صرف یہاں تھریڈز پر ہی نہی بلکہ پورے پاکستان میں پی ٹی آئی والے عمران خان سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ شہباز گِل کا بدلہ پنجاب میں کیوں نہی لیا جا رہا یا یہ کہ پنجاب کا وزیر داخلہ نکما ہےاسے تبدیل کر دینا چاہیے وغیرہ۔ یہ بھی انہیں سمجھ نہی آرہی کہ پنجاب میں اگر پی ٹی آئی کی حکومت ہے تو یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ پی ٹی آئی ہی کے لیڈران کو شہباز گِل سے ملنے نہی دیا جا رہا۔ لوگ فرسٹیٹڈ ہیں کہ کیسے اسلام آباد پولیس شہباز گِل کو اڈیالہ جیل سے اپنے ساتھ لے گئی اور پنجاب پولیس دیکھتی ہی رہ گئی۔
لیکن مسئلہ ایک بنیادی ہے جو یہ لوگ سمجھنے کی کوشش نہی کر رہے کہ شہباز گِل کو گرفتار اور تشدد سیاسی حکومت نہی کر رہی۔ شہباز گِل کے ساتھ جو کچھ ہو رہا ہے وہ محکمہ زراعت کر رہا ہے۔ اسلام آباد پولیس کا صرف نام ہے۔
جب پنجاب پولیس بلائی گئی کہ شہباز گِل کو پنڈی ہی کے کسی ہسپتال منتقل کیا جائے تو اسلام آباد پولیس کے ساتھ رینجرز بھیج کر اسے پمز پہنچایا گیا۔ جب پی ٹی آئی کے صوبائی لیڈران اڈیالہ جیل پہنچے اور وہ ملاقات نہ کر سکے تو بتایا گیا کہ سارا کنٹرول جیل حکام کا نہی بلکہ ایجنسیوں کے لوگ اندر موجود ہیں۔
ان حالات میں کیا آپ چاہتے ہیں کہ عمران خان اسٹیبلشمنٹ کی مخالفت میں اٹھ کھڑا ہو؟ میرا خیال ہے کوئی پاگل ہی ایسا چاہے گا۔ اس وقت عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ کی پوشیدہ کش مکش چل رہی ہے جو کہ پولیٹیکل چالوں جلسوں وغیرہ کی حد تک محدود ہے۔ کھینچا تانی ہو رہی ہے، ساری حکومتی مشینری ، عدالتیں اور بیوروکریسی مخالف قوت کے ہاتھ میں ہے۔ ایسے میں آپ کے جزباتی مطالبات بچگانہ ہیں۔ عمران خان کو اس وقت سارے کارکنان اور ووٹرز کی غیر مشروط حمایت اور تقلید کی ضرورت ہے۔ اس وقت صبر کے ساتھ سیاسی دباؤ بڑھانے کی ضرورت ہے۔ شہباز گِل کا واقعہ تو صرف ایک آغاز ہے۔ اور اس دوران بہت سی سختیاں جھیلنی پڑیں گیں۔ نومبر تک بہت احتیاط سے چلنے کی ضرورت ہے۔ عمران خان بہت سمجھ داری سے آگے بڑھ رہا ہے۔ عدالتوں پر انتہائی دباؤ ہے یہاں تک کہ اطہر من اللہ کو بات نہ ماننے پرکیسز خود نہ سننے پر مجبور کردیا گیا ہے۔ صرف عمران خان ہی نہی بلکہ پی ٹی آئی پر بھی پابندی لگ سکتی ہے۔ الیکشن کمیشن کو ایجنسیاں چلا رہی ہیں اور میڈیا پر پریپیگنڈہ سیلز بن چکے ہیں۔
ایسے میں پلیز ذرا حالات کو اچھی طرح پرکھ کر اور سوچ سمجھ کر اپنی لیڈر شپ کے پیچھے کھڑے ہونے کا موقع ہے۔
لیکن مسئلہ ایک بنیادی ہے جو یہ لوگ سمجھنے کی کوشش نہی کر رہے کہ شہباز گِل کو گرفتار اور تشدد سیاسی حکومت نہی کر رہی۔ شہباز گِل کے ساتھ جو کچھ ہو رہا ہے وہ محکمہ زراعت کر رہا ہے۔ اسلام آباد پولیس کا صرف نام ہے۔
جب پنجاب پولیس بلائی گئی کہ شہباز گِل کو پنڈی ہی کے کسی ہسپتال منتقل کیا جائے تو اسلام آباد پولیس کے ساتھ رینجرز بھیج کر اسے پمز پہنچایا گیا۔ جب پی ٹی آئی کے صوبائی لیڈران اڈیالہ جیل پہنچے اور وہ ملاقات نہ کر سکے تو بتایا گیا کہ سارا کنٹرول جیل حکام کا نہی بلکہ ایجنسیوں کے لوگ اندر موجود ہیں۔
ان حالات میں کیا آپ چاہتے ہیں کہ عمران خان اسٹیبلشمنٹ کی مخالفت میں اٹھ کھڑا ہو؟ میرا خیال ہے کوئی پاگل ہی ایسا چاہے گا۔ اس وقت عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ کی پوشیدہ کش مکش چل رہی ہے جو کہ پولیٹیکل چالوں جلسوں وغیرہ کی حد تک محدود ہے۔ کھینچا تانی ہو رہی ہے، ساری حکومتی مشینری ، عدالتیں اور بیوروکریسی مخالف قوت کے ہاتھ میں ہے۔ ایسے میں آپ کے جزباتی مطالبات بچگانہ ہیں۔ عمران خان کو اس وقت سارے کارکنان اور ووٹرز کی غیر مشروط حمایت اور تقلید کی ضرورت ہے۔ اس وقت صبر کے ساتھ سیاسی دباؤ بڑھانے کی ضرورت ہے۔ شہباز گِل کا واقعہ تو صرف ایک آغاز ہے۔ اور اس دوران بہت سی سختیاں جھیلنی پڑیں گیں۔ نومبر تک بہت احتیاط سے چلنے کی ضرورت ہے۔ عمران خان بہت سمجھ داری سے آگے بڑھ رہا ہے۔ عدالتوں پر انتہائی دباؤ ہے یہاں تک کہ اطہر من اللہ کو بات نہ ماننے پرکیسز خود نہ سننے پر مجبور کردیا گیا ہے۔ صرف عمران خان ہی نہی بلکہ پی ٹی آئی پر بھی پابندی لگ سکتی ہے۔ الیکشن کمیشن کو ایجنسیاں چلا رہی ہیں اور میڈیا پر پریپیگنڈہ سیلز بن چکے ہیں۔
ایسے میں پلیز ذرا حالات کو اچھی طرح پرکھ کر اور سوچ سمجھ کر اپنی لیڈر شپ کے پیچھے کھڑے ہونے کا موقع ہے۔