سیاسی

پاکستان مسلم لیگ ن کے قائد میاں نواز شریف اور ان کی صاحبزادی اور پارٹی کی نائب صدر مریم نواز نے سابق وزیراعظم بینظیر بھٹو شہید کی برسی پر ان کو خراج تحسین پیش کیا ۔ پاکستان مسلم لیگ ن کے قائد نواز شریف نے اپنے ٹویٹر پیغام میں کہا کہ میں نہ تو شہید محترمہ بے نظیر بھٹو کی ناگہانی اور تکلیف دہ موت کو بھولا ہوں اور نہ ہی اس عہد کو بھولا ہوں جو ہم نے جمہوریت اور سول بالادستی کو مضبوط کرنے کے لیے کیا تھا، میں اس دن کے لیے جدوجہد کر رہا ہوں جس دن پاکستان ایک حقیقی جمہوریت بنے گا، انشاء اللہ۔ شہید محترمہ بے نظیر بھٹو ، آپ ابدی سکون سے آرام کریں۔ آمین۔ مسلم لیگ ن کی نائب صدر مریم نواز نے اپنی ٹویٹ میں لکھا کہ شہید محترمہ بینظیر بھٹو کی برسی پر میری دعائیں ان کے ساتھ ہیں، مجھے آج بھی وہ اداس دن یاد ہے جب میرے والد اور خاندان کے سبھی افراد سوگوار اور غمزدہ تھے جیسے ہمارے خاندان کا کوئی فرد ہمیں چھوڑ کر چلا گیا ہو۔ آخر میں انہوں نے لکھا کہ اللہ تعالیٰ بینظیر بھٹو شہید پر رحمت کرے اور جنت میں جگہ دے۔ دوسری جانب محترمہ بے نظیر بھٹو کی برسی پر مسلم لیگ ن کے صدر اور قائد حزب اختلاف شہباز شریف نے اپنے بیان میں کہا کہ بے نظیر بھٹو اسلامی دنیا کی پہلی خاتون وزیراعظم، جمہوریت کی ایک دلیر آواز اور ایک بہادر و مقبول عوامی قائد تھیں، ان کی شہادت پاکستان ہی نہیں دنیا کی تاریخ کا ایک سانحہ ہے۔ شہباز شریف کا کہنا تھا کہ محترمہ بے نظیر بھٹو کو خراج عقیدت پیش کرتے ہیں، اللہ تعالی ان کو جنت الفردوس میں اعلی مقام عطا فرمائے اور لواحقین و وابستگان کو صبرجمیل دے۔
بے نظیر کی برسی کے موقع پر آصف زرداری گڑھی خدابخش میں ہونے کی بجائے اسلام آباد میں کیا کررہے ہیں؟ اہم سوالات اٹھ گئے آج 27 دسمبر ہے ،شہید بے نظیر بھٹو کی 14 ویں برسی ہے۔ آج سے 14 برس پہلے لیاقت باغ میں انتخابی مہم کے دوران ایک دہشتگردی کے نیتجے میں سابق وزیراعظم محترمہ بے نظیر بھٹو جان سے گئی تھیں لیکن آج آصف زرداری اپنی اہلیہ کی برسی کے موقع پر گڑھی خدابخش کی بجائے اسلام آباد میں ہیں۔ آصف علی زرداری کی اسلام آباد آمد کو خاصا معنی خیز اور اہم قرار دیا جارہا ہے کیونکہ وہ اپنی شریک حیات کی برسی کے موقعہ پر ہونے والے اجتماع میں بھی شرکت نہیں کریں گے اور اسلام آباد میں ہی کچھ دن قیام کریں گے۔ممکن ہے کہ آصف زرداری برسی کی تقریب سے ٹیلیفونک خطاب کریں۔ ایک اخبار کے مطابق آصف زرداری کے اسلام آباد آنے کا مقصد سپیکرقومی اسمبلی، چیئرمین سینیٹ کے خلاف ممکنہ تحاریکِ عدم اعتماد پربھی حکمت عملی پر مشاورت کرنا، حکومت کو ٹف ٹائم دینا ہے ۔ برسی میں شرکت کی بجائے آصف زرداری کی اسلام آباد موجودگی کو سلیم صافی اور دیگر صحافی نے خاصا معنی خیز قراردے رہے ہیں۔ اس پر جنگ جیو کے صحافی سلیم صحافی کا کہنا ہے کہ آج محترمہ بے نظیر بھٹو کی برسی ہے لیکن آصف علی زرداری پراسرار اور خفیہ دورے پر اسلام آباد آئے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اس بارے میں پارٹی رہنماوں کو بھی معلوم نہیں۔ سمجھ تو گئے ہوں گے کہ عمران خان کیوں پریشان ہے۔ کچھ حلقوں کے مطابق بے نظیر کی برسی پر آصف زرداری کی اسلام آباد موجودگی انکی سیاسی چال ہوسکتی ہے اور اس سے وہ تاثر دینے کی کوشش کررہے ہیں کہ انکے مقتدرحلقوں سے رابطے ہیں اور اس سلسلے میں وہ اسلام آباد میں مصروف ہیں۔ کچھ روز قبل ہی انصارعباسی نے عسکری ذرائع کے حوالے سے کہا تھا کہ آصف زرداری کے دعوؤں میں کوئی صداقت نہیں ہے انصارعباسی کے مطابق عسکری ذریعے نے کہا تھا کہ آصف زرداری کو چاہئے کہ وہ اُس شخص کا نام بتائیں جس نے ان سے اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے ملاقات کرکے مستقبل کے سیٹ اپ کے حوالے سے مدد مانگی ہے۔ عسکری ذریعے نے آصف زرداری کے بیانات پر اظہارافسوس بھی کیا تھا اور اسے افسوسناک اور غیرذمہ دارانہ قراردیا تھا۔ آصف زرداری کے ڈیل کا تاثر دینے پر یہ دعویٰ بھی کیا جارہا ہے کہ آصف زرداری ان خبروں کی وجہ سے متحرک ہوئے ہیں کہ نوازشریف اور اسٹیبلشمنٹ کی ڈیل ہونے جارہی ہے اور وہ اس ڈیل کو خراب کرنے یا اپنا حصہ وصول کرنے کیلئے یہ تاثر دینے کی کوشش کررہے ہیں جیسے مقتدر حلقے ان سے رابطے میں ہیں۔ جنگ جیو کے صحافی فاروق اقدس نے اپنے آج کے آرٹیکل میں دعویٰ کیا ہے کہ جے یو آئی کے ذرائع اس حوالے سے تصدیق یا تردید نہیں کر رہے لیکن گزشتہ دنوں زرداری کے ایک ’’پیغامبر‘‘ نے کراچی میں فضل الرحمان سے ایک تقریب میں شرکت کے دوران ملاقات کی تھی اور دونوں شخصیات کی ملاقات کیلئے وقت اور مقام کا تعین بھی کیا گیا تھا۔ یہ امربھی دلچسپی سے خالی نہیں کہ جب آصف زرداری متحرک ہوتے ہیں تو بلاول بھٹوزرداری پیچھے چلاتے ہیں اور انکے فعال ہونے کی وجہ سےبلاول کی سرگرمیاں محدود کر دی گئی ہیں اور کافی دنوں سے بلاول سیاسی منظر سے غائب ہیں۔ دوسری جانبسابق وفاقی وزیر داخلہ رحمان ملک نے ایک بار پھر پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے اقتدار میں آنے کی پیشگوئی کردی۔
جنگ جیو کے صحافی انصارعباسی کا کہنا ہے کہ کوئی ڈیل نہیں ہورہی اور نہ ہی مستقبل قریب میں نوازشریف واپس آرہے ہیں۔ انصارعباسی نے کسی ڈیل اور نوازشریف کی ڈیل کی خبروں کو قیاس آرائی قرار دیدیا اور اپنے ذرائع کے حوالے سے لکھا کہ انکے ذرائع نے ان خبروں کی تردید کی ہے کہ کوئی ڈیل ہوگئی ہے یا پھر کسی ایسے اسکرپٹ پر عمل ہو رہا ہے جس سے نواز شریف کی لندن واپسی میں آسانی پیدا ہو سکے، جہاں وہ عدالت سے اجازت ملنے کے بعد چند ماہ کیلئے اپنے علاج کیلئے گئے تھے لیکن اس کے بعد سے واپس نہیں آئے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ نواز شریف اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان کوئی براہِ راست رابطہ نہیں۔ نوازشریف کیا سوچ رہے ہیں اس سے نون لیگ کی دوسری سطح کی قیادت بھی لا علم ہے اور انہیں نہیں معلوم کہ نوازشریف اُن لوگوں کے ساتھ رابطے میں ہیں جو ان کی واپسی کے حوالے سے اہم ہیں۔ ن لیگی رہنما ایاز صادق سے متعلق انصارعباسی کا کہنا تھا کہ ایااز صادق کے بیانات نے لوگوں کو حیران کردیا تھا اور انکے بیانات کی وجہ سے سیاسی درجہ حرارت میں اضافہ ہوا تھا۔ایاز صادق نے کہا تھا کہ نواز شریف پاکستان آ رہے ہیں ۔ انکے مطابق جب جیو کے ایک شو میں دوران انٹرویو ان سے پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ مجھے نہیں معلوم کہ کیا ہونے والا ہے لیکن میرے خیال میں جلد کوئی بڑا دھماکا ہونے والا ہے۔انہوں نے کہا کہ یہ سب اچانک ہوگا اور آپ لوگوں کو یہ معاملات آہستہ آہستہ ہوتے نظر نہیں آئیں گے۔ انصار عباسی کے مطابق ایازصادق نے اس بات کی تصدیق کی تھی کہ نوازشریف لندن میں ملاقاتیں کررہے ہیں اور غیرسیاسی شخصیات سے رابطے کررہے ہیں لیکن ایازصادق کو ملاقاتوں میں زیربحث معاملات اور ایجنڈا کا پتہ نہیں لیکن دوسری طرف ایاز صادق یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ وہ لوگ نواز شریف سے ملاقات کر رہے ہیں کیونکہ انہیں احساس ہوگیا ہے کہ پی ٹی آئی کو اقتدار میں لا کر انہیں ناکامی ہوئی ہے اور وہ حکومت سے اپنے سپورٹ بھی واپس لے چکے ہیں اور نواز شریف سے ملاقات کر رہے ہیں، کیونکہ نون لیگ کے پاس اپنا ووٹ بینک برقرار ہے۔ انصارعباسی نے آصف زرداری کے حوالے سے ڈیل کا بھی حوالہ دیا اور کہا کہ عسکری ذریعے نے کہا تھا کہ آصف زرداری کو چاہئے کہ وہ اُس شخص کا نام بتائیں جس نے ان سے اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے ملاقات کرکے مستقبل کے سیٹ اپ کے حوالے سے مدد مانگی ہے۔ عسکری ذریعے نے آصف زرداری کے بیانات پر اظہارافسوس بھی کیا تھا اور اسے افسوسناک اور غیرذمہ دارانہ قراردیا تھا۔ سینئر صحافی کے مطابق دلچسپ امر یہ ہے کہ ایاز صادق کے بیان کو وزیراعظم عمران خان کی طرف سے بالواسطہ توثیق حاصل ہو گئی ہے ۔ وزیراعظم نے کہا تھا کہ ایسی راہیں تلاش کی جا رہی ہیں جن سے سابق وزیراعظم نواز شریف کی نا اہلیت ختم کرنے کی کوشش کی جا سکے۔ اگر مجرموں کو چھوڑا جانے لگا تو تمام جیلوں کے دروازے کھول دینا چاہئیں۔ اپنے آرٹیکل میں انصار عباسی نے کہا کہ مسلم لیگ ن کے ایک با خبر ذریعے نے رابطہ کرنے پر نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ وہ یہ نہیں بتا سکتے کہ ایاز صادق نے کس بنیاد پر ’’انکشافات‘‘ کیے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بالواسطہ روابط ہیں جن سے کوئی ٹھوس بات سامنے نہیں آتی یا یہ معلوم نہیں ہوتا کہ نواز شریف کیا چاہتے ہیں۔ اپنے ایک ویڈیو لاگ بھی انصار عباسی نے اس پر تبصرہ کیا تھا اور کہا تھا کہ وزیراعظم حیران ہیں پریشان ہیں یا گھبرائے ہوئے ہیں اسکا فیصلہ کوئی بھی کرسکتا ہے، ان الفاظ کا جائزہ لیں تو ایسے لگتا ہے کہ نوازشریف کی نااہلی ختم ہونے جارہی ہے، انہیں کرپشن کیسز میں بے گناہ قراردیا جارہا ہے اور ان پر وزیراعظم ہاؤس کے دروازے کھولے جارہے ہیں جس کا مطلب چوتھی بار انکا وزیراعظم بننا ہے۔ انصار عباسی نے یہ بھی سوال اٹھایا تھا کہ وزیراعظم کا اشارہ کس کی طرف ہے؟ کون وزیراعظم کی نااہلی ختم کروانے کی کوشش کررہا ہے، اس بارے انہیں وضاحت کرنی چاہئے۔ انصار عباسی کی خبر کے بعد سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا ایازصادق لندن سیرسپاٹے کرکے اور اپنے لیڈر کادیدار کرکے واپس آگئے ہیں؟ ایازصادق نے یہ کیوں کہا کہ آئندہ چند روز میں بڑا دھماکہ ہونیوالا ہے؟ ایاز صادق کے ان بیانات پر پاکستانی میڈیا نے یہ تاثر دیا کہ جیسے اسٹیبلشمنٹ اور نوازشریف کی ڈیل آخری مراحل میں ہے اور وہ نہ صرف وطن واپس آئیں گے بلکہ ان پر نااہلی اور سزا کے کیسز ختم ہوجائیں گے۔
معروف قانون دان اور رہنما پیپلزپارٹی اعتزاز احسن نے نجی ٹی وی چینل کے پروگرام پاکستان کا سوال میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ عدالتوں نے نواز شریف کو اپنے اختیار سماعت سے ہی باہر بھیج دیا ہے۔ وہ لندن میں محفوظ مقام پر بیٹھے ہیں۔ اعتزاز احسن نے کہا کہ نواز شریف جھوٹ بول کر گئے یا سچ بول کر اس سے فرق نہیں پڑتا اب وہ لندن جیسے محفوظ مقام پر ہیں جہاں آپ ان کا کچھ نہیں کر سکتے۔ انہوں نے کہا کہ وہ ایک مجرم تھے عدالت کے سزا یافتہ تھے اس طرح کسی مجرم کو نکالنے کی مثال ہی نہیں ملتی۔ پی پی رہنما نے کہا کہ دنیا میں کہیں ایسی مثال نہیں ملتی کہ کسی عدالت نے اپنے کسی محبوس مجرم کو صرف ضمانت نہیں دی کہ وہ اپنے ملک میں آزادانہ گھوم پھر سکے بلکہ اس کو اپنے اختیار سماعت سے ہی باہر بھیج دیا ہے۔ انہوں نے بات کرتے ہوئے کہا کہ عدالتیں عام لوگوں کو کسی بچے کی کسٹڈی ملنے کی صورت میں اسے ایک ضلع سے باہر لیجانے کی اجازت نہیں دیتیں مگر حیرانگی ہے کہ کس طرح نوازشریف کے جرائم ثابت ہونے کے باوجود انہیں ملک سے باہر نکال دیا۔
اسٹیج کے معروف اداکارہ اور کامیڈین طاہر انجم نے معاون خصوصی شہباز گل کے طنزیہ تبصرے کا جواب دیتے ہوئے انہیں "حکومتی بھانڈ" قرار دے دیا۔ انہوں نے کہا کہ شہباز گل اپنے ملک کے فنکاروں کو نیچا دکھانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ تفصیلات کے مطابق کامیڈین طاہر انجم نے کہا کہ نواز شریف لندن میں بیٹھے بھی اپنے ملک کے فنکاروں اور عام عوام سے مل رہے ہیں وہ یہاں بھی اپنے ملک کی ثقافت سے جڑے لوگوں کو نہیں بھول رہے جب کہ عمران خان اپنے ساتھ موجود اشرافیہ سے ملاقاتیں کرتے ہیں اور کے پی بلدیاتی انتخاب میں ہارنے پر اپنے لوگوں کی سرزنش کر رہے ہیں۔ طاہر انجم نے شہباز گل سے متعلق اپنے ویڈیو بیان میں مزید کہا کہ آپ کو اپنا عہدہ دیکھ کر بات کرنی چاہیے کیونکہ آپ حکومتی عہدیدار ہیں۔ میں اس کے علاوہ آپ کو کچھ نہیں کہنا چاہتا۔ اس ویڈیو بیان میں بھی جب وہ اپنے دل کی بھڑاس نہ نکال پائے تو ایک اور ویڈیو پیغام شیئر کیا جس میں انہوں نے شہباز گل سے متعلق کہا کہ وہ انہیں کسی طرح بھی پڑھے لکھے شخص نہیں لگے کیونکہ فرخ حبیب یا فواد چودھری اگر بولیں تو پتہ چلتا ہے کہ وہ پڑھے لکھے شخص ہیں مگر شہبازگل "حکومتی بھانڈ" ہیں۔ طاہر انجم نے یہ بھی کہا کہ انہیں نہیں لگتا کہ شہباز گل امریکا سے پڑھ لکھ کر آئے ہیں مجھے لگتا ہے کہ وہ امریکا ضرور گئے ہوں گے مگر وہاں سے بھانڈ بننے کی ڈگری لیکر آئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ میں فنکاروں والی زبان میں کہہ رہا ہوں۔ واضح رہے کہ گزشتہ روز شہبازگل نے ایک ٹویٹ کیا تھا جس میں انہوں نے کہا تھا کہ لندن میں نواز شریف کی اہم ملاقاتیں۔ حکومت کی تبدیلی کا پلان طے ہوگیا،
پاکستان پیپلز پارٹی کے سینئر رہنما اعتزاز احسن نے بڑا انکشاف کر دیا، کہتے ہیں کہ نوازشریف وطن واپس نہیں آئیں گے، مسلم لیگ ن کو ٹرک کی بتی کے پیچھے لگایا گیا ہے۔ تفصیلات کے مطابق نجی نیوز چینل کے پروگرام 'پاکستان کا سوال' میں ملکی سیاست اور موجودہ صورتحال پر بات کرتے ہوئے پیپلز پارٹی رہنما اعتزاز احسن کا کہنا تھا کہ نوازشریف سیاست کے کھلاڑی ہیں اور انہوں نے کمال کی چالیں چل دی ہیں، نوازشریف وطن واپس نہیں آئیں گے۔ انہوں نے مزید کہا کہ مسلم لیگ ن کو ٹرک کی بتی کے پیچھے لگایا گیا ہے، میں نہیں سمجھتا کہ شہبازشریف کا آگے ہونا ممکن ہے، شہباز شریف کو وزیراعظم کے عہدے کے لئے امیدوار ہونے کی صرف تسلی دی جارہی ہے۔ اعتزاز احسن نے کہا کہ مریم نواز کا حمزہ اور شہبازشریف کے حق میں دستبردار ہونے کی کوئی صورت دکھائی نہیں دے رہی۔ پی پی پی رہنما نے کہا کہ سیاست میں گولیاں نہیں چلتی، اسٹریٹجی اور پالیسی ہوتی ہے، نوازشریف کے بعد مریم نواز ہی ان کی جانشین ہوں گی اور مریم نواز کے بعد اب جنید صفدر بھی میدان میں اتر آئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ شہبازشریف کو محض بچھڑا بنا کر پیش کیا گیا ہے، ان کا لہجہ تبدیل کرکے فوج کو دکھایا جارہا ہے کہ ہماری طرف سے یہ ہیں لیکن شکاری اوپر کھڑا ہے۔ پنجاب الیکشن کی حوالے سے بات کرتے ہوئے اعتزاز احسن نے کہا کہ پنجاب میں پیپلز پارٹی کی قیادت کو بھی آکر بیٹھنا پڑے گا اور مسلم لیگ ن سے مقابلہ کرنا ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ ن لیگ ایکسپوز ہوچکی ہے، سب سچائی سامنے آگئی ہے، اس بار شہباز شریف کو لیڈر شپ نہیں دی جائے گی، مسلم لیگ ن کے اندر بھی لیڈرشپ کی لڑائی واضح ہے انہوں نے بات کے اختتام میں کہا کہ موجودہ حکومت اگر گری تو اپنے ہی وزن سے گرے گی۔
اپوزیشن لیڈر اور مسلم لیگ ن کے مرکزی صدر شہباز شریف نے منی بجٹ سے متعلق کہا کہ منی بجٹ نامنظور ہے یہ پارلیمنٹ کے ہر رکن کا امتحان ہے۔ انہوں نے حکومتی ارکان اور اتحادیوں سے آس لگاتے ہوئے کہا ہے کہ باضمیر ارکان جرات کریں اور پارلیمان میں اس بجٹ کو مسترد کر دیں۔ قائد حزب اختلاف کا کہنا ہے کہ زرمبادلہ کے ذخائر میں کمی سے بچنے کے لئے عالمی کمرشل بینکوں پر انحصار ہمارے خدشات کی تصدیق ہے، ڈالر کے حصول کے لئے غیرملکی بینکوں پر انحصار کی حکومتی پالیسی آگ سے کھیلنے کے مترادف ہے، منی بجٹ منظور نہیں، یہ پارلیمنٹ کے ہر رکن کا امتحان ہے۔ انہوں نے حکومتی ارکان اور اتحادیوں کے ضمیروں کو جھنجھوڑتے ہوئے ان سے موہوم سی امید وابستہ کرلی ہے اور کہا کہ حکومتی باضمیر ارکان جرات مندانہ فیصلہ کریں گے، اتحادی بھی ہمت سے کام لیں ، کلمہ حق کہیں اور اس منی بجٹ کی مخالفت کریں۔ کیونکہ حکومتی اتحادی عوام اور پاکستان پر ظلم میں شامل ہوئے تو تحریک انصاف کے ساتھ وہ بھی شریک جرم کے طور پر یاد کیے جائیں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ منی بجٹ کے ذریعے پاکستان کے ہاتھ پاؤں باندھنے کی تیاری ہو رہی ہے، 2018 سے اب تک موجودہ حکومت قرض کی سطح 40 ارب ڈالر کی خوفناک حد تک پہنچا چکی ہے اس مالی سال کے پہلے 5 ماہ کے دوران حکومت نے 4 ارب 96 کروڑ ڈالر غیرملکی قرض لیا اس میں سے 3 ارب 45 کروڑ غیرترقیاتی مقاصد کے لئے ہے۔ شہباز شریف نے یہ بھی کہا کہ 14 ارب ڈالر بجٹ تخمینے میں سے اب تک صرف 4.699 ارب ڈالر جمع ہوئے ہیں، جب ساری معیشت ، دفاع اور حکومتی نظام قرض پر کھڑا ہوگا تو جیو اکنامکس کا فلسفہ محض لطیفہ بن جائے گا۔ اپوزیشن لیڈر نے مزید کہا کہ کے الیکٹرک کی جانب سے بجلی کی قیمت میں پونے 6 روپے اضافہ کا تقاضا ظلم ہے، حکومت ایسے اقدامات کر رہی ہے جس سے عوام کی آمدن اور قوت خرید ختم ہوکر رہ گئی ہے، ڈالر 180.7 روپے کی بلند سطح پر ہے اور حکومت ہمارے پاس ڈالر نہیں کا کہہ کر مزید عدم استحکام پیدا کر رہی ہے۔
وفاقی وزیر نے کہا کہ عمران خان نے پی ٹی آئی کی تمام تنظیموں کو تحلیل کر دیا ہے اور تمام عہدیداروں کو فارغ کردیا گیا ہے۔ فوادچوہدری نے یہ بھی بتایا کہ تحریک انصاف کی ایک نئی آئینی 21 رکنی کمیٹی تشکیل دی گئی ہے۔ جس میں خیبرپختونخوا سے پرویز خٹک، محمود خان، مراد سعید، اسد قیصر، علی امین گنڈاپور شامل ہوں گے جبکہ پنجاب سے شاہ محمود قریشی، حماد اظہر، فواد چودھری، خسرو بختیار، چودھری سرور، سیف نیازی، عامر کیانی اور عثمان بزدار ہوں گے۔ انہوں نے کہا کہ بلوچستان سے کمیٹی میں جمالی صاحب، قاسم سوری اور سندھ سے عمران اسماعیل اور علی زیدی کو شامل کیا گیا ہے۔ چیف آرگنائزر سمیت تمام عہدیداروں کو بھی عہدوں سے ہٹا دیا گیا ہے۔ اس کمیٹی کے بعد نئی تنظیم سازی کی جائے گی۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ اس 21 رکنی کمیٹی میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جنہوں نے اپنے ہی خاندان کو نوازدیا اور کارکنوں کو نظرانداز کرکے انہیں ٹکٹس دلوادیں جن میں اسد قیصر، علی امین گنڈاپور، پرویز خٹک شامل ہیں جبکہ سیف اللہ نیازی اور عامرکیانی بھی شامل ہیں جن سے پارٹی کارکن ہمیشہ خائف رہتے ہیں۔ سیف اللہ نیازی، عامرکیانی اور اعجازچوہدری پر ماضی میں پیسے لیکر ٹکٹس دینے اور اپنے منظور نظرافراد کو ٹکٹس دینے کےالزامات لگتے رہے ہیں جبکہ شیریں مزاری پر اسکے غیر متحرک ہونے پر سوالات اٹھ رہے ہیں۔ سوشل میڈیا صارفین نے اس کمیٹی پر سوالات اٹھائے ہیں اور کہا ہے کہ جو خیبرپختونخوا میں تحریک انصاف کی شکست کے ذمہ دار ہیں ، جنہوں نے ٹکتس اپنے رشتہ داروں کو دلوادئیے ، پارٹی کیلئے کچھ نہیں کرتے، انہیں ہی اس کمیٹی کا حصہ بنادیا گیا ہے۔ سوشل میڈیا صارفین کا کہنا تھا کہ کارکن جن لوگوں کے احتساب کا مطالبہ کررہے تھے ،جن لوگوں کے خلاف ایکشن کا مطالبہ کررہے تھے ، ان تمام لوگوں کو نئی کمیٹی میں شامل کر کے خان صاحب نے ایک نیا لالی پاپ دیدیا گیا ہے۔ سوشل میڈیا صارفین نے علی امین گنڈاپور ، سیف اللہ نیازی، عامرکیانی، شیریں مزاری اور دیگر پر بھی سوالات اٹھائے، انکا کہنا تھا کہ انہیں کمیٹی میں لینا مذاق ہے۔ ایک سوشل میڈیا صارف نے کہا کہ ہم خوش ہورہے تھے کہ سیف اللہ نیازی اور عامرکیانی کی چھٹی ہوگئی لیکن یہ دوسری طرح واپس آگئے ہیں۔
لیگی رہنما نواز شریف کی واپسی کے دعوے کرنے لگے۔۔ ایاز صادق کے بعد جاوید لطیف نے بھی ایک ماہ کے اندر اندر واپس آنے کا دعویٰ کردیا اے آر وائے نیوز کے پروگرام آف دی ریکارڈ میں گفتگو کرتے ہوئے لیگی رہنما جاوید لطیف نے دعویٰ کیا کہ نواز شریف انشااللہ وطن واپس آ رہے ہیں، انہوں نے دعویٰ کیا کہ سابق وزیراعظم ایک ماہ کے اندر اندر پاکستان واپس آ سکتے ہیں۔ لیگی رہنما نے کہا کہ اگر ایسی صورت ہوتی ہے کہ ہمیں ملک کی باگ ڈور ملتی ہے تو نواز شریف کے وزیراعظم نہ بن سکنے کی صورت میں کون وزیراعظم ہو گا اس کا فیصلہ بھی وہ خود کریں گے، اگر شہبازشریف بھی وزیراعظم بنتے ہیں تو مجھے خوشی ہو گی کیونکہ وہ ہماری پارٹی کے صدر ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ سچ ہے کہ جمہوریت ہی بہترین انتقام ہے، آپ دیکھیں گے کہ وہ واپس بھی آئیں گے اور چوتھی بار وزیراعظم بھی بنیں گے۔ پاکستان میں کئی سالوں سے تجربے ہو رہے ہیں، ہماری جد وجہد یہی ہے کہ فارمولا دینے والے صرف عوام ہیں۔ جاوید لطیف کے اس دعوے پر ردعمل دیتے ہوئے وفاقی وزیر علی زیدی نے کہا کہ برطانیہ میں نواز شریف کی ویزا توسیع کی سماعت آگئی ہے، انہیں مزید ویزا توسیع نہیں ملتی تو واپس آنا ہوگا اس سب کے لیے ماحول بنایا جارہا ہے۔ یاد رہے کہ گزشتہ روز لیگی رہنما ایاز صادق نے بھی نواز شریف کی واپسی کا عندیہ دیا ہے، انہوں نے کہا کہ نواز شریف 20 جنوری تک پاکستان واپس آ جائیں گے۔ لاہور میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے ایاز صادق نے کہا کہ ہمیں نواز شریف کی واپسی سے متعلق امید بھی ہے اور یقین بھی۔ ایاز صادق نے کہا کہ لوگوں نے ہاتھ کھڑے کردیے، گڈ گورننس بیڈ ہوگئی، نواز شریف کو اس جہاں میں انصاف ملنے کا وقت آگیا۔ انہوں نے کہا کہ وہ 20 تاریخ کو لندن جارہے ہیں، نواز شریف کو لے کر ہی واپس آئیں گے۔
خیبرپختونخوا کے بلدیاتی انتخابات میں شکست کے بعد پاکستان تحریک انصاف میں ہلچل مچی ہوئی ہے، شکست کیوں ہوئی اس پر بحث جاری ہے، ایسے میں پی ٹی آئی کے اندرونی اختلافات بھی کھل کر سامنے آگئے ہیں، خیبرپختونخوا اسمبلی کے رکن ڈاکٹر ہشام انعام اللہ اور وفاقی وزیر علی امین گنڈا پور کے درمیان اختلافات برقرار ہیں۔ ڈاکٹر ہشام انعام اللہ نے بلدیاتی الیکشن سے قبل وزیراعظم عمران خان کے نام خط میں لکی مروت میں ٹکٹوں کی غلط تقسیم کی نشاندہی کی تھی،انہوں نے اپنی پارٹی کے وفاقی وزیر علی امین گنڈاپور پر من پسند امید واروں کو ٹکٹ دینے کا الزام عائد کیا تھا۔ جیو نیوز سے گفتگو میں ڈاکٹر ہشام انعام اللہ نے بتایا کہ بلدیاتی انتخابات میں علی امین گنڈا پورکے من پسند امید وار بری طرح ہار گئے جبکہ علی امین کے من پسند لوگوں کے مقابل میرے لوگ جیت گئے،پارٹی کو جیتے ہوئے امید وار دوں گا لیکن پارٹی میں مجھے میرا مقام ملنا چاہیے۔ انہوں نے مزید کہا کہ علی امین گنڈا پور نے پریس کانفرس میں کہا ہے کہ ہشام انعام اللہ کو پارٹی سے بھی نکالوں گا،گورنر کے پی شاہ فرمان اور وفاقی وزیر علی امین گنڈاپور نے سازش کر کے مجھے وزارت سے ہٹوایا۔ خیبرپختونخوا میں تحریک انصاف کی شکست کے معاملے پر الیکشن سے قبل رکن اسمبلی ہشام انعام کا وزیراعظم کو لکھا گیا خط جیو نیوزنے کو موصول ہوگیا ہے، جس میں سابق صوبائی وزیر نے لکی مروت میں پارٹی ٹکٹوں کی غلط تقسیم کی نشاندہی کی تھی۔ ہشام انعام نے خط میں لکھا تھا کہ میرے حلقے میں علی امین گنڈا پور نے میرے سیاسی مخالفین کو پار ٹی ٹکٹ دیا اور لکی مروت میں ایسے لوگوں کو ٹکٹ دیے گئے جن کا پارٹی سے تعلق نہیں تھا، میرے سیاسی دوست پی ٹی آئی کے ضلعی جنرل سیکرٹری کے بجائے ٹکٹ کسی عام شخص کو دیا گیا۔ خط میں مزید کہا گیا ہےکہ پارٹی ٹکٹ دیتے وقت مجھ سے کوئی مشورہ نہیں کیا گیا، علی امین گنڈاپور نے پارٹی قواعد وضوابط کی خلاف ورزی کی، اس لیے مجبورہوں کہ ان کے خلاف مہم چلاؤں جو میری پارٹی سے نکلنے کی وجہ بھی بن سکتی ہے۔ ہشام انعام نے خط میں مزید کہا کہ پارٹی کے سینئر رہنما کو اس طرح خلاف ورزی کے لیے چھوڑنا پارٹی کے لیے نقصان دہ ہے، مجھے پارٹی سے نکالنے کے لیے میرے علاقے میں پارٹی کی بدنامی کی جارہی ہے،خط میں وزیراعظم سے درخواست کی تھی کہ پارٹی کو تباہی سے بچانے کے لیے نوٹس لیا جائے۔ خیبر پختونخوابلدیاتی انتخابات کے پہلے مرحلے میں جمعیت علمائے اسلام نے تحصیل چیئرمین کی 18 اور سٹی میئر کی 3 نشستوں کے ساتھ فتح حاصل کی،جبکہ اے این پی نے میئر کی ایک اور تحصیل کونسل کی 5 نشستیں جیتیں، تحریک انصاف نے تحصیل چیئرمین کی 13، آزاد امیدوار 8، ن لیگ 3، جماعت اسلامی 2، پی پی اور تحریک اصلاحات کو ایک ایک نشست ملی جبکہ 9 تحصیلوں کے نتائج آنا ابھی باقی ہے۔
سینئر تجزیہ کار و اینکر پرسن کامران خان نے کہا ہے کہ موجودہ حکومت کے اپنی مدت پوری کرنے سے متعلق شکوک وشبہات پیدا ہوگئے ہیں ، اس حوالے سے سب سے اہم کردار ن لیگ کا ہوگا۔ نجی ٹی وی چینل دنیا نیوز کے پروگرام آج کامران خان میں اپنا تجزیہ پیش کرتے ہوئے سینئر صحافی نے کہا کہ تحریک انصاف کو اپنی حکومت کے چوتھے سال میں شدید غیر یقینی، معاشی مسائل، انتخابی غیر مقبولیت اور سیاسی تنہائی کا سامنا ہے ، ایسی صورتحال میں عام سوال یہ پیدا ہورہا ہے کہ کیا یہ حکومت اپنی مدت پوری کرے گی۔ انہوں نے کہا کہ عام انتخابات 2023 میں ہوں گے یا اگلے سال 2022 میں اس حوالے سے سب سے اہم کردار سب سے اہم سیاسی قوت مسلم لیگ ن نے ادا کرنا ہے ، یہاں تک بھی کہا جارہا ہے کہ موجودہ حکومت کے مستقبل کا فیصلہ کرنے کیلئے بال اس وقت ن لیگ کے کورٹ میں ہے۔ کامران خان نے کہا کہ مسلم لیگ ن اس وقت پنجاب اور وفاق کی سب سے بڑی اپوزیشن جماعت ہے اور تحریک انصاف کی وفاقی و پنجاب حکومت صرف 11، 11 اراکین کے ووٹوں پر ٹکی ہوئی ہے اسی طرح سینیٹ میں موجودہ اپوزیشن کی مجموعی تعداد حکومت سے زیادہ ہے، ایسی صورتحال میں اپوزیشن کیلئے قومی اسمبلی ، سینیٹ یا پنجاب اسمبلی میں حکومت کا تختہ الٹنا زیادہ مشکل فیصلہ نہیں ہوگا۔ سینئر تجزیہ کار نے کہا کہ حکومت اپنی مدت پوری کرے گی یا نہیں، ملک میں عام انتخابات 2023 کے مقررہ وقت پر ہوں گے یا نہیں اور قومی اسمبلی، پنجاب یا سینیٹ میں کوئی ان ہاؤس تبدیلی آنے کا امکان ہے یا نہیں ان سارے معاملات پر بنیادی فیصلے اس وقت ن لیگ کو کرنے ہیں ۔
پہلے مرحلے میں شکست کے بعد تحریک انصاف نے خیبرپختونخوا میں 16 جنوری کو ہونے والے بلدیاتی انتخابات کے دوسرے مرحلے کو ملتوی کرانے کے لئے الیکشن کمیشن سے رجوع کر لیا ہے۔ ایکسپریس نیوز کا دعویٰ ہے کہ الیکشن کمیشن نے انتخابات ملتوی کرنے سے متعلق مشاورت شروع کردی ہے۔ موسمی حالات کے باعث بلدیاتی انتخابات کا دوسرا مرحلہ مارچ میں کرائے جانے کا امکان ہے۔ خیبرپختونخوا کہ وزیر اطلاعات شوکت یوسفزئی نے اس معاملے پر کہا کہ دوسرے مرحلے کے انتخابات میں ملاکنڈ اور ہزارہ کے پہاڑی علاقے شامل ہیں۔ دسمبر اور جنوری میں ان علاقوں میں برفباری ہوتی ہے اور موسم سرد ہونے کے باعث ان علاقوں کی زیادہ تر آبادی میدانی علاقوں کا رخ کرتی ہے۔ صوبائی وزیر کے مطابق ان حالات میں الیکشن کے انعقاد سے آبادی کا بڑا حصہ ووٹ کے حق سے محروم ہوجائے گا۔ پی ٹی آئی ملاکنڈ تنظیم نے الیکشن کمیشن سے رابطہ کیا ہے اور الیکشن ملتوی کرنے کے حوالے سے درخواست کی تاہم الیکشن کمیشن نے فیصلہ محفوظ کیا ہے۔ تحریک انصاف ملاکنڈ نے استدعا کی ہے کہ اگر انتخابات مارچ تک ملتوی کیے جائیں تو تمام لوگوں کو ووٹ کا حق استعمال کرنے کا موقع ملے گا۔
وزیراعظم عمران خان نے خیبر پختونخوا کے بلدیاتی انتخابات میں شکست کے بعد آئندہ انتخابات کیلئے پارٹی کے پرانے لوگوں سے مدد لینے کا فیصلہ کیا ہے۔ تفصیلات کے مطابق اس فیصلے کا اعلان وزیراعظم عمران خان نے لاہور میں ہونے والے پارٹی رہنماؤں کے ایک اہم ترین اجلاس کے دوران کیا اور انہوں نے پنجاب میں اپنی پارٹی کو آئندہ بلدیاتی انتخابات میں شکست سے بچانے کیلئے پرانے پارٹی ورکرز کو مدد کیلئے پکار لیا ہے۔ خبررساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق اس اجلاس میں وزیراعظم عمران خان نے تحریک انصاف پنجاب کی قیادت کو پارٹی کے پرانے رہنماؤں اور ورکرز سے رہنمائی کے بعد انتخابی پلان ترتیب دینے کی ہدایات بھی جاری کی ہیں۔ وزیراعظم عمران خان نے پنجاب میں ہونے والے بلدیاتی انتخابات کی نگرانی خود کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ ابھی سے ان انتخابات کی تیاری کرنا ہوگی، انتخابی مہم کیلئے پارٹی کے پرانے رہنماؤں سے مشاورت کی جائے، پرانے ورکرز پارٹی کا اثاثہ ہیں ان کی آراء کا ہمیشہ سے احترام کیا ہے۔ واضح رہے کہ خیبر پختونخوا میں بلدیاتی انتخابات کے پہلے مرحلے میں تحریک انصاف کو اپوزیشن جماعتوں سے شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے، اب تک کے غیر حتمی غیر سرکاری نتائج کے مطابق جے یو آئی چیئرمین تحصیلوں کی 18 اور سٹی میئرز کی 3 نشستیں جیت کر پہلے جبکہ تحریک انصاف تحصیل کونسل کی 13 نشستیں جیت کر دوسرے نمبر پر رہی ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے بلدیاتی انتخابات کے دوسرے مرحلے کی نگرانی خود کرنے ، امیدواروں کے چناؤ اور انتخابی مہم سے متعلق امور دیکھنا شروع کردیئے ہیں ۔
نجی ٹی وی چینل کے مارننگ شو کے دوران بطور مہمان شرکت کرنے والی ٹک ٹاک اسٹار حریم شاہ نے سابق صدر و پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری کو تجویز دی ہے کہ وہ مرحوم بھٹو کے زندہ ہونے کا دعویٰ اب چھوڑ دیں اور اپنی ایک پہچان بنائیں۔ سوالوں کے جوابات کے حریم شاہ نے سیاستدانوں کو مشورے دیے، انہوں نےبلاول بھٹو زرداری کو کوئی تجویز نہیں دی اور کہا کہ وہ تو ان کے پسندیدہ سیاستدان ہیں، وہ انہیں کیسے کوئی مشورہ دے سکتی ہیں؟ ٹک ٹاک اسٹار نے آصف علی زرداری کو تجویز دیتے ہوئے کہا کہ کل بھی بھٹو زندہ تھا، آج بھی بھٹو زندہ ہے کے نعرے کو چھوڑ کر وہ اپنی پہچان خود بنائیں اور خود "بھٹو" جیسے بنیں۔ حریم شاہ نے کہا کہ ذوالفقار علی بھٹو بہادر شخص تھے لیکن اب وہ اس دنیا میں نہیں رہے اور ان کی بہادری کی تعریفیں عوام بھی کرتے ہیں مگر آصف زرداری کو ان کی بہادریوں کو گنوا کر خود کو کیش نہیں کروانا چاہیے۔ حریم شاہ نے مریم نواز کی بہادری کی تعریف کرتے ہوئے انہیں تجویز دی کہ انہیں یوں ہی آگے بڑھنا چاہیے اور وہ ایک خاتون ہوکر سیاست کے اچھے مقام پر پہنچ چکی ہیں۔ انہوں نے فردوش عاشق اعوان کو وزن کم کرنے کا مشورہ دیا جب کہ وزیر اطلاعات فواد چوہدری کو تجویز دی کہ وہ کوئی بھی بات کرنے سے قبل سوچ لیا کریں۔ حریم نے فواد چوہدری سے متعلق کہا کہ انہوں نے اپنی ہی ایک سائنس بنا رکھی ہیں اور وہ کچھ بھی بول دیتے ہیں۔
وزیراعظم کے مشیر برائے اوورسیز پاکستانیز ایوب آفریدی کے اندرون و بیرون ملک کروڑوں کے اثاثے ڈکلیئر وزیر اعظم کے مشیر بر ائے اوورسیز پا کستانی ڈویژن ایوب آفریدی نے اپنے اثاثے ڈیکلیئر کردیئے، کابینہ ڈویژن کے ذرائع کے مطابق ایوب آفریدی کے بحریہ ٹاؤن لاہور میں گھر کی مالیت 24 کروڑ 23 لاکھ 39 ہزار روپے ہے، گلبرگ گرین اسلام آباد میں پلاٹ کی مالیت 11 کروڑ 49 لاکھ 50 ہزار روپے ، دبئی میں گھر کی مالیت 2 کروڑ 53 لاکھ 30 ہزار روپے ہے۔ مشیر ایوب آفریدی کی اجمان میں کمرشل جائیداد کی مالیت 3 کروڑ 48 لاکھ 62 ہزار روپے، شا رجہ میں ملٹی گیٹ کارپوریشن ایف زیڈ ای کی مالیت 3 کروڑ 38 لاکھ 94 ہزار روپے ہے،جبکہ برطانیہ میں اہلیہ کے نام پر 16 کروڑ 59 لاکھ 20 ہزار روپے کی سرمایہ کاری ظاہر کی گئی ہے۔ دوسری جانب اسٹاک ایکسچینج میں 31 لاکھ 17 ہزار 500 روپے کی سرمایہ کاری، ڈی بینچرز میں 23 لاکھ 40 ہزار روپے کی سرمایہ کاری ، 14 لاکھ 28 ہزار روپے سے زائد کی نقد رقم ڈکلیئر کی ہے،مشیر ایوب آفریدی نے مختلف بینکوں کے اکاؤنٹس میں 57 لاکھ روپے سے زائد کی رقم ظاہر ہے، جبکہ ان کے پاس پشاور میں 28مرلے کی وراثتی جا ئیداد میں پانچ فیصد شیئر ہیں۔30مرلہ جائیداد میں ان کا دس فیصد شیئر ہے۔ وزیر اعظم کے مشیر بر ائے اوورسیز پا کستانی ڈویژن ایوب آفریدی کے پشاور میں چار پراپرٹیز وراثتی ہیں،پونے آٹھ مرلہ جائیداد میں پانچ فیصد شیئر،16مرلہ پلاز ہ میں 11فی صد شیئر ہیں، ایوب آفریدی کے پاس کسی دوسرے ملک کی شہریت نہیں ہے،ایوب آفریدی کو گذشتہ ماہ 23نومبر کو مشیر سمندر پار پاکستانیز و انسانی وسائل ترقی تعینات کیا گیا تھا۔ انہوں نے شوکت ترین کیلئے سینیٹ کی نشست خالی کی تھی۔
تحریک انصاف کے سینیٹر اور سابق وفاقی وزیر فیصل واوڈا نےدعویٰ کیا ہے کہ اب ایک نیا "ڈنڈا پروگرام" شروع ہونے جا رہا ہے۔ سینیٹر فیصل واوڈا نے اے آر وائے نیوز کے پروگرام پاورپلے میں کہا ہے کہ مہنگائی کی وجہ سے غریب کا گزارا مشکل ہوگیا، سب اچھا کی رپورٹ دینے والوں کے خلاف وزیر اعظم "ڈنڈا پروگرام" شروع کرنے والے ہیں۔ ارشد شریف کے ایک سوال پر جواب دیتے ہوئے واوڈا نے کہا کہ مہنگائی کیوجہ سے عام آدمی کیلئےگھر چلانا مشکل ہوگیا ہے، ہمیں اس کا احساس ہے اور مہنگائی کنٹرول کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ سینیٹر واوڈا نے مزید کہا کہ کے میں ہونے والے بلدیاتی انتخابات میں ٹکٹوں کی تقسیم کے معاملے پر وزیراعظم نے ہمیشہ کی طرح بھروسہ کیا مگر ناعاقبت اندیش لوگوں نے رشتےداروں کو ٹکٹ دیے جس کی وجہ سے امیدواروں کو شکست ہوئی مگر انتخابات میں ہمارے کارکن کی جیت ہوئی۔ حکمران جماعت کے سینیٹر نے یہ بھی اعتراف کیا کہ آہستہ آہستہ چیزیں کھل رہی ہیں، پیالی میں طوفان برپاکرنے والے اور سب اچھا کی رپورٹ دینے والے سامنے آرہے ہیں، بلدیاتی انتخابات میں شکست کی بنیادی وجوہات مہنگائی، رشتے داری اور ٹکٹوں کی غلط تقسیم ہے۔ انہوں نے کہا کہ سیاست میں اسپیڈ بریکر اور اپ ڈاؤن آنا معمولی بات ہے، وزیراعظم کے پاس ایسا بلڈوزر ہے جو اس اسپیڈ بریکر کو ختم کردے گا۔ پاکستان میں اب 90 کی دہائی والی سیاست نہیں ہو سکتی کیونکہ عمران خان نوازشریف یا زرداری نہیں ہیں۔ فیصل واوڈا نے آئندہ سال کو سب کی ترقی کیلئے اہم سال قرار دیتے ہوئے کہا کہ وزیراعظم نے مشکل حالات میں اہم فیصلے کیے جن پر وہ آج بھی کھڑے ہیں، انڈر دی ٹیبل، آؤٹ آف ٹرن پرموشن اور این آر او اب ماضی کے قصے ہیں اب ان کیلئے کوئی مزید گنجائش نہیں ہے۔
تجزیہ کار حبیب اکرم نے خیبرپختونخوا میں ہونے والے بلدیاتی انتخابات سے سےتعلق تجزیہ کرتے ہوئے کہا کہ نتائج کچھ بھی رہے ہوں، اصل بات یہ ہے کہ ان کے نتیجے میں پاکستان میں بنیادی تبدیلیوں کے راستے ہموار ہوگئے ہیں۔ سب سے پہلی تبدیلی تو یہ آئی کہ خان صاحب نے اس الیکشن میں تحریک انصاف کی شکست قبول کرکے پاکستان میں ایک نئے سیاسی کلچر کی ابتدا کی ہے۔ حبیب اکرم کا کہنا ہے کہ بے شک یہ وہی عمران خان ہیں جنہوں نے 2013 کے عام انتخابات میں اپنی شکست قبول کرنے کے بجائے مفروضہ دھاندلی پر 126 دن کا دھرنا دیا اور ملک کو سیاسی عدم استحکام کا شکار کیے رکھا تھا۔ اگر آج وہ الیکشن میں اپنی شکست تسلیم کر رہے ہیں تو پاکستان جیسے ملک میں یہ جمہوریت کیلئے نیک شگون ہے۔ انہوں نے کہا ہماری تو روایت یہ ہے کہ سیاسی رہنما اپنی شکست قبول کرنے کے بجائے دھاندلی کا بے سرا راگ الاپ الاپ کر دنیا بھر میں اپنے ملک کی بے عزتی کا باعث بنتے ہیں۔ 1977 اور 2002 کے الیکشنوں کو چھوڑ کر دیگر عام انتخابات میں مبینہ دھاندلی پر دعوے اور بیانات تو بے شمار مل جائیں گے، ثبوت شاید ہی مل سکے۔ ان کا مزید کہنا ہے کہ اس پس منظر میں اگر کوئی حکمران اپنی سیاسی طاقت کے گڑھ میں ہار جائے اور پھر اسے اپنی ہی غلطیوں کا نتیجہ کہے تواسے ایک نئے دور کا آغاز ہی سمجھنا چاہیے۔ یہ کہا جاسکتا ہے کہ وزیراعظم کے طور پر ان کے پاس اس شکست کو مان لینے کے سوا چارہ ہی نہیں تھا، اگروہ دھاندلی کا الزام لگاتے تویہ انہی پرلوٹ آتا۔ مگر وزیراعظم کے پاس یہ راستہ پھر بھی موجود تھا کہ وہ ذومعنی باتیں کرکے اپنی شکست کو کچھ غیر مرئی عناصر کے کھاتے میں ڈال دیتے لیکن انہوں نے کھلے دل سے اپنی غلطی مان کر واقعی بڑے پن کا ثبوت دیا ہے۔ حبیب اکرم نے یہ بھی کہا کہ پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار ان اداروں کے سربراہ عام آدمی کے ووٹ سے منتخب ہوئے ہیں۔ اس تبدیلی کا مطلب ہے کہ پاکستان میں چارسدہ کے تحصیل چیئرمین کو لندن کے میئر جتنی وقعت اور اختیار مل گیا ہے۔ جنرل پرویز مشرف کو چھوڑ کر تحریک انصاف سے پہلے یہ توفیق یا ہمت کسی حکومت کو نہیں ہوئی کہ وہ میئر یا چیئرمین کا انتخاب براہ راست عوام کے ووٹوں سے ممکن بنائے۔ جنرل مشرف کو بھی بلدیاتی اداروں کے براہ راست انتخاب سے اپنی حلیف مسلم لیگ ق کی وجہ سے پیچھے ہٹنا پڑا تھا جو آج پنجاب میں تحریک انصاف کی حلیف ہے۔ چودھری پرویز الٰہی کو اس وقت کے نظام کے تحت طاقتور ضلع ناظم سے جیسے چڑ تھی۔ انہوں نے حکومت سنبھالتے ہی اس نظام کی طاقت پر کلہاڑا چلا دیا۔ حبیب اکرم نے کہا کہ اب بھی پنجاب کے مجوزہ بلدیاتی نظام میں جتنی الجھنیں پائی جاتی ہیں دراصل انہی کی پیدا کردہ ہیں۔ پیپلز پارٹی نے تو خیر کبھی بلدیاتی نظام کے بارے میں سوچا ہی نہیں۔ اس نے اپنی 50 سالہ سیاسی زندگی میں پہلی بار سندھ میں بلدیاتی انتخابات اسی وقت کرائے جب عدالت کا حکم آیا۔ اب پھر ایک بے معنی سا بلدیاتی نظام سندھ میں رائج کرکے عوام اور عدالت کی آنکھوں میں دھول جھونکنا چاہتی ہے۔ دوسری جانب مسلم لیگ (ن) کا ریکارڈ بلدیاتی اداروں کے حوالے سے اس حد تک بہتر ہے کہ اس نے موقع ملنے پر الیکشن کرائے مگر کبھی ان اداروں کو طاقتور بنایا نہ ان کی سربراہی مضبوط ہاتھوں میں جانے دی۔ 2015 میں تو مذاق کی حد تک مفلوج ادارے بنائے۔ جب ان کے سربراہوں کے انتخاب کا مرحلہ آیا تو اُن لوگوں کو بڑے بڑے شہروں کی ذمہ داریاں سونپ دیں جو پانچ مرلے کا گھر تک ٹھیک سے نہیں بنا سکتے تھے۔ تحریک انصاف نے عوام کے ووٹوں سے براہ راست ان سربراہوں کے انتخاب کا آغاز کرکے پاکستان کے سیاسی نظام کی وہ بنیاد ٹھیک کردی ہے جو گزشتہ 75 سال سے ٹیڑھی تھی۔ جب سے عمران خان ملک کے وزیراعظم بنے ہیں، ان کی حکومت مخالفین کے حملوں کی زد میں رہی ہے۔ ان حملوں کی دیگر وجوہات کے علاوہ ایک وجہ یہ بھی تھی کہ سوائے پیپلزپارٹی کے اپوزیشن کی کسی بھی جماعت کے پاس ووٹ ہونے کے باوجود کوئی اختیار نہیں تھا۔ حبیب اکرم نے تجزیے میں کہا کہ عمران خان نے حکومت میں رہتے ہوئے گزشتہ سوا 3 سالوں میں چاہے کچھ نہیں کیا لیکن ایک طاقتور اور عوام کے ووٹوں سے براہ راست تشکیل پانے والا بلدیاتی نظام متعارف کرا کے پاکستان کے سیاسی کلچر میں تبدیلی کا باقاعدہ آغاز کردیا ہے۔ انہوں نے ووٹ کو وہ عزت دلا دی ہے جس کا وہ مستحق ہے۔ اب وزیراعظم سے لے کر میئر تک اور قومی اسمبلی کے رکن سے لے کر محلے کے کونسلر تک، ہر شخص ووٹ کے زور پرہی اپنے عہدے پرآئے۔ ووٹ ہی اس کا احتساب کرے اور ووٹ ہی انتخاب۔ ہمارے تمام مسائل چاہے وہ معاشی ہوں یا سماجی دراصل ہمارے سیاسی نظام کی بے معنویت سے پیدا ہوتے ہیں۔ حبیب اکرم کے مطابق عمران خان نے سیاسی نظام کے کھوکھلے پن کو ختم کرکے پاکستان میں مسائل کے حل کی راہ ہموار کردی ہے۔ چاہے وہ خیبرپختونخوا کا الیکشن ہار گئے ہیں لیکن انہوں نے تاریخ میں جیت ہمیشہ کے لیے اپنے نام کرلی ہے۔ اگر یہ نظام چلتا رہتا ہے تو پاکستان میں آنے والے سیاسی استحکام کا سہرا بھی عمران خان کے سر ہی سجے گا۔
لاہور: کیپٹن ریٹائرڈ صفدر نے اپنی بہو عائشہ کو شادی پر کیا تحفہ دیا ؟ شادی کے بھاری اخراجات کہاں سے پورے کئے؟کیپٹن صفدر کے صحافیوں کو دلچسپ جوابات مریم نواز کے شوہر کیپٹن ریٹائرڈ صفدر نے لاہور میں میڈیا سے بات کرتے ہوئے صحافیوں کی جانب سے اپنے بیٹے کی شادی کے حوالے سے پوچھے گئے سوالوں کے دلچسپ جوابات دئیے۔ ایک صحافی نے ان سے انکے بیٹے جنید صفدر کی شادی پر ہونے والے اخراجات کے بارے میں پوچھا کہ شادی پر اتنے اخراجات کس نے کیے اس پر کیپٹن صفدر نے جواب دیا کہ ہم صوفی اور پیروں فقیروں کی اولاد ہیں لاکھوں میں مریدین ہیں۔ ہمارے گھر تو روز ایسا لنگر ہوتا ہے۔ اس میں ابہام کیا ہے پیروں نے بھی کبھی کوئی کام کیا ہے۔ ایک صحافی نے کیپٹن صفدر سے سوال کیا کہ انہوں نے اپنی بہو کو شادی پر کیا تحفہ دیا ہے؟ جس پر کیپٹن صفدر نے کہا میں نےاسے لمبی زندگی، صحت اور تندرستی کی دعا دی ہے۔ انکا مزید کہنا تھا کہ جس طرح اللہ نے میرے بیٹے کو ایک اچھی بیوی دی ہے اللہ سب کے بیٹوں کو اچھی بیویاں دے اور سب کی بیٹوں کو اللہ اچھے داماد دے جس طرح اللہ نے نواز شریف کو میری شکل میں داماد دیا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ میں نے جنید صفدر کی شادی پر اسلئے گانا نہیں گایا کہ کہیں مریم نواز کا گانا خراب نہ ہوجائے، میں تو ابھی بھی اپنی شادی کے گانے گارہا ہوں۔ ایک صحافی نے کیپٹن صفدر سے جنید صفدر کی سیاست میں آمد سے متعلق سوال کیا تو کیپٹن صفدر نے جواب دیا کہ وکیل کا بیٹاو کیل بنے، ڈاکٹر کا بیٹا ڈاکٹر بنے، پیر کا بیٹا گدی نشین بنے تو سیاستدان کا بیٹا سیاستدان کیوں نہیں بن سکتا۔ CXyB65SFWsc انکا مزید کہناتھا کہ جنید صفدر 3 سال کی عمر میں اٹک قلعے میں قید اپنے نانا کے سینے سے لگ کر روتا تھا۔
خیبپختونخوا کے بلدیاتی انتخابات میں پاکستان تحریک انصاف کو شکست کیوں ہوئی؟رپورٹ تیار کرلی گئی ہے،رپورٹ کے تحت ارکان قومی اسمبلی کے خلاف کارروائی کا فیصلہ کرلیا گیا ہے۔ ایکسپریس نیوز کے مطابق وزیراعلی محمود خان کی ہدایت پروجوہات پر مبنی رپورٹ تیار کی گئی ہے،جس میں انکشاف ہوا ہے کہ پی ٹی آئی کی شکست کی بنیادی وجہ مہنگائی کے علاوہ بڑے اندرونی اختلافات تھے، بعض ارکان اسمبلی کی جانب سے تحریک انصاف کے نامزد امیدواروں کو سپورٹ نہیں کیا گیا۔ یہ انکشاف بھی سامنے آیا ہے کہ اسپیکر قومی اسمبلی، گورنر، صوبائی اور وفاقی وزراء نے اپنے منظور نظرافراد کو ٹکٹ دلوائے اور موروثی سیاست تحریک انصاف کو لے ڈوبی ہے۔ تحریک انصاف کے ذرائع کے مطابق وزیراعظم عمران خان کو رپورٹ پیش کرنے سے قبل وزیراعلی محمود خان کی قریبی صوبائی وزراسے مشاورت جاری ہے،دوسری جانب ذرائع کا کہنا ہے کہ مخالف امیدواروں کو سپورٹ کرنے پر دو ارکان قومی اسمبلی اور چار ارکان صوبائی اسمبلی کے خلاف کارروائی کا فیصلہ کرلیا گیا،رپورٹ پر وزیراعظم عمران خان کی زیرصدارت مشاورتی اجلاس آج ملتوی کردیا گیا ہے۔ اس سے قبل وزیراعظم عمران خان پی ٹی آئی نے خیبرپختونخوا کے بلدیاتی انتخابات کے پہلے فیز میں غلطیوں کا اعتراف کرلیا تھا،انہوں نے کہا تھا کہ غلطیاں کیں اس کی قیمت بھی چکائی،جبکہ عوام بھی کہہ چکے ہیں کہ مہنگائی کے باعث پی ٹی آئی کو شکست ہوئی۔
جمیعت علمائے اسلام ف کے رہنما حافظ حمد اللہ وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری کے بیان پر پھٹ پڑے، انہوں نے کہا کہ کے پی میں شرمناک شکست کو چھپانے کیلئے جمعیت پر تنقید کی جارہی ہے۔ مائیکروبلاگنگ ویب سائٹ ٹویٹر پر اپنے بیان میں رہنما جے یو آئی نے کہا کہ جے یو آئی ف کی حکومت خیبر پختونخوا میں اس وقت سے ہے جب فواد چوہدری پیدا بھی نہیں ہوئے تھے۔ انہوں نے کہا کہ فواد چوہدری کی پیدائش سے قبل مفتی محمود نے پاکستان کو 1973 کا متفقہ آئین دیا، اس آئین پر مفتی محمود کے دستخط ہیں اور اسی آئین کے تحت فواد چوہدری وزیراور عمران خان وزیراعظم بن کر بیٹھے ہیں۔ حافظ حمد اللہ نے اپنی ٹویٹ میں مزید کہا کہ آئین بنانے والی جے یو آئی کو انتہا پسند کہنے والے خود انتہا پسند اور شدت پسند ہیں، جمیعت کی قیادت مولانا فضل الرحمان جمہوریت کی جنگ لڑتے لڑتے تین خود کش حملوں کا نشانہ بن چکے ہیں۔ رہنما جے یو آئی ف نے کہا کہ 2014 کے دھرنے کے دوران پارلیمنٹ، پی ٹی وی، پولیس آفیسر پر حملے سول نافرمانی کا اعلان ، انتہا پسندی و شدت پسندی اور دہشت گردی ریاست سے بغاوت نہیں ہے؟ واضح رہے کہ اس سے قبل ایک پریس کانفرنس کے دوران وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے کہا تھا کہ جے یو آئی کے خیبرپختونخوا میں اٹھنے پر مایوسی ہوئی اس سے ثابت ہوتا ہے کہ پاکستان میں سب ٹھیک نہیں ہے، ان لوگوں کو اب اقتدار ملنا بہت بدقسمتی کی بات ہے۔ انہوں نے کہا کہ تحریک انصاف ایک ملک گیر جماعت ہے اگر پی ٹی آئی کی متبادل جے یو آئی ہے توپھر سوچنے کی بات ہے کیونکہ پی ٹی آئی نہیں ہوگی تو کوئی قومی پارٹی نہیں ہوگی۔

Back
Top