بن بیاہی ماں بچے کی سرپرست ہو سکتی ہے (India)

Bawa

Chief Minister (5k+ posts)
شکریہ باوا جی ...یہ ہی میرا اصول ہے ..پیمانہ قرآن ہے ..اس کی تعلیم سے متصادم ہر حدیث نا قابل قبول ہے ..میں سنی سنائی بات نہیں کرتی ..میں نے ایسی احادیث صحیح بخاری میں پڑھی ہیں جو صریح توہین رسالت میں آتی ہیں .اس کی رو سے مجھے اپنا نبی الله کا گستاخ،اور نا فرمان نظر آتا ہے ...جس کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا ..قرآن کہتا ہے کہ میرا یہ نبی اپنی مرضی سے نہ کچھ کہتا ہے نہ کرتا ہے ..حدیث میں نبی من مانی کرتا نظر آتا ہے ..میرا اپنا خیال یہ ہے کہ یا تو لوگوں نے صحیح بخاری پڑھی ہی نہیں ہے اسے بھی قرآن کی طرح طاق میں سجایا ہوا ہے .اور جس نے پڑھی بھی ہے وہ ایک ہی بات کہتا ہے کہ میں نہیں جانتی ،،شیخ بتائے گا اس کے اندر چھپا مطلب ،،ایسے لوگوں کی عقل پر ماتم ہی کیا جا سکتا ہے جو صحیح بخاری کو صحیح ثابت کرنے کے لئے میرے نبی کو غلط ثابت کرتے ہیں .

پس نوٹ .....اگر کسی کو میری اس رائے سے اختلاف ہو تو اخلاق کے دائرے میں رہتے ہوئے اپنا نکتہ نظر بیان کر سکتا ہے .



نادان جی - آپ ٹھیک کہتی ہیں


ان حدیث اکٹھی کرنے والوں نے جہاں نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کی زندگی کے بارے میں ہمیں کچھ معلومات فراہم کی ہیں وہیں اسلام کے دشمنوں کو اسلام پر بھونکنے کا مواد بھی فراہم کیا ہے


پھر حکمران اور دوسرے طبقوں نے بھی اپنے مخصوس مقاصد کیلیے ان احادیث میں رد و بدل کروایا


آپ نے شاید تاریخ طبری نہیں پڑھی ہوگی. جتنا گند اس تاریخ نے مچایا ہے وہ بھی کسی نے نہیں مچایا ہوگا


ان غلط احادیث اور غلط تاریخیں لکھنے والوں نے اسلام کا حلیہ ہی بگاڑ دیا ہے


 

Democrate

Chief Minister (5k+ posts)

ڈیموکریٹک صاحب ۔۔۔۔ مجھے آپ سے کم ہی کم شکوے ہیں اور میرے اصل مخاطب بھی آپ نہیں ہیں بلکہ ایک دوسرا طبقہ ہے۔ لیکن کیا یہ چیز کچھ "غیر ڈیموکریٹک" نہیں ہو گی اگر مجھ پر انسانیت اور غلامی کے حوالے سے آواز اٹھانے پر پابندی لگائی جائے؟

ہو سکتا ہے کہ مذہب کے پاس عورت کی آدھی گواہی کے حوالے سے کوئی دلیل ہو، مگر اس سے کنیز باندی سے سیکس بالجبر کے سوال کا جواب نہیں ملتا، بلکہ غلاموں اور کنیز باندیوں کے حوالے سے جتنے سوالات قائم ہیں، انکا براہ راست جواب آنا چاہیے، مگر وہ نہیں آتا۔ ۔۔۔ (نیز کیا آپ کو علم ہے کہ اسلام میں غلام اور کنیز باندی کی گواہی سرے سے قابل قبول ہی نہیں؟ اور عورت کی آدھی گواہی کے متعلق میں بھی تفصیل سے پڑھ چکی ہوں، اس پر غور و فکر کر چکی ہوں اور میرے ذہن میں سوالات و اعتراضات ہیں، مگر یہ بحث کسی اور وقت کے لیے اٹھا رکھتے ہیں)۔

تیسری چیز یہ ہے کہ آپ نے کہا ہے کہ مذہب "عالمگیر" ہے۔
مسئلہ یہ ہے کہ جب ہم مسند انصاف پر بیٹھتے ہیں، اور ہمیں بذاتِ خود مذہب کا تنقیدی جائزہ لینا ہوتا ہے، تو پھر ہم پہلے سے یہ تسلیم کر کے نہیں چل سکتے کہ مذہب "عالمگیر" ہے اور ہمیں ہر حال میں مذہب کی ناموس کے لیے کوئی نہ کوئی بہانہ ڈھونڈنا ہے۔
یہ رویہ درست نہیں۔ بلکہ مذہب کی عالمگیریت اس وقت ثابت ہو گی جب بالکل منصفانہ طریقے سے مذہب پر تنقید و اعتراضات کا موازنہ مذہب کی طرف سے دیے گئے جوابات کے ساتھ کیا جائے۔




جیسے مینے آپ سے پہلے عرض کیا میں کوئی دین اسلام پر بلکل ایکسپرٹ نہیں ہوں ،ایکسپرٹ تو کسی چیز کا بھی نہیں لیکن اس فیلڈ میں میرا علم نہایت ہی ناقص اور اپنے ذاتی مشاہدات اور عقل سوچ پر مبنی ہے

آپ نے کہا کے اسلام غلام اور باندی کے حوالے سے ظلم کرتا ہے تو کیا آپ کو یہ معلوم نہیں کہ ظہور اسلام کے زمانے میں غلام رکھنا ایک میاشرتی رواج ،ضرورت اور عمل تھا اسلام نے جو فرق اور تمیز پیدا کی وہ انکے ساتھ سلوک تھا ،یعنی کہ انکے ساتھ بہترین سلوک کیا جائے اوروہی کچھ کھانے کو دیا جائے جو اسکا مالک کھاتا ہے ،کیا یہ اس میاشرے کے لئے ایک نہایت ہی بنیادی اور بہترین تبدیلی نہیں تھی ،کیا اسلام نے ایک غلام کو اوپر اٹھا کر اپنے مالک کے برابر نہیں لا بٹھایا ،یہ چیزیں اور اصلاحات اس زمانے میں ناپید تھیں جہاں لوگ اپنے غلام سے بدتر سلوک کرتے ہوں

دوسری بات اسلام جنگ میں بھی عورتوں ،بچوں ،بوڑھوں اور جو لوگ اس جنگ میں حصہ دار نہ ہوں امان دیتا ہے یہ ایک اسلام کا یونیورسل قانون ہے جسکو اہلے مگرب نے اب تسلیم کیا ہے ،تو سوچنے کی بات ہے پھر وہ کون سی عورتیں ہیں جنکے ساتھ اسلام جیسے آپ کا مشدہ ہے سیکس بلجبر کا اطلاق کرتا نظر آتا ہے ،کیونکہ ایک جگہ تو وہ امان دے رہا ہے یہ یقینن وہی عورتیں ہیں جو اپنے مردوں کے شانہ بشانہ جنگ میں حصہ لیتی ہیں ،ہرگز ایسا نہیں ہے کے اسلام کہ سپاہی کسی جگہ قابض ہوں اور وہاں کی تمام عورتوں کو جانوروں کی طرح ہانکنا شروح کر دیا اور نہ ہی اسکی اسلام میں اجازت ہے اور نہ ہی اسکو عقل تسلیم کرتی ہے

تیسری بات یہ مذہب تو لازمان عالمگیر ہے ..اسکی آسان سی دلیل یہ ہے جب قرآن کہتا ہے ''ہم نے آپ کو تمام جہانوں کہ لئے رحمت بنا کر بھیجا ہے ''
تو اسی وقت اس مذہب کو بھی عالمگیریت کی شکل دے دی گئی ہے

آخری بات جو میں آپ کو عرض کرنے کی کوشش کرنا چاہوں گا
وہ یہ کے اسلام جب ہم کہتے کے ہر زمانے کے لئے نافذ عمل ہے تو اسکا مطلب یہ ہوا کے اسکے اندر وقت اور حالات کی مناسبت سے اور اجتہاد سے ایسی تبدیلی لاے جا سکتی ہے جہاں تک شریعت اسکی اجازت دے اور اسکی بنیادی تعلیمات متاثر نہ ہوں

یاد کیجئے ایسی کئی تبدیلیاں شیر خدا حضرت علی:razi: لا چکے ہیں جب وہ خلافت کے منصب پر فیز ہووے جو اس وقت کہ حالات اور وقت کے مناسبت سے ضروری تھیں
جیسے مینے ا
وپر عرض کیا کہ اگر پہلے زمانے میں غلام اور باندی رکھنا جائز تھا جیسے کے وہاں کا رواج تھا تو آج اس پر علماء کرم بحث و مباحثہ اور اجتہاد کر کے اسکو ختم کر سکتے ہیں ،یہ تو کوئی اتنی بڑی بات نہیں کہ جس کی بنا پر اسلام کو روزانہ کی بنیاد پر ریگدا جائے جب وہ آپ کو اپنی عقل اور سوچ کو استمال کرنے کا حکم دے رہا ہے
قصہ مختصر جو میں سمجتا تھا مینے بیان کر دیا ،حجت کے لئے سوال بے بہا ..لیکن حقیقت ہے اگر مجھے اتنی خرابیاں اپنے مذہب میں نظر آتی جیسے یہاں پر بہت سے لوگوں کو تو میں اسکو کب کا چھوڑ چکا ہوتا
اگر آپ بھی مطمئن نہیں تو آخر ایسی کیا مجبوری آپ کو کہ کسی ایسے مذہب سے چپٹے رہنا جو سینس نہ بناتا ہو

 
Last edited:

نادان

Prime Minister (20k+ posts)



نادان جی - آپ ٹھیک کہتی ہیں


ان حدیث اکٹھی کرنے والوں نے جہاں نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کی زندگی کے بارے میں ہمیں کچھ معلومات فراہم کی ہیں وہیں اسلام کے دشمنوں کو اسلام پر بھونکنے کا مواد بھی فراہم کیا ہے


پھر حکمران اور دوسرے طبقوں نے بھی اپنے مخصوس مقاصد کیلیے ان احادیث میں رد و بدل کروایا


آپ نے شاید تاریخ طبری نہیں پڑھی ہوگی. جتنا گند اس تاریخ نے مچایا ہے وہ بھی کسی نے نہیں مچایا ہوگا


ان غلط احادیث اور غلط تاریخیں لکھنے والوں نے اسلام کا حلیہ ہی بگاڑ دیا ہے



نہیں باوا جی ...میں نے تاریخ طبری نہیں پڑھی ..تاریخ سے کبھی بھی دلچسپی نہیں تھی ..اور اب تو اعتبار ہی نہیں رہا .دور کیوں جائیے پاکستان کی تاریخ دیکھ لیجئے ..پینسٹھ اور ستر کی جنگ کے بارے میں ہمیں حکومت کیا کیا بتاتی رہی ....فتح کی کہانیاں سناتی رہی ..اب حقیقت کچھ اور پتا چل رہی ہے ...جب نزدیک کی تاریخ کا یہ حال ہے تو چودہ سو سال پرانی تاریخ کا کیا حال ہوگا ...
 

FAISAL315

Politcal Worker (100+ posts)

چند ریفرنسز :۔

امام احمد بن حنبل کے بیٹے (محمد بن حنبل) فقہی حکم بیان فرماتے ہیں:۔
وولد أم الولد ثابت من المولى ما لم ينفه لأنها فراش له وقال عليه الصلاة والسلام الولد للفراش ولكن ينتفي عنه بمجرد النفي عندنا
ترجمہ: یعنی ایک کنیز باندی کا بچہ کا نسب اُسوقت تک مالک سے جوڑا جائے گا جبتک کہ وہ مالک اسکا انکار نہیں کرتا۔ ۔۔۔ہمارے نزدیک بچے کا نسب مالک سے نہیں جڑتا اگر وہ اسکا انکار کر دیتا ہے۔
حوالہ: کتاب المبسوط، جلد 2، صفحہ 152

یہی بات فقہ کی مستند کتاب "فتح القدیر شرح ہدایہ" جلد 10، صفحہ 329 پر موجود ہے:۔
أم الولد بسبب أن ولدها ، وإن ثبت نسبه بلا دعوة ينتفي نسبه بمجرد نفيه ، بخلاف المنكوحة لا ينتفي نسب ولدها إلا باللعان .
یعنی کنیز باندی کا بچہ، جس کی ولدیت اگر بغیر کسی ثبوت کے بھی ثابت ہو سکتی ہو، مگر اگر مالک اسکا انکار کر دے تو بچے کا نسب جاری نہ ہو گا اور یہ حکم (آزاد عورت سے کیے گئے) نکاح کے برخلاف ہے جہاں ایک بچے کی ولدیت سے اُسوقت تک انکار نہیں کیا جا سکتا جبتک کہ "لعان" کی منزل نہ طے کر لی جائے۔

اور امام شوکانی نے اپنی مشہور کتاب نیل الاوطار، جلد 7، صفحہ 77 پر فرماتے ہیں:۔
وروي عن أبي حنيفة والثوري وهو مذهب الهادوية أن الأمة لا يثبت فراشها إلا بدعوة الولد ولا يكفي الإقرار بالوطئ ، فإن لم يدعه كان ملكا له
امام ابو حنیفہ سے مروی ہے اور الثوری سے بھی اور یہ ھادویہ مذہب ہے کہ کنیز باندی کے بچے کا نسب باپ (مالک) کے دعوے کے بغیر ثابت نہیں ہوتا، اور فقط ہمبستری کر کے وطی کرنا کافی نہیں ہے۔ اور اگر وہ (مالک باپ) نسب کا دعوی نہیں کرتا تو پھر وہ بچہ اُس (مالک باپ) کے لیے غلام بن جائے گا۔
حوالہ: نیل الاوطار از امام شوکانی، جلد 7، صفحہ 77 [آنلائن لنک]۔







فطرت نے ہر شخص کے فطرت میں ضمیر کو ودیعت کیا ہے۔ آپ کو اسی ضمیر کے سپرد کیا۔

چند باتیں اور آپکے ضمیر کے لیے۔۔۔۔۔

کیا آپ کو علم ہے کہ مذہب کے مطابق اگر کسی مرد کی زنا سے اولاد ہو جاتی ہے تو وہ کبھی بھی اپنی اولاد کو اپنا نام و نسب نہیں دے سکتا؟ ا اس پر اپنے بچے کی کفالت کی ہرگز کوئی ذمہ داری نہیں۔

سوال :۔

پیدا ہونے والے بچے یا بچی کا کیا قصور ہے کہ وہ اپنے باپ کی شفقت، باپ کے فطرتی پیار سے محروم کیا جا رہا ہے؟
پیدا ہونے والے بچے یا بچی کا کیا قصور ہے کہ اسکو اسکے باپ کے نام و نسب اور حتیٰ کہ ترکے سے محروم کیا جا رہا ہے؟

یہاں تک تو بہت سے لوگ مذہب کی ناموس کی خاطر اپنے ضمیر کو تھپک تھپک کر سلانے میں کامیاب ہو جائیں گے، اور مذہب کے دفاع کے لیے کوئی نہ کوئی بہانہ گھڑ ہی لیں گے۔

لیکن اگر مذہب یہ کہے کہ ایسے زنا سے پیدا ہونے والی بیٹی سے باپ کا نکاح جائز ہے کیونکہ انکے مابین نسب نہیں، تو کیا اس پر لوگوں کا ضمیر جاگے گا یا پھر اس پر بھی وہ مذہب کی ناموس کی خاطر ضمیر کو سلانے میں کامیاب ہو سکتے ہیں؟
Main app aur tehreen parhna chahta hoon. bata sakte kese available hoon gi... FB pe will be better.
 

mehwish_ali

Chief Minister (5k+ posts)
Main app aur tehreen parhna chahta hoon. bata sakte kese available hoon gi... FB pe will be better.

معذرت میرا کوئی فیس بک پیج نہیں ہے جہاں آپ میری کوئی تحریر پڑھ سکیں۔ ۔۔۔ (فیس بک پیج تو ہے مگر اس پر کوئی مذہبی تحریر نہیں ہے جو آپ پڑھنا چاہ رہے ہیں)۔
 

desicad

Chief Minister (5k+ posts)
When it is said 'Buddham Saranam Gachaami'- Buddham here means the supreme intellect within you which leads you with discrimination of right and wrong. Right- that makes your life noble and happy leading one to the state of Bliss. This aspect also embodies all the factors that makes others -the entire animate and inanimate world happy.Live harmoniously and let others live
Yes, can also be interpreted the way you mentioned. 'Buddham' actually means 'The one who knows' and the first refuge is in Lord Buddha as the personification of wisdom, is used to refer to Gautama.

'Buddham Sharanam Gachchaami' means taking refuge in that which is wise in the universe, that which is not separate from us but more real that our minds and senses can conceive, commonly referred to as Buddha-wisdom, rather than un-personified wisdom which is too abstract. Anyway its a beautiful and Divine chant. :D
 
Last edited:

mehwish_ali

Chief Minister (5k+ posts)
آپ نے کہا کے اسلام غلام اور باندی کے حوالے سے ظلم کرتا ہے تو کیا آپ کو یہ معلوم نہیں کہ ظہور اسلام کے زمانے میں غلام رکھنا ایک میاشرتی رواج ،ضرورت اور عمل تھا اسلام نے جو فرق اور تمیز پیدا کی وہ انکے ساتھ سلوک تھا ،یعنی کہ انکے ساتھ بہترین سلوک کیا جائے اوروہی کچھ کھانے کو دیا جائے جو اسکا مالک کھاتا ہے ،کیا یہ اس میاشرے کے لئے ایک نہایت ہی بنیادی اور بہترین تبدیلی نہیں تھی ،کیا اسلام نے ایک غلام کو اوپر اٹھا کر اپنے مالک کے برابر نہیں لا بٹھایا ،یہ چیزیں اور اصلاحات اس زمانے میں ناپید تھیں جہاں لوگ اپنے غلام سے بدتر سلوک کرتے ہوں


یہ درست نہیں ہے، بلکہ وہ پروپیگنڈہ ہے جو کہ مسلمانوں کے دماغوں میں بٹھایا گیا ہے۔
حقیقت اسکے برعکس ہے۔

۔1) مہاتما بدھ کے زمانے میں تو اور زیادہ جہالت تھی۔ انکا زمانہ تو جناب عیسی سے بھی پہلے کا ہے۔ مگر اسکے باوجود مہاتما بدھ نے فقط انسانیت کے نام پر غلامی کا عملی خاتمہ کیا۔ اس انسانیت کی طرف انکی رہنمائی کسی الہامی خدائی طاقت نے نہیں کی بلکہ یہ چیز انسان کی فطرت میں موجود ہے کہ وہ صحیح اور غلط کی تمیز کر سکتا ہے۔
مہاتما بدھ کے بعد (جناب عیسی سے پھر بھی قبل) چین میں قن اور چن نامی 2 خاندان حکومت میں آئے اور انہوں نے بھی اسی انسانیت کے نام پر غلامی کے خلاف آواز اٹھائی اور اسکا عملی خاتمہ کیا۔
انکے مقابلے میں اسلام دور دور تک غلامی کی لعنت کو دور نہیں کر رہا ہے۔

۔2) مسلمان علماء دوسرا دھوکا یہ دیتے ہیں کہ وہ غلامی کے نام پر فقط کفارِ عرب سے اسلام کا تقابل کر رہے ہوتے ہیں۔
نہیں، اسوقت سرزمینِ عرب پر فقط کفار ہی موجود نہ تھے، بلکہ یہودی اور عیسائی بھی موجود تھے جنکے ہاں غلامی کی حالت اسلام میں غلاموں کی حالت سے کہیں بہتر تھی۔
اسلام میں غلامی کے قوانین اور کچھ نہیں سوائے کفار اور اہل کتاب کی غلامی کے ملغوبہ کے (یعنی کچھ قوانین اہل کتاب سے لے لیے گئے تو کچھ کفار کے کلچر سے)۔

اسلام جوغلاموں سے اچھے سلوک کا حکم دیتا ہے، تو یہ کوئی نئی چیز نہیں بلکہ صدیوں پہلے بہت سے کلچرز تھے جو کہ غلاموں کو حقوق دیتے تھے اور یہودیوں اور عیسائیوں میں بھی مسلمانوں سے بہتر احکامات موجود تھے کہ غلاموں کو اپنا بھائی سمجھو۔

میرے پاس وقت نہیں ہے کہ اس تحریر میں یہودیوں اور عیسائیوں میں موجود غلامی پر تفصیل سے لکھوں۔ انکا اسلام سے مختصرا تقابل یہ ہے کہ:۔

۔ اسلام میں کنیز باندی سے سیکس بالجبر کر کے جب مالک کا دل بھر جاتا تھا، تو وہ کنیز باندی کو اپنے کسی بھائی کے حوالے کر دیتا تھا تاکہ وہ اپنی شہوت پوری کرے۔ اور جب ان بھائیوں کا بھی دل بھر جاتا تھا تو وہ پھر کنیز باندی کو آگے نئے آقا کو بیچ دیتے تھے جو پھر سیکس بالجبر کرتاتھا اور یہ سلسلہ یوں جاری رہتا تھا۔

اہل کتاب بھی کنیز باندی سے سیکس بالجبر کی اجازت دیتے ہیں۔ لیکن ایک مرتبہ کنیز باندی سے سیکس بالجبر کر لینے کے بعد اسکا درجہ بیوی جیسا ہو جاتا تھا اور اسے آگے شہوت پوری کرنے کے لیے کسی بھائی کو دیا جا سکتا تھا اور نہ ہی آگے کسی نئے آقا کو فروخت کیا جا سکتا تھا۔

چنانچہ یہاں سوال ہے کہ اسلام یہودیوں اور عیسائیوں کے صدیوں بعد آیا، اور عرب سرزمین پر یہودی اور عیسائی کنیز باندیوں سے کہیں بہتر سلوک کر رہے تھے۔ مگر اسلام تو کنیز باندی کو مقام کو ان یہودیوں اور عیسائیوں کے برابر بھی نہ لا سکا۔ کیوں؟ پھر کیسے اسے عالمگیر مذہب تسلیم کیا جائے؟
ذرا سوچئے تو آپ کو پتا چلے گا کہ ملا حضرات آپ کو برین واش کرتے ہیں اور غلامی کے حوالے سے تقابل فقط کفار کے کلچر سے کر رہے ہوتے ہیں۔ لیکن ایسا کیوں ہے کہ وہ تقابل کے لیے اس وقت اسی عرب کی سرزمین پر موجود یہودیوں اور عیسائیوں کے کلچر کو پیش نہیں کرتے؟ یہ کیوں نہیں بتلاتے کہ اسلام اس حوالے سے ہرگز کوئی نیا انقلاب نہیں لایا ہے بلکہ وہ تو یہودیوں اور عیسائیوں کا بھی مقابلہ نہیں کر پا رہا ہے۔

۔ اسلام کی 1400 سالہ تاریخ یہ ہے کہ کنیز باندیوں کو آدھا ننگا کر کے (سینے بمع پستان کھلے ہوتے تھے) سربازار شہوت پرست مردوں کے درمیان نیلامی کے لیے کھڑا کر دیا جاتا تھا۔ اور گاہکوں کو خریداری سے قبل بقیہ نازک نسوانی اعضاء کو بھی ٹٹولنے کی اجازت ہوتی تھی جیسا کہ بھیڑ بکریوں کو خریدنے سے پہلے ٹٹولا جاتا ہے۔
یہ ایک انسانیت سوز فعل ہے اور ایسے بازاروں کی مثال یہودیت اور عیسائیت تک میں نہیں ملتی۔ مگر اسلام میں اس لیے موجود ہے کیونکہ یہ کفار عرب اور یہودی و نصاری کا ملغوبہ ہے۔ اسلام نے یہ چیز کفار کے کلچر سے لی۔

۔ مسلمان سب سے زیادہ مکاتبت کے حوالے سے فخر کرتے ہیں کہ اسلام کا انقلاب یہ تھا کہ وہ غلاموں کو مکاتبت کی اجازت دیتا ہے۔ مگر اس موقع پر مسلمان علماء عوام کو یہ نہیں بتلا رہے ہوتے کہ یہ کوئی نئی چیز نہیں کہ جس پر اسلام فخر کر سکے، بلکہ صدیوں پرانی روایت تھی جو کہ کفارِعرب کے کلچر کا حصہ تھی اور حتیٰ کہ کفار عرب بھی غلاموں کو یہ حق دیتے تھے کہ وہ مکاتبت کر کے آزادی حاصل کر سکیں۔

۔ اسلام میں غلاموں اور کنیزوں کی گواہی سرے سے قابل قبول ہی نہیں۔ ایسے قوانین یہودیوں اور عیسائیوں میں نہیں پائے جاتے۔
۔ اسلام میں اگر کوئی آقا اپنے غلام کو مار مار کر قتل بھی کر دیتا تھا تو اس آقا پر کوئی حد نہ تھی۔
اور آقا کی بجائے کسی اور آزاد مسلمان نے بھی مار مار کر غلام کو قتل کر دیا تو اسکو بھی جواب میں قتل نہیں کیا جا سکتا تھا بلک زیادہ سے زیادہ یہ سزا تھی کہ وہ قاتل اس غلام کے مالک کو اس غلام کی "دیت" ادا کر دے، جو کہ آزاد مسلمان کے مقابلے میں "آدھی" تھی۔۔۔۔ سوچئے کہ بے چارے غلام کو کیا ملا؟ اگر آدھی دیت ملی بھی تو بھی وہ اسکے مالک کو، چاہے اس غلام کی کوئی بیوی اور بچے بھی موجود ہوں تب بھی دیت مالک کو ملے گی۔
اور غلام اور کنیز باندی کو مالک کی اجازت کے بغیر سرے سے شادی کی کوئی اجازت ہی نہیں ہوتی تھی۔ اور اگر مالک اپنی کسی کنیز کی شادی اپنے کسی غلام سے کر بھی دیتا تھا تب بھی مالک کو ہر وقت اجازت ہوتی تھی کہ کنیز کو واپس لے کر اسکے ساتھ سیکس بالجبر کر سکے۔
اور اگر غلام اور کنیز باندی کے ملاپ سے کوئی بچہ یا بچی پیدا ہوتے تھے، تو وہ بچہ یا بچی بھی مالک کے غلام کے طور پر ہی پیدا ہوتے تھے۔

اور اگر مالک اور کنیز باندی کے ملاپ سے کوئی بچہ پیدا ہوتا تھا تو مالک (باپ) کی مرضی ہوتی تھی کہ اسکا نسب خود سے جوڑے یا پھر اس نسب کا انکار کر دے۔ اس صورت میں یہ بچہ مالک کا غلام بن جاتا تھا اور بچی کنیز باندی جسے وہ مالک (باپ) آگے بیچ کر پیسہ حاصل کرتا تھا۔

کنیز باندی کا ستر فقط ناف سے لیکر گھٹنوں تک تھا، اور یوں ہی اسے آدھا ننگا بازاروں میں نیلامی کے لیے پیش کیا جاتا تھا۔ اگر اسلام کو واقعی کوئی انقلاب لانا تھا تو کم از کم کنیز باندی کے سینوں کو تو ڈھانک دیتا۔ اس سے تو یہودی و نصاری کہیں بہتر تھے۔
اگر کوئی کنیز باندی غلطی سے سر پر حجاب لے لیتی تھی تو سوٹیاں مار مار کر اسکے سر سے حجاب یہ کہتے ہوئے اتروا دیا جاتا تھا کہ اسے کوئی حق حاصل نہیں ہے کہ وہ آزاد مسلمان عورتوں کی برابری کرنے کے لیے سر پر حجاب لے۔

میں اور کیا کچھ حقائق بیان کروں؟ کاش کہ مسلمان عوام کو برین واش کرنے کی بجائے انکے سامنے 1400 سالہ تاریخ کے صحیح حقائق پیش کیے گئے ہوتے۔

دوسری بات اسلام جنگ میں بھی عورتوں ،بچوں ،بوڑھوں اور جو لوگ اس جنگ میں حصہ دار نہ ہوں امان دیتا ہے یہ ایک اسلام کا یونیورسل قانون ہے جسکو اہلے مگرب نے اب تسلیم کیا ہے ،تو سوچنے کی بات ہے پھر وہ کون سی عورتیں ہیں جنکے ساتھ اسلام جیسے آپ کا مشدہ ہے سیکس بلجبر کا اطلاق کرتا نظر آتا ہے ،کیونکہ ایک جگہ تو وہ امان دے رہا ہے یہ یقینن وہی عورتیں ہیں جو اپنے مردوں کے شانہ بشانہ جنگ میں حصہ لیتی ہیں ،ہرگز ایسا نہیں ہے کے اسلام کہ سپاہی کسی جگہ قابض ہوں اور وہاں کی تمام عورتوں کو جانوروں کی طرح ہانکنا شروح کر دیا اور نہ ہی اسکی اسلام میں اجازت ہے اور نہ ہی اسکو عقل تسلیم کرتی ہے

آپ مسلمانوں کی 1400 سالہ تاریخ کا انکار کر رہے ہیں۔آپکے قیاس کے برعکس 100 فیصد یقین کے ساتھ بات یہ ہے کہ صرف کفار یا عیسائیوں یا یہودیوں کے مردوں کو جنگ میں مغلوب کرنے کے بعد انکی پوری کی پوری بقیہ آبادی غلام اور کنیز باندیاں بن جاتی تھیں۔۔۔۔ اور یہ ہی نہیں، بلکہ انکی ساری کی ساری زمین اور جائیداد اور مال و دولت پر بھی مسلمانوں کا پورا کا پورا قبضہ ہو جاتا تھا ۔

یہ روایت پڑھئے:۔

صحیح مسلم [عربی ورژن ، آنلائن لنک]

صحابی ابو سعید خدری کہتے ہیں کہ جنگ کے بعد چند خوبصورت عرب عورتیں انکے قبضے میں آئیں اور صحابہ کو انکی طلب ہوئی کیونکہ (جہاد کی وجہ سے) وہ اپنی بیویوں سے دور تھے۔ مگر ساتھ ہی ساتھ میں صحابہ چاہتے تھے کہ وہ ان کنیز عورتوں کو آگے بیچ کر فدیہ بھی حاصل کریں۔ چنانچہ صحابہ نے عزل سے کام لیا [یعنی ہمبستری کرتے وقت اپنے عضو تناسل باہر نکال کر پانی گرایا تاکہ وہ عورتیں حاملہ نہ ہو سکتیں اور انکو اگلے مالک کو بیچنے پر اچھی قیمت مل سکے]۔ پھر انہوں نے اللہ کے رسول ص سے اسکے متعلق پوچھا تو رسول اللہ ص نے فرمایا کہ ہاں (اسکی اجازت ہے مگر) تم چاہو یا نہ چاہو مگر اگر کسی روح کو پیدا ہونا ہے تو وہ پیدا ہو کر رہے گی۔


یہ ہلکی روایت ہے۔

آپ بنو قریظہ کا دل انگیز واقعہ پڑھیے:

۔ بنو قریطہ یہودیوں کا قبیلہ تھا جس پر مسلمانوں نے حملہ کر کے انکا محاصرہ کر لیا۔
۔ پھر مسلمانوں نے انہیں پیغام بھیجا کہ وہ ہتھیار رکھ کر قیدی بن جائیں۔ انہوں نے مسلمانوں کا یہ پیغام قبول کیا اور اپنے ہتھیار رکھ دیے۔
۔ مگر مسلمانوں نے "قیدی" بن جانے کے بعد ان یہودیوں کو چھوٹے چھوٹے گروہوں میں لا لا کر ذبح کر ڈالا۔۔۔
۔۔۔ اگر آپ جنگ میں کسی کو قتل کرتے ہیں تو سمجھ آتا ہے، مگر جب آپ کسی کو "قیدی" بنا لینے کے بعد ذبح کرتے ہیں تو چیز انسانیت سوز جرم ہے۔
۔۔۔ اور جو داعش آج لوگوں کو ذبح کر رہی ہے، تو یہ کوئی نئی چیز نہیں بلکہ مسلمانوں کی 1400 سالہ تاریخ قیدیوں کے ایسے ذبح سے بھری پڑی ہے۔
۔۔۔ بنو قریظہ کے نہ صرف مردوں کو ذبح کیا گیا، بلکہ انکے 14 سالہ بچوں تک کو نہیں بخشا گیا اور ایسے تمام بچے بھی ذبح کیے گئے کہ جن کے بال نکلنا شروع ہو گئے تھے۔
۔ اور یہ بتلانا فضول ہے کہ انکی عورتوں اور چھوٹے بچوں کو پکڑ کر کنیز باندیاں بنا لیا گیا۔ یہ چیز تو عام رواج تھا۔
آج جو داعش یزدی عورتوں کو پکڑ کر کنیز باندیاں بنا رہی ہے، تو وہ کوئی نیا کام نہیں کر رہی بلکہ یہ چیز عین شریعت، عین اسلام کے مطابق ہے۔

کیا آپ بنو قریظہ پر ہونے والے ظلم کے متعلق تفصیل سے پڑھنا چاہتے ہیں؟

تیسری بات یہ مذہب تو لازمان عالمگیر ہے ..اسکی آسان سی دلیل یہ ہے جب قرآن کہتا ہے ''ہم نے آپ کو تمام جہانوں کہ لئے رحمت بنا کر بھیجا ہے ''
تو اسی وقت اس مذہب کو بھی عالمگیریت کی شکل دے دی گئی ہے


جب آپ مذہب پر تنقیدی نکتہ نگاہ سے تحقیق کر رہے ہیں، تو یہ ہرگز درست رویہ نہیں ہے اور آپ کبھی بھی انصاف کے تقاضے پورے نہیں کر پائیں گے۔
جب آپ مسند انصاف پر بیٹھتے ہیں تو آپ مذہب کو "مقدس گائے" کی نگاہ سے نہیں دیکھ سکتے، بلکہ آپ کو فقط اور فقط "دلیل'" کی بنیاد پر فیصلہ کرنا ہے۔


 
Last edited:

desicad

Chief Minister (5k+ posts)
Unwed mother can be sole guardian: Supreme Court

Upholding the right of an unwed mother to apply for sole guardianship over her minor son without prior consent of the child’s absentee biological father, the Supreme Court on Monday said women are increasingly choosing to raise their children alone, and there was no need to thrust an uncaring father on a child.

Full report: http://www.thehindu.com/news/nation...ly-for-childs-guardianship/article7391481.ece

 
Last edited:

oqaziuet

Politcal Worker (100+ posts)
Re: بن بیاہی ماں بچے کی سرپرست ہو سکتی ہے

کسی کو کیا پتہ سیکولر کو عربی میں کیا کہتے ہیں

Urdu maein La-deeniyat Kahtae hayn

Arabi maein Al-Maaniyeen Kehtaey hayn

You can confirm too.
 

mehwish_ali

Chief Minister (5k+ posts)
Re: بن بیاہی ماں بچے کی سرپرست ہو سکتی ہے

Urdu maein La-deeniyat Kahtae hayn

Arabi maein Al-Maaniyeen Kehtaey hayn

You can confirm too.

شکریہ۔
مگر مجھے نہیں لگتا کہ لادینیت درست ترجمہ ہے۔ لادینیت کے لیے انگریزی لفظ
Atheist/Atheism
استعمال ہوتا ہے۔

انسان کسی مذہب کا پیروکار ہوتے ہوئے بھی سیکولر رجحانات رکھ سکتا ہے۔

اردو زبان میں سیکولرازم کے لیے کوئی مترادف لفظ موجود نہیں ہے۔ چنانچہ سب سے بہتر یہ ہی ہے کہ سیکولرازم کو اردو زبان میں ایسے ہی مستعمل کیا جائے۔

میرے نزدیک سیکولرازم "انسانیت" کا دوسرا نام ہے۔

مہاتما بدھ کسی الہامی خدائی وحی کے پیروکار نہیں تھے، بلکہ ان کا مذہب انسانیت تھا۔ ٓٓٓٓٓ
 

Back
Top