Now we will have two thieves (dakoos) Zardari and Nawaz.They will togther loot the national wealth and
launder it to their overseas accounts as they have been doing for decades.
afsoos dar afsoos k hum pakistanio k gunnah moaf nhi hoiye or hum pr aik naek or sucha insan imran khan hukmaran nafz nahi hou sska hum boht bad naseeb hain!!!
Punjabiyon ne Pakistan ka baiira gharraq kar diyya, ab agle 5 saal phir inhi chor luteron nawaz sharif ki ghulami karo aur mehengai, ghurbat aur zulm, na-insaafi ka rona rotay raho, bay-ghairto
punjabiyoon doob ke marr jaoo jase dhoke baaz tum loog ho wase leader bhi cuna haiee i am ashmed to be called punjabi gathya koom hai sale maro abhi apne nawaz chor ke under
لاہور ( مانیٹرنگ ڈیسک) الیکشن کے غیر حتمی نتائج کے غیر سرکاری اعلان کے بعد مسلم لیگ ن نے غیر سرکاری طور پر میاں نواز شریف کو وزیراعظم بنانے کا اعلان کردیا ہے۔ یہ اعلان مسلم لیگ ن کے قائد میاں نواز شریف کی انتخابی نتائج کے پہلے مرحلے کے بعد پہلے خطاب کے موقع پر ان کے بھائی میاں شہباز شریف نے کیا ہے ۔
پاکستان میں گیارہ مئی کے عام انتخابات میں پولنگ کا عمل ختم ہونے کے بعد ووٹوں کی گنتی جاری ہے اور ابتدائی رجحانات کے مطابق مسلم لیگ نون کو قومی اسمبلی کی نشستوں پر برتری حاصل ہے۔
ابتدائی رجحانات کے مطابق دوسری پوزیشن کے لیے عمران خان کی تحریکِ انصاف اور پاکستان پیپلز پارٹی کے درمیان مقابلہ ہے۔
تاہم مسلم لیگ نون کے سربراہ میاں نواز شریف نے لاہور میں پارٹی کارکنوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ابھی انتخابی نتائج آ رہے ہیں ’لیکن اب تقریباً تصدیق ہو چکی ہے کہ مسلم لیگ نون اس انتخاب میں سب سے بڑی جماعت ابھر کر سامنے آئی ہے دعا کریں کہ حتمی نتائج میں نون لیگ کی مطلق اکثریت ہو تاکہ مسلم لیگ بیساکھیوں کے بغیر حکومت بنا سکے۔‘
صوبہ خیبرپختونخوا کے دارالحکومت پشاور میں قومی اسمبلی کے حلقہ این اے ون پشاور سے صوبے کی سابق حکمراں جماعت عوامی نیشنل پارٹی کے رہنما غلام احمد بلور نے اپنی شکست تسلیم کر لی ہے، ان کے مقابلے میں پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان تھے۔غیر سرکاری اور غیر حتمی نتائج کے مطابق عمران خان کو اس حلقے سے واضح برتری حاصل تھی۔
غیر حتمی نتائج کے مطابق قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 51 راولپنڈی دو سے سابق وزیراعظم اور پیپلز پارٹی کے رہنما راجہ پرویز اشرف کو بھاری ووٹوں سے شکست کا سامنا ہے۔
پنجاب میں پیپلز پارٹی کے صوبائی صدر منظور وٹو کو اوکاڑہ کے حلقہ این اے 146 اور 147 سے شکست کا سامنا ہے۔
سنیچر کو عام انتخابات میں بھرپور ٹرن آؤٹ رہا اور نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد نے اپنا حق رائے دہی استعمال کیا۔
شدت پسندوں کی جانب سے پُرتشدد کارروائیوں کی دھمکیوں کے باوجود امن و امان کی صورتِ حال مجموعی طور پر قابو میں رہی اگرچہ کراچی میں بم دھماکے میں دس افراد ہلاک ہوئے جبکہ کوئٹہ اور پشاور میں اسی طرح کے دھماکوں میں کئی افراد زخمی ہوئے۔
ان انتخابات میں نوجوانوں کی بھر پور شرکت اور ووٹ ڈالنے کی شرح میں اضافے کے نتیجے میں الیکشن کمیشن نے پولنگ کے وقت میں ایک گھنٹے کا اضافہ کر دیا تھا جبکہ کراچی میں قومی اسمبلی کے سات حلقوں میں پولنگ کے وقت میں تین گھنٹے کا اضافہ کیا گیا۔
بلوچستان میں کچھ اضلاع میں پولنگ ہوئی لیکن کچھ علاقوں میں پولنگ نہیں ہو سکی۔ صوبے میں جمہوری وطن پارٹی نے انتخابات کے بائیکاٹ کا اعلان بھی کیا۔
بلوچستان کے علاوہ کراچی میں پولنگ کے دوران دھاندلی کی شکایات سامنے آئیں اور جماعتِ اسلامی کے امیر سید منور حسن نے ایم کیو ایم پر اسلحے کے زور پر دھاندلی کا الزام عائد کرتے ہوئے کراچی میں الیکشن کا بائیکاٹ کر دیا۔ بعدازاں اس بائیکاٹ میں سنی تحریک اور مہاجر قومی موومنٹ بھی شامل ہوگئیں۔
ایم کیو ایم نے ان الزامات کی تردید کی ہے جبکہ الیکشن کمیشن نے اعتراف کیا ہے کہ وہ کراچی کی حد تک صاف اور شفاف انتخابات کے انعقاد میں کامیاب نہیں ہوا اور اسی وجہ سے کراچی کے حلقہ این اے 250 میں 42 پولنگ مراکز پر پولنگ روک دی گئی۔
گیارہ مئی کے انتخابات میں بھرپور ٹرن آؤٹ پر مبصرین کہتے ہیں کہ سنہ انیس سو ستر کے بعد شاید پہلی بار ٹرن آؤٹ بہت زیادہ ہونے کا امکان ہے۔ الیکشن کمیش کا کہنا ہے کہ ٹرن آؤٹ ساٹھ سے اسی فیصد تک ہو سکتا ہے۔
اس انتخابی دنگل میں سو سے زیادہ نشستوں پر کانٹے کے مقابلے کی توقع ہے۔ جن نشستوں پر سخت مقابلے متوقع ہیں ان میں سے 74 پنجاب میں، 18 سندھ میں، 13 خیبر پختونخوا میں اور 5 بلوچستان میں ہیں۔
عمران خان کی تحریک انصاف نے پاکستان کی روایتی سیاست میں ہلچل مچا دی ہے تاہم مبصرین کے مطابق عمران خان کی فتح یا شکست سے کہیں زیادہ اہم وہ متوقع اثر ہے جو ان کی انتخابی مہم ٹرن آؤٹ پر ڈالے گی۔ الیکشن کمیشن کے مطابق مختلف عوامل کی وجہ سے ٹرن آؤٹ ساٹھ فیصد تک متوقع ہے۔
تاہم اس سے قطع نظر تحریک انصاف کے تبدیلی کے نعرے نے ملک کی روایتی سیاسی جماعتوں کو ووٹرز کے ساتھ اپنے رشتے کا تعین از سرِ نو کرنے پر مجبور کر دیا ہے۔ تمام سیاسی پنڈت اس بات پر متفق نظر آتے ہیں کہ عمران خان کی تحریک انصاف پنجاب میں سب سے زیادہ دائیں بازو کے ووٹ بینک کو متاثر کرے گی۔