خبریں

معاشرتی مسائل

Threads
0
Messages
0
Threads
0
Messages
0
None

طنز و مزاح

Threads
0
Messages
0
Threads
0
Messages
0
None
ملک بھر میں جرائم کی بڑھتی ہوئی شرح کے ساتھ ساتھ حکومتی وعدوں، دعوئوں کے باوجود اب تک کچے کے ڈاکوئوں کا کوئی مستقل حل تلاش نہیں کیا جا سکا اور وہ دن دیہاڑے اغوا برائے تاوان کی وارداتیں کرنے میں مصروف ہیں۔ کچے کے ڈاکوئوں کی طرف سے ایک ایسی ہی کارروائی کے دوران سندھ پولیس نے ضلع کشمور میں اہم کارروائی کرتے ہوئے پنجاب کے ضلع اوکاڑہ سے تعلق رکھنے والے 12 افراد کو اغوا ہونے سے بچا لیا ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ اوکاڑہ سے تعلق رکھنے والے 12 افراد ایک ہی خاندان سے تعلق رکھتے ہیں جن میں بچے اور خواتین بھی شامل ہیں۔ ایس ایس پی بشیر بروہی سے واقعے کی تفصیلات دیتے ہوئے کہا کہ لکڑی کاٹنے کے کام کا جھانسہ دے کر ان افراد کو کشمور کے کچے کے علاقے میں بلایا گیا تھا جہاں پر ڈاکوئوں نے انہیں اغواء کرنے کا منصوبہ بنا رکھا تھا تاہم پولیس نے بروقت کارروائی کر کے یہ کوشش ناکام بنا دی۔ ایس ایس پی بشیر بروہی کا کہنا تھا کہ ایک ہی خاندان سے تعلق رکھنے والے یہ 12 افراد کشمور کے کچے کے علاقے میں داخل ہو چکے تھے جہاں پر ڈاکوئوں نے انہیں گھیر رکھا تھا۔ پولیس کو واقعے کی اطلاع ملی تو فوری طور پر کارروائی کرتے ہوئے ڈاکوئوں کے منصوبے کو ناکام بناتے ہوئے بحفاظت واپس لے آئے ، متاثرہ خاندان نے بتایا کہ ڈاکوئوں نے انہیں دھوکے سے یہاں پر بلایا تھا۔ ایس ایس پی بشیر بروہی نے کہا کہ پولیس نے کارروائی کے دوران علاقے کی سکیورٹی سخت کر کے اغواکاروں کی تلاش شروع کر دی ہے، قانون نافذ کرنے والے ادارے شہریوں کی حفاظت کیلئے ہمہ وقت تیار ہیں۔ واقعے کو کچے کے ڈاکوئوں کے خلاف بڑی کامیابی تصور کیا جا رہا ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ پولیس اگر بروقت کارروائی کرے تو شہریوں کو بھی تحفظ کا احساس ہو گا۔ علاوہ ازیں کچے کے ڈاکوئوں کی طرف سے ایک اور مغوی شخص کی ویڈیو جاری کر دی گئی ہے جس کا نام خادم مگسی بتایا جا رہا ہے جسے 2 ہفتے پہلے گھوٹکی سے اغوا کیا گیا تھا۔ ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ زنجیروں میں جکڑا ہوا مغوی پانی میں کھڑا ہے اور جان بچانے کی اپیل کرتے ہوئے کہہ رہا ہے کہ ڈاکوئوں کو ایک کروڑ روپے تاوان دے کر اسے چھڑایا جائے ورنہ یہ اسے قتل کر دیں گے، مغوی کے ورثاء نے خادم مگسی کی رہائی کیلئے 3 دفعہ قومی شاہراہ پر دھرنا دے چکے ہیں۔
پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی(پی ٹی اے) نے انٹرنیٹ اسپیڈ کے حوالےسے اہم بیان جاری کردیا ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ انٹرنیٹ کی اسپیڈ کب ٹھیک ہوگی۔ تفصیلات کے مطابق پی ٹی اے کی جانب سے جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ پاکستان میں انٹرنیٹ کی اسپیڈ کا مسئلہ درحقیقت ہمارے ملک کو بین الاقوامی سطح پر جوڑنے والی سات بین الاقوامی سب میری کیبلز میں سے دو میں خرابی کی وجہ سے پیش آرہا ہے، یہ دو کیبلز ایس ایم ڈبلیو 4 اور اے اے ای 1 ہیں۔ پی ٹی اے کا کہنا ہے کہ سب میرین کیبل اے ای ای ون کی مرمت سے پاکستان میں انٹرنیٹ کی اسپیڈ کے حوالے سے صورتحال میں بہتری آئے گی۔ خیال رہے کہ سب میرین کیبل اے ای ای ون کی مرمت کردی گئی ہے جبکہ ایس ایم ڈبلیو 4 سب میرین کیبل کی مرمت اکتوبر 2024 تک ہونے کا امکان ہے، انٹرنیٹ ماہر ڈوگ میڈوری نے پی ٹی اے کے دعوے کی تائید کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں انٹرنیٹ کی اسپیڈ میں کمی کی وجہ سب میرین کیبلز میں خرابی ہے۔ تاہم، ”گیڈ انسائیڈر“ سے بات کرتے ہوئے میڈوری نے نشاندہی کی کہ سب میرین کیبل کی خرابی جون میں ہوئی تھی ور اگر ملک میں انٹرنیٹ کے مسائل ’گزشتہ دو ہفتوں میں شروع ہوئے ہیں، تو اس کیبل کے نقصان کے علاوہ لوئی اور عنصر بھی شامل ہونا چاہیے۔‘
قائمہ کمیٹی برائے نجکاری کے چیئرمین ڈاکٹر فاروق ستار نے کہا ہے کہ جو حالات ہیں ان میں ایسا لگتا ہے پی سی بی کی نجکاری کردینی چاہیے، کمیٹی ارکان کے قہقہے لگ گئے۔ تفصیلات کے مطابق چیئرمین فاروق ستار کی زیر صدارت قائمہ کمیٹی برائے نجکاری کا اجلاس ہوا، اجلاس میں قومی کرکٹ ٹیم کی موجودہ کارکردگی بھی زیر بحث آئی جس پر فاروق ستار نے پاکستان کرکٹ بورڈ کی نجکاری کی تجویز دیدی فاروق ستار نے کہا کہ جو حالات ہیں اس سے لگتا ہے کہ اب پی سی بی کی بھی نجکاری کرنا ہوگی، فاروق ستار کی اس بات پر اجلاس میں شریک کمیٹی کے دیگر ارکان نے قہقہے لگادیئے۔ فاروق ستار نے مزید کہا کہ افسوس کی بات ہے کہ ہم ایک ایئر لائن نہیں چلا سکے، پی آئی اے ہمارا قومی اثاثہ ہے، اگر اس ادارے کو نجی شعبے کے حوالے کرنے کا فیصلہ ہوتا ہے تو اس فیصلے کو خوش دلی کے بجائے بھاری دل سے سپورٹ کرنا ہوگا، کمیٹی ارکان نے کہا کہ اس اقدام پر دل خون کے آنسو روتا ہے۔ اجلاس میں ایچ بی ایف سی کو نجی شعبے کو دینے کی تیاری کے فیصلے پر کابینہ کو نظر ثانی کی سفارش کرنے کا بھی متفقہ فیصلہ کیا گیا اور کہا گیا کہ ہاؤس بلڈنگ فنانس کارپوریشن کی کارکردگی تین چار سالوں میں بہتر ہورہی ہے۔
وزیر دفاع خواجہ آصف نے ٹویٹ کیا کہ ہر خبر کا مثبت اور منفی پہلو اور تفصیل بھی بتائی,جس پر مزمل اسلم نے جوابی ٹوئٹ میں لکھا ایک پہلو اور بھی ہے, وہ یہ ہے کے سامان سنار کی دکان میں جا کر بکا یہ کباڑ؟ آئیں آپ کو سمجھاتا ہوں۔ عمومی طور پر جب ملک ترقی کرتا ہے تو چھوٹے کاروبار کو بڑے کاروبار اور ملٹی نیشنل خریدنا شروع کردیتے ہیں اور اس کی شاندار قیمت بھی ملتی ہے چھوٹے کاروباروں کو۰ مثال جیسے 2005 کے بعد یونین بینک PICIC کمرشل Standard Chartered , Barclays نے خریدا تھا۔ اسے کہتے ہیں سنار کی دکان میں مال بکنا اور ملک کو زرمبادلہ بھی حاصل ہوتا ہے مزمل اسلم نے مزید لکھا اور جب ملک ترقی نہیں کر رہا ہوتا تو سنار کی دکان کا مال کباڑ میں بکتا ہے۰ اس کی مثال خواجہ شریف نے خود دی ہے۰ دنیا کی بڑی کمپنیاں اونے پونے دام میں بیچ کر ملک سے نکل رہی ہے۰ خواجہ صاحب Gunvor کا زکر کر رہے تھے اس کمپنی نے LNG میں پاکستان کی حکومت کے ساتھ معاہدے میں ڈیفالٹ کیا ہے۰ دوسری کمپنی بھی ایک گمنام کمپنی ہے اور سامنے بیچنے والا شیل ہے خواجہ آصف نے لکھا کہ منفی پہلو: پاکستان میں 800 سے زیادہ فیول پمپ کا نیٹ ورک رکھنے والی فرانس کی کمپنی ٹوٹل انرجی نے اپنا 50 فیصد بزنس یا 26.5 ملین ڈالر مالیت کے شیئرز بیچ دیے۔ مثبت پہلو: سویٹزرلینڈ کے گنوور گروپ نے پاکستان میں 800 سے زیادہ فیول پمپ کا نیٹ ورک رکھنے والی فرانس کی کمپنی ٹوٹل انرجی کے 50 فیصد بزنس یا 26.5 ملین ڈالر مالیت کے شیئرز خرید لیے۔ یعنی پہلے ایک یورپی کمپنی تھی اب دو یورپی کمپنیاں ہونگی۔ یعنی زیادہ سرمایہ کاری ۔۔ زیادہ سہولیات۔ دوسری خبر,منفی پہلو: شیل انرجی اپنے 77.42 فیصد حصص فروخت کر دیئے,مثبت پہلو: سعودی کمپنی وافی انرجی نے شیل انرجی کے 77.42 فیصد حصص خرید لیے۔ یعنی عالمی نمبر 1 آئل ایکسپورٹ ملک سعودیہ کی بڑی کمپنی پاکستان میں آگئی۔ (اس کے علاؤہ دنیا کی سب سے بڑی آئل کمپنی آرامکو نے گو Goانرجی کے شئیرز خریدے ہیں وہ بھی پاکستان میں آچکی ہے) اب ملکی میڈیا کا حال دیکھیں یا پھر ڈیجیٹل ٹیررسٹوں digital terrorists کو دیکھیں تو وہ صرف منفی پہلو ہی بیان کرتے ہیں۔ جس سے عوام۔۔ سرمایہ کاروں ۔۔ کاروباریوں کے اندر خوف پیدا ہوتا ہے۔ اس لیے احباب سے کہتا ہوں کہ عالمی میڈیا۔۔ عرب میڈیا کا بغور اور روزانہ جائزہ لیا کریں تاکہ حقائق سے باخبر رہیں۔ مزکورہ بالا خبریں اور ان کے مثبت پہلو عرب میڈیا کے انڈیپینڈنٹ اردو سے حاصل کی گئی ہیں۔
دنیا کے تانبے اور سونے کے بڑے ذخائر کے حامل منصوبے ریکوڈک کی کان کنی میں سرمایہ کاری کے لیے پاکستان اور سعودی عرب میں رواں ہفتے معاہدے طے پانے کا امکان ہے۔ذرائع کے مطابق سعودی عرب کی طرف سے ریکوڈک منصوبے میں 80 کروڑ ڈالرز کی بڑی سرمایہ کاری کیے جانے کا امکان ہے جس کے لیے پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان رواں ہفتے معاہدہ طے پا جائے گا۔ ریکوڈک میں سرمایہ کاری کے حوالے سے وزارت توانائی کے حکام آج وزیراعظم شہبازشریف کو بریفنگ دیں گے۔ ذرائع کے مطابق ریکوڈک میں سرمایہ کاری کے لیے ہونے والے اس معاہدے سے عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) کے ایگزیکٹو بورڈ سے قرض کی منظوری میں بھی معاونت ملے گی۔ ریکوڈک میں سعودی عرب کی طرف سے کی جانے والی مجموعی سرمایہ کاری کا تخمینہ 10 ارب ڈالر تک لگایا جا رہا ہے اور ابتدائی طور پر 80 کروڑ ڈالرز کی سرمایہ کاری کا معاہدہ رواں ہفتے ہو گا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ سعودی عرب کی طرف سے ریکوڈک منصوبے میں سرمایہ کاری اور قرض رول اوور ہونے کے بعد چین سے لیا گیا قرض بھی رول اوور ہو جائے گا۔ سعودی عرب کی طرف سے 80 کروڑ ڈالر سرمایہ کاری میں سے 15 کروڑ ڈالر کی گرانٹ چاغی منصوبے میں ڈویلپمنٹ کے لیے خرچ کی جائے گی جبکہ سرمایہ کاری 80 کروڑ ڈالر ایک ہی ٹرانچ میں موصول ہوں گے۔ وزارت توانائی حکام کی طرف سے وزیراعظم کو آج بریفنگ کے بعد منصوبہ کو حتمی منظوری کے لیے وفاقی کابینہ کے آئندہ اجلاس میں پیش کیا جائے گا۔ سعودی عرب سے سرمایہ کاری لانے میں ایس آئی ایف سے نے اہم کردار ادا کرتے ہوئے منصوبے میں حائل رکاوٹوں کو دور کیا، ریکوڈک میں سعودی عرب کی سرمایہ کاری کے لیے پاکستان نے 90 کروڑ ڈالر کا تخمینہ لگایا تھا۔ ذرائع نے بتایا ہے کہ سعودی عرب کی طرف سے ریکوڈک کے ایکسپلوریشن لیز بلاک 6 اور 8 میں بھی سرمایہ کاری کی جائے گی جس کے بعد سعودی عرب کی سرمایہ کاری کا مجموعی تخمینہ 10 ارب ڈالر کے قریب لگایا جا رہا ہے۔ ریکوڈک میں سرمایہ کاری کے لیے پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان 8 مہینے سے بات چیت جاری ہے اور بتایا گیا ہے کہ پاکستان سعودی عرب سے موخر ادائیگیوں پر تیل کی سہولت پھر سے حاصل کرنا چاہتا ہے۔
وفاقی وزیر دفاع خواجہ آصف بلوچستان میں دہشت گردوں کے حملوں سے متعلق ایک بیان پر سوشل میڈیا پر شدید تنقید کی زد میں۔ تفصیلات کے مطابق وفاقی وزیر دفاع خواجہ آصف نے گزشتہ روز ایک بیان میں لاپتہ افراد کیلئے آواز اٹھانےوالوں کو طنز کرتے ہوئے کہا کہ آج بلوچستان میں جو ناحق خون بہا ہے اس پر بھی بولنا چاہیے، اس پر بھی احتجاج ہونا چاہیے، اور بلوچستان میں دہشت گردی کا نشانہ بننے والوں کے اہلخانہ سے اظہار یکجہتی کیا جانا چاہیے۔ وزیر دفاع خواجہ آصف کے اس بیان پر اینکر پرسن ابصیٰ کومل نے ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ ملک کے وزیر دفاع جن کی مصروفیت اپنے ماتحت ادارے سے اس سیکیورٹی ناکامی کا جواب طلب کرنا ہونی چاہیے تھی مگر وہ لوگوں کو طعنے دے رہے ہیں، خواجہ آصف کو مذمت کا مطالبہ کرنے کے بجائے اپنی نااہلی اور غیر سنجیدگی کا جواب دینا چاہیے۔ ایک صارف نے خواجہ آصف کی 2011 میں بلوچستان کے حوالے سے کی گئی گفتگو کا کلپ شیئر کیا جس میں انہوں نے کہا کہاتھا کہ یہ پنجابی فوج ہے۔ ایمان زینب مزاری کا کہنا تھا کہ یہ کیسا نظریہ ہے کہ جو مقدمے لڑنے اور جلوس نکالنے والے پرامن شہریوں کے خلاف ریاست طاقت کا استعمال کرتی ہے، بندوق نا اٹھانےوالوں کو ریاست اٹھالیتی ہے،اور بندوق اٹھانے والوں سے ریاست نہیں لڑتی بلکہ پرامن بلوچوں کو بارہا نشانہ بناتی ہے۔ شہریارالدین نے کہا کہ وفاقی وزیر دفاع کو اپنے ماتحت ادرے سے اس ناکامی پر جواب طلب کرنا چاہیے تھا اور پوچھنا چاہیے تھا کہ اگر پہلے سے حملے کی اطاعات تھیں تو کیوں لوگوں کو دہشت گردوں کے رحم و کرم پر چھوڑا گیا بشارت راجا نے کہا کہ خواجہ آصف بلوچوں کو پرسہ دینے کے بجائے ان کا تمسخر اڑارہے ہیں، خواجہ آصف جانتے ہیں کہ بلوچستان کے مسئلے کا حل کیا مگر وہ اس پر بات نہیں کریں گے۔ میر محمد علی خان نے کہا کہ پاکستان کے وزیر دفاع دہشت گردی کو ختم کرنے کے بجائے طنز کررہے ہیں اور دہشت گردوں کے ہمدردوں سے گذارش کررہے ہیں کہ شہداء کے لواحقین سے ہمدردی کا اظہار کریں۔ مبشر حسین نے کہا کہ کیا لوگوں کی مذمت یا احتجاج کرنے سے سیکیورٹی مسائل حل ہوجائیں گے؟ عوام ریاست کی غلط پالیسیوں کا نتیجہ بھگت رہی ہے۔
پاکستان بھر میں پچھلے 3 سالوں کے دوران ٹویوٹا کمپنی کی گاڑیوں فارچونر اور ریوو کی کتنی سیل ہوئی ہے اس کے حوالے تفصیلات منظرعام پر آگئی ہیں جس کا انکشاف رفتار ٹی وی نامی ڈیجیٹل پلیٹ فارم کے ایک وی لاگ میں کیا گیا ہے۔ رفتار ٹی وی نامی ڈیجیٹل پلیٹ فارم پر وی لاگ کرتے ہوئے فرحان ملک نے بتایا کہ وہ جب پاکستان آٹومینوفیکچررز ایسوسی ایشن (پاما) کی ویب سائٹ پر جا کر وہاں سے ڈیٹا نکالنا شروع کیا تو اہم انکشاف سامنے آیا۔ انہوں نے بتایا کہ پاکستان آٹومینوفیکچررز ایسوسی ایشن (پاما) کی ویب سائٹ سے حاصل کردہ اعدادوشمار سے پتہ چلا کہ ٹویوٹا کمپنی کی مقامی سطح پر تیار ہونے والی ویگو یا فارچونر گاڑی (آئی ایم ویز) پاکستان بھر میں فروری 2013ء میں لانچ کی گئی تھی۔ ٹویوٹا کمپنی نے فروری 2013ء سے جون 2021ء تک فارچونر، ویگو اور ہائی لکس ماڈل کی 15 ہزار گاڑیاں فروخت کی تھیں یعنی 8 سال میں 15 ہزار گاڑیاں فروخت ہوئیں۔ فرحان ملک کا کہنا تھا کہ گاڑیوں کی 8 سالوں میں ٹویوٹا کمپنی کی ان گاڑیوں کی سالانہ بنیادوں پر فروخت کا حساب لگایا جائے تو یہ گاڑیاں 1800 کے قریب سالانہ فروخت ہوئیں۔ مزید انکشاف کرتے ہوئے بتایا کہ اس سے اگلے 3 سالوں میں جولائی 2021ء سے لے کر جون 2024ء تک ٹویوٹا کمپنی کی فارچونر، ویگو، ریوو اور ہائی لکس ماڈل کی 35 ہزار کے قریب گاڑیاں فروخت ہو چکی ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ جولائی 2021ء سے جون 2024ء کے درمیان بکنے والی گاڑیوں کی یومیہ بنیادوں پر تعداد 300 کے قریب بنتی ہے، ان گاڑیوں کی قیمت کا حساب لگایا جائے تو یہ تقریباً ساڑھے 4 سو ارب روپے بنتی ہے۔ 50 لاکھ روپے والی گاڑی اب کروڑ سے ڈیڑھ کروڑ روپے ہو چکی ہے اور پچھلے 3 سالوں میں ان 35 ہزار افراد نے ساڑھے 4 سو ارب کے ویگو ڈالے اور فارچونر خرید چکے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ میں نے ڈالے میں بیٹھ کر بھی دیکھا ہے جو میرے خیال میں سب سے زیادہ غیرآرام دہ کار ہے، ایسا لگتا ہے آپ کو سپرنگ پر بٹھا دیا گیا ہے، یہ آف روڈ کار ہے جسے صحرائوں اور پہاڑوں کیلئے بنائی گئی ہے۔ لوگ یہ گاڑی اس لیے خریدتے ہیں کیونکہ لوگ اسے دیکھ کر راستہ چھوڑ دیتے ہیں کہ ڈالہ آرہا ہے، شب شبا یا ٹیہکے کے پیسے ہیں، کار میں کمفرٹ 20 لاکھ کی بھی نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ 25 لاکھ روپے میں بکنے والی آلٹو وی ایکس آر والی سیٹ بھی شائد اس سے زیادہ آرام دہ ہے، ڈالے میں آلٹو وی ایکس آر والی کمفرٹ ہے مگر باقی جو ایک کروڑ روپے ہیں وہ صرف ہم ہما، ولولہ اور شب شبا اور دب دبا کے ہیں۔ 35ہزار لوگوں نے 1 کروڑ روپے صرف اسی بات کے دیئے ہیں کہ ڈالہ آیا دھوم مچاتا!
سانحہ موسیٰ خیل کی ایک عینی شاہد خاتون واقعہ کے حوالے سے آنکھوں دیکھا حال بتاتے ہوئے زاروقطار روپڑیں۔ تفصیلات کے مطابق سانحہ موسیٰ خیل کی ایک عینی شاہد خاتون نے واقعہ کے حوالے سے تفصیلات بتاتے ہوئے دلخراش انکشاف کردیئے ہیں۔ خاتون نے کہا کہ دہشت گردوں نے لوگوں کے شناختی کارڈ دیکھ کر انہیں بس سے اتار اور قتل کیا، ہم نے جائے وقوعہ سے کچھ فاصلے پر واقع ایک مسجد میں پناہ لی جہاں سے ہمیں پاک فوج نے صبح ساڑھے 4 بجے ریسکیو کیا۔ خاتون عینی شاہد واقعہ کے حوالے سے تفصیلات بتاتے ہوئےروپڑیں اور بولیں کہ میرے بچے پوچھ رہے ہیں کہ پاپا کب واپس آئیں گے۔ قبل ازیں دہشت گرد حملے کے دوران جان بچاکر بھاگنے میں کامیاب ہونے والے ٹرک ڈرائیور نے بھی واقعہ کی تفصیلات بتائی تھیں اور کہا تھا کہ 15 سے 20 دہشت گرد گاڑیوں پر آئے تھے جنہوں نے مقامی اور غیر مقامی لوگوں کو الگ الگ کرنے کا حکم دیا،بعد میں ان دہشت گردوں نے شناختی کارڈ دیکھ دیکھ کر پنجابیوں کو قتل کردیا۔ انہوں نے کہا تھا کہ میں بڑی مشکل اس جگہ سے نکلا اور ایک کلومیٹر تک پیدل چلا، میرے ساتھ میرے کزنز تھے جن میں سے ایک شہید اور ایک زخمی ہوگئے ہیں۔
صحافیوں نے پاکستان کرکٹ بورڈ کی جانب سے میچز کی کوریج سے روکنے کے خلاف اسلام آباد ہائی کورٹ میں درخواست دائر کردی ہے۔ تفصیلات کے مطابق اسپورٹس جرنلسٹس کی جانب سے ایڈووکیٹ عبدالواحد قریشی نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں ایک درخواست دائر کی ہے، درخواست گزاروں میں ایاز اکبر، نوید گلزار، محسن علی، احمر نجیب اور حسنین لیاقت شامل ہیں، جبکہ درخواست میں وفاق، پی سی بی کے پیٹرن انچیف وزیراعظم، سیکرٹری کابینہ، چیئرمین پی سی بی محسن نقوی کو فریق بنایا گیا ہے۔ درخواست گزاروں نے موقف اپنایا ہے کہ پی سی بی کو ٹیم کی حالیہ کارکردگی پر ہونے والی تنقید پسند نہیں رہی، صحافی اور اینکرز اپنی صحافتی خدمات سرانجام دے رہے ہیں، بورڈ کی جانب سے انہیں پاک بنگلہ دیش پہلے ٹیسٹ میچ کی کوریج سے روک دیا گیا۔ درخواست گزاروں کا کہنا تھا کہ آئین کے آرٹیکل 19 اور ا19 اے صحافیوں کو آزادی اظہار رائے کا حق دیتا ہے، بورڈ صحافیوں کو ان کی صحافتی ذمہ داریوں کی ادائیگی سے روک نہیں سکتا،تاہم پی سی بی نے صحافیوں کو کوریج کے آئینی حق سے محروم کردیا ہے جو کہ آئین کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ درخواست گزاروں نے عدالت سے استدعا کی کہ صحافیوں کو ایکریڈیشن کارڈز جاری جائیں، اور کارڈز جاری نا کیے جانے کے عمل کو غیر قانونی قرار دیا جائے کیونکہ صرف تنقید کی بنیاد پر صحافیوں کو کوریج سے روکا نہیں جاسکتا۔
پاکستان تحریک انصاف کے بانی چیئرمین عمران خان نے دوران سماعت جیو نیوز کے رپورٹر کو کوریج سے روکنے پر احتجاج کرتے ہوئے کہا کہ رپورٹرکو کوریج سے یوں روکا؟ تفصیلات کے مطابق اڈیالہ جیل میں 190 ملین پاؤنڈز ریفرنس پر گزشتہ روز سماعت ہوئی، جج ناصر جاوید نے کیس کی سماعت کی، دوران سماعت عمران خان نے احتجاج کرتے ہوئے سماعت ملتوی کرنے کا مطالبہ کیا اور کہا کہ جیو نیوز اور پبلک نیوز کے رپورٹرز کو ٹرائل کی کوریج سے کیوں روکا گیا ہے۔ عمران خان نے جج ناصر جاوید سے کہا کہ رپورٹر شبیر ڈار اورعثمان مغل کو کوریج سے کیوں روکا گیا ہے ؟ یہ دونوں رپورٹرز متوازن اور مصدقہ رپورٹنگ کرتے ہیں، جب تک انہیں کوریج کی اجازت نہیں دی جائے گی سماعت آگے نہیں بڑ ھےگی، صحافیوں کو کوریج سے روکنا اوپن ٹرائل کے خلاف ہے۔ عمران خان کے احتجاج پر جج ناصر جاوید رانا نے ڈپٹی سپرٹنڈنٹ کو جیل کے باہر روکے گئے صحافیوں کو اندر آنے کی اجازت دینے کا حکم دیا جس پر جیل انتظامیہ نے جواب دیا کہ جیل کے باہر کوئی رپورٹر موجود نہیں ہے اس پر کمرہ عدالت میں موجود صحافی نے کہا کہ جیل انتظامیہ جھوٹ بول رہی ہے۔ صحافی فیض احمد نے کوریج میں رکاوٹوں کے حوالے سے ایک تحریری درخواست بھی عدالت میں جمع کروائی جس پر عدالت نے جیل انتظامیہ کو صحافیوں کی شکایات دور کرنے کے احکامات جاری کردیئے۔
لاہور میں پولیس نے ایک ڈانس پارٹی پر چھاپہ مارا ہے، کارروائی کے دوران ن لیگی رہنما سمیت متعدد افراد کو گرفتار کرکے مقدمہ درج کرلیا گیا ہے۔ تفصیلات کے مطابق لاہور کے علاقے گرین ٹاؤن میں پولیس نے ایک ڈانس پارٹی پر چھاپہ مارا اور تنویر نثار گجر سمیت متعدد افراد کو گرفتار کرلیا، تنویر نثار گجر یوسی 236 سے ن لیگ کا چیئرمین منتخب ہوا تھا۔ پولیس نے چھاپے کے دوران شراب، ساؤنڈ سسٹم اور ایس ایم جی رائفل بھی اپنے قبضے میں لی، اورتھانہ گرین ٹاؤن میں تین کواتین سمیت 12 افراد کے خلاف مقدمہ درج کرلیا ہے۔ ایف آئی آر کے متن میں کہا گیا ہے کہ لیگی یو سی چیئرمین ڈانس پارٹی میں شراب نوشی اور بے حیائی کرتے ہوئے پکڑا گیا، جس وقت پولیس نے چھاپہ مارا ملزمان برہنہ حالت میں پائے گئے۔
وزیراعلیٰ بلوچستان میر سرفراز بگٹی نے کہا ہے کہ کسی پنجابی کو کسی بلوچ نے نہیں مارا بلکہ دہشت گردوں نے پاکستانیوں کو مارا ہے۔ تفصیلات کے مطابق وزیراعلیٰ بلوچستان میر سرفراز بگٹی نے پنجاب سے تعلق رکھنےوالے افراد کے قتل کے واقعہ پر کوئٹہ میں ایک پریس کانفرنس کی اور کہا کہ دہشت گرد بزدل ہیں، یہ پاکستانیوں کو شہیدکرتے ہیں اور بھاگ جاتے ہیں، یہ لوگ اگر دلیر ہیں تو سامنے آکر مقابلہ کریں، ہم ہر شہید کا بدلہ لیں گے اور دہشت گردوں کو سزائیں دیں گے۔ انہوں نے مزید کہا کہ بندوق کے زور پر بلوچستان کو توڑنے کی کوشش ناکام ہوگی، خاندانوں کے سامنے کسی کو شہید کردینا بزدلانہ کارروائی ہے، ہماری بلوچ روایات ایسے اقدامات کی اجازت نہیں دیتیں، یہ دہشت گرد ملک میں انتشار پھیلاناچاہتے ہیں، ریاست مظلوموں کے ساتھ کھڑی ہوگی۔ وزیراعلیٰ بلوچستان کا مزید کہنا تھا کہ بطور وزیراعلیٰ مجھے شہریوں کو تحفظ فراہم کرنا ہے، دہشت گرد آسان ہدف کو نشانہ بناتے ہیں،ان کا کوئی قوم یا قبیلہ نہیں ہوتا، جبکہ کچھ لوگ دہشت گردوں کیلئے کام کررہے ہیں،یہ جنگ صرف فوج اور دہشت گردوں کی نہیں ہم سب کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ناراض بلوچ کی اصطلاح میڈیا کی پیدا کردہ ہے، ناراض بلوچ کچھ نہیں ہوتا، بندوق اٹھانے والا دہشت گرد ہے، بشیر زیب پاکستان کو توڑنا چاہتا ہے اور بی ایل اے کا حامی ہے،ایسا نہیں ہوسکتا کہ کوئی پاکستان میں رہتے ہوئے بی ایل اے کو سپورٹ کرے۔ وزیراعلیٰ میر سرفراز بگٹی نے کہا کہ صوبے میں دہشت گردوں کے خلاف آپریشن جاری ہے، اب تک 21 کے قریب دہشت گردوں کو جہنم واصل کرچکے ہیں،مذاکرات کا حامی ہوں مگر معصوم شہریوں کے قاتلوں سے مذاکرات کیسے کروں؟ ان کے خلاف کارروائی ضرور کریں گے۔
نیشنل ڈیموکریٹک موومنٹ( این ڈی ایم) کے صوبائی آرگنائزر اور محسن داوڑ کے قریبی ساتھی عمر شیرانی کو قتل کردیا گیا ہے۔ تفصیلات کے مطابق عمر شیرانی کو ڈیرہ اسماعیل خان کے علاقے درابن میں نامعلوم افراد نے فائرنگ کرکے قتل کیا۔ عمر شیرانی نیشنل ڈیموکریٹک موومنٹ کے صوبائی آرگنائزر اور سربراہ این ڈی ایم محسن داوڑ کے قریبی ساتھی تھے۔ پولیس کا کہنا ہے کہ عمرشیرانی کو چند روز قبل تھریٹ الرٹ جاری کیا گیا تھا، ان کی جان کو خطرہ تھا ، آج نامعلوم ملزمان نے موقع پاکر انہیں فائرنگ کرکے قتل کردیا۔
لاہور کی ایک مقامی عدالت نے جعلی خبر کے نشر ہونے پر برطانیہ میں ہونے والے فسادات سے متعلق کیس میں ملزم فرحان آصف کو مقدمے سے ڈسچارج کردیا ہے۔ تفصیلات کے مطابق لاہور کی ضلع کچہری میں فیک نیوز پر فسادات سے متعلق کیس پر سماعت ہوئی، دوران سماعت وفاقی تحقیقاتی ایجنسی(ایف آئی اے) کے تفتیشی افسر عدالت میں پیش ہوئے اور عدالت کو بتایا کہ دوران تفتیش ملزم سے کوئی چیز سامنے نہیں آئی۔ تفتیشی افسر نے عدالت کو بتایا کہ ملزم سے تفتیش کے دوران کوئی ریکوری نہیں ہوئی، مذکورہ خبر پہلے سے شیئر ہورہی تھی فرحان آصف نے اسی خبر کو آگے شیئر کردیا۔ عدالت نے استفسار کیا کہ ملزم نے کب اس خبر کو شیئر کیا اور کب ڈیلیٹ کیا؟ فرحان آصف نے جواب دیا کہ میں نے خبر شائع ہونے کے 6 گھنٹے بعد اس کو ڈیلیٹ کردیا تھا۔ تفتیشی افسر نے فرحان آصف کو مقدمے سے ڈسچارج کرنے کی استدعا کی جس کو منظور کرتے ہوئے عدالت نے فرحان آصف کو مقدمے سے ڈسچارج کردیا گیا جس کے بعد کمرہ عدالت میں ملزم کی ہتھکڑی کھول دی گئی۔ خیال رہے کہ ایف آئی اے نے برطانیہ میں چاقو زنی کے واقعہ کے حوالےسے پاکستان سے آپریٹ ہونے والی ایک ویب سائٹ پر جعلی خبر شائع ہونے کے بعد فسادات برپا ہونے پر ویب سائٹ آپریٹ کرنے والے فری لانسر فرحان آصف کو گرفتار کرکے مقدمہ درج کیا تھا۔
بنگلہ دیش میں شیخ حسینہ واجد کا دوراقتدار ختم ہونے کے بعد ڈاکٹر یونس کی قیادت میں عبوری حکومت قائم ہونے کے باوجود ابھی تک حالات سنبھلنے کا نام نہیں لے رہے۔ بنگلہ دیشی ذرائع ابلاغ کی رپورٹس کے مطابق بنگلہ دیش کے دارالحکومت ڈھاکہ میں انصار فورس (پیراملٹری فورس) کے جوانوں اور طلباء میں تصادم کا واقعہ پیش آیا ہے جس کے باعث طلباء اور فورس کے مجموعی طور پر 50 افراد زخمی ہو گئے ہیں، تصادم اتوار کی رات 9 بجے کے قریب شروع ہوا جو اگلے ایک گھنٹے تک جاری رہا۔ رپورٹس کے مطابق فوج کے جوانوں نے ایک گھنٹے بعد حالات پر قابو پا لیا، فریقین میں تصادم اس وقت شروع ہوا جب بنگلہ دیش کے دارالحکومت ڈھاکہ میں انصار فورس کے جوان سیکرٹریٹ کے باہر اپنے مطالبات منظوری کیلئے احتجاج کر رہے تھے۔ انصار فورس کے جوانوں نے مرکزی سڑک بند کی ہوئی تھی اور ایسے میں ہزاروں کی تعداد میں طلبہ ڈنڈے ہاتھوں میں پکڑے ہوئے مارچ کرتے وہاں پہنچ گئے۔ رپورٹ کے مطابق طلباء کے ہزاروں کی تعداد میں سیکرٹریٹ کے باہر پہنچنے پر فریقین نے ایک دوسرے پر حملہ کر دیا جس میں دونوں طرف سے 50 کے قریب افراد زخمی ہو گئے۔ ایک طالبعلم کا کہنا تھا کہ وہ سیلاب متاثرین کے لیے یونیورسٹی میں فنڈز جمع کر رہے تھے جب پتہ چلا کہ انصار فورس کے جوانوں نے سیکرٹریٹ میں کچھ حکومتی عہدیداروں اور مشیروں کو محدود کر رکھا ہے۔ طالبعلم کا کہنا تھا کہ اطلاع ملنے پر طلباء نے سیکرٹریٹ کی طرف مارچ کرنے کا فیصلہ کیا اور وہاں پر طلباء اور انصار فورس (بنگلہ دیش کےنیم فوجی دستے) کے جوانوں کے درمیان تصادم ہو گیا۔ ڈاکٹر یونس کی قیادت میں بنگلہ دیش میں قائم عبوری حکومت کی طرف سے بعدازاں انصار فورس کے دپٹی کمانڈنٹ سمیت 9 سینئر ممبروں کا تبادلہ کر دیا گیا ہے۔ واضح رہے کہ بنگلہ دیش کی ولیج ڈیفنس فورس یا انصار فورس وزارت داخلہ کے ماتحت کام کرنے والی ایک فورس ہے جو ملک کی اندرونی سکیورٹی اور حالات سے متعلق معاملات کو دیکھتی ہے۔ انصار فورس 1948ء میں قائم کی گئی تھی اور اسے اسمبلی سے ایکٹ منظور کرنے کے بعد قانونی تحفظ بھی دیا گیا تھا، ایک رپورٹ کے مطابق اس وقت انصار فورس کے ممبران کی تعداد 60 لاکھ سے زیادہ ہے۔
پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے طلباء ونگ انصاف سٹوڈنٹ فیڈریشن کی طرف سے 8 اگست 2024ء کو ایک پریس کانفرنس میں اعلان کیا گیا تھا کہ وہ ایک تحریک شروع کر رہے ہیں جس کا مقصد ملک میں بڑھتی ہوئی مہنگائی سے نپٹنا، سابق طالبعلموں کو رہا کرنے کی وکالت کرنا اور انسانی حقوق کی بحالی کیلئے جدوجہد کرنا ہے۔ سوشل میڈیا پر اس پریس کانفرنس کے بعد 2 خطوط زیرگردش تھے جنہیں نیشنل کائونٹر ٹیررازم اتھارٹی اور وزارت داخلہ سے منسوب کیا جا رہا ہے۔ سوشل میڈیا پر زیرگردش دونوں خطوط میں انصاف سٹوڈنٹس فیڈریشن کے طلباء رہنمائوں پر دہشت گردی کا الزام عائد کیا گیا تھا، 8 اگست 2024ء کو نیشنل کائونٹر ٹیررازم اتھارٹی (نیکٹا) کی طرف سے جو خط سامنے آیا تھا اس کا عنوان تھریٹ الرٹ تھا جس میں کہا گیا تھا کہ تحریک انصاف سے تعلق رکھنے والے کچھ شرپسند طلباء کو سامنے کر کے امن وامان خراب کرنے کیلئے نوجوان قیادت متحرک کر رہے ہیں۔ نیکٹا کے مبینہ نوٹیفیکیشن میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ طلباء کی اس تحریک کی دشمن انٹیلی جنس ایجنسیاں مالی اعانت کر رہی ہیں۔ دوسرا نوٹیفیکیشن مبینہ طور پر وزارت داخلہ کی طرف سے 10 اگست 2024ء کو سامنے آیا جس میں کہا گیا تھا کہ حکومت نے ایسے طلباء کے نام فورتھ شیڈول میں شامل کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے جو یہ تحریک شروع کرنے کے لیے نوجوان طلباء کو اکسا رہے ہیں۔ دوسرے مبینہ نوٹیفیکیشن میں یہ دعویٰ بھی کیا گیا تھا کہ بغیر اجازت طلباء کے پاسپورٹ منسوخ کر دیئے جائیں گے اور انہیں شہر سے باہر جانے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ نیکٹا اور وزارت داخلہ کے ترجمان کی طرف سے نجی ٹی وی چینل کو دیئے گئے بیان میں تصدیق کر دی گئی ہے کہ یہ نوٹیفیکیشن ان کی طرف سے نہیں جاری کیے گئے۔ نیکٹا کے ایک سرکاری اہلکار جنہیں تھریٹ الرٹس بارے آگاہ کیا جاتا ہے نجی ٹی وی چینل کو بتایا کہ نوٹیفیکیشن 100 فیصد جعلی ہے اور واضح کیا کہ خط پر عبید فاروق ملک کے دستخط ہیںجو 2 سال پہلے ادارے سے ریٹائر ہو چکے ہیں۔ سرکاری اہلکار نے عبید فاروق کی ریٹائرمنٹ کا نوٹیفیکیشن فراہم کرتے ہوئے واضح کیا کہ اس وقت نیکٹا میں کرنل عثمان بطور ڈپٹی ڈائریکٹر خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ نجی ٹی وی کی طرف سے دعویٰ کیا گیا ہے کہ عبید فاروق سے بھی بات ہوئی ہے جنہوں نے 2022ء میں محکمے سے ریٹائر ہونے کی تصدیق کر دی ہے، عبید فاروق نے بتایا کہ جب وہ ڈائریکٹر تھے تو اس طرح کے تھریٹ الرٹس جاری کرتے تھے۔ سوشل میڈیا پر کسی شخص نے پرانے فارمیٹ کو کاپی کر کے اس میں اپنا مواد ڈال کر اسے پھیلایا ہے۔ نجی ٹی وی کی طرف سے وزارت داخلہ کے میڈیا ڈائریکٹر جنرل قادر یار ٹوانہ کے ساتھ ساتھ دیگر اہلکاروں سے بھی رابطہ کرنے کا دعویٰ کیا گیا ہے اور ان کی طرف سے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی درخواست کی گئی ہے۔ رپورٹ کے مطابق تینوں افراد نے تصدیق کی ہے کہ سوشل میڈیا پر گردش کرنے والے نوٹیفیکیشن جعلی تھا اسے وزارت کی طرف سے نہیں جاری کیا گیا۔
اسلام آباد ہائی کورٹ نے ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو امریکہ کے حوالے سے کرنے سے متعلق 2 سوالوں کے جوابات طلب کرلیے ہیں۔ تفصیلات کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ میں ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی صحت اور ان کی وطن واپسی کے حوالے سے دائر درخواست پر سماعت ہوئی، جسٹس سردار اعجاز اسحاق خان نے درخواست پر سماعت کی، اس موقع پر عافیہ صدیقی کی بہن فوزیہ صدیقی بذریعہ ویڈیو لنک عدالت کے روبرو پیش ہوئیں۔ فوزیہ صدیقی نے کہا کہ حکومت پاکستان کے پاس عافیہ کی واپسی کی کنجی ہے، جوبائیڈن انتظامیہ کی موجودگی میں اس معاملے کو حل ہونا چاہیے، نومبر سے حکومت ہماری مدد کرے، نئی حکومت کے آنے کے بعد یہ معاملہ ایک بار پھر التواء کا شکار ہوسکتا ہے۔ دوران سماعت عدالت نے عافیہ صدیقی کی امریکی حوالگی سے متعلق 2 سوالات پر جواب طلب کرتے ہوئے جمعہ کو تفصیلی رپورٹ طلب کرلی ہے۔ عدالت نے پوچھا کہ کیا عافیہ صدیقی سے متعلق اداروں کے پاس کوئی ثبوت تھا؟کیا اداروں کے پاس یہ مینڈیٹ تھا کہ وہ اپنے شہریوں کو کسی اور کے حوالے کریں؟اس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے عدالت سےد رخواست کی کہ اس معاملے پر ایجنسیز سے متعلق سوالات کو الگ رکھا جائے وگرنہ اس درخواست کا مقصد حل نہیں ہوگا۔ اس پر جسٹس سردار اعجاز اسحاق خان نے ریمارکس دیئے کہ معاملہ عدالت کے سامنے ہے، کیسے الگ رکھ سکتے ہیں، عدالتی سوالوں پر جمعہ تک مفصل رپورٹ دیں۔ اس موقع پر ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے وکیل مسٹر سمتھ کا ایک بیان حلفی بھی عدالت میں جمع کروایا گیا جس میں کہا گیا تھا کہ 2003 میں سندھ حکومت نے عافیہ صدیقی کو ان کے بچوں سمیت آئی ایس آئی کی حراست میں دیا جہا ں سے انہیں امریکی حکام کے حوالے کردیا گیا۔ عافیہ صدیقی کے وکیل کے بیان حلفی میں مزید کہا گیا کہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی اور ان کے تین بچوں کو آئی ایس آئی نے اٹھا کر افغانستان منتقل کیا گیا جہاں سے انہیں امریکہ بھیجا گیا۔
ابصار عالم نے جنرل(ر) فیض حمید کے حوالے سے اپنے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ فیض کی ڈیپ اسٹیٹ کس طرح کام کرتی تھی یہ تفصیلات سامنے آنی چاہیے۔ تفصیلات کے مطابق سماء ٹی وی پر اپنےپروگرام ایڈیٹوریل میں گفتگو کرتے ہوئے ابصار عالم نے جنرل فیض حمید کے حوالے سے اپنا تجزیہ پیش کیا اور کہا کہ جنرل فیض کی ڈیپ اسٹیٹ میڈیا کو مینج کرنے کیلئے براہ راست اور پیمرا کے ذریعے دباؤ میں لانے کی کوشش کررہی تھی، اس کیلئے چینلز اور صحافیوں کو مختلف طریقوں سے دباؤ میں لانے کیلئے دھمکیاں بھی دی گئیں اور ہراساں بھی کیا گیا۔ ابصار عالم نے اس دوران ارشد شریف کے قتل کا بھی حوالہ بھی دیا اورمختلف سوالات اٹھاتے ہوئے کہا کہ جب میں چیئرمین پیمرا تھا تب بول ٹی وی کو بند کرنے پر مجھے خود جنرل فیض کے ایک بندے نے فون کرکے گاڑی سے کچلے جانے، ٹانگیں توڑ دیئے جانے جیسے دھمکیاں دی تھیں، اس کی کال ریکارڈنگ بھی ریکارڈ کا حصہ ہے، فیض آباد دھرنا کے دوران بھی جنرل فیض نے ایک ٹی وی چینل سے پابندی ہٹانے کیلئے بھی دباؤ ڈالا تھا۔ ابصار عالم نے جنرل فیض آباد کی ایک کال ریکارڈنگ بھی اپنے پروگرام میں چلائی جس میں جنرل فیض مختلف کاموں کے نا ہونے کے حوالے سے گلے شکوے بھی واضح طور پر سنے جاسکتے تھے، ابصار عالم کی اس ساری گفتگو پر سوشل میڈیا پر ایک نئی بحث شروع ہوئی جس میں ابصار عالم کی اپنی برادری شامل تھی۔ ابصار عالم نے جب پروگرام کے اس سیگمنٹ کا کلپ ٹویٹر پر شیئر کیا تو صحافی شاہد اسلم نے ان سے سوال کیا کہ موجودہ حالات پر آپ کب بولیں گے یا اس وقت سب کچھ آئین و قانون کے مطابق چل رہا ہے؟ ابصار عالم نے اس ٹویٹ پر جواب دیا اورکہا کہ میرے پاس آپ کے سوال کا ستھرا جواب ہے مگر ابھی تک آپ کی عزت کرتا ہوں اس لیے آپ کے طنز کو نظر انداز کرتا رہوں،میں جن کے خلاف آ ج بول رہا ہوں ان کو اس وقت بھی ایکسپوز کیا جب وہ فرعون طاقت میں تھے اور میں سڑک پر تھا۔ شاہد اسلم نے جوابی ٹویٹ میں کہا کہ میں نے بس اتنا پوچھا ہے کہ آج جو جنرل فیض یا آرمی چیف کی نشست پر بیٹھےہیں ان کاموں پر بھی ہمیں ایسے ہی بولنا چاہیے جیسے پی ٹی آئی دور میں بولتے تھے، اگر نواز شریف کے خلاف جج و جرنیل ماورائے آئین کام کریں تو غلط اور اگر پی ٹی آئی یا عمران خان کے خلاف وہی سب کچھ ہو تو وہ ٹھیک کیسے ہوسکتا ہے؟ اینکر و صحافی امیر عباس نے اس معاملے پر ایک طویل ٹویٹ کی جس میں انہوں نے13 سے نکات میں وقت کے طاقتور اور ظالم کرداروں کی مشترک صفات کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ تاریخ اٹھا کردیکھ لیں ہر ظالم میں کم از کم 10 چیزیں تو ضرور ملیں گی۔ ابصار عالم نے ایک اور ٹویٹ میں کہا ابصار عالم تو ایک معمولی انسان ہے، پاشا، ظہیر، فیض، قمر باجوہ، عاصم سلیم اور آصف غفور کے سدھائے یہ لوگ ہر اُس سویلین شخص، جج، جرنلسٹ کی ڈیجیٹل ٹارگٹ کلنگ کرتے ہیں جس کی رائے ان کی رائے سے مُختلف ہو، بغیر دلیل کے جھوٹ بولتے ہیں، بُہتان لگاتے ہیں، گندی گالیاں نکال کر اپنی اصلیت دکھاتے ہیں، دباؤ ڈالتے ہیں تا کہ وہ شخص اپنے راستے سے ہٹ جائے، میں 32 سال سے آئین اور سویلین سُپریمیسی کی سائڈ پر کھڑا ہوں اور کھڑا رہوں گا۔ یہ ڈیجیٹل حملے، جھوٹے الزام اور گالیاں مُجھے اپنے راستے سے نہ پہلے کبھی ہٹا سکے اور نہ آئندہ
موٹروے ایم 2 پر بھیرہ کے قریب کھڑی کار سے 3 خواتین سمیت ایک ہی خاندان کے 4 افراد کی لاشیں برآمد ہوئی ہیں جبکہ ڈرائیور نیم بے ہوشی کی حالت میں تھا جسے ریسکیو عملے نے فوری طور پر ہسپتال منتقل کر دیا ہے۔ ذرائع کے مطابق موٹروے ایم 2 بھیرہ کے قریب کھڑی کار سے ایک ہی خاندان سے تعلق رکھنے والے 4 افراد کی لاشیں برآمد ہوئی ہیں جن کی شناخت، 6 سالہ عون علی، 30 سالہ مہر، 60 سالہ رومیلا اور 25 سالہ ثمر کے نام سے ہوئی ہے۔ ذرائع کے مطابق موٹروے پولیس کو اطلاع ملی تھی کہ بھلوان کے قریب کافی دیر سے ایک کار کھڑی ہے جس پر موٹروے پولیس جائے وقوعہ پر پہنچی تھی اور گاڑی کا انجن چل رہا تھا اور اس میں موجود تمام افراد بے ہوشی کی حالت میں پڑے تھے۔ ریسکیو عملے کے آنے پر پتہ چلا کے گاڑی میں موجود 3 خواتین سمیت 4 افراد جاں بحق ہو چکے ہیں جبکہ ڈرائیور نیم بے ہوشی کی حالت میں تھا۔ ریسکیو عملے نے فوری طور پر عمر قاسم نامی ڈرائیور کو ہسپتال منتقل کر دیا اور طبی امداد دی گئی جس کے بعد اس کی طبیعت سنبھلنے پر اس نے بتایا کہ ہمارا تعلق ایک ہی خاندان سے ہے۔ ایک خاتون کی طبیعت خراب ہونے پر ایک جگہ رک کر جوس اور کچھ اشیاء خرید کر سفر دوبارہ سے شروع کر دیا، کچھ دور جانے کے بعد ہی میرے طبیعت خراب ہونے لگی۔ ڈرائیور قاسم نے بتایا کہ میں نے سائیڈ پر گاڑی پارک کی جس کے بعد مجھے نہیں پتا کہ کیا ہوا، گاڑی میں سوار خاندان میکلوڈ روڈ لاہور کا رہائشی بتایا گیا ہے، واقعے کی تفتیش جاری ہے۔ ریسکیو ذرائع کے مطابق اب تک موٹروے پر سفر کرنے والے خاندان کے افراد کی پراسرار حالت میں موت کی وجہ ابھی تک معلوم نہیں ہو سکی۔ ڈاکٹر کا کہنا ہے کہ ان ہلاکتوں کی وجہ فوڈ پوائزننگ بھی ہو سکتی ہے، پولیس سٹیشن پھلروان تھانے کا عملہ ہسپتال پہنچ گیا اور معاملے کی تحقیقات شروع کر دی ہیں اور قانونی کارروائی کی جا رہی ہے۔ صحافی خرم اقبال نے گاڑی کی تصویر شیئر کرتے ہوئے لکھا: اس گاڑی میں ایک بدنصیب خاندان لاہور سے اسلام آباد بذریعہ موٹروے سفر کر رہا تھا، راستے میں کسی بیکری سے چپس اور پیٹیز کھانے کے بعد 3 خواتین اور ایک بچہ جاں بحق ہو گئے، گاڑی میں لاشیں بھیرہ انٹرچینج سے موٹروے پولیس کو ملیں، بتایا جا رہا ہے فوڈ پوائزنگ سے اموات ہوئیں۔۔!! رشید اقبال نامی سوشل میڈیا صارف نے لکھا: ایکسپائرڈ جوس پینے سے بھیرہ کے مقام پر موٹروے پر کھڑی اس گاڑی میں موجود 4 افراد جاں بحق، یہ فیملی میکلوڈ روڈ لاہور کی رہائشی تھی، اسلام آباد جا رہی تھی۔ ہمارے ملک میں ہر کاروبار میں دو نمبری ہو رہی ہے جس کی وجہ سے عوام براہ راست متاثر ہیں، چیکنگ کا کوئی نظام ہی موجود نہیں!
جھنگ کی تحصیل احمد پورسیال میں سولرپلیٹس کے نام پر اربوں روپے کا اسکینڈل سامنے آگیا,جھنگ میں سولر پلیٹس کے نام پر شہریوں اور تاجروں سے اربوں روپے کا فراڈ کیا گیا, شہری بجلی کے بھاری بلوں سے چھٹکارہ حاصل کرنے کے چکر میں اپنے کروڑوں روپوں سے محروم ہوگئے,تاجربرادری اور شہری شدید پریشان ہیں۔ متاثرہ افراد کے مطابق صرف دو سے ڈھائی ارب روپے ہمارے شہر احمد پور کا ہے جبکہ پورے پنجاب کا 14 سے 15 ارب روپے کا اسیکنڈل ہے, بھاری بجلی بل کی وجہ سے ہم نے تنگ آکر سولر وغیرہ کا کام شروع کیا تھا، لوگوں سے ایڈوانس پیسے لیے مگر ہمیں مال نہیں ملا۔ سولر پلیٹس کا جھانسہ دینے والا مرکزی ملزم کے فرار ہونے کے بعد احمد پور سیال کے دوکانداروں کا کاروبار بھی مشکل میں آگیا,متاثرین نے وزیراعلیٰ پنجاب سے سولر اسکینڈل کے مرکزی ملزم کی فوری گرفتاری کے لیئے اعلی سطح کی کمیٹی تشکیل دینے اور انھیں ان کی رقم واپس دلوانے کا مطالبہ کردیا۔

Back
Top