Geek
Chief Minister (5k+ posts)
[FONT="]
اسلام آباد ( رؤف کلاسرا) عمران خان آج اسلام آباد پریس کلب میں پاکستان کے تین صوبوں سے ٹاپ کے تقریبا تیس سیاستدان جن میں موجودہ اور سابق ایم این ایز، وزراء ،
بیوروکریٹس اور ٹیکنوکریٹس شامل ہیں کے ایک بڑے گروپ کی تحریک انصاف میں شمولیت کے لیے تین بجے ایک پریس کانفرنس سے خطاب کریں گے اور اس نئے گروپ کی آمد کو عمران کی پارٹی کے لیے ایک بڑا نیک شگون سمجھا جارہا ہے کیونکہ ان لیڈروں کے آنے سے اب نواز لیگ کو سینٹرل پنجاب میں ٹف ٹائم دینے کیبعد، پیپلز پارٹی کو سرائیکی علاقوں میں سیاسی تپش محسوس ہونا شروع ہو جائے گی۔[/FONT][FONT="]تاہم سب سے بڑی خبر یہ ہے کہ اس نئے گروپ میں چار ایسے بڑے سیاستدان بھی عمران خان کو جوائن کر رہے ہیں جو اس وقت قومی اسمبلی اور سینٹ کے ممبر ہیں اور یوں تحریک انصاف انتخابات سے پہلے یہ پارلیمنٹ میں پہنچ گئی ہے۔ سرائیکی علاقے کے بڑے سیاستدانوں کے علاوہ بلوچستان اور خبیر پختوں خواہ کے سیاستدانوں کا ایک گروپ بھی تحریک انصاف میں شامل ہو رہا ہے جن کی قیادت جہانگیر خان ترین کر رہے ہیں۔ اب تک یہ گروپ اپنی علحیدہ پارٹی بنا کر عمران خان کے ساتھ سیاسی انتخاب کے لیے مزاکرات کر رہا تھا ۔ تاہم عمران خان کا اصرار تھا کہ وہ اپنی علیحدہ پارٹی بنانے کی بجائے تحریک انصاف کو جوائن کریں ۔[/FONT][FONT="]عمران خان کے حامیوں کا یہ کہنا تھا کہ انہیں اس نئے گروپ سے انتخابی اتحاد کرکے کوئی سیاسی فائدہ نہیں ہو سکتا تھا کیونکہ اس گروپ کے ارکان کا اپنے اپنے حلقوں میں تو ووٹ بنک ہے لیکن اپنے حلقے سے باہر ان کا ایک بھی ووٹ نہیں ہے جو کہ عمران خان کی پارٹی کے امیدواروں کو مل سکے۔ عمران یہ بھی کہہ رہے تھے کہ ان کی پارٹی کا ووٹ بنک اب ہر حلقے میں ہے لہذا وہ اس کا فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ یہ بات اس نئے گروپ کو سمجھ آگئی لہذا اب اس گروپ نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ عمران خان کو جوائن کر لیں گے کہ بہتر ہو گا کہ تحریک انصاف کے ووٹ بنک سے اپنے جیتنے کے امکانات بہتر ہوسکتے ہیں اور تحریک انصاف کی حکومت بننے کے امکانات مسلم لیگ نواز اور پیپلز پارٹی کی ناکامیوں کے بعد بہتر ہو گئے ہیں۔[/FONT][FONT="]ذرائع کا کہنا ہے کہ عمران خان کی تحریک انصاف کو یہ گروپ غیر مشروط پر جوائن کر رہا ہے اور پارٹی میں انہیں عہدے دینے کا فیصلہ بعد میں کیاجائے گا۔ تاہم کہا جا رہا ہے کہ یہ گروپ اس بات کی توقع کر رہا ہے کہ عمران نہ صرف پارٹی کی تنظیم نو میں انہیں کچھ اہم پارٹی عہدے دیں گے بلکہ انتخابات کے موقع پر انہیں اپنے حلقوں میں پارٹی ٹکٹ بھی دیے جائیں گے۔ جو ممتاز سیاستدان عمران خان کی تحریک میں شامل ہو رہے ہیں ان میں موجودہ ایم این ایز میں جہانگیر ترین، جمال لغاری، اویس لغاری شامل ہیں، جب کہ بلوچستان سے سینٹر محبت خان مری بھی شامل ہو رہے ہیں۔ جب کہ سابق وزراء میں اسحاق خان خاکوانی، ڈاکٹر جی جی جمال ( پختون خواہ)، غلام سرور خان، غلام سرور خان چیمہ اور ملتان سے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کے خلاف انتخاب لڑنے والے سابق وفاقی وزیر سکند بوسن بھی شامل ہیں۔ ان کے علاوہ سابق ایم این ایز میں ڈاکٹر جاوید حسن شامل ہیں۔[/FONT][FONT="]ٹیکنو کریٹس میں ورلڈ بنک کے پاکستان کے کنٹری چیف عابد حسن کے علاوہ دو سابق فیڈرل سیکرٹری وقار احمد، اور مرزا حامد حسن کی شمولیت کا بھی امکان ہے۔ نواز لیگ کی سابق سینیٹر سعدیہ عباسی جو اس وقت پاکستان سے باہر ہیں کا بھی عمران کی پارٹی کو جوائن کرنے کا کہا جارہا ہے۔ سعدیہ عباسی نواز شریف کی طیارہ ہائی جیکنگ کیس میں وکیل بھی رہی ہیں اور نواز لیگ کے مری سے ایم این اے شاہد خاقان عباسی کی بہن ہیں۔ تاہم وہ نواز شریف سے اس وقت شدید ناراض ہو گئی تھیں جب انہیں سینٹ کے پچھلے انتخابات میں اگلے چھ سالوں کے لیے پارٹی ٹکٹ نہیں دیا گیا تھا۔[/FONT][FONT="]ذرائع کا کہنا ہے کہ سعدیہ عباسی سے پارٹی کی ناراضگی کی وجہ ایک ایسا متنازعہ پریس ریلیز تھا جو صدیق الفاروق نے جاری کیا تھا جو جنرل مشرف کی اس وقت کی حکومت کے خلاف تھا۔ سعدیہ عباسی کو اس پریس ریلیز کاپتہ ٹی وی پر چلنے والی خبر سے ہوا تھا۔ سعدیہ عباسی نے پارٹی قیادت سے بات کرنے کی بجائے ٹی وی چینل کو فون کر کے بتا دیا تھا کہ انہوں نے یہ پریس ریلیز جاری نہیں کیا اور انہوں نے اس پریس نوٹ سے لاتعلقی کا اعلان کر دیا۔ اس سے پارٹی کو شدید سبکی کا سامنہ کرنا پڑا تھا اور اس کے بعد فیصلہ کیا گیا تھا کہ انہیں چند ماہ بعد ہونیو الے سینٹ انتخابات میں دوبارہ سینٹر کا ٹکٹ نہیں دیا جائے گا۔ اس کے بعد سعدیہ عباسی کی راہیں پارٹی سے جدا ہو گئی تھیں۔ سعدیہ عباسی یہ محسوس کرتی تھیں کہ انہوں نے کراچی جا کر اس وقت نواز شریف کے وکیل کا رول ادا کیا تھا جب کوئی جنرل مشرف کے خوف سے قریب جانے کو تیار نہیں تھا۔ سعدیہ یہ بھی محسوس کرتی تھیں کہ اگر ان وقتوں میں وہ ایک طاقت ور فوجی ڈکٹیٹر کے خلاف نواز شریف کی وکیل بن سکتی تھیں تو پھر انہیں جنرل مشرف کے دو ہزار سات میں ایک پریس نوٹ جاری کرنے میں کوئی حرج نہیں تھی لیکن پارٹی کو چاہیے تھا کہ وہ پہلے ان سے پوچھ لیتی اور پھر میڈیاکو جاری کیا جاتا۔[/FONT][FONT="]سعدیہ کے قریبی ذرائع کا کہنا ہے کہ سعدیہ محسوس کرتی تھیں کہ نواز شریف برے وقت کے دوستوں کو اقتدار میں آکر جلدی بھول جانے کے عادی ہیں لہذا ان کا کراچی میں جا کر لڑنا ان کے لیے برسوں کے بعد کوئی معنی نہیں رکھتا تھا۔ تاہم یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ نواز شریف کے ساتھ ساتھ اس وقت کے چیئرمین پی آئی اے شاہد خاقان عباسی جو اس وقت طیارہ سازش کیس میں جیل میں تھے اور سعدیہ عباسی اپنے بھائی کے لیے بھی یہ مقدمہ لڑ رہی تھیں۔ اس لیے کہا جاتا ہے کہ سعدیہ عباسی نے اس وقت بہادری سے نواز شریف اور اپنے بھائی کا مقدمہ لڑا جب جنرل مشرف سے پورا ملک خوفزدہ تھا اور سب سیاستدان جنرل مشرف کو جوائن کر رہے تھے اور پاکستانی میڈیا بھی اس آمر کے ساتھ کھڑا تھا۔[/FONT][FONT="]سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ جہانگیر ترین، لغاری برادران اور اسحاق خاکوانی جیسے اچھی شہرت کے سیاستدانوں کے جوائن کرنے سے عمران خان کی پارٹی کو سرائیکی علاقوں میں خاصی سیاسی قوت ملے گی کیونکہ جہانگیر ترین کے علاوہ لغاری برادرز، اسحاق خاکوانی اور سکندر بوس اپنی سیٹیں جیتنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ ان کے شامل ہونے سے پیپلزپارٹی کے روایتی سیاسی ووٹ بنک میں بڑی ڈراڑیں پڑ سکتی ہیں۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ ان لیڈروں پر کوئی کرپشن الزامات نہیں ہیں اور انہیں سیاسی اور عوامی حلقوں میں عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ مبصرین یہ بھی کہتے ہیں کہ اسحاق خان خاکوانی کی شکل میں عمران کو بہترین سیاسی ایڈوائس مل سکتی ہے۔[/FONT][FONT="]اسحاق خاکوانی کی ایک خوبی ہے کہ وہ کوئی بھی لیڈر ہو اس کو منہ پر کھری اور صاف بات کر دیتے ہیں اور اس وجہ سے وہ پاکستان مسلم لیگ (ق) میں خاصے غیر مقبول بھی تھے۔ وہ واحد وزیر تھے جنہوں نے جنرل مشرف کو مشورہ دیا تھا کہ وہ وردی اتار کر مارچ دوہزار سات میں انتخابات کرا دیں تو ان کے لیے بہتر ہوگا۔ اس پر جنرل مشرف ناراض ہو گئے تھے ۔ اسحاق خاکوانی نے اعلان کر دیا تھا کہ اگر جنرل مشرف نے وردی کے ساتھ الیکشن لڑا تو وہ انہیں دوبارہ صدر بننے کے لیے انہیں ووٹ نہیں دیں گے۔ اسحاق خاکوانی نے اس وقت کابینہ سے استعفا دے دیا تھا جب اس وقت کے وزیراعظم شوکت عزیز سے ان کی گورنس کے معاملات پر کابینہ کے اجلاسوں میں ان بن ہو گئی تھی ۔[/FONT][FONT="]اسحاق خاکوانی نے اس وقت کے وزیرریلوے جنرل جاوید اشرف قاضی کے خلاف بھی چین سے ناقص انجن منگوانے اور اس میں ہونے والی کرپشن پر وزیر ہونے کے باوجود کھل کر بات کی تھی۔ اس پر انہیں جنرل مشرف نے بھی بلایا تھا کہ وہ کابینہ کے وزیر ہونے کی حیثت سے جنرل قاضی کے خلاف اس طرح کی گفتگو نہ کیا کریں۔ تاہم خاکوانی نے وزارت نے کمپرومائز کرنے کی بجائے استعفا دے دیا تھا۔ بعد میں جنرل مشرف نے اسحاق خاکوانی کو برسوں بعد دوبئی بلوایا اور تسلیم کیا کہ وہ انہیں اچھے سیاسی مشورے دیتے تھے جو انہیں اس وقت برے لگتے تھے۔[/FONT][FONT="]اس طرح جنرل مشرف کے جانے کے بعد چوہدری برادران نے بھی اسحاق خاکوانی کو اپنے ساتھ ملا لیا اور ان کی سیاسی رائے اور اپروچ سے فائدہ اٹھاتے رہتے کیونکہ ان کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ کھل کر بات کرتے ہیں اور کوئی لگی لپٹی بات نہیں کرتے چاہے اگلے کو اچھی لگے یا بری۔ تاہم خاکوانی اس وقت ان کے ساتھ سیاسی راستے چوہدریوں سے جد ا ہو گئے جب انہوں نے صدر زرداری کے ساتھ اسلام آباد میں پاور شئر کر لی۔ خاکوانی کے مسلم لیگ (ق) چھوڑنے کی وجہ یہ تھی کہ وہ اس سے پہلے مرتضے بھٹو کی پارٹی میں شامل ہوئے تھے اور صدر زرداری پر کٹنے والی ایف آئی آر میں وہ ایک اہم گواہ تھے۔[/FONT][FONT="]مبصرین کہتے ہیں کہ اب دیکھنا یہ ہے کہ کس حد تک عمران خان ، اسحاق خاکوانی جیسے لیڈر کی باتوں کو برداشت کر سکتے ہیں جنہیں ان کے دوست پیار سے Maverick کہتے ہیں۔ اس طرح پارلیمنٹ میں بیٹھے تین ایم این ایز اور ایک سینٹر کے تحریک انصاف کو جوائن کرنے سے اب عمران خان اس پوزیشن میں آ جائیں گے کہ وہ ایوان کے اندر بھی حکومت پر دباؤ بڑھا سکیں اور سب سے بڑھ کر وہ نواز لیگ کے پارلیمنٹ میں ہونے والے حملوں کا موثر جواب دے سکیں گے اور دوسرے ایم این ایز اور سینٹرز کو بھی تحریک انصاف کو جوائن کرنے کی ترغیب مل سکتی ہے۔
http://www.topstoryonline.com/seraiki-heavy-weights-joining-tehreek-i-insaf[/FONT]

اسلام آباد ( رؤف کلاسرا) عمران خان آج اسلام آباد پریس کلب میں پاکستان کے تین صوبوں سے ٹاپ کے تقریبا تیس سیاستدان جن میں موجودہ اور سابق ایم این ایز، وزراء ،
بیوروکریٹس اور ٹیکنوکریٹس شامل ہیں کے ایک بڑے گروپ کی تحریک انصاف میں شمولیت کے لیے تین بجے ایک پریس کانفرنس سے خطاب کریں گے اور اس نئے گروپ کی آمد کو عمران کی پارٹی کے لیے ایک بڑا نیک شگون سمجھا جارہا ہے کیونکہ ان لیڈروں کے آنے سے اب نواز لیگ کو سینٹرل پنجاب میں ٹف ٹائم دینے کیبعد، پیپلز پارٹی کو سرائیکی علاقوں میں سیاسی تپش محسوس ہونا شروع ہو جائے گی۔[/FONT][FONT="]تاہم سب سے بڑی خبر یہ ہے کہ اس نئے گروپ میں چار ایسے بڑے سیاستدان بھی عمران خان کو جوائن کر رہے ہیں جو اس وقت قومی اسمبلی اور سینٹ کے ممبر ہیں اور یوں تحریک انصاف انتخابات سے پہلے یہ پارلیمنٹ میں پہنچ گئی ہے۔ سرائیکی علاقے کے بڑے سیاستدانوں کے علاوہ بلوچستان اور خبیر پختوں خواہ کے سیاستدانوں کا ایک گروپ بھی تحریک انصاف میں شامل ہو رہا ہے جن کی قیادت جہانگیر خان ترین کر رہے ہیں۔ اب تک یہ گروپ اپنی علحیدہ پارٹی بنا کر عمران خان کے ساتھ سیاسی انتخاب کے لیے مزاکرات کر رہا تھا ۔ تاہم عمران خان کا اصرار تھا کہ وہ اپنی علیحدہ پارٹی بنانے کی بجائے تحریک انصاف کو جوائن کریں ۔[/FONT][FONT="]عمران خان کے حامیوں کا یہ کہنا تھا کہ انہیں اس نئے گروپ سے انتخابی اتحاد کرکے کوئی سیاسی فائدہ نہیں ہو سکتا تھا کیونکہ اس گروپ کے ارکان کا اپنے اپنے حلقوں میں تو ووٹ بنک ہے لیکن اپنے حلقے سے باہر ان کا ایک بھی ووٹ نہیں ہے جو کہ عمران خان کی پارٹی کے امیدواروں کو مل سکے۔ عمران یہ بھی کہہ رہے تھے کہ ان کی پارٹی کا ووٹ بنک اب ہر حلقے میں ہے لہذا وہ اس کا فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ یہ بات اس نئے گروپ کو سمجھ آگئی لہذا اب اس گروپ نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ عمران خان کو جوائن کر لیں گے کہ بہتر ہو گا کہ تحریک انصاف کے ووٹ بنک سے اپنے جیتنے کے امکانات بہتر ہوسکتے ہیں اور تحریک انصاف کی حکومت بننے کے امکانات مسلم لیگ نواز اور پیپلز پارٹی کی ناکامیوں کے بعد بہتر ہو گئے ہیں۔[/FONT][FONT="]ذرائع کا کہنا ہے کہ عمران خان کی تحریک انصاف کو یہ گروپ غیر مشروط پر جوائن کر رہا ہے اور پارٹی میں انہیں عہدے دینے کا فیصلہ بعد میں کیاجائے گا۔ تاہم کہا جا رہا ہے کہ یہ گروپ اس بات کی توقع کر رہا ہے کہ عمران نہ صرف پارٹی کی تنظیم نو میں انہیں کچھ اہم پارٹی عہدے دیں گے بلکہ انتخابات کے موقع پر انہیں اپنے حلقوں میں پارٹی ٹکٹ بھی دیے جائیں گے۔ جو ممتاز سیاستدان عمران خان کی تحریک میں شامل ہو رہے ہیں ان میں موجودہ ایم این ایز میں جہانگیر ترین، جمال لغاری، اویس لغاری شامل ہیں، جب کہ بلوچستان سے سینٹر محبت خان مری بھی شامل ہو رہے ہیں۔ جب کہ سابق وزراء میں اسحاق خان خاکوانی، ڈاکٹر جی جی جمال ( پختون خواہ)، غلام سرور خان، غلام سرور خان چیمہ اور ملتان سے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کے خلاف انتخاب لڑنے والے سابق وفاقی وزیر سکند بوسن بھی شامل ہیں۔ ان کے علاوہ سابق ایم این ایز میں ڈاکٹر جاوید حسن شامل ہیں۔[/FONT][FONT="]ٹیکنو کریٹس میں ورلڈ بنک کے پاکستان کے کنٹری چیف عابد حسن کے علاوہ دو سابق فیڈرل سیکرٹری وقار احمد، اور مرزا حامد حسن کی شمولیت کا بھی امکان ہے۔ نواز لیگ کی سابق سینیٹر سعدیہ عباسی جو اس وقت پاکستان سے باہر ہیں کا بھی عمران کی پارٹی کو جوائن کرنے کا کہا جارہا ہے۔ سعدیہ عباسی نواز شریف کی طیارہ ہائی جیکنگ کیس میں وکیل بھی رہی ہیں اور نواز لیگ کے مری سے ایم این اے شاہد خاقان عباسی کی بہن ہیں۔ تاہم وہ نواز شریف سے اس وقت شدید ناراض ہو گئی تھیں جب انہیں سینٹ کے پچھلے انتخابات میں اگلے چھ سالوں کے لیے پارٹی ٹکٹ نہیں دیا گیا تھا۔[/FONT][FONT="]ذرائع کا کہنا ہے کہ سعدیہ عباسی سے پارٹی کی ناراضگی کی وجہ ایک ایسا متنازعہ پریس ریلیز تھا جو صدیق الفاروق نے جاری کیا تھا جو جنرل مشرف کی اس وقت کی حکومت کے خلاف تھا۔ سعدیہ عباسی کو اس پریس ریلیز کاپتہ ٹی وی پر چلنے والی خبر سے ہوا تھا۔ سعدیہ عباسی نے پارٹی قیادت سے بات کرنے کی بجائے ٹی وی چینل کو فون کر کے بتا دیا تھا کہ انہوں نے یہ پریس ریلیز جاری نہیں کیا اور انہوں نے اس پریس نوٹ سے لاتعلقی کا اعلان کر دیا۔ اس سے پارٹی کو شدید سبکی کا سامنہ کرنا پڑا تھا اور اس کے بعد فیصلہ کیا گیا تھا کہ انہیں چند ماہ بعد ہونیو الے سینٹ انتخابات میں دوبارہ سینٹر کا ٹکٹ نہیں دیا جائے گا۔ اس کے بعد سعدیہ عباسی کی راہیں پارٹی سے جدا ہو گئی تھیں۔ سعدیہ عباسی یہ محسوس کرتی تھیں کہ انہوں نے کراچی جا کر اس وقت نواز شریف کے وکیل کا رول ادا کیا تھا جب کوئی جنرل مشرف کے خوف سے قریب جانے کو تیار نہیں تھا۔ سعدیہ یہ بھی محسوس کرتی تھیں کہ اگر ان وقتوں میں وہ ایک طاقت ور فوجی ڈکٹیٹر کے خلاف نواز شریف کی وکیل بن سکتی تھیں تو پھر انہیں جنرل مشرف کے دو ہزار سات میں ایک پریس نوٹ جاری کرنے میں کوئی حرج نہیں تھی لیکن پارٹی کو چاہیے تھا کہ وہ پہلے ان سے پوچھ لیتی اور پھر میڈیاکو جاری کیا جاتا۔[/FONT][FONT="]سعدیہ کے قریبی ذرائع کا کہنا ہے کہ سعدیہ محسوس کرتی تھیں کہ نواز شریف برے وقت کے دوستوں کو اقتدار میں آکر جلدی بھول جانے کے عادی ہیں لہذا ان کا کراچی میں جا کر لڑنا ان کے لیے برسوں کے بعد کوئی معنی نہیں رکھتا تھا۔ تاہم یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ نواز شریف کے ساتھ ساتھ اس وقت کے چیئرمین پی آئی اے شاہد خاقان عباسی جو اس وقت طیارہ سازش کیس میں جیل میں تھے اور سعدیہ عباسی اپنے بھائی کے لیے بھی یہ مقدمہ لڑ رہی تھیں۔ اس لیے کہا جاتا ہے کہ سعدیہ عباسی نے اس وقت بہادری سے نواز شریف اور اپنے بھائی کا مقدمہ لڑا جب جنرل مشرف سے پورا ملک خوفزدہ تھا اور سب سیاستدان جنرل مشرف کو جوائن کر رہے تھے اور پاکستانی میڈیا بھی اس آمر کے ساتھ کھڑا تھا۔[/FONT][FONT="]سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ جہانگیر ترین، لغاری برادران اور اسحاق خاکوانی جیسے اچھی شہرت کے سیاستدانوں کے جوائن کرنے سے عمران خان کی پارٹی کو سرائیکی علاقوں میں خاصی سیاسی قوت ملے گی کیونکہ جہانگیر ترین کے علاوہ لغاری برادرز، اسحاق خاکوانی اور سکندر بوس اپنی سیٹیں جیتنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ ان کے شامل ہونے سے پیپلزپارٹی کے روایتی سیاسی ووٹ بنک میں بڑی ڈراڑیں پڑ سکتی ہیں۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ ان لیڈروں پر کوئی کرپشن الزامات نہیں ہیں اور انہیں سیاسی اور عوامی حلقوں میں عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ مبصرین یہ بھی کہتے ہیں کہ اسحاق خان خاکوانی کی شکل میں عمران کو بہترین سیاسی ایڈوائس مل سکتی ہے۔[/FONT][FONT="]اسحاق خاکوانی کی ایک خوبی ہے کہ وہ کوئی بھی لیڈر ہو اس کو منہ پر کھری اور صاف بات کر دیتے ہیں اور اس وجہ سے وہ پاکستان مسلم لیگ (ق) میں خاصے غیر مقبول بھی تھے۔ وہ واحد وزیر تھے جنہوں نے جنرل مشرف کو مشورہ دیا تھا کہ وہ وردی اتار کر مارچ دوہزار سات میں انتخابات کرا دیں تو ان کے لیے بہتر ہوگا۔ اس پر جنرل مشرف ناراض ہو گئے تھے ۔ اسحاق خاکوانی نے اعلان کر دیا تھا کہ اگر جنرل مشرف نے وردی کے ساتھ الیکشن لڑا تو وہ انہیں دوبارہ صدر بننے کے لیے انہیں ووٹ نہیں دیں گے۔ اسحاق خاکوانی نے اس وقت کابینہ سے استعفا دے دیا تھا جب اس وقت کے وزیراعظم شوکت عزیز سے ان کی گورنس کے معاملات پر کابینہ کے اجلاسوں میں ان بن ہو گئی تھی ۔[/FONT][FONT="]اسحاق خاکوانی نے اس وقت کے وزیرریلوے جنرل جاوید اشرف قاضی کے خلاف بھی چین سے ناقص انجن منگوانے اور اس میں ہونے والی کرپشن پر وزیر ہونے کے باوجود کھل کر بات کی تھی۔ اس پر انہیں جنرل مشرف نے بھی بلایا تھا کہ وہ کابینہ کے وزیر ہونے کی حیثت سے جنرل قاضی کے خلاف اس طرح کی گفتگو نہ کیا کریں۔ تاہم خاکوانی نے وزارت نے کمپرومائز کرنے کی بجائے استعفا دے دیا تھا۔ بعد میں جنرل مشرف نے اسحاق خاکوانی کو برسوں بعد دوبئی بلوایا اور تسلیم کیا کہ وہ انہیں اچھے سیاسی مشورے دیتے تھے جو انہیں اس وقت برے لگتے تھے۔[/FONT][FONT="]اس طرح جنرل مشرف کے جانے کے بعد چوہدری برادران نے بھی اسحاق خاکوانی کو اپنے ساتھ ملا لیا اور ان کی سیاسی رائے اور اپروچ سے فائدہ اٹھاتے رہتے کیونکہ ان کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ کھل کر بات کرتے ہیں اور کوئی لگی لپٹی بات نہیں کرتے چاہے اگلے کو اچھی لگے یا بری۔ تاہم خاکوانی اس وقت ان کے ساتھ سیاسی راستے چوہدریوں سے جد ا ہو گئے جب انہوں نے صدر زرداری کے ساتھ اسلام آباد میں پاور شئر کر لی۔ خاکوانی کے مسلم لیگ (ق) چھوڑنے کی وجہ یہ تھی کہ وہ اس سے پہلے مرتضے بھٹو کی پارٹی میں شامل ہوئے تھے اور صدر زرداری پر کٹنے والی ایف آئی آر میں وہ ایک اہم گواہ تھے۔[/FONT][FONT="]مبصرین کہتے ہیں کہ اب دیکھنا یہ ہے کہ کس حد تک عمران خان ، اسحاق خاکوانی جیسے لیڈر کی باتوں کو برداشت کر سکتے ہیں جنہیں ان کے دوست پیار سے Maverick کہتے ہیں۔ اس طرح پارلیمنٹ میں بیٹھے تین ایم این ایز اور ایک سینٹر کے تحریک انصاف کو جوائن کرنے سے اب عمران خان اس پوزیشن میں آ جائیں گے کہ وہ ایوان کے اندر بھی حکومت پر دباؤ بڑھا سکیں اور سب سے بڑھ کر وہ نواز لیگ کے پارلیمنٹ میں ہونے والے حملوں کا موثر جواب دے سکیں گے اور دوسرے ایم این ایز اور سینٹرز کو بھی تحریک انصاف کو جوائن کرنے کی ترغیب مل سکتی ہے۔
http://www.topstoryonline.com/seraiki-heavy-weights-joining-tehreek-i-insaf[/FONT]