سوشل میڈیا کی خبریں

سوشل میڈیا کے ذریعے پہلی بار عام آدمی کی آواز اقتدار کے ایوانوں میں صدیوں کا سکون برباد کر رہی ہے۔حبیب اکرم اپنے تفصیلی ٹوئٹر پیغام میں حبیب اکرم کا کہنا تھا کہ سوشل میڈیا پر اعتراض اپنی جگہ لیکن اصل مسئلہ یہ ہے کہ سوشل میڈیا کے ذریعے پہلی بار عام آدمی کی آواز اقتدار کے ایوانوں میں صدیوں کا سکون برباد کر رہی ہے. اس آواز پر کان دھر کے اپنی ریاست کو جمہوری٫ شفاف اور جواب دہ بنانے پر کام کریں نہ کہ آواز بند کریں۔ انہوں نےمزید کہا کہ ایک پاکستان پر ہی موقوف نہیں سوشل میڈیا کے ذریعے دنیا بھر میں ریاست کی ساخت, رویے اور کام۔کرنے کے طریقے پر بحث ہو رہی ہے۔ زندہ ریاست اس بحث میں حصہ لے رہی ہے جبکہ ازکار رفتہ ریاستیں بحث کو ہی ختم کرنا چاہتی ہیں حبیب اکرم کا مزید کہنا تھا کہ سوشل میڈیا کے ذریعے انسانی تاریخ میں پہلی بار علم اور خبر کی مساوات قائم ہوئی ہے۔ یہ مساوات نوع انسان کے تجربات سے باہر کی چیز ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ صدیوں سے قائم نظم ریاست میں تبدیلی کا وقت آن پہنچا ہے۔ اس تبدیلی کو کھلے دل سے تسلیم کرنے والی ریاستیں ہی دنیا میں عزت پائیں گی انہوں نے کہا کہ پاکستان کے لیے بہتر طرز عمل ہو گا کہ پرانی سیاست گری پر انحصار کرنے کی بجائے ریاستی نظم و نسق نئے حالات کے مطابق ڈھالا جائے۔ بدلتی ہوئی دنیا میں تعلیم، تربیت، خارجہ امور اور دفاع کی نئی پالیسیوں پر غور کیا جائے اور یہ نہ بھولا جائے کہ تاریخ آگے بڑھتی ہے پیچھے نہیں چلتی۔ آخر میں حبیب اکرم نے لکھا کہ ہم سب کو نئے زمانے کی حقیقت قبول کرنا ہی پڑے گی۔ آئیے اسے خوش دلی سے قبول کریں۔ و ما علینا الاالبلاغ
گزشتہ روز پی ٹی آئی کی مخصوص نشستوں پر خواتین امیدوار بھی سپریم کورٹ پہنچ گئی تھیں، نومئی کے بعد یہ پہلا موقع تھا کہ پی ٹی آئی خواتین کسی ایونٹ پر نظر آئیں ورنہ ڈاکٹریاسمین راشد، صنم جاوید ، طیبہ راجہ، عالیہ حمزہ سے اظہار یکجہتی کرنے کبھی یہ خواتین نہیں پہنچیں۔ اس موقع پر تحریک انصاف کی مخصوص نشستوں کی خواتین امیدواروں نے سپریم کورٹ میں "وزیراعظم عمران خان، خان تیرے جانثار بے شمار بے شمار، قیدی نمبر 804 "کے نعرے بھی لگائے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ سائفر کیس ہو یا عدت میں نکاح کیس: یہ خواتین وہاں کہیں نظر نہیں آئی ماسوائے کنول شوذب ، نادیہ خٹک یااکا دکا خواتین کے اور نہ ہی عمران خان کی رہائی سے متعلق کسی احتجاج یا ایونٹ میں نظر آئیں لیکن جب اپنی مخصوص نشستوں کی باری آئی تو یہ خواتین سپریم کورٹ میں عمران خان سے اظہار یکجہتی کرتی رہیں۔ اس پر سوشل میڈیا صارفین نے بھی سوال کئے کہ یکدم مخصوص نشستوں کی امیدوار خواتین کا رش لگ گیا، کیا یہ خواتین عمران خان کی رہائی یا دیگر معاملات میں احتجاج میں کہیں نظر آئیں؟ انکا مزید کہنا تھا کہ یہ اپنے مفاد کیلئے یہاں آگئی ہیں لیکن مخصوص نشستوں پر منتخب ہوئیں تو دوبارہ غائب ہوجائیں گی۔ پی ٹی آئی کی مخصوص نشستوں کی امیدوار خواتین کا سپریم کورٹ میں رش لگ گیا،یہ آپ کو عمران خان کی رہائی یا دیگر معاملات کے لیے کیے گئے احتجاج میں کہیں نظر نہیں آئی ہوں گی ابوذر فرقان نے تبصرہ کیا کہ عمران خان کی رہائی کے لیے ایک لفظ نہیں اِن کے مُنہ سے نکلتا اور آج مخصوص نشستوں والی خواتین سُپریم کورٹ پہنچی ہوئی ہیں فاروق نیاز نے کہا کہ اتنی زیادہ ریزرو خواتین ؟ویسے کدھر ہوتی ہیں یہ جب گراونڈ میں دیگر خواتین کو موبالائز کرنے کا وقت ہوتا ہے؟ پی ٹی آئی کی مخصوص نشستوں کی امیدوار خواتین کا سپریم کورٹ میں رش۔ مقدس فاروق اعوان نے اس پر ردعمل دیا کہ بھائی یہ صرف اپنے مفاد کے وقت سامنے آتی ہیں، آگے پیچھے ورکر دھکے کھاتا ہے قومی اسمبلی میں جانے کے بعد بھی یہی کرنا لکھوا لیں احسن کا کہنا تھا کہ ایک مہینہ ہو گیا کے عمران خان کے کیسے اسلام اباد ہائی کورٹ میں چل رہے ہیں ان کی بہنیں بلاتی ہیں مجال ہے کہ کوئی بھی وہاں پہنچا ہو ان مفاد پرستوں کو کسی صورت اسمبلیوں میں نہیں بٹھانا چاہیے ایک سوشل میڈیا صارف نے کہاکہ عمران خان کی رہائی کے لیے ایک لفظ نہیں اِن کے مُنہ سے نکلتا اور آج مخصوص نشستوں والی خواتین سُپریم کورٹ پہنچی ہوئی ہیں عظمت خان نے تبصرہ کیا کہ مخصوص نشستوں کے کیس میں پشاور ہائیکورٹ کا فیصلہ معطل ہونے کے بعد مخصوص نشستوں کی خواہش مند خواتین کی بڑی تعداد سپریم کورٹ میں موجود۔ عمران خان کے حق میں بڑھ چڑھ کر نعرے بازی۔ یہ خواتین مختلف راہنماوں کے ہمراہ یہاں آئی ہیں۔ویسے یہ آنٹیاں اب تک کہاں تھی ؟
پی ٹی آئی کی سیاسی کمیٹی نے پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کی چئیرمین شپ کیلئے شیر افضل مروت کی جگہ شیخ وقاص اکرم کے نام کی منظوری دیدی ہے جس پر شیر افضل مروت آپے سے باہر ہوگئے اور سیاسی کمیٹی کے فیصلے کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا۔ شیر افضل مروت نے کہا ہے کہ عمران خان نے انہیں چیئرمین پی اے سی بنانے کا فیصلہ تبدیل نہیں کیا ہے، عمران خان نے یہ معاملہ سیاسی کمیٹی کو فیصلے یا ووٹنگ کے لیے ریفر بھی نہیں کیا ہے۔ شیر افضل مروت کا یہ بھی کہنا تھا کہ کل عمران خان سے ملاقات کرکے ان کے نام پر ہونے والے فراڈ سے آگاہ کریں گے، انہیں سیاسی کمیٹی کے اجلاس سے آگاہ نہیں کیا گیا اور نہ ہی اس کے ایجنڈے میں یہ معاملہ تھا۔ شیر افضل مروت کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی ایک سیاسی جماعت ہے راجواڑہ نہیں، پی ٹی آئی کو 3 افراد کے ہاتھوں ہائی جیک کرنے نہیں دوں گا۔ زبیر علی خان نے جو متعدد مواقعوں پر خبر دے چکے ہیں کہ شیر افضل مروت کا نام عمران خان نے ڈراپ کردیا ہے اور کسی اور کے نام پر غور کررہے ہیں، اس پر شیر افضل مروت کافی سیخ پاہوئے تھے اس پر زبیر علی خان نے ردعمل دیا کہ ردعمل دیا کہ ہم بھی جھوٹے ڈان بھی جھوٹا، صرف عہدوں کی لالچ میں تڑپنے والے اور ان کی سوشل میڈیا برگیڈ سچی عبدالقادر نے شیر افضل مروت کی نامزدگی کی وجہ بتاتے ہوئے کہا کہ شیر افضل مروت کی چئیرمین پی اے سی کے عہدے سے نامزدگی واپس کیوں ہوئی؟ ذرائع کے مطابق شیر افضل مروت کو سعودی عرب سے متعلق بیان دینا مہنگا پڑا اور اسی تناظر میں ان کی نامزدگی پر نظر ثانی ہوئی۔ انہوں نے مزید کہا کہ عمران خان نے شیر افضل مروت کے بیان پر ناگواری کا اظہار کرتے ہوئے جیل میں ملاقات کے دوران اظہار برہمی بھی کیا تھا۔عمران خان سمجھتے ہیں سعودی حکام کے دورہ سعودی عرب سے قبل شیر افضل مروت کی نامزدگی سے اچھا تاثر نہیں جائیگا،پی ٹی آئی کی سیاسی کمیٹی میں ووٹنگ پر بھی اکثریت نے شیر افضل مروت کی مخالفت کی۔ اس پر زبیر علی خان نے کہا کہ سیاسی کمیٹی میں 21 ارکان نے اپنی رائے کا اظہار کیا جس میں شیر افضل مروت کو 3 شیخ وقاص اکرم کو 17 اور ایک رکن نے رائے دینے سے ہی اجتناب کیا علی ممتاز نے ردعمل دیا کہ عہدوں کے پیچھے لڑی جا رہے ہیں جیسے یہ عہدے نہ ملے تو دنیا ختم ہو جائے گی۔شیر افضل مروت پی اے سی کا چئیرمین بننے کے لیے کیوں اتنا تڑپ رہے ہیں۔اگر نہیں بن رہے تو حوصلہ کریں اور آگے بڑھیں راشد کا کہنا تھا کہ شیر افضل مروت ایک بلیک میلر ہے، یہ مستقبل کی عائشہ گلالئی ثابت ہوگا یا اکبر ایس بابر اینکر عمران ریاض نے کہا کہ جن کا لیڈر اندر ہے وہ عہدوں کے لیے بے چین ہیں۔ حالانکہ انہیں ووٹ بھی صرف اسی قیدی کی وجہ سے پڑا ہے۔ افتخار نے تبصرہ کیا کہ کوئی مانے نہ مانے پر مروت صاحب بہت ہی امیوچور سیاست کر رہے ہیں ۔ آپسی لڑائیوں اور عہدوں کی لالچ میں پارٹی کا نقصان ہو رہا ہے ۔ شیر افضل مروت نے معاملہ عمران خان کے سامنے رکھنا تھا تو وہاں ہی رکھتے۔ سوشل میڈیا پر بیان دینے کی کیا وجہ ہے؟ فہیم اختر نے سوال کیا کہ شیر افضل مروت صاحب آپ کو آخر یہ عہدہ کیوں چاہیے؟ کبھی آپ خواجہ آصف کو ملتے ہیں؟ کبھی آپ لابنگ کرتے ہیں۔۔ آخر ایسا کیا ہے اس عہدے میں؟ ایک سوشل میڈیا صارفین نے سوال اٹھایا کہ یہ شیر افضل مروت اس عہدے کے لئے کیوں اتنا ہاتھ پاؤں ماررہے ہیں ؟ ایک اور سوشل میڈیا صارف نے تبصرہ کیا کہ شیر افضل مروت کو خان نے بہت اختیارات دیۓ تھے مگر غلط بیان بازی اور سب سے بڑھ کر عمران خان کے مخالفین سے ملاقاتیں کرنا شیر افضل مروت کو لے ڈوبے۔ رضوان غلزئی نے سوال کیا کہ پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے عہدے میں ایسی کیا کشش ہے جو شیرافضل مروت صاحب اتنی تگ و دو کررہے ہیں؟ عباس شبیر کا کہنا تھا کہ تحریک انصاف میں رانگ نمبر کون ہے جو اپنا عہدہ لینے کے لئے سب کو بلیک میل کررہا ۔لگتا ہے جلد اس صاحب کی چھٹی ہونے والی ہے ۔۔۔ عبید بھٹی نے کہا کہ میڈیا جھوٹا۔ رپورٹرز جھوٹے۔ اپنی ہی پارٹی کے ممبران جھوٹے۔ اپنی ہی پارٹی کا اپوزیشن لیڈر بھی جھوٹا۔ صرف شیر افضل مروت سچے؟ یہ تو کہتے تھے کہ ہماری جدوجہد عہدوں سے بہت بڑی ہے۔ لیکن پبلک اکاونٹس کمیٹی کی چیئرمینی پر ہی سارا اتحاد، نظریہ، جدوجہد، اور ڈسپلن وڑ گیا۔ دعا زرناب نے کہا کہ مطلب یہ ہوا کہ باقی جتنا بھی تحریک انصاف میں لوگ ہیں وہ سب کہ سب جھوٹے ہیں صرف سچا یہی ہے ایک ہے افسوس صد افسوس مجھے نہیں لگتا کچھ ٹھیک ہوگا یہ حاسد لوگ جو بھوکے ہیں اقتدار کہ جتنا ملا ہے وہ کم ہے مزید چاہیے یہ آنے بھی نہیں دیں گے خود قائد عمران خان کو اللٰہ سے دعا کریں اپنوں سے بچائے قائد عمران خان کو
جان اچکزئی نے ٹوئٹر کو پورن سائٹ قرار دیدیا اور وی پی این کو بھی پاکستان میں بلاک کرنے کا مطالبہ کردیا۔ جان اچکزئی نے ٹوئٹر کو پورن سائٹ ٹوئٹر پر ہی اپنی ایک پوسٹ میں قرار دیا اور وی پی این تک رسائی بند کرنے کا مطالبہ بھی وی پی این استعمال کرکے اپنے ٹوئٹر پیغام کے ذریعے دیا۔ جان اچکزئی کا کہنا تھا کہ وی پی این سے رسائی بھی ختم کرنے کی ضرورت ہے۔ ٹویٹر پورن سائٹ ہے۔ اس کا بند ہو جانا بہتر ہے ۔ اس کو بند کر دو پاکستان میں سکون ہو جائے گا۔ انہوں نے مزید کہا کہ شکر ہے بند ہونے جا رہی ہے۔ یہ تو حکومت سے تعاون کرے۔ پورن پر فائر وال لگائے۔ جعلی اکاؤنٹ بند کریں۔ سلمان درانی نے جان اچکزئی کو جواب دیتے ہوئے کہا کہ جناب ٹویٹر پر پورن دیکھ چکے ہونگے تبھی تو علم ہے کہ یہ ایک پورن سائٹ ہے خرم نے ردعمل دیا کہ اور آپ اِسی پورن سائٹ کا بے دریغ استعمال کر رہے ہیں رائے ثاقب نے جواب دیا کہ اور یہ بار جان اچکزئی نے ہم سب کو ٹویٹ کر کے بتائی۔ قدیر نے تبصرہ کیا کہ اندازہ لگائیں ٹویٹر کو بند کرنے کے لئیے کس قسم کا بھونڈا بہانہ ڈھونڈا ہے، جنہوں نے لوگوں کے بیڈرومز میں کیمرے لگائے ہوئے ہیں، انہیں یقیننا" پورن سے کوئی مسئلہ نہیں ہو گا وہ تو انکے گھر کی بات ہے۔ وجہ تبدیل کریں تب تک سر پر شاپر ڈال کر رکھیں گرمی ہے بھوسے کو آگ بھی لگ سکتی
نومئی واقعات کے بعد کئی رہنماؤں نے تحریک انصاف چھوڑدی،جن میں سے بعض رہنما خاموشی سے تحریک انصاف کا حصہ بن چکے ہیں ، کچھ ساز باز کرکے پی ٹی آئی کے امیدوار بن کر الیکشن لڑچکے ہیں اور کچھ اہم عہدے بھی لے چکے ہیں ان میں عون عباس بپی اور ملک تیمور مسعود نمایاں ہیں جنہیں بالترتیب تحریک انصاف جنوبی پنجاب اور شمالی پنجاب کا صدر بنادیا گیا ہے جبکہ بعض واپس آنے کی تیاریوں میں ہیں اور پی ٹی آئی رہنماؤں سے تعلقات استوار کرکے واپس آنیکی کوشش کررہے ہیں۔ کراچی میں علی زیدی اور عمران اسماعیل واپس آنیکی سرتوڑ کوشش کررہے ہیں اور وہ اپنے حامی دھڑے اور حلیم عادل شیخ کے مخالف دھڑے سے رابطے میں ہیں جبکہ فوادچوہدری بھی تحریک انصاف کے اندر سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔ جب حامد خان سینیٹر بنے تو انہیں مبارکباد دینے چند سابق پی ٹی آئی رہنما آئے۔ یہ وہ رہنما تھے جو یا تو 9 مئی واقعات کی مذمت کرکے پارٹی چھوڑ چکے تھے یا تحریک انصاف کے ہی امیدواروں کے خلاف جعلی امیدوار بن کر الیکشن لڑتے رہے، ان میں سلمان شعیب، آجاسم شریف، امین ذکی نمایا تھے۔ سلمان شعیب نے ایک انٹرویو میں یہاں تک کہہ دیا تھا کہ عمران خان پارٹی نہیں چلاسکتے وہ پارٹی کسی اور کے حوالے کریں جبکہ 9 مئی واقعات کا ذمہ دار حماداظہر اور حافظ فرحت عباس کو قرار دیا تھا۔ اس طرح لاہور میں کچھ روز قبل اسد قیصر کیساتھ ایک میٹنگ میں وسیم رامے نامی رہنما بھی بیٹھا ہوتا تھا جو 9 مئی واقعات کی مذمت کرکے نہ صرف پارٹی چھوڑچکا تھا بلکہ استحکام پارٹی کا بھی حصہ بن گیا تھا۔ اس پر صحافی عمران بھٹی نے کہا کہ وسیم رامے نے بھی 9 مئی کی مزمت کرکے استحکام پارٹی جوائن کی تھی،،پھر استحکام پارٹی کے دفتر کا مستقل نمائندہ بھی بنا،،لیکن 8 فروری کے تباہی کے بعد خاموش ہوگیا،،اب پھر تحریک انصاف میں واپس آنے کے لیے متحرک ہے،،،اسد قیصر سے ملاقات بھی ہوچکی ہے ۔ انہوں نے مزید کہا کہ تحریک انصاف نے لگتا ابھی بھی نہیں سیکھا شاکر محمود اعوان نے کہا کہ جو تحریک انصاف کو اس خمار میں چھوڑ کر گئے تھے کہ "ختم شد" اب وہ ترلوں منتوں سے واپسی کی کوششیں کر رہے ہیں،،،تحریک انصاف کو ایسے گھسپٹیوں پر نظر رکھنا ہو گی عادل راجہ نے خبر دی کہ پی ٹی آئی میں کچھ انتہائی اہم لوگ ابرار الحق کی واپسی کے لیے لابنگ کر رہے ہیں۔کیا آپ کے خیال میں اسے پارٹی میں واپس آنے دیا جانا چاہیے؟
عمران خان کے ٹیلی گراف کے آرٹیکل نے اسٹیبلشمنٹ کے حامیوں کی چیخیں نکلوا دیں ہیں ۔منیب فاروق، جاوید چوہدری، مزمل سہروردی اور سلیم بخاری کا سخت ردعمل منیب فاروق کا کہنا تھا کہ عمران خان نے بغیر لگی لپٹی کے سب کچھ کہہ دیا ہے اور انہوں نے فوجی قیادت پر ڈائریکٹ اٹیک کیا ہے، جاوید چوہدری کا کہنا تھا کہ تحریک انساف کی قیادت ڈائریکٹ فوجی قیادت پر اٹیک کررہی ہے، یہاں تک کہ چئیرمین نیب جنرل نذیر بٹ کی فوجی وردی میں تصویر شئیر کررہی ہے انہوں نے کہا کہ اسٹیبلشمنٹ حقیقت ہے جو یہ نہیں سمجھتا وہ بیوقوف ہے، عمران خان کو پیچھے ہٹنا پڑے گا، جاوید چوہدری سلیم بخاری کا کہنا تھا کہ اگر میں ٹیلی گراف کا ایڈیٹر ہوتا تو یہ آرٹیکل کبھی نہ چھاپتا ، عمران خان نے فوجی قیادت پر بغیر ثبوت الزام لگائے، ایک شخص جیل میں ہے اور وہ یہ کہے کہ فوجی قیادت مجھے مراوانا چاہتی ہے اور یہ سب کچھ ہوا میں ہے۔اس قسم کی چیز کو چھاپنے سے پہلے 10 دفعہ سوچنا پڑے گا اس پر صحافی نادر بلوچ نے طنز کرتے ہوئے تبصرہ کیا کہ 9 مئی اور دیگر معاملات کے حوالے سے کتنے شواہد دیکھ کر اسٹوری چھاپی یا آرٹکیکل چھاپا یا تبصرہ فشانی کی؟۔ اخبارات میں تو یہ لکھ کر جان چھڑوا لیتے ہیں کہ آرٹیکل لکھنے والے کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ پتہ نہیں یہ منافقت کیسے کرلیتے ہیں؟ رضوان غلزئی نے طنز کیاکہ یہی وجہ ہے کہ موصوف جس اخبار کے ایڈیٹر ہیں اسکی اب اتنی ہی کاپیاں چھپتی ہیں جو اشتہارات لینے کے لئے سرکاری دفاتر میں بھیجی جا سکیں۔ صحافی ثمر عباس نے کہا کہ اور اگر یہی آرٹیکل میاں نواز شریف نے لکھوایا ہوتا پھر؟؟؟
سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو وائرل ہورہی ہے جس میں عمران ریاض جیسی وضع قطع رکھنے والا ایک شخص ڈانس کررہا ہے، یہ شخص اپنی سفید داڑھی اور عمران ریاض جیسے قد کاٹھ کی وجہ سے عمران ریاض ہی لگتا ہے مگر غور سے دیکھا جائے تو یہ عمران ریاض نہیں۔ اس ویڈیو کے سامنے آنے کے بعد عمران ریاض کے مخالفین کئی دن سے سوشل میڈیا پر یہ پروپیگنڈا کررہے ہیں کہ عمران ریاض ڈانس کررہا ہے اور پیچھے تحریک انصاف کا ترانہ بھی چل رہا ہے۔ن لیگ کے حامی سپورٹرز بغیر سوچے سمجھے یہ ویڈیو اپلوڈ کرکے پروپیگنڈا کررہے ہیں۔ اکثر سوشل میڈیا صارفین یہ تو جانتے ہیں کہ یہ عمران ریاض نہیں تو یہ شخص ہے کون؟یہ شخص دراصل انڈین کوریوگرافر ورون اروڑا ہے۔جس نے اپنے ڈانس کی ویڈیو اپنے انسٹاگرام اکاؤنٹ پر اپلوڈ کررکھی ہیں۔ یہ ویڈیو کچھ روز قبل ن لیگ کے حمایتی کامیڈین مصطفیٰ چوہدری نے شئیر کی اور کہا کہ اگر عمران ریاض بھای ڈانس کر رہے ہیں خوش ہیں انجواے کر رہے ہیں تو کسی کو کیا تکلیف ہے؟ جس پر ایک سوشل میڈیا صارف نے کہا کہ یہ شخص عمران ریاض نہیں ورون اروڑا ہے جس نے یہ ویڈیوز اپنے انسٹا اکاؤنٹ پر اپلوڈ کی ہیں۔
گندم سکینڈل پر گزشتہ دنوں اسلام آباد کے مقامی ہوٹل میں انور الحق کاکڑ اور حنیف عباسی میں تلخ کلامی ہوئی جس میں دونوں نے ایک دوسرے پر سنگین الزامات لگائے حنیف عباسی نے انوارالحق کاکڑ سے کہا کہ قسم کھاتا ہوں آپ چور ہیں، آپ نے گندم سکینڈل میں پیسے کھائے: اس پر انوارالحق کاکڑ بھی غصے میں آگئے او رکاہ کہ کیا تم مجھےگرفتار کرنے آئے ہو؟ انہوں نے حنیف عباسی کو دھمکی دیتے ہوئے کہا کہ اگر میں نے فارم 47 کی بات کی تو آپ اور ن لیگ کو منہ چھپانے کی جگہ نہیں ملے گی۔ حنیف عباسی اور انوارالحق کاکڑ کی یہ لڑائی سوشل میڈیا پر موضوع بحث بن گئی،اس پر صحافیوں، سیاستدانوں اور سوشل میڈیا ایکٹیوسٹس نے تبصرے کئے اور کہا کہ جوتیوں میں دال بٹنا شروع ہوگئی ہے، اب دونوں ایک دوسرے کے راز کھول رہے ہیں۔ اسد طور پر تبصرہ کیا کہ حلال بلیک میلنگ، ن لیگ اِس لیول پر گری ہے کہ اب انوار کاکڑ جیسے سے بھی ذلیل ہو رہے ہیں مگر گالیاں صحافیوں کو دینی ہیں! عمران میر نے تبصرہ کیا کہ طوائفیں آپس میں لڑ پڑیں تو ایک دوسرے کے راز کھولتی ہیں۔ کوئی کبھی نہیں کہتی کہ وہ صاف ستھری ہے بلکہ طعنہ یہ ہوتا کہ مجھے سب پتہ ہے کہ تم رات کس کے ساتھ گئی تھی۔ بدقسمتی سے ہمارے سیاسی لوگوں کے ایک دوسرے کو طعنے بھی اسی قسم کے ہوتے ہیں۔ سب بتاتے ہیں کہ کس نے کتنا گند گھولا تھا صحافی شاہین صہبائی نے تبصرہ کیا کہ جوتیوں میں ڈال : بڑی دلچسپ خبرآئی کہ سابق نگران وزیر اعظم کاکڑ اور نون لیگ کے لیڈر حنیف عباسی میں تو- تو میں - میں ہو گئی ایک ہوٹل میں - عباسی نے کہا میں قسم کھاتا ہوں تم نے گندم سکینڈل میں پیسے کھاے ہیں - کاکڑ نے غصے میں دھمکی دی کے اگر انہوں نے فارم 47 کا سچ بتا دیا تو نون لیگی منہ چھپاتے پھریں گے - انہوں نے مزید کہا کہ ثابت یہ ہوا کہ سب نے مل کر سب کام کئے اور جان بوجھ کر ملک اور قوم کو لوٹا اور غداری اور دھوکہ کیا مگر جنکو حصہ کم ملا وہ اب برداشت نہیں کر سک رہے - انکو ابھی اور لوٹ مار میں حصہ چاہیے - ملک جایے بھاڑ میں - اوپر بیٹھے قاضی اور سپاہ سالار سرکس کا تماشا دیکھ رہے ہیں سعد نے کہا کہ ملاحظہ فرمائیں۔۔جو انوار کاکڑ آج اپنا گریبان بچانے کیلئے حنیف عباسی کو فارم 47 کا طعنہ دے رہا ہے وہی انوار کاکڑ انہی الیکشنز کو "صاف اور شفاف" قرار دے کر آرمڈ فورسز، الیکشن کمیشن اور الیکشن انتظامیہ کو مبارکباد دے رہا تھا ۔ شیخ قاص اکرم نے ردعمل دیا کہ انوار الحق کاکڑ اور حنیف عباسی میں ہونے والی تلخ کلامی دراصل قومی خزانے سے لے کر قوم کا مینڈیٹ چرانے تک کے سفر میں ملوث کرادروں کا اعتراف جرم ہے، اس ڈرامہ سے ن لیگ اپنا جرم نگرانوں پر نہیں تھوپ سکتی اور ہر دو صورت میں کاکڑ پر ایف آئی آر بنتی ہے تاکہ اس کو چوری میں مدد پرسخت سزا ملے صحافی ہارون رشید کا کہنا تھا کہ جناب حنیف عباسی نےکہا انوارالحق صاحب نے گندم کی دارامد سے فیض پایاہ۔ کاکڑ صاحب کہتے ہیں کہ فارم 47 سے پردہ اٹھا تو کیا ہو گا۔جانتے جج صاحبان اور میڈیا مالکان بھی ہیں، مگر وہ مجبوریاں، وہ ان دیکھی زنجیریں۔ خوف خدائے پاک دلوں سے نکل گیا آنکھوں سے شرم سرور کون و مکاں گئی۔ اسداللہ خان نے ردعمل دیا کہ انوار الحق کاکڑ کا حنیف عباسی کو یہ کہنا کہ اگر میں نے فارم 47 کی بات کی تو منہ چھپاتے پھرو گے، یہ دراصل الیکشن میں دھاندلی کا اعتراف ہے، اسد اللہ خان صحافی شاکر اعوان نے کہا کہ چور اور ڈاکو کی کہانی۔۔۔حنیف عباسی اور کاکڑ کی زبانی ۔۔۔
ن لیگ کی مریم ہے تو ممکن ہے! مہم پر سوشل میڈیا صارفین کی شدید تنقید۔۔ ن لیگ کی بھارت کی نقل ! مُودی ہے تو ممکن ہے سے مریم ہے تو ممکن ہے کا سفر!: سوشل میڈیا صارف وزیراعلیٰ پنجاب منتخب ہونے کے بعد سے مریم نوازشریف پر اکثر تنقید کی جاتی ہے جن کے مخالفین کہتے ہیں کہ وہ کوئی بھی کام خود سے نہیں کر سکتیں بلکہ وہ ہر معاملے میں بانی چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کو کاپی کرتی ہیں۔ مسلم لیگ ن کی طرف سے حال ہی میں لانچ کی گئی نئی مہم "مریم ہے تو ممکن ہے" پر شدید تنقید کی جا رہی ہے۔ سوشل میڈیا صارفین کا کہنا ہے کہ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی ماضی میں اپنی انتخابی مہم کیلئے استعمال کر چکے ہیںاور یہ نعرہ وہیں سے چرایا گیا ہے۔ سینئر صحافی وتجزیہ کار رائے ثاقب کھرل نے سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ایکس (ٹوئٹر) پر نریندر مودی کی انتخابی مہم کیلئے استعمال ہونے والے گانے کی ویڈیو شیئر کرتے ہوئے لکھا: مودی ہے تو ممکن ہے کے بعد پیش خدمت ہے مریم ہے تو ممکن ہے! سینئر صحافی شاکر محمود اعوان نے مریم ہے تو ممکن ہے اور مودی ہے تو ممکن ہے مہم کی تصاویر شیئر کرتے ہوئے لکھا: چور چوری سے جائے لیکن ہیرا پھیری سے نا جائے،، پاکستان تحریک انصاف کے منصوبے چوری کرنے کے بعد یہاں تو بارڈر پار کے سلوگن بھی چوری ہوگئے ہیں! فراز احمد جان نے لکھا: بھارت میں فروری 2024ء میں مودی ہے تو ممکن ہے کہ بعد اپریل 2024ء میں پیش خدمت ہے مریم ہے تو ممکن ہے! بھئی واہ! احمد وڑائچ نے لکھا:یہ ممکن ہے والا کام سب سے پہلے بھارتی جنتا پارٹی نے کیا تھا۔ ’’مودی ہے تو ممکن ہے‘‘ کافی پرانا نعرہ ہے، غالبا کشمیر سے متعلق قانون سازی کے وقت سے! اب ن لیگ نے ’’مریم ہے تو ممکن ہے‘‘ کا نعرہ بنایا ہے۔ مریم نوازشریف کی "مریم ہے تو ممکن ہے" مہم پر سینئر صحافی وتجزیہ کار عمران ریاض خان نے بھی اپنے وی لاگ میں شدید تنقید کی تھی۔ ایک سوشل میڈیا صارف نے کا عمران ریاض کا وی لاگ شیئر کرتے ہوئے لکھا: چور چوری سے جائے، ہیرا پھیری سے نہ جائے! ن لیگ کی بھارت کی نقل ! مُودی ہے تو ممکن ہے سے مریم ہے تو ممکن ہے کا سفر!
حسن ایوب خان کا کہنا ہے کہ بیڈ روم میں کیمرے لگانے کا مقصد نگرانی ہے صحافی حسن ایوب خان بیڈرومز میں کیمرے لگانے کا دفاع کرنے لگے اور کہا کہ ججز کے بیڈ روم میں کیمرے لگانے کا مقصد نگرانی ہے ، دنیا بھر میں بیڈ رومز میں نگرانی کی جاتی ہے۔ اس پر صحافیوں اور سوشل میڈیا صارفین کے مختلف تبصرے دیکھنے کو ملے اور کہا کہ کیا آپکو اپنے گھر کے بیڈرومز میں ایسی نگرانی منظور ہے؟ انہوں نے مزید کہا کہ ان لوگوں کو نہ دوسروں کی ماؤں بہنوں کی عزت عزیز ہے اور نہ ہی اپنی ماؤں بہنوں کی۔ ثمینہ پاشا نے اس پر ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ حسن ایوب ،کیا آپ کے بیڈروم کی ایسی سرویلینس منظور ہے آپ کو؟ کاشف کا کہنا تھا کہ پھر تو اسکے بیڈروم میں بھی کیمرے لگانے چاہیئے اگر کسی نے نہیں لگائے ہوئے اب تک تو مدثر نے ردعمل دیا کہ بیڈرومز میں کیمرے لگانے کا جو اعتراف کیا ہے ساتھ یہ بھی بتا دیں کہ بیڈروم میں کسی کی نگرانی کا مقصد کیا ہوتا ہو گا؟ شکیل نے تبصرہ کیا کہ جن کو ہڈی مل جاتی ہے اپنے آقاؤں سے انکو کیا پتہ انسانی حقوق کیا ہوتے ہیں اس جیسے ٹاؤٹ پاکستان کی صحافت میں جب تک ہیں پاکستان کبھی آگے نہیں بڑھ سکتا ، اسکو چاہیے 8 سے 10 کیمرے اپنے بیڈروم لگوا لے تاکہ اس آقا اچھے سے راضی ہوں , اس ٹاؤٹ کو نہ اپنی عزت کا خیال ہے نہ ماؤں بہنوں کی ثروت نے کہا کہ اس شخص کے بیڈروم اور باتھ رومز میں بھی کیمرے نصب ہونےچاہیین ۔۔۔ ہے تو بےحودہ اور قابل مذمت مگر Surveillance کے لئے بس کاشف عباسی نے کہا کہ کوئی ان سے پتا کرو کہ انکے بیڈ روم میں کتنے کیمرے لگےہے ؟ زبیر نے طنز کیا کہ اخے مجھے ٹاؤٹ کیوں کہتے ہو
وزیر اعظم شہبازشریف نے پارٹی کے سینئر رہنما اسحاق ڈار کو نائب وزیر اعظم مقرر کیا ہے جو اس وقت وزیرخارجہ بھی ہیں اور کئی کمیٹیوں کی سربراہی انکے پاس ہے۔ اسحاق ڈار کو نائب وزیراعظم بنانے پر دلچسپ تبصرے ہورہے ہیں اور اسحاق ڈار پر طنز کیا جارہا ہے،کسی کا کہنا ہے کہ یہ ایک نمائشی عہدہ ہے، کسی نےکہا کہ دراصل یہ نوازشریف کی انا کی تسکین کیلئے اسحاق ڈار کو دیا گیا ہے، شامی نامی سوشل میڈیا صارف نے ایک تصویر شئیر کی جس میں بچے ویڈیو گیم کھیل رہے ہیں جن کےہاتھوں میں جبکہ ایک سب سے چھوٹے بچے کے ہاتھ میں ریموٹ کنٹرول ہے لیکن اسکی تار کہیں نہیں لگی ہوئی اور بچہ سمجھ رہا ہے کہ وہ گیم کھیل رہا ہے۔ شامی نے اس بچے کو ڈپٹی وزیراعظم اسحاق ڈار جبکہ باقی بچوں کو شہبازشریف اور محسن نقوی قرار دیا تیمورجھگڑا نے ردعمل دیا کہ اگر اسحاق ڈار کو ڈپٹی وزیر اعظم بنانا ہے تو میری تجویز ہے کہ نواز شریف کو شہنشاہ، شہباز شریف کو بادشاہ، مریم کو ملکہ بھی بنا دیں اور پاکستان کا نام شريفستان بنا دیں! سلمان اکرم راجہ کا کہنا تھا کہ اسحاق ڈار کو دیے گئے ڈپٹی وزیراعظم کے عہدے کی کوئی قانونی حیثیت نہیں۔ یہ عہدہ صرف انہیں خوش کرنے کیلئے دیا ہے۔ اگر اس سے کسی کو خوشی ملتی ہے تو مل جاۓ۔ باقی اس کی کوئی قانونی حیثیت نہیں حسین احمد چوہدری کا کہنا تھا کہ وزیر اعظم نے سوچا ہوگا انکے بیرون ملک ہونے سے کہیں پیچھے محسن نقوی ہی نہ سنبھال لے سب کچھ ، اس لیے اسحاق ڈار کو ڈپٹی وزیر اعظم بنا دیا صدیق جان کا کہنا تھا کہ میاں نواز شریف نے پچھلے ایک ہفتے کی ان ڈائریکٹ بلیک میلنگ کے بعد پہلی کامیابی حاصل کی ہے ، نواز شریف نے سرنڈر کرنے پر مجبور کردیا ہے ، جو اسحاق ڈار کا نام نہیں سننا چاہتے تھے انہوں نے ہی ڈپٹی وزیراعظم کا نوٹیفکیشن کروایا نواز شریف نے اس بار بھی بلیک میلنگ کی تو اپنی ذات اور اپنے خاندان کے لیے کی ،نہ کہ کسی عوامی ایشو پر یا ملکی مفاد کے لئے ۔۔۔۔ آزاد منش کا کہنا تھا کہ اسحاق ڈار کو وزیرخزانہ نہیں بننے دیا گیا تو ڈپٹی وزیراعظم لگوا دیا گیا، تاثر عوام کو دیا جا رہا ہے کہ ہم اختیار رکھتے ہیں یا ہم جواب رکھتے ہیں طارق متین کا کہناتھا کہ ن لیگ پولی پولی انقلابی ڈھولکی بجانا چاہتی ہے۔ پی ٹی آئی سے مذاکرات کی خبروں سے پریشان کر دیا ہے ۔ ڈار ڈپٹی اسی سلسلے کی کڑی ہے احمد وڑائچ نے کہا کہ رانا ثنا اللہ نے کل ایکسٹیشن نہ ہونے کا بیان دیا، آج اسحاق ڈار ڈپٹی وزیراعظم، نیا بیانیہ بنانے کیلئے جھیل میں وٹے پھینکے گئے ہیں، دیکھنا ہو گا اب اسٹیبلشمنٹ ان ’’وٹوں‘‘ پر کیا ردِعمل دے گی۔ تحریک انصاف کو مشورہ ہے وفاق اور پنجاب میں مینڈیٹ کی واپسی والے بیانیے پر قائم رہیں۔ عابد ملک نے کہا کہ ایک تو اتوار یعنی چھٹی کا دن اور اوپر سے وزیراعظم شہباز شریف ملک سے باہر، تو ایسے میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسی کیا مجبوری تھی کہ اسحاق ڈار کو ڈپٹی وزیراعظم بنانے کا نوٹی فیکیشن فوری جاری کرنا پڑا، کیا ایک آدھ دن انتظار نہیں کیا جا سکتا تھا؟؟؟
سُنی اتحاد کونسل کےسربراہ صاحبزادہ حامد رضا کا پی ٹی آئی کو ایک بار پھر اسمبلیوں سے استعفے دینے کا مشورہ، کہا، اگر آنے والے ہفتوں میں عمران خان کو انصاف نہ ملا تو ہم اسمبلیوں میں نہیں بیٹھیں گے چیئرمین سنی اتحاد کونسل (ایس آئی سی) نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی قیادت کو تجویز دی ہے کہ اگر عمران خان کو آئندہ ہفتوں میں انصاف نہ ملا تو وہ اسمبلیوں سے مستعفی ہوجائیں اور سڑکوں پر نکل آئیں۔ سوشل میڈیا ویب سائٹ کا رخ کرتے ہوئے انہوں نے لکھا ہم اس حکومت کو سانس لینے کی جگہ دینے کے لیے اسمبلیوں میں نہیں بیٹھے ہیں۔صاحبزادہ نے مزید کہا کہ میں عمران خان کے لیے قومی اسمبلی سے استعفیٰ دینے والا پہلا شخص ہوں گا۔ سوشل میڈیا صارفین ، صحافی صاحبزادہ حامدرضا کی اس تجویز سے متفق نہیں ہیں، انکا کہنا تھاکہ یہ اپنے ہاتھ پاؤں کٹوانے کی ضرورت نہیں انصاف استعفے دینے سے نہیں احتجاج کرنے سے ملے گا صحافی فہیم اختر نے کہا کہ ایسے چند لوگوں نے پہلے بھی عمران خان کو جذباتی مشورے دئیے تھے پھر سب سے پہلے پارٹی چھوڑنے والوں میں بھی وہی لوگ شامل تھے احمد وڑائچ نے کہا کہ پہلے استعفیٰ دے کر شوق پورا نہیں ہوا؟ ایک سوشل میڈیا صارف نے کہا کہ یہ ہی تو شہباز شریف چاہتا ہے۔ راجا ریاض جیسی ایک اور اپوزیشن
لاہور میں ایک شادی کی تقریب میں چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس (ر) تصدق جیلانی کا آمنا سامنا۔۔چیف جسٹس کی ناراضگی، تصدق جیلانی کی وضاحتیں صحافی عدیل سرفراز نے کہا کہ ذرائع بتاتے ہیں لاہور میں جسٹس امین الدین خان کے بیٹے کی شادی کی تقریب میں چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا جسٹس ریٹائرڈ تصدق جیلانی سے آمنا سامنا ہو گیا انکے مطابق قاضی فائز عیسیٰ نے ججز خط کی تحقیقات کیلئے قائم انکوائری کمیشن کی سربراہی نہ کرنے پر ناراضگی کا اظہار کیا عدیل سرفراز کے مطابق سابق چیف جسٹس نے سربراہی نہ کرنے کی وجوہات بیان کیں ! زرائع بتاتے ہیں اس موقع پر جسٹس جیلانی کے صاحبزادے ایڈووکیٹ ثاقب جیلانی بھی موجود تھے جنہوں قاضی فائز عیسیٰ کو دلیل سے سمجھانے کی کوشش کی مگر ناکام رہے دوسری جانب صحافی اسد طور کا کہنا تھا کہ جسٹس ر تصدق جیلانی پر کسی اورگھر سے بینچ کا حصہ بننے کا دباؤ نہیں تھا بلکے عدلیہ سےدباؤ تھا کہ وہ لازمی حصہ بنے ساتھ ساتھ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے گھر ہونے والے ملاقات میں باقی ججز صرف20منٹ بولے اورقاضی فائز کافی منٹ بولے۔ اسدطور کا مزید کہنا تھا کہ چیف جسٹس کہتے ہیں میرے دور میں مداخلت نہیں ہوئی عمران خان کے ٹرائل رات تین بجے تک چلے انصاف کا قتل ہوا اور آپ کہتے ہیں مداخلت نہیں ہوئی، کیسے کرلیتے ہیں یہ سب؟ کوئی حد ہوتی ہے۔
صحافی ثاقب بشیر کے مطابق مخصوص نشستوں کے پشاور ہائیکورٹ فیصلے کے خلاف اپیل یکم اپریل کو سپریم کورٹ میں دائر ہوئی آج 27 اپریل تک مقرر نہیں ہو سکی ثاقب بشیر کا کہنا تھا کہ دوسری جانب بلے کے نشان کے کیس میں الیکشن کمیشن نے 11 جنوری کو اپیل دائر کی 13 جنوری رات گئے فیصلہ بھی آ چکا تھا اب اثرات دونوں کیسز کے فیصلوں کے ایک جیسے سنگین ہیں بلے کا نشان رہنے نا رہنے کے اثرات تھے وہ نظر بھی آئے ۔ انہوں نے مزید کہا کہ مخصوص نشستوں برقرار رہنے سے حکومت کے پاس دو تہائی اکثریت برقرار رہے گی آئینی ترمیم حکومت آسانی سے کر سکتی ہے اگر برقرار نہیں رہتیں تو آئینی ترمیم نہیں کر سکتی اتنے اہم کیس کو لٹکانے کے پیچھے وجہ کیا ہے ؟ انہوں نے سوال اٹھایا کہ اگر یہ لٹکا رہے ہیں تو بلے کے نشان کے کیس کا فیصلہ جلدی کرنے کے پیچھے کیا منطق تھی ۔۔ یہ وہ سوالات ہیں جو توسیع پراجیکٹ یا جوڈیشل ریفارمز کے نام پر کسی پراجیکٹ کو پورا کرنے سے متعلق اٹھتے ہیں اس پر صحافیوں اور سوشل میڈیا صارفین کا کہنا تھا کہ قاضی اپنی مدت میں توسیع کے لئے حکومت کی اکثریت برقرار رکھنا چاہتا ہے
مسلم لیگ ن پنجاب کے صدر رانا ثناء اللہ نےآئندہ چند ہفتے میں پارٹی کا نیا بیانیہ عوام کے سامنے لانےکا اعلان کردیا ہے، صحافی برادری نے دلچسپ تبصرو ں کا ڈھیر لگادیا۔ تفصیلات کے مطابق مسلم لیگ ن کے سینئر رہنما رانا ثناء اللہ نے لاہور میں خرم دستگیر ، جاوید لطیف اور دیگر پارٹی رہنماؤں کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے اعلان کیا ہے کہ آئندہ چند ہفتوں میں نیا بیانیہ سامنے لائیں گے۔ انہوں نے مزید کہا کہ پارٹی کے نئے بیانیے کی منظوری میاں نواز شریف دیں گے، وہ مفاہمت کا بیانیہ ہو یا مزاحمت کا، آئندہ چند میں اس بیانیے کو عوام کے سامنے لائیں گے۔ ن لیگی رہنما کی جانب سے اس اعلان پر صحافیوں اور تجزیہ کاروں کی جانب سے دلچسپ تبصرے دیکھنے میں مل رہے ہیں۔ صحافی اسد کھرل نے اس اعلان پر تفصیلی تجزیہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ نواز شریف نا ہی وفاقی حکومت چھوڑیں گے اور نا ہی اینٹی اسٹیبلشمنٹ بیانیہ اپنائیں گے، وہ 6 ججز کے خط سے متعلق کیس میں فریق نہیں بنیں گے، پارٹی کے کچھ رہنما اینٹی اسٹیبلشمنٹ بیانیہ جاری رکھیں گے اور نواز شریف حکومتی و پارٹی عہدے کو الگ کرنے کے فیصلے پر جلد از جلد عمل درآمد کریں گے۔ انہوں نےمزید کہا وفاقی حکومت اور ن لیگ کو الگ الگ رکھا جائے گا، حکومتی معاملات اور فیصلوں پر شہباز شریف اتحادیوں سے ڈیل کریں گے ، تاہم پارٹی پالیسی و منشور کے برعکس عوامی مفادات کے خلاف فیصلوں پر ن لیگ کھل کر اپنا احتجاج ریکارڈ کروائے گی۔ اینکر ثمینہ پاشا نے کہاآگے بیانیہ زیر تعمیر ہے، براہ کرم متبادل راستہ اختیار کریں یا انتظار فرمائیں۔ صحافی عمران بھٹی نے کہا کہ ن لیگ کے قائد اینٹی اسٹیبلشمنٹ بنیں گے اور 2018 کا مدعا سامنے رکھتے ہوئے باجوہ صاحب و ججز کو نشانے پر رکھیں گے اور اپنی ہی حکومت پر تنقید کریں گے، اس سے لوگ سمجھیں گے کہ قائد عوام کا درد رکھتے ہیں۔ سائرہ بانو نے طنزیہ انداز اپناتے ہوئے کہا کہ "بیانیہ ہلکی آنچ پر دم پر رکھ دیا گیا ہے"۔ عابدہ ملک نے کہا کہ مجھے سمجھ نہیں آرہی کہ نواز شریف کی مزاحمت اس بار کس کے خلاف ہوگی؟ فراز راجپوت نے کہا کہ پارٹی کا زندہ رکھنے کیلئے اینٹی اسٹیبلشمنٹ کا جھوٹا بیانیہ بنایا جائے گا، یہ قبل از وقت انتخابات کا بیانیہ بھی ہوسکتا ہے۔
وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز نے آج پولیس کی وردی پہن کر پاسنگ آؤٹ تقریب میں شرکت کی۔وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف نے اس موقع پر پریڈ کا معائنہ کیا۔ اس موقع پر انہوں نےکہا کہ جب سے عہدے کا حلف اٹھایا اس تقریب کا انتظار کر رہی تھی، آئی جی پنجاب نے کہا تھا کہ خواتین اہلکاروں کی پاسنگ آؤٹ پریڈ میں آپ نے آنا ہے، میں روز پوچھتی تھی کہ خواتین پولیس اہلکاروں کی پاسنگ آؤٹ پریڈ کب ہے؟ پنجاب کی وزیرِ اعلیٰ مریم نواز کا کہنا ہے کہ آج جب خواتین اہلکاروں کو دیکھا تو یقین آیا کہ انہوں نے ٹریننگ بہت سنجیدگی سے مکمل کی، آج پہلی بار پولیس یونیفارم پہنا تو اندازہ ہوا کہ یہ کتنی بڑی ذمے داری ہے۔ وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز کی پولیس یونیفارم میں انوکھی انٹری پر دلچسپ تبصرے کئے جارہے ہیں، زیادہ تر سوشل میڈیا صارفین اسے تنقید اور طنز کا نشانہ بنارہے ہیں۔ ڈاکٹر شہبازگل نے ردعمل دیتے ہوئے لکھا کہ باجی کے ابا کو بھی فلموں کا شوق تھا۔ باجی بھی لگتا ہے اداکاری ہی کر رہی ہیں۔ ہر رول جینا چاہتی ہیں۔ امید کرتے ہیں اس حساب سے ڈاکٹر کا لباس پہن کر سرجری کرنے کی زد نہیں کر ڈالیں گی۔ کیوں کہ باجی کو تھیں منسٹری میں ہر رول میں ٹک ٹاک بنانی ہے۔ ایمچورٹی کی حد ہے ویسے شہبازگل نے مزید کہا کہ کور کمانڈر لاہور صاحب اب کہیں آپ نہ بلا لیجئے گا باجی کو۔ کیا پتہ آرمی چیف کی وردی پہن کر پہنچ جائیں۔ ویسے کمال ہے ہماری اسٹبلشمنٹ پر بھی ان لوگوں کو مسلط کیا ہے پاکستان پر۔ مونس الٰہی نے ردعمل دیا کہ لطیفے اپنے آپکو لکھتے ہیں۔ وقاص اعوان نے ردعمل دیا کہ 7 ،8سو میں پنجاب پلس کا اچھا یونیفارم بن جاتا ہے ویسے جمال احمد نے طنز کیا کہ لگے ہاتھ بہاولنگر بھی ہو آئیں میڈم جی زبیر علی خان نے طنز کیا کہ ڈی آئی جی بہاولنگر ایک صحافی محسن بلال نے اسےانڈین مووی راجہ بابو سے تشبیہ دی جس میں گوندا وکیل، ڈاکٹر، پولیس اور دیگر گیٹ اپ میں نظر آتا ہے، ایک شخص اس سے پوچھتا ہے کہ یہ کون ہے جس پر وہ کہتا ہے کہ یہ کچھ نہیں یہ پانچویں میں 5 بار فیل ہوا ہے اور سکول والوں نے اسکی وجہ سے سکول بندکردیا ہے۔ ماجد نظامی نے سوال اٹھایا کہ کیا پنجاب پولیس کی پاسنگ آؤٹ پریڈ تقریب میں شرکت کے بعد وزیراعلی مریم نواز شریف بہاولنگر پولیس سٹیشن کا دورہ بھی کریں گی؟ امجد خان کا کہنا تھا کہ سٹار پلس کا ڈرامہ چل رہا ہے ہرمیت سنگھ نے کہا کہ مریم نواز کو تخت پنجاب کی سہولت کاری اس یونیفارم نے کی، جبر کے ذریعے، چادر و چار دیواری کے تقدس کی پامالی کے ذریعے، لیکن سوال یہ ہے کہ اس یونیفارم کی عزت چند دن قبل بہاولنگر میں پامال ہوئی، کیا مریم نے اس پر لب کشائی کی؟ نسیم کھیڑا نے ردعمل دیا کہ لو جی اس چیز کی کمی رہ گئی تھی میڈم ٹک ٹاکر نے وہ بھی پوری کردی احمد بوبک نے تبصرہ کیا کہ بہاولنگر جیسے واقعات میں ٹکر دینے کے لیے پنجاب پولیس میں نئی بھرتیاں جاری فیصل چوہدری نے اسے فینسی ڈریس شو قرار دیا شاکر مھمودوعان نے کہا کہ پنجاب پولیس ڈیجٹل میڈیا اور ٹک ٹاک کمپین کےلیے بھی معاہدہ طے پا گیا۔۔
عوام کے رکھوالے ہی عوام پر ظلم کرنے لگے، سی آئی اے پولیس کے مبینہ تشدد کا شکار ہونے والی بہاولپور کے محکمہ صحت کی ملازم مہتاب کنول نامی خاتون کی ویڈیو منظر عام پر آگئی۔ مہتاب کنول نامی متاثرہ خاتون نے بہاولپور پریس کلب میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ سی آئی اے پولیس کے بندوں اور عبداللہ نامی ایک شخص نے مجھ پر تشدد کیا۔ خاتون کا کہنا تھا کہ مجھے الٹا لٹا کر مجھے جوتوں سے مارا گیا اور الیکٹریشن مشین سینے اور دماغ پر لگا کر مجھ پر تشدد کرتے رہے۔ خاتون نے بتایا کہ مجھ پر اتنا تشدد کیا گیا کہ میں اپنے ہوش وحواس کھو بیٹھی تھی، ریسکیو والا کو بتایا گیا تو انہوں نے کہا انہیں ہسپتال میں داخل کروائیں لیکن ایسا نہیں کروایا گیا اور جو کچھ میں نہیں بھی جانتی وہ بھی مجھ سے پوچھ کر مارتے تھے۔ مجھے نہیں پتہ کہ سب کیوں کیا جا رہا تھا یا یہ وہ کس کی فرمائش پر کر رہے تھے؟ مہتاب کنول کا کہنا تھا کہ وہ محکمہ صحت میں بطور کمپیوٹر آپریٹر کام کر رہی تھی جبکہ اس کے شوہر کی کاٹن کی فیکٹری ہے، مجھے منشیات کے مقدمہ کے بعد اپنے ہی گھر سے نکال دیا گیا۔ میرے شوہر پر بھی 9b کی دفعہ کے تحت مقدمہ درج کر کے ان سے پیسے وصول کیے، ان کا مقدمہ اب تک چل رہا ہے۔ مہتاب کنول کا کہنا تھا کہ مجھ پر منشیات کا جھوٹا مقدمہ درج کیا گیا جس سے بری ہو چکی ہوں ، مجھ سے پوچھا جاتا تھا کہ ہمیں ڈیلرز کا بتائو حالانکہ ہمیں کچھ پتہ نہیں تھا۔ پولیس کے تشدد سے میرا حمل بھی ضائع ہو گیا، میری سرکاری ملازمت بھی چلی گئی ہے،مجھے انصاف فراہم کیا جائے ورنہ میں خودکشی کرنے پر مجبور ہو جائوں گی۔ سوشل میڈیا ویب سائٹ ایکس (ٹوئٹر) پر خاتون کی ویڈیو سامنے آنے کے بعد صارفین کی طرف سے شدید ردعمل کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ طیبہ راجہ نے اپنے پیغام میں لکھا: ایسی بیشمار داستانوں سے جیل بھری پڑی ہے۔ سی آئی اے والوں کا نام لے کر قیدی بتاتی ہیں کہ کپڑے اتار کر ہمیں مارا گیا۔پولیس والے گندے جملے بولتے ہیں انویسٹی گیشن میں، جسم کے حصوں کو ہاتھ لگاتے ہیں۔کہاں تک سنو گے کہاں تک سناؤُں! اسلامی جمہوریہ پاکستان! ایک سوشل میڈیا صارف نے لکھا:یہ کونسے ملک کے لوگ ہم پر مسلط ہیں ایسا تو دشمن بھی خواتین کے ساتھ نہیں کرتے! ایک صارف نے لکھا: آج کے دور میں تو دشمن ممالک بھی قیدیوں کے ساتھ ایسا سلوک نہیں کرتے کیونکہ عالمی قانون ہے، یہ کیسے درندے ہیں جن کے مظالم ختم ہونے کانام نہیں لے رہے! ایک صارف نے لکھا:ایسے بہت سے واقعات اس ملک میں روز ہوتے ہے ، اس ملک کے ہر ادارے سے اللہ پاک پاکستانیوں کی مائوں، بہنوں، بیٹیوں کی حفاظت فرمائے، آمین! یہ لوگ درندے ہیں! کاشف الٰہی نے قرآن پاک کی آیت شیئر کرتے ہوئے لکھا: اور یہ ہرگز نہ سمجھنا کہ جو کچھ یہ ظالم کررہے ہیں، اللہ اُس سے غافل ہے۔وہ تو ان لوگوں کو اُس دن تک کے لئے مہلت دے رہا ہے جس میں آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ جائیں گی۔ (سورۃ ابراہیم، ۴۲)
گزشتہ دنوں 21 اپریل کو ہونیوالے ضمنی الیکشن میں پی پی 34 گجرات سے پرویزالٰہی کو انکے بھانجے موسیٰ الٰہی نے 34 ہزار ووٹوں سے ہرادیا۔ ووٹنگ کا عمل شروع ہوتے ہی مختلف پولنگ اسٹیشنز سے ٹھپے لگانے کی اطلاعات سامنے آنے لگیں جس کی ویڈیوز سوشل میڈیا پر وائرل ہوگئیں۔ ان ویڈیوز میں بیلٹ باکسز بھرتے دیکھا جاسکتا ہے، یہاں تک کہ ٹریکٹر کے نشان کی مہر لگی پوری کی پوری کاپیاں بیلٹ باکسز میں ڈالی گئیں۔ اگرچہ موسیٰ الٰہی جیت گیا مگر یہ جیت کئی سوالات چھوڑگئی، کوئی صحافی یہاں تک کہ ن لیگ کے حامی بھی یہ تسلیم کرنے کو تیار نہیں کہ پرویزالٰہی کو ایسے ہرایا جاسکتا ہے۔موسیٰ الٰہی جیت کر بھی صحافیوں کے طنزیہ جملوں کی زد میں ہے۔ رائے ثاقب کھرل نے ٹی وی شو میں تبصرہ کیا کہ گجرات کے مقامی صحافیوں اور لوکل ایڈمنسٹریشن کے مطابق پرویز الہی کو ملنے والا 38 ہزار ووٹ ہی اصل ووٹ ہے موسی الہی کو 4 ہزار سے زیادہ ووٹ نہیں ملا صبح دس بجے ہی جعلی ووٹ ڈال کر کاروائی ڈال دی گئی تھی ۔ منصور علی خان نے گجرات الیکشن نتائج پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ انتہائی متضاد الیکشن پرویز الہی کو کسی صورت آگے نہیں آنے دینا تھا گجرات سے دھاندلی کی بہت کمپلین آئیں۔ پولنگ کا وقت جب ختم ہوا تو اور جگہوں سے بھی اطلاعات آئیں کہ بلکل 8 فروری کی طرز پر پولنگ ایجنٹس کو گنتی کے عمل سے دور رکھا گیا۔ ارشاد بھٹی نے کہا کہ اگر موسی الہی کے 63 ہزار اور پرویز الہی کے 18ہزار ووٹ ہیں تو یہ قیامت کی نشانیاں ہیں! یہ تو کامن سینس کی بات ہی نہیں۔ آپ کی ایسی حرکتوں اور کرتوتوں کی وجہ سے لوگوں کا اس سسٹم سے اعتبار اٹھتا جا رہا ہے۔ لوگ ووٹ کیوں ڈالیں جب ووٹ اِدہر ڈالیں تو وہ اُدھر نکل جاتا ہے؟ اطہرکاظمی کا کہنا تھا کہ پرویز الٰہی صاحب ہمیشہ سے الیکشن جیتتے آرہے ہیں اور گجرات میں کل کیا ہوا ہے اس کو پوری قوم نے دیکھا ہے ووٹ کو عزت دینے کی بجائے ووٹ کو روندا گیا اور ٹھپے لگاکر جتوایا گیا پرویز الٰہی کو خان صاحب کے ساتھ ڈٹ کر کھڑا رہنے کی سزا دی جارہی ہے ن لیگ کے حامی سمجھے جانیوالے فرخ وڑائچ نے کہا کہ پرویز الہی ہمیشہ سے الیکشن جیتے ہیں میں پریشان ہوں میرے لیے یہ حیران کن لمحہ ہے پرویز الہی کیسے ہار گئے؟ اور موسیٰ الہی کی شہرت کیسے اتنی پھیل گئی کہ وہ جیت گئے اینکر عمران ریاض نے کہا کہ آپ اندازہ کریں کہ یہ کس قسم کا جھرلو ہوگا کہ موسی الہی نامی بچہ چوہدری پرویز الہی سے جیت گیا وہ بھی گجرات میں اور وہ بھی ایسے حالات میں جب پرویزالٰہی جیل میں ہے، قربانیاں دے رہا ہے اور گجرات اسکے ساتھ کھڑا ہے۔ ثمینہ پاشا نے طنز کرتے ہوئے کہا کہ گجرات کی صورتحال سے اندازہ ہو رہا ہے کہ چوہدری پرویز الہیٰ اور مونس الہٰی پر بڑے صاحب کو بہت غصہ ہے۔ خان کے کہنے پر اسمبلی کیوں توڑی؟ یہ درد نہیں جا رہا! پرویز الہٰی پر ہر طرح فسطائیت کے باوجود وہ ڈٹے رہے! آج کا الیکشن تو شاید انھیں ہروا دیا جائے لیکن گجرات کے دل وہ جیت چکے۔ مطیع اللہ جان نے کہا کہ پرویز الہی کو ہرا کر ایک میسج دیا گیا ہے کہ ابھی تحریک انصاف کے اندر کوئی سیاسی مستقبل نہیں ہے، پرویز الہی کی اتنے بڑے مارجن کیساتھ ہار کے اندر ایک میسج ہے
ن لیگ حکومت کو چاہئے کہ فوری طور پر شوکت خانم اسپتال کا کنٹرول سنبھال لے، غریدہ فاروقی نےمنی لانڈرنگ کے الزامات بھی لگادئیے،سوشل میڈیا صارفین کےغریدہ فاروقی پر جوابی وار اپنے ٹوئٹر پیغام میں غریدہ فاروقی نے کہا کہ عمران خان اور بشری بی بی کے "قتل" کے جھوٹے، بےبنیاد اور ڈھونگی الزامات کا تو میڈیکل رپورٹوں میں کھل کر پوسٹ مارٹم ہو گیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ سوچنے کی بات ہے کہ یہ ہمیشہ شوکت خانم ہسپتال کی آڑ لینے کی کوشش کیوں کرتے ہیں۔۔۔؟ کیونکہ ہسپتال انتظامیہ اور ڈاکٹرز ان کے اشاروں پر چلتے ہیں اور ان کے ساتھ مل کر سازشی بیانیے اور تھیوریز کو گھڑتے اور فروغ دیتے ہیں۔ غریدہ فاروقی نے کہا کہ اب وقت آ گیا ہے کہ حکومت شوکت خانم ہسپتال کو ٹیک اوور کر لے، ہسپتال کا انتظام سنبھال لے اور اس اربوں روپے کی منی لانڈرنگ کی بھی کھوج لگا لے جو ہسپتال کی آڑ میں ہوتی ہے۔۔۔ ! رضوان غلزئی نے کہاغریدہ فاروقی جیسے قابلِ نفرت کرداروں کو ہر کچھ عرصے بعد اس طرح کے ٹویٹس لازمی کرنے چاہئیں۔ انکی ہر گھٹیا مہم کے بعد شوکت خانم کے عطیات میں مزید اضافہ ہوجاتا ہے۔ حسن اعوان نے لکھا شوکت خانم ہسپتال پر جھوٹے الزامات لگانے والے پر دل کی گہرائیوں سے ایک بار ضرور لعنت بھیج کر ثواب دارین حاصل کریں. نادر بلو چ نے لکھاغریدہ فاروقی کو وزیر داخلہ کا قلمدان دیا جائے، یوں اصل خواہش پر عمل درآمد ہوجائیگا۔ ارم عظیم نے لکھا نا اسکے پروگرامز کی ریٹنگ اتی نا اسے کوئی سُننا پسند کرتا,اسکی نوکری سارا دن ‎پی ٹی آئی آفیشل خان کے خلاف غرانا اور ن لیگ کے ساتھ ساتھ اُن چند شخصیات کے نوٹس میں انا ہے جن کی سرپرستی میں عمران خان پر ظلم ہو رہا۔ تمغے سے آگے مزید ترقی کی خواہش ہے ملیحہ ہاشمی نے لکھا غریدہ فاروقی فرما رہی ہیں کہ ن لیگ حکومت کو چاہئے کہ فوری طور پر شوکت خانم ہسپتال کا کنٹرول سنبھال لے اور اس ہسپتال کو باہر سے جو پیسہ بھیجا جاتا ہے، اس کا پتا لگایا جاۓ,عقل سے پیدل ہونے کی کوئی تو انتہا ہو گی,جو کوئی بھی باجی سے یہ نادر فرمودات کہلواتا ہے، اس کی عقل کو 21 توپوں کی سلامی. وقاص امجد نے لکھا غریدہ فاروقی تمغہ امتیاز کے عوض حکومت کو شوکت خانم ہسپتال ہتھیانے کے مشورے دے رہی ہے.
پارلیمنٹ ہاؤس کی مسجد سے جوتے چوری کی واردات، سہولت کار کون؟ سوشل میڈیا پر سوال زیرگردش پارلیمنٹ ہاؤس کی مسجد میں گزشتہ روز سکیورٹی کے باوجود متعدد نمازیوں کے جوتے چوری ہونے کی انوکھی واردات سامنے آئی تھی جس کے بعد متعدد افراد کو جوتیوں کے بغیر واپس جانا پڑا تھا۔ نامعلوم جوتی چور نے 20 کے قریب افراد کی جوتیاں چوری کر لی تھیں جن میں قومی اسمبلی کے عملے سمیت متعدد صحافی بھی شامل تھے۔ سپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق نے نمازیوں کے جوتے چوری ہونے پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے معاملہ کی انکوائری کرنے کا حکم جاری کیا تھا۔ قومی اسمبلی کے سارجنٹ ایٹ آرمز کو ذمہ داری سونپتے ہوئے ہدایت کی گئی ہے کہ سی سی ٹی وی فوٹیجز کا جائزہ لے کر چوروں کو پتا چلا کر رپورٹ پیش کی جائے۔ دوسری طرف سوشل میڈیا صارفین کی طرف سے پارلیمنٹ ہائوس کی مسجد کے باہر سے جوتیاں چوری ہونے کے واقعہ پر دلچسپ تبصرے کیے جا رہے ہیں اور سوال اٹھایا جا رہا ہے کہ آخر اس معاملے میں سہولت کاری کا کردار کس نے ادا کیا؟ سینئر صحافی آصف بشیر چوہدری نے واقعے پر تبصرہ کرتے ہوئے اپنے ایکس (ٹوئٹر) پیغام میں لکھا کہ: پارلیمنٹ ہائوس میں چور نے گھس آئے جنہوں نے بہت سے نمازیوں کے جوتے چوری کر لیے۔ سکیورٹی اور کیمرے دھرے کے دھرے رہ گئےاور دلچسپ بات یہ ہے کہ کل ہی کے دن صدر مملکت آصف علی زرداری نے سخت سکیورٹی میں پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کیا تھا۔ سینئر صحافی ثاقب بشیر نے واقعے پر لکھا: پارلیمنٹ ہائوس میں آخر چور گھس کیسے گئے؟ ساجد بھٹی نامی سوشل میڈیا صارف نے حکومت پر طنز کرتے ہوئے لکھا: جو لوگ ووٹ چوری کر سکتے ہیں ان کے لیے مسجد سے جوتے چوری کرنا کون سی بڑی بات ہے! عمارہ بختیار نامی صارف نے لکھا: مہنگے جوتے ہوں گے ناں! چوروں کے تو مزے ہو گئے ہوں گے! اکرم راعی نامی صارف نے واقعے پر سوال اٹھاتے ہوئے لکھا: پارلیمنٹ میں چوروں کے گھسنے میں سہولت کاری کس نے کی؟ صدیق جان نے طنز کیا کہ زرداری اور شہباز شریف کے اقتدار کا عالم یہ ہے کہ آج پارلیمنٹ کی مسجد سے لوگوں کے جوتے چوری ہو گئے، یہ حالت ہو گئی ہے عائشہ افضل نے ردعمل دیا کہ وروں کی حکومت ہی بھائی صاحب ذیشان سید نے کہا کہ پاکستانی پارلیمان میں چور جاتے ہیں یہ نعرہ ہمیشہ سنتے آرہے تھے، آج سنا بھی دیکھا بھی،، جب نماز جمعہ میں پارلیمنٹ ہاؤس کی مسجد سے کسی نے صحافیوں، سرکاری ملازمین، مہمانوں اور اراکین پارلیمنٹ کے جوتے چوری کرلئے، ووٹ چوروں نے اب مساجد سے جوتے چوری کرنی شروع کردئیے ایثار رانا کا کہنا تھا کہ چور پارلیمنٹ ہاؤس کی مسجد تک پہنچ گئے ہیں اور وہاں کی تمام سیکورٹی اور سی سی ٹی وی کیمروں کو پتہ نہ چل سکا آج جوتے چوری ہوئے ہیں کل وزیراعظم صاحب کی کرسی نہ چوری ہو جائے سدّباب کریں واضح رہے کہ گزشتہ روز نماز جمعہ کی ادائیگی کیلئے آنے والے متعدد افراد جن میں صحافی اور قومی اسمبلی کے عملے کے افراد بھی شامل تھے کی جوتیاں چوری کر لی گئی تھیں۔ چوروں نے ڈائریکٹر جنرل میڈیا ظفر سلطان کے جوتے بھی چورے کر لیے تھے جس کے بعد مجبوراً نمازیوں کو ننگے پائوں مسجد سے واپس جانا پڑا۔