خبریں

معاشرتی مسائل

Threads
0
Messages
0
Threads
0
Messages
0
None

طنز و مزاح

Threads
0
Messages
0
Threads
0
Messages
0
None
قومی اسمبلی کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی (پی اے سی) کے اجلاس کے دوران غیر ملکی اسکالرشپس کے مفرور اسکالرز سے 1.5 ارب روپے کی ریکوری نہ ہونے کا انکشاف ہوا۔ اس پر چیئرمین جنید اکبر نے ہائر ایجوکیشن کمیشن (ایچ ای سی) کو بھگوڑے اسکالرز کے خلاف ایف آئی آر درج کرانے کی ہدایت دی۔ اجلاس چیئرمین جنید اکبر کی زیر صدارت منعقد ہوا، جس میں ہائر ایجوکیشن کمیشن کے آڈٹ اعتراضات پر تفصیل سے بات چیت کی گئی۔ اجلاس میں یہ بھی معلوم ہوا کہ امریکا کی فل برائٹ اسکالرشپ میں 92 اسکالرز میں سے 89 کے اسکالرشپ کینسل کیے جا چکے ہیں۔ شاہدہ اختر نے سوال کیا کہ کیا ایسے افراد کے پاسپورٹ بھی کینسل نہیں کیے جا سکتے؟ جس پر کمیٹی چیئرمین جنید اکبر نے کہا کہ ان افراد کے شناختی کارڈز اور دیگر دستاویزات بھی بلاک کیے جانے چاہئیں۔ ایگزیکٹو ڈائریکٹر ایچ ای سی نے بتایا کہ بھگوڑے اسکالرز کی تعداد 96 ہے اور بعض کیسز عدالتوں میں زیر سماعت ہیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ 80 کروڑ روپے کی جرمانے کی رقم کچھ اسکالرز سے وصول کی جا چکی ہے۔ شازیہ مری نے اس معاملے کا مستقل حل تجویز کیا اور کہا کہ قومی خزانے کو ایسے افراد پر خرچ نہیں ہونا چاہیے جو واپس نہ آئیں۔ انہوں نے ایچ ای سی سے درخواست کی کہ اس مسئلے کا مستقل حل نکالا جائے۔ جنید اکبر نے ایچ ای سی کو ہدایت کی کہ وہ ان بھگوڑے اسکالرز کے خلاف ایف آئی آر درج کرائے۔ سینیٹر افنان اللہ نے اس صورتحال پر ناپسندیدگی ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ یہ شرمناک ہے کہ ملک کا پیسہ استعمال کرنے والے افراد واپس نہیں آتے۔ جنید اکبر نے مزید کہا کہ اگر عدالتوں سے ریکوری ہو رہی ہے تو اس کا تخمینہ بھی لگایا جائے اور ایچ ای سی کو اس پر آنے والے اخراجات کا حساب لگانا چاہیے کہ وہ کس طرح پورے ہوں گے۔
بھارتی فوج کے ایک حاضر سروس کرنل اور ان کے بیٹے پر پنجاب پولیس کے بعض اہلکاروں کی جانب سے مبینہ تشدد کا معاملہ شدت اختیار کر گیا ہے۔ فوج نے واقعے کی غیر جانبدار اور شفاف تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے، جبکہ یہ معاملہ ہائی کورٹ تک جا پہنچا ہے۔ یہ واقعہ 13 مارچ کو بھارتی ریاست پنجاب کے شہر پٹیالہ میں ایک ڈھابے کے باہر پیش آیا۔ کرنل پشپیندر سنگھ باتھ اور ان کے بیٹے پر مبینہ طور پر پنجاب پولیس کے چار انسپکٹرز سمیت 12 پولیس اہلکاروں نے حملہ کیا۔ کرنل پشپیندر نے الزام لگایا ہے کہ اس حملے میں ان کا کندھا زخمی ہوا جبکہ ان کے بیٹے کی ناک کی ہڈی ٹوٹ گئی۔ سی سی ٹی وی فوٹیج کے مطابق واقعہ ایک پارکنگ کے تنازعے کے باعث پیش آیا۔ کرنل کا مزید کہنا تھا کہ پولیس اہلکاروں نے ان کا موبائل بھی چھین لیا تھا اور ان کی شناخت جاننے کے باوجود ان پر تشدد جاری رکھا۔ اس وقت کرنل پشپیندر سنگھ چنڈی مندر کے کمانڈ اسپتال میں زیر علاج ہیں۔ یہ معاملہ طول پکڑنے پر فوج کے ویسٹرن کمانڈ ہیڈکوارٹر کے اعلیٰ افسر لیفٹیننٹ جنرل موہت وادھوا اور پنجاب پولیس کے سربراہ گورو یادو نے 19 مارچ کو چنڈی گڑھ میں ایک مشترکہ پریس کانفرنس کی۔ لیفٹیننٹ جنرل وادھوا نے اسے ایک افسوسناک اور غیر متوقع واقعہ قرار دیا اور کہا کہ کرنل پشپیندر سنگھ پر حملے کے قصورواروں کو سزا دینے کے لیے شفاف اور غیر جانبدار تفتیش ضروری ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ قصورواروں کے خلاف مقررہ مدت میں ایماندارانہ اور منصفانہ تحقیقات کی جائیں اور فوج اس معاملے کو اس کے منطقی انجام تک پہنچائے گی۔ پنجاب پولیس کے سربراہ گورو یادو نے کہا کہ اس واقعے کو فوج اور پولیس کے درمیان ٹکراؤ کے طور پر نہیں دیکھا جانا چاہیے۔ ان کے مطابق، پولیس فورس فوج کی عزت کرتی ہے اور اس معاملے میں ملوث اہلکاروں کو معطل کر دیا گیا ہے جبکہ ان کے خلاف محکمہ جاتی کارروائی شروع کر دی گئی ہے۔ پنجاب اینڈ ہریانہ ہائی کورٹ نے کرنل پشپیندر سنگھ پر مبینہ حملے کے معاملے میں پولیس کے طرز عمل پر برہمی کا اظہار کیا ہے اور ریاستی حکومت سے وضاحت طلب کی ہے کہ ایف آئی آر درج کرنے میں آٹھ دنوں کی تاخیر کیوں ہوئی۔ عدالت نے سوال کیا کہ وہ پولیس افسر کون تھا جس نے سب سے پہلے کارروائی سے انکار کیا؟ اس کا کوئی جواز تھا؟ اس طرح کی بے رحمی برداشت نہیں کی جائے گی، اور عدالت کیوں نہ اس معاملے کو سی بی آئی کے حوالے کرے؟ عدالت نے یہ بھی استفسار کیا کہ جس ڈھابے کے مالک کی درخواست پر پولیس فوری ایف آئی آر درج کرنے کو تیار تھی، اسی پولیس نے کرنل کی اہلیہ کی شکایت درج کرنے سے انکار کیوں کیا؟ ریاستی حکومت کو ہدایت دی گئی ہے کہ وہ جمعے تک اپنی رپورٹ عدالت میں پیش کرے۔ اس واقعے پر شدید عوامی ردعمل سامنے آیا ہے۔ کانگریس کے ممبران اسمبلی نے پنجاب میں احتجاج کیا، جبکہ بھارتی میڈیا پر اس معاملے کو نمایاں کوریج دی جا رہی ہے۔ کرنل پشپیندر سنگھ کی اہلیہ نے ایک پریس کانفرنس میں واقعے پر احتجاج کرتے ہوئے کہا کہ ان کا صرف ایک ہی مطالبہ ہے کہ اس معاملے کی تحقیقات سی بی آئی سے کرائی جائیں۔ ان کے مطابق، پولیس حکام نے کہا کہ اگر انہیں معلوم ہوتا کہ متاثرہ خاندان کرنل کا ہے تو وہ مختلف رویہ اپناتے۔ ان کا جواب تھا کہ یہ معاملہ سویلین اور فوج کا نہیں بلکہ انسانیت کا ہے۔ معاملہ طول پکڑنے کے بعد پنجاب پولیس نے اپنے اہلکاروں کے طرز عمل پر معذرت کا اظہار کیا اور ملوث اہلکاروں کو پٹیالہ سے باہر ٹرانسفر کر دیا گیا۔ پنجاب پولیس کے مطابق، واقعے کی تفتیش ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل آف پولیس کی سربراہی میں ایک خصوصی تحقیقاتی ٹیم کر رہی ہے، اور کوشش کی جا رہی ہے کہ تفتیش جلد مکمل کی جائے۔
رواں مالی سال کی دوسری سہ ماہی میں پاکستان کی معیشت کی شرح نمو 1.73 فیصد رہی، جو پہلے 0.92 فیصد کے تخمینے سے زیادہ ہے۔ نیشنل اکاؤنٹس کمیٹی (این اے سی) کے مطابق، خدمات کے شعبے میں توقع سے زیادہ بہتری کے باعث معیشت میں یہ اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ نیشنل اکاؤنٹس کمیٹی کی یہ رپورٹ ایک ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب حکومت اور بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے درمیان 1.3 ارب ڈالر کی نئی فنانسنگ کا معاہدہ طے پایا ہے۔ آئی ایم ایف نے پاکستان میں میکرو اکنامک استحکام کی بہتری کے سلسلے میں حکومتی پیشرفت کو سراہا ہے۔ اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے اپنی سالانہ جی ڈی پی نمو کا ہدف 2.5 فیصد سے 3.5 فیصد کے درمیان رکھا ہے اور توقع ظاہر کی ہے کہ سال کی باقی سہ ماہیوں میں اقتصادی سرگرمیوں میں مزید اضافہ ہوگا۔ معاشی تجزیاتی ادارے عارف حبیب لمیٹڈ کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کی معیشت، شعبہ جاتی تغیرات کے باوجود، لچک کا مظاہرہ کر رہی ہے۔ رپورٹ میں زراعت اور خدمات کے شعبے کو معیشت کی ترقی میں کلیدی کردار ادا کرنے والا عنصر قرار دیا گیا ہے، جبکہ صنعتی شعبے کو بحالی کے چیلنجز کا سامنا ہے۔ دوسری سہ ماہی میں سال بہ سال (YoY) بنیاد پر مجموعی ترقی کی شرح 1.10 فیصد رہی۔ خدمات کا شعبہ 2.57 فیصد کی شرح سے بڑھا، جو کہ ایک مثبت اشارہ ہے۔ صنعتی شعبہ 0.18 فیصد کی شرح سے سکڑ گیا، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس شعبے میں مزید پالیسی اقدامات کی ضرورت ہے۔ رپورٹ میں یہ پیش گوئی کی گئی ہے کہ مالی سال کے اختتام تک جی ڈی پی کی شرح نمو 2.75 فیصد تک پہنچ سکتی ہے، جس میں خدمات کے شعبے میں سب سے زیادہ ترقی متوقع ہے۔ کراچی میں واقع بروکریج فرم ٹاپ لائن سیکیورٹیز کے مطابق، رواں مالی سال کی پہلی سہ ماہی میں معیشت کی شرح نمو کا ابتدائی تخمینہ 0.92 فیصد تھا، جو بعد میں بڑھ کر 2.75 فیصد ہو گیا۔ بروکریج فرم کے مطابق، رواں مالی سال کی پہلی ششماہی میں اوسط شرح نمو 1.54 فیصد رہی، جو پچھلے مالی سال کی اسی مدت میں 2.33 فیصد تھی۔
وفاقی حکومت نے فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) میں پیکا ایکٹ 2016 نافذ کر دیا ہے، جس کے تحت ایف بی آر کے حساس (کریٹیکل) انفرا اسٹرکچر میں مداخلت کرنے والوں کے خلاف سخت قانونی کارروائی کی جائے گی۔ ذرائع کے مطابق وفاقی کابینہ کے فیصلے پر عملدرآمد کرتے ہوئے ایف بی آر کے آئی ٹی سسٹم، ڈیٹا سینٹر اور ایپلیکیشنز کو حساس انفرا اسٹرکچر قرار دے دیا گیا ہے۔ اس فیصلے کا مقصد ایف بی آر کے ڈیجیٹل سسٹمز کی سیکیورٹی کو مزید مضبوط بنانا اور سائبر حملوں یا غیر قانونی مداخلت کو روکنا ہے۔ ایف بی آر نے اس حوالے سے اپنے تمام ریجنل ٹیکس دفاتر، کارپوریٹ ٹیکس آفسز، لارج ٹیکس پیئر آفسز، میڈیم ٹیکس آفسز، بے نامی زونز، اے ای او آئی زونز، ان لینڈ ریونیو اور کسٹمز سروس کے تمام ڈائریکٹر جنرلز اور ڈائریکٹرز سمیت ملک بھر کے فیلڈ افسران کو مراسلہ جاری کر دیا ہے، جس میں نئے احکامات پر سختی سے عمل درآمد کی ہدایت کی گئی ہے۔ ایف بی آر کے مطابق حساس انفرا اسٹرکچر میں غیر قانونی مداخلت یا سائبر حملوں کی صورت میں ملوث افراد کے خلاف پیکا ایکٹ 2016 کے تحت سخت کارروائی کی جائے گی، جس میں قید اور جرمانے جیسی سزائیں شامل ہیں۔ حکام نے تمام متعلقہ اداروں کو ہدایت کی ہے کہ وہ ایف بی آر کے ڈیجیٹل انفرا اسٹرکچر کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے سیکیورٹی کے تمام ضروری اقدامات کریں۔ اس اقدام کا مقصد ایف بی آر کے ڈیٹا اور سسٹمز کو کسی بھی ممکنہ خطرے سے محفوظ رکھنا ہے تاکہ ٹیکس ادائیگی اور دیگر مالیاتی امور میں شفافیت اور سیکیورٹی برقرار رہے۔
حکومت پاکستان نے پاکستانی صحافیوں کے مبینہ دورۂ اسرائیل کی رپورٹس کا نوٹس لیتے ہوئے واضح کیا ہے کہ موجودہ قوانین کے تحت کسی بھی پاکستانی شہری کا اسرائیل جانا ممکن نہیں ہے۔ دفتر خارجہ نے اس حوالے سے خبروں کی سختی سے تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان کا اسرائیل کے حوالے سے مؤقف تبدیل نہیں ہوا اور وہ بدستور فلسطینی عوام کی حمایت جاری رکھے گا۔ دفتر خارجہ کے ترجمان نے ایک بیان میں کہا کہ پاکستانی پاسپورٹ پر واضح الفاظ میں درج ہوتا ہے کہ یہ "اسرائیل کے سفر کے لیے کارآمد نہیں ہے"، اس لیے کسی پاکستانی شہری کا اسرائیل کا باضابطہ دورہ ممکن نہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ پاکستانی حکومت ان رپورٹس کا جائزہ لے رہی ہے اور اس حوالے سے مزید معلومات اکٹھی کی جا رہی ہیں۔ ترجمان نے زور دیا کہ پاکستان کا مؤقف واضح اور غیر متزلزل ہے—پاکستان اسرائیل کو تسلیم نہیں کرتا اور فلسطینی عوام کے حقوق کا بھرپور حامی ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان 1967 سے پہلے کی سرحدوں پر مشتمل ایک آزاد اور خودمختار فلسطینی ریاست کے قیام کے حق میں ہے، جس کا دارالحکومت القدس الشریف ہو۔ اس معاملے پر تبصرہ کرتے ہوئے ترجمان دفتر خارجہ شفقت علی خان نے کہا کہ پاکستانی وفد کے اسرائیل کے مبینہ دورے کی خبر میڈیا کے ذریعے معلوم ہوئی اور اس حوالے سے تحقیقات جاری ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اس معاملے پر مزید معلومات حاصل ہونے کے بعد ہی کوئی حتمی موقف اختیار کیا جا سکے گا۔ یہ وضاحت اس وقت سامنے آئی جب انڈیپینڈنٹ اردو نے اسرائیلی میڈیا کے حوالے سے رپورٹ دی کہ ایک پاکستانی وفد نے حال ہی میں تل ابیب اور مقبوضہ بیت المقدس کا دورہ کیا تھا۔ اسرائیلی اخبار اسرائیل ہیوم کے مطابق یہ دورہ ایک غیر سرکاری تنظیم "شراکہ" کے ذریعے منعقد کیا گیا، جو اسرائیل کے ایشیائی اور مشرق وسطیٰ کے ممالک کے ساتھ تعلقات کو فروغ دینے کے لیے سرگرم ہے۔ پاکستانی حکومت کی جانب سے اس معاملے کی مکمل چھان بین جاری ہے، تاہم دفتر خارجہ نے واضح کر دیا ہے کہ اسرائیل کے حوالے سے پاکستان کی پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں آئی اور وہ فلسطینی عوام کے حقوق کے تحفظ کے لیے اپنی حمایت جاری رکھے گا۔
کراچی کی ایک عدالت نے ایک سنگین جرم میں ملوث شخص کو اپنی ہی بیٹی کے ساتھ بار بار زیادتی کرنے کے جرم میں 25 سال قید اور جرمانے کی سزا سنائی ہے۔ اس کیس کا فیصلہ نہ صرف عدالتی بیانات بلکہ ڈی این اے کی ناقابلِ تردید شہادتوں کی بنیاد پر سنایا گیا، جس میں یہ ثابت ہوا کہ مجرم نہ صرف متاثرہ خاتون کا باپ ہے بلکہ اس کے پیدا ہونے والے بچے کا حیاتیاتی والد بھی ہے۔ بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق یہ کہانی مئی 2021 میں اس وقت منظرعام پر آئی جب کراچی کے رہائشی جنید (فرضی نام) کو فیس بک پر ایک اجنبی خاتون، فوزیہ (فرضی نام)، کا پیغام موصول ہوا۔ اس پیغام میں فوزیہ نے اپنے ساتھ ہونے والے ظلم کا ذکر کیا، جس پر ابتدا میں جنید کو لگا کہ یہ کوئی فریب ہو سکتا ہے۔ لیکن جب وہ اس خاتون سے ملے اور اس کی بات سنی تو انہیں حقیقت کا اندازہ ہوا کہ یہ ایک المناک اور لرزہ خیز سچائی ہے۔ فوزیہ کے مطابق، مئی 2020 میں جب ان کی والدہ بیمار ہو کر ہسپتال میں داخل تھیں، ان کے والد نے انہیں جان سے مارنے کی دھمکی دے کر متعدد بار زیادتی کا نشانہ بنایا، جس کے نتیجے میں وہ حاملہ ہو گئیں۔ جب جنوری 2021 میں ان کے ہاں ایک بچے کی پیدائش ہوئی، تو والدہ نے ڈاکٹروں کو ایک اور شخص کا نام دے دیا تاکہ حقیقت چھپی رہے۔ اس ظلم کے خلاف آواز اٹھانے کی بجائے، فوزیہ پر مزید دباؤ ڈالا گیا کہ وہ خاموش رہے اور کسی کو حقیقت نہ بتائے۔ جنید نے جب اس تمام صورتحال کو سمجھا تو انہیں احساس ہوا کہ فوزیہ بے قصور ہے اور اس کے ساتھ ہونے والے ظلم کے خلاف کھڑا ہونا ضروری ہے۔ انہوں نے فوزیہ سے نکاح کر کے اس کے حق میں آواز بلند کرنے کا فیصلہ کیا۔ لیکن نکاح کے بعد بھی انہیں کئی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ فوزیہ کے والد نے نہ صرف ان پر دباؤ ڈالا بلکہ انہیں جان سے مارنے کی دھمکیاں بھی دیں۔ تاہم، جنید اور فوزیہ نے پولیس میں مقدمہ درج کرایا، جس کی تفتیش کے دوران ڈی این اے ٹیسٹ سے یہ ثابت ہو گیا کہ فوزیہ کے بچے کا اصل باپ اس کا اپنا والد ہی تھا۔ کراچی کی عدالت نے 20 مارچ 2025 کو اپنے فیصلے میں کہا، "اس کیس میں ملزم متاثرہ خاتون کا اصل باپ ہے اور اس نے کئی بار جرم دہرایا۔ لہٰذا یہ کسی کم سزا کا مستحق نہیں ہو سکتا۔" عدالت نے اسے ریپ کے جرم میں 25 سال قید اور دو لاکھ روپے جرمانے کی سزا سنائی، جبکہ قتل کی دھمکی دینے پر سات سال کی مزید قید اور 50 ہزار روپے جرمانے کی سزا بھی دی گئی۔ اس مقدمے کے دوران یہ بھی سامنے آیا کہ فوزیہ کی والدہ کو اپنی بیٹی کی حالت کا علم تھا، مگر انہوں نے اسے خاموش رہنے پر مجبور کیا۔ جب بچے کی پیدائش ہوئی اور ڈاکٹروں نے والد کا نام پوچھا تو انہوں نے ایک اور شخص کا نام دے دیا تاکہ حقیقت نہ کھل سکے۔ لیکن جب جنید نے فوزیہ کا ساتھ دیا، تو وہ مجبور ہو کر پولیس کے پاس گئیں اور اپنے والد کے خلاف مقدمہ درج کروایا۔ فوزیہ کے شوہر جنید نے کہا، "میری اہلیہ نے بہت ہمت دکھائی۔ اس پر دباؤ ڈالا گیا کہ وہ کیس واپس لے لے، لیکن اس نے ایسا نہیں کیا۔ جب وہ ثابت قدم رہی، تو میں نے بھی اس کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا۔" کیس کی پیروی کرنے والی سرکاری وکیل شیخ حنا ناز شمس نے کہا کہ "یہ ایک مشکل کیس تھا، کیونکہ ابتدا میں کوئی وکیل بھی مجرم کا دفاع کرنے کے لیے تیار نہیں تھا۔ عدالت نے اسے دفاع کے لیے وکیل فراہم کیا، لیکن جب حقیقت سامنے آئی تو اس کے وکیل نے بھی وکالت نامہ واپس لے لیا۔" اس مقدمے میں سب سے زیادہ متاثر ہونے والا بچہ تھا، جو فوزیہ کے والد کا حیاتیاتی بیٹا تھا۔ جنید اور فوزیہ نے اس کے بہتر مستقبل کے لیے فیصلہ کیا کہ اسے کسی فلاحی ادارے کے حوالے کر دیا جائے۔ فوزیہ کے شوہر نے کہا، "ہم نہیں چاہتے تھے کہ یہ بچہ رشتہ داروں کی نظروں میں بڑا ہو اور اسے ہر وقت اس کے اصل کی یاد دلائی جائے۔ اس لیے ہم نے یہ مشکل فیصلہ کیا۔"
ساہیوال کے نواحی علاقے اوکانوالہ بنگلہ میں ایک پالتو کتے کی غیر معمولی سرگرمی نے عمر حیات نامی زرعی مزدور کے وحشیانہ قتل کا راز فاش کر دیا۔ کتے نے جلے ہوئے کچرے کے ڈھیر کو مسلسل کھودنے کی کوشش کی، جس کے نتیجے میں انسانی باقیات برآمد ہوئیں اور گاؤں والوں نے پولیس کو اطلاع دی۔ ڈان نیوز کی رپورٹ کے مطابق پولیس تفتیش کے مطابق، مقتول عمر حیات کو اس کی بیوی شمیم اور اس کے بھائی فدا حسین نے بے دردی سے قتل کیا، چہرہ مسخ کیا اور لاش کو آگ لگا کر کچرے کے ڈھیر میں پھینک دیا۔ واردات 13 اور 14 فروری کی درمیانی شب تحصیل چیچہ وطنی کے گاؤں 105/12-ایل میں پیش آئی۔ 18 فروری کو گاؤں کے رہائشیوں نے کتے کو کھدائی کرتے دیکھا، جس کے بعد زمین سے انسانی پیر برآمد ہوا۔ گاؤں کے ایک مقامی شخص سید بلال نواز نے فوراً پولیس ایمرجنسی لائن (15) پر اطلاع دی۔ اوکانوالہ بنگلہ پولیس موقع پر پہنچی اور جلے ہوئے کچرے سے ایک بری طرح جلی ہوئی، ناقابل شناخت لاش برآمد کر لی۔ مقتول کی شناخت نہ ہونے کے سبب، ڈی پی او ساہیوال رانا طاہر نے ڈی ایس پی تاثیر ریاض اور ایس ایچ او شہزاد احمد کی سربراہی میں ایک خصوصی تفتیشی ٹیم تشکیل دی۔ پولیس نے گاؤں والوں کی مدد سے عمر حیات کی آخری رہائش گاہ کا سراغ لگایا، جو کہ زمیندار ندیم عباس شاہ کے فارم ہاؤس پر تھا۔ عمر گزشتہ دو سال سے اپنی بیوی شمیم اور چار بچوں کے ساتھ وہاں کام کر رہا تھا۔ تاہم، لاش برآمد ہونے سے چند روز قبل زمیندار نے پولیس کو اطلاع دی تھی کہ عمر اور اس کے اہل خانہ ملازمت چھوڑ کر اپنے آبائی گاؤں جہانیاں، خانیوال چلے گئے ہیں۔ تفتیش کے دوران پولیس نے عمر کی والدہ سے رابطہ کیا، جنہوں نے بتایا کہ ان کا بیٹا اچانک لاپتا ہو گیا ہے۔ جب پولیس نے انہیں کچرے کے ڈھیر سے برآمد ہونے والے پیر دکھائے، تو ابتدائی طور پر انہوں نے بیٹے کے ہونے سے انکار کر دیا۔ مقتول کی بیوی شمیم نے بھی پیر کو پہچاننے سے انکار کر دیا، جس پر پولیس کو شبہ ہوا۔ بعد ازاں مقتول کی والدہ اور عمر کے ڈی این اے نمونے حاصل کیے گئے۔ کچھ دن بعد، مقتول کی والدہ نے پولیس کو فون کرکے تصدیق کی کہ یہ پیر ان کے بیٹے عمر کے ہی ہیں۔ مزید تحقیقات میں انکشاف ہوا کہ عمر اور اس کی بیوی شمیم دونوں کے مبینہ ناجائز تعلقات تھے، جس پر دونوں کے درمیان اکثر جھگڑے ہوتے تھے۔ واردات سے ایک ہفتہ قبل عمر نے شمیم سے اس معاملے پر سخت بات کی، جس کے نتیجے میں دونوں میں شدید جھگڑا ہوا۔ اس کے بعد شمیم نے اپنے بھائی فدا حسین کو قتل کی منصوبہ بندی میں شامل کر لیا۔ شمیم اور فدا حسین نے 13 فروری کی رات عمر کو قتل کیا۔ انہوں نے پہلے لوہے کی سلاخ اور اینٹوں سے اس کا چہرہ مسخ کیا، پھر لاش کو قریبی کچرے کے ڈھیر میں لے جا کر آگ لگا دی تاکہ کوئی شناخت نہ کر سکے۔ ایس ایچ او شہزاد احمد کے مطابق، مقتول کی بیوی شمیم اور فدا حسین کو گرفتار کر لیا گیا ہے اور ان کے خلاف مقدمہ 18 فروری کو درج کر لیا گیا تھا۔ تمام ثبوت اور اعتراف جرم مکمل ہونے کے بعد کیس ٹرائل کے لیے تیار ہے۔ یہ لرزہ خیز قتل ایک عام پالتو کتے کی غیر معمولی ذہانت کی بدولت بے نقاب ہوا، جس نے نہ صرف قاتلوں کے ناپاک ارادے ناکام بنا دیے بلکہ پولیس کو ایک پیچیدہ کیس کو حل کرنے میں بھی مدد دی۔
وانا: جنوبی وزیرستان میں ریاست کے خلاف پروپیگنڈا کرنے کے الزام میں سابقہ امیدوار صوبائی اسمبلی اور معروف سیاسی و سماجی کارکن تاج وزیر کے خلاف پیکا ایکٹ کے تحت مقدمہ درج کر لیا گیا۔ ذرائع کے مطابق، یہ مقدمہ وانا سٹی پولیس اسٹیشن میں درج کیا گیا ہے، جس میں ان پر سوشل میڈیا کے ذریعے ریاست کے خلاف گمراہ کن اور من گھڑت خبریں پھیلانے کا الزام عائد کیا گیا ہے۔ ایف آئی آر کے متن کے مطابق، تاج وزیر پہلے بھی مختلف اوقات میں عوام کو ریاستی اداروں کے خلاف اشتعال دلاتے رہے ہیں۔ حکام کا کہنا ہے کہ ان کی سرگرمیاں قومی سلامتی اور امن و امان کے لیے خطرہ بن سکتی ہیں، جس کے پیش نظر ان کے خلاف قانونی کارروائی کی گئی ہے۔ دوسری جانب ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر (ڈی پی او) نے عوام اور سوشل میڈیا صارفین سے اپیل کی ہے کہ وہ بغیر تصدیق کے خبریں پھیلانے سے گریز کریں۔ ان کا کہنا تھا کہ غلط معلومات اور جھوٹے پروپیگنڈے سے نہ صرف ریاستی اداروں کی ساکھ متاثر ہوتی ہے بلکہ عوام میں بے چینی بھی پیدا ہوتی ہے۔
کراچی: آج سہ پہر 3 بجے، وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کے اہلکاروں نے معروف صحافی فرحان ملک کے دفتر، رفتار، پر اچانک چھاپہ مارا اور ان کا ورک کمپیوٹر اور دفتر میں موجود تمام یو ایس بی ڈرائیوز ضبط کر لیں۔ دفتر کے عملے کو کسی قسم کی وضاحت فراہم نہیں کی گئی، جبکہ چھاپے کے دوران انتظامیہ کو شدید مشکلات کا سامنا رہا۔ دفتر انتظامیہ اور صحافتی حلقوں کا کہنا ہے کہ یہ کارروائی محض ایک معمول کی تفتیش نہیں بلکہ آزادی صحافت پر براہ راست حملہ ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ پہلے فرحان ملک کو حراست میں لیا گیا اور اب ان کے کام کے بنیادی وسائل اور محفوظ شدہ ریکارڈ کو بھی نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ سندھ ہائی کورٹ میں مقدمے کے اخراج کی درخواست، فریقین کو نوٹس جاری دوسری جانب سندھ ہائی کورٹ نے ملک مخالف ویڈیوز بنانے کے الزام میں درج مقدمے کو خارج کرنے کی فرحان ملک کی درخواست پر فریقین کو نوٹس جاری کر دیا ہے۔ عدالت نے درخواست کی سماعت عید کی تعطیلات کے بعد تک ملتوی کر دی۔ درخواست گزار کے وکیل، معیز جعفری ایڈووکیٹ، نے عدالت میں مؤقف اختیار کیا کہ فرحان ملک کے خلاف درج ایف آئی آر غیر قانونی اور بدنیتی پر مبنی ہے۔ ان کے مطابق یہ مقدمہ ایک آزاد صحافی کو ہراساں کرنے کی کوشش ہے، اور ان کی قانونی ٹیم نے اس کے خلاف حکم امتناع کی استدعا کی تھی، جو تاحال نہیں ملا۔ معیز جعفری نے مزید کہا کہ جب یہ انکوائری شروع ہوئی تھی، تب پیکا ترمیمی ایکٹ موجود نہیں تھا، اور اگر اس نوعیت کے مقدمات کو اجازت دی گئی تو شہریوں کے خلاف بے بنیاد مقدمات کا ایک نیا سلسلہ شروع ہو جائے گا، جہاں کسی بھی سرکاری افسر کو یہ اختیار حاصل ہوگا کہ وہ عناد کی بنیاد پر کسی بھی شہری کو قانونی پیچیدگیوں میں الجھا سکے۔ درخواست میں سندھ حکومت، ایس ایس پی ایسٹ، ڈائریکٹر ایف آئی اے، اور دیگر متعلقہ حکام کو فریق بنایا گیا ہے۔ صحافتی برادری اور انسانی حقوق کی تنظیموں نے اس کارروائی پر شدید تشویش کا اظہار کیا ہے اور حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ آزادی صحافت کو دبانے کے بجائے اس کے تحفظ کو یقینی بنایا جائے۔ دوسری جانب، رفتا‌ر کے دفتر کے ملازمین اور صحافی برادری کا کہنا ہے کہ وہ اس دباؤ کے سامنے خاموش نہیں رہیں گے اور آزادی اظہار رائے کے حق کے لیے ہر سطح پر آواز بلند کرتے رہیں گے۔
اسلام آباد: سیاست ڈاٹ پی کے کے نوجوان اینکر سہراب برکت کو فیڈرل انویسٹیگیشن ایجنسی (ایف آئی اے) نے طلب کر لیا ہے۔ ذرائع کے مطابق، سہراب برکت کو چند روز قبل بھی ایک نوٹس موصول ہوا تھا، جس کے بعد ان کے وکیل ایف آئی اے میں پیش ہوئے۔ تاہم، انویسٹیگیشن آفیسر نے واضح کیا کہ وہ صرف اور صرف سہراب برکت کو ذاتی حیثیت میں طلب کرنا چاہتے ہیں۔ اب ایک اور نوٹس انہیں واٹس ایپ پر موصول ہوا ہے، جس میں انہیں پیر کے روز ایف آئی اے کے دفتر میں پیش ہونے کا حکم دیا گیا ہے۔ قریبی ذرائع کا کہنا ہے کہ کل ان کی گرفتاری کا قوی امکان ہے۔ بے باک صحافت کی سزا؟ سہراب برکت اپنے بے باک صحافتی انداز کے لیے مشہور ہیں۔ انہوں نے حالیہ دنوں میں کشمیر میں ہونے والے احتجاجوں کی کھل کر رپورٹنگ کی اور اس معاملے کو پورے پاکستان میں اجاگر کیا۔ ان کی رپورٹنگ کے بعد پاکستانی حکام کی جانب سے سیاسی دباؤ میں مزید اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ یہ پیش رفت اس وقت سامنے آئی ہے جب چند روز قبل ہی "رفتار" پلیٹ فارم کے بانی اور صحافی فرحان ملک کو بھی ایف آئی اے نے پیکا ایکٹ کے تحت گرفتار کیا تھا۔ سوشل میڈیا پر حکومت پر تنقید کرنے والے صحافیوں کو ڈرایا اور دبایا جا رہا ہے، جس پر صحافتی تنظیموں اور عوامی حلقوں میں شدید تشویش پائی جاتی ہے۔ سیاست ڈاٹ پی کے پر مسلسل دباؤ یہ کوئی پہلا موقع نہیں جب سیاست ڈاٹ پی کے کو حکومتی دباؤ کا سامنا ہے۔ یہ پلیٹ فارم اپنے آزادانہ مؤقف کے باعث گزشتہ 600 سے زائد دنوں سے پابندیوں کا شکار ہے۔ موجودہ صورتحال میں ایسا لگ رہا ہے کہ پاکستان میں سیاست ڈاٹ پی کے کو مکمل طور پر بند کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ اس کے ساتھ ہی، سیاست ڈاٹ پی کے کے سی ای او عدیل حبیب کو بھی فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کی جانب سے دو کروڑ روپے کا نوٹس بھیجا گیا ہے۔ ذرائع کے مطابق، یہ نوٹس انہیں ہراساں کرنے کے لیے دیا گیا ہے، کیونکہ عدیل حبیب نے اب تک اپنے تمام ٹیکس ریٹرنز باقاعدگی سے فائل کیے ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا پاکستان میں آزاد صحافت کا دائرہ مزید تنگ کیا جا رہا ہے؟ اور کیا سہراب برکت کا معاملہ ملک میں جاری سیاسی و صحافتی کشمکش میں ایک نیا موڑ ثابت ہوگا؟ کل کا دن اس حوالے سے نہایت اہم ثابت ہو سکتا ہے
بلوچستان کے ضلع نوشکی میں نامعلوم مسلح افراد کی فائرنگ سے چار پولیس اہلکار شہید ہو گئے۔ نوشکی پولیس کے سربراہ ہاشم مہمند کے مطابق واقعہ غریب آباد کے علاقے میں پیش آیا، جہاں اہلکار معمول کی گشت پر تھے کہ مسلح حملہ آوروں نے ان پر فائرنگ کر دی۔ چاروں اہلکاروں کی لاشیں پوسٹ مارٹم کے لیے ٹیچنگ اسپتال نوشکی منتقل کر دی گئی ہیں۔ اس سے قبل بلوچستان کے ضلع قلات کے علاقے منگیچر میں ایک حملے میں چار مزدوروں کو بھی قتل کر دیا گیا تھا۔ وزیر اعلیٰ بلوچستان میر سرفراز بگٹی نے نوشکی میں پولیس پر حملے اور منگیچر میں مزدوروں کے قتل کی مذمت کرتے ہوئے کہا نوشکی میں پولیس موبائل پر فائرنگ اور منگچر میں معصوم مزدوروں کا قتل وحشیانہ دہشت گردی ہے۔ شہداء کے خون کا حساب لیا جائے گا، ریاست دشمن عناصر کو عبرت کا نشان بنایا جائے گا۔ بلوچستان کے امن کو خراب کرنے کی ہر سازش ناکام ہوگی! ۔
رواں مالی سال کے پہلے آٹھ ماہ کے دوران غیر ملکی سرمایہ کاری پر منافع اور ڈیویڈنڈز کی مد میں پاکستان سے ڈالر کا اخراج دوگنا سے بھی زیادہ ہوگیا۔ اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق مالی سال 2024-25 کے جولائی تا فروری کے دوران منافع کا اخراج 103.94 فیصد اضافے کے ساتھ 1.55 ارب ڈالر تک پہنچ گیا، جو گزشتہ مالی سال کی اسی مدت میں 76 کروڑ ڈالر تھا۔ یہ اضافہ اسٹیٹ بینک کی جانب سے ڈالر کے اخراج پر عائد پابندیوں میں نرمی کی علامت ہے، تاہم اس کے نتیجے میں زرمبادلہ کے ذخائر پر دباؤ برقرار ہے۔ اس وقت اسٹیٹ بینک کے ذخائر 11.14 ارب ڈالر ہیں، جو بڑھتی ہوئی درآمدات اور بیرونی قرضوں کی ادائیگیوں کے لیے ناکافی تصور کیے جا رہے ہیں۔ اعداد و شمار کے مطابق سب سے زیادہ منافع کا اخراج خوراک کے شعبے سے 29 کروڑ 20 لاکھ ڈالر رہا، جبکہ توانائی کے شعبے نے 23 کروڑ 30 لاکھ ڈالر اور مالیاتی شعبے (بشمول بینکنگ) نے 19 کروڑ 10 لاکھ ڈالر بیرون ملک منتقل کیے۔ پاکستان کو سالانہ تقریباً 25 ارب ڈالر بیرونی قرضوں اور اس کے سود کی ادائیگی کے لیے درکار ہوتے ہیں، جس میں 5 ارب ڈالر صرف سود کی مد میں شامل ہیں۔ حکومت بیرونی قرضوں کو رول اوور کرانے اور مزید قرضے لینے کے لیے کوشاں ہے تاکہ ادائیگیوں کا تسلسل برقرار رکھا جا سکے۔ حکومت نے برآمدات میں اضافے کے لیے ’اڑان پاکستان‘ پروگرام کا اعلان کیا ہے، جس کے تحت ملکی برآمدات کو 60 ارب ڈالر تک لے جانے کا ہدف مقرر کیا گیا ہے، تاہم اقتصادی ماہرین کا کہنا ہے کہ برآمدات میں نمایاں اضافے کے بغیر قرضوں کے بحران سے نکلنا مشکل ہوگا۔
کوئٹہ کے علاقے سریاب سے حراست میں لی گئی بلوچ یکجہتی کمیٹی کی مرکزی آرگنائزر ماہ رنگ بلوچ اور دیگر چار خواتین کو ایک ماہ کے لیے کوئٹہ جیل منتقل کر دیا گیا ہے۔ انہیں تھری ایم پی او کے تحت حراست میں رکھا گیا ہے۔ کمشنر کوئٹہ حمزہ شفقات کے مطابق بلوچ یکجہتی کمیٹی کے احتجاج کے دوران مظاہرین نے پولیس پر پتھراؤ اور فائرنگ کی، جس سے دو مزدور اور ایک افغان شہری ہلاک ہوئے۔ ان کا کہنا تھا کہ احتجاج میں بعض مظاہرین مسلح تھے اور جعفر ایکسپریس میں مارے جانے والے دہشت گردوں کے حق میں نعرے بازی کر رہے تھے۔ بلوچستان حکومت کے ترجمان شاہد رند نے جیو نیوز کے پروگرام "نیا پاکستان" میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ سول اسپتال کوئٹہ پر حملے کے بعد بلوچ یکجہتی کمیٹی کی قیادت کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ احتجاج میں مسلح افراد شامل تھے اور مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے پولیس نے واٹر کینن کا استعمال کیا۔ انہوں نے کہا کہ بعض مخصوص حالات میں خصوصی قوانین کا نفاذ ضروری ہوتا ہے، اور حکومت کے مطابق بلوچ یکجہتی کمیٹی ان دہشت گردوں کی لاشوں کے لیے احتجاج کر رہی تھی جو سیکیورٹی فورسز کے ساتھ مقابلے میں مارے گئے۔ بلوچ یکجہتی کمیٹی نے حکومتی الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ احتجاج جبری گمشدگیوں اور ماورائے عدالت قتل کے خلاف تھا۔ ان کے مطابق، حکومت پرامن مظاہرین کے خلاف طاقت کا بے جا استعمال کر رہی ہے۔ ماہ رنگ بلوچ کی گرفتاری اور جیل منتقلی کے بعد بلوچ یکجہتی کمیٹی نے اعلان کیا کہ اگر ان کی رہائی عمل میں نہ آئی تو احتجاج مزید شدت اختیار کرے گا۔
پاکستان ٹیلی ویژن (پی ٹی وی) کے اینکر نجم ولی کے متنازع بیان نے سوشل میڈیا پر شدید ردعمل کو جنم دیا ہے، جس میں انہوں نے نارتھ کوریا کی طرز پر "فیملی سینٹینسنگ" جیسے سخت قوانین اپنانے کا مطالبہ کیا۔ ان کے مطابق، دہشت گردوں کے ساتھ ان کے اہلِ خانہ کو بھی اجتماعی ذمہ داری کے تحت سزا دی جانی چاہیے، تاکہ وہ اپنے خاندان کے فرد کو جرم سے روکنے میں ناکامی پر جوابدہ ہوں۔ نجم ولی نے کہا ہمیں دہشت گردوں کو عبرت کا نشان بنانے کے لیے North Korea سے Family Sentencing کا وہ قانون کاپی کرنا ہو گا جس میں ایک مجرم کے ساتھ اس کی فیملی کو بھی Collective Responsibility میں سزا دی جاتی ہے کہ تم نے اسے کیوں نہیں روکا۔ اس کی اچھی تربیت کیوں نہیں کی یعنی دہشت گرد کا سارا خاندان اندر۔ نجم ولی کے اس بیان پر سوشل میڈیا صارفین نے سخت ردعمل دیا۔ احمد وڑائچ نے اس مطالبے کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ "جتنا پلید ذہن ہے، پاکستان کو نارتھ کوریا بنا کر اسے یہاں کا Kim Jong Un لگا دیں۔" انہوں نے مزید کہا کہ "خدائے ذوالجلال نے قرآن میں واضح فرما دیا ہے کہ کوئی شخص کسی دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا۔" (سورة النجم، آیت 38)۔ صبیح کاظمی نے طنزیہ انداز میں کہا کہ "جنوبی کوریا سے ترقی سیکھنے کے بجائے اب شمالی کوریا کے ماڈل کی تعریفیں ہو رہی ہیں۔ ان دانشوروں کا حال دیکھیں!" جبکہ سجاد حسین نے سخت الفاظ میں کہا کہ "ایسے شخص پر ہزار لعنت جو چند ٹکوں کی نوکری کے لیے اپنے ملک کو نارتھ کوریا جیسی جابر ریاست بنانے کے مشورے دے رہا ہے۔ الحمدللہ پاکستان اب بھی نارتھ کوریا سے ہزار گنا بہتر ہے، اسے وہیں بھیج دیں!" معروف سماجی کارکن جلیلہ حیدر نے کہا کہ "یہ ملک خود کو اسلامی جمہوریہ کہلاتا ہے، مگر یہاں کے پڑھے لکھے افراد بھی نہ اسلام کا علم رکھتے ہیں اور نہ جمہوریت کا۔ کہیں آپ کی یہ خواہش آپ کے اپنے گلے نہ پڑ جائے۔" انہوں نے مزید کہا کہ "کیا کبھی اسلام، رسول اللہ (ص) کی تعلیمات اور جمہوری اصول پڑھے ہیں؟ ایک فرد کے جرم کی سزا پورے خاندان کو دینا کہاں کی عقل مندی ہے؟" یہ بیان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب پاکستان میں انسانی حقوق کی صورتحال پہلے ہی تشویشناک ہے۔ حالیہ دنوں میں معروف صحافی احمد نورانی کے بھائیوں سمیت کئی سوشل میڈیا پر متحرک نوجوانوں کو ریاستی اداروں کی جانب سے اغوا کیا جا چکا ہے۔ ایسے میں سرکاری ٹی وی کے اینکر کا یہ بیان نہ صرف بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی کو مزید تقویت دیتا ہے بلکہ حکومتی اداروں کی پالیسیوں پر بھی سنگین سوالات اٹھاتا ہے۔
خیبرپختونخوا کے وزیراعلیٰ علی امین گنڈا پور اور سابق صوبائی وزیر عاطف خان کے درمیان اختلافات شدت اختیار کر گئے، جس کا اثر حکومتی قانونی ٹیم پر بھی پڑا۔ عاطف خان کے خلاف اینٹی کرپشن نوٹس کے معاملے پر پشاور ہائی کورٹ میں 12 مارچ کو سماعت مقرر تھی، لیکن ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل اور عاطف خان کے وکیل نے "راضی نامہ" کی بنیاد پر سماعت ملتوی کروا دی۔ بعد ازاں، ایڈووکیٹ جنرل خیبرپختونخوا شاہ فیصل اتمان خیل نے اس فیصلے پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل نوروز خان کو نوٹس جاری کر کے وضاحت طلب کی کہ کس کی ہدایت پر کیس ملتوی کرایا گیا، کیونکہ اینٹی کرپشن کسی بھی راضی نامے کے موڈ میں نہیں تھا۔ معاملہ مزید الجھنے پر نوروز خان نے مؤقف اختیار کیا کہ "شاید" عدالت نے غلطی سے ایڈووکیٹ جنرل آفس کی جانب سے بھی سماعت ملتوی کرنے کی استدعا کا ذکر کر دیا ہے۔ اس پیش رفت کے بعد معروف قانون دان قاضی انور ایڈووکیٹ نے نوروز خان کے استعفے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ اگر انہوں نے عدالت میں غلط بیانی کی ہے تو وہ مستعفی ہوں، اور اگر غلط بیانی نہیں کی تو عدالت میں تحریری حکمنامہ درست کروانے کی درخواست کیوں نہیں دی؟ وزیراعلیٰ علی امین گنڈا پور عاطف خان کے خلاف کیس میں ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل کے کمزور دلائل پر ناراض تھے۔ حکومت نے معاملے کا نوٹس لیتے ہوئے عاطف خان کے کیس میں تاخیری حربے استعمال کرنے اور حکومتی مؤقف کے برعکس عدالت میں بیان دینے پر ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل نوروز خان کو ڈی نوٹیفائی کر دیا۔ ذرائع کے مطابق، نوروز خان نے قاضی انور ایڈووکیٹ کے استعفے کے مطالبے کو مسترد کر دیا تھا، تاہم بالآخر انہیں عہدے سے ہٹا دیا گیا۔ اس معاملے پر ایک اور پیش رفت اس وقت سامنے آئی جب قاضی انور ایڈووکیٹ کا نوروز خان کے نام ایک آڈیو پیغام لیک ہو گیا، جس میں انہوں نے کہا: "وزیراعلیٰ نے آپ کو ہٹانے کا کہا تھا، لیکن میں نے کہا کہ نہیں، اس سے لاء آفیسر کی بدنامی ہوگی، اس لیے اب آپ کو خود استعفیٰ دینے کا موقع دیا جا رہا ہے۔ مستعفی ہو جائیں، پھر حالات بہتر ہوئے تو دیکھیں گے۔"
اسلام آباد:حکومت نے تنخواہ دار طبقے کو فوری ریلیف دینے سے معذرت کر لی ہے۔ ایکسپریس نیوز کے مطابق، قومی اسمبلی کے اجلاس میں حکومت نے تنخواہ دار طبقے پر بوجھ بڑھ جانے کو تسلیم کیا، لیکن اس طبقے کو فوری ریلیف دینے سے معذرت کر لی ہے۔ اسی دوران، چینی کی گھریلو اور کمرشل صارفین کے لیے الگ الگ قیمتیں مقرر کرنے کا عندیہ بھی دیا گیا ہے۔ قومی اسمبلی کا اجلاس گزشتہ روز ڈپٹی اسپیکر سید غلام مصطفی شاہ کی زیرصدارت ہوا، جہاں تنخواہ دار طبقے پر ٹیکس کے بڑھتے ہوئے بوجھ پر توجہ دلانے والے نوٹس کا جواب دیتے ہوئے پارلیمانی سیکرٹری بلال اظہر کیانی نے بتایا کہ وزیر اعظم نے بھی تسلیم کیا ہے کہ تنخواہ دار طبقے پر ٹیکس کا بوجھ زیادہ ہے، تاہم ملکی معیشت کے حالات ایسے ہیں کہ فوری طور پر ملازمین کو ریلیف دینا ممکن نہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ ریلوے میں ایک ہزار پولیس اہلکار بھرتی کیے جا رہے ہیں اور بلوچستان میں ٹرین کی سکیورٹی کے لیے 22 سکیورٹی اہلکار تعینات کیے جائیں گے، جبکہ بولان اور جعفر ایکسپریس کو جلد بحال کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ شاہد عثمان نے بتایا کہ چینی کی کمرشل اور گھریلو قیمتوں کے تعین کے لیے کمیٹی 17 اپریل تک اپنا کام مکمل کر لے گی۔ وزیر مملکت شاہد عثمان نے معیشت کی بحالی کے حوالے سے کہا کہ اس عمل میں تقریباً ایک سال کا وقت لگے گا۔ قومی بچت اسکیموں میں اسلامی سرمایہ کاری نہ ہونے کے حوالے سے ایوان کو آگاہ کیا گیا کہ 64 ارب روپے کی اسلامی سرمایہ کاری ہو چکی ہے۔ بعد ازاں، قومی اسمبلی کا اجلاس غیر معینہ مدت تک ملتوی کر دیا گیا۔
لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس طارق ندیم نے ایک اہم فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ فوجداری کارروائی میں ڈی این اے رپورٹ کو بنیادی ثبوت کے طور پر نہیں لیا جا سکتا۔ انہوں نے مزید کہا کہ اگر دیگر شواہد غلط ہوں تو صرف ڈی این اے رپورٹ سے ملزم کو جرم سے جوڑنا کافی نہیں۔ یہ فیصلہ لاہور ہائیکورٹ میں 19 سالہ لڑکی سے زیادتی کے بعد گلا کاٹ کر قتل کرنے کے کیس میں سنایا گیا۔ عدالت نے چھ سال بعد عمر قید کی سزا پانے والے ملزم کو بری کر دیا۔ جسٹس طارق ندیم نے ملزم محمد عارف کی سزا کو کالعدم قرار دیتے ہوئے اس کی اپیل پر 11 صفحات پر مشتمل فیصلہ جاری کیا۔ فیصلے میں کہا گیا کہ موجودہ دور میں کیسوں کے منطقی انجام تک پہنچانے میں ڈی این اے کا کردار بہت اہم ہے، لیکن عدالتوں کو یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ ڈی این اے رپورٹ قانون کے مطابق ہے یا نہیں اور یہ کہ آیا ڈی این اے کے نمونے محفوظ طریقے سے فرانزک تجزیے کے لیے بھیجے گئے تھے۔ جسٹس طارق ندیم نے فیصلہ دیتے ہوئے کہا کہ فوجداری کارروائی میں ڈی این اے رپورٹ کو ماہر کی رائے کے طور پر لیا جا سکتا ہے، تاہم شواہد کے جائزے سے یہ ثابت ہوا کہ پراسیکیوشن کا کیس شکوک و شبہات سے بھرا تھا۔ انہوں نے کہا کہ ایسے مشکوک اور غیر حقیقی شواہد کی بنیاد پر ملزم کی سزا برقرار نہیں رکھی جا سکتی۔ ملزم پر انتہائی سنجیدہ الزامات عائد ہیں، مگر صرف اس بنیاد پر سزا نہیں دی جا سکتی۔ عدالتی فیصلے میں مزید کہا گیا کہ ملزم کے خلاف پیش کیے گئے شواہد میں سنگین قانونی نقائص ہیں۔ ملزم محمد عارف پر 2019 میں زیادتی اور قتل کے الزامات کے تحت مقدمہ درج کیا گیا تھا۔ پراسیکیوشن کے مطابق ملزم نے 19 سالہ لڑکی سے زیادتی کے بعد اس کا گلا کاٹ کر قتل کیا اور پھر اس کی لاش کھیتوں میں پھینک دی۔ تاہم، کوئی گواہ واقعہ کے وقت موقع پر موجود نہیں تھا۔ فیصلے میں یہ بھی کہا گیا کہ پراسیکیوشن کا سارا کیس تکنیکی شواہد پر مبنی تھا، جو عموماً کمزور شواہد سمجھے جاتے ہیں۔ پراسیکیوشن نے اس معاملے میں وقوعہ کے وقت آخری دیکھے جانے والے گواہوں کے بیانات پر انحصار کیا تھا، جنہوں نے بیان دیا کہ انہوں نے لڑکی کو ملزم کے ساتھ کھیتوں کی طرف جاتے دیکھا تھا۔ تاہم، جسٹس طارق ندیم نے ان گواہوں کو قانونی لحاظ سے کمزور گواہ قرار دیا۔ میڈیکل رپورٹ میں لڑکی سے زیادتی کے کوئی شواہد نہیں ملے، اور عدالت نے اس کی بنیاد پر ملزم کی سزا کالعدم قرار دیتے ہوئے اس کی فوری رہائی کا حکم دیا۔
ایف آئی اے سائبر کرائم نے کارروائی کرتے ہوئے ریاست اور حکومتی شخصیات کی جعلی ویڈیوز بنانے میں ملوث ملزم کو گرفتار کر لیا ہے۔ ایف آئی اے کے مطابق ملزم کی شناخت غلام نبی کے طور پر ہوئی ہے، جسے صادق آباد میں چھاپہ مار کارروائی کے دوران گرفتار کیا گیا۔ ایف آئی اے کا کہنا ہے کہ ملزم ریاست اور سرکاری شخصیات کو نقصان پہنچانے کے لیے مصنوعی ذہانت کا غلط استعمال کرتا تھا اور حکومتی شخصیات کی جعلی تصاویر اور ویڈیوز سوشل میڈیا پر شیئر کرتا تھا۔ ایف آئی اے نے بتایا کہ ملزم کے خلاف پیکا ایکٹ کے تحت مقدمہ درج کر لیا گیا ہے، اور اس کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس اور دیگر ڈیجیٹل شواہد کو قبضے میں لے کر تحقیقات کا آغاز کر دیا گیا ہے۔
انصار عباسی رپورٹ کے مطابق پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) اپنے اتحادیوں کے ساتھ مختلف سیاسی آپشنز پر مشاورت کر رہی ہے تاکہ پارٹی کے لیے سیاسی جگہ حاصل کی جا سکے، ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ محاذ آرائی کی سیاست کو ختم کیا جا سکے اور جیل میں قید پارٹی کے بانی چیئرمین، عمران خان، کے لیے ریلیف حاصل کیا جا سکے۔ باخبر ذرائع کے مطابق، اپوزیشن اتحاد کے بعض رہنماؤں، جن میں مجلس وحدت مسلمین (ایم ڈبلیو ایم) کے سربراہ علامہ راجہ ناصر عباس اور پختونخوا ملی عوامی پارٹی (پی ایم اے پی) کے چیئرمین محمود خان اچکزئی شامل ہیں، کو کہا گیا ہے کہ وہ عمران خان کو قائل کریں کہ وہ سیاسی ماحول کو بہتر کرنے میں کردار ادا کریں، سوشل میڈیا پر جارحانہ رویے سے گریز کریں اور دہشت گردی کے خلاف ہر ممکن تعاون فراہم کریں۔ ان ذرائع کا کہنا ہے کہ اڈیالہ جیل میں عمران خان سے ملاقات کی خواہش رکھنے والے علامہ راجہ ناصر عباس کو پی ٹی آئی کے بعض اعلیٰ رہنماؤں، بشمول بیریسٹر گوہر علی خان، نے کہا کہ عمران خان کو قائل کریں کہ وہ پارٹی کی معمول کی سیاست میں واپس آنے کے لیے ماحول کو سازگار بنانے میں مدد کریں۔ بیرسٹر گوہر علی خان نے اس بات چیت پر ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ پی ٹی آئی اپنے اتحادیوں کے ساتھ مختلف آپشنز پر بات چیت کر رہی ہے، لیکن انہوں نے اس بات چیت کی تفصیلات میڈیا کے ساتھ شیئر کرنے سے گریز کیا۔ ایک بیرون ملک مقیم یوٹیوبر، جو پی ٹی آئی کے قریب سمجھے جاتے ہیں، نے دعویٰ کیا کہ گوہر علی خان نے حال ہی میں علامہ راجہ ناصر عباس اور محمود خان اچکزئی سے ماحول کو بہتر بنانے کی درخواست کی تھی، مگر دونوں رہنما اس بات پر راضی نہیں ہوئے۔ اگرچہ پی ٹی آئی عید کے بعد حکومت کے خلاف احتجاجی تحریک شروع کرنے کا ارادہ رکھتی ہے، لیکن کئی رہنما محاذ آرائی کی سیاست کو دوبارہ دہرانا نہیں چاہتے، کیونکہ اس سیاست کا عمران خان اور پارٹی قیادت کو کوئی فائدہ نہیں پہنچا۔ کہا جا رہا ہے کہ اگر عمران خان سخت بیانات سے گریز کریں اور پارٹی کے سوشل میڈیا کو ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے خلاف اشتعال انگیزی سے روک دیں تو پارٹی کے لیے حالات بہتر ہو سکتے ہیں۔ چونکہ ملک کو دہشت گردی کے بڑھتے ہوئے واقعات کا سامنا ہے، پی ٹی آئی کے کچھ رہنماؤں کا ماننا ہے کہ پارٹی کو دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ریاست اور اس کے اداروں کے ساتھ ہم آہنگ دکھنا چاہیے۔ پی ٹی آئی کے سوشل میڈیا کے غیر ذمہ دارانہ رویے نے پارٹی رہنماؤں کو پریشان کر دیا ہے، لیکن وہ جانتے ہیں کہ عمران خان کے سوا کوئی پارٹی کے سوشل میڈیا کو قابو نہیں پا سکتا۔
جسٹس انوار الحق پنوں نے خاتون اقصیٰ پرویز کی درخواست پر سماعت کی۔ پنجاب حکومت کی جانب سے اسسٹنٹ ایڈووکیٹ جنرل محمد فرخ خان لودھی نے بتایا کہ ڈی ایس پی کی سربراہی میں سات رکنی ٹیم تشکیل دی گئی تھی، اور مغوی کے ساتھ جو شخص اغوا ہوا تھا، وہ رہا ہو چکا ہے۔ اسے بھی تفتیش میں شامل کیا گیا، لیکن وہ تعاون نہیں کر رہا۔ جسٹس انوار الحق پنوں نے ریمارکس دئیے کہ جب کسی کو اُٹھا لیا جاتا ہے اور اس کا پتہ چھ ماہ تک نہیں چلتا، تو اس کے بھی حقوق ہوتے ہیں۔ اس طرح کے واقعات نفرتیں بڑھاتے ہیں۔ لاء افسر نے بتایا کہ یہ مسنگ پرسن کا کیس ہے اور درخواست گزار نے مسنگ پرسن کمیشن میں بھی درخواست دی تھی۔ عدالت نے استفسار کیا کہ کمیشن نے اب تک کتنے افراد بازیاب کرائے ہیں؟ پنجاب حکومت کے وکیل نے جواب دیا کہ کمیشن نے 17 مارچ 2025 کو ملک کی تمام ایجنسیوں کی سربراہی میں جے آئی ٹی تشکیل دی ہے۔ ایس ایس پی انویسٹی گیشن محمد نوید نے بتایا کہ ہم نے متعلقہ جگہ پر تفتیش کی، لیکن جو شخص اغوا کے وقت ساتھ تھا، وہ کچھ نہیں بتا رہا۔ جسٹس انوار الحق پنوں نے ریمارکس دئیے کہ جس ملک میں اسمبلیوں سے بھی لوگ اغوا ہوتے ہوں، وہاں آپ یہاں کہانیاں سنا رہے ہیں۔ جسٹس انوار نے کہا کہ درخواست پر فیصلہ نہیں کر رہے، اور مزید 15 دن کا وقت دے رہے ہیں۔ عدالت نے سماعت 14 اپریل تک ملتوی کر دی۔

Back
Top