آرٹیکل 6 اورجو ڈیشل کمیشن ------------- ''جو ڈیشل مر ڈر

Khurpainch

Minister (2k+ posts)
x12075_80935706.jpg.pagespeed.ic.FSF5xHkx_d.jpg

 
Last edited by a moderator:

Abdul jabbar

Minister (2k+ posts)
news-1437773637-4133.jpg

عمران خان کے مطالبے اور صلاح مشورے پر بنائے گئے عدالتی کمیشن نے دھاندلی سے متعلق لگائے گئے عمران خان کے الزامات مسترد کردیے ہیں لیکن ’’منچلے ‘‘ اس فیصلے کو ’’بھی‘‘ تسلیم نہیں کریں گے کہ ’’میں نہ مانوں‘‘ پاکستانی سیاست کا وطیرہ بن چکا ہے ۔ عمران خان نے فیصلہ تسلیم کر لیا ہے مگر ’’کانوں کے کچّے‘‘ ہونے کے باعث مزید غلطیوں کا امکان ہے۔ عمران خان کے قریبی دوستوں اور رشتے داروں کا تجربہ ہے کہ عمران کانوں کا کچّا ہے۔ سنی سنائی پر یقین کر لیتا ہے جبکہ اللہ کا حکم ہے کہ تمہارے پاس کوئی بات پہنچے تو پہلے اس کی اچھی طرح تحقیق کر لیا کرو لیکن عمران خان نے تحقیق کے لیئے جو کمیٹی تشکیل دے رکھی ہے اس کا صد رشیخ رشید ہے۔ ماضی کا عمران خان کانوں کا اتنا کچا نہ تھا مگر تحریک انصاف کے جلسوں نے عمران خان کے زعم اور غرور کو مزید تقویت پہنچائی اورصورتحال یہ ہو گئی کہ خود کو اٹھتے بیٹھتے شیروانی میں دیکھنا شروع کر دیا ۔اللہ نے سن لی اور عمران خان کو شیروانی بھی پہنا دی یعنی انہیں ریحام خان کی صورت میں سلطنت ِ زوجیت عطا کر دی۔عمران خان نے مبینہ طور پر کہا تھا کہ اگر فیصلہ ان کے الزامات کے بر عکس آیا تو وہ معافی مانگیں گے ۔ عمران خان ایک با اصول انسان ہیں ،گو کہ یو ٹرن لینا ان کی سیاسی مجبوری بن چکا ہے مگر قوم کو ابھی بھی ان سے بہت امیدیں وابستہ ہیں ،اگر کمیشن کافیصلہ قبول کر لیا ہے تو وعدے کے مطابق قوم سے معافی بھی مانگیں۔ خان صاحب ! یقین کریں اس قوم سے کبھی کسی سیاستدان نے معافی نہیں مانگی،جس نے مانگی اس قوم کے نام پر بھیک ہی مانگی ، آپ یہ روایت توڑ دیں اور قوم کے جذبات کو ٹھیس پہنچانے پر معافی مانگ کر اعلیٰ ظرفی کا ثبوت دیں۔وزیر اعظم پاکستان نے ایک مرتبہ پھر بذریعہ خطاب خود کو فراخ دل ثابت کرنے کی کوشش کی ۔عمران خان کی جانب سے لگائے گئے دھاندلی کے الزامات مسترد کر دیئے گئے۔ بحثیت سیاستدان میاں محمد نواز شریف کا خطاب سیاسی حکمت عملی قرار دیا جا سکتا ہے لیکن بحثیت وزیر اعظم پاکستان ان کو یہ اختیار کس نے دیا ہے کہ ملک و قوم کو دو سال انتشار اور بد امنی کا شکار رکھنے والوں کے غیر قانونی و غیر آئنی رویوں اور اقدامات کو نظر انداز کر دیا جائے ؟صرف 126 دنوںکے دوران ہونے والے جانی،مالی،اخلاقی، قانونی اور آئینی نقصانات کی فہرست بنائی جائے تو اس کا حساب کون دے گا ؟ پارلیمنٹ پر چڑھائی کا صرف طاہر القادری اور عمران خان کو حق حاصل ہے ؟ جانیں گئیں، اخلاقیات کی دھجیاں اڑائی گئیں ،معیشت کو نقصان پہنچایا گیا، جذبات کچلے گئے، گالی گلوچ کا غلیظ کلچر رائج ہوا، عزیز دوست اور رشتے دار ناراض ہو گئے حتیٰ کہ ہنستے بستے گھر سیاسی اکھاڑا بن گئے۔126 دنوں کے دھرنے میں رسوائی کے علاوہ ملک و قوم کو ایک’’سونیا گاندھی‘‘ بھی مل گئی ۔ہمارے کپتان صاحب ’’کانوں کے کچے ‘‘ مشہور تھے ہی اہلیہ کی طرفداری کرتے ہوئے امیج مزید خراب ہو رہاہے ۔ وزیر اعظم پاکستان اپنی ذات تک کسی کو معاف کرنے کا حق رکھتے ہیں مگر جو ملک دو سال دھاندلی کے الزامات کے ہاتھوں اقتصادی و اخلاقی اذیت کا شکار رہا اس کی معافی کااختیار صرف عوام کے پاس ہے۔ ایک میڈیا رپورٹ کے مطابق اپریل 2014سے ستمبر2014 کے عرصہ کے دوران عمران خان نے (مبینہ دھاندلی ) کے الزامات سے متعلق میاں محمد نواز شریف پر 220 مرتبہ الزامات عائد کیئے، 370الزامات اس میڈیا گروپ پر لگائے گئے جس کی سکرین پر خان صاحب اور ان کے کارکن ڈھٹائی سے بیٹھے انٹرویو دے رہے ہوتے ہیں۔سابق چیف جسٹس افتخار محمد چودھری پر 73مرتبہ الزامات لگائے گئے اور انہیں شرمناک تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔سابق عبوری وزیر اعلیٰ پنجاب نجم سیٹھی پر 35 پنکچرز کے الزامات عائد کئے گئے مگر بعد میں میڈیا پر ہنستے ہوئے کہہ دیا کہ وہ تو ایک سیاسی بیان تھا ۔اس کے علاوہ جسٹس ریاض کیانی ،جسٹس (ر)رمدے کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا گیا ۔یہی نہیں سابق چیف الیکشن کمشنر فخر الدین جی ابراہیم کی دیانت اور خلوص کو بھی عدم اعتماد اور تنقید کا نشانہ بناتے رہے۔اور کچھ کالم نگاروں پر بھی(لفافہ صحافت ) کے الزامات لگائے گئے۔ بلا شبہ عمران خان نے ہمیشہ ہمیں عزت دی ہے اور ہم نے عمران خان کو جب بھی تنقید کا نشانہ بنایا ، تنقید برائے اصلاح کا انداز رکھالیکن ان کے منچلے ہمارے خلوص کو توہین کا نشانہ بناتے رہے اور ہمارے خاتون ہونے کا لحاظ بھی نہ رکھا ۔ ہم تین ماہ پہلے پاکستان میں تھے لیکن نعیم الحق جیسے لوگوں نے ہمیں ملاقات کرنے نہیںدی ۔ عمران خان بحثیت کپتان اور شوکت خانم ہسپتال جیسی عظیم رفاہی خدمات کی وجہ سے ایک مقام رکھتے ہیں مگر سیاسی بصیرت سے محروم انسان ملک و قوم درکنار خود کو بھی نقصان سے نہیں بچا سکتا ۔عمران خان نے آستین کے سانپ پال رکھے ہیں ،مفاد پرست عمران خان کو اپنے مقاصد کے لیئے استعمال کر رہے ہیں۔ طاہر القادری ،شیخ رشید ، شاہ محمود قریشی اور جہاز والے امیر ترین جہانگیر ترین تحریک انصاف کی اگلی سیٹ پر سوار ہیں جبکہ اس تحریک کا ڈرائیور ’’نا معلوم‘‘ ہے۔جاوید ہاشمی بھی ’’کچے کانوں ‘‘ کے رد عمل کا شکار ہوئے۔ عمران خان نے پاکستان کو ایک بڑی سیاسی پارٹی تشکیل دینے میں انتھک محنت کی ،پارٹی کو یرغمال ہونے سے بچانے کے لیئے اگراپنے کان ، دل اور دماغ بھی کھلا رکھتے تو آج اس ہزیمت سے دوچار نہ ہونا پڑتا۔عدلیہ کو بے انصاف کہنے سے حقیقت تبدیل نہیں ہو سکتی۔سوائے عمران خان باقی سارا ملک بے ایمان ہے ؟خان صاحب بس کریں اور خدارا ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھتے ہوئے اپنی سوچ اور پارٹی کو از سر نو تشکیل دیں۔
http://www.nawaiwaqt.com.pk/columns/25-Jul-2015/402841
 

Back
Top