بہادر خاموش جنگجؤ کی خاموشیاں -- یعنی چھپ چپیتے

RajaRawal111

Prime Minister (20k+ posts)
افغان جہاد میں دنیا کو وحشی ریچ سے نجات دلانے والے - اصل جنگجؤ عزت مآب جنرل اختر عبدالا رحمان کے نام سویز سکرٹس میں آیا ہے --- اور اس کو ہمارے میڈیا نے بھی ابھی تک سیکرٹ ہی رکھا ہوا ہے -- شاید پانچ سال کی قید بامشقت کا خوف ہے --- یہ تھریڈ بھی اس گستاخی کے زمرے میں آ سکتا ہے - اور مجھے بھی فورم سے لت ماری ہو سکتی ہے --- چلو اس کو ٹیسٹ کیس ہی سمجھتے ہیں اور دیکھتے ہیں

تو جناب میں ھمیشہ سے ہی افغان جہاد کے خلاف کفر بکتا رہا ہوں - یہ وہ جہاد ہے جو آقا امریکہ سے ثواب حاصل کرنے کے لئے یہ کیہ کر لڑا گیا کہ جی یو ایس ایس آر گرم سمندروں تک رسائی چاھتا ہے - کولڈ وار کے اس خطرناک ریچھ کو مارنا لازم ہے --- تو جناب اس نیک عمل میں افغان قوم کی چار نسلیں جھونک دی گئی - یہ جہاد جس طرح اس مظلوم قوم پر عذاب بن کر گرا اس پر کتنا بولا جاۓ اور کیا لکھا جاۓ سب بیکار ہے


اس کو سمجھانا ہو تو افغانیوں کی نظروں میں اپنے لئے نفرت کو دیکھ لو - وہ غیور پٹھان جس کو ہم پاکستان میں ایک غیرتمند، مہماندار اور دوستی میں مر مٹنے والا کہتے ہیں اس کو جب ہم ایک افغانی کی شکل میں دیکھتے ہیں تو اپنے ساتھ نفرت کرنے والا پاتے ہیں - اور پھر ہم میں سے بھی ایک جاہلوں کا جم غفیر جوابی نفرت اگلنے لگتا ہے

لیکن بات دوسری طرف نہیں لے جانی چاہئے ---
ماشا امریکہ اس جہاد پر آقا امریکہ سے اتنا ثواب - اتنا ثواب - اتنا ثواب ملا کہ اصلی خاموش مجاہدوں کی سات سات نسلیں فیض و برکت سے نہلا نہلا دیں آقا نے
واہ واہ واہ واہ

یہ تھریڈ (جتنی دیر بھی منظر پر رہا) خصوص طور پر میرے سب سے اچھے دوست ڈاکٹر آدم صاحب کے نام ہے
Dr Adam
 
Last edited by a moderator:

Iconoclast

Chief Minister (5k+ posts)
Gosht ki rate ki baat kar chakla chalanay walay pppmln kay harami pujari. Yeh politics teray bas ki baat nahi..
Nalaiq chor insan kay nalaiq pujari apnay apay meh reh.. Rate kya chal raha hay aj kal teri ghar walion ka?
 

Sohail Shuja

Chief Minister (5k+ posts)
افغان جہاد میں دنیا کو وحشی ریچ سے نجات دلانے والے - اصل جنگجؤ عزت مآب جنرل اختر عبدالا رحمان کے نام سویز سکرٹس میں آیا ہے --- اور اس کو ہمارے میڈیا نے بھی ابھی تک سیکرٹ ہی رکھا ہوا ہے -- شاید پانچ سال کی قید بامشقت کا خوف ہے --- یہ تھریڈ بھی اس گستاخی کے زمرے میں آ سکتا ہے - اور مجھے بھی فورم سے لت ماری ہو سکتی ہے --- چلو اس کو ٹیسٹ کیس ہی سمجھتے ہیں اور دیکھتے ہیں

تو جناب میں ھمیشہ سے ہی افغان جہاد کے خلاف کفر بکتا رہا ہوں - یہ وہ جہاد ہے جو آقا امریکہ سے ثواب حاصل کرنے کے لئے یہ کیہ کر لڑا گیا کہ جی یو ایس ایس آر گرم سمندروں تک رسائی چاھتا ہے - کولڈ وار کے اس خطرناک ریچھ کو مارنا لازم ہے --- تو جناب اس نیک عمل میں افغان قوم کی چار نسلیں جھونک دی گئی - یہ جہاد جس طرح اس مظلوم قوم پر عذاب بن کر گرا اس پر کتنا بولا جاۓ اور کیا لکھا جاۓ سب بیکار ہے


اس کو سمجھانا ہو تو افغانیوں کی نظروں میں اپنے لئے نفرت کو دیکھ لو - وہ غیور پٹھان جس کو ہم پاکستان میں ایک غیرتمند، مہماندار اور دوستی میں مر مٹنے والا کہتے ہیں اس کو جب ہم ایک افغانی کی شکل میں دیکھتے ہیں تو اپنے ساتھ نفرت کرنے والا پاتے ہیں - اور پھر ہم میں سے بھی ایک جاہلوں کا جم غفیر جوابی نفرت اگلنے لگتا ہے

لیکن بات دوسری طرف نہیں لے جانی چاہئے ---
ماشا امریکہ اس جہاد پر آقا امریکہ سے اتنا ثواب - اتنا ثواب - اتنا ثواب ملا کہ اصلی خاموش مجاہدوں کی سات سات نسلیں فیض و برکت سے نہلا نہلا دیں آقا نے
واہ واہ واہ واہ

یہ تھریڈ (جتنی دیر بھی منظر پر رہا) خصوص طور پر میرے سب سے اچھے دوست ڈاکٹر آدم صاحب کے نام ہے
Dr Adam
فی الحال تو تیل دیکھو اور تیل کی دھار دیکھو۔ سوئس بینک کے اکاوٗنٹ کا ڈیٹا کیا اصلی اور تصدیق شدہ ہے؟

سوئٹزرلینڈ کے قوانین کے مطابق وہاں کے بینک کسی کو بھی معلومات نہ دینے کا اختیار رکھتے ہیں۔ لہٰذا اسکو پنامہ کیس کی طرح سمجھنا غلطی ہوگی۔

کیس تب ہی بن سکتا ہے جب اس معلومات کی تصدیق ہوسکے۔ سزا تب ہی ہوسکتی ہے جب جرم ثابت کیا جاسکے۔
 

Lubnakhan

Minister (2k+ posts)
There should be no holy cow!! In Pakistan people have unexplained wealth and no one actually cares! Families of these fraudulent people live levish lives, and we don’t question them!
 

RajaRawal111

Prime Minister (20k+ posts)
راجے بعض خصوصاً عسکری حلقے کہتے ہیں اگر روس کو اس وقت نا روکا جاتا تو اگلا نشانہ پاکستان تھا ۔ یہ کس حد تک درست ہے تمھاری نظر میں؟؟

Sohail Shuja
Siberite

Hussain1967
جناب جو میں نے پڑھا ہے اور بڑوں سے سنا ہے وہ یہ ہے کہ روسی فوج نور احمد تراقیی کی حکومت کو سہارا دینے قابل میں ایسے ہی آئ تھی جیسے امریکی فوج نے طالبانوں کے بعد افغان حکومت کو سہرا دے رکھا تھا - جیسے امریکیوں کو باقی افغانستان سے حقیقت میں کوئی انٹریسٹ نہیں تھی اسی طرح سوویت یونین کو بھی نہیں تھی
ھمیں یہی سلاجیت کھلائی گئی کہ اگلا نشانہ پاکستانی گرم سمندر ہیں
یہ صرف سلاجیت ہی تھی اصل حقیقت یہ ہے

Russia allowed use of Gwadar Port (Nov-2016)​

 
Last edited:

RajaRawal111

Prime Minister (20k+ posts)
فی الحال تو تیل دیکھو اور تیل کی دھار دیکھو۔ سوئس بینک کے اکاوٗنٹ کا ڈیٹا کیا اصلی اور تصدیق شدہ ہے؟

سوئٹزرلینڈ کے قوانین کے مطابق وہاں کے بینک کسی کو بھی معلومات نہ دینے کا اختیار رکھتے ہیں۔ لہٰذا اسکو پنامہ کیس کی طرح سمجھنا غلطی ہوگی۔

کیس تب ہی بن سکتا ہے جب اس معلومات کی تصدیق ہوسکے۔ سزا تب ہی ہوسکتی ہے جب جرم ثابت کیا جاسکے۔
لیک ہوئی اے جی لیک
لیک سمجھنے او نا - کس طراں ہونی اے
 

Sohail Shuja

Chief Minister (5k+ posts)
راجے بعض خصوصاً عسکری حلقے کہتے ہیں اگر روس کو اس وقت نا روکا جاتا تو اگلا نشانہ پاکستان تھا ۔ یہ کس حد تک درست ہے تمھاری نظر میں؟؟

Sohail Shuja
Siberite

Hussain1967
اوائل عمری میں ہمیں بھی یہ چورن سر چڑھ کر بولتا تھا کہ شائد واقعی روس پاکستان کی بندرگاہوں کو نشانہ بنائے ہوئے تھا۔ لیکن اسی دور میں، جب یہاں افغان جہاد شروع کیا گیا تو پاکستان کی واحد اسٹیل ملز روس کے تعاون سے لگائی جارہی تھی، ساتھ ہی پاکستان کے ساتھ بارٹر ٹریڈ یعنی اشیاء کے بدلے اشیاء کی تجارت بھی جاری تھی۔ روس وہ واحد سوپر پاور تھی جو پاکستان اور بھارت کے معاشی مفاد آاپس میں جوڑ کر اس خطّے میں پائیدار امن کے لیئے تگ و دو کر رہی تھی۔ اسٹیل ملز کے اوریجنل کنٹریکٹ میں یہی درج تھا کہ فولاد کا خام مال بھارت مہیّا کریگا۔ جس سے بعد از روس کے خاتمے کے بعد پاکستان کی جانب سے انحراف کیا گیا۔

اگر روس کے اس وقت اتنے اچھے تعلّقات پاکستان سے روا تھے، یعنی کہ بھٹّو کے ’’سُرخ انقلاب‘‘ کی سپورٹ میں روس کی نوازشیں یہاں جاری ہوچکی تھیں، تو روس کو جنگ کرکے ہی پانیوں تک رسائی کیوں مقصود تھی، وہ بڑے آرام سے ایک تجارتی معاہدہ بھی کرسکتا تھا۔ کیا اب ہم نے روس کو گوادر کی بندرگاہ میں شراکت داری کی پیشکش نہیں کی؟
 

RajaRawal111

Prime Minister (20k+ posts)
اوائل عمری میں ہمیں بھی یہ چورن سر چڑھ کر بولتا تھا کہ شائد واقعی روس پاکستان کی بندرگاہوں کو نشانہ بنائے ہوئے تھا۔ لیکن اسی دور میں، جب یہاں افغان جہاد شروع کیا گیا تو پاکستان کی واحد اسٹیل ملز روس کے تعاون سے لگائی جارہی تھی، ساتھ ہی پاکستان کے ساتھ بارٹر ٹریڈ یعنی اشیاء کے بدلے اشیاء کی تجارت بھی جاری تھی۔ روس وہ واحد سوپر پاور تھی جو پاکستان اور بھارت کے معاشی مفاد آاپس میں جوڑ کر اس خطّے میں پائیدار امن کے لیئے تگ و دو کر رہی تھی۔ اسٹیل ملز کے اوریجنل کنٹریکٹ میں یہی درج تھا کہ فولاد کا خام مال بھارت مہیّا کریگا۔ جس سے بعد از روس کے خاتمے کے بعد پاکستان کی جانب سے انحراف کیا گیا۔

اگر روس کے اس وقت اتنے اچھے تعلّقات پاکستان سے روا تھے، یعنی کہ بھٹّو کے ’’سُرخ انقلاب‘‘ کی سپورٹ میں روس کی نوازشیں یہاں جاری ہوچکی تھیں، تو روس کو جنگ کرکے ہی پانیوں تک رسائی کیوں مقصود تھی، وہ بڑے آرام سے ایک تجارتی معاہدہ بھی کرسکتا تھا۔ کیا اب ہم نے روس کو گوادر کی بندرگاہ میں شراکت داری کی پیشکش نہیں کی؟
? ? ??
او پا جی ---مین پتا نہیں کیوں تسی کدے کدے پورے پٹواری پٹواری لگنے او
سچی دسو کدرے کھوتا بریانی تے نہیں چکھ لتی تسی ؟؟؟
 

Sohail Shuja

Chief Minister (5k+ posts)
? ? ??
او پا جی ---مین پتا نہیں کیوں تسی کدے کدے پورے پٹواری پٹواری لگنے او

سچی دسو کدرے کھوتا بریانی تے نہیں چکھ لتی تسی ؟؟؟
نئیں، بریانی تے مینوں ایویں وی پسند نئیں۔ البتّہ کل میں ساگ نال مکی نی روٹی کھائی چھوڑی، مکھن لا کے۔

لیکن لگدا اے تُد کدھرے کھوتا بریانی دا لنگر ڈھونڈ لِتا اے، تے روز ’’اوور ڈوز‘‘ ہو کے فورم تے پہنچ جانا اے۔
 

RajaRawal111

Prime Minister (20k+ posts)
نئیں، بریانی تے مینوں ایویں وی پسند نئیں۔ البتّہ کل میں ساگ نال مکی نی روٹی کھائی چھوڑی، مکھن لا کے۔

لیکن لگدا اے تُد کدھرے کھوتا بریانی دا لنگر ڈھونڈ لِتا اے، تے روز ’’اوور ڈوز‘‘ ہو کے فورم تے پہنچ جانا اے۔
او کتھے جی ☹️ ؟؟ میری اے کیفیت کھوتا بریانی نہ ملنے نی وجہ توں اے
??
 

Goldfinger

MPA (400+ posts)
میں بھُل گیا واں، ذرا اک واری یاد کروا تے سہی کہ کیویں ہونیا نے لیکاں؟

سوئز سیکرٹس‘ میں شامل پاکستانی جرنیل کون ہیں؟

پاکستان آرمی کے اہم ترین عہدوں پر فائز رہنے والے دو سابق جنرلز پر الزام ہے کہ انھوں نے غیر قانونی طور پر سوئٹزر لینڈ کے بینک میں ناجائز طریقوں سے حاصل کی گئی دولت اکھٹی کی۔
یہ الزامات بین الاقوامی نجی بینک ’کریڈٹ سوئز‘ کے صارفین کے اکاؤنٹس کی خفیہ معلومات پر مشتمل ’دی سوئز سیکرٹس‘ کا حصہ ہیں جن میں دنیا بھر سے سیاست دانوں، فوجی آمروں، جرائم پیشہ افراد سمیت کئی دیگر افراد کا نام بھی شامل ہے۔
ان افراد میں پاکستان کے دو سابق جنرلز کے نام بھی شامل ہیں۔ ان میں سے ایک سابق آئی ایس آئی چیف اور چیئرمین جوائنٹ چیف آف سٹاف کمیٹی جنرل اختر عبد الرحمان ہیں اور دوسرے جنرل زاہد علی اکبر۔
یہ افراد کون ہیں؟ بی بی سی نے سوئز سیکرٹس کے تناظر میں قارئین کے لیے اس خصوصی رپورٹ میں چند اہم تفصیلات پیش کی ہیں۔
’جسم توانا، چست اور مضبوط، وردی اُجلی شفاف اور بے داغ اور سینے پر رنگین تمغوں کی تین قطاریں جن سے معلوم ہوتا کہ قیام پاکستان کے بعد وہ کتنے فوجی معرکوں میں شریک ہو چکے ہیں۔‘
پاکستان کی انٹر سروسز انٹیلیجنس (آئی ایس آئی) کے سربراہ اور بعد میں چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی تعینات رہنے والے جنرل اختر کا یہ خاکہ بریگیڈیئر ریٹائرڈ محمد یوسف نے کھینچا ہے۔
جنرل اختر نے قیام پاکستان سے قبل سنہ 1946 میں رائل برٹش آرمی میں شمولیت اختیار کی اور تین جنگوں میں شریک رہے۔
اس کے باوجود اُن کی عسکری زندگی کا سب سے اہم معرکہ وہ ہے جسے سرد جنگ کا نکتہ عروج بھی قرار دیا جا سکتا ہے اور اس کے خاتمے کا سبب بھی۔
عرف عام میں اسے ’جہاد افغانستان‘ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ ’جہاد افغانستان‘ میں اُن کی شرکت اور دلچسپی ایک دستاویز سے شروع ہوئی۔
بریگیڈیئر محمد یوسف نے اپنی کتاب ’خاموش مجاہد‘ میں اس پس منظر کا تفصیل سے ذکر کیا ہے جو جنرل اختر کی جہاد افغانستان میں شرکت کی وجہ بنی۔ سنہ 1979 میں سوویت یونین کی مسلح افواج پاکستان کے پڑوس یعنی افغانستان میں داخل ہوئیں تو ملک کے انتظامی سربراہ اور چیف آف آرمی سٹاف کی حیثیت سے جنرل ضیا الحق نے انھیں طلب کیا اور ان کی رائے طلب کی۔
جنرل ضیا نے اس مقصد کے لیے جنرل اختر سے مشورہ کیوں کیا؟ بریگیڈیئر یوسف کے خیال میں اس کی دو وجوہات ہو سکتی تھیں۔ پہلی وجہ تو اُن کا منصب ہی تھی کیوںکہ ان دنوں وہ فوج کے اہم ترین خفیہ ادارے انٹر سروسز انٹیلیجنس (آئی ایس آئی) کے سربراہ تھے۔ دوسری وجہ شاید یہ رہی ہو کہ قیام پاکستان سے قبل یہ دونوں جرنیل کیڈٹس کی حیثیت میں اکھٹے کام کر چکے تھے۔
ممتاز تجزیہ کار، کالم نگار اور جنرل اختر عبدالرحمن کی سوانح حیات ’فاتح‘ کے مصنف ہارون رشید یقین سے کہتے ہیں کہ اس قربت کی وجہ دونوں جرنیلوں کے خاندانوں کی مشرقی پنجاب سے نقل مکانی تھی۔
مسلح افواج کے ان دونوں ذمہ داروں میں قربت غیر معمولی تھی۔ ہارون رشید بتاتے ہیں کہ جنرل ضیا اور جنرل اختر کے گھروں کی دیواریں ملتی تھیں۔ چنانچہ دیوار میں ایک دروازہ بنا دیا گیا تھا تاکہ دونوں جرنیل جب چاہیں ایک دوسرے کے گھر جا کر افغان جنگ کے بارے میں خفیہ مشاورت کر سکیں۔
تیزی سے بگڑتی ہوئی افغانستان کی صورتحال کے پیش نظر جنرل اختر نے جنرل ضیاالحق سے کچھ وقت طلب کیا اور ایک جامع تجزیاتی رپورٹ مرتب کی۔
یہ رپورٹ تین حصوں پر مشتمل تھی۔
پہلا نکتہ یہ تھا کہ پاکستان کو پوری دل جمعی کے ساتھ ’افغان جہاد‘ کا حصہ بننا چاہیے۔ رپورٹ کے مطابق اس کا ایک سبب خالصتاً پاکستان کا مفاد تھا۔ انھوں نے لکھا کہ افغانستان پر کمیونسٹ قبضے کے بعد پاکستانی علاقے میں ان کی توسیع کے امکانات میں غیر معمولی اضافہ ہو گیا ہے، اس لیے پاکستان کا ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہنا درست نہیں۔
دوسرے نکتے میں انھوں نے اولاً سوویت یونین کے سامنے مزاحمت کرنے اور ثانیاً انھیں واپس سوویت یونین میں دھکیل دینے کا تصور پیش کیا۔
تیسرے نکتے میں انھوں نے مزاحمت کی حکمت عملی کی نشان دہی کی۔ انھوں نے افغان عوام کے قبائلی اور نسلی مزاج کا جائزہ لیتے ہوئے بتایا کہ یہ لوگ بے پناہ قوت برداشت اور قربانی کا جذبہ رکھتے ہیں، لہٰذا انھیں مناسب رہنمائی، تربیت اور اسلحہ فراہم کر دیا جائے تو یہ ناقابل شکست گوریلا فوج کی حیثیت اختیار کر سکتے ہیں۔
جنرل ضیا نے ان تجاویز سے اتفاق کیا اور انگریزی میں ایک جملہ بولا جو بعد میں جہاد افغانستان کے ضمن میں پالیسی کی صورت اختیار کر گیا۔ جنرل ضیا نے کہا:
The water in Afghanistan must boiled at the right temperature
بریگیڈیئر یوسف نے اس جملے کی وضاحت یوں کی: ’افغان جنگ محدود شدت کے ساتھ لڑی جائے تاکہ روس کو پاکستان کے خلاف کسی جارحیت کا موقع نہ ملے۔‘
بریگیڈیئر یوسف لکھتے ہیں کہ آنے والے برسوں میں یہ جنگ اسی پالیسی کے تحت لڑی گئی اور جنرل اختر نے یقینی بنایا کہ اس جنگ کا کوئی بھی پہلو اس حکمت عملی کی مخالف سمت میں نہ جائے۔
جنگیں طے شدہ منصوبے کے تحت مشکل سے ہی لڑی جاتی ہیں اس لیے کسی لمحے کوئی بھی صورتحال پیدا ہو سکتی ہے۔ یوسف لکھتے ہیں کہ جنرل اختر نے اس جنگ کے سلسلے میں دو فیصلے کیے تھے۔
  • افغان جنگ کے لیے اسلحہ کی فراہمی کمانڈروں کے بجائے تنظیموں کو کی جائے۔ اس مقصد کے لیے ان ہی کی کوششوں سے سات جماعتی افغان اتحاد تشکیل پایا تھا۔
  • اسلحے کی فراہمی اور مجاہدین کی تربیت کا تمام تر عمل پاکستان کے ہاتھ میں رہے۔ اس میں کوئی بڑی سے بڑی طاقت بھی کوئی مداخلت نہ کرے۔
امریکا چاہتا تھا کہ ان معاملات تک اسے بھی رسائی دی جائے اور اسلحہ جماعتوں کی بجائے براہ راست کمانڈروں کو دیا جائے۔ امریکی خواہش کو پیش نظر رکھتے ہوئے جنرل ضیا اس سلسلے میں نرمی پیدا کرنے پر آمادہ تھے لیکن جنرل اختر اس میں رکاوٹ بن گئے۔
وہ سمجھتے تھے کہ اگر اس اصول کی پاسداری نہ کی گئی تو ’افغان جہاد‘ شکست سے دوچار ہو جائے گا۔
بریگیڈیئر یوسف کے مطابق افغان جہاد کی ایک اور غیر اعلانیہ حکمت عملی بھی جنرل اختر کے ایک جملے سے اخذ کی گئی تھی۔ جنرل اختر نے کہا تھا: ’دشمن کو ہزاروں چھوٹے چھوٹے زخم لگا کر ناتواں کر دیا جائے۔‘
'دشمن' کو لاتعداد زخم لگا کر ناتواں کرنے ہی کا ثمر تھا کہ ایک وقت ایسا بھی آیا جب گوریلا دستوں نے سوویت علاقوں میں جا کر کارروائیاں شروع کر دیں۔
افغان گوریلوں کی تربیت اور کارکردگی ایسی تھی کہ اختلاف کے باوجود امریکی اس سے متاثر ہوئے بغیر رہ نہ سکے۔ چنانچہ سی آئی اے کے سربراہ ولیم کیسی پاکستان آئے تو جنرل اختر کی تربیت اور منصوبہ بندی کا اعتراف کیے بغیر نہ رہ سکے۔

افغان جنگ کے دوران فوج اور سول انتظامیہ کے درمیان اکثر بدمزگی رہا کرتی تھی۔ جنرل اختر کے سامنے اکثر شکایت کی جاتی کہ افغان کمشنریٹ بدعنوانی کی آماجگاہ ہے اور مہاجرین کا کوئی کام رشوت کے بغیر نہیں ہوتا۔ بریگیڈیئر یوسف کے مطابق جنرل اختر ایسی خبروں پر کچھ کر نہیں پاتے تھے اور دکھی ہو جاتے تھے۔
بریگیڈیئر یوسف نے لکھا ہے کہ جنرل اختر بے داغ شخصیت کے مالک فوجی افسر تھے جن کے دامن پر بدعنوانی کا کوئی داغ نہیں تھا۔ اس سلسلے میں انھوں نے ایک واقعے کا ذکر بھی کیا ہے۔ ان کے مطابق ایک بار آئی ایس آئی کے لیے گاڑیاں خریدی گئیں تو متعلقہ شخص نے کمیشن کے طور پر انھیں 20 لاکھ روپے پیش کیے۔
جنرل اختر نے قبول کرنے سے انکار کیا تو پیشکش کرنے والے نے کہا کہ یہ رقم اُن کا حق ہے اور حکومت کا کوئی افسر فوجی ہو یا غیر فوجی، وہ ایسے کمیشن کو قبول کرنے سے انکار نہیں کرتا۔ جنرل اختر نے یہ دلیل بھی مسترد کر دی اور کہا کہ اگر وہ بہرصورت یہ رقم دینا ہی چاہتا ہے تو وہ چند گاڑیاں مزید فراہم کر دے جنھیں وہ ’افغان جہاد‘ میں استعمال کر سکیں۔

بریگیڈیئر یوسف کے مطابق یہ جنرل اختر ہی کی حکمت عملی تھی جس کے نتیجے میں افغان جنگ کی کامیابی یقینی تھی لیکن عین فیصلہ کن مرحلے پر جنرل اختر کو آئی ایس آئی سے ہٹا کر چیئرمین جوائنٹ چیف آف سٹاف کمیٹی بنا دیا گیا۔
وہ کہتے ہیں کہ اس فیصلے سے جنرل اختر کو بھی صدمہ پہنچا اور خود افغان جنگ کو بھی۔ لہٰذا اس زمانے کے حالات کو انھوں نے عہد زوال کے عنوان سے قلم بند کیا ہے۔ جنرل اختر کو اس منصب سے کیوں ہٹایا گیا، بریگیڈیئر یوسف کے خیال میں یہ فتح کے کریڈٹ کا معاملہ تھا۔
افغان جنگ سے جنرل اختر کی وابستگی کتنی گہری تھی۔ اس سلسلے میں ہارون رشید ایک واقعہ بیان کرتے ہیں۔ انھوں نے مجھے بتایا کہ ایک بار مجاہدین کے لیے چینی ساختہ توپیں حاصل کی گئیں۔ یہ توپیں 60 گولے لگاتار فائر کرنے کی صلاحیت رکھتی تھیں۔ جنرل اختر کی دلچسپی ان توپوں میں غیر معمولی تھی لہٰذا ان کی کارکردگی میں مزید اضافے میں انھوں نے خصوصی دلچسپی لی جس کے نتیجے میں یہ توپیں 120 گولے برسانے کے قابل ہو گئیں۔
ہارون رشید کہتے ہیں کہ جنرل اختر کو سنگین الزامات کا سامنا کرنا پڑا لیکن یہ تمام الزامات بے بنیاد تھے۔ وہ اپنی ذاتی معلومات کی بنیاد پر کہتے ہیں کہ اس خاندان کی تمام دولت جنرل اختر کے بیٹوں کی محنت کی مرہون منت ہے۔
وہ جنرل اختر کے سب سے بڑے بیٹے اکبر کا ذکر کرتے ہیں۔ خاندان میں انھیں دولت بنانے کی مشین کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ ان کے مطابق وہ فیکٹری لگا کر چلانے کا غیر معمولی تجربہ رکھتے تھے۔
اکبر اب امریکا میں کام کرتے ہیں جب کہ جنرل اختر کے تین دیگر بیٹے اختر، ہارون اور غازی بھی کاروبار کی غیر معمولی مہارت رکھتے ہیں۔
واضح رہے کہ جنرل ضیا کے دور میں راولپنڈی، اسلام آباد کے سنگم پر واقع اوجھڑی کیمپ میں اسلحے کے ذخیرے میں خوفناک آتشزدگی کا الزام عام طور پر انھیں دیا جاتا ہے۔
ہارون رشید کہتے ہیں کہ اس واقعہ کا جنرل اختر سے کوئی تعلق ہو ہی نہیں سکتا کیوںکہ اس وقت آئی ایس آئی سے ان کا کوئی تعلق نہ تھا۔ وہ کہتے ہیں کہ اسلحے کے اس ذخیرے کے تباہی میں امریکا ملوث تھا جو نہیں چاہتا تھا کہ پاکستان ’مجاہدین‘ کو مزید اسلحہ فراہم کرے۔
جنرل اختر اور افغان جنگ سے متعلقہ کہانیاں تاریخ کے اوراق پر محفوظ ہو چکی ہیں۔ بہت سی کہانیاں سینہ بہ سینہ آج بھی منتقل ہوتی ہیں۔ ان سب کہانیوں پر بحث ہو سکتی ہے لیکن ایک حقیقت ایسی ہے جس پر ان کے دوست اور مخالف سب متفق ہیں۔
اس حقیقت میں کوئی شبہ نہیں کہ افغانوں جنگجوؤں کی گوریلا صفات کی شناخت سب سے پہلے جنرل اختر نے کی۔ اس جنگ کو چار دہائیاں گزر چکی ہیں اور ہر آنے والا دن افغانوں کی اس شناخت کو مضبوط بناتا جا رہا ہے۔


جنرل زاہد علی اکبر

جنرل ضیا الحق کے دور میں ریٹائر ہونے والے لیفٹیننٹ جنرل زاہد علی اکبر نے فوج کی راولپنڈی کور کی قیادت کی، پھر 1987 سے 1992 تک چیئرمین واپڈا رہے اور پاکستان کرکٹ بورڈ کے چئیرمین کے عہدے پر بھی کام کیا۔
جنرل مشرف کے دور میں قومی احتساب بیورو (نیب) نے ان پر رشوت ستانی (کرپشن) کے علاوہ آمدن سے زائد اثاثے بنانے کا الزام لگایا۔
مقامی میڈیا میں شائع ہونے والی خبروں کے مطابق انھوں نے نیب کو اعترافی بیان دیا اور 20 کروڑ (200 ملین) روپے قومی خزانے میں جمع کرائے۔
ریٹائرڈ لیفٹیننٹ جنرل زاہد علی اکبر کو انٹرپول کے ذریعے اس وقت گرفتار کیا گیا تھا جب وہ کروشیا سے بوسنیا میں داخل ہو رہے تھے لیکن برطانوی شہریت کے سبب انھیں بوسنیا سے برطانیہ منتقل کر دیا گیا۔
نیب دستاویزات کے مطابق ریٹائرڈ لیفٹیننٹ جنرل زاہد علی اکبر کے 77 بینک اکاﺅنٹس تھے جن میں 20 کروڑ سے زائد رقم جمع کرائی گئی تھی۔ یہ بینک کھاتے اُن کے قریبی عزیز اور مختلف کمپنیوں کے نام پر تھے۔
ریٹائرڈ لیفٹیننٹ جنرل زاہد علی اکبر پاکستان آرمی کی انجینئرنگ کور کے ایک انجینیئر افسر تھے جو آرمی کے صدر دفتر یعنی ’جی ایچ کیو‘ راولپنڈی میں سول تعمیرات کے نگران تھے۔
بعدازاں وہ انجینیئرنگ ریسرچ لیبارٹریز (ای آر ایل) کے فرائض پر مامور رہے جو 1970 میں ایٹم بم کے خفیہ پروگرام کی تیاری سے متعلق تحقیق کا صف اول کا ادارہ تھا۔ صدر ضیا الحق نے انھیں میجر جنرل کے بعد لیفٹیننٹ جنرل کے عہدے پر ترقی دے دی۔
ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ جنرل ضیا الحق کے رشتہ دار تھے اور دونوں جرنیلوں کی دوسری نسل میں شادیاں اس رشتے کا باعث بنی تھیں۔
سنہ 1980 میں انھیں جنرل ہیڈکوارٹرز (جی ایچ کیو) میں انجینیئر اِن چیف کے عہدے پر تعینات کیا گیا۔ وہ کمانڈر10 کور کے علاوہ چئیرمین واپڈا بھی رہے۔ سنہ 1984 سے سنہ 1989 تک اس عہدے پر وہ ’سکینڈمنٹ‘ (عارضی تبادلہ) کی بنیاد مقرر ہوئے تھے۔
انھوں نے ’ڈیفنس سائنس اینڈ انجینئرنگ آرگنائزیشن‘ کی سربراہی کی اور پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیئرمین بھی رہے۔ اُن کی سربراہی کے دور میں ہی پاکستان کی قومی ٹیم نے 1992 کا کرکٹ ورلڈ کپ جیتا تھا۔
جنرل ضیا نے جنرل اکبر کو بھٹو کے قریبی حلقوں میں متعارف کروایا تھا جو اس وقت چیف آف آرمی سٹاف تھے۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے مشورے پر عمل کرتے ہوئے وزیراعظم بھٹو نے آرمی چیف جنرل ضیا سے بات کی کہ وہ ایک قابل انجینیئرنگ مینیجر تلاش کر کے دیں۔

اگست 1976 میں (اس وقت) بریگیڈیئر اکبر کی شہرت پاکستان آرمی کے سول انجینیئرنگ منصوبوں کے ضمن میں تھی اور وہ اس لحاظ سے اچھی طرح جانے پہچانے جاتے تھے۔
اس وقت کے آرمی چیف جنرل ضیا نے انھیں رازداری سے جاری ایٹم بم پروگرام کا حصہ بنانے کی منظوری دے دی اور انھیں کہا گیا کہ وہ ڈاکٹرعبدالقدیر خان سے ملیں۔
میجر جنرل اکبر نے اس پختہ ڈھانچے کی تعمیر و تیاری میں کلیدی کردار ادا کیا جس پر ڈاکٹر خان کے فراہم کردہ سینٹری فیوجز استوار ہوئے۔ سینٹری فیوجز ہی وہ چابی تھی جس کے ذریعے پاکستان کے ایٹم بم کے لیے افزودہ مواد مہیا ہوا۔
میجر جنرل اکبر نے کمیٹی بنائی جسے ذمہ داری سونپی گئی کہ وہ اس اہم اور رازدارانہ منصوبے کے لیے ضروریات کو پورا کرے گی اور مالی وسائل کی فراہمی کی نگرانی کرے تاکہ کہوٹہ میں سینٹری فیوجز سہولیات تعمیر ہو سکیں
1980 میں زاہد علی اکبر کو ’تھری سٹار جنرل‘ کے عہدے پر ترقی دی گئی اور انھوں نے پاکستان آرمی کی انجینیئرنگ کور کے انجینیئر انچیف کے عہدے پر کمان سنبھال لی۔ فوج کے اندرونی حلقوں کے مطابق جنرل اکبر نے ملک کی انٹیلیجنس سروسز کے ساتھ قریبی اشتراک سے کام کیا۔ جنرل ضیا نے انڈین جوہری پروگرام پر خصوصی رپورٹ تیار کرنے کی ذمہ داری انھیں سونپی تھی۔
جنرل ضیا الحق نے ہی لیفٹیننٹ جنرل اکبر کو آبی و توانائی ترقیاتی ادارے (واپڈا) کا چیئرمین بھی مقرر کیا تھا۔
سنہ 1987 میں وہ ’فور سٹار‘ جنرل کے طور پر تقرری اور ترقی کی دوڑ میں بھی شامل تھے لیکن صدر ضیا اور وزیراعظم جونیجو کے درمیان وائس چیف آف آرمی سٹاف کی تعیناتی کے بڑے تنازع میں ملوث ہو گئے۔
’نائب آرمی چیف‘ پاکستان آرمی کی ’آپریشنل کمانڈ پوسٹ‘ (فوج کو چلانے کا کلیدی) عہدہ تصور ہوتا ہے۔ ابتدا میں صدر ضیا نے سینیئر ترین لیفٹیننٹ جنرل مرزا اسلم بیگ پر ترجیح دیتے ہوئے لیفٹیننٹ جنرل اکبر کو ’وائس آرمی چیف‘ مقرر کیا تھا تاہم وزیراعظم محمد خان جونیجو نے اس تعیناتی کی توثیق کرنے سے انکار کر دیا اور لیفٹیننٹ جنرل مرزا اسلم بیگ کی بطور وائس آرمی چیف تقرری پر اصرار کیا۔
چیئرمین واپڈا کے طور پر اُن کی تعیناتی کی توثیق کے بعد انھوں نے وزیراعظم بینظیر بھٹو کی حکومت میں بھی کام کیا تھا۔ سنہ 1989 میں لیفٹیننٹ جنرل اکبر کو ’ڈیسٹو‘ میں دوبارہ مقرر کر دیا گیا جہاں وہ ڈائریکٹر تھے۔ یہ ادارہ فوج کے خفیہ اور حساس منصوبوں سے متعلق تھا۔
source
 

Sohail Shuja

Chief Minister (5k+ posts)

سوئز سیکرٹس‘ میں شامل پاکستانی جرنیل کون ہیں؟

پاکستان آرمی کے اہم ترین عہدوں پر فائز رہنے والے دو سابق جنرلز پر الزام ہے کہ انھوں نے غیر قانونی طور پر سوئٹزر لینڈ کے بینک میں ناجائز طریقوں سے حاصل کی گئی دولت اکھٹی کی۔
یہ الزامات بین الاقوامی نجی بینک ’کریڈٹ سوئز‘ کے صارفین کے اکاؤنٹس کی خفیہ معلومات پر مشتمل ’دی سوئز سیکرٹس‘ کا حصہ ہیں جن میں دنیا بھر سے سیاست دانوں، فوجی آمروں، جرائم پیشہ افراد سمیت کئی دیگر افراد کا نام بھی شامل ہے۔
ان افراد میں پاکستان کے دو سابق جنرلز کے نام بھی شامل ہیں۔ ان میں سے ایک سابق آئی ایس آئی چیف اور چیئرمین جوائنٹ چیف آف سٹاف کمیٹی جنرل اختر عبد الرحمان ہیں اور دوسرے جنرل زاہد علی اکبر۔
یہ افراد کون ہیں؟ بی بی سی نے سوئز سیکرٹس کے تناظر میں قارئین کے لیے اس خصوصی رپورٹ میں چند اہم تفصیلات پیش کی ہیں۔
’جسم توانا، چست اور مضبوط، وردی اُجلی شفاف اور بے داغ اور سینے پر رنگین تمغوں کی تین قطاریں جن سے معلوم ہوتا کہ قیام پاکستان کے بعد وہ کتنے فوجی معرکوں میں شریک ہو چکے ہیں۔‘
پاکستان کی انٹر سروسز انٹیلیجنس (آئی ایس آئی) کے سربراہ اور بعد میں چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی تعینات رہنے والے جنرل اختر کا یہ خاکہ بریگیڈیئر ریٹائرڈ محمد یوسف نے کھینچا ہے۔
جنرل اختر نے قیام پاکستان سے قبل سنہ 1946 میں رائل برٹش آرمی میں شمولیت اختیار کی اور تین جنگوں میں شریک رہے۔
اس کے باوجود اُن کی عسکری زندگی کا سب سے اہم معرکہ وہ ہے جسے سرد جنگ کا نکتہ عروج بھی قرار دیا جا سکتا ہے اور اس کے خاتمے کا سبب بھی۔
عرف عام میں اسے ’جہاد افغانستان‘ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ ’جہاد افغانستان‘ میں اُن کی شرکت اور دلچسپی ایک دستاویز سے شروع ہوئی۔
بریگیڈیئر محمد یوسف نے اپنی کتاب ’خاموش مجاہد‘ میں اس پس منظر کا تفصیل سے ذکر کیا ہے جو جنرل اختر کی جہاد افغانستان میں شرکت کی وجہ بنی۔ سنہ 1979 میں سوویت یونین کی مسلح افواج پاکستان کے پڑوس یعنی افغانستان میں داخل ہوئیں تو ملک کے انتظامی سربراہ اور چیف آف آرمی سٹاف کی حیثیت سے جنرل ضیا الحق نے انھیں طلب کیا اور ان کی رائے طلب کی۔
جنرل ضیا نے اس مقصد کے لیے جنرل اختر سے مشورہ کیوں کیا؟ بریگیڈیئر یوسف کے خیال میں اس کی دو وجوہات ہو سکتی تھیں۔ پہلی وجہ تو اُن کا منصب ہی تھی کیوںکہ ان دنوں وہ فوج کے اہم ترین خفیہ ادارے انٹر سروسز انٹیلیجنس (آئی ایس آئی) کے سربراہ تھے۔ دوسری وجہ شاید یہ رہی ہو کہ قیام پاکستان سے قبل یہ دونوں جرنیل کیڈٹس کی حیثیت میں اکھٹے کام کر چکے تھے۔
ممتاز تجزیہ کار، کالم نگار اور جنرل اختر عبدالرحمن کی سوانح حیات ’فاتح‘ کے مصنف ہارون رشید یقین سے کہتے ہیں کہ اس قربت کی وجہ دونوں جرنیلوں کے خاندانوں کی مشرقی پنجاب سے نقل مکانی تھی۔
مسلح افواج کے ان دونوں ذمہ داروں میں قربت غیر معمولی تھی۔ ہارون رشید بتاتے ہیں کہ جنرل ضیا اور جنرل اختر کے گھروں کی دیواریں ملتی تھیں۔ چنانچہ دیوار میں ایک دروازہ بنا دیا گیا تھا تاکہ دونوں جرنیل جب چاہیں ایک دوسرے کے گھر جا کر افغان جنگ کے بارے میں خفیہ مشاورت کر سکیں۔
تیزی سے بگڑتی ہوئی افغانستان کی صورتحال کے پیش نظر جنرل اختر نے جنرل ضیاالحق سے کچھ وقت طلب کیا اور ایک جامع تجزیاتی رپورٹ مرتب کی۔
یہ رپورٹ تین حصوں پر مشتمل تھی۔
پہلا نکتہ یہ تھا کہ پاکستان کو پوری دل جمعی کے ساتھ ’افغان جہاد‘ کا حصہ بننا چاہیے۔ رپورٹ کے مطابق اس کا ایک سبب خالصتاً پاکستان کا مفاد تھا۔ انھوں نے لکھا کہ افغانستان پر کمیونسٹ قبضے کے بعد پاکستانی علاقے میں ان کی توسیع کے امکانات میں غیر معمولی اضافہ ہو گیا ہے، اس لیے پاکستان کا ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہنا درست نہیں۔
دوسرے نکتے میں انھوں نے اولاً سوویت یونین کے سامنے مزاحمت کرنے اور ثانیاً انھیں واپس سوویت یونین میں دھکیل دینے کا تصور پیش کیا۔
تیسرے نکتے میں انھوں نے مزاحمت کی حکمت عملی کی نشان دہی کی۔ انھوں نے افغان عوام کے قبائلی اور نسلی مزاج کا جائزہ لیتے ہوئے بتایا کہ یہ لوگ بے پناہ قوت برداشت اور قربانی کا جذبہ رکھتے ہیں، لہٰذا انھیں مناسب رہنمائی، تربیت اور اسلحہ فراہم کر دیا جائے تو یہ ناقابل شکست گوریلا فوج کی حیثیت اختیار کر سکتے ہیں۔
جنرل ضیا نے ان تجاویز سے اتفاق کیا اور انگریزی میں ایک جملہ بولا جو بعد میں جہاد افغانستان کے ضمن میں پالیسی کی صورت اختیار کر گیا۔ جنرل ضیا نے کہا:
The water in Afghanistan must boiled at the right temperature
بریگیڈیئر یوسف نے اس جملے کی وضاحت یوں کی: ’افغان جنگ محدود شدت کے ساتھ لڑی جائے تاکہ روس کو پاکستان کے خلاف کسی جارحیت کا موقع نہ ملے۔‘
بریگیڈیئر یوسف لکھتے ہیں کہ آنے والے برسوں میں یہ جنگ اسی پالیسی کے تحت لڑی گئی اور جنرل اختر نے یقینی بنایا کہ اس جنگ کا کوئی بھی پہلو اس حکمت عملی کی مخالف سمت میں نہ جائے۔
جنگیں طے شدہ منصوبے کے تحت مشکل سے ہی لڑی جاتی ہیں اس لیے کسی لمحے کوئی بھی صورتحال پیدا ہو سکتی ہے۔ یوسف لکھتے ہیں کہ جنرل اختر نے اس جنگ کے سلسلے میں دو فیصلے کیے تھے۔
  • افغان جنگ کے لیے اسلحہ کی فراہمی کمانڈروں کے بجائے تنظیموں کو کی جائے۔ اس مقصد کے لیے ان ہی کی کوششوں سے سات جماعتی افغان اتحاد تشکیل پایا تھا۔
  • اسلحے کی فراہمی اور مجاہدین کی تربیت کا تمام تر عمل پاکستان کے ہاتھ میں رہے۔ اس میں کوئی بڑی سے بڑی طاقت بھی کوئی مداخلت نہ کرے۔
امریکا چاہتا تھا کہ ان معاملات تک اسے بھی رسائی دی جائے اور اسلحہ جماعتوں کی بجائے براہ راست کمانڈروں کو دیا جائے۔ امریکی خواہش کو پیش نظر رکھتے ہوئے جنرل ضیا اس سلسلے میں نرمی پیدا کرنے پر آمادہ تھے لیکن جنرل اختر اس میں رکاوٹ بن گئے۔
وہ سمجھتے تھے کہ اگر اس اصول کی پاسداری نہ کی گئی تو ’افغان جہاد‘ شکست سے دوچار ہو جائے گا۔
بریگیڈیئر یوسف کے مطابق افغان جہاد کی ایک اور غیر اعلانیہ حکمت عملی بھی جنرل اختر کے ایک جملے سے اخذ کی گئی تھی۔ جنرل اختر نے کہا تھا: ’دشمن کو ہزاروں چھوٹے چھوٹے زخم لگا کر ناتواں کر دیا جائے۔‘
'دشمن' کو لاتعداد زخم لگا کر ناتواں کرنے ہی کا ثمر تھا کہ ایک وقت ایسا بھی آیا جب گوریلا دستوں نے سوویت علاقوں میں جا کر کارروائیاں شروع کر دیں۔
افغان گوریلوں کی تربیت اور کارکردگی ایسی تھی کہ اختلاف کے باوجود امریکی اس سے متاثر ہوئے بغیر رہ نہ سکے۔ چنانچہ سی آئی اے کے سربراہ ولیم کیسی پاکستان آئے تو جنرل اختر کی تربیت اور منصوبہ بندی کا اعتراف کیے بغیر نہ رہ سکے۔

افغان جنگ کے دوران فوج اور سول انتظامیہ کے درمیان اکثر بدمزگی رہا کرتی تھی۔ جنرل اختر کے سامنے اکثر شکایت کی جاتی کہ افغان کمشنریٹ بدعنوانی کی آماجگاہ ہے اور مہاجرین کا کوئی کام رشوت کے بغیر نہیں ہوتا۔ بریگیڈیئر یوسف کے مطابق جنرل اختر ایسی خبروں پر کچھ کر نہیں پاتے تھے اور دکھی ہو جاتے تھے۔
بریگیڈیئر یوسف نے لکھا ہے کہ جنرل اختر بے داغ شخصیت کے مالک فوجی افسر تھے جن کے دامن پر بدعنوانی کا کوئی داغ نہیں تھا۔ اس سلسلے میں انھوں نے ایک واقعے کا ذکر بھی کیا ہے۔ ان کے مطابق ایک بار آئی ایس آئی کے لیے گاڑیاں خریدی گئیں تو متعلقہ شخص نے کمیشن کے طور پر انھیں 20 لاکھ روپے پیش کیے۔
جنرل اختر نے قبول کرنے سے انکار کیا تو پیشکش کرنے والے نے کہا کہ یہ رقم اُن کا حق ہے اور حکومت کا کوئی افسر فوجی ہو یا غیر فوجی، وہ ایسے کمیشن کو قبول کرنے سے انکار نہیں کرتا۔ جنرل اختر نے یہ دلیل بھی مسترد کر دی اور کہا کہ اگر وہ بہرصورت یہ رقم دینا ہی چاہتا ہے تو وہ چند گاڑیاں مزید فراہم کر دے جنھیں وہ ’افغان جہاد‘ میں استعمال کر سکیں۔

بریگیڈیئر یوسف کے مطابق یہ جنرل اختر ہی کی حکمت عملی تھی جس کے نتیجے میں افغان جنگ کی کامیابی یقینی تھی لیکن عین فیصلہ کن مرحلے پر جنرل اختر کو آئی ایس آئی سے ہٹا کر چیئرمین جوائنٹ چیف آف سٹاف کمیٹی بنا دیا گیا۔
وہ کہتے ہیں کہ اس فیصلے سے جنرل اختر کو بھی صدمہ پہنچا اور خود افغان جنگ کو بھی۔ لہٰذا اس زمانے کے حالات کو انھوں نے عہد زوال کے عنوان سے قلم بند کیا ہے۔ جنرل اختر کو اس منصب سے کیوں ہٹایا گیا، بریگیڈیئر یوسف کے خیال میں یہ فتح کے کریڈٹ کا معاملہ تھا۔
افغان جنگ سے جنرل اختر کی وابستگی کتنی گہری تھی۔ اس سلسلے میں ہارون رشید ایک واقعہ بیان کرتے ہیں۔ انھوں نے مجھے بتایا کہ ایک بار مجاہدین کے لیے چینی ساختہ توپیں حاصل کی گئیں۔ یہ توپیں 60 گولے لگاتار فائر کرنے کی صلاحیت رکھتی تھیں۔ جنرل اختر کی دلچسپی ان توپوں میں غیر معمولی تھی لہٰذا ان کی کارکردگی میں مزید اضافے میں انھوں نے خصوصی دلچسپی لی جس کے نتیجے میں یہ توپیں 120 گولے برسانے کے قابل ہو گئیں۔
ہارون رشید کہتے ہیں کہ جنرل اختر کو سنگین الزامات کا سامنا کرنا پڑا لیکن یہ تمام الزامات بے بنیاد تھے۔ وہ اپنی ذاتی معلومات کی بنیاد پر کہتے ہیں کہ اس خاندان کی تمام دولت جنرل اختر کے بیٹوں کی محنت کی مرہون منت ہے۔
وہ جنرل اختر کے سب سے بڑے بیٹے اکبر کا ذکر کرتے ہیں۔ خاندان میں انھیں دولت بنانے کی مشین کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ ان کے مطابق وہ فیکٹری لگا کر چلانے کا غیر معمولی تجربہ رکھتے تھے۔
اکبر اب امریکا میں کام کرتے ہیں جب کہ جنرل اختر کے تین دیگر بیٹے اختر، ہارون اور غازی بھی کاروبار کی غیر معمولی مہارت رکھتے ہیں۔
واضح رہے کہ جنرل ضیا کے دور میں راولپنڈی، اسلام آباد کے سنگم پر واقع اوجھڑی کیمپ میں اسلحے کے ذخیرے میں خوفناک آتشزدگی کا الزام عام طور پر انھیں دیا جاتا ہے۔
ہارون رشید کہتے ہیں کہ اس واقعہ کا جنرل اختر سے کوئی تعلق ہو ہی نہیں سکتا کیوںکہ اس وقت آئی ایس آئی سے ان کا کوئی تعلق نہ تھا۔ وہ کہتے ہیں کہ اسلحے کے اس ذخیرے کے تباہی میں امریکا ملوث تھا جو نہیں چاہتا تھا کہ پاکستان ’مجاہدین‘ کو مزید اسلحہ فراہم کرے۔
جنرل اختر اور افغان جنگ سے متعلقہ کہانیاں تاریخ کے اوراق پر محفوظ ہو چکی ہیں۔ بہت سی کہانیاں سینہ بہ سینہ آج بھی منتقل ہوتی ہیں۔ ان سب کہانیوں پر بحث ہو سکتی ہے لیکن ایک حقیقت ایسی ہے جس پر ان کے دوست اور مخالف سب متفق ہیں۔
اس حقیقت میں کوئی شبہ نہیں کہ افغانوں جنگجوؤں کی گوریلا صفات کی شناخت سب سے پہلے جنرل اختر نے کی۔ اس جنگ کو چار دہائیاں گزر چکی ہیں اور ہر آنے والا دن افغانوں کی اس شناخت کو مضبوط بناتا جا رہا ہے۔

جنرل زاہد علی اکبر

جنرل ضیا الحق کے دور میں ریٹائر ہونے والے لیفٹیننٹ جنرل زاہد علی اکبر نے فوج کی راولپنڈی کور کی قیادت کی، پھر 1987 سے 1992 تک چیئرمین واپڈا رہے اور پاکستان کرکٹ بورڈ کے چئیرمین کے عہدے پر بھی کام کیا۔
جنرل مشرف کے دور میں قومی احتساب بیورو (نیب) نے ان پر رشوت ستانی (کرپشن) کے علاوہ آمدن سے زائد اثاثے بنانے کا الزام لگایا۔
مقامی میڈیا میں شائع ہونے والی خبروں کے مطابق انھوں نے نیب کو اعترافی بیان دیا اور 20 کروڑ (200 ملین) روپے قومی خزانے میں جمع کرائے۔
ریٹائرڈ لیفٹیننٹ جنرل زاہد علی اکبر کو انٹرپول کے ذریعے اس وقت گرفتار کیا گیا تھا جب وہ کروشیا سے بوسنیا میں داخل ہو رہے تھے لیکن برطانوی شہریت کے سبب انھیں بوسنیا سے برطانیہ منتقل کر دیا گیا۔
نیب دستاویزات کے مطابق ریٹائرڈ لیفٹیننٹ جنرل زاہد علی اکبر کے 77 بینک اکاﺅنٹس تھے جن میں 20 کروڑ سے زائد رقم جمع کرائی گئی تھی۔ یہ بینک کھاتے اُن کے قریبی عزیز اور مختلف کمپنیوں کے نام پر تھے۔
ریٹائرڈ لیفٹیننٹ جنرل زاہد علی اکبر پاکستان آرمی کی انجینئرنگ کور کے ایک انجینیئر افسر تھے جو آرمی کے صدر دفتر یعنی ’جی ایچ کیو‘ راولپنڈی میں سول تعمیرات کے نگران تھے۔
بعدازاں وہ انجینیئرنگ ریسرچ لیبارٹریز (ای آر ایل) کے فرائض پر مامور رہے جو 1970 میں ایٹم بم کے خفیہ پروگرام کی تیاری سے متعلق تحقیق کا صف اول کا ادارہ تھا۔ صدر ضیا الحق نے انھیں میجر جنرل کے بعد لیفٹیننٹ جنرل کے عہدے پر ترقی دے دی۔
ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ جنرل ضیا الحق کے رشتہ دار تھے اور دونوں جرنیلوں کی دوسری نسل میں شادیاں اس رشتے کا باعث بنی تھیں۔
سنہ 1980 میں انھیں جنرل ہیڈکوارٹرز (جی ایچ کیو) میں انجینیئر اِن چیف کے عہدے پر تعینات کیا گیا۔ وہ کمانڈر10 کور کے علاوہ چئیرمین واپڈا بھی رہے۔ سنہ 1984 سے سنہ 1989 تک اس عہدے پر وہ ’سکینڈمنٹ‘ (عارضی تبادلہ) کی بنیاد مقرر ہوئے تھے۔
انھوں نے ’ڈیفنس سائنس اینڈ انجینئرنگ آرگنائزیشن‘ کی سربراہی کی اور پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیئرمین بھی رہے۔ اُن کی سربراہی کے دور میں ہی پاکستان کی قومی ٹیم نے 1992 کا کرکٹ ورلڈ کپ جیتا تھا۔
جنرل ضیا نے جنرل اکبر کو بھٹو کے قریبی حلقوں میں متعارف کروایا تھا جو اس وقت چیف آف آرمی سٹاف تھے۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے مشورے پر عمل کرتے ہوئے وزیراعظم بھٹو نے آرمی چیف جنرل ضیا سے بات کی کہ وہ ایک قابل انجینیئرنگ مینیجر تلاش کر کے دیں۔

اگست 1976 میں (اس وقت) بریگیڈیئر اکبر کی شہرت پاکستان آرمی کے سول انجینیئرنگ منصوبوں کے ضمن میں تھی اور وہ اس لحاظ سے اچھی طرح جانے پہچانے جاتے تھے۔
اس وقت کے آرمی چیف جنرل ضیا نے انھیں رازداری سے جاری ایٹم بم پروگرام کا حصہ بنانے کی منظوری دے دی اور انھیں کہا گیا کہ وہ ڈاکٹرعبدالقدیر خان سے ملیں۔
میجر جنرل اکبر نے اس پختہ ڈھانچے کی تعمیر و تیاری میں کلیدی کردار ادا کیا جس پر ڈاکٹر خان کے فراہم کردہ سینٹری فیوجز استوار ہوئے۔ سینٹری فیوجز ہی وہ چابی تھی جس کے ذریعے پاکستان کے ایٹم بم کے لیے افزودہ مواد مہیا ہوا۔
میجر جنرل اکبر نے کمیٹی بنائی جسے ذمہ داری سونپی گئی کہ وہ اس اہم اور رازدارانہ منصوبے کے لیے ضروریات کو پورا کرے گی اور مالی وسائل کی فراہمی کی نگرانی کرے تاکہ کہوٹہ میں سینٹری فیوجز سہولیات تعمیر ہو سکیں
1980 میں زاہد علی اکبر کو ’تھری سٹار جنرل‘ کے عہدے پر ترقی دی گئی اور انھوں نے پاکستان آرمی کی انجینیئرنگ کور کے انجینیئر انچیف کے عہدے پر کمان سنبھال لی۔ فوج کے اندرونی حلقوں کے مطابق جنرل اکبر نے ملک کی انٹیلیجنس سروسز کے ساتھ قریبی اشتراک سے کام کیا۔ جنرل ضیا نے انڈین جوہری پروگرام پر خصوصی رپورٹ تیار کرنے کی ذمہ داری انھیں سونپی تھی۔
جنرل ضیا الحق نے ہی لیفٹیننٹ جنرل اکبر کو آبی و توانائی ترقیاتی ادارے (واپڈا) کا چیئرمین بھی مقرر کیا تھا۔
سنہ 1987 میں وہ ’فور سٹار‘ جنرل کے طور پر تقرری اور ترقی کی دوڑ میں بھی شامل تھے لیکن صدر ضیا اور وزیراعظم جونیجو کے درمیان وائس چیف آف آرمی سٹاف کی تعیناتی کے بڑے تنازع میں ملوث ہو گئے۔
’نائب آرمی چیف‘ پاکستان آرمی کی ’آپریشنل کمانڈ پوسٹ‘ (فوج کو چلانے کا کلیدی) عہدہ تصور ہوتا ہے۔ ابتدا میں صدر ضیا نے سینیئر ترین لیفٹیننٹ جنرل مرزا اسلم بیگ پر ترجیح دیتے ہوئے لیفٹیننٹ جنرل اکبر کو ’وائس آرمی چیف‘ مقرر کیا تھا تاہم وزیراعظم محمد خان جونیجو نے اس تعیناتی کی توثیق کرنے سے انکار کر دیا اور لیفٹیننٹ جنرل مرزا اسلم بیگ کی بطور وائس آرمی چیف تقرری پر اصرار کیا۔
چیئرمین واپڈا کے طور پر اُن کی تعیناتی کی توثیق کے بعد انھوں نے وزیراعظم بینظیر بھٹو کی حکومت میں بھی کام کیا تھا۔ سنہ 1989 میں لیفٹیننٹ جنرل اکبر کو ’ڈیسٹو‘ میں دوبارہ مقرر کر دیا گیا جہاں وہ ڈائریکٹر تھے۔ یہ ادارہ فوج کے خفیہ اور حساس منصوبوں سے متعلق تھا۔
source
بہت معلوماتی پوسٹ ہے، جس کے لیئے بہت بہت شکریہ۔

لیکن بنیادی سوال وہیں ہے۔ کیسے معلوم کیا جائے کہ جن اکاوٗنٹس کی معلومات ’’لیکس‘‘ کے طور پر پیش کی گئی ہیں وہ درست بھی ہیں یا نہیں؟

اس کے صرف دو طریقے میرے ذہن میں ہیں۔ ایک یہ کہ سوئس بینک خود کلہاڑے پر پیر مارے اور ان معلومات کی تصدیق کردے۔ دوسرا طریقہ یہ ہے کہ کہیں سے اس الزام کے ساتھ ہی کوئی ایسی معلومات بھی فراہم ہوں جس سے رقوم کی منتقلی کا سُراغ مل جائے۔

ان دونوں صورتوں کی عدم موجودگی میں تو کل کو میں بھی کوئی کاغذ لکھ کر لے آوٗں اور اسے ’’فلانی لیکس‘‘ کہہ دوں۔


اسی لیئے میں نے اپنے راجے کو تھریڈ کے شروع میں ہی کہہ دیا تھا کہ ’’فی الحال تیل دیکھو اور تیل کی دھار‘‘۔

اب جب تک اس سلسلے میں مزید وضاحت اور معلومات درست طریقے سے فراہم نہیں کی ہوجاتیں، کچھ بھی وثوق سے کہنا قبل از وقت ہی ہے۔

 

Hussain1967

Chief Minister (5k+ posts)
فی الحال تو تیل دیکھو اور تیل کی دھار دیکھو۔ سوئس بینک کے اکاوٗنٹ کا ڈیٹا کیا اصلی اور تصدیق شدہ ہے؟

سوئٹزرلینڈ کے قوانین کے مطابق وہاں کے بینک کسی کو بھی معلومات نہ دینے کا اختیار رکھتے ہیں۔ لہٰذا اسکو پنامہ کیس کی طرح سمجھنا غلطی ہوگی۔

کیس تب ہی بن سکتا ہے جب اس معلومات کی تصدیق ہوسکے۔ سزا تب ہی ہوسکتی ہے جب جرم ثابت کیا جاسکے۔
Even if it is proved that Swiss leaks are genuine, no government ( including IK’) will initiate any case based on that because, if it did, it will have to face a ‘Imran Khan’ , a ‘Tahir Ul Qadri’, and a ‘Khadim Rizvi that NS faced during his last tenure. I don’t see any accountability of Military Generals in the lifetime of our current generation. Siberite
 

Sohail Shuja

Chief Minister (5k+ posts)
Even if it is proved that Swiss leaks are genuine, no government ( including IK’) will initiate any case based on that because, if it did, it will have to face a ‘Imran Khan’ , a ‘Tahir Ul Qadri’, and a ‘Khadim Rizvi that NS faced during his last tenure. I don’t see any accountability of Military Generals in the lifetime of our current generation. Siberite


Just to add to your information. However, this does not mean that Army is totally clean.

But, still, their process of accountability is far better than our other civilian institutions. Ask any of your friends in Army that what happens in PS Directorate at GHQ. He will tell you how even Brigadiers and Generals wet their pants in there.

There also is a reason why these inquiries and investigations are not made public. We, in a hurry may expose our fault lines for the enemy. That is why. Otherwise, remain seated, because our civilian institutes are so corrupt to the bone that we even have to call Army to "enforce people to wear face masks".
 

saleema

Senator (1k+ posts)
Rajay bhawlay, penthouse pirates, TT shareef, Kukri farms, Qatri rangeelion pe bhi ek thread ho Jaye Kabhi? Munafiq insan...En generals ke sath gungloon dabbu Qatri iqamay Walon pe bhi 1000 martaba lanat or en k haramkaarion ko bardasht Karne Walon Teray jaysay haramzadon pe lanat...Lanat Teray un badbakht maa baap jenhon ne haram khila khila k Teray zameer ko murda Kar Diya hai..
 

RajaRawal111

Prime Minister (20k+ posts)
بہت معلوماتی پوسٹ ہے، جس کے لیئے بہت بہت شکریہ۔

لیکن بنیادی سوال وہیں ہے۔ کیسے معلوم کیا جائے کہ جن اکاوٗنٹس کی معلومات ’’لیکس‘‘ کے طور پر پیش کی گئی ہیں وہ درست بھی ہیں یا نہیں؟

اس کے صرف دو طریقے میرے ذہن میں ہیں۔ ایک یہ کہ سوئس بینک خود کلہاڑے پر پیر مارے اور ان معلومات کی تصدیق کردے۔ دوسرا طریقہ یہ ہے کہ کہیں سے اس الزام کے ساتھ ہی کوئی ایسی معلومات بھی فراہم ہوں جس سے رقوم کی منتقلی کا سُراغ مل جائے۔

ان دونوں صورتوں کی عدم موجودگی میں تو کل کو میں بھی کوئی کاغذ لکھ کر لے آوٗں اور اسے ’’فلانی لیکس‘‘ کہہ دوں۔


اسی لیئے میں نے اپنے راجے کو تھریڈ کے شروع میں ہی کہہ دیا تھا کہ ’’فی الحال تیل دیکھو اور تیل کی دھار‘‘۔

اب جب تک اس سلسلے میں مزید وضاحت اور معلومات درست طریقے سے فراہم نہیں کی ہوجاتیں، کچھ بھی وثوق سے کہنا قبل از وقت ہی ہے۔

او یار اینوے نہ رولا پاؤ - پہلی گل اے کہ لیک گورے نی ہوئی اے - ساڈی نہیں
دوجی گل --- سوئز بینک حکومت کے کہنے پر مجرموں کی انفورمیشن دیتے ہیں ہے -- انہوں نے ہندوستان کو ساری انفرومشنز دی ہیں

اب آپ کا عمران خان کتنا ایماندار اور اصولی بندہ ہے اور کس قابل ہے جو اس نے کوئی انفورمیشن مانگنی ہے - یہ تو اب بیکار کی باتیں ہیں



 

Sohail Shuja

Chief Minister (5k+ posts)
او یار اینوے نہ رولا پاؤ - پہلی گل اے کہ لیک گورے نی ہوئی اے - ساڈی نہیں
دوجی گل --- سوئز بینک حکومت کے کہنے پر مجرموں کی انفورمیشن دیتے ہیں ہے -- انہوں نے ہندوستان کو ساری انفرومشنز دی ہیں

اب آپ کا عمران خان کتنا ایماندار اور اصولی بندہ ہے اور کس قابل ہے جو اس نے کوئی انفورمیشن مانگنی ہے - یہ تو اب بیکار کی باتیں ہیں

Point to note: This is only for the U.S Citizens.

Point to note: This is only for the "Tax evasion Crimes" and no "Fishing expeditions" and only with the countries with whom Switzerland has an agreement and it is only in the case when there are "Concrete proofs of TAX EVASION" and not any other crime.

Fishing expedition is a term used for information requests without concrete indications of tax avoidance or other crimes and is generally undertaken with an aim to find something interesting.

Read more at:

https://economictimes.indiatimes.co...ofinterest&utm_medium=text&utm_campaign=cppst
 

Back
Top