خبریں

پنڈورا پیپرز میں اپنی ملکیت میں آف شور کمپیناں ظاہر ہونے کے بعد سینیٹر فیصل واؤڈا نے پہلی بار میڈیا پر بیان جاری کیا ہے کہ وہ خود کو احتساب کیلئے پیش کرتے ہیں، مگر ساتھ ہی ساتھ انہوں نے ایک درخواست بھی کر دی۔ سابق وفاقی وزیر نے انکوائری کمیٹی سے درخواست کی ہے کہ انکوائری ٹیم 14 گھنٹے کام کرے اور 5 روز میں نتیجہ دے۔ تفصیلات کے مطابق پنڈوراپیپرز سامنے آنے کے بعد وزیراعظم عمران خان کی جانب سے اس پر انکوائری کا اعلان کیا گیا ہے جس پر فیصل واؤڈا نے وزیراعظم کے اس فیصلے کا خیر مقدم کیا ہے اور کہا کہ یہ فیصلہ صرف عمران خان ہی کر سکتے ہیں۔ انہوں نے خود کو احتساب کیلئے پیش کرنے کا اعلان کرتے ہوئے درخواست کی کہ انکوائری ٹیم 14گھنٹے روزانہ کام کر کے 5 دن میں نتیجہ دے اور طریقہ کار ایسا ہو کہ قوم بھی دیکھ سکے اس تحقیقات کا آغاز مجھ سے کریں اس کیس کو مثالی کیس بنائیں۔ سینیٹر واؤڈا نے سوال اٹھایا کہ اگر میں غلط ثابت ہوا تو سزا دیں، میں صحیح ہوا تو فیصلہ کیا جائے غلط بیانی کرنے والے نام نہاد صحافیوں کو کیا سزا ملے گی؟ یاد رہے کہ موجودہ حکومت کے سابق وفاقی وزیر برائے آبی وسائل و سینیٹر فیصل واؤڈا اور تحریک انصاف ہی سے تعلق رکھنے والے پنجاب کے سینئر وزیر عبدالعلیم خان کا نام بھی پینڈورا پیپرز میں آ گیا ہے۔ پنڈورا پیپرز ایک کروڑ 19 لاکھ فائلوں پر مشتمل تحقیقات کا مجموعہ ہے جس میں دنیا کے 117 ملکوں کے 150 میڈيا اداروں کے 600 سے زائد صحافیوں نے حصہ لیا ہے۔ اس لیکس کی تحقیقات میں 2 پاکستانی صحافی عمر چیمہ اور فخر درانی بھی شریک ہوئے ہیں۔
چیف جسٹس اطہر من اللہ کی سربراہی میں جسٹس عامر فاروق اور جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب پر مشتمل اسلام آباد ہائیکورٹ کے 3 رکنی بنچ نے بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو کو وکیل کی فراہمی کے لیے وزارت قانون کی درخواست پر سماعت کی، اٹارنی جنرل اور عدالتی معاون ایڈوکیٹ حامد خان بھی بینچ کے روبرو پیش ہوئے۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ وفاقی حکومت عالمی عدالت انصاف کے ریویو اور ری کنسڈریشن کے فیصلے پر مکمل عملدرآمد چاہتی ہے جبکہ بھارت جان بوجھ کر عالمی عدالت انصاف کے فیصلے پر عمل درآمد نہیں چاہتا، اسی صورت حال میں وفاقی حکومت نے درخواست دی تھی کہ کلبھوشن کے لیے وکیل مقرر کیا جائے۔ اٹارنی جنرل پاکستان خالد جاوید خان نے مزید کہا کہ بھارت چاہتا ہے کہ وہ باہر سے وکیل لائیں لیکن ہمارے قانون کے مطابق باہر سے وکیل نہیں لا سکتے حالانکہ بھارت بھی اپنے ملک میں کسی اور ملک کا وکیل قبول نہیں کرتا۔ بھارت کلبھوشن کے ساتھ اکیلے کمرے میں قونصلر رسائی چاہتا ہے مگر وہ کوئی ملک نہیں دے سکتا۔ انہوں نے کہا کہ بھارتی نمائندوں کو علیحدگی میں کلبھوشن کے ساتھ نہیں چھوڑ سکتے، وہ اکیلے محض ہاتھ ملا کر بھی اسے کچھ کرسکتے ہیں۔ بھارت کو عدالت کے آرڈر کے مطابق یہ پیغام پہنچایا گیا لیکن ابھی تک ان کی طرف سے کوئی جواب نہیں آیا۔ عدالت نے کیس غیر معینہ مدت کیلئے ملتوی کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ عالمی عدالت انصاف کے فیصلے پر ہمیں عمل کرانا ہے لیکن بھارت کی اس میں دلچسپی نہیں، کیا یہ مناسب نہیں کہ انہیں ایک موقع دیا جائے اور وہ آ کر عدالت کے سامنے تحفظات رکھیں؟ چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے ریمارکس میں کہا کہ بھارتی حکومت کو اگر کوئی تحفظات ہیں تو وہ آ کر بتائے، بھارتی سفارت خانہ پاکستان میں ہے، وہاں سے کوئی آکر بتا دے، ہوسکتا ہے یہاں اس کا حل نکل آئے۔
ملک بھر میں پانی کا بحران، لیکن بارشوں اور سیلاب کے پانی کا ذخیرہ کر کے پانی کی قلت پر قابو پانے کے وسیع مواقع میسر ہونے کے باجود پانی ضائع کیا جارہاہے، جی ہاں عملی اقدامات نہ ہونے کی وجہ سے ہر سال لاکھوں ایکڑ فٹ پانی ضائع ہو رہا ہے۔ انڈس ریور سسٹم اتھارٹی ʼارساʼ کے مطابق پاکستان کے دریاوں میں ہر سال گلیشیئر پگھلنے، برفباری اور بارشوں سے 134ملین ایکڑ فٹ پانی آتا ہے،لیکن دستیاب پانی کا محض 10 فیصد ذخیرہ کرنے کی صلاحیت ہے، ارسا نے بتایا کہ دنیا کے دیگر ممالک میں یہ شرح 40 فیصد سے زائد ہے۔ آبی ماہرین نے خبردار کردیا کہ اگر پانی کی کمی پر قابو نہ پایا گیا تو 2025ء تک پاکستان پانی کی قلت کا شکار ممالک میں شامل ہو جائے گا، پاکستان میں سیلاب کی تباہ کاریوں اور پانی کی کمی کنٹرول کرنے کیلئے واٹر مینجمنٹ کے عالمی ماہر اور سابق وائس چانسلر بارانی یونیورسٹی ڈاکٹر رائے نیاز نے کہا کہ اگر محکمہ زراعت اور دیگر وفاقی و صوبائی محکمے مل کر کام کریں تو اس مسئلے کو حل کیا جاسکتا ہے،جس سے زراعت کے شعبے کو بھی ترقی ملے گی،اس سے قبل بھی ارسا کی جانب سے پانی کے سنگین بحران کے خطرے کا خدشہ ظاہر کیا جاچکا ہے۔
ڈیرہ غازی خان کی ایک نجی تعلیمی اکیڈمی میں طالبات ریپ کا نشانہ بننے لگی ہیں، پولیس نے مرکزی ملزم جاوید نامی شخص کو گرفتار بھی کرلیا ہے۔ خبررساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق جنوبی پنجاب کے شہر ڈیرہ غازی خان کی ایک تعلیمی اکیڈمی میں طالبات کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنائے جانے کا واقعہ سامنے آیا ہے، اکیڈمی میں طالبات سے زیادتی کی ویڈیو بھی سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی ہے جس کے بعد پولیس حرکت میں آگئی اور ایک ملزم کو گرفتار کرلیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق پولیس کے ہاتھوں گرفتار ہونے والے شخص کے ساتھی طالبات کو حیلے بہانوں سے گھیر کر اکیڈمی لاتے اور وہاں لے جاکر اجتماعی زیادتی کا نشانہ بناتے، طالبات کو نہ صرف جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا جاتا تھا بلکہ کمرے میں لگے کیمروں سے ان کی ویڈیو بھی بنائی جاتی جس کی بنیاد پر بعد میں ان خواتین کو بلیک میل بھی کیا جاتا تھا۔ ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر عمر سعید ملک نے واقعے کی تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ ایک تین منزلہ عمارت میں تعلیمی اکیڈمی بنائی گئی تھی، گراؤنڈ فلور کو ملزمان کی جانب سے ایسی گھٹیا حرکتوں کیلئے استعمال کیا جاتا تھا، پہلے فلور پر کلاسز ہوتی تھیں جبکہ دوسرے فلور پر خواتین کا ہوسٹل بنایا گیا تھا۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ کورونا کے دنوں میں اکیڈمی کو بند کردیا گیا ، ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہونے کے بعد ملزم جاوید فرار ہوگیا تھا تاہم سی سی ٹی وی فوٹیج کی مدد سے پولیس نے اسے گرفتار کرلیا، ملزم سے تفتیش جاری ہے، باقی ملزمان کو جلد گرفتار کرلیا جائے گا۔ ریجنل پولیس آفیسر(آر پی او) فیصل رانا نے واقعے سے متعلق گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ گرفتار ملزم 2012 سے ڈی جی خان میں اکیڈمی چلا رہا تھا، واقعے میں ملوث تین مزید ملزمان کی شناخت ہوچکی ہے جن کی گرفتاری کیلئے چھاپےمارے جارہے ہیں۔
کراچی میں پولیس کے ہاتھوں مختصر وقت کے لئے اغوا برائے تاوان کی وارداتیں بڑھنے لگیں، شارٹ ٹرم کڈنیپنگ کی ایک اور واردات سامنے آگئی۔ تفصیلات کے مطابق نیو کراچی سے اغوا ہونے والا 17 سالہ نوجوان اسد تھانہ سرجانی ٹاؤن کی چھت سے بازیاب ہوا، اسد کو نامعلوم سادہ لباس افراد گھر سے اغوا کر کے لے گئے اور مغوی کی والدہ کو اغواکاروں کی جانب سے فون کرکے ایک لاکھ روپے تاوان کے ساتھ سرجانی ٹاؤن تھانے بلایا گیا لیکن جب وہ وہاں پہنچیں تو لاک اپ میں ان کا بیٹا نہیں تھا۔ مغوی اسد کو وہاں موجود نہ پا کر خاتون اپنے بیٹے کے متعلق پولیس اہلکاروں سے بات کر رہی تھیں جب انہیں اغوا کاروں کی کال آئی،٫جس ایس ایچ او تھانہ سرجانی ٹاؤن نے اغوا کاروں سے رکشہ ڈرائیور بن کر بات کی تو انہوں نے تھانہ سرجانی ٹاؤن کی چھت پہ بلایا، جب ایس ایچ او تھانے کی پہلی منزل پر پہنچے تو مغوی اسد وہاں موجود تھا۔ پولیس کا کہنا ہے کہ مغوی اسد کو بازیاب کروا کے والدہ کے حوالے کر دیا گیا ہے جبکہ اغوا میں ملوث شعبہ تفتیش کے سب انسپکٹر افضل سمیت 4 افراد کو گرفتار کرلیا ہے، سب انسپکٹر کے علاوہ تینوں افراد پولیس اہلکار نہیں بلکہ سب انسپکٹر افضل کے لیے کام کرتے تھے۔ پولیس کے مطابق واقعہ کی تحقیقات سمیت تھانے میں غیر متعلقہ افراد کی موجودگی کی بھی تفتیش جاری ہے۔ واضح رہے کہ ایک روز قبل پولیس نے ڈائریکٹر جنرل ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن کے دفتر پر چھاپہ مار کر تاوان کے لیے اغوا کیا گیا شخص بازیاب کروایا تھا۔
سندھ کے ضلع سکھر کی تحصیل پنو عاقل میں دو ملزمان نے خاتون پر بہیمانہ تشدد کیا اور زبردستی رکشے میں بٹھانے کی کوشش کی، واقعہ کی ویڈیو منظرعام پر آگئی۔ تفصیلات کے مطابق پنو عاقل میں دو ملزمان کی جانب سے خاتون پر بہیمانہ تشدد کیا گیا اور زبردستی رکشے میں بٹھانے کی کوشش کی گئی۔ پولیس نےواقعہ کی ویڈیو منظرعام پر آنے کے بعد فوری کارروائی کرتے ہوئے دونوں ملزمان کو گرفتار کر لیا جبکہ خاتون کو بازیاب کروا کے اپنی تحویل میں لے لیا۔ متاثرہ خاتون نے اپنے بیان میں کہا کہ انہیں روہڑی سے اغوا کرکے لایا گیا اور پھر زبردستی نکاح پر نکاح کروایا گیا۔ دوسری جانب ملزم میر خان نے پولیس کو بیان دیا ہے کہ خاتون کے والدین کی مرضی سے شادی کی ہے اور خاتون کے والدین کو نکاح کے عوض دو لاکھ 80 ہزار روپے بھی ادا کیے ہیں۔ پولیس نے ملزمان کے بیان قلمبند کرنے کے بعد واقعے کی تحقیقات شروع کر دی ہیں۔
سندھ حکومت ایک بار پھر آئی جی سندھ مشتاق مہر سے ناراض ہوگئی، تنازع وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کے پی ایس او کی ترقی نہ ہونے پر ہوا۔ تفصیلات کے مطابق وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کے پی ایس او فرخ بشیر کی ترقی نہ ہونے پر حکومت اور آئی جی سندھ مشتاق مہر کے درمیان ایک بار پھر تنازع سامنے آگیا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ وزیراعلیٰ کو مطلع کیا گیا ہے کہ آئی جی سندھ ان کے پی ایس او فرخ بشیر کی ترقی نہ ہونے کے ذمہ دار ہیں۔ وزیراعلیٰ سندھ کی جانب سے چیف سیکرٹری کو ہدایت کی گئی ہے کہ آئی جی سندھ مشتاق مہر کے اس اقدام پر کو اظہار ناپسندیدگی کا خط لکھا جائے، تاہم اس معاملے پر ابھی تک کوئی پیش رفت سامنے نہیں آئی۔ ذرائع کا مزید کہنا ہے کہ سینٹرل سلیکشن بورڈ نے سندھ سے اس بار صرف 3 افسران کی ترقی کی منظوری دی ہے، ترقی پانے والے افسران میں مقدس حیدر ، عبدالسلام شیخ اور حمید کھوسو شامل ہیں۔ دوسری جانب ایس ایس پی فرخ بشیر سمیت کئی سینیئر افسران کی اگلے عہدے پر ترقی نہیں ہو سکی جن میں فیصل بشیر ، رائے اعجاز اور ڈاکٹر فاروق احمد شامل ہیں۔ آئندہ دنوں میں آئی جی سندھ کے قریبی افسران کے تبادلوں کا بھی امکان ظاہر کیا جارہا ہے۔
کراچی میں نیشنل اسٹیڈیم کے قریب فائیو اسٹار ہوٹل کی تعمیر کیلئے معروف کاروباری شخصیات نے چیئرمین پی سی بی کو آفر کردی ہے۔ خبررساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق چیئرمین پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) رمیز راجہ نے کراچی کی مشہور کاروباری شخصیات سے ملاقات کی، یہ ملاقات معروف بزنس مین عقیل کریم ڈھیڈی کے دفتر میں ہوئی جس میں پی سی بی عہدیدار سلمان نصیر بھی شریک تھے۔ رپورٹ کے مطابق اجلاس کے دوران غیر ملکی ٹیموں کی جانب سے پاکستان میں سیکیورٹی کی صورتحال کے حوالے سے اٹھائے جانے والے سوالات کا معاملہ زیر غور آیا اس دوران چیئرمین پی سی بی کی جانب سے کراچی کے نیشنل کرکٹ اسٹیڈیم کے قریب کھلاڑیوں کو ٹھہرانے کیلئے ایک فائیو اسٹار ہوٹل کی تعمیر کی تجویز سامنے آئی۔ اجلاس میں شریک کاروباری شخصیات نے رمیز راجہ کو نیشنل اسٹیڈیم کے قریب ایک فائیو ا سٹار ہوٹل تعمیر کرنے کی پیشکش کرتے ہوئے کہا کہ مستقبل میں بین الاقومی ٹیموں کو اس فائیواسٹار ہوٹل میں ٹھہرایا جائے، اسٹیڈیم کے قریب ہوٹل ہونے سے سیکیورٹی خدشات کو کسی حد تک کم کرنے میں مدد ملے گی۔ پی سی بی حکام کی جانب سے اجلاس میں بھارت کے ساتھ کرکٹ میں درپیش چیلنجز خصوصاً معاشی معاملات پر بھی گفتگو کی گئی اور تاجروں سے مدد کی درخواست کی گئی جس پر تاجر برادری نے چیئرمین پی سی بی کو ہر ممکن تعاون کی یقین دہانی کروائی ، رمیز راجہ نے تعاون پر کاروباری شخصیات کا شکریہ ادا کیا۔ ملاقات کے بعد میڈیا نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے رمیز راجہ نے کہا کہ ہم نے کرکٹ کی معیشت کو مضبوط کرنے کو ہدف بناتے ہوئے اس پر کام شروع کردیا ہے، مضبوط کرکٹ کی معیشت کے ذریعے ہی ہم دنیا کا مقابلہ کرسکتے ہیں۔ یادرہے کہ گزشتہ ماہ دورہ پاکستان پر آئی نیوزی لینڈ کی کرکٹ ٹیم نے پہلے میچ کے شروع ہونے سے چند گھنٹے پہلے سیریز کھیلنے سے انکار کرتے ہوئے دورہ ختم کردیا، نیوزی لینڈ کی ٹیم نے سیکیورٹی خدشات کو جواز بناتے ہوئے فوری طور پر ملک چھوڑ دیا ، اس واقعے کے چند روز بعد برطانوی کرکٹ بورڈ نے بھی شیڈولڈ دورہ پاکستان منسوخ کرنے کا اعلان کردیا تھا۔
وزیراعظم عمران خان نے پنڈورا پیپرز میں پاکستانی شخصیات کی مالی بدعنوانیوں کی چھان بین کیلئے تحقیقاتی سیل قائم کردیا ہے۔ خبررساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق پاکستان کی 700 شخصیات کی مالی بدعنوانیوں سے متعلق تفصیلات پنڈورا پیپرز میں سامنے آنے کے بعد وزیراعظم عمران خان کی سربراہی میں ایک اہم اجلاس ہوا جس میں پارٹی ترجمان اور اہم وفاقی وزراء شریک ہوئے،وزیراعظم عمران خان نے اجلاس میں پنڈورا پیپرز کی تحقیقات کیلئے خصوصی سیل تشکیل دینے کا اعلان کیا۔ اجلاس میں وفاقی وزراء اور اٹارنی جنرل پر مشتمل خصوصی کمیٹی نے پنڈورا پیپرز کے حوالے سے وزیراعظم عمران خان کو ابتدائی رپورٹ بھی پیش کی اور تحقیقات کیلئے تجاویز بھی پیش کیں۔ رپورٹ کے مطابق اس خصوصی سیل کے سربراہ وزیراعظم عمران خان خود ہوں گے جبکہ معاونت کیلئے وفاقی تحقیقاتی ایجنسی، نیب اور ایف بی آر کو بھی سیل کا حصہ بنایا گیا ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ خصوصی تحقیقاتی سیل وفاقی وزراء سمیت 700 پاکستانیوں سے متعلق پنڈورا پیپرز میں آف شور کمپنیوں کے قانونی یا غیر قانونی ہونے اور سرمائے کی قانونی حیثیت کے حوالےسے تحقیقات کی جائیں گی۔ اس حوالے سے وفاقی وزیراطلاعات و نشریات فواد چوہدری نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ پنڈورا لیکس کی تحقیقات کیلئے وزیر اعظم پاکستان نے وزیر اعظم انسپکشن کمیشن کے تحت ایک اعلیٰ سطحی سیل قائم کردیا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ یہ سیل پنڈورا لیکس میں شامل تمام افراد سے جواب طلبی کرے گا اور حقائق قوم کے سامنے رکھیں جائینگے۔
وفاقی وزارت اطلاعات و نشریات نے پاکستان ٹیلی ویژن نیٹ ورک (پارلیمنٹ) کی فیڈ استعمال کرنے والے نجی ٹی وی چینلز سے پیسے لینے کا فیصلہ کیا ہے۔ خبررساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے اطلاعات و نشریات کا اجلاس سینیٹر فیصل جاوید کی سربراہی میں منعقد ہوا جس میں وفاقی وزیراطلاعات ونشریات فواد چوہدری سمیت دیگر اراکین کمیٹی نے شرکت کی۔ دوران اجلاس فواد چوہدری نے کہا کہ ہم پی ٹی وی پارلیمنٹ کو کمرشل وینچر کی طرح چلانا چاہتے ہیں، نجی ٹی وی پی ٹی وی پارلیمنٹ کی فیڈ چلا کر پیسے کما رہے ہیں اور ہمیں اس سے کوئی فائدہ نہیں ہورہا، پی ٹی وی پارلیمنٹ کی فیڈ چلانے والے پرائیویٹ چینلز کو ہمیں پیسے دینا ہوں گے۔ چیئرمین کمیٹی سینیٹر فیصل جاوید نے کہا کہ پرائیویٹ چینلز کو پارلیمنٹ کی کوریج کرنے کی اجازت نہیں ہے تو وہ کیسے پارلیمنٹ کی تقاریر کو نشر کرسکتے ہیں جس پر جواب دیتے ہوئے فواد چوہدری نے کہا کہ نجی چینلز کو پارلیمنٹ کی کوریج کی اجازت دینا میرا کام نہیں ہے مجھےیا آپ پیسے دیں یا پارلیمنٹ کو دیں ۔ انہوں نے مزید کہا کہ پی ٹی وی، اسٹیل ملز اور پی آئی اے سمیت ملک کے بڑے اداروں کے ساتھ یہی ظلم ہوا ہے ہماری حکومت سے قبل 10 سال کے عرصے میں پی ٹی وی میں 2 ہزار سے زائد افراد کو بھرتی کیا گیا جن میں اکثریت میٹرک پاس لوگوں کی ہے۔ پیپلزپارٹی کے سینیٹر مصطفیٰ نواز کھوکھر نے ان کو جواب دیتے ہوئے کہا کہ اگر ماضی کی حکومتوں نے غیر قانونی بھرتیاں کی ہیں تو آپ نے بھی حکومت میں آتے ہی بھرتیاں کی ہیں جس پر فواد چوہدری نے کہا کہ حالیہ بھرتیاں کوٹہ سسٹم کے تحت کی گئی ہیں۔ اجلاس کے دوران پی ٹی وی ملازمین کی تنخواہوں کا معاملہ بھی زیر غور آیا جس پر مسلم لیگ ن کے سینیٹر عرفان صدیقی نے کہا کہ پی ٹی وی ملازمین کی تنخواہوں کا کوئی معیار نہیں ہے راشد لطیف کو 4 لاکھ سے ساڑھے 9 لاکھ دیئے جارہے ہیں، آپ کا جی چاہتا ہے تو کسی کی تنخواہ میں 2،2 لاکھ روپے اضافہ کردیتے ہیں، تو ایک بچی کی تنخواہ 50 ہزار سے کیوں نہیں بڑھ سکتی؟ فواد چوہدری نے عرفان صدیقی کو جواب دیتے ہوئے کہا کہ آپ بچوں کی تنخواہوں میں اضافہ چاہتے ہیں تو اپنی تنخواہ ہمیں دےدیں، عرفان صدیقی نے جواب دیا کہ آپ نے اتنا منافع کمایا ہے اس میں سے بچوں کی تنخواہیں ادا کریں ، فواد چوہدری نے کہا کہ میں چیریٹی نہیں چلا رہا آپ بچوں کی تنخواہوں میں اضافہ چاہتے ہیں تو اپنی تنخواہیں ہماری طرف ٹرانسفر کردیں۔
انٹرنیشنل کنسورشیم آف انویسٹی گیٹو جرنلسٹ (آئی سی آئی جے) کی جانب سے جاری کردہ پینڈورا پیپرز میں پاکستانی سیاستدانوں، سابق فوجی افسران اور ان کے اہلِ خانہ سمیت درجنوں پاکستانیوں کی آف شور کمپنیز کا انکشاف ہوا ہے۔ وزیرِ اطلاعات نے فواد چودھری نے کہا ہے کہ یہ بدقسمتی کی بات ہے کہ پاکستان کے تمام بڑے میڈیا ہاؤسز کے مالکان کا نام پینڈورا لیکس میں شامل ہیں اور کئی ایک پر منی لانڈرنگ کے الزامات لگتے رہے ہیں۔ وزارت اطلاعات اس ضمن میں شفاف تحقیقات کا آغاز کر رہی ہے اور پیمرا کو جواب طلبی کے لیے کہا جا رہا ہے۔ ایک اور ٹویٹ میں فواد چوہدری نے بتایا کہ انسپکشن کمیشن کے تحت قائم کردہ سیل پنڈورا لیکس میں شامل تمام افراد سے جواب طلبی کرے گا اور حقائق قوم کے سامنے رکھیں جائیں گے۔ تفصیلات کے مطابق وزیرِ اطلاعات فواد چوہدری نے اپنی ٹوئٹر پوسٹ میں بتایا کہ پنڈورا لیکس کی تحقیقات کے لیے وزیر اعظم پاکستان نے وزیر اعظم انسپکشن کمیشن کے تحت ایک اعلیٰ سطح کا سیل قائم کیا ہے۔ واضح رہے کہ پینڈورا پیپرز میں سیاستدانوں ، سابق ریٹائرڈ جنرلز سمیت میڈیا مالکان کے نام بھی شامل ہیں، آئی سی آئی جے کیساتھ کام کرنیوالے عمر چیمہ کا کہنا ہے کہ پینڈورا پیپرز میں دی نیوز کے ایڈیٹرانچیف کانام بھی شامل ہے، دلچسپ امریہ ہے کہ دی نیوز، جنگ کے ایڈیٹرانچیف اور جیو نیوز کے سربراہ کا نام میرشکیل الرحمان ہے لیکن عمر چیمہ نام لینے سے کتراتے رہے۔ علاوہ ازیں اس لسٹ میں بول ٹی وی کے سی ای او شعیب شیخ کا نام بھی شامل ہے جبکہ گورمے بیکرز اور جی این این کے مالکان، ایکسپریس نیوز کےسلطان لاکھانی، ڈان نیوز کے حمید ہارون بھی شامل ہیں، تحریک انصاف کے صوبائی وزیر عبدالعلیم خان جنہوں نے حال ہی میں سماء نیوز کا چارج سنبھالا ہے، انکا نام بھی پینڈورا پیپرز میں شامل ہے۔ عبدالعلیم خان نے مطابق انہوں نے اپنی آفشور کمپنی الیکشن کمیشن اور ایف بی آر کے گوشواروں میں ڈیکلئیر کررکھی ہے۔
وفاقی وزیر خزانہ شوکت ترین نے نجی ٹی وی چینل سے گفتگو کے دوران انکشاف کیا کہ پاکستان سے روزانہ کی بنیاد پر 15 ملین ڈالر سے زائد رقم افغانستان جا رہی ہے۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ یہی وجہ ہے کہ ملک میں ڈالر کی قلت ہو رہی ہے اور اسی وجہ سے روپے کی بے قدری بڑھتی ہی چلی جا رہی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ جب اتنی تیزی سے ملک میں ڈالر کم ہوتے ہیں تو پھر اپنی کرنسی اسی طرح گراوٹ کا شکار ہو جاتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمارا تخمینہ ہے کہ اگر اسی رفتار سے ڈالر گھٹتے چلے گئے تو یہ رقم کئی بلین ڈالر تک پہنچ جائے گی۔ شوکت ترین نے کہا کہ 15 ملین ڈالر کی رقم ایک اندازے کے مطابق ہے اس سے کم یا زیادہ بھی ہو سکتی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس کی وجہ یہ ہے کہ افغان قانون کے مطابق وہاں 10 ہزار ڈالر تک رقم کیش کی صورت میں ساتھ لیجائی جا سکتی ہے۔ اگر یہ اسی طرح چلتا رہا تو ملک میں ڈالر کی قلت پیدا ہو سکتی ہے جس کا نتیجہ زیادہ اچھا نہیں ہو گا۔ جب ان سے اس مسئلے کے حل سے متعلق پوچھا گیا تو وزیر خزانہ نے کہا کہ ہم افغانستان کے ساتھ اس حوالے سے قانون سازی کر رہے ہیں جس طرح بھارت کے ساتھ بھی قانون موجود ہے کہ کوئی شخص صرف ایک ہزار ڈالر تک اپنے ساتھ لیجا سکتا ہے۔ اگر اس طرح ہوتا ہے تو صورتحال جلد تبدیل ہو جائے گی۔
لیفٹننٹ جنرل ریٹائرڈ شفاعت شاہ سابق صدر جنرل پرویز مشرف کے ملٹری سیکرٹری، کورکمانڈر لاہور اور اردن میں پاکستان کے سفیر کے طور پر بھی فرائض سرانجام دے چکے ہیں۔ ان کا نام بھی پنڈورا پیپرز میں سامنے آیا ہے۔ شفاعت شاہ سے متعلق پنڈورا پیپرز میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ انہوں نے برطانیہ میں ایک عالیشان فلیٹ خریدا ہے جو کہ پاکستان میں ان کے ایک پلاٹ کے پتے پر رجسٹرڈ ہے۔ لیفٹننٹ جنرل (ر) شفاعت شاہ نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر کہا ہے کہ انہوں نے لندن میں جو فلیٹ خریدا ہے وہ لاہور میں اپنا پلاٹ بیچ کر خریدا گیا تھا۔ اس کے علاوہ ان کا برطانیہ میں کوئی کاروبار نہیں ہے۔ برطانوی قوانین کے مطابق یہ کوئی جرم بھی نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس فلیٹ کو ان کی جانب سے ٹیکس ریٹرن میں ظاہر کیا گیا ہے اور ادارہ بھی اس فلیٹ سے متعلق سب کچھ جانتا ہے۔ اس کا اکبر آصف کے ساتھ کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ شفاعت شاہ نے کہا کہ اس کی جو قیمت پنڈورا پیپرز میں بتائی گئی ہے یہ اس سے آدھی قیمت کا بھی نہیں ہے۔ شفاعت شاہ نے مزید ٹوئٹ میں کہا کہ جس صحافی نے یہ تحقیقات کی ہیں اسی نے پولٹزر کو ای میل کی تھی وہ پچھلے 2 سال تک بھارت میں رہا ہے۔ یہ بالکل بھارتی خفیہ ایجنسی را کا طریقہ کار ہے جس کے ساتھ وہ پاک فوج کے موجودہ اور سابق افسران کے خلاف پراپیگنڈہ کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس سب میں کسی قسم کا کوئی قانون نہیں توڑا گیا ہر چیز کا ثبوت موجود ہے۔
گزشتہ روز پی ٹی وی پر خبر چلائی گئی کہ پنڈورا پیپرز میں مریم نواز کے صاحبزادے جنید صفدر کا نام بھی آیا ہے جن کے نام پر 5 آف شور کمپنیاں ہیں۔ ن لیگ کی جانب سے اس پر سخت ردعمل سامنے آیا کہ جنید صفدر کے نام پر کوئی آف شور کمپنی نہیں ہے اور نہ ہی ان کا نام پنڈورا لیکس میں آیا ہے، ہم اس خبر کے خلاف قانونی چارہ جوئی کریں گے۔ یاد رہے کہ پنڈورا پیپرز نے ملک میں پاناما لیکس کے بعد اب ایک نئی بحث چھیڑ دی ہے جس پر سیاسی حلقوں کے علاوہ عوام بھی شدید حیران ہے ، لیکس میں 700 سے زائد پاکستانیوں کے نام آئے ہیں جن میں سیاستدان، سابق فوجی جنرنیل اور کاروباری شخصیات شامل ہیں۔ سرکاری ٹی وی پر اس خبر کے چلائے جانے کے بعد صحافی سلیم صافی نے بھی حکومت کے خلاف آستینیں چڑھا لی ہیں اور ٹوئٹر پر کہا ہے کہ اس ملک میں اگرکسی سیاستدان یاحکمران نے سب سے زیادہ فیک نیوز پھیلائی یا پھیلا رہا ہے تو وہ عمران خان ہیں۔ سلیم صافی نے مزید کہا کہ تبھی توکہتا ہوں کہ موجودہ حکومت فیک نیوزکی سب سے بڑی فیکٹری ہے۔ یقین نہ آئے تو آج پی ٹی وی کی یہ خبر ملاحظہ فرمائیں۔ یہ امر بھی پیش نظر رہے کہ جنید صفدر ابھی سیاست میں نہیں آئے۔ انہوں نے ایک اور ٹوئٹ کیا جس میں ان کا کہنا تھا کہ پی ٹی وی رات سے وضاحت کر رہا ہے کہ جنید سےمتعلق ایسی خبر نہیں چلائی۔ یہ فیک سکرین شاٹ وزیراعظم کے ترجمان نے ٹویٹ کی اور ابھی تک ڈیلیٹ کر کے معذرت نہیں کی۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ اسی کی بنیاد پر میڈیا پرسنز نے ردعمل دیا۔ گویا ایک فیک نیوزکے ذریعے ایک خاندان، معتبر میڈیا پرسنز اور خود پی ٹی وی کی کریڈیبیلیٹی کو بھی نشانہ بنایا گیا۔
جمیعت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے کہا ہے کہ قومی اسمبلی میں غیر اسلامی اور غیر شریعی قوانین کی منظوری کیلئے دباؤ ڈالا جارہا ہے مگر ہم استعماری قوتوں کے زر خرید نمائندوں کے خلاف اپنی جدوجہد جاری رکھیں گے۔ خبررساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق مولانا فضل الرحمان نے پشاور میں ایک اجلاس سے خطاب کیا اور کہا کہ موجودہ حکومت ان قوانین کو ختم کرنے کیلئے ایک مخصوص ایجنڈے پر کام کررہی ہے جو دوسری حکومتیں ختم نہ کرسکیں، مگر ہم اپنے اسلاف کے نقش قدم پر چلتے رہیں گے اور ان لوگوں کے خلاف اپنی جدوجہد جاری رکھیں گے۔ مولانا فضل الرحمان نے موجودہ حکومت کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ سیلکٹڈ حکمران نے غریب سے جینے کا حق چھین لیا ہے ، آج لوگوں کے گھروں میں چولہے بجھ گئے ہیں، مہنگائی تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ چکی ہے ، عوام خود کشی کرنے پر مجبور ہیں، کروڑ نوکریاں دینے کا وعدہ کرنے والے نے لاکھوں افراد کو بے روزگار کردیا ہے۔ سربراہ پی ڈی ایم مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ موجودہ حکومت قادیانیوں کی سرپرستی، کم عمری میں اسلام قبول کرنے، مدارس کے خلاف سازش، گھریلو تشدد کے بل سمیت فحاشی و عریانی کو فروغ دے پر ملک سے اسلامی تہذیب کو ختم کرکے مغربی تہذیب مسلط کرنے کے ایجنڈے پر عمل پیرا ہے، ماضی میں اس حکومت کے خلاف جو کچھ بھی کہا تھا آج حرف بہ حرف سچ ثابت ہورہا ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ پی ڈی ایم آج بھی حکومت کے خلاف میدان میں موجود ہے اور اسے ناکام کرنے کی سازش خود ناکام ہوچکی ہے، پی ڈی ایم چھوڑنے والوں نے اپوزیشن اتحاد کو کمزور کرنے کی کوشش کی مگر کراچی کے کامیاب جلسے نے ان کے عزائم کو چور چور کردیا ہے انہوں نے مزید کہا کہ اس حکومت کو چوری کےالیکشن کی بنیاد پر اقتدار میں لایا گیا اور یہ ایک مخصوص ایجنڈے پر عمل پیرا ہے، اس نااہل حکومت کو عوام نے ووٹ نہیں دیا تھا، اس وقت ملک کی خارجہ پالیسی کا یہ حال ہے کہ ہم نے قریبی دوست ہمسایہ ملک کو ناراض کردیا ہے۔
لاہور میں پولیس نے کم سن بھائی بہن پر تشدد کرنے والے جوڑے کو گرفتار کرلیا ہے، واقعے کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی تھی۔ خبررساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق لاہور کے تھانہ گرین ٹاؤن میں افسوسناک واقعہ پیش آیا جہاں گھر میں کام کرنےو الے کم سن بہن بھائیوں کو گھر کے مالکان کی جانب سے بدترین تشدد کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ کمسن بہن بھائی محسن اور ارم کو ان کے ماں باپ نے دو وقت کی روٹی کے لیے لاہور کے ایک شہری شاہد جنید کے گھر ملازم رکھوایا تھا لیکن شاہد اور اس کی بیوی اقراءدونوں بہن بھائیوں کو بہیمانہ تشدد کا نشانہ بناتے رہے، معصوم بچوں کا پورا جسم زخموں سے چور ہو گیا۔ دونوں بہن بھائیوں کا کہنا ہے کہ دونوں میاں بیوی ڈنڈوں اور چمچوں سے مارتے، دل نہ بھرتا تو جسم گرم استری سے داغ دیتے۔بچے بھاگ کر ایک دکان میں پہنچے، کسی نے ان کی ویڈیو بنائی اور سوشل میڈیا پر وائرل کر دی۔ واقعے کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہونے کے بعد پولیس نے ایکشن لیا اور گھر کے مالکان میاں بیوی کو گرفتار کرلیا ہے۔ ڈی آئی جی آپریشنز سہیل چودھری نے واقعے سے متعلق گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ متاثرہ بچے محسن کے جسم پر مارے پیٹ کے گہرے زخم بھی موجود ہیں، بچے کے مطابق اس کی بہن کو بھی گھر میں مار پیٹ کا نشانہ بنایا جاتا تھا۔ پولیس نے بچوں کو اپنی تحویل میں لیتے ہوئے علاج معالجے کیلئے ہسپتال منتقل کردیا گیا جہاں یہ انکشاف ہوا ہے کہ بچوں کے جسم سے جلانے کے نشانات ہیں رپورٹ کے مطابق کچھ زخم نئے ہیں کچھ پرانے نشانات تھے، ٹانگوں اور کمر پر بھی جلانے کے نشانات موجود ہیں۔ پولیس نے گرفتار میاں بیوی کو تھانہ گرین ٹاؤن منتقل کرتے ہوئے تفتیش شروع کردی ہے۔
لاہور کے ایک شہری کو حبس بے جا میں رکھنے اور تشدد کرنے کے الزام میں تھانہ گلشن اقبال کے ایس ایچ او سمیت 6 اہلکاروں کو معطل کردیا گیا ہے۔ میڈیا رپورٹ کے مطابق پولیس اہلکاروں اور ایس ایچ او کو معطل کرنے کا فیصلہ ڈپٹی انسپکٹر جنرل(ڈی آئی جی) آپریشنز نے کیا اور ان تمام افراد کے خلاف مقدمہ درج کرواکے انہیں اسی تھانے کے حوالات میں بند کردیا ہے۔ ترجمان پولیس کی جانب سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا ہے کہ23 ستمبر کو لاہور کے علاقے محافظ ٹاؤن کے رہائشی نواز کو تھانہ گلشن اقبال کے اہلکار اٹھاکر تھانے لے آئے اور اسے بدترین تشدد کا نشانہ بنانے کے بعد حوالات میں بند کردیا۔ واقعے کا علم ہوتے ہی ڈی آئی جی آپریشنز نے ایس ایچ او، 2 کانسٹیبل سمیت 6 اہلکاروں کو معطل کرنے کے احکامات جاری کرتے ہوئے اسی تھانے میں ملزمان کے خلاف مقدمہ درج کروایا اور حوالات میں انہیں بند کردیا۔ ڈی آئی جی آپریشنز نے واقعے کی تحقیقات کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ شہریوں کو حبس بے جا میں رکھنے اور ان پر تشدد کے واقعات ناقابل برداشت ہیں، واقعے میں ملوث افراد کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی۔
مالی بدعنوانیوں اور کالے دھن کو آف شور کمپنیوں میں سرمایہ کاری اور مختلف ممالک میں آف شور کمپنیوں کے تحت اثاثے قائم کرنے سے متعلق ایک اور تحقیقاتی رپورٹ منظر عام پر آگئی ہے جس میں دنیا بھر کی سینکڑوں شخصیات کی مالی بدعنوانیوں کا کٹا چٹھا چھپا ہے۔ مختلف میڈیا رپورٹس کے مطابق یہ دستاویز بین الاقومی تنظیم' انٹرنیشنل کنسورشیئم آف انوسیٹی گیٹیو جرنلسٹس' کی ویب سائٹ پر شائع ہوئی جسے تیار کرنے میں 117ممالک کے 600 سے زائد صحافیوں نے اپنا کردار ادا کیا ہے۔ اس سے قبل اسی نوعیت کی تحقیقاتی رپورٹ 2016 میں سامنے آئی تھی جس پاناما پیپرز کا نام دیا گیا تھا یہ اسکینڈل بھی اسی تنظیم آئی سی آئی جے کی جانب سے سامنے آیا تھا تاہم کہاجارہا ہے کہ پنڈورا پیپرز پاناما لیکس کے مقابلے میں 2 گنا زائد دستاویز پر مشتمل ہے اور اسے دستاویزات کا طوفان بھی قرار دیا جارہا ہے۔ پنڈورا پیپرز کی دستاویزات ایک کروڑ 20 لاکھ فائلرز پر مشتمل ہے جس میں سے64 لاکھ ٹیکسٹ فائلز ہیں اور چند فائلز دس ہزار صفحات پر مشتمل ہیں، ان کے علاوہ ای میلز، ایکسل شیٹس، تصاویر پر مبنی دستاویزات کی تعداد لاکھوں میں ہے، ان فائلز مجموعی سائز تین ٹیرا بائٹ کے برابر بنتا ہے۔ ان دستاویزات میں 200 ممالک سے تعلق رکھنے والے حکومت میں رہنے والے لوگ ، سیاستدانوں ، ارب پتی افراد، فنکاروں ، کھلاڑیوں جرائم پیشہ افراد کی جانب سےاثاثے جمع کرنے، انہیں خفیہ رکھنے یا ٹیکس چوری سے متعلق انکشافات کیے گئے ہیں، پنڈورا پیپرز میں ان تمام افراد کی آف شور کمپنیوں اور دیگر مالی معاملات کے ایسے پہلوؤں کو منظر عام پر لایا گیا ہے جو ان کے اپنے ملک میں ظاہر نہیں کیے گئے ہیں۔
وفاقی وزیر خزانہ شوکت ترین نے اپنی آف شور کمپنیوں سے متعلق خبروں کے حوالے سے وضاحت دیدی ہے۔ خبررساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق وفاقی وزیر خزانہ کی جانب سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا ہے کہ آف شور کمپنیوں سے متعلق انکشاف اس وقت ہوا جب طارق فواد ملک متحدہ عرب امارات کی 'طارق بن لادن' کمپنی کیلئے کام کرتے تھے، طارق فواد ملک نے ہی سلک بینک میں سرمایہ کاری کیلئے باقاعدہ طور پر اجازت لی تھی تاہم سلک بینک میں ان کی کمپنی کا کوئی اکاؤنٹ نہیں کھولا گیا۔ وفاقی وزیر خزانہ نے اپنے بیان میں کہا کہ نہ کوئی اکاؤنٹ کھولا گیا اور نہ ہی کوئی ٹرانزیکشن ہوئی، یہ کمپنیاں2014 اور 2015 میں بند بھی ہوگئی تھیں، طارق بن لادن ایک بڑے سرمایہ کار ہیں جن کی کمپنی کیلئے طارق فواد ملک کام کیا کرتے تھے۔ واضح رہے کہ براڈ شیٹ کیس کے اہم کردار طارق فواد ملک سے سوال پوچھا گیا تھا کہ وہ 2014 میں چار براڈ شیٹ کمپنیوں کا انتظام سنبھالتے تھے جو مبینہ طور پر شوکت ترین اور ان کے اہلخانہ کے نام پر ہیں کیا آپ بتاسکتے ہیں کہ ان کمپنیوں کا کیا مقصد ہے اور آپ کا شوکت ترین یا ان کے اہلخانہ سے کیا تعلق ہے؟ طارق فواد ملک نے16 ستمبر کو اس حوالے سے جواب دیتے ہوئے کہا تھا کہ 2014 میں جب وہ ایک مشرق وسطیٰ کی کمپنی کیلئے کام کرتے تھے وہ کمپنی شوکت ترین کے بینک میں سرمایہ کاری کی خواہش مند تھی جس کیلئے کمپنی نے اسٹیٹ بینک آف پاکستان سے مذاکرات بھی کیے تھے۔
انصار عباسی نے دعویٰ کیا ہے کہ نیب قوانین میں ترمیم کیلئے جاری کیے جانے والے آرڈیننس کو آئندہ ہفتے تک حتمی شکل دے دی جائے گی،جس میں نہ صرف موجودہ چیئرمین نیب کو عہدے پر بدستور کام کرنے کی اجازت دینے کے معاملے کو حل کیا جائے گا،بلکہ نئے آرڈیننس میں بیوروکریٹس، کاروباری افراد حتیٰ کہ سیاست دانوں کیلئے بھی نئی خبر سامنے آئے گی پی ٹی آئی حکومت چیئرمین نیب کے کسی بھی ملزم کو بلا روک ٹوک گرفتار کرنے کے اختیارات کی روک تھام پر سنجیدگی سے غور کر رہی ہے۔ انصار عباسی کے مطابق وقت کی قلت کے باعث آرڈیننس میں چیئرمین کے عہدے پر نئے تقرر تک جاوید اقبال کو کام کرنے کی اجازت دی جائے گی، اس کے باوجود وزیراعظم عمران خان اپوزیشن لیڈر سے مشاورت کریں گے،پھر نئے چیئرمین کا تقرر کیا جائے یا پھر موجودہ چیئرمین کو عہدے میں توسیع دی جائے۔ ذرائع کے مطابق وزیراعظم کے ساتھ ملاقات اس بات پر اتفاق ہوا کہ قانون کے مطابق وہ اپوزیشن لیڈر سے مشاورت کریں گے،کیونکہ حقیقت یہ ہے کہ بھلے ہی شہباز شریف پر کرپشن کے کیسز چل رہے ہیں لیکن وہ مجرم نہیں ہیں لہٰذا حکومت نے اپنی اُس پالیسی سے فاصلہ اختیار کرلیا ہے جس میں یہ کہا گیا تھا کہ شہباز شریف چونکہ نیب کیسز کا سامنا کر رہے ہیں اسلئے اُن سے مشاورت نہیں کی جائے گی،ذرائع کا کہنا ہے کہ آرڈیننس کے مسودے میں موجودہ چیئرمین کے مسئلے کو حل کیا جائے گا احتساب کے نظام میں بہتری کیلئے بڑی تبدیلیاں کی جائیں گی،کسی بھی ملزم کو بغیر کسی روک ٹوک کے گرفتار کرنے کا چیئرمین کا صوابدیدی اختیار ختم کیا جائے گا۔ اختیارات کے غلط استعمال روکنے کیلئے بھی تجویز بھی دی گئی ہے،جس کے تحت پراسیکیوٹر جنرل کو آزاد کیا جائے اور اس کے بعد اگر نیب کوئی گرفتاری کرنا چاہے تو وہ اُس وقت ہوگی جب چیئرمین اور پراسیکیوٹر جنرل اس پر متفق ہوں،گرفتاری کا معاملہ چیئرمین کی صوابدید میں شامل نہیں ہوگا، اگر کسی ملزم کو گرفتار کیا جائے گا تو اس بارے میں تحریری طور پر فائل میں وجوہات بتانا ہوں گی۔ ذرائع کے مطابق چیئرمین نیب اور پراسیکیوٹر جنرل دونوں کو مل کر اس بات کو یقینی بنانا ہوگا کہ اگر ملزم ملک سے باہر نہیں جا پاتا اور اس نے تفتیش میں بھی تعاون کیا ہے تو اسے گرفتار کرنے کی ضرورت کیا ہوگی،کاروباری افراد کے معاملات نیب کے دائرہ اختیار سے باہر ہوں گے، نیب کو صرف ایسے کیسز میں تحقیقات کی اجازت ہوگی،جن میں اُس کے پاس کسی بیوروکریٹ یا عوامی عہدیدار کیخلاف رشوت کمیشن یا کک بیکس کے ٹھوس شواہد موجود ہوں۔ چیئرمین اور پراسیکیوٹر جنرل کو عہدے سے ہٹانے کے معاملے پر سرکاری ماہرین قانون کی رائے میں اختلاف ہے۔ کچھ کی رائے ہے کہ یہ بات قانون میں واضح طور پر شامل کر دینی چاہئے کہ مس کنڈکٹ کی صورت میں، چیئرمین یا پراسیکیوٹر جنرل کیخلاف شکایت کی صورت میں معاملہ سپریم جوڈیشل کونسل کو بھیج دیا جائے۔