کبھی کبھی میں سوچتا ہوں کہ ہم بحیثیت قوم کتنی جہالت پہ پہنچ چکے ہیں۔ پنجابی کی کہاوت ہے کہ
گرا گدھے سے اور غصہ کمیار پہ
اب قرآن پاک جلانے میں
Telenor
کا کیا قصور ہے ۔
کہیں پڑھا تھا کہ کسی سے نفرت تمہیں نا انصافی پہ مجبور نہ کر دے۔ اسلام میں قصاص ہے آنکھ کے بدلے آنکھ اور کان کے بدلے کان۔ جس نے قرآن جلایا ہے اس سے نبٹیں۔ پہلے ہم باہر والی کمپنیوں کو کہتے ہیں کہ ہمارے ملک میں سرمایہ کاری کریں اور جب کوئی آ جائے تو اس کابائکاٹ کر دیں۔ مجھے یاد ہے ساری عمر جب بھی دنیا میں کوئی ایسا گستاخانہ واقع پیش آتا تھا جماعت اسلامی کے جہلا پاکستان میں توڑ پھوڑ شروع کر دیتے تھے جس سے نہ صرف سرکاری املاک بلکہ اپنے ہی ملک کے شہریوں کا نقصان ہوتا تھا۔
جب سے نئی حکومت آئی ہے ہالینڈ میں ایسی گستاخی کرنے کی کوشش کی گئی جسے ہماری گورنمنٹ نے برادر اسلامی ممالک کے ساتھ مل کر خوش اسلوبی سے حل کر لیا۔ بعد میں ہم نے یو این کے اجلاس میں اپنے وزیراعظم کو مسلمانوں کے احساسات کی دلیل کے ساتھ بہترین ترجمانی کرتے دیکھا۔
اب بھی گورنمنٹ پہ پریشر ڈالنا چاہئے نہ کہ قصور کسی اور کا اور سزا کسی اور کو دیں۔
کئی احادیث ہیں جو اخلاق بہتر بنانے پر زور دیتی ہیں ۔ اسلام کے پھیلنے میں بہت عمل ہمارے آباؤ اجداد کے اعلی اخلاق کا بھی ہے۔ ہمیں مغرب کو دلیل کیساتھ اپنا موقف سمجھانا چاہیے نہ کہ جذبات سے مغلوب ہو کر بائیکاٹ اور توڑ پھوڑ شروع کر دیں۔
ہم آج اخلاقی، ذہنی پستی کے اس مقام پر پہنچ چکے ہیں کہ بجائے اپنے کردار اور اعمال کو اسلام کے مطابق بنائیں اس طرح کے مواقع پہ جذباتی ہو کر مرنے مارنے پر تل جاتے ہیں۔ انگلی کٹا کر شہیدوں میں نام رکھوانا چاہتے ہیں ۔ میرے ہم وطنوں ہمیں اسلام پہ مکمل اور روح کے مطابق عمل کرنا ہو گا تب ہی اللہ تعالی کی تائید اور نصرت ہمارے ساتھ ہو گی۔ اگر ہم اسی طرح ڈرامے بازیاں کرتے رہے تو اسی طرح زلیل ہوتے رہیں گے ۔
اللہ تعالی ہمیں ہدایت دے اور ان جاہل ملائوں سے نجات دے ۔