حضرت یوسف رضا گیلانی کا غرور پاش پاش

syed01

MPA (400+ posts)

  • [*=center]
    61-4.jpg
گزشتہ ہفتے ہماري سياسي تاريخ ميں يہ انوکھا واقعہ پيش آيا کہ وزير اعظم گيلاني قومي اسمبلي سے عدم اعتماد کے بجائے ہماري عدالتِ عظمي? کے ايک فيصلے کے نتيجے ميں شاخِ نازک پر بنے ہوئے اقتدار کے آشيانے سے اچانک نيچے آن گرے? تب ملک ميں کوئي وزير اعظم تھا نہ کوئي جہازي کابينہ? حيرت اس بات پر ہے کہ اتنے بڑے حادثے پر ہمارے حاکمِ وقت اور اس کے اتحاديوں ميں کوئي تشويش کي لہر پيدا ہوئي نہ تاريخ سے کوئي سبق سيکھنے کا احساس اُبھرا ? بلکہ فتح و کامراني کے شاديانے بجائے جا رہے ہيں? وہ اقتدار جو اخلاقي طاقت اور عوام کي حقيقي حمايت سے محروم ہو جاتا ہے ? اس کي مسند پر جلوہ افروز شاہ اور پيادے اپني حفاظت کے ليے پرويزي حيلے آزماتے اور خوش رنگ وعدوں کي ساحري سے عوام کو خوابوں کي دنيا ميں محصور کيے رکھتے ہيں? حضرت يوسف رضا گيلاني جو اپنے باس کے اشاروں پر چلتے ہوئے اور اپني بے لگام خواہشات کے تعاقب ميں ايک لق و دق صحرا ميں نکل آئے تھے ? آج وہ رائے دہندگان کو منہ دکھانے کے قابل نہيں رہے ? ليکن اُنہيں شہيدِ وفا کے طور پر پيش کيا جا رہا ہے? پارٹي قيادت نے اعلان کيا ہے کہ مخدوم صاحب کي خالي ہونے والي نشست پر اُن کے ہونہار اور چابک دست صاحبزادے عبدالقادر گيلاني انتخاب لڑيں گے جو حج اسکينڈل ميں مبينہ طور پر ملوث ہيں اور اُن کے خلاف سپريم کورٹ کے حکم پر تحقيقات کي جا رہي ہے? وہ شخص باکمال جن کي لن ترانيوں اور غفلت شعاريوں سے عوام بجلي ? گيس اور پاني کي قلت کے عذاب سے بلک اُٹھے ہيں اور مہنگائي ? بيروزگاري اور بدامني کے عفريت کے ہاتھوں ادھ موأ ہو چکے ہيں ? آنے والے انتخابات ميں پيپلز پارٹي کي انتخابي مہم کے انچارج بنائے جا رہے ہيں جو پاکستان کي سب سے بڑي جماعت کو 1997ء کے حادثے سے دوچار کر کے دم ليں گے? آج مخدوم صاحب کي حالت يہ ہے کہ وہ ملتان کا راستہ بھي بھول چکے ہيں اور لاہور کا بھي جہاں اُن کي قلعہ نما وسيع و عريض کوٹھياں ہيں جو اُن کي امارت کي داستان سنا رہي ہيں ? مگر وہ ان شہروں ميں عوام کا سامنا کرنے کي اپنے اندر ہمت نہيں پا رہے ? چنانچہ اُنہوں نے جناب حسين حقاني کي طرح ايوانِ صدر کي اينکسي ميں پناہ لے رکھي ہے ? حالانکہ سزا يافتہ وزير اعظم کي حيثيت سے وہ اس نوع کي سرکاري سہولت کے حق دار نہيں? کسي بھي وقت اُن کے خلاف اسلام آباد ہائي کورٹ ميں کوئي صاحب پٹيشن دائر کر سکتے ہيں?آئيني ماہرين کي يہ بھي رائے ہے کہ سزا يافتہ ہونے کے بعد مخدوم يوسف گيلاني پارٹي کے عہدے پر بھي فائز نہيں رہ سکتے ? مگر يہاں تو ايک ايسي آئيني ترميم لانے کي تياري ہو رہي ہے جو سينيٹ کو فاضل چيف جسٹس کا مواخذہ کرنے کا اختيار دے گي? اس پر فاضل چيف جسٹس نے ايک وفد کے ساتھ دورانِ گفتگو واضح انداز ميں کہا ہے کہ پارليمنٹ کو آئين کي تين بنيادي خصوصيات ميں ردوبدل کا کوئي اختيار نہيں? ايک يہ کہ آئين کا وفاقي اور پارليماني کيريکٹر تبديل نہيں کيا جا سکتا? دوسرا يہ کہ اسلامي دفعات ميں کسي قسم کے ردوبدل کي گنجائش نہيں? تيسرا يہ کہ عدليہ کي آزادي اور خود مختاري ميں کسي نوع کا تغير نہيں کيا جا سکتا? جناب صدر زرداري جن کي ذہانت و فطانت کے بڑے چرچے ہيں اور مخدوم جاويد ہاشمي کے بقول آصف کي گہري چالوں کو سمجھنے کے ليے پي ايچ ڈي کرنے کي ضرورت ہو گي? اس ميں کوئي شک نہيں کہ وہ چار سال سے زائد مخلوط حکومت کو چلانے اور بڑي اکثريت سے اپنا ايک نيا وزيراعظم جمہوري طريقے سے لانے ميں کامياب رہے ہيں? وہ اکثر اوقات پے درپے بحرانوں ميں بھي گھرے رہے ? مگر بڑي چابک دستي اور ہشياري سے راستہ نکالنے ميں سُرخرو ہوئے ? تاہم آج کے ايک انتہائي نازک اور خطرناک موڑ پر راجہ پرويز اشرف کو وزير اعظم نامزد کرنے کا فيصلہ اُن کي ذہانت سے زيادہ اُن کي شوخي? طبع کا شاخسانہ معلوم ہوتا ہے?اب جبکہ پورا ملک بجلي کي لوڈ شيڈنگ کے ہاتھوں تنگ آمد بجنگ آمد کا ايک ہولناک منظر پيش کر رہا ہے ? ايک ايسے شخص کو وزارتِ عظمي? کے منصب پر بٹھا دينا شعلوں پر تيل چھڑکنے کے مترادف ہے جس نے بجلي و پاني کے وزير کي حيثيت سے لوڈ شيڈنگ ختم کرنے کے بڑے بڑے دعوے کيے ? مگر اپني نااہلي اور بڑے پيمانے پر رشوت ستاني کے سبب اہلِ وطن کو اندھيروں اور گہري مايوسيوں ميں دھکيل گئے? اب يوں معلوم ہوتا ہے کہ فطرت ان تمام عناصر کا نہايت کڑا احتساب کرنے والي ہے جنہوں نے راجہ رينٹل کو پاکستان کا چيف ايگزيکٹو منتخب کرانے ميں حصہ ليا ? قوم پر ذلت و مسکنت کا ايک عذاب مسلط کيا اور عدالتِ عظمي? کا منہ چڑايا ہے جس نے راجہ پرويز اشرف کے خلاف رينٹل پاور منصوبوں ميں مبينہ کرپشن کے خلاف تحقيقات کے احکام گزشتہ سال صادر کيے تھے? نئے وزير اعظم نے کوئي وقت ضائع کيے بغير يہ اعلان کر ديا کہ سوئس حکام کو صدرِ مملکت کے خلاف مني لانڈرنگ کا مقدمہ دوبارہ کھولنے کے ليے خط نہيں لکھا جائے گا? گويا طبلِ جنگ آتے ہي بجا ديا گيا ہے جو ہمارے وطن کو پس ماندگي کے ايک ايسے مقام پر لاکھڑا کرے گا جہاں اس کے ليے روحِ عصر کے ساتھ رشتہ قائم رکھنا محال ہو جائے گا اور يوں ہمارا سسٹم ايک خوفناک حادثے سے دوچار ہو سکتا ہے? اب حالات جو رُخ اختيار کرتے جا رہے ہيں? ان ميں صدر زرداري احتساب کي زد ميں آنے والے ہيں? وہ پارليماني نظام کي روح اور مسلمہ روايات کے برعکس صدرِ مملکت کے ساتھ سياسي پارٹي کي سربراہي کا منصب بھي سنبھالے ہوئے ہيں? 1973ء کے آئين ميں سارے اختيارات وزير اعظم کو سونپے گئے تھے اور صدرِ مملکت کے دستخطوں کي تصديق وزير اعظم کرنے کے مجاز تھے ? مگر جب جناب آصف زرداري کي ذات ميں صدرِ مملکت اور پيپلز پارٹي کے شريک چيئرمين شپ کے عہدے يکجا ہو گئے ? تو آئين کي پوري اسکيم ہي تلپٹ ہو گئي اور صدر زرداري تمام اختيارات کے مالک بن گئے? پارليماني طرزِ حکومت کي پامالي پر سب سے پہلے ميں نے آواز اُٹھائي اور قوم کو اس بگاڑ کے خطرناک نتائج سے خبردار کرنا ضروري سمجھا ? مگر بعض سياسي جماعتيں اور وکلاء برادري نے بہت دير سے بيدار ہوئيں? ايک ڈيڑھ سال پہلے لاہور ہائي کورٹ ميں صدر کے دو عہدوں کے خلاف رٹ پٹيشن دائر ہوئي جس کي پانچ رکني بينچ نے فاضل چيف جسٹس جناب اعجاز چودھري کي سربراہي ميں سماعت کي اور 12مئي 2011کو يہ فيصلہ سنايا کہ صدرِ مملکت کو سياسي عہدہ جلد سے جلد چھوڑ دينا اور ايوانِ صدر ميں سياسي سرگرمياں محدود کر ديني چاہئيں اور يہ تاثر قائم کرنا ضروري ہے کہ صدرِ مملکت سياسي جانب داريوں سے بالاتر ہيں? اس فيصلے کے خلاف حکومت نے سپريم کورٹ ميں اپيل کرنے کي زحمت کي نہ ايوانِ صدر سياسي سرگرميوں سے الگ تھلگ رہا? اب لاہور ہائي کورٹ ميں توہينِ عدالت کي رٹ دائر کي گئي ہے? جناب عمر عطا بنديال کي سربراہي ميں ايک تين رکني بينچ اس کي سماعت کر رہا ہے? سينئر ايڈوکيٹ جناب اے کے ڈوگر اس مقدمے کي پيروي کر رہے ہيں? بادي النظر ميں توہينِ عدالت کے بہت سارے شواہد موجود ہيں اور ايسا محسوس ہوتا ہے کہ عدالتِ عاليہ کا تازہ فيصلہ اس بگاڑ کي اصلاح ميں کليدي کردار ادا کرے گا جس نے ہمارے پارليماني نظام کو عملاً ايک صدارتي نظام کي صورت دے دي ہے? حکومت کے ليے حالات کو سُدھارنے کا ايک سنہري موقع ہے? وزير اعظم راجہ پرويز اشرف جو درميانے طبقے سے تعلق رکھتے ہيں اور گراس روٹ سے آئے ہيں ? وہ ماضي کا کفارہ ادا کر سکتے ہيں ? بشرطيکہ اربابِ اقتدار حيلہ? پرويزي سے کام لينا بند کر ديں اور عوام کو ڈليور کرنے کے ليے جنگي بنيادوں پر کام کريں اور متانت ? يکسوئي اور سادگي کو اپنا شعار بنائيں ? توبہ کے دروازے ہر وقت کھلے ہيں اور ضمير کے دريچے کسي وقت بھي وا ہو سکتے ہيں