حمزہ کی شادی، نثار کی بڑھکیں اور سہمی ایم کیوایم: پریس گیلری
Published on 14. Oct, 2011

_____________________________________
عائشہ ملک کیخلاف ’ریاستی دہشتگری‘ کے پیچھے کون؟
ٹاپ سٹوری کی خبر کی تصدیق قومی اسمبلی میں
____________________________________
چوہدری نثار کی غیرمعمولی بڑھکوں اور دھمکیوں کے بعد سب یہ سوچ رہے تھے کہ کیا اب حمزہ شہباز کے شادیوں پر شادیوں کرنے اور اپنی بیویوں کو پولیس کے ہاتھوں پٹوانے جیسے کارناموں کو چھپانے کے لیے پاکستان کو اپنی قومی اسمبلی کی قربانی دینا ہوگی کیونکہ نواز لیگ نے جمعرات کو یہ ثابت کیا کہ جو بھی شہباز شریف کے’ لائق برخوردار‘ کی تیسر ی بیوی عائشہ کے حق میں بات کرنے کی جرات کرے گا اسے اس کی بھاری قیمت ادار کرنی پڑے گی۔
ایم کیو ایم نے یہ قیمت خوب چکائی بھی !!
یہ سوالات اس وقت پیدا ہوئے جب جمعرات کو پاکستان مسلم لیگ کے ارکان نے ایم کیوایم کے ارکان کو جسمانی طور پر مارنے کی کوشش کی اور اس کا سارا کریڈٹ کسی اور کو نہیں بلکہ چوہدری نثار کو جاتا ہے جنہوں نے ہاوس کے اندر یہ ماحول پیدا کرنے کے لیے پورے دوگھنٹے تک مسلسل محنت کی تھی اور اپنی تقریر کی مدد سے ایسی آگ لگائی کہ لگتا تھا کہ آج تو ایوان میں یا تو ایم کیو ایم نہیں یا ن لیگ۔
ایم کیوایم کے تو صرف دس پندرہ ایم این ایز موجود تھے جب کہ مسلم لیگ (ن) کے پچاس سے اوپر ارکان اسمبلی اور وہ بھی چوہدری نثار کی پنجابی سٹائل فلموں سے متاثر انہیں مارنے کے لیے تیار۔ یوں تقریر میں ایک موقع ایسا آیا جب نثار اپنی اس دھمکی کو عملی جامعہ پہنانے میں کامیاب رہے کہ آج انہیں ہاؤس میں اپنی جسمانی قوت بھی استعمال کرنی پڑی تو وہ بھی کریں گے۔ اگرچہ انہوں نے جسمانی طاقت کے استعمال کی دھمکی اسلام آباد ڈیفنس ہاوسنگ اتھارٹی بل کو ہاؤس سے پاس کرانے سے روکنے کے لیے دی تھی، تاہم حکومت نے عقلمندی کی اوراس کے ارکان ان دھمکیوں کے جواب میں چپ رہے۔ یوں حکومتی بنچوں سے جواب نہ ملنے پر نثار کی توپوں کا رخ ایم کیو ایم کی طرف مڑ گیا جن کے دھیان میں بھی نہیں تھا کہ عائشہ ملک سے ملاقات کرنے پر ان کے خلاف اس پیمانے کی تقریر کی جاسکتی تھی۔
__________________________________________
چوہدری نثار یا ریاض ملک : چوہدراہٹ کی جنگ کون جیتے گا؟؟
چوہدری نثار کا استعفا اصولی یا کائرہ کا خوف
’چوہدری نثار کے بیوی بچے امریکی شہری نکلے‘
___________________________________________
شاید بات تقریر تک رہتی تو بھی ٹھیک تھا لیکن نثار کی تقریر کے کچھ دیر بعد پہلے نعرے شروع ہوئے، نعروں کے جواب میں سرگوشیوں میں گالیوں کا تبادلہ اور پھر عابد شیر علی جو اس طرح کے موقع ڈھونڈنے میں اپنا ثانی نہیں رکھتے، ایم کیو ایم کے ارکان کو مارنے کے لیے دوڑے۔ ان کے ساتھ دینے کے لیے حینف عباسی بھی ہاپنتے کاپنتے بنچ پھلانگتے پہنچے ۔ تاہم عابد شیر علی اور عباسی نے یہ پورا دھیان رکھا کہ ان کے ساتھیوں نے ایم کیو ایم کے بنچوں سے پہلے انہیں پکڑ لینا ہے۔ عابد علی اور حنیف عباسی کی مدد ان کے اپنی پارٹی کے ’حسد‘ کے مارے ارکان نے تو نہیں کی تاہم رحمن ملک اور خورشید شاہ نے انہیں مایوس نہیں کیا اور دوڑ کر پکڑ لیا۔ چوہدری نثار بھی یہ چاہتے تھے کہ آج تو ایوان میں آگ لگے۔ چکری کے چوہدری اپنا مشن مکمل کرنے کے بعد بڑے آرام سے لیڈر آف دی اپوزیشن کی کرسی پر بیٹھ گئے اور اپنی ٹانگ پر ٹانگ رکھ کر اپنے پاؤں کو شدت سے ہلاتے رہے اور ان کے پس منظر میں گالی گلوچ کے بعد لڑائی شروع ہو چکی تھی۔
تاہم یہ دن بھی دیکھنا تھا کہ جمعرات کو پہلی دفعہ ایم کیو ایم کے ارکان کو قومی اسمبلی میں خوفزدہ دیکھا گیا۔ اب تک ایم کیوایم خوفزدہ کرتی آئی تھی لیکن آج سب کا خیال تھا کہ ایم کیو ایم ڈر گئی تھی کہ اگر انہوں نے چوہدری نثار کی تقریر کے جواب میں حمزہ شہباز کی تیسری بیوی عائشہ کے ساتھ ہونے والے سلوک کا ذکر کیا یا چوہدری نثار کو وکی لیکس میں دئے گئے انکشاف کے ان کے بیوی بچے امریکی شہری تھے کا طعنہ دیا یا یہ کہ وہ پاکستانی ’مسٹر بین‘ ہیں یا پھر وہ سر پر وہگ رکھ کر پھرتے ہیں ( ایم کیو ایم کے نثار پر پنسدیدہ حملے) تو پھر عابد شیر علی اور حنیف عباسی کو خود نثار نے اپنی کرسی پر بلا کر تیار کیا کہ انہوں نے کیسے ایم کیو ایم پر جسمانی حملہ کرنا ہے۔
حنیف عباسی تو اسی طرح چوہدری نثار کی حرمت پر قربان ہونے کے لیے تیار تھے جیسے کبھی وہ جنرل پرویز مشرف کو وردی کے ساتھ صدر بننے کے لیے ووٹ ڈالنے کے بعد قاضی حسین احمد پر ہوتے تھے جب وہ متحدہ مجلس عمل کے ٹکٹ پر قومی اسمبلی کے ممبر بنے تھے۔ حنیف عباسی کے لیے یہ اچھا موقع پیدا ہو گیا تھا کہ وہ نثار پر ثابت کردیں کہ وہ ان کے جانثارو ں میں سے تھے۔ حنیف عباسی کی چوہدری نثار کے جانی دشمن ملک ریاض سے بھی دوستی ہے اور وہ دو ہاتھیوں کی لڑائی میں اب تک نیوٹرل تھے۔ تاہم انہیں چوہدری صاحب کی طرف سے بھیجے گئے اس موقع سے فائدہ اٹھانے کا فیصلہ کیا کہ اگر وہ نثار کی ملک ریاض کے معاملے پر کوئی عملی حمایت نہیں کر سکتے تھے، تو اب کم از کم ایم کیو ایم کے معاملے پر تو ان کے لیے کسی کو دو چار تھپڑ مارے یا کھائے جا سکتے ہیں کیونکہ راولپنڈی سے ایم این انے بننے کے لیے چوہدری نثار اور ملک ریاض کے دست شفقت کی ضرورت تھی۔
یہ بات طے تھی کہ آج نثار گھر سے طے کر کے چلے تھے کہ انہوں نے قومی اسمبلی میں کوئی ہنگامہ ضرور کرانا ہے کیونکہ وہ آڈر اف ہاوس میں پڑھ کر چلے تھے کہ آج حکومت اسمبلی میں ریاض ملک کی منشا پر ڈیفنس ہاوسنگ اتھارٹی کا بل پیش کرنے والی تھی۔ نثار کو اب تک کسی نے پنڈی میں چیلنج یا یہ کہیں کہ بڑے بڑے بل بورڈ لگا کر خوار کیا تھا تو وہ کوئی اور نہیںِ، ریاض ملک جو شاید واحد پاکستانی پراپرٹی کنگ ہیں جن کے آصف زرداری سے لے کر چوہدری پرویز الہی، نواز شریف، شہباز شریف، رحمن ملک، یوسف رضا گیلانی تک سب سے دوستی ہے۔ ان سب میں جو مشترکہ بات ہے اس کا نام ریاض ملک ہے جو سب کے کام آتا ہے اور ضروریات پوری کرنے میں کنجوسی اور بخل سے کام نہیں لیتا۔ ملک صاحب کو علم ہے کہ یہ سب بکتے ہیں اور وہ خریدنا جانتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اگر نثار نواز شریف اور شہباز شریف کو ریاض ملک سے دور نہیں کر سکے تو اس میں زرداری، گیلانی یا چوہدریوں کا کیا قصور !!!
دوسری طرف ایم کیوایم کو سمجھ نہیں آرہی تھی کہ جو حشر ان کا چوہدری نثار نے اپنی تقریر میں لعن طعن کر کے کیا ہے اور ان کے جانی دشمن ذوالفقار مرزا کی شان میں قیصدے پڑھے ہیں، ان کا کھڑے ہو کر جواب کون دے گا؟ ایم کیو ایم کے پاس اس طرح کی صورت حال میں ہمیشہ تین آپشن ہوتے ہیں۔ پہلی ترجیح زبردست تقریر کرنے کے صلاحیت رکھنے والے حیدر عباس رضوی ہوتے ہیں، پھر نمبر فاروق ستار کا آتا ہے اور اگر گالم گلوچ کرانی ہو تو پھر موقع وسیم اختر کو دیا جاتا ہے۔ جب اپوزیشن لیڈر چوہدری نثار، جن کی پارٹی کے لیڈروں نے ایم کیو ایم کے لیڈروں کو مارنے کی کوشش کی، بڑی مشکلوں سے اپنی ہنگامہ خیز تقریر ختم کی تو سب کی نظریں ایم کیوایم کے بنچوں پر جا رکیں کہ اب اس کا جواب دینے کے لیے وہاں سے کون سا میزائل فائر ہوتا ہے؟
ایم کیو ایم کی بدقسمتی کہ فاروق ستار اور حیدر عباس رضوی ہاؤس سے غیر حاضر تھے اور کراچی کی حرمت کی پگ کی عزت قائم رکھنے کا فریضہ شاید وسیم اختر کے سر پر ایک دفعہ پھر بندھنے کا موقع آگیا تھا۔ تاہم سب کی حیرت کی انتہا نہ رہی جب وسیم اختر محض چپ بیٹھے رہے اور ایک نوجوان ایم این اے آصف حسنین کے کندھوں پر یہ بوجھ ڈالا گیا جو ان سے نہ اٹھایا جا سکتا تھا اور نہ اٹھ سکا کیونکہ ان کی جوابی تقریر کسی کالج کے تقریری مقابلے کی سی تقریر تو ضرور لگتی تھی لیکن اس لیول کی ہرگز نہ تھی جو نثار کے بعد ایم کیو ایم کی ضرورت بن گئی تھی۔
سب حیران تھے کہ یہ کیا ہو گیا تھا۔ کیا وسیم اختر پر الطاف بھائی نے بین لگا دیا تھا کہ انہوں نے اب نہیں بولنا کیونکہ آخری دفعہ انہوں نے پنجاب کے لوگوں پر اتنی چڑھائی کی تھی کہ خود ایم کیو ایم کو معافی مانگنی پڑ گئی تھی۔ ان کا یہ معروف ڈائیلاگ سب کو شرما گیا تھا کہ لاہور کے ہر گھر میں مجرا ہوتا ہے۔ اس ایک کمزور ڈائیلاگ نے ایم کیو ایم کی پنجاب میں اس بڑی پرانی خواہش کا قتل کر دیا تھا کہ وہ ہر صورت اب کراچی سے نکل کر پنجاب کا رخ کریں۔ یوں وسیم اختر پر یہ بین بہت مہنگا پڑا کیونکہ آصف حسینن کو اگر نثار کی تقریر کے بعد اپنی وضاحتیں دینے کے لیے کھڑا کیا گیا تھا، تو وہ کام انہوں نے بخوبی ادا کیا وگرنہ وہ نثار کی تقریر کا اثر زائل کرنے میں بری طرح ناکام رہے بلکہ الٹا یہ تاثر سب کو ملا کہ ایم کیو ایم پر ن لیگ نے ایک نفسیاتی حملہ کرکے دبا لیا تھا۔
میرے ساتھ پریس گیلر ی میں بی بی سی کے اسلام آباد میں نمانئدے اور سینر صحافی دوست اعجاز مہر نے بھی اس بات سے اتفاق کیا کہ آج پہلی دفعہ انڈر پریشر نظر آرہی تھی اور وہ نثار اور اس کی پارٹی کے لیڈروں پر تنقید کرنے کو تیار نہیں تھی۔ بلاشبہ چوہدری نثار نے بہت قابل اعتراض تقریر کی تھی خصوصا جب انہوں نے چکری کے چوہدری کی طرح یہ دھمکیاں ہاوس کے فلور پر کھڑے ہو کر دیں کہ اگر حکومت نے ڈیفنس ہاوسنگ اتھارٹی کا بل منظوری کے لیے پیش کیا تو ان کی جماعت اس بل کو پارلیمانی انداز میں روکنے کی بجائے جسمانی طاقت کا مظاہرہ کرے گی اوراسے روک کر دکھائے گی۔ چوہدری نثار کی اس دھمکی نے سب کو حیران کر دیا کہ آج یہ جمہوریت کی نئی تعریف لکھی جارہی تھی کہ جو بھی بل چوہدری نثار کی پارٹی کو پسند نہ ہوگا، اسے اب ووٹ کی بجائے جسمانی طاقت سے روکا جائے گا۔ چوہدری نثار کی بڑھکوں کا سلسلہ جاری رہا جب انہوں نے کہا کہ آئندہ سے اپوزیشن کی لابی میں اگر کوئی ایم کیو ایم کا ایم این اے بیٹھا نظر آیا تو اسے بھی جسمانی طاقت سے روکا جائے گا۔ اگلی دھمکی یہ دی کہ ایم کیو ایم کو فورا ان بنچوں سے اٹھا کر حکومتی بنچوں پر شفٹ کیا جائے۔
چوہدری نثار کو اس بات کا غصہ تھا کہ ایم کیو ایم نے جب عافیہ صدیقی اور لال مسجد میں ہلاک ہونے والی بچیوں پر کوئی احتجاج نہیں کیا تھا تو آج انہیں کوئی حق نہیں بنتا تھا کہ وہ شہباز شریف کے ہونہار برخودار کی اپنی تیسری بیوی عائشہ ملک کو پولیس کے ہاتھوں اٹھوا کر پٹوانے پر بھی اب چپ رہنا چاہیے کیونکہ ان کے خیال میں یہ ان کا ذاتی گھریلو معاملہ تھا۔ گھریلو معاملہ کا اصل مطلب سمجھانے کے لیے نثار کو ’مسز گبول‘ کا بھی حوالہ دینا پڑا ( الطاف حیسن کی سابقہ بیوی)۔ (شاید یہ بات اشارہ ایم کیو ایم کو سمجھ آگیا تھا لہذا انہوں نے چپ میں ہی عافیت جانی)
نثار کو یہ بھی خوف تھا کہ اگر وسیم اختر اٹھ کھڑے ہوئے اور انہوں نے اپنے مخصوص انداز میں چوہدری صاحب پر حملے شروع کیے تو ان کے لیے ہاوس میں بیٹھنا مشکل ہو جائے گا لہذا پہلے تو انہوں نے اپنی تقریر کو غیر ضروری طول دیا اور بار بار باتوں کو دہراتے رہے تاکہ ان کی تقریر ختم ہونے کے ساتھ ہی اجلاس ملتوی ہو جائے۔ جب اجلاس اذان کے باوجود بھی جاری رہا، تو نثار کے جانثاروں حنیف عباسی اور عابد علی نے کھل کر ایم کیو ایم کے ممبران پر پل پڑے جو سرگوشیوں میں ایسے کمنٹس پاس کر رہے تھے جو ان سے برداشت نہیں ہو رہا تھے۔چوہدری نثار کو اپنے ان دو جان نثاروں کا شکر گزار ہونا چاہیے جن کی غیرمعمولی کارگردگی نے انہیں وسیم اختر کے حملوں سے بچا لیا وگرنہ ان کے لیے شاید وہاں ٹکے رہنا مشکل ہو جاتا۔
سوال یہ ہے کہ کیا آرمی چیف جنرل کیانی سے شہباز شریف کے ساتھ جی ایچ کیو میں چھ خفیہ ملاقاتوں ، ججوں کو بحال کرانے اور پنجاب میں پی ایم ایل کیو کے لوٹوں کو ساتھ ملانے کے باوجود بات نہیں بن رہی تھی، کہ پیپلز پارٹی پھر بھی سینٹ کے انتخابات میں اکثریت لے کر اپنے پانچ سال پورے کرنے والی ہے۔ عمران خان کے بڑھتے ہوئے سیاسی خوف اور زرداری کو ہٹانے میں مسلسل ناکامی نے مسلم لیگ کو آخر یہ دھمکیاں دینے پر مجبور کر دیا ہے کہ اب وہ قومی اسمبلی کو ووٹ کے زور پر نہیں، بلکہ جسمانی طاقت کے بل بوتے پر چلائیں گے۔ نواز لیگ نے اپنی جسمانی طاقت کا پہلا کامیاب مظاہرہ کسی اور پر نہیں بلکہ ایم کیو ایم پر کر کے یہ پیغام دیا ہے کہ باقی کس کھیت کے مولی ہیں۔ بلاشبہ ایم کیو ایم کے ارکان اسمبلی خوفزدہ نظر آئے۔
تو کیا اب فوج کو اپنے ساتھ ملانے میں ناکامی، سیاسی تنہائی اور عمران خان کی بڑھتے ہوئے سیاسی دباؤ کے بعد، نواز لیگ کے پاس ایک ہی راستہ رہ گیا ہے کہ وہ ملک میں ایک اور بارہ اکتوبر کی راہ ہموار کریں اور اب کی دفعہ ہتھکڑیاں نواز شریف اور شبہاز شریف کی بجائے گیلانی اور زرداری کو لگیں!!!
کیا یہ وہ قیمت ہے جو نواز لیگ حمزہ شہبار کی اپنی بیوی عائشہ ملک کے معاملے پر شور اٹھنے پر اب قومی اسمبلی سے لینا چاہتی ہے کیونکہ اب باقی سب ’دیسی سیاسی کشتے‘ ناکام ہوگئے ہیں ۔ اور تو اور ’ اصولوں کی سیاست‘ کے نعرے مارنے والے نواز شریف کو اور کوئی نہیں ایک زمانے میں جنرل مشرف کی فیورٹ ایم این ایز سمیرا ملک اور کشمالہ طارق کے ساتھ فوٹو سیشن پر گزارنا کرنا پڑ رہا ہے! اگر آپ بھول گئے ہیں تو میں آپ کو یاد دلا دیتا ہوں کہ کبھی ان دونوں قابل احترام سیاسی خواتین کے بغیر خوش ذوق جنرل مشرف کا آرمی ہاؤس راولپنڈی میں دسترخوان سونا سونا رہتا تھا !!!
Published on 14. Oct, 2011

رؤف کلاسرا
تو کیا عائشہ ملک کی حمزہ شہباز سے شادی کے بعد ان کا پولیس اور ججوں کے ہاتھوں جو حشر کرایا گیا ، اب اس پر جو بھی بات کرے گا اس کا وہی حشر ہو گا جو قومی اسمبلی میں ایم کیو ایم کے ارکان کا جمعرات کو کیا گیا؟ چوہدری نثار علی خان نے اپنی طوفانی تقریرمیں ( جس میں انہوں نے اپنے تئیں سب کچھ تہس نہس کرنے کی پوری کوشش کی) پورے پاکستان کو ایک پیغام بھیجا کہ پنجاب کے ولی عہد کی شان میں جو گستاخی کرے گا اسے ’کاٹ کھایا‘ جائے گا۔ کاٹ کھانے کے لیے انہوں نے اپنے دو جانثاروں پنڈی کے حنیف عباسی اور دھوبی گھاٹ فیصل آباد کے عابد شیر علی کو ٹاسک دیا اور ان دونوں نے اپنی اس ڈیوٹی کو بخوبی نبھایا بھی۔_____________________________________
عائشہ ملک کیخلاف ’ریاستی دہشتگری‘ کے پیچھے کون؟
ٹاپ سٹوری کی خبر کی تصدیق قومی اسمبلی میں
____________________________________
چوہدری نثار کی غیرمعمولی بڑھکوں اور دھمکیوں کے بعد سب یہ سوچ رہے تھے کہ کیا اب حمزہ شہباز کے شادیوں پر شادیوں کرنے اور اپنی بیویوں کو پولیس کے ہاتھوں پٹوانے جیسے کارناموں کو چھپانے کے لیے پاکستان کو اپنی قومی اسمبلی کی قربانی دینا ہوگی کیونکہ نواز لیگ نے جمعرات کو یہ ثابت کیا کہ جو بھی شہباز شریف کے’ لائق برخوردار‘ کی تیسر ی بیوی عائشہ کے حق میں بات کرنے کی جرات کرے گا اسے اس کی بھاری قیمت ادار کرنی پڑے گی۔
ایم کیو ایم نے یہ قیمت خوب چکائی بھی !!
یہ سوالات اس وقت پیدا ہوئے جب جمعرات کو پاکستان مسلم لیگ کے ارکان نے ایم کیوایم کے ارکان کو جسمانی طور پر مارنے کی کوشش کی اور اس کا سارا کریڈٹ کسی اور کو نہیں بلکہ چوہدری نثار کو جاتا ہے جنہوں نے ہاوس کے اندر یہ ماحول پیدا کرنے کے لیے پورے دوگھنٹے تک مسلسل محنت کی تھی اور اپنی تقریر کی مدد سے ایسی آگ لگائی کہ لگتا تھا کہ آج تو ایوان میں یا تو ایم کیو ایم نہیں یا ن لیگ۔
ایم کیوایم کے تو صرف دس پندرہ ایم این ایز موجود تھے جب کہ مسلم لیگ (ن) کے پچاس سے اوپر ارکان اسمبلی اور وہ بھی چوہدری نثار کی پنجابی سٹائل فلموں سے متاثر انہیں مارنے کے لیے تیار۔ یوں تقریر میں ایک موقع ایسا آیا جب نثار اپنی اس دھمکی کو عملی جامعہ پہنانے میں کامیاب رہے کہ آج انہیں ہاؤس میں اپنی جسمانی قوت بھی استعمال کرنی پڑی تو وہ بھی کریں گے۔ اگرچہ انہوں نے جسمانی طاقت کے استعمال کی دھمکی اسلام آباد ڈیفنس ہاوسنگ اتھارٹی بل کو ہاؤس سے پاس کرانے سے روکنے کے لیے دی تھی، تاہم حکومت نے عقلمندی کی اوراس کے ارکان ان دھمکیوں کے جواب میں چپ رہے۔ یوں حکومتی بنچوں سے جواب نہ ملنے پر نثار کی توپوں کا رخ ایم کیو ایم کی طرف مڑ گیا جن کے دھیان میں بھی نہیں تھا کہ عائشہ ملک سے ملاقات کرنے پر ان کے خلاف اس پیمانے کی تقریر کی جاسکتی تھی۔
__________________________________________
چوہدری نثار یا ریاض ملک : چوہدراہٹ کی جنگ کون جیتے گا؟؟
چوہدری نثار کا استعفا اصولی یا کائرہ کا خوف
’چوہدری نثار کے بیوی بچے امریکی شہری نکلے‘
___________________________________________
شاید بات تقریر تک رہتی تو بھی ٹھیک تھا لیکن نثار کی تقریر کے کچھ دیر بعد پہلے نعرے شروع ہوئے، نعروں کے جواب میں سرگوشیوں میں گالیوں کا تبادلہ اور پھر عابد شیر علی جو اس طرح کے موقع ڈھونڈنے میں اپنا ثانی نہیں رکھتے، ایم کیو ایم کے ارکان کو مارنے کے لیے دوڑے۔ ان کے ساتھ دینے کے لیے حینف عباسی بھی ہاپنتے کاپنتے بنچ پھلانگتے پہنچے ۔ تاہم عابد شیر علی اور عباسی نے یہ پورا دھیان رکھا کہ ان کے ساتھیوں نے ایم کیو ایم کے بنچوں سے پہلے انہیں پکڑ لینا ہے۔ عابد علی اور حنیف عباسی کی مدد ان کے اپنی پارٹی کے ’حسد‘ کے مارے ارکان نے تو نہیں کی تاہم رحمن ملک اور خورشید شاہ نے انہیں مایوس نہیں کیا اور دوڑ کر پکڑ لیا۔ چوہدری نثار بھی یہ چاہتے تھے کہ آج تو ایوان میں آگ لگے۔ چکری کے چوہدری اپنا مشن مکمل کرنے کے بعد بڑے آرام سے لیڈر آف دی اپوزیشن کی کرسی پر بیٹھ گئے اور اپنی ٹانگ پر ٹانگ رکھ کر اپنے پاؤں کو شدت سے ہلاتے رہے اور ان کے پس منظر میں گالی گلوچ کے بعد لڑائی شروع ہو چکی تھی۔
تاہم یہ دن بھی دیکھنا تھا کہ جمعرات کو پہلی دفعہ ایم کیو ایم کے ارکان کو قومی اسمبلی میں خوفزدہ دیکھا گیا۔ اب تک ایم کیوایم خوفزدہ کرتی آئی تھی لیکن آج سب کا خیال تھا کہ ایم کیو ایم ڈر گئی تھی کہ اگر انہوں نے چوہدری نثار کی تقریر کے جواب میں حمزہ شہباز کی تیسری بیوی عائشہ کے ساتھ ہونے والے سلوک کا ذکر کیا یا چوہدری نثار کو وکی لیکس میں دئے گئے انکشاف کے ان کے بیوی بچے امریکی شہری تھے کا طعنہ دیا یا یہ کہ وہ پاکستانی ’مسٹر بین‘ ہیں یا پھر وہ سر پر وہگ رکھ کر پھرتے ہیں ( ایم کیو ایم کے نثار پر پنسدیدہ حملے) تو پھر عابد شیر علی اور حنیف عباسی کو خود نثار نے اپنی کرسی پر بلا کر تیار کیا کہ انہوں نے کیسے ایم کیو ایم پر جسمانی حملہ کرنا ہے۔
حنیف عباسی تو اسی طرح چوہدری نثار کی حرمت پر قربان ہونے کے لیے تیار تھے جیسے کبھی وہ جنرل پرویز مشرف کو وردی کے ساتھ صدر بننے کے لیے ووٹ ڈالنے کے بعد قاضی حسین احمد پر ہوتے تھے جب وہ متحدہ مجلس عمل کے ٹکٹ پر قومی اسمبلی کے ممبر بنے تھے۔ حنیف عباسی کے لیے یہ اچھا موقع پیدا ہو گیا تھا کہ وہ نثار پر ثابت کردیں کہ وہ ان کے جانثارو ں میں سے تھے۔ حنیف عباسی کی چوہدری نثار کے جانی دشمن ملک ریاض سے بھی دوستی ہے اور وہ دو ہاتھیوں کی لڑائی میں اب تک نیوٹرل تھے۔ تاہم انہیں چوہدری صاحب کی طرف سے بھیجے گئے اس موقع سے فائدہ اٹھانے کا فیصلہ کیا کہ اگر وہ نثار کی ملک ریاض کے معاملے پر کوئی عملی حمایت نہیں کر سکتے تھے، تو اب کم از کم ایم کیو ایم کے معاملے پر تو ان کے لیے کسی کو دو چار تھپڑ مارے یا کھائے جا سکتے ہیں کیونکہ راولپنڈی سے ایم این انے بننے کے لیے چوہدری نثار اور ملک ریاض کے دست شفقت کی ضرورت تھی۔
یہ بات طے تھی کہ آج نثار گھر سے طے کر کے چلے تھے کہ انہوں نے قومی اسمبلی میں کوئی ہنگامہ ضرور کرانا ہے کیونکہ وہ آڈر اف ہاوس میں پڑھ کر چلے تھے کہ آج حکومت اسمبلی میں ریاض ملک کی منشا پر ڈیفنس ہاوسنگ اتھارٹی کا بل پیش کرنے والی تھی۔ نثار کو اب تک کسی نے پنڈی میں چیلنج یا یہ کہیں کہ بڑے بڑے بل بورڈ لگا کر خوار کیا تھا تو وہ کوئی اور نہیںِ، ریاض ملک جو شاید واحد پاکستانی پراپرٹی کنگ ہیں جن کے آصف زرداری سے لے کر چوہدری پرویز الہی، نواز شریف، شہباز شریف، رحمن ملک، یوسف رضا گیلانی تک سب سے دوستی ہے۔ ان سب میں جو مشترکہ بات ہے اس کا نام ریاض ملک ہے جو سب کے کام آتا ہے اور ضروریات پوری کرنے میں کنجوسی اور بخل سے کام نہیں لیتا۔ ملک صاحب کو علم ہے کہ یہ سب بکتے ہیں اور وہ خریدنا جانتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اگر نثار نواز شریف اور شہباز شریف کو ریاض ملک سے دور نہیں کر سکے تو اس میں زرداری، گیلانی یا چوہدریوں کا کیا قصور !!!
دوسری طرف ایم کیوایم کو سمجھ نہیں آرہی تھی کہ جو حشر ان کا چوہدری نثار نے اپنی تقریر میں لعن طعن کر کے کیا ہے اور ان کے جانی دشمن ذوالفقار مرزا کی شان میں قیصدے پڑھے ہیں، ان کا کھڑے ہو کر جواب کون دے گا؟ ایم کیو ایم کے پاس اس طرح کی صورت حال میں ہمیشہ تین آپشن ہوتے ہیں۔ پہلی ترجیح زبردست تقریر کرنے کے صلاحیت رکھنے والے حیدر عباس رضوی ہوتے ہیں، پھر نمبر فاروق ستار کا آتا ہے اور اگر گالم گلوچ کرانی ہو تو پھر موقع وسیم اختر کو دیا جاتا ہے۔ جب اپوزیشن لیڈر چوہدری نثار، جن کی پارٹی کے لیڈروں نے ایم کیو ایم کے لیڈروں کو مارنے کی کوشش کی، بڑی مشکلوں سے اپنی ہنگامہ خیز تقریر ختم کی تو سب کی نظریں ایم کیوایم کے بنچوں پر جا رکیں کہ اب اس کا جواب دینے کے لیے وہاں سے کون سا میزائل فائر ہوتا ہے؟
ایم کیو ایم کی بدقسمتی کہ فاروق ستار اور حیدر عباس رضوی ہاؤس سے غیر حاضر تھے اور کراچی کی حرمت کی پگ کی عزت قائم رکھنے کا فریضہ شاید وسیم اختر کے سر پر ایک دفعہ پھر بندھنے کا موقع آگیا تھا۔ تاہم سب کی حیرت کی انتہا نہ رہی جب وسیم اختر محض چپ بیٹھے رہے اور ایک نوجوان ایم این اے آصف حسنین کے کندھوں پر یہ بوجھ ڈالا گیا جو ان سے نہ اٹھایا جا سکتا تھا اور نہ اٹھ سکا کیونکہ ان کی جوابی تقریر کسی کالج کے تقریری مقابلے کی سی تقریر تو ضرور لگتی تھی لیکن اس لیول کی ہرگز نہ تھی جو نثار کے بعد ایم کیو ایم کی ضرورت بن گئی تھی۔
سب حیران تھے کہ یہ کیا ہو گیا تھا۔ کیا وسیم اختر پر الطاف بھائی نے بین لگا دیا تھا کہ انہوں نے اب نہیں بولنا کیونکہ آخری دفعہ انہوں نے پنجاب کے لوگوں پر اتنی چڑھائی کی تھی کہ خود ایم کیو ایم کو معافی مانگنی پڑ گئی تھی۔ ان کا یہ معروف ڈائیلاگ سب کو شرما گیا تھا کہ لاہور کے ہر گھر میں مجرا ہوتا ہے۔ اس ایک کمزور ڈائیلاگ نے ایم کیو ایم کی پنجاب میں اس بڑی پرانی خواہش کا قتل کر دیا تھا کہ وہ ہر صورت اب کراچی سے نکل کر پنجاب کا رخ کریں۔ یوں وسیم اختر پر یہ بین بہت مہنگا پڑا کیونکہ آصف حسینن کو اگر نثار کی تقریر کے بعد اپنی وضاحتیں دینے کے لیے کھڑا کیا گیا تھا، تو وہ کام انہوں نے بخوبی ادا کیا وگرنہ وہ نثار کی تقریر کا اثر زائل کرنے میں بری طرح ناکام رہے بلکہ الٹا یہ تاثر سب کو ملا کہ ایم کیو ایم پر ن لیگ نے ایک نفسیاتی حملہ کرکے دبا لیا تھا۔
میرے ساتھ پریس گیلر ی میں بی بی سی کے اسلام آباد میں نمانئدے اور سینر صحافی دوست اعجاز مہر نے بھی اس بات سے اتفاق کیا کہ آج پہلی دفعہ انڈر پریشر نظر آرہی تھی اور وہ نثار اور اس کی پارٹی کے لیڈروں پر تنقید کرنے کو تیار نہیں تھی۔ بلاشبہ چوہدری نثار نے بہت قابل اعتراض تقریر کی تھی خصوصا جب انہوں نے چکری کے چوہدری کی طرح یہ دھمکیاں ہاوس کے فلور پر کھڑے ہو کر دیں کہ اگر حکومت نے ڈیفنس ہاوسنگ اتھارٹی کا بل منظوری کے لیے پیش کیا تو ان کی جماعت اس بل کو پارلیمانی انداز میں روکنے کی بجائے جسمانی طاقت کا مظاہرہ کرے گی اوراسے روک کر دکھائے گی۔ چوہدری نثار کی اس دھمکی نے سب کو حیران کر دیا کہ آج یہ جمہوریت کی نئی تعریف لکھی جارہی تھی کہ جو بھی بل چوہدری نثار کی پارٹی کو پسند نہ ہوگا، اسے اب ووٹ کی بجائے جسمانی طاقت سے روکا جائے گا۔ چوہدری نثار کی بڑھکوں کا سلسلہ جاری رہا جب انہوں نے کہا کہ آئندہ سے اپوزیشن کی لابی میں اگر کوئی ایم کیو ایم کا ایم این اے بیٹھا نظر آیا تو اسے بھی جسمانی طاقت سے روکا جائے گا۔ اگلی دھمکی یہ دی کہ ایم کیو ایم کو فورا ان بنچوں سے اٹھا کر حکومتی بنچوں پر شفٹ کیا جائے۔
چوہدری نثار کو اس بات کا غصہ تھا کہ ایم کیو ایم نے جب عافیہ صدیقی اور لال مسجد میں ہلاک ہونے والی بچیوں پر کوئی احتجاج نہیں کیا تھا تو آج انہیں کوئی حق نہیں بنتا تھا کہ وہ شہباز شریف کے ہونہار برخودار کی اپنی تیسری بیوی عائشہ ملک کو پولیس کے ہاتھوں اٹھوا کر پٹوانے پر بھی اب چپ رہنا چاہیے کیونکہ ان کے خیال میں یہ ان کا ذاتی گھریلو معاملہ تھا۔ گھریلو معاملہ کا اصل مطلب سمجھانے کے لیے نثار کو ’مسز گبول‘ کا بھی حوالہ دینا پڑا ( الطاف حیسن کی سابقہ بیوی)۔ (شاید یہ بات اشارہ ایم کیو ایم کو سمجھ آگیا تھا لہذا انہوں نے چپ میں ہی عافیت جانی)
نثار کو یہ بھی خوف تھا کہ اگر وسیم اختر اٹھ کھڑے ہوئے اور انہوں نے اپنے مخصوص انداز میں چوہدری صاحب پر حملے شروع کیے تو ان کے لیے ہاوس میں بیٹھنا مشکل ہو جائے گا لہذا پہلے تو انہوں نے اپنی تقریر کو غیر ضروری طول دیا اور بار بار باتوں کو دہراتے رہے تاکہ ان کی تقریر ختم ہونے کے ساتھ ہی اجلاس ملتوی ہو جائے۔ جب اجلاس اذان کے باوجود بھی جاری رہا، تو نثار کے جانثاروں حنیف عباسی اور عابد علی نے کھل کر ایم کیو ایم کے ممبران پر پل پڑے جو سرگوشیوں میں ایسے کمنٹس پاس کر رہے تھے جو ان سے برداشت نہیں ہو رہا تھے۔چوہدری نثار کو اپنے ان دو جان نثاروں کا شکر گزار ہونا چاہیے جن کی غیرمعمولی کارگردگی نے انہیں وسیم اختر کے حملوں سے بچا لیا وگرنہ ان کے لیے شاید وہاں ٹکے رہنا مشکل ہو جاتا۔
سوال یہ ہے کہ کیا آرمی چیف جنرل کیانی سے شہباز شریف کے ساتھ جی ایچ کیو میں چھ خفیہ ملاقاتوں ، ججوں کو بحال کرانے اور پنجاب میں پی ایم ایل کیو کے لوٹوں کو ساتھ ملانے کے باوجود بات نہیں بن رہی تھی، کہ پیپلز پارٹی پھر بھی سینٹ کے انتخابات میں اکثریت لے کر اپنے پانچ سال پورے کرنے والی ہے۔ عمران خان کے بڑھتے ہوئے سیاسی خوف اور زرداری کو ہٹانے میں مسلسل ناکامی نے مسلم لیگ کو آخر یہ دھمکیاں دینے پر مجبور کر دیا ہے کہ اب وہ قومی اسمبلی کو ووٹ کے زور پر نہیں، بلکہ جسمانی طاقت کے بل بوتے پر چلائیں گے۔ نواز لیگ نے اپنی جسمانی طاقت کا پہلا کامیاب مظاہرہ کسی اور پر نہیں بلکہ ایم کیو ایم پر کر کے یہ پیغام دیا ہے کہ باقی کس کھیت کے مولی ہیں۔ بلاشبہ ایم کیو ایم کے ارکان اسمبلی خوفزدہ نظر آئے۔
تو کیا اب فوج کو اپنے ساتھ ملانے میں ناکامی، سیاسی تنہائی اور عمران خان کی بڑھتے ہوئے سیاسی دباؤ کے بعد، نواز لیگ کے پاس ایک ہی راستہ رہ گیا ہے کہ وہ ملک میں ایک اور بارہ اکتوبر کی راہ ہموار کریں اور اب کی دفعہ ہتھکڑیاں نواز شریف اور شبہاز شریف کی بجائے گیلانی اور زرداری کو لگیں!!!
کیا یہ وہ قیمت ہے جو نواز لیگ حمزہ شہبار کی اپنی بیوی عائشہ ملک کے معاملے پر شور اٹھنے پر اب قومی اسمبلی سے لینا چاہتی ہے کیونکہ اب باقی سب ’دیسی سیاسی کشتے‘ ناکام ہوگئے ہیں ۔ اور تو اور ’ اصولوں کی سیاست‘ کے نعرے مارنے والے نواز شریف کو اور کوئی نہیں ایک زمانے میں جنرل مشرف کی فیورٹ ایم این ایز سمیرا ملک اور کشمالہ طارق کے ساتھ فوٹو سیشن پر گزارنا کرنا پڑ رہا ہے! اگر آپ بھول گئے ہیں تو میں آپ کو یاد دلا دیتا ہوں کہ کبھی ان دونوں قابل احترام سیاسی خواتین کے بغیر خوش ذوق جنرل مشرف کا آرمی ہاؤس راولپنڈی میں دسترخوان سونا سونا رہتا تھا !!!
Last edited by a moderator: