خبریں

وفاقی حکومت نے سندھ اور پنجاب حکومت کی جانب سے گندم کی کم ازکم قیمت خرید میں گزشتہ سال کے مقابلے غیر معمولی اضافہ کیے جانے پر اپنے شدید تحفظات اور اعتراضات کا اظہار کر دیا ہے۔ تاہم دونوں صوبوں کی کابینہ کے فیصلوں کا احترام کرتے ہوئے وفاقی حکومت نے اعلان کردہ قیمتوں کو تسلیم کرنے کا اصولی فیصلہ کیا ہے اور وفاقی محکمہ پاسکو کی گندم خریداری مہم کیلئے بھی 3900 روپے فی من قیمت مقرر کرنے پر اتفاق کیا ہے۔ اس کے علاوہ رمضان المبارک میں اشیائے خورونوش کی وافر دستیابی اور قیمتوں کو بڑھنے سے روکنے کیلئے وزیر اعظم کی جانب سے ذخیرہ اندوزوں اور ناجائز منافع خوروں کیخلاف بلا تفریق کارروائی کے حکم کے بعد کاروباری حلقوں میں سنگین خدشات پیدا ہو گئے ہیں۔ کاروباری حلقوں کاکہناہے کہ اگر تاجروں کی حقیقی اور قابل تصدیق لاگت کو نظر انداز کر کے اپنی من چاہی قیمتوں کو لاگو کروانے کی کوشش کی تو اس کے سنگین نتائج برآمد ہوں گے تاہم ناجائزمنافع خوروں، ذخیرہ اندوزوں کیخلاف ضرور کارروائی ہونی چاہیے۔
نیپرا نے جنوری کی ماہانہ فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ کی مد میں بجلی 48 پیسے فی یونٹ مہنگی کرنے کی منظوری دے دی ہے۔ سنٹرل پاور پرچیزنگ ایجنسی نے جنوری کی ماہانہ فیول ایڈجسٹمنٹ کی مد میں بجلی ایک روپے 17 پیسے فی یونٹ مہنگی کرنے کی درخواست نیپرا میں جمع کرائی تھی جس پر آج سماعت ہوئی، سماعت کے بعد نیپرا نے ایک ماہ کیلئے بجلی 48 پیسے فی یونٹ مہنگی کرنے کی منظوری دی۔ کے الیکٹرک نے جنوری کے لیے فیول ایڈجسٹمنٹ پرائس کی مد میں بجلی 2 روپے 69 پیسے مہنگی جب کہ سہہ ماہی ایڈجسٹمنٹ کی مد میں بجلی میں 7 روپے 36 پیسے فی یونٹ کمی کی درخواست کی تھی۔ 48 پیسے فی یونٹ اضافے کی صورت میں بجلی صارفین پر 9 ارب 20 کروڑ روپے کا اضافی بوجھ پڑے گا۔ نیپرا کے مطابق ڈیٹا کی مزید جانچ پڑتال کے بعد بجلی کی قیمت میں یہ اضافہ 99 پیسے فی یونٹ تک جاسکتا ہے بشمول سابقہ ایڈجسٹمنٹ جو کہ ابھی جانچ پڑتال کے مراحل میں ہیں۔ بجلی کی قیمت میں اضافے کا اطلاق مارچ کے بلز میں کیا جائے گا جبکہ کے الیکٹرک صارفین پر بجلی کی قیمت میں اضافے کا اطلاق نہیں ہوگا۔
کراچی:لیاری میں بجلی، گیس کی لوڈشیڈنگ، عوام کا احتجاج کراچی کے علاقے لیاری میں بجلی اور گیس کی لوڈشیڈنگ نے عوام کی زندگی اجیرن بنادی، بجلی اور گیس کی غیر اعلانیہ لوڈشیڈنگ کے خلاف عوام سڑکوں پر آگئے، لیاری کے عوام نے پیپلزپارٹی آفس پر دھاوا بول دیا، توڑ پھوڑ کی مشتعل مظاہرین نے آفس میں رکھی کرسیاں اور دیگرسامان توڑ دیا۔ پولیس کا کہنا ہے کہ مکینوں نے گیس اور بجلی کے شدید بحران پرمشتعل ہو کر دفترمیں توڑ پھوڑکی۔ مشتعل افراد کا کہنا تھا کہ کے الیکٹرک روزانہ گھنٹوں کے حساب سے لوڈشیڈنگ کرتا ہے اور سوئی گیس نہ ہونے کے سبب گھر میں کھانا پکانا دشوار ہوگیا ہے اس دہرے عذاب سے نجات دلائی جائے،واقعے کی اطلاع ملتے ہی پولیس کی بھاری نفری جائے وقوعہ پر پہنچی اور مظاہرین سے بات چیت کی۔ پولیس کے مطابق سیاسی جماعت کے دفتر میں توڑ پھوڑ کرنے پر 14 افراد کو حراست میں لے لیا گیا ہے جن کے خلاف مقدمہ درج کیا جارہا ہے۔
پی آئی اے کی انتظامی غفلت سامنے آگئی، مختلف اداروں سے 2 ہزارملین سے زائد واجبات کی رقم وصولی کرنے میں ناکام ہوگئے۔ اربوں کے خسارے سے دوچار پی آئی اے کی انتظامی غفلت کے باعث مختلف اداروں سے 2 ہزارملین سے زائد واجبات کی رقم وصولی کرنے میں ناکامی ہوئی۔ عدم وصولی کا انکشاف آڈیٹرزجنرل کی رپورٹ برائے 2021،22 میں کیا گیا، نادہندگان میں مختلف کمپنیاں، ایئرلائنز، ایجنٹس، ایئرلائن کے مختلف شعبے، ذیلی کمپنیزجن میں میسرزسرحد ڈیولپمنٹ اتھارٹی، انشورنس کلیمز،ٹریول ایجنٹس ، کارگو، اسپیڈکس ، سپلائرز،مینٹینس ریزرو، مختلف پارٹیز، ٹریڈرز، کاک پٹ کریو، میسرز الفا کو سمیت یوٹیلٹی چارجزبھی شامل ہیں۔ آڈیٹرز نے واجبات کی عدم وصولی انتظامیہ کی نااہلی قرار دے دیا۔ دوسری جانب خصوصی کمیٹی کے سربراہ قادرمندوخیل نے پی آئی اے ،سول ایوی ایشن کے 1900 ملازم بحال کرنیکا حکم دیدیا جبکہ 6000 ملازمین کی تفصیلات پیش کرنیکا حکم دیدیا گیا
سپریم کورٹ میں ازخودنوٹس کی سماعت کورکرنیوالے صحافی فہیم اختر نے دعویٰ کیا ہے کہ نوے روز میں الیکشن کرانے کی راہ ہموار، الیکشن کمیشن کے وکیل نے انتخابی مہم کا وقت کم کرنے کی رائے دے دی، بولے انتخابی مہم کو 14 روز تک کیا جاسکتا ہے۔ فہیم اختر کے مطابق وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ انتخابی مہم کا دورانیہ دو ہفتے تک کیا جاسکتا ہے جس پر جسٹس منیب پر جواب دیا کہ آئین پر عمل کرنا زیادہ ضروری ہے۔ اس موقع پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ نوے دن سے تاخیر پر عدالت اجازت دے سکتی ہے،جس پر چیف جسٹس نے جواب دیا کہ یہ نہ سمجھیں عدالت کسی غیر آئینی کام کی توسیع کریگی۔ چیف جسٹس نے مزید کہا کہ آرٹیکل 254 کا جہاں اطلاق بنتا ہوا وہاں ہی کرینگے اس سے قبل اٹارنی جنرل نے کہا تھا کہ صوبائی عام انتخابات 25 اپریل سے پہلے ممکن نہیں۔ جس پر جسٹس منیب نے جواب دیا کہ نیت ہو تو راستہ نکل ہی جاتا ہے،الیکشن کمیشن اور متعلقہ حکام چاہتے تو حل نکال سکتے تھے، انتخابی مہم کےلئے قانون کے مطابق 28 دن درکار ہوتے ہیں نوے روز کے اندر انتخابات کےلئے مہم کا وقت کم کیا جاسکتا ہے۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ صدر الیکشن کی تاریخ صرف قومی اسمبلی تحلیل ہونے یا ملک بھر میں انتخابات ہوں تو ہی صدر تاریخ دے سکتے ہیں، چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے صدر کے صوابدیدی اور ایڈوائس پر استعمال کرنے والے اختیارات میں فرق ہے، اٹارنی جنرل کاکہنا تھا کہ الیکشن 90 روز میں ہی ہونے چاہیں آگے نہیں لیکر جانا چاہیے۔
پاکستان مسلم لیگ ن کی چیف آرگنائزر مریم نواز کے عوامی جلسوں میں معزز ججوں کے خلاف زبانی حملوں پر توہین عدالت کارروائی کیلیے چیف جسٹس آف پاکستان کو خط لکھ دیا گیا۔ خط سابق اٹارنی جنرل انور منصور خان کی جانب سے تحریر کیا گیا، جس میں عدالت کی ساکھ، تکریم اور معزز ججز کے وقار کے تحفظ کیلیے کارروائی کی استدعا کی گئی ہے۔ انور منصور خان کی جانب سے لکھے گئے خط میں کہا گیا میں 23 فروری کو مریم نواز کی سرگودھا میں کی گئی گفتگو سے چیف جسٹس کو آگاہ کرنا چاہتا ہوں، ن لیگی رہنما نے سرگودھا جلسے میں سپریم کورٹ، معزز ججز کیخلاف گفتگو کی اور عوام کو اکسایا۔ انہوں نے بغیر ثبوت معزز ججز اور سپریم کورٹ پر الزامات لگائے۔ سابق اٹارنی جنرل نے مزید لکھا مریم نواز نے انتخابات کے معاملے پر سوموٹو کیس کے بینچ ارکان کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس مظاہر نقوی پاناما کیس میں بینچ کا حصہ رہے ہیں۔ بغیر ٹھوس ثبوت عدلیہ کیخلاف اس قسم کی زبان استعمال نہیں ہونی چاہیے۔ ان کا کہنا تھا کہ شدید تنقید کوعدلیہ کی آزادی اور انصاف کے نظام پر حملہ تصور کیا جاتا ہے۔ دونوں معزز جج صاحبان پر تنقید کا مقصد انصاف پر اثر انداز ہونا اور رکاوٹ ڈالنا تھا۔ سابق اٹارنی جنرل نے چیف جسٹس کے نام اپنے خط میں مطالبہ کیا مریم نواز کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی عمل میں لائی جانی چاہیے، امید ہے معزز عدالت حقائق دیکھ کر آئین کی بالادستی اور عدلیہ کی عزت کومدنظر رکھ کر کارروائی کرے گی۔ سابق اٹارنی جنرل انور منصور نےمریم نواز کیخلاف خط چیف جسٹس کو لکھ دیامریم نواز نے سرگودھا جلسے میں سپریم کورٹ ججز کیخلاف گفتگو کی اور عوام کو اکسایا،بغیر ثبوت کے ججز،سپریم کورٹ پر الزامات لگائے،چیف جسٹس سے عدالت کی ساکھ،تکریم اور ججز کے وقار کے تحفظ کے لیے فوری کارروائی کی استدعا کردی۔
وزیراعظم کی کفایت شعاری پالیسی پر کون عملدرآمد کرے گا؟ شہباز شریف حکومت نے قومی کفایت شعاری کمیٹی کی جانب سے ججوں، ارکان پارلیمنٹ اور بیوروکریٹس کے حوالے سے تجویز کیے گئے کچھ بڑے اقدامات کو نظر انداز کردیا گیا۔ قومی کفایت شعاری کمیٹی نے تجویز پیش کی تھی کہ بہر صورت پنشن کو پانچ لاکھ روپے تک محدود کر دیا جائے، تجویز کا بنیادی مقصد ہائی کورٹس اور سپریم کورٹ کے ریٹائرڈ ججوں کی پنشن کو کم کرنا تھا، گزشتہ ہفتے جو اعلانات کیے گئے ان میں ججوں کی پنشن کے متعلق کوئی اعلان شامل نہیں تھا، اس کے بجائے وزیراعظم اور کابینہ ارکان نے یہ معاملہ چیف جسٹس پاکستان پرچھوڑ دیا وہ اپنے ادارے میں کفایت شعاری کے اقدامات خود کریں۔ وزیراعظم نے اعلان کیا ان کی کابینہ کا کوئی رکن تنخواہ نہیں لے گا اور یوٹیلیٹی کے بل اپنی جیب سے ادا کرے گا، تاہم، کمیٹی نے تجویز دی تھی کہ کابینہ کی تعداد کو 30؍ تک محدود کیا جائے، کمیٹی نے ارکان پارلیمنٹ کی تنخواہوں اور الاؤنسز میں 15؍ فیصد کٹوتی کی تجویز دی تھی لیکن کابینہ نے اس بارے میں کوئی فیصلہ نہیں کیا۔ کمیٹی نے تجویز دی تھی کسی بھی عہدے، ادارے یا کیڈر کیلئے مخصوص الاؤنس میں جون 2024ء تک کیلئے 25 فیصد کٹوتی کی جائے۔ کمیٹی نے واضح کیا تھا کہ یہ کٹوتی ہاؤس رینٹ، میڈیکل اور کنونس الاؤنس پر لاگو نہیں ہوگی۔ تاہم، کابینہ نے اس تجویز پر بھی کوئی فیصلہ نہیں کیا۔ ریٹائرڈ سرکاری ملازمین، عدالتوں کے جوڈیشل افسران اور باوردی افسران کی گاڑیاں، معاون اسٹاف اور یوٹیلیٹی سہولتیں واپس لی جائیں گی لیکن یہاں بھی کابینہ نے اس معاملے پر کوئی فیصلہ نہیں کیا۔ کمیٹی نے یہ بھی تجویز دی تھی کہ 1985ء سے جاری وہ نظام ختم کیا جائے جس کے تحت عوامی نمائندوں کو ترقیاتی منصوبے دیے جاتے ہیں اور اس کی بجائے سیکٹرز کی بنیاد پر ترقی کی حکمت عملی مرتب کی جائے کیونکہ توقع ہے کہ اس تبدیلی کے نتیجے میں اخراجات کا معیار بہتر ہوگا۔ کابینہ نے اس تجویز کی بھی منظوری نہیں دی۔ تجویز دی گئی تھی کہ پاور ڈسٹری بیوشن کمپنیوں کے ملازمین کیلئے مفت بجلی کی سہولت بند کرکے اسے مونیٹائیز کیا جائے لیکن اس کی بھی منظوری نہیں دی گئی۔ کابینہ نے سرکاری ملکیتی کمپنیوں کے حوالے سے بھی پیش کردہ تجاویز زکو نظر انداز کردیا۔ کمیٹی کا کہنا تھا کہ کاروباری یا تجارتی سرگرمیاں حکومت کا کام نہیں لہٰذا سرکاری ملکیتی کمپنیوں کو دیگر انتظامات کی طرف منتقل کیا جائے، ان اداروں کی گورننس بہتر کی جائے اور قانون لایا جائے، ان اداروں کو دی جانے والی سبسڈیاں بند کی جائیں جن سے عوام کو کوئی فائدہ نہیں پہنچتا۔ حکومت نے یہ تجویز بھی نظر انداز کر دی کہ پی ایس ڈی پی میں پانی، توانائی، موسمیاتی تبدیلی اور غریبوں کی فلاح و بہبود کے سوا کوئی بھی نیا گرین فیلڈ پروجیکٹ شامل نہیں کیا جانا چاہیے۔ حکومتی ذرائع کے مطابق اس طرح کی تجاویز آئندہ بجٹ میں شامل کیے جانے کا امکان ہے۔ یہ تجویز بھی دی گئی تھی کہ جاری اور منظور شدہ منصوبوں پر نظرثانی کرکے صرف انتہائی اہمیت کے حامل منصوبوں کو جاری رکھا جائے۔ کفایت شعاری کیلئے تجویز کردہ اقدامات وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے ساتھ دفاعی ادارے اور عدلیہ کیلئے بھی تھے۔ اگر ان پر عمل ہو تو ان سے وسط مدتی اور طویل مدتی عرصہ کیلئے ایک ہزار ارب روپے کی بچت ہو سکتی ہے۔
ملک بھرمیں آٹے کا بحران اور قیمتوں میں اضافے کا سلسلہ جاری ہے، مختلف شہروں میں آٹا کس قیمت پر فروخت ہورہا ہےاس حوالے سے تفصیلات سامنے آگئی ہیں۔ تفصیلات کے مطابق ادارہ شماریات کی جانب سے جاری کردہ اعدادوشمار کے مطابق ملک بھر میں آٹے کی قیمتوں میں اضافہ تو دیکھا گیا ہے تاہم مختلف شہروں میں آٹے کی قیمتوں میں واضح طور پر فرق بھی ریکارڈ کی گیا ہے، ہر شہر میں آٹے کی قیمت دوسرے شہر سے مختلف ہے، کسی شہر میں قیمتوں میں بے پناہ اضافہ دیکھا گیا تو کسی شہر میں قیمتیں ابھی اس درجے تک بڑھائی نہیں گئی ہیں۔ ادارہ شماریات کے مطابق ملک میں اس وقت سب سے مہنگا آٹا بلوچستان کے علاقے خضدار میں فروخت ہورہا ہے، یہاں لوگوں کو 20 کلو آٹے کا تھیلا2 ہزار 720 روپے میں خریدنا پڑرہا ہے، جبکہ پنجاب کے متعدد شہروں میں آٹے کی قیمت ملک میں سب سے کم ہے۔ خضدار کے بعد سب سے زیادہ قیمت کوئٹہ میں رہی جہاں 20 کلو آٹے کا تھیلا2ہزار650 روپے میں فروخت ہوا، کراچی میں قیمت 2ہزار 600 روپے رہی، خیبر پختونخوا کے ضلع بنوں میں 2ہزار550 روپے، گوجرانوالہ میں 2ہزار533 روپے رہی۔ اسی طرح خیبر پختونخوا کے صوبائی دارالحکومت پشاور میں 20 کلو آٹے کے تھیلےڈھائی ہزار، ملتان و لاڑکانہ میں 2ہزار 400 روپے ، سکھر میں 2 ہزار 380 روپے ، حیدرآباد میں1 ہزار 960 روپے قیمت رہی۔ پنجاب کے کچھ ضلع ایسے ہیں جہاں کے باسیوں کو اس وقت بھی سب سے کم قیمت میں آٹا دستیاب ہے، ان شہروں میں اسلام آباد، راولپنڈی، لاہور، فیصل آباد ، سرگودھا اور سیالکوٹ شامل ہیں جہاں 20 کلو آٹے کے تھیلے کی قیمت 1ہزار295 روپے ہے۔
سال 2022ء، وفاقی وزراء کے غیرملکی دوروں پر خرچ کی تفصیلات سامنے آگئیں، ایوان میں پیش کیے گئے اعدادوشمار کے مطابق عبدالقادر پٹیل کے غیرملکی دوروں پر مجموعی طور پر 1 کروڑ 4 لاکھ 20 ہزار روپے کے اخراجات آئے: ذرائع کابینہ ڈویژن کی طرف سے سال 2022ء میں وفاقی وزراء کے غیرملکی دوروں پر آنے والے اخراجات کی تفصیلات ایوان میں پیش کر دی گئیں۔ کابینہ ڈویژن کے ایوان میں پیش کیے گئے اعدادوشمار کے مطابق گزشتہ سال میں وزرائے مملکت اور وفاقی وزراء نے 25 غیرملکی دورے کیے جن پر مجموعی اخراجات 6 کروڑ 52 لاکھ روپے آئے جس میں سے وفاقی وزیر صحت ورہنما پاکستان پیپلزپارٹی عبدالقادر پٹیل کے غیرملکی دوروں پر سب سے زیادہ اخراجات ہوئے۔ ذرائع کے مطابق ایوان میں پیش کیے گئے اعدادوشمار کے مطابق عبدالقادر پٹیل کے غیرملکی دوروں پر مجموعی طور پر 1 کروڑ 4 لاکھ 20 ہزار روپے کے اخراجات آئے، سابق وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل کے غیرملکی دوروں پر 45 لاکھ 69 ہزار اور وزیر خزانہ اسحاق ڈار کے غیرملکی دوروں پر 24 لاکھ 91 ہزار روپے کے اخراجات آئے۔ وفاقی وزیر برائے کلائمیٹ چینج شیری رحمن کے غیرملکی دوروں پر 49 لاکھ 17 ہزار ، وزیر دفاع خواجہ آصف کے غیرملکی دوروں پر 31 لاکھ 67 ہزار 9سو، وزیر توانائی خرم دستگیر کے غیرملکی دوروں پر 26 لاکھ 44 ہزار ، وفاقی وزیر اسد محمود کے غیرملکی دوروں پر 18 لاکھ 46 ہزار 632 کے اخراجات ہوئے جبکہ مریم اورنگزیب کے غیرملکی دورے 6 لاکھ 49 ہزار روپے میں ہوئے۔ یاد رہے کہ اسلام آباد میں وزیراعظم شہباز شریف کی طرف سے وفاقی کابینہ کے ساتھ پریس کانفرنس کرتے ہوئے 23 فروری کو کفایت شعاری مہم کے تحت وفاقی وزراء، مشیر، معاونین خصوصی اور وزرائے مملکت کی طرف سے مراعات اور تنخواہیں نہ لینے کے علاوہ بجلی، گیس ودیگر بلز اپنے جیب سے ادا کرنے کا اعلان کیا گیا تھا۔ وزیراعظم شہبازشریف کا کہنا تھا کہ کابینہ اراکین کے استعمال میں آنے والی تمام لگژری گاڑیاں واپس لے کر نیلام کر دی جائیں گی اور جہاں بھی ضرورت پڑی تو وزراء کی سکیورٹی کیلئے ایک گاڑی دی جائے گی۔ انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ اندرون وبیرون ملک وفاقی وزراء اکانومی کلاس میں سفر کریں گے جبکہ ان کے معاون عملے کو غیرملکی دوروں پر ساتھ جانے کی اجازت نہیں دی جائے گی نہ ہی کابینہ اراکین 5 سٹار ہوٹلوں میں قیام کریں گے۔
پنجاب کےضلع سیالکوٹ میں پی ٹی آئی کے مزید 16 رہنماؤں کے خلاف مقدمات درج کرلیے گئے ہیں، یہ مقدمات مینٹیننس آف پبلک آرڈر آرڈیننس (ایم پی او)قانون کے تحت درج کیے گئے۔ تفصیلات کے مطابق سیالکوٹ کے تھانہ سیٹیلائٹ ٹاؤں میں پاکستان تحریک انصاف کے ٹکٹ ہولڈر سعید احمد بھلی، عمران عباس، شمس پرویز،زمان فرحان ظفر، عمیر محمد اور افضل خان کے خلاف مینٹیننس آف پبلک آرڈر آرڈیننس مجریہ 1960( ایم پی او )کی شق 3 کے تحت مقدمات درج کیے گئے ہیں۔ مقدمات میں پی ٹی آئی رہنماؤں پر امن و عامہ میں خلل ڈالنے، بلا اجازت جلوس نکالنے اور عوامی مقامات پر ہلڑ بازی کے الزامات عائد کیے گئے ہیں۔ خیال رہے کہ سیالکوٹ، حافظ آباد، منڈی بہاؤالدین، سمبڑیال ، پنڈی بھٹیاں اور دیگر قریبی علاقوں سے تعلق رکھنے والے پی ٹی آئی کے ان رہنماؤں نے جیل بھرو تحریک کے دوران گوجرانوالہ میں رضاکارانہ طور پر گرفتاری دینے کیلئے جلوس نکالے اور نعرے بازی کی تھی۔
ضمنی الیکشن کے دوران سردار محسن لغاری نے تمام مخالف جماعتوں کے امیدواروں کے مجموعی ووٹوں سے بھی زیادہ ووٹ حاصل کر کے سب کو چاروں شانے چت کیا۔ تحریک انصاف کے محسن لغاری 90392 ووٹ لیکر پہلے نمبر پر رہے ان کے مخالف مسلم لیگ (ن) کے عمار لغاری 55218 ووٹوں کے ساتھ ان سے پیچھے رہے، پیپلز پارٹی کے اختر حسن گورچانی 20074 ووٹ لے کر تیسرے نمبر پر آئے ہیں۔ تحریک انصاف سے شکست کے باوجود مسلم لیگ ن نے اپنی کامیابی قرار دے رہی ہے اور دعویٰ کررہی ہے کہ 2018 میں این اے 193 میں مسلم لیگ ن کا کوئی انتخابی امیدوار نہیں تھا لیکن اس بار انکا امیدوار 55000 ووٹ لے گیا ۔ اپنے ٹوئٹر پیغام میں مریم اورنگزیب نے کہا کہ 2018 میں این اے 193 میں مسلم لیگ ن کا کوئی انتخابی امیدوار نہیں تھا، گزشتہ روز پہلی بار اس حلقے سے 53000 ووٹ لئے ہیں جس پر اپنے ووٹرز کا شکریہ ادا کرتے ہیں جنہوں نے مسلم لیگ (ن) پر اپنے بھرپور اعتماد کا اظہار کیا۔ آگے آگے دیکھو ہوتا ہے کیا گھڑی چور فتنے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ جیت جائیں تو فتح کا جشن اور ہار جائیں تو الیکشن کمشن کے باہر دھرنا اور الزامات؟ عمران خان کا الزام دفن ہوگیا کہ نگران حکومت شفاف اور غیر جانبدارانہ انتخاب نہیں کرا سکتی۔ یہ بڑی کامیابی ہے جس کا عمران خان نے اعتراف کر لیا ہے۔ مریم اوننگزیب نے کہا کہ سیٹ کے ووٹ سے عدالت پر دباؤ ڈالو گے، دھمکی اور گالی دو گے؟ فیصلہ تمہارے حق میں نہ آیا تو تمہارے خلاف عالمی سازش چیف جسٹس تک پہنچ جائے گی؟ عوام ملک میں انصاف چاہتے ہیں،نظریہ ضرورت نہیں۔
عدلیہ پر حملوں کی وراثت گینگز آف فائیو نے اگلی نسل میں منتقل کردی ہے مریم کے بعد بلاول نے بھی عدلیہ کوآنکھیں دکھانا شروع کردی ہیں۔ سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹویٹر پر شیخ رشید کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ پرحملے کی سازشیں رات کی تاریکی میں تیار ہو رہی ہیں۔ شیخ رشید نے کہا کہ سیاسی خواہشات پربینچ تشکیل نہیں پاتے، سپریم کورٹ نے صرف الیکشن کی تاریخ دینی ہے فیصلہ عوام نے کرنا ہے۔ راجن پور میں ہونے والے ضمنی الیکشن پر شیخ رشید نے کہا کہ راجن پورمیں پی ٹی آئی کی جیت سے پی ڈی ایم الیکشن سے مکمل بھاگ گئی ہے یہ سپریم کورٹ میں 1997کا ماحول پیدا کرنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ملک انارکی اور سول نافرمانی کی طرف جا رہا ہے، بجٹ خسارہ62کھرب تک پہنچ گیا ہے۔ الیکشن ہی واحد راستہ ہے جس سے پی ڈی ایم فراری ہے۔ ساری قوم کی نظریں سپریم کورٹ پر لگی ہیں اورساری قوم سپریم کورٹ کےساتھ کھڑی ہے۔ جمہوریت کو بچانے کا ایک ہی راستہ ہے جو سپریم کورٹ سے نکلے گا ثبوت بھی نکلیں گےاور نیب زدہ لوگوں کے تابوت بھی نکلیں گے۔ شیخ رشید نے کہا کہ اوور سیز پاکستانیوں کو ووٹ کا حق بھی ملے گا۔ منی لانڈرنگ کے کنگ کا بیٹا بلاول اپنےنیب کےقانون ختم اورججز پر لاگو کرنا چاہتے ہیںIMF کی بڑی جیل نےغریب کو ڈیتھ زون میں داخل کر دیا ہے۔
چیئرمین تحریک انصاف عمران خان کی ایک ٹویٹ سے غریدہ فاروقی ناراض ہو گئیں اور اس کا کریڈٹ اس وقت کی تحریک انصاف کی حکومت کو دینے کی بجائے کہا کہ اس معاملے پر قوم کو تقسیم نہ کیا جائے۔ تفصیلات کے مطابق سابق وزیراعظم عمران خان نے ایک ٹوئٹ کیا جس میں 27 فروری 2019 کو پاکستان اور بھارت کے مابین ہونے والی جھڑپ اور اس کا کامیابی سے دفاع کرنے پر اس کا کریڈٹ اپنی حکومت اور پاک فضائیہ کو دیا۔ اس بات پر اینکر پرسن غریدہ فاروقی نالاں ہو گئیں اور کہا کہ ‏”ہماری حکومت“ کا نہیں یہ پوری پاکستانی قوم کا کارنامہ تھا، چاہے وہ حکومت کیساتھ ہوں یا نہ ہوں! اس تاریخی کارنامے کا کریڈٹ تمام مسلح افواج کو جاتا ہے خاص کر پاک فوج/پاک فضائیہ کو جنہوں نےانتہائی ذمہ داری/باریکی سے پلاننگ تشکیل دی اور عملدرآمد کیا۔ اس تاریخی دن پر قوم کو تقسیم نہ کیا جائے۔ تاہم ان کا یہ ٹوئٹ سوشل میڈیا صارفین کو اچھا نہ لگا اور انہوں نے بتایا کہ حکومت میں تمام ادارے آتے ہیں نہ کہ صرف حکومت اظہر مشوانی نے اس پر کہ ‏موجودہ وفاقی وزیر ایاز صادق کے مطابق تو باجوہ کی ٹانگیں کانپ رہی تھیں اس وقت۔۔ ایسے کیسے؟ رابعہ رائے نے کہا فیصلہ حکومت ہی کرتی ہے۔ چیف کی تو ٹانگیں کانپ رہی تھی (ن لیگی رہنما کے مطابق)۔ کس نے کہا تھا کہ ہم نواز شریف پہ بڑی انویسٹمنٹ کی ہے؟ محمد شعیب نے کہا اوہ ان پڑھ عورت ہماری حکومت میں سب ادارے اور ساری عوام آتی ہیں۔عمران خان کے ایک ٹویٹ سے دشمن جل کر راکھ ہو رہے ہیں کیا بات ہے خان کی۔ احسن صدیقی نے کہا ہماری حکومت ہی پورے پاکستان کی حکومت تھی۔ اب تو اور واضح ہو گیا ہے کہ خان صاحب کے ساتھ قوم کھڑی ہے۔ آپ کو چاہیے کہ اپنے طرز عمل سے اینکر پرسن ہونے کا ثبوت دیں اور بغض عمران کا تاثر دور کریں۔ دوبارہ بولیں، 'ہماری حکومت= عوام پاکستان کی حکومت' وقص مجید نے لکھا کہ میڈم پہلے پورا فقرہ تو پڑھ لو۔
احتساب عدالت نے سردار عثمان بزدار کی ضمانت 7 مارچ تک منظور کرلی عدالت نے عثمان بزدار کو شامل تفتیش ہونے کا حکم دے دیا احتساب عدالت کے جج نے نیب ٹیم پر اظہار برہمی کرتے ہوئے کہا کہ آپ ویسے ہی گرفتار کرلیں، جب درخواست گزار کو معلوم ہی نہیں کہ اس پر الزام کیا ہے وہ جواب کیا دے گا، نیب تفتشی افسر نے کہا کہ عدالت انکوائری اسٹیج پر شکایت کی کاپی فراہم نہیں کی جاسکتی، اگر عدالت حکم دینا چاہتی ہے تو دے سکتی ہے۔ اس موقع پر عدالت نے استفسار کیا کہ بتائیں شکایت گزار کون ہے، یہ سچا پاکستانی کون ہے؟ نیب نے کیسے انکوائری شروع کر دی جس میں شکایت گزار کا پتہ ہی نہیں ہے، عدالت شکایت کی کاپی درخواست گزار کو فراہم کریں۔ عدالت نے عثمان بزدار کیخلاف شکایت کی کاپی مانگ لی اور سردار عثمان بزدار کو کاپی فراہم کرنے کا حکم دیا۔عدالت نے عثمان بزدار کیجانب سے تمام ریکارڈ کو نیب کا حصہ بنانے کی ہدایت کردی عدالت نے استفسار کیا کہ بتائیں کیا انکا کیس 50 کروڑ تک جاتا ہے، جس پر نیب تفتشی افسر ننے کہا کہ نہیں ابھی یہ تعین نہیں ہوا۔ عدالت نے حکم دیا کہ اگلی سماعت ہر بتائیں کہ یہ تفتیش کیسے شروع ہوگئی۔ نیب تفتیشی افسر نے کہا کہ انکے خلاف 10 ارب کی شکایت موصول ہوئی۔ جس پر عدالت نے کہا کہ بتائیں کیا اثاثے بنائے اور کس کے نام پر؟ نیب تفتیشی افسر نے اس پر جواب دیا کہ انہوں نے والد اور فیملی کے نام ہر اثاثے بنائے، اس پر سردار عثمان بزدار نے کہا کہ میرے والد وفات پا چکے ہیں،میرے پورے قبیلے کے 10 ارب کے اثاثے نہیں ہیں۔ سردار عثمان بزدار کے جواب پر جج احتساب عدالت نے نیب تفتیشی افسر کی طرف دیکھا تو تفتیشی افسر ادھر ادھر دیکھنے لگ گیا
پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنما فواد چوہدری نے کہا ہے کہ ویسے آڈیو کون لیک کر رہا ہے؟ کون بھیجتا ہے صحافیوں کو آڈیوز؟ سپریم کورٹ کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے فواد چوہدری نے کہا کہ جو آڈیو لیک کر رہے ہیں پہلے ان پہ ایکشن ہونا چاہیے، جب آڈیو لیک کرنے والوں پر ایکشن ہو گا تو اس کے بعد آگے معاملات دیکھے جائیں گے۔ فواد چوہدری کا کہنا ہے کہ صوبائی اسمبلیاں بحال کرنی ہیں تو پہلے آئین کو ہی ختم کرنا ہو گا، وزیرِ اعلیٰ کے پاس اسمبلیاں تحلیل کرنے کا جو اختیار ہے پہلے اسے کالعدم قرار دینا ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ ممبران صوبائی اسمبلی نے یہ جانتے ہوئے ووٹ دیا کہ اسمبلیاں تحلیل ہوں گی، اسمبلیاں تحلیل ہونے کا جانتے ہوئے ووٹ دینے سے بڑا جمہوری عمل کیا ہو گا۔ سابق وفاقی وزیر نے کہا اگر اسمبلیاں دوبارہ بحال ہوتی ہیں تو دوبارہ تحلیل کر دی جائیں گی۔ یاد رہے کہ تحریکِ انصاف نے آڈیو لیک کے معاملے پر جوڈیشل کمیشن بنانے کے لیے لاہور ہائی کورٹ سے رجوع کر رکھا ہے۔ پی ٹی آئی سنٹرل پنجاب کی صدر یاسمین راشد نے لاہور ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی ہے۔ جس میں وزراتِ داخلہ، وزارتِ دفاع، چیف سیکریٹری سمیت دیگر کو فریق بنایا گیا ہے۔
قاسم علی شاہ کو الحمرا آرٹس کونسل کے بورڈ آف گورنر کا چیئرمین تعینات کرنے کا اقدام چیلنج کردیا گیا۔ تفصیلات کے مطابق قاسم علی شاہ کی تعیناتی کا معاملہ عدالت جا پہنچا، درخواست میں نگراں وزیراعلی ٰپنجاب سمیت بورڈ کے دیگر ممبران کو فریق بنایا گیا ہے۔ لاہور ہائیکورٹ میں دائر درخواست میں نگراں وزیراعلی ٰپنجاب سمیت بورڈ کے دیگر ممبران کو فریق بناتے ہوئے موقف اختیار کیا گیا ہے کہ نگراں حکومت نے قاسم علی شاہ کو3برس کیلئے الحمرا آرٹ کونسل کا چیئرمین تعینات کیا، نگراں وزیر اعلیٰ پنجاب کو ایسی تعیناتی کا کوئی اختیار نہیں ہے درخواست میں موقف اپنایا گیا کہ ورڈ آف گورنر کے عہدے کیلئے متعلقہ افراد کو آرٹ یا کلچر کی فیلڈ سے تعلق ہونا چاہیے لیکن قاسم علی شاہ سمیت دیگر ممبران کا آرٹ یا کلچر سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ خیال رہے کہ قاسم علی شاہ کو چیئرمین بورڈ آف گورنرز لاہور آرٹس کونسل تعینات کیا گیا ہے، قاسم علی شاہ کو 3 برس کے لئے چیئرمین کے عہدے پر فائز کیا گیا ہے، دیگر اراکین میں عمران قریشی، قدسیہ رحیم، عباس تابش، رضی احمد، ساجدہ ونڈل شامل ہیں۔ یادرہے کہ کچھ روز قبل نگران وزیراعلیٰ پنجاب محسن نقوی نے قاسم علی شاہ کو الحمرا آرٹس کونسل کا چئیرمین بنایا تھا جس پر سوشل میڈیا پر کافی تنقید کی گئی تھی اور اسے عمران خان کی مخالفت کا انعام قراردیا گیا تھا۔
پی ڈی ایم حکومت نے پی ٹی آئی کی جانب سے دونوں صوبائی اسمبلیوں کو تحلیل کرنے سے پہلے کہا تھا کہ اگر یہ اسمبلیاں تحلیل کر دیں تو عام انتخابات ہو سکتے ہیں مگر جب اسمبلیاں تحلیل ہوئی تو حکومت حیلے بہانے تلاش کرنے لگی، وفاق نے اداروں سے تعاون سے منع کر دیا جبکہ قانون نافذ کرنے والے اداروں نے سیکیورٹی دینےسے منع کر دیا۔ مسلم لیگ ن کی قیادت مریم نواز ہوں یا رانا ثنااللہ، احسن اقبال ہوں یا اعظم نذیر تارڑ سب نے یہی بیانیہ دیا کہ اگر قبل از وقت انتخابات کرانے ہیں تو اس کا سیدھا حل موجودہ صوبائی اسمبلیوں کی تحلیل ہے۔ مگر اسمبلیاں تحلیل ہونے کے بعد حکومت کیا کرنا چاہتی تھی یا یہ دعوے کسی سیاسی حکمت عملی کا حصہ تھے؟ یہ بات احسن اقبال نے کھول کر رکھ دی ہے۔ انہوں نے ایک ٹویٹ کیا جس میں کہا کہ "ن لیگ عمران نیازی کو حماقت کرنے کے لئے جال پھینک رہی تھی اور عمران نیازی ٹھیک بیچ میں اپنا سر پٹخ کے آ گرا۔ ویلڈن کپتان!" دوسری جانب میڈیا میں بھی سوال اٹھایا جا رہا کہ آئینی ذمہ داری کے باوجود دونوں صوبوں کے گورنرز انتخابات کی نہ صرف تاریخ نییں دے رہے بلکہ صدر مملکت نے اگر اس کیلئے قدم اٹھایا ہے تو حکومت ان کے خلاف آرٹیکل 6 لگانے کی دھمکیاں دے رہی ہے۔ قانونی ماہرین کہتے ہیں کہ سپریم کورٹ نے اس معاملے پر نوٹس لیکر صحیح کیا ہے کیونکہ یہ ایک اہم معاملہ ہے اور اہم معاملات پر عدالت عظمیٰ کا نوٹس احسن اقدام ہے۔ ماہرین کہتے ہیں کہ اگر آج تک کوئی اصل سوموٹو بنا ہے تو وہ یہ ہے اگر سپریم کورٹ اس بات کا کوئی نوٹس نہیں لے تو کیا کریں، کیونکہ اس سے کروڑوں لوگو لں کے حق رائے دہی کا مفاد جڑا ہے یہ وقت کی ضرورت تھی۔ لطیف کھوسہ نے کہا کہ چیف جسٹس نے اپنے نکات میں لکھا ہے کہ تنازع کی صورتحال پیدا ہونے جا رہی ہے اور آئین پاکستان کی خلاف ورزی کا خدشہ ہے۔ اگر کوئی معاملہ کسی ہائیکورٹ میں زیر التوا ہو تو سپریٹ کورٹ کو حق حاصل ہے اور یہ اس کا اختیار ہے کہ وہ اس پر (3) 184 کت تحت کارروائی کرے۔ جبکہ سوشل میڈیا صارفین اور صحافی بھی حکومت کی اس روش پر شدید ردعمل کا اظہار کر رہے ہیں۔ رفیع اللہ خان نے کہا اس موصوف کو یہ نہیں پتا ہے آپ آئین پاکستان کا مذاق بنا رہے ہو آئین میں لکھا ہے کہ نوے (90) دن میں الیکشن کروانا نگران حکومت کا کام ہے لیکن نگران حکومت تو کٹھ پتلیاں ہیں۔ مہ رخ نے لکھا خود تسلیم کررہے ہو کہ تم لوگ مکار، دھوکے باز اور خود غرض ہو۔ عمران خان کا کیا نقصان ہورہا ہے؟ تم لوگ پاکستان اور پاکستانیوں کو تباہ کر رہے ہو۔ جس عمل کو تم اپنی ہوشیاری بتا رہے ہو، وہ بے غیرتی، کمینگی اور منافقت ہے۔ خود ثابت کر رہے ہو کہ جھوٹے اور مفاد پرست ہو۔ علی نامی صارف نے کہا ووٹ کا حق چھیننا آیئن شکنی ہے ۔ آیئن شکنی کو یہ لوگ جال پھینکنا کہتے ہیں۔ ایسے نوسرباز اگر کسی مہذب معاشرے میں ہوتے تو لوگ ان کو انڈے اور ٹماٹر مارتے۔ ظفر گوندل نے کہا کہ یہ حماقتوں کا پتہ تم لوگوں کو تب چلے گا جب تم ووٹ لینے دوبارہ عوام میں جاؤ گے۔ کیا عمران خان کی اس حماقت کی وجہ سے تم لوگوں کی حکومت پانچ سال کے لیے قائم ہو گئی ہے؟ سب سے بڑی حماقت نون لیگ نے اس حکومت کو لے کر کی ہے۔وہ وقت آیا ہی چاہتا ہے جب نون لیگ کے سروں پر جوتے پڑیں گے۔ ایک صارف نے کہا کہ اس کا مطلب ہے یہ آئین توڑنے کی منصوبہ بندی پچھلے سال سے کر رہے تھے۔ اس اعتراف پہ تو آرٹیکل چھ لگتا ہے۔ ایک اور صارف نے کہا یہ کوئی فخر کی بات نہیں یہ بزدلی ہے، میدان سے بھاگنے والو مکاریاں صرف بزدل لوگ دکھاتے ہیں۔ لیکن ن لیگی سیاستدان جب سے سیاست میں آئے ہیں انہوں نے بزدلی ہی دکھانی ہے، اپنی طاقت اپنی جدوجہد سے کب بھلا سیاست میں آئے تھے۔ ارم نے کہا یہ آدمی خود کو پلانگ کا وزیر کہتا ہے؟ بدقسمتی ہے پاکستان کی ایک خاکروب سے بھی کم سطح کی سوچ رکھنے والا آدمی بزدلی، آئین توڑنا اور عوام سے بھاگنے کو کہ رہا کہ ہم نے جال پھینکا تھا نا کوئی جال تھا نا کوئی چال عمران خان نے تم لوگوں کی سیاسی قبر کھودی اور تم لوگ اُس میں گر گئے۔
پاکستان تحریک انصاف ( پی ٹی آئی ) کے چیئرمین اور سابق وزیر اعظم عمران خان نے قومی اسمبلی کے حلقہ 193 میں ہونے والے ضمنی الیکشن میں کامیابی پر سردار محسن لغاری کو مبارکباد پیش کرتے ہوئے کہا ہے کہ این اے 193 کے عوام نے مافیا کو شکست سے دوچار کیا۔ سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر اپنے ایک بیان میں چیئرمین پی ٹی آئی کا کہنا تھا کہ تحریک انصاف کیخلاف سرکاری مشینری ، الیکشن کمیشن پاکستان (ای سی پی ) کےمابین گٹھ جوڑ کے باوجود زوردار کامیابی پر محسن لغاری، مینا لغاری، پارٹی کے کارکنان اور حلقہ کے ووٹرز کو مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ سابق وزیر اعظم نے کہا کہ مجھےخدشہ ہے کہ اس سے پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم ) اور اس کے سرپرستوں پر مزید خوف طاری ہوگا، چنانچہ سپریم کورٹ کے ججز پر غیر معمولی دباؤ کی توقع رکھیے۔ انہوں نےمزید کہا تحریک انصاف کیخلاف سرکاری مشینری،نیوٹرلز اورECP کےمابین گٹھ جوڑ کےباوجود زوردار کامیابی پر محسن لغاری، مینا لغاری،PTI کے کارکنان اورNA-193کےووٹرز کو مبارکباد پیش کرتاہوں۔ مجھے خدشہ ہے کہ اس سےPDM اور اس کے سرپرستوں پر مزید خوف طاری ہوگا۔ چنانچہSCکےججز پر غیر معمولی دباؤ کی توقع رکھئیے!۔ ایک اور بیان میں عمران خان کا کہنا تھا کہ میں عوام کا شکرگزار ہوں جو تحریک انصاف کا ساتھ دینے اور این اے 193 میں مافیاز کو شکستِ فاش سے دوچار کرنے کیلئے اس جذبے اور جنون سے تحریک انصاف کو منتخب کرنے نکلے!. واضح رہے کہ راجن پور میں قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 193 کے ضمنی الیکشن میں پاکستان تحریک انصاف نے بھاری مارجن سے میدان مار لیا ہے جبکہ مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے امیداروں کو بدترین شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ 237 پولنگ اسٹیشنز کے غیر حتمی اور غیر سرکاری نتائج کے مطابق پاکستان تحریک انصاف کے محسن لغاری 90ہزار 392 ووٹ لیکر پہلے نمبر پر رہے ان کے مخالف مسلم لیگ (ن) کے عمار لغاری 55ہزار 218 ووٹوں کے ساتھ دوسرے جبکہ پیپلز پارٹی کے اختر حسن گورچانی 20ہزار 74 ووٹ لے کر تیسرے نمبر پر آئے۔
پاکستانی شہریوں کی ایک بڑی تعداد یعنی 81 فیصد پاکستانی بینک اکاؤنٹس نہیں رکھتے جس کے بعد یہ سوال اہم ہے کہ کیا انہیں اس متعلق آگاہی نہیں؟ یا وہ اس طریقہ کار پر اعتماد نہیں کرتے؟ ایک سوال یہ بھی اہم ہے کہ کیا بینکوں میں اکاؤنٹ کھلوانا آسان نہیں؟ اس کیلئے کاغذی ثبوت اور بینک کے کچھ دیگر مطالبات ہوتے ہیں جنہیں پرا کیا جانا لازمی ہے۔ نجی کمپنی کرانداز فنانشل انکوژن سروے نے اپنے حالیہ سروے میں انکشاف کیا ہے کہ صرف 19 فیصد پاکستانی بینک اکاؤنٹس رکھتے ہیں جب کہ 81 فیصد بغیر بینکوں کے ہی لین دین کرتے ہیں۔ ادھر موبائل فون کے ذریعے رقوم کی ادائیگیوں کیلئے رجسٹریشن گزشتہ دو برس میں بڑھ کر دوگنا ہوگئی ہے۔ سروے میں دلچسپ امر یہ سامنے آیا ہے کہ گزشتہ دو برس میں بھی حوالہ ہنڈی پر اعتماد کرنے والوں کی تعداد 28 فیصد پر برقرار رہی۔ تاہم یہ بات تشویشناک ہے کہ صرف 19 فیصد بالغ پاکستانی بینک اکاونٹ رکھتے ہیں۔ اپنے ذاتی اکاونٹ میں رقم جمع کروانے والوں کی تعداد 95 فیصد رہی جبکہ اکاؤنٹ سے رقم نکلوانے والوں کی شرح 38 فیصد اور اکاؤنٹ میں تنخواہیں وصول کرنے والوں کی شرح 27 فیصد ہے۔ 81فیصد پاکستانیوں کا بینک اکاوئنٹ موجود ہی نہیں ہے۔ ان 81 فیصد میں سے 68 فیصد کا کہنا ہے کہ انہیں بینک اکاونٹ کی ضرورت ہی نہیں ہے۔ اس سروے میں 6 ہزار 672 بالغ افراد نے حصہ لیا جس میں اسلام آباد اور تمام صوبوں سمیت آزاد جموں وکشمیر اور گلگلت بلستستان کے افراد بھی شامل ہیں۔ کرانداز پاکستان کی ڈائریکٹر ریسرچ مارکیٹینگ مہر شاہ نے کہا ہے ہم سمجھتے ہیں کہ یہ سروے کار آمد ثابت ہوگا کیوں کہ اس سے فنانس تک رسائی میں عدم مساوات اجاگر ہوا ہوئی ہے۔ سروے سے یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ گزشتہ ایک دہائی کے دوران پاکستان میں کس طرح سے (فنانشل انکوژن) مالی مصنوعات تک رسائی میں پیش رفت ہوئی۔ ساتویں ایڈیشن میں یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ ڈیجیٹل فنانس ہر پاکستانی تک رسائی کو ممکن بنا رہا ہے۔ تاہم شہری اور دیہات میں آباد لوگوں کے درمیان ڈیجیٹل تقسیم بھی ظاہر ہو رہی ہے جبکہ مرد اور خواتین، پڑھے لکھے اور ناخواندہ افراد تک رسائی میں بھی فرق موجود ہے۔ تشویشناک اشاریہ یہ ہے کہ پاکستان میں فنانشل لٹریسی اب بھی 19 فیصد تک ہے اور پیغام بھیجنے اور موصول کرنے والوں کی شرح 34 فیصد ہے۔ سروے کے مطابق 63 فیصد بالغ پاکستانی موبائل فون سے رقوم کی لین دین کا تبادلہ نہیں کرتے حالانکہ انہیں موبائل منی سروس کے بارے میں آگاہی بھی ہے۔ موبائل فون سے رقوم کی لین دین کا تبادلہ نہ کرنے کی بڑی وجہ ضرورت کا نہ ہونا ہے اور ایسے افراد کی تعداد 53 فیصد ہے۔ اس کیساتھ ہی 43 فیصد افراد ناخواندگی کی وجہ سے موبائل فون سے رقوم کی لین دین سے گریز کرتے ہیں جبکہ 43 فیصد افراد ناکافی رقم کی وجہ سے موبائل فون ٹرانزیکشن کے قابل نہیں۔ ملک میں الیکٹرانک منی انسٹی ٹیوشن (ای ایم آئی) اکاونٹ سے آگاہی رکھنے والوں کی تعداد انتہائی کم ہے جو کہ صرف دو فیصد ہے۔ زیادہ تر پاکستانی صرف ایک ای ایم آئی برانڈ کے بارے میں معلومات رکھتے ہیں۔ صرف 9 فیصد پاکستانیوں کے ایک سے زائد اکاوئنٹ موجود ہیں۔ موبائل منی والٹ کیلئے مختلف اکاونٹ رکھنے والوں کی تعداد 8 فیصد ہے۔
اسلام آباد پولیس نے ریٹائرڈ فوجی جنرل امجد شعیب کے خلاف اداروں کو بغاوت پر اکسانے کا مقدمہ درج کرتے ہوئے ان کو گرفتار کر لیا ہے۔ تھانہ رمنہ میں درج پولیس کی ایف آئی آر کے مطابق ان کے خلاف مجسٹریٹ اویس خان نے درخواست دی تھی کہ ایک ٹی وی شو کے دوران سابق فوجی افسر نے سرکاری ملازمین کو قانونی فرائض سرانجام دینے سے روکنے پر اکسایا جب انھوں نے کہا کہ کل سے سرکاری دفتروں میں اگر کوئی نہ جائے تو حکومت سوچنے پر مجبور ہو جائے گی۔ ایف آئی ار میں درخواست گزار نے موقف اختیار کیا ہے کہ اس بیان سے انھوں نے حکومت، حزب اختلاف اور ملازمین میں نفرت کی فضا پیدا کرنے کی کوشش کی جو ملک کو کمزور کرنے کی سوچی سمجھی سازش ہے۔ ایف آئی آر میں دلچسپ نکتہ شامل کیا گیا کہ " مثال کے طور پر آج آپ کہتے ہیں سرکاری دفتروں اسلام آباد میں کوئی نہیں جائے اگر آپ کی کال پر لوگ نہیں جاتے تو اگلے دن حکومت سوچے گی ہم بیٹھے حکومت تو کر رہے ہیں"۔ ایف آئی آر کے مطابق امجد شعیب نے حکمرانوں کیلئے بے شرم اور خودپرست جیسے الفاظ استعمال کئے ہیں اور کہا ہے کہ جو خودپرست اور بے شرم حکمران اوپر بیٹھے ہیں اسکو کوئی پرواہ نہیں، وہ آپکے بندوں کو اٹھائے گا اور 200 کلومیٹر دورکہیں بس سے اتاردے گا کہ جاؤ بھائی اور کچھ کو پورے پاکستان میں پھیلادے گا کہ جاؤ بھائی اب ڈھونڈتے رہو۔ حامدمیر نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ایک ٹی وی شو میں اینکر کے سوال کا جواب دیکر امجد شعیب صاحب گرفتار ہو گئے میں نے ایف آئی آر کو غور سے پڑھا ہے اور مجھے یقین ہے کہ کچھ دنوں کے بعد سوال کرنے والے اینکروں کی گرفتاریاں بھی شروع ہو جائیں گی امجد شعیب کی گرفتاری صرف قابل مذمت نہیں بلکہ نظام انصاف کے لئے قابل شرم بھی ہے اسلام الدین ساجد کا کہنا تھا کہ یہ ایف آئی آر پڑھ لے کیا شرمناک الزام لگایا ہے، اتنے نالائق مشیر جب رکھیں گے تو حشر یہی بنے گا

Back
Top