سیاسی

اپوزیشن جماعتوں پر مشتمل اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ(پی ڈی ایم) نے مارچ کے مہینے میں لانگ مارچ پر غور شروع کردیا ہے، حتمی فیصلہ آج ہونے والے اجلاس میں ہوگا۔ تفصیلات کے مطابق پی ڈی ایم کی اسٹیرنگ کمیٹی کا اجلاس لیگی رہنما طارق فضل چوہدری کے دفتر میں سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کی زیر صدارت منعقد ہوا، اجلاس میں مولانا عبدالغفور حیدری، کامران مرتضیٰ، میر کبیر، شاہ اویس نورانی، حافظ حمداللہ اور حافظ عبدالکریم سمیت دیگر اپوزیشن رہنماؤں نے شرکت کی۔ اجلاس کے بعد ترجمان پی ڈی ایم حافظ حمداللہ نے میڈیا نمائندوں سے گفتگو کی اور مارچ میں مارچ سمیت اجلاس کا احوال بیان کیا اور کہا کہ آج اجلاس میں مارچ کے مہینے میں مارچ کی تجویز سامنے آئی ہے جس سے متعلق فیصلہ کل کے اجلاس میں کرلیا جائے گا۔ انہوں نے مزید کہا کہ چار گھنٹے طویل اجلاس میں آئندہ مہینوں میں پی ڈی ایم کی سیاسی حکمت عملی پر غور کیا گیا، اس دوران اجلاس میں پارلیمنٹ کے اندر اور باہر احتجاج پر غور کیا گیا، انہوں نے کہا کہ ہم پچ کے دونوں اطراف کھیلیں گے۔ ترجمان پی ڈی ایم کا کہنا تھا کہ اجلاس میں لاہور کے جلسے، لانگ مارچ، حکومت کے خلاف شٹر ڈاؤن ہڑتال اور دیگر آپشنز پر بھی غور کیا گیا ہے اور حکومت کی جانب سے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں کی جانے والی قانون سازی کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کرنے کی تجویز بھی زیر غور آئی۔ حافظ حمداللہ نے کہا کہ آج جن تجاویز پر تبادلہ خیال کیا گیا ہے انہیں حتمی منظوری کیلئے پی ڈی ایم کے سربراہی اجلاس میں پیش کیا جائے گا۔
وزیراعظم عمران خان کی زیر صدارت ترجمانوں کے اجلاس کی اندرونی کہانی سامنے آگئی، سابق چیف جسٹس کی مبینہ آڈیو پر تبصرہ کرتے ہوئے وزیراعظم کا کہنا تھا کہ ن لیگ کی تاریخ کو یاد رکھیں، یہ وہی ہیں جنہوں نے جسٹس قیوم سے مرضی کے فیصلے کروائے تھے۔ تفصیلات کے مطابق وزیراعظم عمران خان کی زیر صدارت ترجمانوں کا اجلاس ہوا جس میں سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کی مبینہ آڈیو لیک معاملے پر بحث کی گئی۔ وزیر اعظم عمران خان نے کہا کہ یہ مافیا ہے جو اپنے مرضی کے فیصلے لینے کے لیے ججز پر دباو ڈالتا ہے، یہ مافیا ذاتی مفادات میں اداروں اور شخصیات کو متنازع بناتا ہے، ان کے ایسے ہتھکنڈے اب ملک پر نہیں چلیں گے، حکومت اداروں کا احترام کرتی اور ان کے ساتھ کھڑی ہے، ماضی میں بھی یہ مافیا عدلیہ پر حملہ آور ہوتے رہے۔ وزیراعظم عمران خان آئندہ الیکشن الیکٹرانک ووٹنگ مشین پر کرانے کے لیے عوام کو اعتماد میں لینے کی ہدایت کی، وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ آئندہ الیکشن ہر صورت ای وی ایم پر ہی کرائیں گے۔ اوورسیز کے ووٹ میں جو رکاوٹیں ہیں دور کی جائیں، بیرون ملک پاکستانیوں کے پاسپورٹ اور نائیکوپ کے ایشوز کو جلد حل کیا جائے، حکومت نے اوورسیز کےساتھ جو وعدہ کیا ہر صورت پورا کریں گے۔ اجلاس میں وزیراعظم نے وزراء اور رہنماؤں کو عوامی رابطوں کو تیز کرنے کی ہدایت کی جبکہ پارٹی رہنماوں کو ووٹر لسٹوں پر بھی کام کرنے کی بھی ہدایت کی۔ اجلاس کے شرکا کو ملک میں مہنگائی کی روک تھام کے اقدامات اور آئی ایم ایف پیکج سے متعلق بریفنگ دی گئی۔ مہنگائی کے حوالے سے بات کرتے ہوئے وزیر اعظم عمران خان کا کہنا تھا کہ مہنگائی گلوبل ایشو ہے، حکومت عوام کو ریلیف دینے کے لیے اقدامات اٹھا رہی، عوام کو دنیا بھر میں مہنگائی سے متعلق اعدادوشمار پر اعتماد میں لیں گے۔
عاصمہ جہانگیر کانفرنس میں سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کی تقریر بند کرنے سے متعلق افواہوں پر مریم نواز شریف نے ردعمل دیدیا۔ تفصیلات کے مطابق عاصمہ جہانگیر کانفرنس کے اختتامی سیشن میں آج مسلم لیگ ن کے قائد اورسابق وزیراعظم پاکستان میاں نواز شریف نے لندن سے ویڈیو لنک کے ذریعے خطاب شیڈولڈ تھا۔ کانفرنس کے دوران کسی نے ڈائس پر موجود عاصمہ جہانگیر کی بیٹی و صحافی منیزے جہانگیر کے کان میں کہا کہ "میاں نواز شریف کا خطاب کروالیں، برین والے انٹرنیٹ منقطع کرنے کیلئے آرہے ہیں"۔ نواز شریف کی تقریر شروع ہوتے ہیں اچانک رک گئی جس پر منیزے جہانگیر نے کہا کہ ہم پرانے کھلاڑی ہیں کوئی جگاڑ لگا لیں گے ویسے بھی تاریں کاٹنا چوہوں کا کام ہوتا ہے۔ میاں نواز شریف نے اپنے خطاب میں بھی انٹرنیٹ منقطع کرنے کے حوالے سے بات کی اور کہا کہ زبانیں کھینچ لینے یا تار کاٹ دینے سے مسائل حل نہیں ہوتے، آج اظہار رائے کی آزادی اور انسانی حقوق کی بدترین صورتحال ہے، یہاں سوال پوچھنے پر سیاسی کارکنان اور صحافیوں کو غائب کردیا جاتا ہے انہیں گولیاں ماردی جاتی ہیں، پروگرامز رکوادیے جاتے ہیں یا اینکرز کو نوکریوں سے نکال دیا جاتا ہے۔ انٹرنیٹ پر مختلف پلیٹ فارمز پر لائیو نشر کی جانے والی اس تقریر کے دوران انٹرنیٹ کی بند ش کی افواہوں کے حوالے سے مریم نواز شریف نے بھی ٹویٹر پر اپنا ردعمل دیا اور کہا کہ سوچیں یہ کتنے کمزور لوگ ہیں جو سچ کا سامنا بھی نہیں کرسکتے اور انہیں سب کچھ بند کرنا پڑتا ہے۔ انہوں نے اپنی ٹویٹ میں ایک سوال بھی کیا اور کہا کہ "برداشت نہیں کرسکتے تو کرتے کیوں ہو؟" واضح رہے کہ سینئر قانون دان عاصمہ جہانگیر کی یاد میں ایک کانفرنس منعقد کی گئی جس سے چیف جسٹس پاکستان سمیت ملک و غیر ملکی سیاسی، صحافتی اور سماجی شعبوں سے تعلق رکھنے والی شخصیات نے خطاب کیا ۔
وفاقی وزیر اطلاعات فواد چودھری نے کہا کہ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کو چاہیے کہ وہ غیر جانبدار رہے، بار کی غیر جانبداری سے ہی وکلا کا تعاون ممکن ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ عاصمہ جہانگیر کے نام سے منسوب کانفرنس کی اختتامی تقریب میں ایک مفرور کا خطاب عدلیہ اور ججز کی توہین ہے۔ تفصیلات کے مطابق پنجاب کے دارالحکومت لاہور میں انسانی حقوق کے موضوع پر دو روزہ عاصمہ جہانگیر کانفرنس کے پہلے روز چیف جسٹس کے علاوہ بعض سنیئر وکلا، ججز، صحافی اور سیاسی رہنما سمیت کئی اہم شخصیات موجود تھیں۔ اس کانفرنس میں عدلیہ کی کارگردگی پر سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر علی احمد کرد نے اپنے مخصوص انداز میں دھواں دار خطاب میں عدلیہ کی خوب خبر لی۔ علی کرد نے جب اپنی تقریر میں ’ایک جرنیل، ایک جرنیل، ایک جرنیل‘ کہا تو ان کے ساتھ کانفرنس میں دیگر وکلا نے نعرے بازی شروع کر دی۔ اس کانفرنس میں وفاقی وزیر اطلاعات فواد چودھری کو بھی مدعو کیا گیا تو انہوں نے شرکت سے انکار کر دیا جس کی وجہ انہوں نے ٹویٹر پر بتائی کہ عاصمہ جہانگیر کانفرنس میں مجھے مدعو کیا گیا تھا مجھے بتایا گیا ہے کہ کانفرنس کا اختتام ایک مفرور ملزم کی تقریر سے ہو گا، ظاہر ہے یہ ملک اور آئین کا مذاق آڑانے کے مترادف ہے میں نے کانفرنس میں شرکت سے معذرت کر لی ہے۔ انہوں نے ایک اور ٹویٹ میں کہا کہ افتخار چوہدری کی عدالت کے بڑے مقدموں کی لسٹ نکلوائیں ہر کیس میں حامد خان وکیل ہے اور دو تین لوگ اور ان لوگوں نے عدلیہ کی آزادی کے نام پر اتنا مال کمایا کہ اگلے پچھلے پُر ہو گئے۔ ان کا کہنا تھا کہ نواز شریف نے وکلا تحریک کیلئے جسٹس خواجہ شریف کو تھیلوں میں پیسے بھجوائے اور کرد صاحب کے لیکچر سنیں۔
فری اینڈ فیئر الیکشن نیٹ ورک (فافن) کے ایک سابق سیکرٹری جنرل اور نیشنل کوآرڈینیٹر سرور باری نے ایک پریس کانفرنس کے دوران کہا کہ مشاہدہ کاروں کا ڈیٹا کس بنیاد پر اور کتنا درست ہے کوئی چیک کرنے والا نہیں۔ الیکٹرانک ووٹنگ مشین کی آبزرویشن کیسے ہوگی یہ اہم سوال ہے۔ ای وی ایم سے انسانی عمل دخل محدود ہو گیا ہے۔ سرور باری نے کہا کہ فافن کی تنظیموں کو فنڈنگ ٹی ڈی اے کے ذریعے ہوتی ہے۔ ٹی ڈی اے نے الیکشن کمیشن افسران کے سفری اخراجات برداشت کیے ہیں۔ انکے مطابق ٹی ڈی اے نے اپنے بورڈ کی اجازت کے بغیر الیکشن کمیشن حکام اور انکی فیملی کے اخراجات ادا کیے۔ڈسکہ کا ضمنی الیکشن بدنام زمانہ تھا جس میں ہر حد پار کی گئی۔ انہوں نے کہا کہ فافن کو ٹی ڈی اے سے الگ ہونا پڑے گا۔ ٹی ڈی اے کی تحقیقات کرنے کی ضرورت ہے۔ گند ہو رہا ہے ہم وسل بلور بن کر آپ کے سامنے پیش کر رہے ہیں۔ دھاندلی کمیشن کی رپورٹ میں بھی الیکشن آبزرویشن کی رپورٹ کا ذکر موجود ہے۔ سرور باری نے مزید کہا کہ ٹی ڈی اے نے 2013 الیکشن کے فارم 14 الیکشن کمیشن سے لیکر بھرے، جہاں سے مشاہدہ کاروں کو فارم 14 نہیں ملے اس حلقہ کا تجزیہ نہیں کرنا چاہیے تھا۔ انکے مطابق 2013 کے انتخابات میں بہت گڑ بڑ ہوئی تھی، کئی فارم 14 سادہ کاغذ پر تھے اور کئی پر گنتی ہی غلط تھی۔الیکشن 2013 میں ایاز صادق کے حلقے میں کئی پولنگ اسٹیشنز پر ٹرن آئوٹ 100 فیصد سے بھی زیادہ تھا۔
وزیراعظم عمران خان کے معاون خصوصی برائے سیاسی روابط شہباز گل نے ن لیگی رہنما عطا تارڑ کے بیان کا ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ کچھ سیاسی مسخرے اپنے آپ کو خبروں میں رکھنے کے لئے آئے دن میرے امریکا واپس جانے کی جھوٹی پیشن گوئیاں کرتے رہتے ہیں۔ تفصیلات کے مطابق اپنے متنازع بیانات کی وجہ سے خبروں میں رہنے والے معاون خصوصی شہباز گل نے اپنی سلسلہ وار ٹوئٹ میں کہا کہ کچھ سیاسی مسخرے اپنے آپ کو خبروں میں رکھنے کے لئے آئے دن میرے امریکا واپس جانے کی جھوٹی پیشن گوئیاں کرتے رہتے ہیں۔ معاون خصوصی شہباز گل نے کہا کہ میں ایسے مسخروں پر واضح کردوں کہ واپس جانے کے لئے نہیں آیا، جتنا پیسہ آپ شریفوں کی کرپشن میں مدد کرکے کماتے تھے اس سے زیادہ پیسوں کی نوکری عمران خان پرقربان کی ہے۔ وزیراعظم کے معاون خصوص نے مزید لکھا کہ انشاللہ جب تک ہمت ہے مسخروں اور انکے تماش بینوں کی کرپشن کا ڈٹ کر مقابلہ کروں گا، کپتان نے چاہا تو الیکشن بھی لڑوں گا، کپتان حکومت میں ہو یا اپوزیشن، انشاللہ اپنے کپتان کے ساتھ کھڑا ہوں گا، برا وقت آیا تو خان کے لیے جیل بھی جاؤں گا۔ بعد ازاں پھالیہ کے نواحی علاقہ چک مٹھہ میں اوور سیز پاکستانیوں کی طرف سے واٹر فلڑیشن پلانٹ کی افتتاحی تقریب میں شرکت کی، شہباز گل نے تقریب سے خطاب کے دوران شریف خاندان پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ نواز شریف کو تو عمران خان کا شکر گزار ہونا چاہیے تھا کہ انہوں نے لندن میں بیٹھے اسکے سارے خاندان کو ووٹ کا حق دیا شہباز گِل نے کہا کہ ای وی ایم سے جعلی ووٹ ڈالنے کا سلسلہ ختم ہو جائے گا، اپوزیشن نے ہر چیز میں رکاوٹ ڈالنے کی کوشش کررہی ہے۔
مسلم لیگ ن کے جنرل سیکرٹری اور سابق وزیر داخلہ احسن اقبال نے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں ہونے والے قانون سازی کے بعد اپوزیشن کی جانب سے کچھ قوانین پر اعتراض اٹھایا گیا مگر حیران کن طور پر جن قوانین پر اپوزیشن کو اعتراض ہے وہ تو منظور کیے ہی نہیں گئے۔ تفصیلات کے مطابق نجی ٹی وی چینل سے منسلک صحافی عدیل وڑائچ نے احسن اقبال کا میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے ایک کلپ شیئر کیا جس میں وہ کہہ رہے ہیں کہ حکومت نے ایسے قوانین پاس کیے ہیں جن کیلئے دوتہائی اکثریت چاہیے ہوتی ہے کیونکہ وہ آئینی ترمیم کا تقاضہ کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ حلقہ بندی کو آبادی سے ووٹررجسٹریشن میں تبدیل نہیں کیا جا سکتا جب تک کے آئین کو تبدیل نہ کیا جائے۔ سابق وزیر داخلہ نے کہا کہ ووٹر رجسٹریشن کا جو رجسٹر ہے وہ الیکشن کمیشن کے پاس ہے جس کا اختیار اسے آئین پاکستان دیتا ہے۔ اسے نادرا منتقل نہیں کیا جا سکتا۔ جب تک آئین میں ترمیم نہ کی گئی ہو۔ انہوں نے حکومت پر الزام لگاتے ہوئے کہا کہ ووٹر لسٹ کو نادرا میں لانے کا مقصد یہ ہے کہ حکومت جب چاہے جس کا چاہے جہاں سے مرضی ووٹ اٹھا کر کہیں بھی منتقل کر دے۔ احسن اقبال کا اشارہ اس ترمیم کی جانب تھا جس میں حکومت ووٹر لسٹوں کا اختیار نادرا کو دینا چاہتی تھی۔ مگر وہ شاید اس بات سے بے خبر ہیں کہ قومی اسمبلی کے مشترکہ اجلاس میں یہ قانون تو منظور ہی نہیں ہوا جس کو وہ چیلنج کرنا چاہ رہے ہیں۔ اس پر عدیل وڑائچ نے بھی کہا کہ "اپوزیشن ان قوانین کو عدالت میں چیلنج کرنے جا رہی ہے جو منظور ہی نہیں ہوئے، حیرت ہے کہ یہ رہنما کل پارلیمنٹ کے اجلاس میں موجود ہونے کے باوجود لاعلم ہیں کہ یہ ترامیم موخر ہو گئی تھیں"۔
پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے قبل قانونی ماہرین نے اپوزیشن کو اجلاس کا بائیکاٹ کرنے کا مشورہ دیا تھا مگر اپوزیشن نے اجلاس میں شرکت کی۔ نجی ٹی وی چینل سماء نیوز کے خصوصی نمائندے نعیم اشرف بٹ نے اپنی رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ بدھ کےر وز اپوزیشن جماعتوں کی پارلیمانی کمیٹی کا اجلاس منعقد ہوا جس میں 2 ماہر قانون سینیٹرز فاروق ایچ نائیک اور رضا ربانی نے اپوزیشن کو اس مشترکہ اجلاس کے بائیکاٹ کا مشورہ دیا ۔ دونوں قانونی ماہرین نے مشورہ دیا کہ اپوزیشن الیکشن اصلاحات بل کے بائیکاٹ کا اعلان کردے، رضا ربانی نے کہا کہ اس قانون سازی کا حصہ بننے کے بعد اپوزیشن کیلئے عدالت میں اسے چیلنج کرتے ہوئے مشکلات پیش آئیں گی۔ جبکہ فاروق ایچ نائیک کا کہنا تھا کہ اپوزیشن کو اپنی تقاریر کے بعد بل پیش ہونے سے پہلے ایوان سے واک آوٹ کردینا چاہیےتاہم قانونی ماہرین کی تجاویز سے مخالفت کرتے ہوئے مسلم لیگ ن کے صدر اور قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف شہباز شریف نے کہا کہ ابھی ہم سب ایوان میں جاتے ہیں وہاں میں تمام اپوزیشن کو واک آؤٹ یا بائیکاٹ سے متعلق فیصلے سے آگاہ کردوں گا۔ جس کے بعد اپوزیشن جماعتوں کے اراکین ایوان میں پہنچ گئے اجلاس شروع ہوگیا اور اپوزیشن جماعتوں کے اراکین شہباز شریف کے اشارے کا انتظار کرتے رہے یہاں تک کہ تمام بل منظور ہوگئے ، ای وی ایم بل منظور ہونے کے بعد شہباز شریف اور بلاول بھٹو زرداری ایوان سے واک آؤٹ کرگئے۔ اس موقع پر بھی تمام اپوزیشن اراکین کو ہدایات دی گئیں کہ تمام ارکان اسمبلی میں موجود رہیں اور وزیراعظم عمران خان کی تقریر نہ ہونے دیں۔
رانا شمیم کے بیٹے احمد حسن رانا عدالت میں کونسی ویڈیو چلانا چاہتے تھے؟ حقیقت سامنے آگئی اپنے پروگرام میں ڈاکٹر شاہد مسعود نے دعویٰ کیا کہ سابق جج رانا شمیم کے صاحبزادےعدالت میں ایک لیپ ٹاپ لیکر آئے تھے، اس لیپ ٹاپ میں کیا تھا؟ اس لیپ ٹاپ میں ایک فلم ہے، جو انہوں نے کہا کہ میں عدالت میں چلانا چاہتا ہوں لیکن جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا کہ نہیں آپ نہیں چلاسکتے۔ ڈاکٹر شاہد مسعود نے دعویٰ کیا کہ رانا شمیم کے بیٹے جو فلم چلانا چاہتے تھے اس فلم کی ایک سے زیادہ کاپی ہیں، میں زیادہ بات نہیں کرنا چاہتا لیکن کہاں ایسے دائیں بائیں موڑ لے گی۔ ڈاکٹرشاہد مسعود نے مزید دعویٰ کیا کہ ثاقب نثار سے متعلق ایک دو خبریں اور چھپنے والی ہیں، میں نہیں چھاپ رہا، اخبارات میں خبریں آنیوالی ہیں اسلئے نظر رکھیں اور جاگتے رہیں۔ ڈاکٹر شاہد مسعود کا دعویٰ ہے کہ رانا شمیم کے بیٹے ایک لیپ ٹاپ لیکر آئے تھے جبکہ حقیقت یہ تھی کہ وہ عدالتی عملے سے ویڈیو چلانے کیلئے لیپ ٹاپ مانگ رہے تھے؟ اس ویڈیو کو لیکر غریدہ فاروقی نے بھی ٹویٹ کیا کہ ایک اور ویڈیو آگئی، رانا شمیم کے بیٹے نے ویڈیو چلانے کی اجازت مانگ لی اور عدالت نے کہا کہ ہم ایک ویڈیو چلانا چاہتے ہیں ، لیپ ٹاپ لاسکتے ہیں۔ اپنے پروگرام میں ڈاکٹر شاہد مسعود نے دعویٰ کیا کہ سابق جج رانا شمیم کے صاحبزادےعدالت میں ایک لیپ ٹاپ لیکر آئے تھے، اس لیپ ٹاپ میں کیا تھا؟ اس لیپ ٹاپ میں ایک فلم ہے، جو انہوں نے کہا کہ میں عدالت میں چلانا چاہتا ہوں لیکن جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا کہ نہیں آپ نہیں چلاسکتے۔ ڈاکٹر شاہد مسعود نے دعویٰ کیا کہ رانا شمیم کے بیٹے جو فلم چلانا چاہتے تھے اس فلم کی ایک سے زیادہ کاپی ہیں، میں زیادہ بات نہیں کرنا چاہتا لیکن کہاں ایسے دائیں بائیں موڑ لے گی۔ ڈاکٹرشاہد مسعود نے مزید دعویٰ کیا کہ ثاقب نثار سے متعلق ایک دو خبریں اور چھپنے والی ہیں، میں نہیں چھاپ رہا، اخبارات میں خبریں آنیوالی ہیں اسلئے نظر رکھیں اور جاگتے رہیں۔ سوال یہ ہیں کہ اس لیپ ٹاپ میں ایسی کونسی فلم تھی جوجسٹس اطہر من اللہ نے چلانے نہیں دی؟ اسکا بھانڈا سابق جج کے بیٹے نے پھوڑدیا سماء ٹی وی کے پروگرام میں جج راناشمیم کے بیٹے احمد حسن رانا نے بتایا کہ جو وہ ویڈیو چلانا چاہتے تھے اس ویڈیو میں ایسا کیا تھا؟ دراصل وہ ویڈیو فیصل واڈا کی تھی اور فیصل واڈا کا بیان تھا جو انہوں نے منصور علی خان کے شو میں دیا۔ رانا شمیم کے بیٹے کا کہنا تھا کہ میں عدالت کو فیصل واڈا کی ویڈیو دکھانا چاہتا تھا، انہوں نے میرے والد کے بارے میں اول فول بکا تھا اور مجھ پر جھوٹے الزامات لگائے تھے، میں چاہتا تھا کہ عدالت فیصل واڈا کو بھی طلب کرے ان کا کہنا تھا کہ فیصل واڈا نے مجھ پر اور میرےو الد پر الزامات لگائے تھے، انکے اپنے حقائق کلئیر نہیں تھے۔ فیصل واڈا کی یہ ویڈیو منصور علی خان کے شو کی تھی، اس کلپ میں فیصل واڈا نے کہا تھا کہ ان کا منہ کالا کرکے انہیں لٹکا کر لتر ماریں، یہ پاکستان کو افراتفری کی طرف لے جانا چاہتے ہیں، انکے ضمیر پیسے کی وجہ سے جاگتے ہیں۔ فیصل واڈا نے سابق جج کو بے شرم اور بے حیا قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ یہ بے شرم بے حیاء دوسروں کو فائدہ دیتے ہیں اور ضمیر جاگنے کی بات کرتے ہیں، یہ جج بھگوڑا ہے۔ نہ صرف فیصل واڈا نے سخت زبان استعمال کی بلکہ یہ الزام بھی لگایا کہ راناشمیم کے بیٹے کو میرٹ سے ہٹ کر ایڈوکیٹ جنرل لگایا گیا دیکھئےو ہ ویڈیو جس کے بارے میں مختلف قیاس آرائیاں کی گئیں سوال یہ ہیں کہ اس لیپ ٹاپ میں ایسی کونسی فلم تھی جوجسٹس اطہر من اللہ نے چلانے نہیں دی؟ اسکا بھانڈا سابق جج کے بیٹے نے پھوڑدیا سماء ٹی وی کے پروگرام میں جج راناشمیم کے بیٹے احمد حسن رانا نے بتایا کہ جو وہ ویڈیو چلانا چاہتے تھے اس ویڈیو میں ایسا کیا تھا؟ دراصل وہ ویڈیو فیصل واڈا کی تھی اور فیصل واڈا کا بیان تھا جو انہوں نے نجی چینل کے شو میں دیا۔ رانا شمیم کے بیٹے کا کہنا تھا کہ میں عدالت کو فیصل واڈا کی ویڈیو دکھانا چاہتا تھا، انہوں نے میرے والد کے بارے میں اول فول بکا تھا اور مجھ پر جھوٹے الزامات لگائے تھے، میں چاہتا تھا کہ عدالت فیصل واڈا کو بھی طلب کرے ان کا کہنا تھا کہ فیصل واڈا نے مجھ پر اور میرےو الد پر الزامات لگائے تھے، انکے اپنے حقائق کلئیر نہیں تھے۔ فیصل واڈا کی یہ ویڈیو نجی چینل کے شو کی تھی، اس کلپ میں فیصل واڈا نے کہا تھا کہ ان کا منہ کالا کرکے انہیں لٹکا کر لتر ماریں، یہ پاکستان کو افراتفری کی طرف لے جانا چاہتے ہیں، انکے ضمیر پیسے کی وجہ سے جاگتے ہیں۔ فیصل واڈا نے سابق جج کو بے شرم اور بے حیا قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ یہ بے شرم بے حیاء دوسروں کو فائدہ دیتے ہیں اور ضمیر جاگنے کی بات کرتے ہیں، یہ جج بھگوڑا ہے۔ نہ صرف فیصل واڈا نے سخت زبان استعمال کی بلکہ یہ الزام بھی لگایا کہ راناشمیم کے بیٹے کو میرٹ سے ہٹ کر ایڈوکیٹ جنرل لگایا گیا دیکھئےو ہ ویڈیو جس کے بارے میں مختلف قیاس آرائیاں کی گئیں
شہباز گل کی میڈیا اور اپوزیشن کے ساتھ شرارت، میڈیا کے سامنے اعتراف بھی کرلیا۔ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس کے بعد وزیراعظم عمران خان کے معاون خصوصی شہباز گِل نے میڈیا سے گفتگو کے دوران وزیر اطلاعات فواد چودھری سے کہا کہ آپ کی اجازت کے بغیر ایک شرارت کی، ٹِکر چلا دیے کہ شاید وزیراعظم آج تقریر کریں گے تو جو اپوزیشن باہر جا رہی تھی، واپس پارلیمنٹ میں آگئی۔ شہباز گِل کا کہنا تھا کہ اجلاس ملتوی ہونے تک اپوزیشن بیٹھی رہی۔ اپوزیشن انتظار میں تھی کہ وزیراعظم کے خطاب پر ہلہ گلہ کرے گی۔ فوادچوہدری کا کہنا تھا کہ تقریر تو اسلئے آج ممکن نہیں ہوئی کیونکہ ابھی تک قانون سازی مکمل نہیں ہوسکی، 70 کے قریب بلز ہیں وہ ہوں گے تو پھر ہی تقریر ہوسکے گی جس پر شہباز گل نے کہا کہ آج چانس نہیں تھا لیکن وہ بیٹھے ہیں تقریر سننے کیلئے اس پر مخصوص میڈیا گروپس نے یہ کہا کہ فیک نیوز کا شور مچانے والے خود فیک نیوز پھیلانے لگے واضح رہے کہ گزشتہ روز پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں وزیراعظم عمران خان بھی شریک ہوئے تھے۔ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس کے بعد وزیراعظم عمران خان ایوان سے حکومتی ارکان کی لابی میں گئے اور اُن سے گفتگو بھی کی۔
ملک میں سیاسی ہلچل عروج پر ہے، گزشتہ روز حکومت نے پارلیمنٹ کے مشترکا اجلاس میں متعدد بلز پاس کروا کر عددی برتری ثابت کردی، اس حوالے سے جیو نیوز کے پروگرام آج شاہزیب خانزادہ میں میزبان نے پی ٹی آئی کے علی محمد خان اور ن لیگ کے راثا ثنا کو بطور مہمان بلایا۔ پروگرام میں شاہزیب خانزادہ نے رانا ثناء اللہ سے سوال کیا کہ پارلیمنٹ کے اندر ہو یا پارلیمنٹ کے باہر ،حکومت کو جو کرنا ہوتا ہے وہ کرجاتی ہے، اور آپ لوگ کچھ نہیں کرپاتے جس پر رانا ثنا اللہ نے کہا کہ اگر ہماری خوشی کی بات کی جائے یا اس بات کی حکومت اپنی اکثریت کھو چکی ہے تو ہو حقیقت بات تھی۔ رانا ثناء اللہ نے مزید کہا کہ تحریک انصاف کے 25 اراکین اور اتحادی ہمارے ساتھ رابطے میں تھے جوکہہ رہے تھے کہ حکومت نے ملک تباہ کردیا، ہم ووٹ نہیں دینا چاہتے مگر ساتھ یہ بھی کہہ رہے تھے کہ اگر ہمیں فون نہ آئے تو ہم اپنے فیصلے پر اٹل ہیں،ہم سامنے جاکر حکومت کیخلاف ووٹ دینے کو تیار ہیں،پھر فون آگئے، اس ایک ہفتے میں جو ہوا ہے وہ سب کے سامنے ہے۔ فون آنے کے ذکر پر شاہزیب خانزادہ نے کہا کہ فون کال تو کام کرگئی، اور بار بار کرجاتی ہے تو پھر آپ کیوں خوش ہوتے ہیں؟کامیابی کیسے ہوگی؟ اس پر رانا ثنا نے کہا کہ کیا ملک ایسے ہی چل رہا ہے، شاہزیب خانزادہ نے کہا حکومت چل رہی ہے جو آپ کہتے تھے نہیں چلے گی۔ رانا ثنا نے کہا کہ فون کا سلسلہ بند ہونا چاہئے ملک تباہی کے دہانے پر آگیا،ہمیں سیاسی جدوجہد کرنی چاہئے یا پی ٹی آئی کی طرح کٹھ پتلی بن جائیں۔ شاہزیب خانزادہ نے علی محمد خان سے سوال کیا کہ آپ کے اتحادیوں نے مہنگائی سمیت ہر موضوع پر سامنے آکر بات کی کان میں نہیں،تو واقعی کیا اتحادیوں کو منایا گیا، کیونکہ دو تین دن پہلے انداز الگ تھے اور اب پارلیمنٹ کے مشترکا اجلاس میں سب بدل گیا۔ میزبان کے سوال پر علی محمد خان نے کہا کہ افسوس کی بات ہے کہ تحریک انصاف کے 25 اراکین اور اتحادی سے یہ لوگ رابطے کرتے کیوں ہیں؟ان ہی حرکات کی وجہ سے ان اپوزیشن کو کامیابی نہیں ملتی،ایک طرف ووٹ کو عزت دو کہتے ہیں،یہ ہے ووٹ کو عزت؟ کہ مخالف جماعتوں سے رابطے کرو،یہ کوئی طریقہ ہے،یہ چھانگا مانگا سیاست ہے،آپ کو کیا ضرورت ہے رابطے کی آپ اپنے بندے سنبھال کر رکھیں۔ علی محمد خان نے کہا کہ اس میں کیا بری بات ہے اپنے بندوں کو کال کرنا، یہ لوگ نہیں کرتے کیا رابطے،یہ تو پتا نہیں کس کس طرح سے رابطے میں رہتے ہیں،ویڈیوز وغیرہ سے بھی رابطے میں رہتے ہیں،جو نہیں مانتا ان کی ویڈیوز بھی چلائی جاتی ہیں اور پھر منہ کی بھی کھانی پڑتی ہیں،ن لیگ مکافات عمل کو دیکھے،آپ کا ہر داؤ الٹا پڑ رہاہے،آپ سیاست میں عدالت کو اور عدالت میں سیاست کو لڑ رہے ہیں۔ رانا ثنا نے کہا ہم سب دیکھ رہے ہیں،پوری قوم کی آہیں صدائیں انھیں سنائی نہیں دے رہی،یہ لوگ گونگے بہرے ہوگئے ہیں،قوم کے چہرے پر جو لکھا ہے اس کو نہیں پڑ رہے،ہم نہیں ان کے لوگ ہم سے رابطے کررہے ہیں،ان کے لوگ دہائی دے رہے ہیں کہ جان چھڑائیں ان سے،یہ ملک تباہ کردینگے،یہ اس ملک کو لے ڈوبے ہیں،مکافات عمل تو آپ دیکھیں گے۔ رانا ثنا کی گفتگو کے دوران علی محمد بار بار درمیان میں مداخلت کرتے رہے جس پر رانا ثنا نے کہا میں نے آپ کی بات تحمل سے سنی ہے آپ بھی سنیں،جس پر علی محمد خان چ نہ ہوئے رانا ثنا بھی شفاف انتخاب کی بات پر ڈٹے رہے، علی محمد خان نے کہا جو بات کہیں گے اس کا جواب دوں گا۔
پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں حکومت کی جانب سے 60سے زائد بلوں کو کامیابی کے ساتھ پاس کرا لیا گیا، ان بلوں میں الیکٹرانک ووٹنگ، اوورسیز پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دینے اور کلبھوشن سے متعلق بلز سمیت بلز منظور کرائے گئے جبکہ اپوزیشن نے اس دوران خوب شور مچایا اور واک آؤٹ بھی کیا۔ اپوزیشن کا دعویٰ ہے کہ گنتی صحیح نہیں کی گئی جس کے بعد اس مشترکہ اجلاس پر ایک بحث چل نکلی ہے کہ شہباز شریف کا کہنا ہے کہ مشترکہ اجلاس کے دوران کل تعداد کو گنا جانا چاہیے جو کہ 1994کے رولز میں کہا گیا ہے۔ دوسری جانب اسپیکر قومی اسمبلی کا کہنا ہے کہ آئین کے مطابق ایوان میں موجود لوگوں سے رائے لی جائے گی اور وہاں پر موجود لوگوں میں سے جس کے زیادہ ووٹ ہوں گے بل کی منظوری یا نامنظوری کا دارومدار اسی پر ہوگا۔ صحافی نجم سیٹھی نے اس پر بات کرتے ہوئے کہا کہ اگر اس بحث میں پڑا جائے کہ حکومت اور اپوزیشن میں سے کون سچا ہے تو حکومت آئین کے آرٹیکل 74 کی شق4 کی بات کر رہی ہے جبکہ اپوزیشن رول کی بات کرتی ہے۔ اگر آئین اور رول کو دیکھا جائے تو جیت آئین کی ہو گی۔ ان کا کہنا تھا کہ اس سے بھی اہم نکتہ یہ ہے کہ سینیٹ اور قومی اسمبلی کے مشترکہ اجلاس بلانے کا ایک طریقہ کار ہے اور اس کی کوئی وجہ ہونی چاہیے وہ اس طرح کہ اگر کوئی بل پاس کرانا مقصود ہو تو اس کو پہلے سینیٹ میں بھیجا جاتا ہے اگر وہاں سے مسترد ہو جائے تو واپس قومی اسمبلی میں آتا ہے۔ نجم سیٹھی نے کہا کہ اگر قومی اسمبلی میں بل پیش کرنے والے دوبارہ سمجھیں کہ اس پر نظر ثانی ہونی چاہیے تو وہ واپس سینیٹ میں بھیج دیتے ہیں، پھر اگر سینیٹ مسترد کر دے تو وہ واپس قومی اسمبلی میں آ جاتا ہے۔ اس صورت میں پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بلانے کی اجازت ہے جس میں دونوں ایوانوں میں موجود ارکان کی رائے سے بل کو منظور یا مسترد کیا جاتا ہے۔ سینیئر صحافی نے کہا کہ حکومت نے اگر مشترکہ اجلاس بلوانا تھا تو بتایا جائے کہ یہ بل سینیٹ میں کب بھیجے گئے تھے اور وہاں سے ریجیکٹ ہو کر کب واپس قومی اسمبلی آئے؟ مگر اس بات کا ان کے پاس کوئی جواب نہیں ہے۔
کراچی: پی ٹی آئی رکن اسمبلی عامر لیاقت حسین نے پارلیمنٹ میں لانے والوں کے نام بتادیے۔ نجی چینل ہم نیوز کے شو میں عامر لیاقت اور فیصل واڈا شریک تھے تو محمد مالک نے عامرلیاقت سے سوال کیا کہ انہیں بڑے اہتمام سے پارلیمنٹ کون لایا جس پر عامرلیاقت نے دلچسپ جواب دیا۔ عامرلیاقت کا کہنا تھا کہ کچھ لوگ پچھلے 7 دن سے کوششیں کررہے تھے، ان میں ایک آپکے شو میں بیٹھے ہیں، فیصل واڈا بھائی۔۔ باقی علی زیدی، فوادچوہدری اور علی محمد خان تھے۔ ویڈیو شئیر کرتے ہوئے عامرلیاقت کا کہنا تھا کہ "ہم لائے گئےہیں "کی درست تشریح وسیم بادامی کے شو میں بھی عامرلیاقت نے یہی بات کی ان کا کہنا تھا کہ یہ لوگ کہتے ہیں کہ وزیراعظم چلے جائیں گے، ووٹنگ مشین کا بل پاس نہیں ہوگا تو میں نے کہا کہ ہم بھی ان سے کھیل لیتے ہیں اسی لیے ایسا کہا کہ لایا گیا ہے۔ وسیم بادامی نے سوال کیا کہ پارلیمنٹ میں آپ کو کون لایا تھا؟ اس پر رکن اسمبلی نے کہا کہ علی محمد خان، علی زیدی، فیصل واوڈا اور فواد چوہدری لائے تھے۔ عامر لیاقت نے کہا کہ اتحادی نہیں ہوں پاکستان تحریک انصاف کا ممبر ہوں، میں ابھی بھی کہتا ہوں مجھے لایا گیا تھا، غیرسیاسی تشخص رکھنے والے شخص کا تاثر غلط ہے۔اب کسی سے کوئی ناراضگی نہیں ہے، میں پی ٹی آئی کا ممبر ہوں۔ عامر لیاقت نے استعفیٰ سے متعلق کہا کہ استعفیٰ دیا تھا لیکن اسپیکر اسد قیصر نے اعتراض لگا کر واپس کردیا تھا پھر وزیراعظم نے استعفیٰ منظور بھی نہیں کیا۔ دوسری جانب عامر لیاقت نے علی زیدی کیساتھ اپنی تصویر شئیر کی اور اشعار کے ذریعے تبصرہ کیا کہ ہم آئے تو نہیں ہاں مگرلائے گئے ہیں ان ہی راہداریوں میں پائے گئے ہیں نہیں ممکن کہ کرے دور کوئی عمراں سے گھنی دھوپ میں میشہ چھائے گئے ہیں علی تھے ساتھ تو خیبر میں اک آئی آواز عامر بن فہیرہ بھی یہاں لائے گئے ہیں انہوں نے اشعار کیساتھ وزیراعظم عمران خان کے ساتھ اپنی تصویر بھی شئیر کی
وفاقی حکومت نے الیکٹرانک ووٹنگ مشین کو ہیک کرنے والوں کو چیلنج کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر کوئی ایسا کرلے تو اسے بڑا انعام دیا جائے گا۔ وفاقی حکومت کی جانب سے یہ اعلان نجی ٹی وی چینل اے آروائی نیوز کے پروگرام"پاورپلے" میں شریک وفاقی وزیر سائنس و ٹیکنالوجی شبلی فراز نے کیا اور کہا کہ اگر کوئی حکومت کی جانب سے تیار کردہ ای وی ایم مشین کو ہیک کرلے تو اسے 10 لاکھ روپے کا انعام دیا جائے گا۔ شبلی فراز نے مزید کہا کہ ہم نے مشین کی ٹیسٹنگ کے دوران کئی ہیکرز کو بلوا کر مشین کو ہیک کرنے کا کہا مگر باوجود کوشش کے کوئی بھی ای وی ایم مشین کو ہیک نہ کرسکا، ہم نے ہیکرز کو 10 لاکھ روپے انعام کا لالچ بھی دیا مگر کسی کو کامیابی نہیں ملی۔ وفاقی وزیر سائنس و ٹیکنالوجی نے کہا کہ ہم نے اپوزیشن سے درخواست کی کہ ایک بار آکر مشین کا جائزہ لے مگر اپوزیشن نے مشین دیکھی تک نہیں، ہمارے اتحادیوں کو بھی اس مشین پر تحفظات تھے ہم نے وہ بھی دور کیے، اپوزیشن کو بھی ہر طرح سے اس معاملے پر مطمئن کرنے کی کوشش کی گئی مگر یہ نہیں مانے۔ شبلی فراز نے کہا کہ محدود وسائل میں رہتے ہوئے مشین بنائی جس میں بیٹری نصب ہے اور یہ 24 گھنٹے کام کرتی ہے، اپوزیشن شروع سے ہی ٹیکنالوجی کے استعمال کی مخالفت کرتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہر پارٹی کا حق ہے کہ وہ کسی بھی معاملے پر اپنی رائے دے، مگر اس معاملے میں مخالفت سے ثابت ہوتا ہے کہ اپوزیشن ماضی کی طرح کے ہی انتخابات چاہتی ہے۔ دوسری جان پاکستان الیکٹرونک ووٹنگ مشین استعمال کرنے والے ممالک کی فہرست میں شامل ہوگی۔ امریکا سمیت 8 ممالک میں الیکٹرونک ووٹنگ مشین (ای وی ایم) کا استعمال جاری ہے، امریکا، آسٹریلیا، بیلجیئم اور بھارت میں ای وی ایم کا استعمال ہوتا ہے۔ بھارت میں الیکٹرونک ووٹنگ مشین کا استعمال 1982 سے ہورہا ہے، برازیل، ایسٹونیا، فلپائن اور وینزویلا میں بھی ای وی ایم کا استعمال جاری ہے۔
پاکستان مسلم لیگ ن کے رہنما و سابق گورنر سندھ محمد زبیر نے کہا ہے کہ الیکٹرانک ووٹنگ کیلئے زور لگانے کا دعویٰ کرنے والی اس حکومت کا منہ ڈسکہ ضمنی انتخاب کی رپورٹ نے کالا کردیا ہے۔ نجی ٹی وی چینل سماء نیوز کے پروگرام لائیو ود ندیم ملک سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے رہنما ن لیگ محمد زبیر نے کہا کہ یہ حکومت کہتی ہے کہ ہم الیکٹرانک ووٹنگ مشین اس لیے چاہتے ہیں کہ ملک میں صاف و شفاف انتخابات کروائیں جائیں، ہماری نیت شفاف الیکشن ہے۔ محمد زبیر نے کہا کہ ای وی ایم مشینوں کیلئے جان لگادینے کا دعویٰ ہے ان کا مگر کچھ عرصہ قبل ڈسکہ ضمنی الیکشن کی تحقیقاتی رپورٹ اسی حکومت کا منہ کالا کررہی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ حکومت نے باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت دھاندلی کی ہے جس میں پنجاب حکومت اور وفاقی حکومت کے عہدیداران ملوث ہیں۔ ان کا مزید کہا تھا کہ اب حکومت یہ کہنا چاہتی ہے کہ ڈسکہ میں اس لیے دھاندلی کی کہ وہاں ای وی ایم نہیں تھی، اگر نیت صاف نہ ہو تو پہلے 20 ریٹرننگ افسران اٹھائے تھے اب آپ ای وی ایم اٹھا لیں گے۔ سابق گورنر سندھ محمد زبیر نے کہا کہ کچھ دن پہلے تک حکومت کے پاس پارلیمنٹ میں نمبرز پورے نہیں تھے اتحادیوں کے تحفظات تھے پھر اچانک سب راضی ہوگئے اور اجلاس طلب کرلیا گیا، ہمیں پہلے یہ پتاچلا کہ ایک پیج پھٹ گیا ہے اور پھر اسے پھٹے ہوئے پیج کو گزشتہ ایک ہفتے کے دوران ٹیپ لگا کر جوڑا گیا ہے۔ واضح رہے کہ آج پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں حکومت نے انتخابی اصلاحات سے متعلق بل پیش کیے جن میں الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کے استعمال اور بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دینے کے بل اکثریت رائے سے منظور کرلیے گئے ہیں۔
پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سینئر نائب صدر اور سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے انکشاف کیا کہ آج اسٹبلشمنٹ اور نیب استعمال ہورہے ہیں۔ ایکسپریس نیوز کے پروگرام میں اینکر منصور علی خان کیبجانب سے کئے گئے سوال کے جواب میں سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی حکومت پر برس پڑے اور کہا کہ اسٹیبلشمنٹ ویلز ود ان ویلز ہوتی ہے۔ آج اسٹیبلشمنٹ اور نیب استعمال ہورہے ہیں، مجھے کم از کم 6 لوگوں نے بتایا ہے کہ ان کو دھمکیاں مل رہی ہیں، ایف آئی اے نے دھمکی دی ہے اینٹی کرپشن نے دھمکی دی ہے، یہ سب اسٹیبلشمنٹ ہے ۔ انہوں نے مزید کہا کہ جس ملک میں حکومت ناکام ہوجائے، عوام مہنگائی کی چکی میں پس رہے ہوں، ملک کے اندرانی و بیرونی حالات تشویشناک ہوں وہاں حکومت کیسے رہ سکتی ہے، میرا نہیں خیال کہ یہ سب ایسے چل سکے گا، یہ سب جلد ختم ہونے والا ہے، آپ کو ایک بار بغیر ای وی ایم کے عوام تک جانا ہوگا ان کی رائے لے کر اس ملک کو صحیح سمت میں ڈالنا ہوگا، اس کے علاوہ اور کوئی راستہ نہیں ہے۔ پی ڈی ایم کے حوالے سے بات کرتے ہوئے شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ پی ڈی ایم کا مقصد ملک میں آئین کی بالادستی ہے، پی ڈی ایم میں ہر سوچ ہر فکر کی جماعت ہے، ایسی جماعتیں ہیں جن کو ماضی میں غدار قرار دیا گیا ان کے لیڈروں کو پھانسی پہ لٹکایا گیا، آج یہ سب جماعتیں اقتدار، مفاد اور ڈیل کی بات نہیں کر رہیں، ان جماعتوں کا مطالبہ ہے کہ ملک کا نظام آئین کے مطابق کریں ورنہ نہیں چلے گا۔ انہوں نے مزید کہا کہ یہی سوچ پی ڈی ایم کی کامیابی ہے، اسی لئےآج سب پی ڈی ایم سے خائف ہیں، آپ دیکھیں گے کہ پی ڈی ایم کا ملک کی سیاسی تاریخ پر کیا اثر ہو گا، آج ہر پاکستانی یہ سوچ رہا ہے کہ میرے تمام مسائل کا تعلق الیکش چوری اور الیکشن کے انحراف سے ہے، یہی سب سے بڑی کامیابی ہوتی ہے ایک تحریک کی۔ پاکستان پیپلز پارٹی اور پی ڈی ایم کا موقف ایک ہی ہے، دونوں ایک ہی بات کر رہے ہیں، فرق صرف اتنا ہے کہ آج وہ پی ڈی ایم کے باہر کھڑے ہو کر کہہ رہے ہیں، سب اسی بات پر متفق ہیں، پیپلز پارٹی نے خود پی ڈی ایم چھوڑی۔ سابق وزیراعظم کا کہنا تھا کہ چھوٹے سے معاملے پر پاکستان پیپلز پارٹی نے پی ڈی ایم کا اعتماد توڑا اور شوکاز نوٹس بھی بھیج دیا، اب پیپلزپارٹی شوکاز نوٹس واپس بھی لے لے تو معاملات ٹھیک نہیں ہوں گے، پیپلز پارٹی نے پی ڈی ایم کا اعتماد توڑا ہے، اعتماد ہی اتحاد ہوتا ہے۔
پارلیمنٹ سے انتخابی اصلاحات کے بل منظور ہونے کے بعد سوشل میڈیا پر وزیراعظم عمران خان کی 2015 کی ایک ٹویٹ وائرل ہورہی ہے جس میں انہوں نے بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دینے کا عہد کیا تھا۔ تفصیلات کے مطابق ٹویٹر سمیت دیگر سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر وزیراعظم عمران خان کی26نومبر 2015 میں کی گئی ایک ٹویٹ کے سکرین شاٹس تیزی سے وائرل ہورہے ہیں جس میں وزیراعظم عمران خان نے اعلان کیا تھا کہ پاکستان تحریک انصاف بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دلوانے کیلئے آخری گیند تک لڑے گی۔ وزیراعظم عمران خان نے اس وقت کہا تھا کہ ہم اوور سیز پاکستانیوں کو یہ حق دلوانے کیلئے راستہ ضرور نکالیں گے تاکہ بیرون ملک مقیم پاکستانی بھی عام انتخابات میں ووٹ کا حق استعمال کرسکیں۔ آج پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں انتخابی اصلاحات سے متعلق 2 بلز اکثریتی رائے سے منظور کرلیے گئے ہیں جن میں ایک بل الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے استعمال سے متعلق ہے جبکہ دوسرا بل سمندر پار پاکستانیوں کو ووٹ کو بذریعہ انٹرنیٹ ووٹنگ کا حق دلوانے کیلئے ہے۔ سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر حکومت کی جانب سے بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دلوانے سے متعلق عمران خان کے وعدے کو حقیقت بنتے دیکھتے صارفین نے عمران خان کا ماضی کا بیان ڈھونڈ نکالا ، صارفین اس بیان کو تیزی سے وائرل کرتے ہوئےکپتان کو وعدہ پورا کرنے پر خراج تحسین پیش کررہے ہیں۔ صارفین کا کہنا ہے کہ وزیراعظم عمران خان سمندر پار پاکستانیوں کو یہ حق دلوانے کیلئے ایک دہائی سے لڑررہے ہیں اور آج ان کی جدوجہد رنگ لے آئی ہے، اب سمندر پار پاکستانی صرف مشکل میں اپنے ملک کی مالی مدد کرنے کے علاوہ ملک کے حکمران چننے میں بھی اپنا کردار ادا کرسکیں گے۔
کراچی سے تعلق رکھنے والے خواجہ سراؤں نے پاکستان پیپلزپارٹی کی حمایت اور پارٹی میں شمولیت کا اعلان کردیا ہے۔ خبررساں ادارے ایکسپریس نیوز کی رپورٹ کے مطابق خواجہ سراؤں کی تنظیم کے 25 رہنماؤں نے پیپلزپارٹی سندھ کے صدر نثار کھوڑو سے ملاقات کی اور پارٹی میں شمولیت کا اعلان کیا۔ ملاقات کے بعد نثار کھوڑو کے ہمراہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے خواجہ سراء رہنماؤں نے پیپلزپارٹی کی قیادت پر اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ خواجہ سراؤں کی بڑی تعداد پیپلزپارٹی میں شامل ہورہی ہے۔ اس موقع پر پیپلزپارٹی سندھ کے صدر نثار کھوڑو نے کہا کہ پیپلزپارٹی ایک سوشل ڈیموکریٹ پارٹی ہے اور اس جماعت میں ہر طبقے سے تعلق رکھنے والے لوگوں کیلئے یکساں مواقع ہیں، 25 خواجہ سراؤں کے سرکردہ رہنما پیپلزپارٹی میں شامل ہوگئے ہیں جب کہ ان کے زیر سایہ خواجہ سراء بھی پارٹی کی حمایت کا اعلان کرچکے ہیں۔
سابق چیف جج گلگت بلتستان رانا شمیم کے انکشافات نے تہلکہ مچایا ہوا ہے لیکن نجی ٹی وی جی این این کے مطابق رانا شمیم کا بیان حلفی ریکارڈ سے مطابقت نہیں رکھتا،یعنی بیان میں جن تاریخوں اور ججز کا حوالہ دیا گیا ہے، ریکارڈ اس کے برعکس ہے،جی این این کو حاصل شدہ ریکارڈ میں رانا شمیم کے بیان میں تضادات سامنے آگئے ہیں۔ ریکارڈ کے مطابق سولہ سے بیس جولائی دوہزار اٹھارہ کو جسٹس عامر فاروق بیرون ملک تھے،ان تاریخوں کے دوران جسٹس عامر فاروق بینچ کا حصہ نہیں تھے،اس عرصے کے دوران ڈویژن بینچ جسٹس محسن اختر کیانی جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب پر مشتمل تھا۔ ریکارڈ کے مطابق اس دوران سنگل بینچ بھی جسٹس شوکت عزیز صدیقی ، جسٹس محسن اختر کیانی اور جسٹس گل حسن پر مشتمل تھے،جبکہ مریم نواز اور نواز شریف نے سولہ جولائی کو ضمانت کیلئے رجوع کیا تھا۔ ریکارڈ کے مطابق مریم نواز اور نواز شریف کی درخواست ضمانت پر سترہ جولائی کو پہلی سماعت ہوئی جو اکتیس جولائی تک ملتوی کردی گئی تھی،تیئیس سے ستائیس جولائی دوہزار اٹھارہ کے دوران شوکت عزیز صدیقی ڈویژن بینچ کا حصہ تھے۔ گزشتہ روز اسلام آباد ہائیکورٹ نے گلگت بلتستان کے سابق چیف جج کے بیان حلفی سے متعلق کیس میں رانا شمیم سمیت دیگر فریقین کو شوکاز نوٹس جاری کرتے ہوئے 7 روز میں جواب طلب کرلیا ہے۔ رانا شمیم نے بی بی سے گفتگو میں کہا تھا کہ وہ اپنے بیان حلفی میں لکھی تحریر پر قائم ہیں،وہ بڑے عرصے سے اس بات کا بوجھ اپنے ضمیر پر لے کر چل رہے تھے،لیکن اب مزید اس بوجھ کو اٹھانے کی ہمت نہیں تھی اس لیے انھوں نے اس واقعہ سے متعلق بیان حلفی پر سب کچھ کہہ دیا ہے۔
ن لیگ کے میاں جاوید لطیف کا 30 سے 35 حکومتی اراکین اسمبلی نے آئندہ انتخابات میں ٹکٹوں کیلئے ن لیگ سے رابطوں کا دعویٰ، فیصل واوڈا کا دلچسپ ردعمل مسلم لیگ ن کے رہنما جاوید لطیف نے ایک پروگرام کے دوران پارلیمنٹ میں حکومتی اراکین کی تعداد کے حوالے سے بڑا دعویٰ کیا ہے، اس دوران تحریک انصاف کے رہنما فیصل واوڈا نے ایک پرچی لکھ کر ندیم ملک کو تھما دی۔ تفصیلات کے مطابق نجی ٹی وی چینل سماء نیوز کے پروگرام لائیو ود ندیم ملک میں کل ہونے والے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس اور نمبر گیم کے حوالے سے بات ہورہی تھی، اس موقع پر ن لیگ کے رہنما جاوید لطیف نے دعویٰ کیا کہ تحریک انصاف کے پنجاب سے تعلق رکھنے والے 30 سے 35 ارکان اسمبلی آئندہ انتخابات میں ٹکٹ کے حصول کیلئے ن سے رابطے میں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اب ان لوگوں پر اگر خفیہ قوتوں کا دباؤ نہ پڑا اور اگر خفیہ ہاتھ کل نہ چلا تو حکومت کو انتخابی اصلاحات کے بل پر 30 سے 35 ووٹوں سے شکست ہوجائے گی۔ جاوید لطیف کی گفتگو کے دوران پروگرام میں ان کے ساتھ بیٹھے تحریک انصاف کے رہنما فیصل واوڈا نے ٹیبل پر پڑے ایک کاغذ میں سے ایک پرچی پھاڑی اور اس پر کچھ تحریر کرنے کے بعد پرچی تہہ کرکے پروگرام کے میزبان ندیم ملک کو تھمادی۔ فیصل واوڈا نے کہا کہ یہ پرچی آپ کے پاس میری امانت ہے اور اسے آپ نے کل کھولنا ہے اس سے پہلے آپ نے اس پرچی کو نہیں کھولنا۔

Back
Top