14جون 2012پاکستان کی سیاسی تاریخ کا اس لحاظ سے ایک اہم دن ہے کہ اس دن پاکستان کی اعلیٰ عدلیہ کے خلاف کی جانی والی سازشوں کا ایک ثبوت عجیب طریقے سے دنیا کے سامنے آیا۔ماہ جون کے آغاز پر چیف جسٹس آف پاکستان جناب افتخارچوہدری صاحب نے ایک سوموٹو ایکشن کے ذریعے اپنے بیٹے ارسلان چوہدری اور معروف ٹھیکیدارریاض ملک کے حوالے سے ایک معاملے کا نوٹس لیا۔ریاض ملک نے بعض صحافیوں اور دیگر شخصیات کو کچھ ایسے ثبوت دکھائے تھے جن کے مطابق
اس نے ارسلان چوہدری کو 34کروڑ مختلف مدوں میں اس بات کے لیے دیے کہ وہ اسے عدالت سے اس کے مقدمات میں ریلیف دلوائے گا۔
14جون کا اس کیس پر عدالت نے یہ فیصلہ دیا کہ ریاض ملک نے جو کاغذات عدالت میں پیش کیے ہیں ان سے 45لاکھ روپے کا لین دین ثابت ہوتا ہے۔اس نے جو الزام بھی کمرہ عدالت میں لگایا وہ ارسلان چوہدری کے خلاف ہی لگایا، چیف جسٹس کے خلاف نہیں، اس لیے یہ دو شہریوں کے درمیان ہونے والا ایک معاملہ ہے ۔ حکومت رشوت کی لین دین کے اس معاملے پر قانون کے مطابق کاروائی کرے۔ اس فیصلہ میں ایک جج نے لکھا کہ سپریم کورٹ کا محافظ اللہ تعالیٰ ہے۔
پاکستان کی تاریخ میں اس کیس کی اہمیت اس لیے بھی بہت ہے کہ ہماری تاریخ میں پہلی دفعہ کسی طاقتور فرد یعنی چیف جسٹس نے اپنے ہی بیٹے کے خلافِ قانون معاملات سامنے آنے پر نوٹس لیا۔شاید طاقتور لوگوں کی طرف سے عدل کا یہ مظاہرہ اللہ تعالیٰ کو اس قدر پسند آیا کہ انہوں اللہ تعالیٰ پر توکل کی جو بات کہی تھی اللہ نے ان الفاظ کی لاج رکھ لی۔سپریم کورٹ کے جج کے الفاظ کی سیاہی ابھی خشک بھی نہیں ہونے پائی تھی کہ مگر ایک تاریخی وڈیو منظر عام پر آگئی۔ یہ ریاض ملک کے اس انٹرویو کی وہ مکمل ریکارڈنگ تھے جس میں اس عدلیہ پر شدید الزامات لگائے تھے۔ اس انٹرویو کے وہ حصے جو ٹی وی پر نہیں چلے مگر ریکارڈنگ میں موجود تھے، اس بات کے صاف گواہ تھے کہ پروگرام کے اینکر مہر بخاری اور مبشر لقمان اور دنیا ٹی وی کی انتظامیہ جس پر یہ پروگرام نشر ہوا ، نیز اہم حکومتی شخصیات سب ریاض ملک سے ملے ہوئے ہیں۔ اس انٹرویو کا مقصد ریاض ملک کو یہ موقع مکمل طور پر فراہم کرنا تھا کہ وہ عدلیہ کو بدنام کرے۔
عدلیہ کے خلاف جو کچھ مہم تھی وہ پروپیگنڈے کی مہم تھی۔اس انٹرویو کی حقیقت سامنے آنے کے بعد اس پروپیگنڈے کے غبارے سے ہوا نکل گئی ۔قرائن تو پہلے بھی یہی تھے کہ عدلیہ کے خلاف مکر و فریب کا ایک بنا جارہا ہے، مگر اس پلانٹڈ انٹرویو کی حقیقت سامنے آنے کے بعد یہ جال تار تار ہوکر بکھر گیا۔ کم از کم عوام اور انصاف پسند لوگوں کے سامنے پوری حقیقت آگئی کہ یہ دراصل مایہ جال تھا جسے معاشرے کے طاقتور طبقات کی مکمل حمایت حاصل تھی۔
اس طرح کے واقعات اپنے اندر دو بڑے اہم پہلو لیے ہوتے ہیں۔ ایک وہی جس کی طرف ہم نے اوپر اشارہ کیا ہے۔ یعنی جب کوئی فرد یا گروہ اللہ تعالیٰ کی مرضی کا راستہ اختیار کرلے تو اللہ تعالیٰ غیر معمولی طریقے اس کی مدد کرتے ہیں۔اعلیٰ عدلیہ نے نہ صرف انصاف کی وہ نظیر قائم کی جو پاکستان کے طاقتورطبقات کے لیے بالکل اجنبی تھی یعنی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کے بیٹے کو عدالت میں لاکھڑا کیا۔ دوسری طرف تمام سازشوں کے خلاف انہوں نے اللہ تعالیٰ کو اپنا محافظ قرار دیا۔
چنانچہ دنیا نے دیکھا کہ اللہ تعالیٰ نے مکر وفریب کے اس جال کے بچھانے والوں کے ساتھ وہ معاملہ کیا کہ خود آپ اپنے دام میں صیاد آگیا۔دنیا ٹی وی کی انتظامیہ اور دونوں اینکر پرسن اب اپنی پارسائی کا لاکھ ڈھنڈوڑا پیٹیں ،دوسروں کے خلاف جتنی چاہیں مہم چلالیں، ان کی اپنی حقیقت بہرحال بالکل کھل کر سامنے آچکی ہے۔
دوسرا اہم پہلو جو اس واقعے سے سامنے آتا ہے وہ یہ ہے کہ قیامت کے دن لوگوں کا احتساب اللہ تعالیٰ کس طرح کریں گے۔ ہم میں سے بہت سے لوگ بظاہر کچھ نظر آتے ہیں اور اندر سے کچھ اور ہوتے ہیں۔ مگر ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہمارے ظاہر و باطن چھپے اور ظاہر ہر چیز سے واقف ہے۔ ہم دنیا کو بے وقوف بناسکتے ہیں، انسانوں کو دھوکا دے سکتے ہیں، زمانے کی آنکھ میں دھول جھونک سکتے ہیں، مگر اس پروردگر سے کچھ نہیں چھپاسکتے جو عالم الغیب والشہادہ ہے۔
ہم بھول جاتے ہیں کہ وہ دلوں کے حال اور نگاہوں کی خیانتوں سے بھی واقف ہے۔اس کے فرشتے ہماری زبان سے نکلے ہوئے ہر ہر لفظ کو لکھ رہے ہیں۔ ہم جو کچھ کرتے ہیں اس کی مکمل وڈیو اور آڈیو ریکارڈنگ کی جارہی ہے۔ کل قیامت کے دن ان میں سے ہر ثبوت ہمارے خلاف پیش کردیا جائے گا۔ ہماری پارسائی کا بھرم کھول دیا جائے گا۔ ایمانداری کی حقیقت واضح کردی جائے گی۔ اس روز ہمیں مکمل سچائی کا سامنا کرنا ہوگا۔
تاہم اس روز کچھ لوگ ایسے بھی ہوں جو ہر شہادت آنے کے بعد اور ہر وڈیوں دیکھ لینے کے بعد بھی ڈھٹائی کے ساتھ اپنے کرتوتوں کا انکار کردیں گے۔ ایسے لوگوں کی زبانیں بند کردی جائیں گی۔ پھر ان کے ہاتھ پاؤں ،ان کی جلد اور ان کا پورا وجود ان کے کرتوتوں کا گواہ بن جائے گا۔ یوں گواہی کا یہ عمل اپنی آخری انتہا کو جاپہنچے گا۔
دنیا پیش آنے والا یہ واقعہ ہمیںآخرت کی پیشی کی یاددلارہا ہے۔ جب ہم میں سے ہر شخص اپنے رب کے حضور اپنے اعمال کا جواب دے گا۔ بہتر یہی ہے کہ ہم سب اس دن کے آنے سے قبل اپنی گناہوں پر توبہ کرلیں۔ قبل اس کے کہ ہمارا اپنا وجود ہمارے خلاف گواہی دے ڈالے۔
از ریحان احمد یوسفی