یہ انیس سو اناسی کا واقعہ ہے جب جهيمان بن محمد بن سيف العتيبي نے اپنے کوئی لگ بھگ پانچ سو لوگوں کی مدد سے خانہ کعبہ اور حرم پر قبضہ کرلیا - ان لوگوں نے اپنے ساتھ کئی لوگوں کو یرغمال بھی بنا لیا- العتيبي کو سعودی شاہی خاندان کے طرز حکومت سے شدید اختلاف تھا اور اسکی تحریک کی بنیاد ان چند مطالبات پر تھی- انکے بہت سے نامناسب مطالبات میں سے کچھ مطالبات جائز بھی تھے اور انکی عوام میں پذیرائی بھی تھی جیسا کہ انکی ڈیمانڈز تھیں کہ
حکومت احادیث نبوی کا احیا کرے
سعودی حکومت کا خاتمہ کیونکہ وہ کرپٹ حکومت ہے
بادشاہی نظام کا خاتمہ کیونکہ اسلام میں بادشاہی نظام کی کوئی گنجایش نہیں ہے
اسلامی نظام کا اجراء اور لوگوں کو انتخابات کے ذریعے حکومت کا حق حاصل ہو
بہرحال پاکستان اور فرانسیسی فوج کی مدد سے ان لوگوں کو شکست ہوئی، العتيبي گرفتار ہو گیا - اس سارے قضیے میں کوئی لگ بھگ سو لوگوں کی جان گئی - اور بعد میں اڑسٹھ لوگوں کی سرعام گردن زنی بھی ہوئی-
اپنی موت سے پہلے العتيبي کی آخری خواھش کے طور پر اسکی ملاقات اسکے دینی استاد سے کروائی گئی - جب اسکے استاد نے اسکی حکومت سے بغاوت کے بارے میں سوال کیا تو العتيبي نے روتے ہووے کھا کہ خدا کی قسم میری نیت بری نا تھی پر مجھے معلوم نا تھا کہ میرے اس عمل سے فتنہ پھیلے گا اور لوگوں کی جانیں ضائع ہوں گی - العتيبي نے اپنے استاد سے کھا کہ وہ اسکی کیلئے دعا کریں تاکہ الله اسکے گناہوں کو معاف کر ے کیونکہ اس سے فتنہ برپا کرنے جیسا گناہ سر زد ہوا ہے-
پاکستان کے موجودہ حالات میں اور العتيبي کے انقلاب میں بہت مماثلت ہے -پاکستانی انقلاب برپا کرنے والوں کے بقول انکی کی نیت بھی اچھی ہے انکے مطالبات کی اکثریت بھی جائز ہے - پر سوال یہ ہے کہ کیا انکا عمل ایسا ہے جو فتنہ برپا کرنے کا سبب نہیں بن رہا اور انھوں نے فساد برپا کرنے کی کوشش کو روکا یا اسکی حوصلہ افزائی نہیں کی- میرا خیال ہے کہ ان دونوں حضرات کا رویہ کوئی بہت مثالی نہیں بلکہ کسی حد تک فسادی ہے- قادری صاحب کو اور خان صاحب کو سوچنا چاہیے کیونکہ کامیاب انقلاب کے لیے صاف نیت اور جائز مطالبات ہی کافی نہیں بلکہ آپ کا عمل بھی اتنا ہی شفاف ہونا ضروری ہے - ورنہ کوئی بھی آپ کو العتيبي بننے سے نہیں روک سکتا جس سے کسی کو بھی کوئی ہمدردی نہیں ہو گی
حکومت احادیث نبوی کا احیا کرے
سعودی حکومت کا خاتمہ کیونکہ وہ کرپٹ حکومت ہے
بادشاہی نظام کا خاتمہ کیونکہ اسلام میں بادشاہی نظام کی کوئی گنجایش نہیں ہے
اسلامی نظام کا اجراء اور لوگوں کو انتخابات کے ذریعے حکومت کا حق حاصل ہو
بہرحال پاکستان اور فرانسیسی فوج کی مدد سے ان لوگوں کو شکست ہوئی، العتيبي گرفتار ہو گیا - اس سارے قضیے میں کوئی لگ بھگ سو لوگوں کی جان گئی - اور بعد میں اڑسٹھ لوگوں کی سرعام گردن زنی بھی ہوئی-
اپنی موت سے پہلے العتيبي کی آخری خواھش کے طور پر اسکی ملاقات اسکے دینی استاد سے کروائی گئی - جب اسکے استاد نے اسکی حکومت سے بغاوت کے بارے میں سوال کیا تو العتيبي نے روتے ہووے کھا کہ خدا کی قسم میری نیت بری نا تھی پر مجھے معلوم نا تھا کہ میرے اس عمل سے فتنہ پھیلے گا اور لوگوں کی جانیں ضائع ہوں گی - العتيبي نے اپنے استاد سے کھا کہ وہ اسکی کیلئے دعا کریں تاکہ الله اسکے گناہوں کو معاف کر ے کیونکہ اس سے فتنہ برپا کرنے جیسا گناہ سر زد ہوا ہے-
پاکستان کے موجودہ حالات میں اور العتيبي کے انقلاب میں بہت مماثلت ہے -پاکستانی انقلاب برپا کرنے والوں کے بقول انکی کی نیت بھی اچھی ہے انکے مطالبات کی اکثریت بھی جائز ہے - پر سوال یہ ہے کہ کیا انکا عمل ایسا ہے جو فتنہ برپا کرنے کا سبب نہیں بن رہا اور انھوں نے فساد برپا کرنے کی کوشش کو روکا یا اسکی حوصلہ افزائی نہیں کی- میرا خیال ہے کہ ان دونوں حضرات کا رویہ کوئی بہت مثالی نہیں بلکہ کسی حد تک فسادی ہے- قادری صاحب کو اور خان صاحب کو سوچنا چاہیے کیونکہ کامیاب انقلاب کے لیے صاف نیت اور جائز مطالبات ہی کافی نہیں بلکہ آپ کا عمل بھی اتنا ہی شفاف ہونا ضروری ہے - ورنہ کوئی بھی آپ کو العتيبي بننے سے نہیں روک سکتا جس سے کسی کو بھی کوئی ہمدردی نہیں ہو گی