Mr Atef Sayed Al-Ahl (L), the new Egyptian ambassador to Israel, toasts with Israeli president Shimon Peres at Al-Ahl's welcoming ceremony held at the President's residence in Jerusalem. October 17, 2012. Photo by Yoav Ari Dudkevitch/FLASH90
مرسی اور اخوان المسلمین کا طرز عمل شرمناک تھا جب مرسی اخوانی بھائی نے امریکی ہوئے اپنے سفیر کو اسرائیل بھیجا، جہاں وہ اسرائیلی حکام سے بغلگیر ہوتا پھر رہا تھا, انکے ساتھ جام اڑاتا پھر رہا تھا۔
مرسی اخوانی بھائی نے پھر ایک خط اسرائیل کو لکھا، جس میں مزید ایسے ہی تلوے چاٹے گئے۔
مگر یہودی میڈیا نے اس اخوانی بھائی کے اتنے تلوے چاٹنے کے باوجود اسکو نہیں بخشا اور اسکی ویڈیو نکال کے لے آئے جہاں وہ صدر بننے سے پہلے اسرائیل کے خلاف بول رہا تھا۔ اس پر پھر مرسی اخوانی بھائی نے پھر بے حیائی دکھائی اور اپنے قول سے پھر گیا۔
شام کی حکومت اسرائیل سے ہزار گناہ بہتر تھی اور لاکھ دباؤ کے باوجود واحد عرب مملکت تھی جو اسرائیل کے خلاف مزاحمت کر رہی تھی اور شروع سے لے کر ابتک حماس کا ہیڈ کوارٹر کی سہولت فراہم کرتی آئی تھی
۔۔۔ مگر امریکی اور اسرائیلی آقا کو خوش کرنے کے لیے یہ مرسی اخوانی بھائی شام میں امریکی اسلحے کی ترسیل شروع کروا کر خون کے دریا بہا دیتا ہے۔
مگر اسرائیل اور امریکا بھی بہت چالاک ہیں۔ انہیں علم ہے کہ ابھی تو یہ اخوانی بھائی تلوے چاٹ رہا ہے، لیکن اگر مصر کی مضبوط فوج کبھی بھی اسرائیل کے لیے خطرہ بن سکتی ہے۔ چنانچہ امریکہ اور اسرائیل نے اس تلوے چاٹتے اخوانی بھائی کو سر اٹھانے سے قبل ہی ٹھکانے لگا دیا۔۔۔ بلکہ ایک تیر سے 2 شکار کیے۔۔۔۔۔ پہلا اخوانی بھائیوں کو ٹھکانے لگایا، اور دوسرا مصری فوج کو ٹھکانے لگایا۔
لو اخوانی بھائیو، اور اچھلو اور اور چاٹو اپنے آقا امریکہ اور اسرائیل کے تلوے۔
امریکی و اسرائیلی سازش
شام میں امریکی وہ اسرائیلی سازش یہ ہے کہ اسد حکومت اور جہادیوں میں سے کوئی فاتح نہ ہو، بلکہ دونوں "مسلسل" لمبے عرصے تک ایک دوسرے کو لہو لہان کرتے رہیں اور آخر میں دونوں بیک وقت اپنی موت مر جائیں۔ مقصد یہ ہے کہ اسرائیل کو انہیں ختم کرنے کے لیے انگلی تک نہ ہلانی پڑے۔
اور مصر میں بھی امریکی و اسرائیلی سازش یہی ہے کہ یہ تنازعہ ختم نہ ہو، بلکہ مسلسل چلتا رہے، فوج اور جہادی مصر میں بھی لڑتے رہیں، اور آخری میں دونوں اتنے کمزور ہوں کہ کبھی بھی اسرائیل کے خلاف خطرہ نہ بن سکیں۔
لیبیا میں بھی یہی سازش تھی اور آخری نتیجہ یہ ہے کہ لیبیا کی موجودہ حکومت اتنی کمزور ہے کہ وہ اسرائیل کے خلاف بیان دینے کا سوچتی بھی نہیں ہے اور جلد یا بدیر وہ اسرائیل کو "کھلے دلوں" تسلیم کر لے گی جیسا کہ مرسی اخوانی نے کھلے دلوں اسرائیل کو تسلیم کیا۔
عراق میں بھی امریکی و اسرائیلی سازش کے مطابق نہ تو القاعدہ کے خود کش حملے ختم ہوں گے، اور نہ ہی کبھی مضبوط عراقی حکومت قائم ہو سکے گی۔