعنی کرۃً بعد کرۃٍ۔اس تاویل سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ دو طلاقیں یا تین طلاقیں ایک لفظ سے ہوں یا مختلف الفاظ سے ایک طہر میں اکھٹی دیدینی حرام ۔
بدعت، باعث گناہ ہیں۔تفسیر مظہری۔
یہ واضح ہے کہ تین طلاق کا مفہوم تین مرتبہ طلاق دینا ہے ۔ ایک ساتھ تین لفظ ِ طلاق کا استعمال نہیں ہے اور اُس کی واضح ترین دلیل یہ ہے کہ اگرزوجیت طلاق چاہتی ہے تو ایک طلاق کے بعد رجوع نہ ہو یا عدت کے بعد دوبارہ عقد نہ کیا جائے تو دوسری طلاق کا موضوع ہی نہیں پیدا ہوتا ہے۔ ایک ساتھ تین طلاق اگر تین ہیں تو دوسری زوجیت کب واپس آئی ہے، اور اگر سب ملاکر ایک ہیں تو تین طلاق کے احکام نافذ کرنا غلط ہے
بسمہ سبحانہ و بذکر ولیہ
تین طلاق ایک نشست میں
اﷲ سبحانہ و تعالی قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے کہ : الطلاق مرتان فامسک بمعروف او تسریح باحسان ولا یحل لکم ان تا خذوا مما اٰتیتمو ھن شیئا الآ ان یخافآ الا یقیما حدود اﷲ ط فان خفتم الا یقیما حدود اﷲ لا فلا جناح علیھما فیما افتدت بہ ط تلک حدود اﷲ فلا تعتدوھا ج ومن یتعد حدود اﷲ فاولٰٰٓئک
ھم الظالمون۔ سورۃ البقرۃ آیت ۲۲۹۔
طلاق دو مرتبہ ہے اور مناسب طریقے سے اپنی بیوی کو اپنے پاس رکھے یا نیکی کے ساتھ اُسے چھوڑدے اور تمہارے لئے حلال نہیں کہ اُنہیں جو چیز دی ہے وہ اُن سے واپس لو۔ مگر یہ کہ دونوں اس سے ڈریں کہ حدود الٰہی کی پاسداری نہیں کرسکیں گے اگر اُنہیں خوف ہے کہ وہ حدود الٰہی کا لحاظ نہ کرسکیں گے تو پھر اُن کے لئے کوئی حرج نہیں کہ عورت معاوضہ دے دے( اور طلاق لے لے) یہ حدود اور خدائی سرحدیں ہیں۔ اُن سے تجاوز نہ کرو اور جو شخص اُن سے تجاوز کرے وہ ظالم ہے۔(سور بقرہ آیت ۲۲۹)
زیر بحث آیت میں ارشاد ہے کہ دو مرتبہ طلاق اور دو مرتبہ رجوع صحیح ہے لیکن اگر تیسری مرتبہ طلاق انجام پذیر ہوئی تو پھر رجوع کا حق نہیں ہے۔ اور آخری طلاق یہی تیسری طلاق ہے ۔ البتہ ’’ الطلاق مرتان‘‘ سے مراد ہے وہ طلاق جس میں رجوع ممکن ہے اور جس کے بارے میں ’’ امساک بمعروف‘‘
صادق آتا ہے جو دو سے زیادہ نہیں اور تیسری طلاق میں رجوع نہیں ہے جیسا کے آیت کریمہ گواہی دیتی ہے۔
’’امساک‘‘ کے معنی ہیں روکے رکھنا اور ’’تسریح‘‘ کے معنی ہے رخصت کردینا۔ جب کشمکش ، پھر طلاق پھر صلح پھر رجوع دو مرتبہ گزرے تو پھر مرد کو چاہئے کہ معاملے کو ایک طرف کردے۔
شیعہ مکتب میں یہ مسئلہ متفق علیہ ہے لیکن اہل سنت کے درمیان اس سلسلے میں اختلافِ ہے ۔
چنانچہ مفتی عزیز الرحمن روزنامہ ’’ انقلاب ‘‘ مبمئی ہندوستان نے ایک سوال کے جواب میں یہ دلیل پیش کی: ’’ آیت ِکریمہ میں اصل لفظ مرّتان ہے قرآن ِکریم میں ایک دوسرے موقع پر بھی یہ لفظ استعمال ہوا جہاں یکے بعد دیگرے کا بھی کوئی تصور نہیں چہ جائیکہ الگ الگ مجلسوں اورمہینوں کا ۔ چنانچہ سورۂ احزاب میں ارشادِ ربانی ہے نؤ تہا اجر ہا مرتین مشہوراہل حدیث عالم مولانا محمد جونا گڑھی اس کا ترجمہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں :’’ اور تم میں سے کوئی اللہ او راس کے رسول (ﷺ) کی فرماںبرداری کریگی اور نیک کام کریگی ہم اُسے اجر بھی دُہرا دیں گے ‘‘۔کوئی کہہ سکتا ہے کہ یہ اجر الگ الگ مہینوں میں دیا جائیگا نیز علامہ ابن جریر نے مرتا ن کی تفسیرسے یہ واضح کر دیا ہے کہ مجلس یا طہر کے الگ الگ ہونے کا اس لفظ کے ساتھ کوئی تصور نہیں ۔ بخاری شریف کی روایت ہے کہ حضور ﷺ نے وضو کیا مرۃً مرۃً مرًتین مرًتین اور ثلاثا ثلاثا ظاہر ہے اعضأ وضو کا دھونا دو دو مرتبہ ہو یا تین تین مرتبہ ایک ہی مجلس میں تھا ایسا حضورﷺنے وضو کرتے ہوئے اعضائے وضو کو دو یا تین الگ الگ مجلسوں یا مہینوں میں دھویا تھا ۔
قرآن کریم نے یہ بتایا ہے کہ تین کے بعد عورت ہمیشہ کیلئے حرام ہے یہ آیت یعنی آیت ۲۳۰ عربی کے حر ف ِعطف فا ء سے شروع ہوئی ہے قواعد عربی
میں فاء صرف ترتیب کو بتلاتاہے تاخیر کا اس میں کوئی مفہوم نہیں تاخیر کے مواقع میں ثُمَّ استعمال ہوتا ہے لہٰذا اگر یہ تیسری طلاق تیسرے مہینے یا اطہر میں د ی جانے والی طلاق ہوتی تو فاء کے بجائے ثُم کا استعمال کیا جاتا حرف فاء کا لایا جانا بتلارہا ہے ۔(ختم بیان مفتی عزیز الرحمن ’’انقلاب‘‘ حرف بہ حرف نقل ہے)۔
حسب بالادلیل کاجواب صرف قرآن مجید ہی سے ممکن ہے اور وہ ہے سورہ بنی اسرآئیل( اسراء) کی آیت (۴ )اور (۵)۔ اﷲ تعالی ارشاد فرماتا ہے وقضینآ الیٰ بنی اسرآء یل فی الکتٰب لتفسدن فی الارض مرتین ولتعلن علوا کبیرا ۴۔ فاذا جآء وعدا ولٰھما بعثنا علیکم عبادا لنا ٓاُلی باس شدید فجاسوا خلٰل الدیارط وکان وعدا مفعولا ۵۔
تمام مفسرین نے یہ لکھا کہ اﷲ سبحانہ و تعالی ارشاد فرماتا ہے کہ ہم نے بنی اسرائیل کو کتاب میں بتلادیا تھا کہ زمین میں دو مرتبہ (مرتین )فساد برپا کروگے اور بڑی سرکشی کروگے۔ جب ان میں سے پہلی سرکشی کا موقع آیا تو ہم تمہارے اوپر نہایت زور آور لو گ بھیجیں گے گھروں کی تلاشی لیں گے اور یہ وعدہ قطعی
ہے۔ مفسرین لکھتے ہیں کہ یہ دونوں واقع کے درمیان برسوں کا فاصلہ ہے یعنی ایک کے بعد ایک بلا فصل نہیں ہوئے۔ اور آیت ۵ بھی باوجود تاخیر کے لفظ ’’فا‘‘ سے ہی شروع ہورہی ’’ ثم‘‘ سے نہیں۔ لہذا جو دلیل مولانا مفتی عزئز الرحمن صاحب نے قرآن سے دی وہ اس آیت قرآنی سے رد ہوجائے گی۔
یہاں دو نکات قابل توجہ ہیں:۔
۱۔ جس طرح رجوع کرنے اور عورت کو روکے رکھنے میں ’’معروف‘‘ کی شرط ہے، یعنی رجوع اور روکے رکھنا صلح و صفائی اور خلوص و محبت کی بنیاد پر ہو اُسی طرح جدائی بھی ’’احسان‘‘ کے ساتھ مقید ہے۔ یعنی علٰیحدگی اور جدائی ہر طرح کے نا پسندیدہ امر سے پاک ہو۔ مثلاً انتقام، غیض ، غضب، اورکینہ سے مبرّا ہو۔
۲۔ الطلاق مرتان۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ دو یا تین طلاقیں ایک ہی نشست میں انجام نہیں پاسکتیں اور چاہئے کہ متعدد مواقع پر واقع ہوں۔ خصوصاً جب تعداد طلاق کا مقصد یہ ہے کہ رجوع کا زیادہ موقع مل سکے اور شائد پہلی کشکمش کے بعد صلح و صفائی برقرار ہوجائے، اور اگر پہلی مرتبہ صلح و صفائی نہ ہوسکے تو شائد دوسری مرتبہ صلح اور محبت پیدا ہوجائے۔ لیکن ایک ہی موقع پر متعدد طلاق ، طلاق، طلاق سے یہ راستہ صلح و صفائی کا بند ہوجائے گا۔ اور میاں بیوی ہمیشہ کے لئے ایک دوسرے سے جدا ہو جاتے ہیں اور اس طرح تین طلاق عملی طور بے اثر ہوکر رہ جاتے ہیں ۔
اس کو احادیث کی روشنی میں ملاحظہ فرمائیں:۔
کان الیٰ سنتین من عھد عمر طلاق الثلٰث واحدۃ فقال ان الناس قد استعجلوا فامضاہ علیھمـ ثلٰثا ۔ آنحضرت ؐ اور حضرت ابوبکراور خلافت حضرت عمر میں بھی دو برس تک یہی حکم رہا کہ اگر کوئی شخص تین طلاق ایک ہی نشست میں ایک بار دیدے تو صرف ایک طلاق پڑتی تھی (شمار کی جاتی تھی) پھر حضرت عمرنے کہا لوگوں نے طلاق دینے میں جلدی شروع (کثرت شروع ) کی ہے تو انھوں نے تین طلاق پڑجانے کا (شمار کرنیکا) حکم جاری کیا۔ صحیح مسلم کتاب الطلاق باب الطلاق الثلاثہ ج۳ ص۱۸۳؛ مسند احمدابن حنبل ج ۱ ص ۳۱۴؛ المغنی ج۸ ص ۲۴۳؛ الشرح الکبیر ج۸ ص۲۶۰؛ سنن نسائی کتاب طلاق ج ۶ ص ۱۴۵؛ مستدرک الصحیحین ج ۲ ص ۱۹۶؛ فتح الباری ابن حجر ج ۹ ص۲۹۷؛ شرح مسلم النووی ج ۱۰ ص ۷۰؛الدیباج علی مسلم جلال الدین سیوطی ج ۴ ص۸۸؛ عون المعبود عظیم العبادی ج ۶ ص ۱۹۰؛المصنف ج۶ص ۳۹۲ عبد الرزاق الصنعانی؛ المعجم الکبیر طبرانی ج۱۱ ص ؛۱۹ تفسیر قرطبی ج۳ ص ۱۳۰؛تفسیر در المنثور ج۱ ص ۲۷۹؛ المحلی ابن حزم ج ۱۰ ص۱۶۸؛ نیل الوطار الشوکانی ص ۱۱ تا ۱۴؛ سبل السلام ابن حجر عسقلانی ج ۳ ص ۱۷۱؛المجموع نووی ج ۱۷ ص ۸۵و ۱۲۲؛
حاشیہ رد المختار ابن عابدین ج ۳ ص ۲۵۶؛المغنی ابن القدامہ ج ۸ ص ۲۴۳ ؛لغات الحدیث علامہ وحید الزمان حرف ’’ط ‘‘۔ص ۳۸
الطلاق الثلاث: قال ابن عباس: کان الطلاق في عھد رسول اﷲ ﷺ وأبی بکر و سنتین من خلافۃ عمر طلاق الثلاث، واحدۃ، فقال عمر : إن الناس قد استعجلوا في أمر کانت لھم فیہ أناۃ فلو أمضیناہ علیھم فأمضاہ علیھم،وروی عکرمۃ عن ابن عباس قال: طلق رکانۃ امرأتہ ثلاثا في مجلس واحد، فحزن علیھا حزنا شدیدا فسألہ النبي ﷺ کیف طلقتھا ؟ فقال طلقتھا ثلاثا: فقال في مجلس واحد؟ فقال :نعم۔ قال فإنما تلک واحدۃ فإن شئت فراجعھا۔ محاضرات الادباء الامام الادیب الاراغب
الاصفھانی متوفی ۵۰۲ ھطبع شرکۃ دار الارقم بیروت جلد اول ص ۲۴۶۔
اسی روایت کو دوسرے طریقے سے یوں بیان کی گئی ہے:۔
حدثنا عبد اﷲ حدثنی أبی سعد بن ابراھیم ثنا أبی عن محمد ابن اسحاق حدثنی داود بن الحصین عن عکرمۃ مولی ابن عباس عن ابن عباس قال طلق رکانۃ بن عبد یزید أخو بنی مطلب امأتہ ثلاثا في مجلس واحد فحزن علیھا حزنا شدیدا قال فسألہ رسول اﷲ ﷺ کیف طلقتھا قال طلقتھا ثلاثا قال فقال في مجلس واحد قال نعم قال فانما تلک واحدۃ فارجعھا ان شئت قال فرجعھا فکان ابن عباس یری انما الطلاق عند کل طھر۔ مسند امام احمد ج۱ ص۲۶۵؛السنن الکبری البھیقی ج۷ ص ۳۳۹؛ فتح الباری ج۹ ص۲۹۷؛ مسند ابی یعلی
الموصلی ج۴ ص۳۷۹ سلسہ ۲۵۰۰؛ کنزالعمال ج۹ ص ۷۰۵ سلسلہ ۲۸۰۶۰؛ عون المعبود محمد شمس الحق العظیم
آبادی ج ۶ ص۱۹۰؛ المصنف عبدالرزاق ج۷ ص۱۲؛ الکفایۃ فی علم الروایۃ خطیب بغدادی ص۱۸۱۔
شاہ ولی اﷲ محد ث دھلوی ازالۃ الخفاء عن خلافۃ الخفاء طبع قدیمی کتاب خانہ کراچی جلد سوم ص ۴۱۶ تا ۴۱۹ میں تحریر فرماتے ہیں:۔ کے شافعیؒ طاؤس سے روایت کرتے ہیں کہ ابو الصہباء نے ابن عباسؓ سے سوال کیا کہ تین طلاقیں رسول اﷲ ﷺ کے زمانے میں ایک طلاق قرار دی جاتی تھی اور عہد حضرت ابوبکر میں بھی اور حضرت عمرکے ابتدائے امارت کے تین سال تک اسی پر عمل ہوتا رہا؟ ابن عباس ؓ نے کہا :ہاں۔ مسلم طاؤس سے وہ ابن عباسؓ سے کہ رسول اﷲ ﷺ اور حضرت ابوبکر کے زمانے میں اور حضرت عمرکی خلافت کے دوسال تک تین طلاق کو ایک قرار دیا جاتا تھا۔ پھر حضرت عمرابن خطاب نے کہا کہ لوگوں نے عجلت کرنا شروع کردیا اس امر میں جس میں اُن کو مہلت دی گئی تھی تو کیوں نہ ہم اُن پر اُس کو جاری کردیں(یعنی تین طلاق کو تین ہی قرار دیں)۔
کتاب’’ المسند ‘‘ ص ۱۹۲ دارالکتب العلمیۃ بیروت الاما م شافعی ؒ متوفی ۲۰۴ ھ ؛ صحیح مسلم ج ۴ ص۱۸۴؛ سنن ابو داؤد ؒ باب تفریع ابواب الطلاق سلسلہ ۲۱۹۹ ج اول ص۴۹۰؛سنن النسائی کتاب الطلاق ج۶ ص۱۴۵؛ السنن الکبری ج۷ ص۳۳۶ ۔
اسی کتاب ازالۃ الخفاء جلدچہارم ص ۲۳۶ میںعمران بن سوادۃ اللیثی سے روایت ہے کہ حضرت عمر نے اقرار کیا کہ انہوں نے جو تبدلیاں کئیںاُن میں تین طلاق بھی شامل ہے۔
علامہ قاضی محمد ثناء اﷲ پانی پتی تفسیر مظہری جلد اول صفحہ ۴۹۳میں اسی سورہ بقرہ کی آیت ۲۲۹ کے تحت لکھتے ہیں : اﷲ تعالی کے مرتان فرمانے اوثنتان نہ فرمانے میں اس امر کی دلیل ہے کہ ایک ہی دفعہ دو طلاقیں مکروہ ہے کیونکہ مرتان کا لفظ عبارۃ ً تو تفریق کی دلالت کرتا ہے اور اشارۃً عدد پر اور الطلاق میں حرف’’ لام ‘‘جنس کے لئے ہے اور جنس کے علاوہ کوئی اور کچھ نہیں ہے پس قیاس تو یہ چاہتا ہے کہ اکھٹی دو طلاقیں معتبر نہ ہوں اور جب دو
طلاقیں معتبر نہ ہوئیں تو تین طلاقیں اکھٹی دیدینی تو بدرجہ اولیٰ معتبر نہ ہوگی کیونکی تین میں دو کے علاوہ اور زیادتی ہے۔
بعض کا قول یہ ہے کہ طلاق سے مراد تطلیق ہے اور معنٰی (آیت کے) یہ ہیں کہ شرعی طلاق دینا یہ ہے کہ اطہار میں متفرق طور پر یکے بعد دیگرے طلاق دے نہ کہ اکھٹی اور اِس وقت مرتین سے تثنیہ مراد نہ ہوگا بلکہ تکریر (تکرار)مقصود ہوگی جیسا کہ اﷲ تعالیٰ کے اس قول میں ہے ثم ارجع البصر کرتین۔ یعنی کرۃً بعد کرۃٍ۔اس تاویل سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ دو طلاقیں یا تین طلاقیں ایک لفظ سے ہوں یا مختلف الفاظ سے ایک طہر میں اکھٹی دیدینی حرام ۔
بدعت، باعث گناہ ہیں۔تفسیر مظہری۔
یہ واضح ہے کہ تین طلاق کا مفہوم تین مرتبہ طلاق دینا ہے ۔ ایک ساتھ تین لفظ ِ طلاق کا استعمال نہیں ہے اور اُس کی واضح ترین دلیل یہ ہے کہ اگرزوجیت طلاق چاہتی ہے تو ایک طلاق کے بعد رجوع نہ ہو یا عدت کے بعد دوبارہ عقد نہ کیا جائے تو دوسری طلاق کا موضوع ہی نہیں پیدا ہوتا ہے۔ ایک ساتھ تین طلاق اگر تین ہیں تو دوسری زوجیت کب واپس آئی ہے، اور اگر سب ملاکر ایک ہیں تو تین طلاق کے احکام نافذ کرنا غلط ہے
Last edited: