خبریں

معاشرتی مسائل

Threads
0
Messages
0
Threads
0
Messages
0
None

طنز و مزاح

Threads
0
Messages
0
Threads
0
Messages
0
None
کراچی: چیئرمین نیب لیفٹیننٹ جنرل (ر) نذیر احمد بٹ نے انکشاف کیا ہے کہ سندھ میں زمینوں کے ریکارڈ کا کوئی مؤثر نظام موجود نہیں، جس کی وجہ سے بڑے پیمانے پر دھوکہ دہی اور جعلسازی ہو رہی ہے۔ انہوں نے واضح کیا کہ عنقریب اس مسئلے پر نیب کی جانب سے بڑا ایکشن لیا جائے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ کشمیر کی زمین سے زیادہ کراچی میں زمینوں کا مسئلہ ہے، جہاں بڑے پیمانے پر بدعنوانی ہو رہی ہے اور جعلسازی کے ذریعے اربوں روپے مالیت کی زمینوں پر قبضے کیے جا چکے ہیں۔ کراچی میں بلڈرز کے ایک اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے چیئرمین نیب نے کہا کہ سندھ میں زمینوں کا ریکارڈ انتہائی ناقص ہے اور مختلف لینڈ ڈپارٹمنٹس کے درمیان کوئی ربط موجود نہیں۔ انہوں نے انکشاف کیا کہ کراچی میں 7500 ایکڑ زمین کی ملکیتی دستاویزات میں جعلسازی کی گئی ہے، جس کی مالیت تقریباً 3 کھرب روپے ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر ان زمینوں کی فائلیں کھولی گئیں تو بڑا ہنگامہ کھڑا ہو جائے گا۔ چیئرمین نیب نے بلڈرز برادری کو یقین دہانی کراتے ہوئے کہا کہ ان کے مسائل کو سمجھا جا رہا ہے اور تمام نکات نوٹ کر لیے گئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ نیب کا ادارہ بلڈرز کے ساتھ کھڑا ہے اور اس حوالے سے نیب قوانین میں اصلاحات کی جا چکی ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ نیب میں شکایات درج کرانے کے لیے اب شناخت ظاہر کرنا ضروری ہوگا کیونکہ 85 فیصد شکایات نامعلوم ذرائع سے موصول ہو رہی تھیں، جن کی جانچ ممکن نہیں تھی۔ اصلاحات کے بعد نیب میں درج شکایات کی تعداد 4500 سے کم ہو کر 150 سے 200 رہ گئی ہے۔ چیئرمین نیب نے واضح کیا کہ کراچی اور سندھ میں زمینوں کی خرید و فروخت اور الاٹمنٹ میں بے ضابطگیاں عروج پر ہیں۔ ایل ڈی اے، کے ڈی اے اور ایم ڈی اے کی کارکردگی پر سوال اٹھاتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ ادارے 40 سال سے اپنے الاٹیز کو قبضہ دینے میں ناکام رہے ہیں۔ انہوں نے آباد (ایسوسی ایشن آف بلڈرز اینڈ ڈیولپرز) کو ہدایت دی کہ وہ شواہد فراہم کرے تاکہ غیر قانونی عمارتوں کو قانون کے مطابق مسمار کیا جا سکے۔ انہوں نے کراچی ماسٹر پلان کی بہتری کے لیے نیب ڈی جی کو فوری رپورٹ دینے کی ہدایت کی اور کہا کہ کراچی چیمبر آف کامرس کو بھی یقین دلایا گیا ہے کہ نیب ہر ممکن انصاف فراہم کرے گا۔ انہوں نے مزید بتایا کہ گوادر میں نیب کا ریجنل دفتر قائم کر دیا گیا ہے، جہاں زمینوں میں ہونے والی کرپشن کے مقدمات درج کیے جا چکے ہیں۔ گوادر میں تقریباً تین کھرب روپے مالیت کی زمینوں پر مقدمات زیر سماعت ہیں۔ چیئرمین نیب نے اعلان کیا کہ نیب میں ون ونڈو آپریشن شروع کیا جا رہا ہے اور 2022 سے قبل کی تقریباً 21 ہزار شکایات ختم کر دی گئی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کے رئیل اسٹیٹ سیکٹر کے لیے نئی پالیسی تشکیل دی جا رہی ہے، جس کے تحت تمام مالی ادائیگیاں بینکوں کے ذریعے کی جائیں گی تاکہ شفافیت کو یقینی بنایا جا سکے۔ انہوں نے بتایا کہ حکومت فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) میں بڑے پیمانے پر اصلاحات کر رہی ہے اور اس کا نظام مزید مؤثر اور عوام دوست بنایا جا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایف بی آر کے بعض افسران کے خلاف نیب میں مقدمات چل رہے ہیں، اور 50 کروڑ روپے سے زیادہ کی کرپشن پر نیب فوری متحرک ہو جاتا ہے۔ چیئرمین نیب نے واضح کیا کہ نیب کے اندر بھی کرپشن کے خلاف سخت ایکشن لیا جا رہا ہے۔ کئی کرپٹ افسران کو نوکریوں سے برخاست کر دیا گیا ہے، اور مزید اصلاحات جاری ہیں تاکہ ادارے کے وقار کو بحال کیا جا سکے۔ انہوں نے اس عزم کا اظہار کیا کہ نیب اب صرف ٹھوس شواہد کی بنیاد پر کام کرے گا اور کسی کے ساتھ زیادتی نہیں کی جائے گی۔ ان کا کہنا تھا کہ ماضی میں جو زیادتیاں ہوئیں، ان پر آباد سے معافی مانگتا ہوں، لیکن اب نیب کا ہر نوٹس قانون کے مطابق ہوگا اور کسی سے ذاتی دشمنی نہیں رکھی جائے گی، دباؤ میں آکر کسی کی عزت نفس مجروح نہیں کرینگے۔
لاہور: آل پاکستان ٹیکسٹائل ملز ایسوسی ایشن (اپٹما) کے چیئرمین کامران ارشد نے خطرے کی گھنٹی بجاتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان کی ٹیکسٹائل صنعت شدید بحران کا شکار ہو چکی ہے، جہاں پہلے ہی 40 فیصد اسپننگ ملز بند ہو چکی ہیں جبکہ باقی ملز بھی بندش کے دہانے پر ہیں۔ اپٹما نے حکومت سے فوری مداخلت کی اپیل کرتے ہوئے مطالبہ کیا ہے کہ مقامی ٹیکسٹائل صنعت کو مساوی مواقع فراہم کیے جائیں اور اسپننگ انڈسٹری کے تحفظ کے لیے فوری پالیسی اصلاحات متعارف کرائی جائیں۔ کامران ارشد کے مطابق دھاگے کی بے تحاشا درآمدات کے باعث مقامی ٹیکسٹائل صنعت شدید دباؤ میں ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر یہ رجحان برقرار رہا تو مزید 100 سے زائد اسپننگ ملز بند ہونے کا خدشہ ہے، جس کے نتیجے میں لاکھوں افراد بے روزگار ہو سکتے ہیں۔ چیئرمین اپٹما نے حکومت کی پالیسیوں کو بھی تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ غیر منصفانہ ٹیکس نظام اور عدم مساوات پر مبنی حکومتی فیصلوں نے اس صنعت کو تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس بحران کے باعث 15 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری بھی خطرے میں پڑ چکی ہے، جس سے ملکی معیشت پر منفی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ کامران ارشد نے زور دیا کہ پاکستان کی کاٹن اکانومی کو بچانے کے لیے فوری اور ٹھوس اقدامات کیے جائیں۔ ان کے مطابق ٹیکسٹائل سیکٹر کو سہارا دینے کے لیے سیلز ٹیکس میں اصلاحات ناگزیر ہیں۔ اگر حکومت نے بروقت اقدامات نہ کیے تو یہ صنعت مکمل طور پر تباہ ہو سکتی ہے، جس کا نقصان قومی معیشت کو ناقابلِ تلافی حد تک پہنچا سکتا ہے۔
اسپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق نے اسلام آباد ہائیکورٹ کے جج جسٹس محسن اختر کیانی کے ریمارکس پر شدید ردعمل دیتے ہوئے انہیں پارلیمنٹ پر حملہ قرار دیا ہے۔ انہوں نے قومی اسمبلی اجلاس کے دوران رولنگ دیتے ہوئے کہا کہ کسی کو بھی پارلیمنٹ کے بارے میں غیر ضروری بیان بازی کا حق حاصل نہیں۔ ایاز صادق نے وفاقی وزیر قانون کو ہدایت کی کہ وہ متعلقہ جج کو پیغام پہنچائیں کہ پارلیمنٹ ایک سپریم ادارہ ہے اور اس کی خودمختاری پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جا سکتا۔ یہ معاملہ اس وقت سامنے آیا جب اسلام آباد ہائیکورٹ میں فیڈرل پبلک سروس کمیشن (FPSC) کے نتائج روکنے کے خلاف دائر درخواست پر سماعت ہوئی۔ دوران سماعت جسٹس محسن اختر کیانی نے سخت ریمارکس دیے اور کہا کہ "عدلیہ، پارلیمنٹ اور انتظامیہ سمیت تمام ستون گر چکے ہیں۔ عدلیہ کا ستون ہوا میں ہے مگر ہم پھر بھی مایوس نہیں ہیں۔" جسٹس محسن کیانی نے چیئرمین FPSC لیفٹیننٹ جنرل (ر) اختر نواز ستی سے استفسار کیا کہ 2024 کے امتحانات کے نتائج کا اعلان نہیں ہوا اور 2025 کے امتحانات کا انعقاد کیا جا رہا ہے، جس پر چیئرمین FPSC نے فوری نتائج جاری کرنے سے معذرت کر لی۔ جسٹس محسن کیانی نے مزید کہا کہ اگر آج بھی نتائج کے اعلان کا فیصلہ ہو جائے تو ہم درخواستوں کو نمٹا دیتے ہیں۔ تاہم، درخواست گزاروں کے مؤقف کو مدنظر رکھتے ہوئے عدالت نے سی ایس ایس امیدواروں کی درخواستوں پر فیصلہ محفوظ کر لیا۔
اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق نے 5 ججز کی ریپریزنٹیشن پر فیصلہ جاری کرتے ہوئے ان کی درخواست مسترد کر دی اور ہائیکورٹ میں ججز کی موجودہ سینیارٹی لسٹ کو برقرار رکھنے کا حکم دیا۔ اس فیصلے کے مطابق، دیگر صوبائی ہائیکورٹس سے ٹرانسفر ہوکر اسلام آباد ہائیکورٹ میں شامل ہونے والے ججز کی سینیارٹی میں کوئی تبدیلی نہیں کی گئی، اور جسٹس سرفراز ڈوگر بدستور سینئر پیونی جج برقرار رہیں گے۔ چیف جسٹس عامر فاروق نے فیصلے میں واضح کیا کہ جسٹس سرفراز ڈوگر نے 2015 میں بطور ہائیکورٹ جج حلف اٹھایا تھا، اور آئینی طور پر کسی بھی صوبائی ہائیکورٹ سے دوسری ہائیکورٹ میں ٹرانسفر ہونے والے ججز کو دوبارہ نیا حلف اٹھانے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ فیصلے میں کہا گیا کہ ججز کی تعیناتی اور ٹرانسفر دو الگ معاملات ہیں اور انہیں ایک جیسا نہیں سمجھا جا سکتا۔ عدالتی فیصلے کے تحت جن ججز کی ریپریزنٹیشن مسترد کی گئی ہے ان میں جسٹس محسن اختر کیانی، جسٹس طارق جہانگیری، جسٹس بابر ستار، جسٹس سردار اعجاز اسحاق خان اور جسٹس ثمن رفعت شامل ہیں۔ ان ججز کا موقف تھا کہ جس جج کا جس ہائیکورٹ میں تقرر ہوتا ہے، وہ اسی ہائیکورٹ کے لیے حلف اٹھاتا ہے، اور آئینی طور پر کسی دوسری ہائیکورٹ میں ٹرانسفر ہونے کی صورت میں اسے نیا حلف لینا پڑتا ہے۔ ان کے مطابق، سینیارٹی کا تعین بھی نئے حلف کے مطابق ہونا چاہیے۔ تاہم، اسلام آباد ہائیکورٹ نے ان کے اس موقف کو رد کر دیا اور واضح کیا کہ ٹرانسفر شدہ ججز کی سینیارٹی برقرار رہے گی۔ چیف جسٹس عامر فاروق نے رجسٹرار آفس کو ہدایت دی ہے کہ وہ اس فیصلے سے تمام 5 ججز کو باضابطہ طور پر آگاہ کرے۔ واضح رہے کہ اسلام آباد ہائیکورٹ میں دیگر ہائیکورٹس سے 3 ججز کے ٹرانسفر کے بعد سینیارٹی لسٹ میں رد و بدل کیا گیا تھا، جس کے تحت جسٹس سرفراز ڈوگر کو سینئر پیونی جج برقرار رکھا گیا ہے جبکہ جسٹس محسن اختر کیانی دوسرے نمبر پر چلے گئے ہیں۔ اس نئی فہرست کے مطابق جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب تیسرے، جسٹس طارق محمود جہانگیری چوتھے، جسٹس بابر ستار پانچویں اور جسٹس سردار اسحاق خان چھٹے نمبر پر ہیں۔ مزید برآں، جسٹس ارباب محمد طاہر ساتویں، جسٹس ثمن رفعت امتیاز آٹھویں، جسٹس خادم حسین نویں اور جسٹس اعظم خان دسویں نمبر پر ہوں گے۔ جسٹس آصف گیارہویں جبکہ جسٹس انعام امین منہاس بارہویں نمبر پر موجود ہیں۔
اڈیالہ جیل میں قید سابق وزیراعظم اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے بانی عمران خان نے پارٹی کی کور کمیٹی کی تشکیل نو کا فیصلہ کیا ہے۔ انہوں نے ان تمام ارکان کی رکنیت معطل کرنے کی ہدایت کی ہے جو پارٹی کے بیانیے کو مکمل طور پر آگے بڑھانے سے قاصر ہیں یا سوشل میڈیا اور مین اسٹریم میڈیا پر اس کا دفاع نہیں کر رہے۔ ذرائع کے مطابق عمران خان نے وکلا سے ملاقات کے دوران کور کمیٹی کے غیر فعال ارکان کے حوالے سے سخت موقف اپنایا اور کہا کہ جو ارکان ان کے ٹوئٹس کو ری ٹوئٹ نہیں کرتے یا پارٹی کے بیانیے کا بوجھ نہیں اٹھا سکتے، ان کی کور کمیٹی کی رکنیت ختم کردی جائے۔ ذرائع کے مطابق عمران خان کو بتایا گیا کہ کور کمیٹی میں صرف دو درجن کے قریب ارکان ہی بانی چیئرمین کے اکاؤنٹ سے کی گئی ٹوئٹس کو ری ٹوئٹ کرتے ہیں یا میڈیا پر ان کے مؤقف کا دفاع کرتے ہیں۔ اس صورتحال کے پیش نظر عمران خان نے کور کمیٹی کے ایسے ارکان کی فہرست تیار کرنے کی ہدایت کی ہے جو پارٹی بیانیے کی مکمل حمایت نہیں کر رہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ ان ارکان کو کور کمیٹی گروپ سے نکال دیا جائے اور ان کی جگہ نئے اور متحرک افراد کو شامل کیا جائے جو پارٹی کے مؤقف کو کھل کر بیان کر سکیں۔ عمران خان نے اس کے ساتھ ساتھ خیبرپختونخوا کے وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور کو آئی جی خیبرپختونخوا کے تبادلے کے معاملے پر وفاق سے سخت مؤقف اپنانے کی ہدایت بھی کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ 18ویں ترمیم کے بعد آئی جی کی تعیناتی صوبائی حکومت کا اختیار ہے اور اگر وفاق وزیراعلیٰ کی سفارشات کو نظر انداز کر رہا ہے تو صوبائی حکومت کو بھی وفاق کے ساتھ تعاون ختم کرنے پر غور کرنا چاہیے۔ ذرائع کے مطابق عمران خان نے 8 فروری کو ہونے والے احتجاج خصوصاً پنجاب میں ہونے والے مظاہروں کی رپورٹ بھی طلب کر لی ہے۔ اس رپورٹ کی روشنی میں پنجاب کی قیادت کے حوالے سے اہم فیصلے کیے جانے کا امکان ہے۔ یہ فیصلہ ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب پی ٹی آئی قیادت شدید دباؤ کا شکار ہے اور پارٹی کے کئی سینئر رہنما یا تو خاموش ہیں یا کھل کر پارٹی بیانیے کی حمایت نہیں کر رہے۔ عمران خان کا یہ فیصلہ پارٹی کے اندر مزید تبدیلیوں کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتا ہے، جس سے آئندہ کی سیاسی حکمت عملی میں بڑی تبدیلیاں دیکھنے کو مل سکتی ہیں۔
وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات عطااللہ تارڑ نے کہا ہے کہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کا یوم سیاہ بری طرح ناکام ہوگیا، اور ایک شخص بھی سڑکوں پر نہیں نکلا۔ لاہور میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے عطااللہ تارڑ نے کہا کہ خیبرپختونخوا میں یوم سیاہ منانے کا مقصد کیا تھا؟ کیا یہ مہنگائی میں کمی کے خلاف تھا یا اسٹاک ایکسچینج میں بہتری پر احتجاج تھا؟ انہوں نے سوال کیا کہ آیا یہ احتجاج خیبرپختونخوا حکومت کی پالیسیوں کے خلاف تھا یا کسی اور ایجنڈے کے تحت کیا گیا۔ انہوں نے طنزیہ انداز میں کہا کہ پی ٹی آئی کا یوم سیاہ اس قدر غیر مؤثر تھا کہ میں نے ایک یونین کونسل میں جلسہ کیا، جہاں جتنی کرسیاں رکھی گئی تھیں، اتنے لوگ بھی پی ٹی آئی اپنے احتجاج میں جمع نہ کر سکی۔ بعد ازاں، مسلم لیگ (ن) کے مرکزی دفتر میں پارٹی کے وفات پانے والے کارکنان کی دعائیہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے عطااللہ تارڑ نے کہا کہ اگر کارکنان ہماری قوت نہ بنتے تو ہماری پہچان بھی نہ ہوتی۔ انہوں نے کہا کہ یہ ہمارے لیے غم کی گھڑی ہے کیونکہ عشروں تک پارٹی کی خدمت کرنے والے کارکنان ہم سے جدا ہو گئے۔ انہوں نے مزید کہا کہ کارکنوں کی محنت اور قربانیوں سے ہی سیاسی جماعتیں زندہ رہتی ہیں۔ اگر کارکنان آواز نہ اٹھاتے تو خزاں کے بعد بہار نہ آتی۔ پارٹی کے لیے خون پسینہ بہانے والے کارکنوں اور ان کے خاندانوں کا خیال رکھنا قیادت کی ذمہ داری ہے۔ عطااللہ تارڑ نے تجویز دی کہ کارکنان کی فلاح و بہبود کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دی جائے، جس میں کسی ایم این اے یا ایم پی اے کو شامل نہ کیا جائے اور جو صرف کارکنان کی خدمت کے لیے ڈیٹا اکٹھا کرے۔ دعائیہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے سابق وفاقی وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق نے کہا کہ آج جو قدم اٹھایا گیا وہ انتہائی اہم ہے۔ سیاسی جماعتوں کو اپنے ان کارکنوں کو یاد رکھنا چاہیے جنہوں نے اپنی زندگیاں پارٹی کے لیے وقف کر دیں۔ انہوں نے کہا کہ کارکنان کسی بھی سیاسی تحریک کی بنیاد ہوتے ہیں، اور اگر ان کی قربانیوں کو نظر انداز کیا جائے تو جماعتیں کمزور ہو جاتی ہیں۔ سعد رفیق نے اس عزم کا اظہار کیا کہ مسلم لیگ (ن) کارکنان کی فلاح و بہبود کے لیے ہر ممکن اقدامات کرے گی۔
۔تحریک انصاف کے پرچم بھارت کے زیر تسلط کشمیر میں جا پہنچے، کشمیر میں پی ٹی آئی کے جھنڈے دیکھ کر بھارتی سیکیورٹی فورسز میں ہڑبڑاہٹ 8 فروری 2025 کو یوم سیاہ کے موقع پر تحریک انصاف کی جانب سے غباروں کے ساتھ باندھ کر فضا میں چھوڑے گئے پارٹی پرچم مقبوضہ جموں و کشمیر کے ضلع ڈوڈا کے گاندو سب ڈویژن کے گورکھرا گاؤں میں جا پہنچے، جس نے بھارتی سکیورٹی فورسز میں شدید پریشانی پیدا کر دی۔ اطلاعات کے مطابق، سابق پاکستانی وزیر اعظم عمران خان کی سیاسی جماعت پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کا پرچم اور غبارے درخت پر لٹکتے ہوئے پائے گئے۔ اس پرچم اور غباروں کی موجودگی نے نہ صرف مقامی افراد بلکہ بھارتی سکیورٹی اداروں کو بھی غیر معمولی طور پر متوجہ کیا۔ یہ پرچم اور غبارے گورکھرا گاؤں کے ایک اخروٹ کے درخت سے لٹک رہے تھے، جس کے بعد بھارتی سکیورٹی فورسز نے فوری طور پر ان پرچموں اور غباروں کو درخت سے اتار کر مقامی پولیس اسٹیشن منتقل کر دیا۔ بھارتی پولیس کے مطابق، ان اشیاء کو فوری طور پر قبضے میں لیا گیا اور رپورٹ بھی درج کی گئی ہے۔ صحافی غلام عباس شاہ نے بھارتی فورسز کی جانب سے پرچموں کو درخت سے اتارنے کی ویڈیو شیئر کرتے ہو لکھا کہ 'بھارتی سکیورٹی فورسز میں کشمیر میں پی ٹی آئی کا پرچم دیکھ کر ہلچل مچ گئی۔ سابق پاکستانی وزیرِ اعظم عمران خان کی پارٹی پی ٹی آئی کا پرچم اور کچھ غبارے گورکھرا گاؤں، گاندو سب ڈویژن، ڈوڈا ضلع میں ایک درخت سے لٹکتے ہوئے پائے گئے۔ بھارتی سکیورٹی فورسز نے انہیں درخت سے اُتار کر مقامی پولیس اسٹیشن منتقل کر دیا۔ پولیس نے رپورٹ درج کر لی ہے اور حکام تحقیقات کر رہے ہیں۔ اشوک سوائن نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ عمران خان کی پارٹی پی ٹی آئی کا پرچم کشمیر کے بھارتی حصے میں لہرا رہا ہے - یہ پرچم بھارتی سکیورٹی افسران کو اتنا ہی ڈرا رہا ہے جتنا کہ آج کل پاکستانی فوج کے جنرلز کو۔
جوڈیشل کمیشن کے رکن اور سینیٹر علی ظفر نے چیف جسٹس پاکستان یحییٰ آفریدی کو خط لکھ کر جوڈیشل کمیشن کے اجلاس کو ملتوی کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ خط میں سینیٹر علی ظفر نے مؤقف اختیار کیا کہ جب تک اسلام آباد ہائی کورٹ میں ججز کی سنیارٹی کے معاملے کو حل نہیں کیا جاتا، اجلاس منعقد کرنا مناسب نہیں ہوگا۔ ان کے مطابق، حالیہ ججز کے تبادلے کی وجہ سے ہائی کورٹ کی سنیارٹی لسٹ میں تبدیلی آئی ہے، جو عدالتی نظام پر اثر انداز ہو سکتی ہے۔ سینیٹر علی ظفر نے اپنے خط میں اس خدشے کا اظہار کیا کہ ججز کے یہ تبادلے ایک خاص تناظر میں کیے گئے ہیں، جس سے یہ تاثر پیدا ہو رہا ہے کہ یہ انتظام بانی پی ٹی آئی اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کی اپیلوں کے لیے ایک خاص بندوبست کا حصہ ہو سکتا ہے۔ انہوں نے تجویز دی کہ جوڈیشل کمیشن کو اس وقت تک اجلاس ملتوی کر دینا چاہیے جب تک ججز کی سنیارٹی کا معاملہ مکمل طور پر واضح نہیں ہو جاتا۔ تاہم، اگر اجلاس منعقد کرنا ناگزیر ہو تو حالیہ تبادلہ شدہ ججز کو زیر بحث نہ لایا جائے تاکہ کسی بھی ممکنہ تنازع سے بچا جا سکے۔
عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) نے پاکستان میں ججز کی تقرری، عدلیہ کی سالمیت، گورننس اور انسداد بدعنوانی سے متعلق ایک جامع جائزے کے لیے خصوصی مشن بھیج دیا ہے۔ یہ اپنی نوعیت کا پہلا تفصیلی جائزہ ہے، جس کے تحت مشن نے 8 فروری سے اپنا کام شروع کر دیا اور 14 فروری تک اپنی رپورٹ مکمل کرے گا۔ شہباز رانا کی خبر کے مطابق آئی ایم ایف مشن پاکستان میں اپنے قیام کے دوران کم از کم 19 حکومتی وزارتوں، محکموں اور ریاستی اداروں سے ملاقات کرے گا، جن میں جوڈیشل کمیشن آف پاکستان اور سپریم کورٹ آف پاکستان بھی شامل ہیں۔ ذرائع کے مطابق، مشن کا بنیادی فوکس قانون کی حکمرانی، انسداد بدعنوانی، مالیاتی نگرانی اور ریاستی گورننس میں اصلاحات پر ہے۔ یہ مشن ایک ایسے وقت میں آیا ہے جب اسلام آباد ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کے ججز نے اعلیٰ عدلیہ میں ججز کی تقرریوں کے طریقہ کار پر شدید تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ ذرائع کے مطابق، مشن اگلے ہفتے جوڈیشل کمیشن کے ساتھ میٹنگ کرے گا، جہاں ججز کی تقرری کے عمل پر تفصیلی گفتگو ہوگی۔ آئی ایم ایف کا مشن قومی احتساب بیورو (نیب) کے ساتھ مل کر پاکستان میں انسداد بدعنوانی کی پالیسیوں، بدعنوانی کے اثرات، قانون کے نفاذ، منی لانڈرنگ کی تحقیقات اور پراسیکیوشن کے معاملات پر تبادلہ خیال کرے گا۔ عالمی مالیاتی ادارے نے اس بات پر بھی زور دیا ہے کہ پاکستان میں مشکل کاروباری ماحول، کمزور گورننس اور ریاستی مداخلت سرمایہ کاری کی راہ میں بڑی رکاوٹیں ہیں۔ اس حوالے سے، آئی ایم ایف مشن مالیاتی مانیٹرنگ یونٹ (FMU) کے ساتھ بھی ملاقات کرے گا تاکہ مشتبہ مالیاتی لین دین، مالیاتی انٹیلی جنس، اور وسائل کی دستیابی جیسے عوامل کا جائزہ لیا جا سکے۔ ذرائع کے مطابق، وزارت قانون و انصاف کے ساتھ بھی ایک اہم اجلاس ہوگا، جس میں قانون کی حکمرانی، عدلیہ کی آزادی، جائیداد کے حقوق کے تحفظ، اور معاہدوں کے نفاذ کے حوالے سے درکار قانونی اصلاحات کا جائزہ لیا جائے گا۔ آئی ایم ایف مشن اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے ساتھ بھی متعدد ملاقاتیں کرے گا، جن میں سے کچھ پہلے ہی ہو چکی ہیں۔ ان ملاقاتوں میں بینکاری گورننس، انسداد بدعنوانی سے متعلق چیلنجز، اور اصلاحات کی ترجیحات پر تبادلہ خیال کیا جا رہا ہے۔ اس کے علاوہ، مشن اسلامی بینکاری، انسداد منی لانڈرنگ، دہشت گردی کی مالی معاونت، اور بینکاری ادائیگی کے نظام پر بھی بریفنگ لے گا۔ ذرائع کے مطابق، بینکنگ سیکٹر میں قانونی تحفظ، نگران فیصلہ سازی، اور سپروائزری سسٹم کے بارے میں بھی تفصیلی مشاورت کی جائے گی۔ آئی ایم ایف مشن فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کے ساتھ بھی ملاقات کرے گا، جہاں ٹیکس پالیسیوں، ان کے نفاذ اور گورننس سے متعلق ممکنہ خطرات پر گفتگو ہوگی۔ اسی طرح، فیڈرل لینڈ کمیشن کے ساتھ بھی میٹنگ ہوگی، جس میں پاکستان میں زمینوں کے انتظام و انصرام میں گورننس کے معاملات کا تجزیہ کیا جائے گا۔ مزید برآں، مشن آڈیٹر جنرل آف پاکستان اور اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کے ساتھ بھی مشاورت کرے گا تاکہ بیوروکریٹس کے اثاثہ جات کے اعلان کے نظام اور انسداد بدعنوانی کے اقدامات کا جائزہ لیا جا سکے۔ آئی ایم ایف وزارت خزانہ کے ساتھ بجٹ سازی اور اس کے نفاذ کے موجودہ طریقہ کار کا بھی جائزہ لے گا، جبکہ وزارت اقتصادی امور کے ساتھ بیرونی قرضوں کے اعداد و شمار، قرضوں کے انتظام، اور ان کی شفافیت پر بھی بات چیت کی جائے گی۔ مشن اپنی تحقیق مکمل کرنے کے بعد جولائی 2025 میں اپنی تفصیلی رپورٹ شائع کرے گا۔ 7 بلین ڈالر کے معاہدے کے تحت پاکستان اس تفصیلی گورننس رپورٹ کو عام کرنے کا پابند ہے۔ شہباز رانا نے اپنے ایکس پیغام پر کہا کہ سب کی معلومات کے لیے، آئی ایم ایف کا موجودہ مشن گورننس اور کرپشن کے تجزیے (GCD) کا جائزہ لینے کے لیے آیا ہے، جیسا کہ میری خبر میں بھی لکھا ہے۔ براہ کرم اسے ریویو مشن کے ساتھ نہ ملائیں، جو ایک الگ مشن ہے اور بعد میں آئے گا۔ کچھ نیوز چینلز دونوں کو آپس میں ملا رہے ہیں۔
اسرائیلی وزیراعظم بینجمن نیتن یاہو نے فلسطین کو اسرائیل کی سلامتی کے لیے خطرہ قرار دیتے ہوئے ایک متنازعہ تجویز پیش کی ہے کہ سعودی عرب کو اپنے ملک کے اندر فلسطینی ریاست بنانی چاہیے۔ خبرایجنسی انادولو کے مطابق نیتن یاہو نے اسرائیلی نیوز چینل 14 کو دیے گئے انٹرویو میں کہا کہ سعودی حکومت فلسطینیوں کے لیے اپنی سرزمین پر ایک ریاست قائم کر سکتی ہے، کیونکہ ان کے پاس کافی زمین ہے۔ ان سے سوال کیا گیا کہ آیا سعودی عرب سے تعلقات کے لیے فلسطینی ریاست کا قیام ضروری ہے، تو انہوں نے اس امکان کو مکمل طور پر رد کرتے ہوئے کہا کہ فلسطینی ریاست اسرائیل کی قومی سلامتی کے لیے خطرہ ہے۔ نیتن یاہو نے مزید کہا کہ "7 اکتوبر کے بعد فلسطینی ریاست کا کوئی تصور نہیں بنتا۔ کیا آپ جانتے ہیں کہ وہ کیا تھا؟ ایک فلسطینی ریاست تھی، جسے غزہ کہا جاتا تھا، جہاں حماس کی حکومت قائم تھی۔ نتیجہ ہم سب کے سامنے ہے۔" انہوں نے دوبارہ زور دے کر کہا کہ فلسطینی ریاست کا قیام اسرائیل کے لیے کسی طور قابل قبول نہیں۔ سعودی عرب کی وزارت خارجہ نے بینجمن نیتن یاہو کے اس بیان کو سختی سے مسترد کرتے ہوئے واضح کیا کہ اسرائیل کے ساتھ تعلقات اسی وقت ممکن ہوں گے جب فلسطینی ریاست کا قیام عمل میں آئے گا۔ سعودی حکومت نے اس بات کا اعادہ کیا کہ وہ ہمیشہ فلسطینی عوام کے حقوق اور ایک خودمختار ریاست کے قیام کی حمایت کرتی رہے گی۔ نیتن یاہو نے سعودی عرب کے ساتھ تعلقات کے حوالے سے اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ "اسرائیل اور سعودی عرب کے درمیان امن ممکن ہی نہیں، بلکہ یہ جلد ہی حقیقت بننے جا رہا ہے۔" تاہم سعودی عرب کی جانب سے ان کے بیان کو سختی سے مسترد کیے جانے کے بعد اسرائیل کے اس دعوے پر سوالات اٹھنے لگے ہیں۔ دوسری جانب، مصر نے بھی اسرائیلی وزیراعظم کے بیان کی شدید مذمت کی ہے اور اسے غیر ذمہ دارانہ قرار دیا ہے۔ مصری وزارت خارجہ کے جاری کردہ بیان میں کہا گیا کہ نیتن یاہو کی یہ تجویز سعودی عرب کی خودمختاری پر براہ راست حملہ ہے اور مصر سعودی عرب کی سلامتی کو اپنی "سرخ لکیر" سمجھتا ہے۔ یہ بیان ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب نیتن یاہو امریکہ کے دورے پر ہیں۔ رپورٹ کے مطابق، یہ کسی بھی غیر ملکی رہنما کا سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دور میں پہلا سرکاری دورہ ہے۔ اس دوران نیتن یاہو نے ٹرمپ کے ساتھ ایک مشترکہ پریس کانفرنس بھی کی، جہاں ٹرمپ نے غزہ پر اسرائیلی قبضے کے حق میں بیان دیا تھا۔
بانی پی ٹی آئی عمران خان کے اعلان پر آج یومِ سیاہ منایا جا رہا ہے، اس حوالے سے مرکزی جلسہ صوابی میں ہو رہا ہے، جبکہ قیادت کی جانب سے دیگر شہروں میں بھی احتجاج اور ریلیاں نکالنے کی ہدایت کی گئی ہے۔ جس پر حکومتی ادارے حرکت میں آ گئے ہیں اور پکڑ دھکڑ کا سلسلہ شروع ہو چکا ہے۔ ملتان میں پاکستان تحریک انصاف کے احتجاج کے دوران شاہ محمود قریشی کی بیٹی مہر بانو قریشی کو گرفتار کر لیا گیا۔ پولیس نے جاوید ہاشمی کے داماد زاہد بہار ہاشمی اور پارٹی ٹکٹ ہولڈر دلیر مہار کو بھی حراست میں لے لیا۔ پولیس کے مطابق پی ٹی آئی رہنماؤں کو پل چھٹہ مخدوم رشید سے اس وقت گرفتار کیا گیا جب وہ احتجاجی ریلی کی قیادت کر رہے تھے۔ اسلام آباد میں تحریک انصاف کے یوم سیاہ کے اعلان کے بعد پولیس نے سیکیورٹی سخت کر دی ہے۔ سری نگر ہائی وے پر تین خصوصی ناکے قائم کیے گئے ہیں، جبکہ داخلی راستوں پر پولیس کی بھاری نفری تعینات ہے۔ پولیس کی جانب سے گاڑیوں کی سخت چیکنگ کی جا رہی ہے اور جڑواں شہروں سے صوابی جانے والے قافلوں کے خلاف کریک ڈاؤن کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ مظفرآباد میں آزادی چوک پر پی ٹی آئی کارکنوں نے احتجاج کیا، تاہم پولیس نے مظاہرین کو مظاہرہ کرنے سے روک دیا اور متعدد کارکنوں کو گرفتار کر لیا۔ گرفتار ہونے والوں میں پی ٹی آئی رہنما خواجہ فاروق اور سابق وزیر محمد حنیف اعوان بھی شامل ہیں۔ ملک بھر میں پی ٹی آئی کے کارکنوں کی گرفتاریوں کا سلسلہ جاری ہے، جبکہ پارٹی رہنماؤں نے ان گرفتاریوں کی مذمت کرتے ہوئے احتجاج مزید تیز کرنے کا اعلان کیا ہے۔ آزاد کشمیر میں باغ انتظامیہ کی طرف سے دفعہ 144 کی پابندی کے باوجود پی ٹی آئی کے کارکنوں نے یوم سیاہ مناتے ہوئے پریس کلب کے سامنے احتجاجی مظاہرہ کیا۔ مظاہرین نے بانی پی ٹی آئی کی رہائی اور الیکشن میں دھاندلی کے خلاف نعرے بازی کی۔ مقررین نے مظاہرے سے خطاب کرتے ہوئے حکومت پاکستان پر تنقید کی اور کہا کہ حکومت نے آئین اور قانون کو پس پشت ڈال کر پی ٹی آئی کو انتقام کا نشانہ بنا رکھا ہے، انہیں فوری رہا کیا جائے۔ مقررین نے آزاد کشمیر میں پی ٹی آئی کے رہنماؤں اور کارکنوں کی گرفتاری کی بھی مذمت کی۔ خیال رہے کہ باغ انتظامیہ کی طرف سے پی ٹی آئی کے احتجاج جلوس اور جلوسوں پر تین دن کی پابندی عائد کر رکھی ہے، اس کے باوجود پی ٹی آئی کے کارکنوں نے اس پابندی کو توڑ کر پریس کلب کے باہر جمع ہو کر اپنا احتجاج ریکارڈ کرایا۔
اسلام آباد: وزیراعظم معاونت پیکج کے تحت دوران سروس انتقال کرنے والے سرکاری ملازم کے ایک فیملی ممبر کو سرکاری ملازمت کی دی جانے والی سہولت واپس لے لی گئی ہے۔ اس سلسلے میں اسٹیبلشمنٹ ڈویژن نے با ضابطہ آفس میمو رنڈم جاری کر دیا، جس میں تمام وزارتوں اور ڈویژنوں کو نئے فیصلے پر عمل درآمد کی ہدایت کی گئی ہے۔ نوٹیفکیشن میں کہا گیا ہے کہ یہ سہولت سپریم کورٹ کے 18 اکتوبر 2024 کے فیصلے کی روشنی میں واپس لی گئی ہے اور فیصلے کا اطلاق سپریم کورٹ کے فیصلے کی تاریخ سے ہوگا۔ دوران سروس انتقال کی صورت میں سول سرونٹس کو وزیراعظم معاونت پیکج کے تحت حاصل دیگر تمام مراعات اور سہولتیں بدستور جاری رہیں گی۔ اسٹیبلشمنٹ ڈویژن نے وضاحت کی ہے کہ قانون نافذ کرنے والی ایجنسیوں کے وہ شہدا جو دہشت گردی کے واقعات میں شہید ہوتے ہیں، ان کے ورثا پر اس فیصلے کا اطلاق نہیں ہوگا، جب کہ اس فیصلے کا اطلاق سپریم کورٹ کے فیصلے سے پہلے کی گئی تقرریوں پر بھی نہیں ہوگا۔
اسلام آباد: الیکشن کمیشن کے ترجمان نے ایک اہم بیان جاری کرتے ہوئے پتن کے نمائندے کے انٹرویو اور 8 فروری 2024ء کی پریس ریلیز کو "سراسر بے بنیاد اور حقائق کے منافی" قرار دیا ہے۔ ترجمان کے مطابق، پتن اور اس کے عہدیداران ملکی اداروں کو بدنام کرنے کے لیے ایک منظم سازش کا حصہ ہیں۔ انہوں نے وضاحت کی کہ ریٹرننگ افسران سے موصول ہونے والے تمام فارم 46، 45 اور 47 کو بغیر کسی ردوبدل کے الیکشن کمیشن کی ویب سائٹ پر شائع کیا گیا، اور یہ فارم آج بھی ویب سائٹ پر موجود ہیں۔ ترجمان نے مزید کہا کہ متاثرہ فریقین نے قانون کے مطابق الیکشن پٹیشنز ٹریبونلز میں دائر کیں، جن کی سماعت جاری ہے اور کچھ کیسز میں فیصلے بھی ہو چکے ہیں۔ ووٹرز کا ٹرن آؤٹ الیکشن کمیشن کی سالانہ اور پوسٹ الیکشن رپورٹ میں شامل ہے، جو قانون کے مطابق شائع کی جا رہی ہیں۔ ترجمان کے مطابق، خواتین اور غیر مسلموں کی مخصوص نشستوں کے معاملے پر تبصرہ مناسب نہیں ہوگا کیونکہ یہ معاملہ عدالت میں زیر سماعت ہے۔ الیکشن کمیشن اس معاملے پر آئین اور قانون کے مطابق فیصلہ کرے گا۔ ترجمان نے مزید کہا کہ اگر کسی کے پاس بے ضابطگیوں کے شواہد موجود ہیں تو انہیں متعلقہ امیدواروں اور متاثرہ فریقین کے حوالے کیا جائے تاکہ وہ ٹربیونلز کے سامنے پیش کر سکیں اور قانونی کارروائی عمل میں لائی جا سکے۔ بیان میں مزید کہا گیا کہ کسی بھی رپورٹ کی کوئی اہمیت نہیں جب تک کہ اس سلسلے میں الیکشن کمیشن کا موقف نہ لیا جائے۔ رپورٹ شائع کرنے سے پہلے الیکشن کمیشن کا مؤقف جاننا ضروری تھا، مگر پتن کی رپورٹ ادارے کے مؤقف کے بغیر شائع کی گئی، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ محض ایک بے بنیاد اور من گھڑت پروپیگنڈے کا حصہ ہے۔ ترجمان نے واضح کیا کہ الیکشن کمیشن کسی بھی دباؤ میں نہیں آئے گا اور اپنے فرائض آئین و قانون کے مطابق سرانجام دیتا رہے گا۔
ملک میں بیروزگاری کی بڑھتی ہوئی شرح ایک سنگین مسئلہ بن چکی ہے، جس نے عوام کو شدید معاشی مشکلات میں مبتلا کر دیا ہے۔ اقتصادی ماہرین کا کہنا ہے کہ بیروزگاری کی بنیادی وجہ کاروباری سرگرمیوں میں کمی اور صنعتوں کی بندش ہے، جو ملکی معیشت پر منفی اثرات ڈال رہی ہے۔ ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق، پاکستان میں بیروزگاری کی شرح 7 فیصد تک پہنچ چکی ہے، جو کہ بھارت اور بنگلا دیش کے مقابلے میں زیادہ ہے۔ پلاننگ کمیشن کی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ ملک میں بیروزگاری کے خاتمے کے لیے سالانہ کم از کم 15 لاکھ نئی ملازمتوں کی ضرورت ہے، تاہم موجودہ معاشی حالات میں اس ہدف کا حصول مشکل دکھائی دیتا ہے۔ ماہرین کے مطابق مہنگی بجلی اور گیس، بھاری ٹیکسوں اور دیگر اقتصادی مسائل کی وجہ سے پیداواری لاگت میں اضافہ ہوا ہے، جس کے باعث درجنوں صنعتیں بند ہوچکی ہیں اور لاکھوں افراد بےروزگار ہوگئے ہیں۔ کراچی سمیت ملک کے مختلف شہروں میں مزدور طبقہ کام نہ ملنے کی شکایات کرتا نظر آتا ہے۔ اقتصادی ماہر اسامہ رضوی کے مطابق بڑی صنعتوں کی پیداوار میں نمایاں کمی آئی ہے، ٹیکسٹائل کی درجنوں ملز بند ہوچکی ہیں اور 45 لاکھ نوجوان روزگار کی تلاش میں سرگرداں ہیں۔ انہوں نے اس امر پر زور دیا کہ ملکی معیشت کی بحالی کے لیے فوری اقدامات کیے جائیں تاکہ کاروباری سرگرمیاں بحال ہوسکیں اور روزگار کے مواقع پیدا ہوں۔ صنعت کار بھی موجودہ صورتحال پر سخت پریشان ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر حکومت نے جلد اقدامات نہ کیے تو صنعتی بحران مزید سنگین ہو سکتا ہے، جس کے نتیجے میں بےروزگاری کی شرح میں مزید اضافہ ہوگا اور معیشت کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچ سکتا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ بیروزگاری کے خاتمے کے لیے حکومت کو سرمایہ کاروں کا اعتماد بحال کرنا ہوگا، توانائی بحران پر قابو پانا ہوگا اور کاروبار دوست پالیسیاں متعارف کرانی ہوں گی تاکہ معیشت کو استحکام مل سکے اور لاکھوں افراد کو روزگار فراہم کیا جا سکے۔
سپریم کورٹ کے ججز جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس منیب اختر، جسٹس اطہر من اللہ، اور جسٹس عائشہ ملک کا چیف جسٹس آف پاکستان کو ایک مشترکہ خط ، جوڈیشل کمیشن آف پاکستان (جے سی پی) کے اجلاس کو مؤخر کرنے کی سفارش، خط میں ججز نے بنچ کی تشکیل، 26ویں آئینی ترمیم کیس، اور ججز کی منتقلی جیسے اہم امور پر سوالات اٹھا دیے۔ خط میں ججز نے بنچ کی تشکیل کے عمل پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس میں شفافیت اور معروضیت کی کمی ہے، جو عدلیہ کی ساکھ پر منفی اثر ڈال سکتی ہے۔ انہوں نے 26ویں آئینی ترمیم کیس کی سماعت کے لیے بنچ کی تشکیل پر بھی سوالات اٹھائے ہیں، اور اس بات پر زور دیا ہے کہ اس معاملے کی حساسیت کے پیش نظر بنچ کی تشکیل میں تمام متعلقہ ججز کی مشاورت ضروری ہے، 26ویں ترمیم پر فل کورٹ بنانے کا مطالبہ بھی کر دیا۔ مزید برآں، ججز نے ججز کی منتقلی کے عمل پر بھی تحفظات کا اظہار کیا ہے، اور اس بات کی نشاندہی کی ہے کہ منتقلی کے فیصلوں میں شفافیت اور معروضیت کو یقینی بنایا جانا چاہیے تاکہ عدلیہ کی آزادی اور خودمختاری برقرار رہے۔ خط میں ججز نے جوڈیشل کمیشن کے اجلاس کو مؤخر کرنے کی سفارش کی ہے تاکہ ان اہم امور پر تفصیلی غور و خوض کیا جا سکے اور عدلیہ کے اندرونی معاملات میں شفافیت اور معروضیت کو یقینی بنایا جا سکے۔ خط میں نشاندہی کی گئی ہے کہ آئینی ترمیم کا کیس ایک آئینی بینچ سن رہا ہے، جو کہ خود اسی ترمیم کے نتیجے میں تشکیل دیا گیا ہے۔ ججز نے اس معاملے پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے مؤقف اختیار کیا ہے کہ مقدمے کو فوری طور پر فل کورٹ کے سامنے مقرر کیا جائے تاکہ عدالتی کارروائی پر عوام کا اعتماد برقرار رہے۔ خط میں لکھا گیا ہے کہ اس سے قبل بھی ججز نے آئینی ترمیم کا کیس فل کورٹ میں مقرر کرنے کا مطالبہ کیا تھا، مگر یہ مطالبہ تسلیم نہیں کیا گیا۔ مزید برآں، آئینی بینچ نے بھی یہ مقدمہ طویل تاخیر کے بعد سماعت کے لیے مقرر کیا، جس سے عدالتی عمل کی ساکھ پر سوالات اٹھے۔ خط میں اس بات پر بھی اعتراض کیا گیا ہے کہ آئینی ترمیم کیس کی آئندہ سماعت سے پہلے ہی نئے ججز کی تعیناتی کے لیے جوڈیشل کمیشن کا اجلاس جلد بازی میں بلا لیا گیا۔ ججز نے نشاندہی کی کہ آئینی ترمیم کا کیس ابھی زیر سماعت ہے، اور اگر ترمیم کے تحت تعینات ہونے والے ججز اس بینچ کا حصہ بن جاتے ہیں تو اس سے عدالتی غیر جانبداری پر سنگین سوالات کھڑے ہوں گے۔ خط میں کہا گیا ہے کہ اگر آئینی بینچ فل کورٹ کی درخواستیں منظور کر بھی لیتا ہے تو پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس فل کورٹ کی تشکیل کون کرے گا؟ کیا اس میں وہی نئے ججز شامل ہوں گے جو آئینی ترمیم کے تحت تعینات کیے جا رہے ہیں؟ اور اگر یہ نئے ججز شامل نہ ہوئے تو پھر یہ اعتراض سامنے آئے گا کہ تشکیل کردہ بینچ درحقیقت فل کورٹ نہیں ہے۔ مزید برآں، اگر موجودہ آئینی بینچ ہی کیس کی سماعت جاری رکھتا ہے تو عوامی اعتماد پہلے ہی اس پر متزلزل ہے۔ ججز نے متنبہ کیا ہے کہ موجودہ حالات میں عوام کو "کورٹ پیکنگ" کا تاثر مل رہا ہے، جو عدلیہ کی ساکھ اور غیر جانبداری کے لیے نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے۔ خط میں تجویز دی گئی ہے کہ فل کورٹ کی تشکیل اور آئینی ترمیم کیس کے فیصلے سے پہلے نئے ججز کی تعیناتی کا عمل روک دیا جائے۔ ججز نے زور دیا کہ عدالت کی غیر جانبداری اور شفافیت کو یقینی بنانے کے لیے ضروری ہے کہ جوڈیشل کمیشن کا اجلاس مؤخر کیا جائے اور آئینی ترمیم کیس کو فل کورٹ کے سامنے رکھا جائے تاکہ عوام کا اعتماد بحال رہے۔ چار ججز نے حالیہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں ججز کے تبادلوں پر اپنے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ آئین کے مطابق ججز کا تبادلہ عارضی طور پر ہو سکتا ہے، مگر یہ مستقل نہیں ہو سکتا۔ ججز کا تبادلہ صرف مقررہ مدت کے لیے ممکن ہے، غیر معینہ مدت کے لیے نہیں۔ خط میں مزید وضاحت دی گئی ہے کہ مدت مقرر نہ ہونے کی صورت میں تبادلے کا حکم کسی بھی وقت واپس لیا جا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ، تبادلہ اسی صورت میں ممکن ہے جب ہائی کورٹ میں ججز کی تعداد پوری ہو، اور تبادلے کے بعد ججز کو آئینی طور پر حلف اٹھانا ضروری ہے۔ یہ حلف صرف اسی ہائی کورٹ کے لیے ہو سکتا ہے جس کے لیے ججز کو تعینات کیا گیا ہو۔ خط میں اس بات کی بھی نشاندہی کی گئی ہے کہ چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے آئینی نکات کو نظر انداز کرتے ہوئے از خود سنیارٹی کا تعین کر لیا، جس کے نتیجے میں لاہور ہائی کورٹ کے سنیارٹی میں پندرہے نمبر پر موجود جج کو اسلام آباد ہائی کورٹ کا سینئر ترین جج بنا دیا گیا 4 ججز نے اپنے خط کے پیراگراف نمبر 6 میں چیف جسٹس یحییٰ آفریدی پر سنگین سوالات اٹھاتے ہوئے کہا کہ "ہم یہ سوال کرتے ہیں کہ عدالت کو ایسی صورت حال میں کیوں ڈالا جا رہا ہے؟ کس کے ایجنڈے اور مفادات کی تکمیل کے لیے عدالت کو اس طرح بے توقیری اور شاید (ہمیں افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے) تمسخر کا سامنا کرنے پر مجبور کیا جا رہا ہے؟ عدالت کو اس قابلِ اجتناب مخمصے میں کیوں ڈالا جا رہا ہے؟ کیا یہ ضروری نہیں کہ نئے ججوں کی شمولیت کے معاملے پر نظرثانی کی جائے اور فی الحال اسے ایک طرف رکھ دیا جائے؟یہ سوالات خود ہی اپنے جوابات دیتے ہیں۔" عدالت کو فل کورٹ کے اجلاس کے وقت اور اس کی تشکیل پر باریک بینی سے غور کرنا ہوگا تاکہ اس کی ساکھ اور وقار برقرار رہے، کیونکہ یہ صرف اعلیٰ ترین عدالتی ادارے کی نہیں بلکہ پورے قانونی نظام کی سالمیت کا معاملہ ہے۔ تاہم، اگر یہ اجلاس منعقد ہوتا ہے، تو اس سے ممکنہ طور پر ایسے کسی بھی موقع کو ختم کر دیا جائے گا۔ فل کورٹ کی جانب سے دیا گیا کوئی بھی فیصلہ (اگر یہ اجلاس نئے ججز کی تقرری کے بعد ہوتا ہے) شاید عوامی اعتماد اور بھروسہ حاصل نہ کر سکے۔ موجودہ صورتحال میں واحد مناسب حل اور راستہ یہ ہے کہ اجلاس کو مؤخر کر دیا جائے۔"
پتن کے سربراہ سرور باری کا کہنا ہے کہ حکومت کو چلتے رہنے دینے کا مطالبہ ایسے ہے جیسے کسی کے گھر چوری ہوئی ہو اور کوئی کہے کہ چوری کو تسلیم کرلیں اور مسروقہ سامان بھی چور خود استعمال کر لے۔ انہوں نے مزید کہا کہ نواز شریف کے حلقے میں 102 فیصد بھی ووٹ پڑا ہے۔ اسی پولنگ اسٹیشن پر صوبائی اسمبلی میں 41 فیصد ووٹ پڑا ہے۔ سرور باری کے مطابق آٹھ فروری کی رات تک دھاندلی کے جو طریقے استعمال کیے گئے وہ اپنے حق میں رزلٹس لینے کے لیے تھے۔ 9 فروری کے بعد 26 ویں آئینی ترمیم اور پیکا ایکٹ جیسے جو اقدامات کیے گئے وہ اس دھاندلی کو چھپانے کے لیے تھے۔پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ جس پارٹی کو ہرایا گیا اس نے مزاحمت کی۔ انہوں نے مزید کہا کہ کاش جب نواز شریف کو نکالا تھا وہ بھی یہی کرتے۔ 1988 سے 8 فروری تک ہارنے والی جماعتوں نے الزام تو لگایا لیکن کسی نے ایسی مزاحمت نہیں کی۔ اظہر صدیق ایڈوکیٹ نے کہا کہ حکومت کہتی ہےہم دھاندلی لے ثبوت نہیں ۔جب ہم عدالتوں کی اکھاڑ پچھاڑ کردیں گے جب ہم ٹربیونل اپنی مرضی کے لگا دیں گے جب ہم الیکشن کمیشن میں ایمپائر اپنی مرضی کے لگا دیں گے تو کون دھاندلی کی تحقیقات کرے گا؟ اظہر صدیق کاشف عباسی کا کہنا تھا کہ پتن نے 8 فروری کے انتخابات میں دھاندلی پر ایک رپورٹ جاری کی ہے،رپورٹ کا نام رکھا گیا "وار آن ووٹر" لکھا گیا کہ ووٹر کا ووٹ چوری کیا گیا اور اسے دلیری سے برقرار بھی رکھا گیا، دھاندلی کے بعد عدلیہ اور میڈیا کو زیر کیا گیا سوشل میڈیا کے خلاف کریک ڈاؤن کیا گیا۔
لاہور: تحریک انصاف کی جانب سے مینار پاکستان پر جلسے کی درخواست کے معاملے کی سماعت لاہور ہائی کورٹ میں ہوئی، جس میں چیف سیکرٹری طلب کیے جانے پر عدالت پہنچ گئے۔ 8 فروری کو مینار پاکستان پر پی ٹی آئی کے جلسے کی اجازت سے متعلق درخواست کی سماعت جسٹس فاروق حیدر نے کی۔ اس موقع پر پی ٹی آئی پنجاب کی چیف آرگنائزر عالیہ حمزہ عدالت کے روبرو پیش ہوئیں جب کہ ڈپٹی کمشنر لاہور نے عدالتی حکم پر جلسے کی اجازت سے متعلق رپورٹ پیش کی۔ ڈپٹی کمشنر کی رپورٹ میں عدالت کو بتایا گیا کہ 8فروری کو شہر میں کرکٹ میچ اور ہارس اینڈ کیٹل شو ہے۔ جلسے کی اجازت سے متعلق میٹنگز ابھی جاری ہیں۔ کل بھی اس حوالے سے میٹنگ بلائی ہے۔ عدالت نے استفسار کیا کہ ان کی جلسے کی درخواست کب موصول ہوئی تھی، جس پر ڈی سی نے بتایا کہ جلسے کے لیے 29 جنوری کو درخواست موصول ہوئی۔ عدالت نے پوچھا کہ کیا آپ کے قانون میں درج ہے کہ آپ کم سے کم کتنی مدت میں درخواست پر فیصلہ کریں گے؟، جس پر ڈپٹی کمشنر نے جواب دیا کہ قانون میں درخواست پر فیصلے کے لیے مدت کا ذکر نہیں ہے۔
اسلام آباد: پاکستان نے غزہ کے عوام کی منتقلی کے حوالے سے بات کو غیرمنصفانہ، تکلیف دہ اور تشویشناک قرار دیا ہے۔ دفتر خارجہ میں ہفتہ وار بریفنگ کے دوران، ترجمان دفتر خارجہ شفقت علی خان نے کہا کہ پاکستان فلسطینیوں کی خواہشات کے مطابق دو ریاستی حل کا حامی ہے، اور جو فلسطینی چاہتے ہیں، ہم اس کی مکمل حمایت کرتے ہیں۔ ترجمان نے غزہ کے عوام کی منتقلی کو غیرمنصفانہ، تکلیف دہ اور تشویشناک قرار دیتے ہوئے عالمی برادری سے مطالبہ کیا کہ وہ غزہ میں اسرائیل کے جنگی جرائم کا محاسبہ کرے۔ ترجمان نے غزہ میں اسرائیل کے مظالم کی بھرپور مذمت کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کی فلسطین کے بارے میں پوزیشن بہت واضح ہے۔ پاکستان فلسطین کے عوام کے ساتھ کھڑا ہے اور فلسطینیوں کی حق خودارادیت کی جدوجہد کی حمایت جاری رکھے گا۔ ترجمان دفتر خارجہ نے مزید بتایا کہ صدر زرداری کی بیجنگ میں چینی صدر شی جی پنگ اور چینی وزیراعظم لی جیانگ سے ملاقات ہوئی۔ اس ملاقات میں پاکستان نے ون چائنا اصول پر اپنی حمایت کی تجدید کی اور چین کے بیلٹ اینڈ روڈ اقدام کو آگے بڑھانے پر اتفاق کیا۔
پشاور: پی ٹی آئی کے خیبر پختونخوا کے صدر اور پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے چیئرمین جنید اکبر نے دعویٰ کیا ہے کہ 26 ویں آئینی ترمیم میں حکومت کو ووٹ دینے کے لیے انہیں 75 کروڑ روپے کی پیشکش کی گئی تھی۔ ایک بیان میں جنید اکبر نے کہا کہ وہ پارٹی میں گدھوں اور گھوڑوں کو ایک ساتھ نہیں رکھیں گے، جو شخص ڈیلیور کرے گا وہ پارٹی کا حصہ ہوگا، اور وہ ہر قربانی دینے کے لیے تیار ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ 26 ویں آئینی ترمیم میں حکومت کو ووٹ دینے کے لیے انہیں 75 کروڑ روپے کی پیشکش کی گئی تھی۔ واضح رہے کہ گزشتہ روز مردان میں ورکرز کنونشن سے خطاب کے دوران جنید اکبر نے کہا تھا کہ وہ سیاسی کارکن ہیں، سیاسی نوکر نہیں، اور وہ غلط کو غلط اور صحیح کو صحیح کہنے کا حق رکھتے ہیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ اگر بانی پی ٹی آئی نے بات نہ مانی تو وہ صدارت چھوڑ دیں گے، کیونکہ وہ پارٹی میں چوروں کو برداشت نہیں کریں گے، سیاست کو کاروبار نہیں بنائیں گے، اور ہر کارکن کی رپورٹ بانی پی ٹی آئی تک پہنچائیں گے۔ خیال رہے کہ حالیہ دنوں میں عمران خان نے وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور کو پارٹی کی صوبائی صدارت سے ہٹاکر جنید اکبر خان کو یہ ذمہ داری سونپی ہے۔
جوڈیشل کمیشن پاکستان نے لاہور ہائیکورٹ کے لیے 9 ایڈیشنل ججز کی تعیناتی کی منظوری دے دی۔ جوڈیشل کمیشن کا اجلاس چیف جسٹس پاکستان یحییٰ آفریدی کی زیرصدارت منعقد ہوا، جس میں لاہور ہائیکورٹ میں 10 ایڈیشنل ججز کی تعیناتی پر غور کیا گیا۔ جوڈیشل کمیشن کو 10 ایڈیشنل ججز کے لیے 49 نامزدگیاں موصول ہوئیں، جن میں 4 ڈسٹرکٹ سیشن ججز اور 45 سینئر وکلاء کے نام شامل تھے۔ اجلاس کے دوران جوڈیشل کمیشن نے خالد اسحاق، چوہدری سلطان محمود اور جواد ظفر کو ایڈیشنل جج تعینات کرنے کی منظوری دی۔ اس کے علاوہ سردار اکبر علی ڈوگر، اویس خالد اور ملک جاوید اقبال وائنس کو بھی ایڈیشنل جج تعینات کرنے کی منظوری دی گئی۔ جوڈیشل کمیشن نے احسن رضا کاظمی، حسن نواز مخدوم اور ملک وقار حیدر اعوان کو بھی ایڈیشنل جج تعینات کرنے کی منظوری دی۔

Back
Top