سیاسی

صحافی عارف حمید بھٹی نے انکشاف کیا ہے کہ لندن میں ایک سیاستدان نے 80 کروڑ کی پراپرٹی خرید لی ہے عارف حمید بھٹی کا کہنا تھا کہ عمران خان میٹنگز میں کہتے ہیں کہ میرا ویژن سنو لیکن نوازشریف انہیں چکر دیکر ملک سےباہر چلے گئے۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ یہ خبریں پھیلائی جارہی ہیں کہ نوازشریف بیمار ہیں لیکن وہ پہلے سے زیادہ صحتمند ہیں، میں پہلے دن سے کہہ رہا ہوں کہ نوازشریف نے وطن واپس نہیں آنا، یہ دعوے غلط ہیں کہ وہ پاکستان آئیں گے تو ان پر کیسز ختم ہوجائیں گے۔ عارف حمید بھٹی نے انکشاف کیا کہ اسحاق ڈار نے لندن میں 80 کروڑ روپے کی پراپرٹی خریدلی ہے اور یہ پراپرٹی انہوں نے اپنے نام پر نہیں ایک آفشور کمپنی کے ذریعے خریدی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس دوران انکے بچے دوبئی سے 2 بار بڑی تیزی سے لندن آئے۔ انکے مطابق اسکے ساتھ ایک جگہ ہے جس کی قیمت 55 کروڑ ہے اسکی بھی بات چل رہی ہے۔ابھی دعائے خیر نہیں ہوئی، ابھی تو پارٹی چل رہی ہے۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ انکی شادی 2 دفعہ ہوتی ہے اور اس پر اتنا پیسہ لگ جاتا ہے کہ جس نے ڈیکوریشن کا ٹھیکہ لیا تھا، اس نے دکان بنالی ہے۔
مسلم لیگ ن کے رہنما میاں جاوید لطیف اور احسن اقبال نے کہا ہے کہ وزیراعظم عمران خان نے 2019 میں 98 لاکھ روپے ٹیکس دیا ، وہ عوام کو بتائیں کہ ان کی آمدن میں اضافہ کیسے ہوا ہے، ن لیگی رہنما کے سوال پر تحریک انصاف کے رہنماؤں نے دلچسپ جواب دیدیے۔ نجی ٹی وی چینل سماء نیوز کے پروگرام "لائیو ود ندیم ملک" میں خصوصی گفتگو کرتے ہوئے میاں جاوید لطیف نے کہا کہ موجودہ وزیراعظم 2017 میں 1 لاکھ 3 ہزار روپے ٹیکس ادا کرتے ہیں اور اس وقت کی ان کی آمدنی بھی ظاہر کی گئی ہے، آج جو ڈائریکٹری جاری کی گئی اس کے مطابق وزیراعظم بننے کے بعد عمران خان 2019 میں 98 لاکھ روپے ٹیکس ادا کرتے ہیں ۔ جاوید لطیف نے کہا کہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ وزیراعظم بننے کے بعد ان کی آمدنی کیسے بڑھ گئی جس پر انہوں نے 98 لاکھ روپے ٹیکس دیدیا، یہ معاملہ صرف غور طلب نہیں ہے بلکہ اس معاملےپر عوام کے سامنے ایک مثال قائم کرنے کیلئے تحقیقات ہونی چاہیے۔ مسلم لیگ ن کے رہنما احسن اقبال نے بھی ٹویٹرپر اپنے بیان میں ایسا ہی سوال کیا اور کہا کہ وزیر اعظم بننے کے بعد 2 سالوں میں1,000 گنا اضافہ کیسے ہوا؟ قوم جاننا چاہتی ہے کہ اقتدار میں آ کر آمدنی کے کونسے نئے ذرائع شامل ہوئے؟ وزیراعظم عمران خان کے معاون خصوصی ڈاکٹر شہباز گل نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ ارسطوصاحب کل آ جائیں کسی بھی چینل پر لائیو۔ پہلے تو آپکو وزیراعظم کے ٹیکس کے ایک ایک پیسے کا حساب دیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ اس کے بعد آپ سے آپکے بھگوڑے نواز اور شہباز کا حساب مانگا جائے گا۔اب یا تو حساب لے کر آئے گا یا پھر اپنے ساتھ 100 پیاز۔ کیونکہ اس عمر میں دوسرا آپشن تو برا لگے گا۔ وزیراعظم عمران خان کے فوکل پرسن ڈاکٹر ارسلان خالد نے کہا کہ جاہلیت کی انتہا ہے احسن اقبال کی۔ جب ٹیکس دیا ہے تو مطلب کے تمام تر آمدنی ڈاکومنٹڈ ہے اور جائز طریقے سے حاصل ہوئی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ویسے آپ لوگوں کو تو عادت ہی کالا دھن کما کر اپنے ملازمین کے اکاؤنٹس میں رکھنے کی ہے، آپ کو کیا معلوم کے حلال کمائی کو کیسے ڈاکومنٹ کرکے اس پر ٹیکس دیا جاتا ہے۔
ایف بی آر نے ارکان پارلیمنٹ کی ٹیکس ڈائریکٹری جاری کر دی جس کے مطابق سب سے زیادہ ٹیکس پاکستان تحریک انصاف کے رکن قومی اسمبلی نجیب ہارون نے جمع کرایا جبکہ سندھ اسمبلی کے رکن علی غلام نے انکم ٹیکس کی مد میں سب سے کم رقم ادا کی ۔ تفصیلات کے مطابق ایف بی آر نے پارلیمنٹیرینز ٹیکس ڈائریکٹری 2019 جاری کر دی جس میں بتایا گیا ہے کہ کس پارلیمنٹیرین نے کتنا ٹیکس ادا کیا ہے، پی ٹی آئی کے کراچی سے رکن قومی اسمبلی نجیب ہارون نے 14 کروڑ7 لاکھ روپے سے زائد ٹیکس کی مد میں ادا کیے ہیں جبکہ دوسرے نمبر پر طلحہ محمود نے 3 کروڑ 22 لاکھ روپے سے زائد ٹیکس ادا کیا۔ ٹیکس ڈائریکٹری کے مطابق رکن پنجاب اسمبلی ممتاز علی نے دو کروڑ 96 لاکھ روپے سے زائد ٹیکس ادا کیا۔ دوسری جانب ٹیکس ڈائریکٹری کے مطابق سب سے کم ٹیکس ادا کرنے والوں میں سندھ اسمبلی کے رکن علی غلام نے انکم ٹیکس کی مد میں صرف ڈھائی سو روپے ادا کیے ہیں جبکہ ایم کیو ایم پاکستان کی سینیٹر خالدہ اطیب نے 315 روپےٹیکس ادا کیا۔ ٹیکس ڈائریکٹری میں بتایا گیا ہے کہ ملک کے 18 اراکین پارلیمنٹ ایسے ہیں جنہوں نے صرف ایک ہزار روپے ٹیکس ادا کیا جن میں ڈپٹی اسپیکر پنجاب اسمبلی سردار دوست محمد مزاری اور وزیرآبپاشی پنجاب محسن لغاری شامل ہیں۔
وفاقی وزیر خزانہ شوکت ترین سے ایک نجی پروگرام میں سوال کیا گیا کہ ملک میں اس وقت شدید مہنگائی کی لہر ہے کیا منی بجٹ آنے کے بعد مہنگائی میں مزید اضافہ ہوگا۔ نجی ٹی وی چینل جیو نیوز کے پروگرام" نیا پاکستان " میں خصوصی گفتگو کرتے ہوئے شوکت ترین نے میزبان شہزاد اقبال کے سوال کے جواب میں کہا کہ جو اس وقت مہنگائی کی ایک لہر سامنےآئی ہے اس کے 2 پہلو ہیں، گزشتہ سال اس وقت ملک میں افراط زر کی شرح 8فیصد تھی مگر جنوری 2021 میں یہ شرح 5اعشاریہ 7 فیصد تھی مگر یہ بیس امپیکٹ کی وجہ سے یہ بڑھی اور اسی وجہ سے جنوری 2022 میں بھی یہ شرح بڑھتی دکھائی دے رہی ہے۔ شوکت ترین نے کہا کہ اصل طریقہ دیکھنے کا یہ ہے کہ نومبر 2021 میں مہنگائی کی شرح کو دسمبر 2021 سے موازنہ کرکے دیکھا جائے اس حساب سے دسمبر میں مہنگائی کی شرح کم ہوئی ہے، چاہے تھوڑی سی کم ہوئی ہو مگر کمی ہوئی ہے جس کا مطلب ہے کہ نومبر اور دسمبر میں قیمتوں میں استحکام دیکھا گیا ہے بلکہ بعض چیزوں کی قیمتیں سستی ہوئی ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ اگر آپ مہنگائی کی شرح کو پچھلے سال کے اسی مہینے سے موازنہ کریں گے تو میں بالکل آپ کی بات سے متفق ہوں کہ پھر یہ شرح زیادہ ہوگی مگر جب آپ اسی شرح کا موازنہ گزشتہ ماہ سے کریں گے تو آپ کو نظر آئے گا کہ نومبر کے مقابلے میں دسمبر میں مہنگائی کی شرح تھوڑی سی کم ہوئی ہے۔
پاکستان تحریک انصاف کے رہنما اور اپوزیشن لیڈر سندھ اسمبلی حلیم عادل شیخ کو دھمکی آمیز ویڈیو موصول ہوئی، جس پر انہوں نے ایف آئی اے سائبر کرائم میں درخواست جمع کروادی، حلیم عادل شیخ پر حملے کی دھمکی کے بعد ایڈیشنل ڈائریکٹرایف آئی اے سائبرکرائم سندھ کودرخواست دے دی گئی۔ درخواست حلیم عادل شیخ کے پرسنل اسٹاف افسر حاجی لال محمد نے جمع کرائی، جس میں کہا گیا ہے کہ بطوراسٹاف افسرحلیم عادل کے2موبائل میرےپاس ہوتےہیں، 24دسمبر کو بین الاقوامی نمبر سے متعدد مس کالزاور پیغام موصول ہوئے اور دھمکی دینےوالاشخص کبھی ٹرائبل کبھی نام تبدیل کرتا رہا۔ درخواست میں بتایا گیا کہ پہلامیسج آیا کہ حلیم عادل شیخ پرحملہ ہوسکتا ہے، دوسرامیسج آیا کہ میں آپ کو اطلاع دوں گا اور پھر تیسرامیسج میں کہا گیا کہ میں نے آپ کوبتا دیا باقی آپ پر منحصرہے۔ درخواست کے مطابق میسج کےبعد واٹس ایپ پرکلاشنکوف کی تصویربھیجی گئی، دوبارہ میسج آیالگتاہےتم میرامذاق اڑارہےہو، دھمکی دینے والے نے ایف آئی اے دفتر کی تصویر بھیجی اور طنزیہ طورپرکہا کہ میری شکایت ایف آئی اے دفترکرو۔ درخواست میں کہا گیا کہ ایف آئی اے کراچی اوراسلام آبادکا نمبربھی نمایاں کیاگیا، برائے مہربانی سائبرکرائم ونگ میں مقدمہ درج کیاجائے اور میسجز کرنے والے شخص کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے۔ پی ٹی آئی رہنما حلیم عادل شیخ نے موصول ہونے والی دھمکی پر کہا ہے کہ کل رات سے ایک اور ویڈیو مختلف گروپس میں وائرل ہورہی ہے، ویڈیو میں دکھانے کی کوشش کی جارہی ہے کہ سندھ پولیس مجھ سے ناراض ہوگئی ہے، میں پولیس کے ہاتھوں مارے جانے والے بے گناہوں کی آواز بنتا ہوں، میری کوئی پولیس سے دشمنی نہیں ہے۔ حلیم عادل شیخ نے کہا کہ کچھ ماہ پہلے سُکھن تھانے کے پولیس اہلکار نعمان شاہ اور اوباوڑو میں ہیڈ کانسٹیبل سلطان رند کو مارا گیا میں ان کے گھر گیا، شکارپور میں زخمی اور شہید ہونے والے پولیس اہلکاروں کے گھر سب سے پہلے میں گیا تھا جب کہ سہراب گوٹھ میں ایس ایچ اور ٹیم نے ڈاکوؤں کو مارا میں نے تھانے جاکر انہیں شاباش اور انعام دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ ویڈیو پولیس کی نہیں اس کے پیچھے سازش ہے، ماحول پیدا کیا جارہا ہے کہ پولیس کی حلیم عادل شیخ سے دشمنی ہے اس کے ڈائریکٹر پروڈیوسر وزیراعلیٰ ہاؤس اور بلاول ہاؤس میں بیٹھے ہوئے ہیں، مراد علی شاہ اس کے اور اس کو کھوج کر نکالنے کے ذمے دار ہیں،پہلے کلاشنکوف آئی پھر سرکاری جی تھری آئی، میری اگر سیاسی مخالفت ہے تو وہ پی پی سے ہے جسے دشمنی بنادیا گیا۔ تحریک انصاف کے رہنما کا مزید کہنا تھا کہ اس پوری سازش کے پیچھے آصف زرداری، بلاول زرداری، مراد علی شاہ اور ان کے بہادر بچے ہیں، میں عمران خان کا سپاہی ہوں صرف اللہ کی ذات سے ڈرتا ہوں، ان ظالموں کے خلاف مظلوموں کی جنگ لڑتا رہوں گا۔
خیبرپختونخوا میں بلدیاتی انتخابات کے دوسرے مرحلے کے باعث پی ڈی ایم کا لانگ مارچ ملتوی ہونے کا امکان ہے۔ موقر اخبار روزنامہ جنگ کے مطابق پی ڈی ایم نے 23مارچ کو اسلام آباد کی طرف مہنگائی مارچ اعلان کر رکھا ہے،لیکن اب پی ڈی ایم کا لانگ مارچ ملتوی ہونے کا امکان ہے۔ پی ڈی ایم ذرائع کے مطابق خیبر پختونخوا میں دوسرے مرحلے کے بلدیاتی انتخابات 27مارچ کو ہونے جارہی ہیں، جسکی وجہ سے لانگ مارچ کی تحریک متاثر ہوسکتی ہے، اس لئے لانگ مارچ کی تاریخ تبدیل کرکے حتمی فیصلہ کیا جائیگا۔ مسلم لیگ ن کو 23 مارچ کا لانگ مارچ سُوٹ نہیں کرتا کیونکہ مسلم لیگ ن کو بلدیاتی الیکشن کے دوسرے مرحلے میں مانسہرہ، ایبٹ آباد، شانگلہ، سوات سے سیٹیں ملنے کی توقع ہے ۔ توقع یہی کی جارہی ہے کہ مسلم لیگ ن لانگ مارچ کی بجائے بلدیاتی الیکشن کو ترجیح دے گی یا لانگ مارچ کے بعد دھرنے کی مخالفت کرے گی۔ اگر پی ڈی ایم لانگ مارچ ملتوی کرتی ہے تو لانگ مارچ اپریل میں ہونے کا امکان کم ہے کیونکہ 2 اپریل کو متوقع طور پر رمضان المبارک کا مہینہ شروع ہونے جارہا ہے جس کی وجہ سے لوگوں کو باہر نکالنا مشکل ہوجائے گا،ملتوی ہونے کی صورت میں مئی کے مہینے میں عیدالفطر کے بعد لانگ مارچ کی تاریخ دی جاسکتی ہے۔ یہ بھی خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے کہ مئی میں گرمی کا زور ہوگا جبکہ جولائی میں حج اور عیدالاضحیٰ ہے۔ اگر مئی کے مہینے لانگ مارچ نہیں ہوتا تو لانگ مارچ مزید کئی ماہ ملتوی ہوسکتا ہے اور حکومت 4 سال پورے کرجائے گی۔ خیال رہے کہ گزشتہ روز آج لوگ مہنگائی کی وجہ سے خودکشیاں کررہے ہیں، 23 مارچ کو پوری قوم مہنگائی کے خلاف اسلام آباد کی طرف مارچ کرے گی، ہمارا مطالبہ عام انتخابات کا ہے انہوں نے خیبرپختونخوا بلدیاتی الیکشن پہلے مرحلے پر اطمینان کا اظہار کیا اور انہیں صاف شفاف الیکشن قراردیدیا
سندھ کےوزیراطلاعات و محنت سعید غنی نے وفاقی وزیر منصوبہ بندی اسد عمر کی تنقید پر جوابی وار کرتے ہوئے چوہوں کی کہانی کی مزید تفصیل بیان کردی ہے۔ تفصیلات کے مطابق پہلے وفاقی وزیر منصوبہ بندی اسد عمر نے اپنے ایک بیان میں سندھ حکومت کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا تھا کہ سندھ اپنی گندم خود پیدا کرتا ہے مگر پنجاب کی نسبت کراچی میں آٹا مہنگا ہے پتا نہیں صوبے میں کون سے چوہے ہیں جو صوبے کی ساری گندم بھی کھاگئے ہیں۔ اسد عمر کے بیان پر سندھ کے وزیراطلاعات و محنت سعید غنی نے جوابی وار کرتے ہوئے کہا پیپلزپارٹی کے ایک وزیر نے گندم چوری کا نوٹس لیا اور اسی وزیر نے چوری کرنے والے چوہوں کو بھی پکڑا ، ایسا ہی ایک چوہا کورونا فنڈ کے 40 ارب کھاگیا اور دوسرے چوہے نے ایل این جی کی خریداری میں 600 ارب روپے چوری بھی کرلیے، ملک میں آٹے اور چینی کا بحران پیدا کرنے میں بھی کچھ چوہے ہی ملوث تھے۔ سعید غنی نے مزید کہا کہ گندم چوری بھی اسی کے دور میں ہوئی جس کے پولنگ ایجنٹ خود عمران خان تھے، سندھ حکومت نے گندم چوری سے متعلق نیب کو خط بھی لکھ دیا ہے۔ واضح رہے کہ اسد عمر نے سندھ حکومت کو آج شدید تنقیدکا نشانہ بناتے ہوئے کہا تھا کہ سندھ میں پتہ نہیں انسانی نوعیت کےچوہےگندم کھاگئےیاپھریہ چوہےفالودےیاربڑی والےجیسےتھے، وہ کونساقانون ہےجوسندھ حکومت کواپنےشہریوں کیلئےویکسین خریدنےکیلئےروکتاہے ، کوروناکےمعاملےپرسیاست نہیں ہونی چاہیے۔
حکومت پنجاب نے یکم جنوری سے صوبے کے تین کروڑ 11 لاکھ خاندانوں کو نیا پاکستان صحت کارڈ کی سہولت لانچ کردی ہے جس کے تحت یہ کارڈ سرکاری و نجی دونوں ہسپتالوں میں علاج کے لیے استعمال ہوسکے گا۔ حکومت نے یکم جنوری سے پہلے نادرا سمیت تمام متعلقہ اداروں کو خاندانوں کا ڈیٹا مرتب کرنے کی ہدایت کی تھی کیونکہ صحت کارڈ کے لیے نادرا میں اندارج لازمی قرار دیا گیا ہے ۔۔ خیبرپختونخوا حکومت یہ سہولت بہت پہلے لانچ کرچکی ہے اور وہاں یہ سہولت بہت کامیابی سے چل رہی ہے۔ ڈی جی خان اور ساہیوال کی ڈویژنز کو یونیورسل ہیلتھ انشورنس کی سہولت پہلے ہی فراہم کی جا چکی ہے جبکہ دوسرے مرحلے میں لاہور اور راولپنڈی ڈویژن میں اس کے اجرا کا اعلان کیا گیا جبکہ پنجاب کی دیگر ڈویژن میں بھی یہ سہولت فراہم کی گئی ہے۔ صحت کارڈ کے حامل خاندان 10 لاکھ روپے تک کا سرکاری ونجی ہسپتالوں سے مفت علاج کروا سکیں گے۔ کارڈ کے ذریعے مہلک بیماریوں کا علاج مفت کرایا جاسکے گا۔ کن بیماریوں کا علاج ہوسکتا ہے؟ صحت کارڈ کے ذریعے مندرجہ ذیل بیماریوں کا مفت علاج ہوسکے گا۔ 1۔ دل کے امراض 2۔ ذیابیطس سے متعلق پیچیدگیوں کا علاج 3۔ حادثے کا شکار ہونیوالے افراد کا علاج اور سڑک حادثات سے متاثر ہونیوالوں کا علان 4۔ دل، جگر، گردوں اور پھیپھڑوں کا علاج 5۔ کالا یرقان 6۔ کینسر ٹریٹمنٹ 7۔ اعصابی نظام کی جراحی (سرجری) 8۔ گردوں کی بیماری کا علاج، کڈٹی ٹرانسپلانٹ جبکہ ثانوی علاج زچگی،زچگی کے آپریشن کے نتیجے میں ہونیوالی پیچیدگیوں، سی سیکشن، آپریشن زچگی کی پیچیدگیاں، بچے کی پیدائش سے قبل چار بار معائنہ اور پیدائش کے بعد ایک بار معائنہ جبکہ اس میں داخلے سے ایک دن قبل کی ادویات اور ہسپتال سے اخراج کے بعد مزید پانچ دن کی ادویات بھی شامل کارڈ کیسے استعمال کیا جا سکے گا؟ ترجمان پنجاب حکومت حسان خاور کے مطابق نیا پاکستان صحت کارڈ ہر خاندان کے سربراہ کو ملے گا۔ طلاق شدہ یا بیوہ خواتین کو بھی یہ کارڈ ملے گا۔ کارڈ بنوانے کے لیے صرف شناختی کارڈ لازمی ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ کابینہ کے فیصلے کے مطابق صحت کارڈ کے حامل شخص کا نام اور شناختی کارڈ نمبر کارڈ پر پرنٹ کیا جائے گا تاکہ خاندان کے کسی بھی مریض کا ڈیٹا کارڈ ہولڈر کے ریکارڈ سے تصدیق ہوسکے کیونکہ اس کارڈ سے بچوں اور نوجوانوں کا علاج بھی کرایا جاسکے گا۔ انہوں نے صحافیوں سے گفتگو میں کہا کہ یہ کارڈ مریض کے ساتھ نجی یا سرکاری ہسپتال میں مریض کے نام کے مطابق درج ہوگا اور مریض داخل ہونے، ہر طرح کے ٹیسٹ، ادویات، آپریشن یا دیگر سہولیات مفت فراہم کی جائیں گی۔ کون کونسے ہسپتالوں سے علاج کروایا جاسکتا ہے؟ صحافی اطہر کاظمی کے مطابق وہ ہسپتال جن کے سامنے سے گزرنے کا بھی غریب نہیں سوچ سکتا تھا اب صحت کارڈ پر وہاں سے علاج کروا سکتا ہے۔ لاہور کے مندرجہ ذیل مہنگے ترین ہسپتالوں میں صحت کارڈ پر علاج کروایا جاسکتا ہے۔ حمید لطیف، نیشنل،فاروق،سرجی میڈ،ڈاکٹرز ہسپتال، او ایم سی، PKLI وغیرہ لاہور ڈویژن میں کل 136 ہسپتال حکومت نے جن ہسپتالوں کی لسٹ جاری کی ہے ان میں شریف خاندان کےا تفاق ہسپتال اور شریف میڈیکل کمپلیکس بھی شامل ہیں۔ وفاقی وزیر مراد سعید نے لاہور ڈویژن جس میں لاہور، قصور، شیخوپورہ شامل ہیں، لسٹ شئیر کی ۔ ان کا کہنا تھا کہ اب لاہور ڈویژن کے ان ہسپتالوں سے بھی آپ صحت انصاف کارڈ کے زریعے مفت علاج کر سکتے ہیں ۔ ان ہسپتالوں میں لاہور کے حمید لطیف، نیشنل ہسپتال، ڈاکٹرز ہسپتال ، اتفاق ہسپتال اور شریف میڈیکل کمپلیکس بھی شامل ہیں
ملک بھر کے عوام مسائل سے پریشان۔۔ نہ وفاقی حکومت نہ صوبائی اور نہ ہی اپوزیشن ارکان عوام کے مسائل حل کرنے میں کامیاب ہوئے،عوام کا کہنا ہے کہ وفاقی حکومت، صوبائی حکومتیں اور اپوزیشن کوئی بھی عوام کی توقعات پر گزشتہ سال پورا نہیں اتر سکیں۔ اپسوس پاکستان نے اس حوالے سے نیا سروے جاری کردیا، جس کے مطابق اپوزیشن کی کارکردگی پر 56 فیصد پاکستانیوں نے عدم اطمینان کا اظہار کیا جبکہ 55 فیصد پاکستانیوں نے تحریک انصاف کی حکومتی کارکردگی کو توقعات سے خراب قرار دیا۔ سروے کے مطابق 13 فیصد لوگوں نے حکومتی کارکردگی کو توقعات سے بہتر کہا جبکہ 32 فیصد نے کہا کہ جیسی توقع کی تھی ویسے ہی پی ٹی آئی نے کارکردگی دکھائی،سروے میں کارکردگی سے مایوس 46 فیصد افراد ایسے ہیں جنہوں نے 2018 کے الیکشن میں پی ٹی آئی کو ووٹ دینے کا کہا۔ مہنگائی سے پریشان عوام حکومت اور اپوزیشن دونوں سے مایوس ہوچکے ہیں، آٹا، چینی، تیل ہر شے عوام کی پہنچ سے دور ہوچکی ہے، حکومت نے عوام کومہنگائی کے بوجھ تلے دبادیا ہے، لیکن حکومت اب بھی عوام کو سبز باغ دکھانے کی کوششوں میں ہیں۔
مسلم لیگ ن کے رہنما محمد زبیر نے کہا ہے کہ مریم نواز کی اپیل پر فیصلے کے بعد نواز شریف کی واپسی کا فیصلہ کیا جائے گا۔ نجی ٹی وی چینل سماء نیوز کے پروگرام لائیو ود ندیم ملک میں گفتگو کرتے ہوئے سابق گورنر سندھ محمد زبیر نے کہا کہ ہم ہر وہ کام کریں گے جس سے موجودہ حکومت خوف میں مبتلا ہوجائے، اگر نواز شریف کی واپسی سے حکومت میں خوف پیدا ہوتا ہے تو آجائیں گے اگر ان کی واپسی کی باتوں سے ان میں خوف آتا ہے تو ہم باتیں کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ مریم نواز کی ایک اپیل عدالت میں زیر سماعت ہے اس کیس میں مریم نواز کو ریلیف ملے گا کیونکہ موجودہ حکومت کو جو تانے بانے ملتے تھے ماضی میں جن کی بنیاد پر یہ اپوزیشن رہنماؤں کو سزائیں دلواتے تھے وہ ملنا بند ہوگئے ہیں اسی لیے مریم نواز کو عدالت سے ریلیف ملے گا کیونکہ ان کے خلاف کوئی کیس نہیں ہے۔ محمد زبیر نے کہا کہ جیسے ہی مریم نواز کو عدالتوں سے ریلیف ملے گا اس کے بعد مسلم لیگ ن نواز کی واپسی سے متعلق آئندہ کا لائحہ عمل طے کرے گی۔ انہوں نے کہا کہ مریم نواز کی اپیل کا فیصلہ ہمارے لیے ایک بہت بڑا اشارہ ہوگا۔ میزبان ندیم ملک نے کہا کہ اس کا مطلب ہے کہ آپ عدالتی فیصلے کے انتظار میں ہیں؟ محمد زبیر نے جواب دیا کہ ہمیں کہا جاتا ہے کہ عدالتی فیصلوں کو مانیں اب ہم مان رہے ہیں تو مسئلہ ہے، آپ میری بات ریکارڈ کرکے رکھ لیں کہ مریم نواز کی اپیل کا فیصلہ جب بھی آئے گا وہ مریم نواز کے حق میں آئے گا۔
ایم کیوایم پاکستان کے رکن قومی اسمبلی اسامہ قادری نے نجی ٹی وی چینل کے پرورگرام میں کہا کہ ہم پر پہلے دباؤ تھا اب نہیں ہے، اگر دباؤ ہوتا تو میری آواز میں اتنی گھن گرج نہ ہوتی۔ اے آر وائے کے پروگرام الیونتھ آر میں میزبان وسیم بادامی نے سوال کیا کہ کیا ایم کیو ایم پر کسی قسم کا کوئی دباؤ ہے اور اگر ہے بھی تو کیا یہ دباؤ سیاسی شخصیات کی طرف سے ہے یا کہیں اور سے بھی دباؤ ہے کہ بھائی ساتھ دو حکومت کا۔ اس پر حکومتی اتحادی جماعت ایم کیو ایم کے رکن قومی اسمبلی نے کہا کہ بڑے دکھ کے ساتھ یہ کہنا پڑتا ہے کہ ابھی تک ساڑھے تین سال میں ہم نے اپنے کندھوں پر یہ بوجھ برداشت کیا ہے۔ ہم پر پہلے دباؤ تھا مگر اب نہیں ہے اگر ہم پر اب بھی کوئی دباؤ ہوتا تو میری آواز میں ایسی گھن گرج نہ ہوتی۔ میزبان نے تصدیق کی کیا پہلے ان پر دباؤ تھا؟ تو اسامہ قادری نے کہا یقیناً۔ اسامہ قادری نے کہا کہ ہم نے پیپلزپارٹی کی حکومت کا ساتھ دیا ن لیگ کے بھی ساتھ رہے مگر اب ہم مزید اس چیز کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ کیونکہ اب حکومت کا ساتھ دینا ہمارے لیے مشکل ترین ہو گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ سب جانتے ہیں کہ ہماری ڈوریں کہاں سے ہلائی جاتی ہیں اور معاملات کو کیسے حل کیا جاتا ہے۔ رکن قومی اسمبلی اسامہ قادری نے کہا کہ اگر ایم کیوایم کو اپنے سیاسی دفاتر کھولنے اور سیاسی سرگرمیاں جاری رکھنے کی آزادی نہیں ہے تو مختلف قوتیں یہ فیصلہ کر لیں اور بتا دیں کہ وہ ایم کیو ایم کو سیاسی آزادی دینے کے موڈ میں نہیں ہیں۔ تاکہ ہمارا جو بھی اختیار ہو اس کے مطابق ہم اپنا فیصلہ خود کر لیں۔
قومی اسمبلی اجلاس، ہلڑ بازی کے دوران پی ٹی آئی کی رکن غزالہ سیفی سے بدتمیزی ، بازو مروڑا گیا قومی اسمبلی اجلاس کے دوران حکومتی اور اپوزیشن جماعتوں کے ارکین کے درمیان گرماگرمی کے دوران پی ٹی آئی کی خاتون رکن اسمبلی غزالہ سیفی سے بدتمیزی کی گئی اور ان کا ہاتھ مروڑا گیا جس کی وجہ سے ان کی انگلی مڑ گئی۔ خبررساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق قومی اسمبلی کے اجلاس کے دوران اپوزیشن اراکین کی جانب سے شدید احتجاج شروع کیا گیا اور اس دوران پیپلزپارٹی کے سینئر رہنما نوید قمر اور دیگر اپوزیشن اراکین نے حکومتی بینچز کا گھیراؤ کیا اور شدید نعرے بازی شروع کردی۔ اپوزیشن کے احتجاج کو دیکھتے ہوئے حکومتی بینچز سے بھی اراکین اٹھے اور انہوں نے اپوزیشن کو بھرپور جواب دینا شروع کیا جس سے ماحول مزید گرم ہوگیا اسی دوران پاکستان تحریک انصاف کی رکن قومی اسمبلی غزالہ سیفی کا ہاتھ مروڑا گیا ۔ ایوان کے اندر اس نامناسب اور افسوسناک واقعہ پر دلبرداشتہ ہوکر غزالہ سیفی اسمبلی سے باہر چلی گئیں، باہر نکل کر انہوں نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پیپلزپارٹی کے ایک رکن اسمبلی نے میرا بازو مروڑا ہے ایسا لگتا ہے کہ میری انگلی میں فریکچر ہوگیا ہے۔ واقعہ سے متعلق تفصیلات بتاتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اپوزیشن بینچز سے خواتین اراکین مردوں کی طرف آئیں اور انہوں نے کاغذ پھاڑ پھاڑ کر وزیر خزانہ کی جانب پھینکنا شروع کردیا ، میں نے انہیں منع کرنے کی کوشش کی تو پیپلزپارٹی کی خاتون رکن نے مجھ پر ہاتھ اٹھایا اور میرا ہاتھ مروڑدیا، میں نے اپنے دفاع کیلئے جواب میں ان پر ہاتھ اٹھایا کیونکہ میں ایسی صورتحال میں خاموش نہیں رہ سکتی تھی۔ انہوں نے مزید کہا کہ میں آج کے اس واقعہ پر بہت افسردہ ہوں ، لوگ ہم پر رشک کرتے ہیں ہم عوام کی نمائندگی کرتے ہیں، مگر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اسمبلی میں جاہلوں کا لشکر آگیا ہے، اگر اپوزیشن کو اتنا ہی لڑائی جھگڑے کا شو ق ہے تو سڑکوں پر جائیں، مجھے سمجھ نہیں آتا ایسے لوگ کہاں سے آتے ہیں۔
وزیراعظم عمران خان کی زیرصدارت پارلیمانی پارٹی کے اجلاس میں اراکین نے منی بجٹ اور اسٹیٹ بینک قانون کے حوالے سےوزیرخزانہ شوکت ترین پر سخت سوالات کی بوچھاڑ کردی ہے۔ خبررساں ادارے ایکسپریس نیوز کی رپورٹ کے مطابق وزیراعظم عمران خان کی زیر صدارت حکومتی و اتحادی جماعتوں کی پارلیمانی پارٹی کا اجلاس ہوا جس میں وزیر خزانہ شوکت ترین نے اراکین کو منی بجٹ کے حوالے سے بریفنگ دی ہے۔ رپورٹ کے مطابق اجلاس کی اندرونی کہانی منظر عام پر آگئی ہے جس کے مطابق پارلیمانی پارٹی کے اجلاس میں شریک اراکین نے منی بجٹ، مہنگائی اور اسٹیٹ بینک کی خود مختاری کے حوالے سے شوکت ترین پرسخت سوالوں کی بوچھاڑ کردی اور اپنے تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ اجلاس میں وزیراعظم عمران خان نے اراکین کو یقین دلایا کہ ہماری حکومت میں کوئی ایسا کام نہیں کیا جائے گا جس سے ملکی سالمیت متاثرہو۔ اجلاس میں شریک اراکین نے مہنگائی کے حوالے سے اپنے تحفظات کا اظہار کیا، صالح محمد نے کہا کہ مہنگائی پہلے ہی تاریخ کی بلند ترین سطح پر ہے اس پر منی بجٹ سے مہنگائی میں مزید اضافہ ہوگا، سلیم الرحمان نے اس موقع پر کہا کہ وزارت خزانہ نے عوام کو مارکیٹ کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا ہے، ڈالر 180 سے تجاوز کرگیا ہے، خان محمد جمالی نے کہا کہ آپ کا دعویٰ ہے کہ ہر سیکٹر ترقی کررہا ہے پھر عوام پر نئے ٹیکسز کیوں عائد کیے جارہے ہیں؟ رکن قومی اسمبلی رمیش کمار نے اسٹیٹ بینک سے متعلق قانون پر اپنے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اسٹیٹ بینک کی خودمختاری پر کسی کو اعتراض نہیں ہے مگر آئی ایم ایف کی شرائط قابل تشویش ہے، اس حوالے سے پارلیمنٹ اور عوام کو اعتماد میں لیا جانا چاہیے۔ شوکت ترین نے اراکین کے سوالوں کے جواب میں کہا کہ ہم نے آئی ایم ایف کا ہر مطالبہ نہیں مانا بلکہ مذاکرات کرکے شرائط کو نرم کروایا ہے، افغانستان کی صورتحال کی وجہ سے ڈالر ریٹ زیادہ ہے، کوشش کریں گے آئندہ چند روز میں مصنوعی اضافے کو کنٹرول کرلیں گے، ہماری حکومت کی پالیسی ہے کہ اداروں کو خود مختار بنایا جائے۔
سینئر صحافی و ماہر معیشت شہباز رانا نے کہا ہے کہ یہ حقیقت ہے کہ حکومت اسٹیٹ بینک کو عالمی مالیاتی اداروں کی تحویل میں دینے کی تیاری کررہی ہے، مہنگائی کی نئی لہر کے بعد 25 سے 30ہزار کمانے والے طبقے کیلئے حالات بدترین ہوجائیں گے۔ نجی ٹی وی چینل جی این این کے پروگرام "خبرہے" میں خصوصی گفتگو کرتے ہوئے شہباز رانا نے کہا کہ گزشتہ روز وفاقی کابینہ نے جو اسٹیٹ بینک آف پاکستان کاترمیمی بل منظور کیا ہے ،مارچ 2021 میں بھی وفاقی کابینہ نے بغیر پڑھے اسٹیٹ بینک کا ترمیمی بل منظور کیا تھا ، ان دونوں بلوں میں زیادہ فرق نہیں ہے، اس بل میں ایسی بہت سی چیزیں ہیں جس کے نتیجے میں پاکستان کی معاشی خودمختاری سرنڈر ہوجائے گی۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس بل کی ایک شق کے تحت وفاقی حکومت اسٹیٹ بینک سے قرضے نہیں لے سکے گی، کمرشل بینکوں سے قرض لے گی مگر یہ قرضے بہت ہی مہنگے ثابت ہوں گے ، کمرشل بینک حکومت کی اس کمزوری کو دیکھتے ہوئے شرح سود کے معاملے میں یا اپنے مطالبات منوانے کے ذریعے حکومت کا استحصال کریں گے، اس بل کی منظوری کے بعد پاکستان کی معیشت مکمل طور پر عالمی مالیاتی اداروں کے ذریعے کنٹرول کی جائے گی۔ شہباز رانا نے مزید کہا کہ 25 سے 30 ہزار روپے ماہانہ کمانے والوں کیلئے اللہ ہی حافظ ہے ، اس کے بجلی گیس کے بل ہی پورے نہیں ہونے کھانے پینے کی باتیں تو بعد کی ہیں، حکومت کی جانب سے منظور کردہ منی بجٹ کی وجہ سے مہنگائی کی ایک نئی لہر آنے والی ہے۔ انہوں نے کہا کہ جن چیزوں پر حکومت نئے ٹیکسز عائد کرنے جارہی ہے اس میں بیکری آئٹمز، پیکڈ ڈیری مصنوعات، مرچیں، نمک،سلائی مشینوں جیسے عام انسان کے استعمال کی مصنوعات پر حکومت 17 فیصد جنرل سیلز ٹیکس عائد کرنے جارہی ہے۔
گیلپ پاکستان کے مطابق 43 فیصد پاکستانیوں نے آئندہ برس ملک کے حالات بہتر ہونے کی پیش گوئی کی ہے۔ گیلپ پاکستان کی جانب سے عوام کی آرا پر مبنی نیا سروے جاری کیا گیا ہے ،گیلپ پاکستان اور گیلپ انٹرنیشنل کے ا س سروے میں پاکستان سمیت 44 ممالک کے 45 ہزار سے زائدافراد نے حصہ لیا۔ جس کے مطابق 41 فیصد پاکستانی مستقبل سے مایوس ہیں جبکہ 43 فیصد پاکستانی آئندہ برس ملکی حالات بہتر ہونے کے حوالے سے پرامیدنظر آتے ہیں۔7 فیصد درمیانہ موقف رکھتے ہیں جبکہ 9 فیصد نے کوئی رائے نہیں دی۔ ملک میں آئندہ سال بہتری کی امید ظاہر کرنے والے پاکستانیوں کی شرح بھارت کے مقابلے میں کم ہے۔ بھارت میں 54 فیصد افراد نے اگلے سال بہتری کی امید کا اظہار کیا ہے جبکہ 24 فیصد مایوس نظر آتے ہیں۔ پاکستان کے ہمسایہ ملک افغانستان میں 56 فیصد شہری اپنے مستقبل سے مایوس ہیں اور 24 فیصد پرامید ہیں۔ سب سے زیادہ مایوس افراد کی فہرست میں ترکی نظر آیا جہاں سکور منفی 34 فیصد رہا جبکہ انڈونیشیا میں سب سے زیادہ 72 فیصد افراد پرامید ہیں/ سروے میں پاکستانیوں کے مستقبل سے پُرامید ہونے کا نیٹ اسکور بھی 17 فیصد سے 2 فیصد پر آگیا ہے۔
مسلم لیگ ن کے سینئر رہنما ایاز صادق پارٹی قائد میاں نواز شریف کی واپسی سے متعلق اپنےبیان پر ڈٹ گئے ہیں۔ خبررساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق سابق اسپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق نے ایکسپریس نیوز کے پروگرام ٹو دی پوائنٹ میں خصوصی گفتگو کی اور کہا کہ میری لندن میں میاں نواز شریف سے ملاقات ہوئی ، میں نے ان سے وطن واپسی سے متعلق سوال کیا مگر انہوں نے کوئی جواب نہیں دیا۔ شاہد خاقان عباسی کی جانب سے ایاز صادق کے بیان کو ذاتی رائے قرار دیئے جانے سے متعلق سوال کے جواب میں ایاز صادق نے کہا کہ شاہد خاقان عباسی کا بیان ٹھیک ہے کیونکہ جو میں نےکہا وہ میری ذاتی رائے ہے پارٹی کی رائے یا اعلامیہ نہیں ہے، تاہم میں نواز شریف کی واپسی سے متعلق اپنے بیان پر قائم ہوں۔ انہوں نے مزید کہا کہ نواز شریف کی واپسی کے بارے میں حکومتی بوکھلاہٹ سمجھ سے بالاتر ہے، نواز شریف نہیں آتے تو بھی اور آنے کا اعلان کرتے ہیں تو حکومت بوکھلاہٹ کا شکار ہوجاتی ہے، اگر حکومت نواز شریف کو واپسی لاسکتی ہے تو اب تک لائی کیوں نہیں؟ ایاز صادق نے مزید کہا سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کی آڈیو لیک کی حقیقت جاننے کیلئے اس کی فرانزک کروالیں دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوجائےگا، میں شیخ رشید کی طرح جھوٹی پیشگوئیاں کرنے والا نجومی نہیں ہوں مگر اتنا محسوس کرسکتا ہوں کہ کچھ نہ کچھ بڑا ہونے والا ہے۔
نیب کے نئے چیئرمین کیلئے تلاش جاری ہے، نئے چیئرمین کے لیے ممکنہ امیدواروں کے نام سامنے آنے کے بعد باضابطہ طور پر تلاش شروع کردی گئی ہے،ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق امیدواروں میں حاضر سروس اور ریٹائرڈ بیوروکریٹس کے ساتھ سپریم کورٹ کے ایک سابق جج بھی شامل ہیں۔ ذرائع کے مطابق حکومت سیکریٹری داخلہ یوسف نسیم کھوکھر، سیکریٹری مذہبی امور کیپٹن (ر) سردار اعجاز احمد خان جعفر اور وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) کے سابق ڈائریکٹر جنرل محمد عامش کے ناموں پر غور کر رہی ہے،رواں ماہ کے آغاز میں وزارت قانون و انصاف نے نیب کے نئے چیئرمین کے تقرر کے لیے عمل شروع کیا اور سمری منظوری کے لیے صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کو بھجوائی۔ دوسری جانب وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے ایسی کسی بھی قسم کی پیش رفت کی تردید کردی، ٹوئٹر پر انہوں نے کہا کہ حکمراں جماعت پاکستان تحریک انصاف نے اب تک چیئرمین نیب کے لیے کوئی نام تجویز نہیں کیا اور اس خبر کو غلط قرار دیا،نیب کے نئے سربراہ کے بارے میں مناسب مشاورت کے بعد فیصلہ چند دنوں میں کیا جائے گا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ اپوزیشن جماعتوں کی چار رکنی کمیٹی نے جسٹس (ر) دوست محمد خان، سابق بیوروکریٹس ناصر سعید خان کھوسہ، سلمان صدیق اور جلیل عباس جیلانی کو اس عہدے کے لیے تجویز کیا تھا،جمعیت علمائے اسلام (ف) نے سپریم کورٹ کے سابق جج جسٹس دوست محمد خان کی حمایت کی۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) نے پنجاب کے سابق چیف سیکریٹری ناصر سعید خان کھوسہ کے ساتھ سابق وفاقی سیکریٹری سلمان صدیق کو بھی نامزد کیا جبکہ پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) نے سابق سیکریٹری خارجہ جلیل عباس جیلانی کو نیب کے اعلیٰ عہدے کے لیے تجویز کیا ہے۔ چیئرمین جسٹس جاوید اقبال ریٹائرڈ کی مدت اکتوبر میں ختم ہو گئی تھی،حکومت نے صدارتی آرڈیننس کے ذریعے ان کی مدت ملازمت میں توسیع کی تھی،قومی احتساب آرڈیننس میں حالیہ ترامیم سے جاوید اقبال کو اس وقت تک کام جاری رکھنے کی اجازت دی گئی جب تک ان کا متبادل نہیں آجائے،وزارت قانون نے صدر پاکستان کو بھیجی گئی سمری میں نشاندہی کی کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں صدر کو نیب چیئرمین کے تقرر کے لیے وزیر اعظم اور قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر سے مشاورت کرنی تھی۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے سماعت شروع کی تو برطانیہ سے آیا رانا شمیم کا بیان حلفی عدالت کے سامنے پیش کیا گیا۔ اس دوران چیف جسٹس نے رانا شمیم کو روسٹرم پر بلا لیا اور انہیں لفافہ کھولنے کا حکم دیا اور کہا کہ یہ پہلئ کورئیر ڈلیوری ہے جسے میں نے وصول کیا۔ رانا شمیم نے بند لفافے پر ہاتھ پھیر کر لفافہ عدالتی عملے کو دے دیا اور کہا کہ آپ کھول دیں کہیں مجھے کٹر نہ لگ جائے۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ انہوں نے یہ بھی بتانا ہے کہ کہاں یہ بیان حلفی دیا اور کون کون وہاں تھا، کس نے کس کو لیک کیا۔ اس دوران اٹارنی جنرل نے طنز کیا کہ مجھے بیان حلفی دکھا دیں، ذرا دیکھ تو لوں کہ اس کا فونٹ بھی کہیں کیلبری والا نہ نکلے۔ اٹارنی جنرل پاکستان خالد جاوید خان کا معنی خیز جملہ کہا کہ معلوم نہیں اس بند لفافے میں موجود بیان حلفی پر کس کس کے فنگر پرنٹ ہوں؟؟ ؟ اٹارنی جنرل نے اعتراض اٹھایا کہ یہ بیان حلفی سیل نہیں ہے۔ جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ رانا شمیم نے جو جواب جمع کرایا اس میں سارا بوجھ انصار عباسی صاحب پر ڈال رہے تھے ، انہوں نے کہا تھا کہ یہ سیل تھا اور کسی کے ساتھ شیئر نہیں کیا۔ اٹارنی جنرل کے ریمارکس پر اٹارنی جنرل اور رانا شمیم آمنے سامنے آگئے۔ اٹارنی جنرل نے رانا شمیم کو دوٹوک جواب دیا کہ مجھے نہ بتائیں کہ میرا کام کیا ہے؟؟ میں بہتر جانتا ہوں کہ میرا کام اور ذمہ داری کیا ہے؟؟؟ رانا شمیم اور انکے وکیل لطیف آفریدی نے اٹارنی جنرل پر اعتراض اٹھایا تو چیف جسٹس نے رانا شمیم کو روک دیا چیف جسٹس ہائیکورٹ نے کہا کہ اس بیان حلفی کو اب ہم کہاں رکھیں تو اٹارنی جنرل پاکستان نے کہا کہ اسے اب آپ اپنی ہی تحویل میں رکھیں گے، بعد ازاں اسلام آباد ہائیکورٹ نے بیان حلفی کو دوبارہ سیل کرنے کا حکم دے دیا۔ دوران سماعت انصار عباسی، عامر غوری اور رانا شمیم کا دفاع اور اٹارنی جنرل پاکستان خالد جاوید خان نے دلائل دئیے انصار عباسی نے کہا کہ رانا شمیم کو شاید یاد نا ہو کہ ان سے میری بات خبر شائع ہونے سے پہلے ہوئی تھی ، شاید ان کو یاد نہیں ان سے میری جو بات ہوئی وہ اسٹوری میں بھی موجود ہے، انہوں نے مجھے میسج کے ذریعے کنفرم کیا تھا کہ یہ بیان حلفی درست ہے، رانا شمیم نے مجھے نہیں بتایا کہ یہ دستاویز ذاتی اور ناقابل اشاعت ہے۔ انصار عباسی نے سارا ملبہ رانا شمیم پر ڈال دیا اور کہا کہ میرا کام بیان حلفی چھاپنا تھا،بیان حلفی میں جو لکھا ہے اس کا دفاع کرنا، ثابت کرنا رانا شمیم کا کام ہے۔ جسٹس اطہرمن اللہ کا عامر غوری سے سوال کیا کہ میرے بارے میں مہم چلی کہ میں نے نواز شریف اور مریم نواز کو ضمانت دینے کے عوض لندن میں فلیٹ لیا، اگر کوئی یہی بات کسی بیان حلفی پر لکھ کر دے دیتا تو کیا آپ چھاپ دیتے؟؟؟ چیف جسٹس نے مزید سوال کیا کہ اگر اس عدالت میں کوئی ہائی پروفائل کیس چل رہا ہو اور کوئی اس کیس پر اثر انداز ہونے کے لیے جھوٹا بیان حلفی دے دے تو آپ چھاپ دیں گے؟؟ چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے رانا شمیم کے وکیل لطیف آفریدی سے سوال کیا کہ کل اگر کلبھوشن یہ بیان حلفی دے دے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کمپرومائزڈ ہے، تو کیا اس بیان حلفی کو درست مان کر اس کا کیس روک دیا جائے گا؟؟؟ لطیف آفریدی ایڈووکیٹ نے کہا کہ یہ غریب (رانا شمیم ) اب سارا دن ٹینشن میں رہتا ہے،اٹارنی جنرل پاکستان کا بھی پریشر ہے۔ جسٹس اطہر من اللہ نے سوال کیا رانا شمیم کے بیان حلفی کا بیفشری کون ہے؟؟ جس پر رانا شمیم کے وکیل لطیف آفریدی نے جواب دیا کہ مجھے نہیں معلوم۔ وکیل لطیف آفریدی نے کہا کہ رانا شمیم نے انصار عباسی کو کال کرنے پر یہی کہا تھا کہ یہ ایک پرائیویٹ ڈاکومنٹ ہے، آپ کو کیسے ملا؟؟ فاضل چیف جسٹس نے مزید استفسار کیا کہ اگر رانا شمیم کے مطابق نوٹری پبلک نے ان کی اجازت کے بغیر بیان حلفی لیک کیا اور انصار عباسی نے بیان حلفی چھاپ کر ان کی پرائیویسی بریچ کی تو انہوں نے نوٹری اور انصار عباسی کے خلاف کیا کارروائی کی؟؟ اس دوران پاکستان بار کونسل کے وکیل امجد شاہ بھی روسٹرم پر آئے اور اٹارنی جنرل پاکستان خالد جاوید خان پر اعتراض اٹھادیا جس پر چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ جسٹس اطہرمن اللہ نے پاکستان بار کونسل کے اس کیس میں کردار پر بھی سوالات اٹھا ئے۔ انہوں نے کہا کہ میرا اور عدالت کا احتساب ہونا چاہئیے، اس عدالت سے جس نےبھی رجوع کیا اس کو ریلیف ملا، اس عدالت کا کنسرن صرف اپنے آپ کے ساتھ ہے، اس عدالت کی آزادی کے لئے آپ کا ہونا بہت ضروری ہے۔ عرفان ہاشمی کی خبر کا معاملہ اسلام آباد ہائی کورٹ پہنچ گیا......! عرفان ہاشمی کی خبر کا معاملہ اٹارنی جنرل پاکستان خالد جاوید خان نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں اٹھا دیا حیران کن طور پر کسی نے اس خبر کی تردید نہیں کی، اٹارنی جنرل پاکستان خالد جاوید خان جن کا گھر تھا وہ خاموش ہیں، تین دن گزر گئے، تردید نہیں کررہے، اٹارنی جنرل
سینئر تجزیہ کار عارف حمید بھٹی نے کہا ہے کہ پارٹی کی تنظیم نو کرنے سے کچھ نہیں ہوتا کھلاڑی بدلتے بدلتے ایک دن ٹیم کا کپتان بدلنا پڑتا ہے۔ نجی ٹی وی چینل ہم نیوز کے پروگرام"بریکنگ پوائنٹ ود مالک" میں گفتگو کرتے ہوئے عارف حمید بھٹی نے کہا کہ جس طرح ملک چل رہا ہے ایسے ملک نہیں چلتے ، اس وقت آپشن یہ ہے کہ اگر عمران خان کی حکومت نہیں چل رہی تو اگلی حکومت تشکیل دی جائے اور اگر عمران خان اسمبلی سےمنی بجٹ منظور کروالیتے ہیں تو یہ اچھی بات ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت بجٹ منظور کروائے یا گھر جاکر نئی حکومت آئے لیکن کب تک آپ کسی کو سہارا دیتے رہیں گے؟ کب تک دوسروں کی برائیاں اپنے گریبان میں ڈالتے رہیں گے؟ آج گلی محلے میں سروے کریں لوگ عمران خان کچھ نہیں کہتے وہ جو کہتے ہیں وہ حقیقت ہے مگر ہم سب کے پر جلتے ہیں مگر بات یہ ہے کہ کبھی تو آپ کو غیر جانبدار ہونا ہے نا ۔ میزبان محمد مالک نےسوال کیا کہ پارٹی کی پرانی تنظیم کو ختم کرکے نئی تنظیم سازی کی گئی کیا وزرائے اعلی کو تبدیل کیے بغیر الیکشنز میں کامیابی ممکن ہے؟ عارف حمید بھٹی نے کہا کہ پارٹی کی تنظیم نو کرنے سے کیا ملک میں مہنگائی ختم ہوگئی ہے کیا گڈ گورننس شروع ہوگئی، عمران خان جو مرضی کرلیں ، وزیراعلی پنجاب عثمان بزدار عمران خان کی اسمبلی کو تالا لگا کر جائیں گے ، بار بار شکست ہورہی ہے تو فیلڈر تبدیل کررہے ہیں مگر آخر میں کپتان تبدیل کرنا پڑتا ہے جو مجبوری ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اسٹیبلشمنٹ کے پاس یہ سنہری موقع ہے کہ خدارا خود کو غیر جانبدار کرلیں، حقیقت یہ ہے کہ حکومتی وزراء خود منی بجٹ کی حمایت نہیں کررہے مگر اسٹیبلشمنٹ یہ بل منظور کرواسکتی ہے مگر فون کرنے والے بہادر دلیر لوگ بھی یہ قبول نہیں کرتے تو ہم یہ کیسے ثابت کرسکتے ہیں۔
ڈی جی آئی ایس آئی اپنی تصویر میڈیا پر کیوں نہیں لانا چاہتے تھے؟ انصار عباسی کا آئی ایس آئی چیف جنرل لیفٹیننٹ جنرل ندیم انجم سے متعلق انکشاف پیر کو قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس ہوا۔ جس میں ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل ندیم نے بھی شرکت کی۔ تاہم، حکومت کی جانب سے میڈیا میں جاری کی جانے والی تصاویر اور ویڈیوز میں سب کو دیکھا جا سکتا ہے لیکن ڈی جی آئی ایس آئی کو نہیں۔ اس پر غریدہ فاروقی سمیت کچھ صحافیوں نے سوالات اٹھائے، غریدہ فاروقی نے ایک ٹویٹ میں ڈی جی آئی ایس آئی کو نہ دکھانے پر سوال کیا اور بعد ازاں معاملہ کی نزاکت کا احساس ہونےپر ٹویٹ ڈیلیٹ کردیا ان خبروں پر فواد چوہدری نے ندیم ملک کے سوال کا جواب دیا کہ آئی ایس آئی چیف میٹنگ میں موجود تھے اور مختلف فوٹیجز ہیں۔ ڈی جی آئی ایس آئی کیوں اپنی تصاویر یا فوٹیجز جاری نہیں کرانا چاہتے تھے؟ اس پر معروف صحافی انصار عباسی کا کہنا ہے کہ آئی ایس آئی سربراہ جنرل ندیم انجم نے تمام متعلقہ حکام سے کہا ہے کہ کسی بھی سرکاری اجلاس میں لی گئیں اُن کی تصاویر یا ویڈیو فوٹیج میڈیا میں جاری نہ کی جائیں۔ اپنے آرٹیکل میں انہوں نے ایک وفاقی وزیر کا بھی حوالہ دیا جن کا کہنا تھا کہ آئی ایس آئی سربراہ خود نہیں چاہتے تھے کہ انکی فوٹیجز جاری ہوں ، یہی وجہ ہے کہ حکومت نے اُن کی تصاویر یا ویڈیو فوٹیج جاری نہیں کیں۔ ان کا کہنا تھا کہ کہ یہی وجہ ہے کہ جب سے انہوں نے عہدہ سنبھالا ہے میڈیا میں اُن کی کوئی تصویر یا ویڈیو جاری نہیں کی گئی۔ آئی ایس آئی سربراہ کے اس اقدام کو فوج کے سابق عہدیداروں نے سراہا ہے، انکے نزدیک موجودہ آئی ایس آئی سربراہ نے یہ اقدام کرکے اچھی روایت قائم کی ہے۔ لیفٹننٹ جنرل (ر) امجد شعیب کا کہنا تھا کہ انٹیلی جنس سروس کا بنیادی اصول یہ ہوتا ہے کہ میڈیا کی نظر سے دور رہا جائے۔ ماضی میں انٹیلی جنس چیفس کی تصاویر اور ویڈیوز میڈیا میں جاری کرکے اس اصول کی خلاف ورزی ہوتی رہی ہے انکےمطابق عموماً دنیا میں انٹیلی جنس سربراہان کو عوام نہیں جانتے اور یہی وجہ ہے کہ ان کا چہرہ اور شناخت خفیہ رکھے جاتے ہیں۔ پاکستان میں بھی یہ روایت تھی لیکن افغان جنگ کے دوران یہ روایت دم توڑگئی جب جنرل حمید گل اور جنرل جاوید ناصر آئی ایس آئی چیفس تھے۔ ماضی میں آئی ایس آئی میں خدمات انجام دینے والے میجر جنرل ریٹائرڈ اعجاز اعوان کا کہنا تھا کہ موجودہ آئی ایس آئی چیف اس انداز سے کام کر رہے ہیں کہ وہ میڈیا میں اپنی تشہیر نہیں چاہتے۔ یہ بہت خوش آئند ہے۔لوگوں کو چہرہ دیکھ کر پتہ نہیں چلنا چاہئے کہ انٹیلی جنس آپریٹر کون ہے۔

Back
Top