Rana Tahir Mahmood
Senator (1k+ posts)
٭بہت سے لوگ کہتے ہیں کہ عمران خان نے کراچی میں جو لہجہ کراچی کے حکمرانوں کے حوالے سے اختیار کیا ہے، اگر وہی لہجہ وہ وفاقی حکومت کے لیے بھی استعمال کرتے تو مناسب ہوتا، لیکن وہاں خان صاحب کا رویہ انکے مزاج کے بالکل برعکس دکھائی دیا۔
عمران خان نے کراچی میں بھرپور سیا سی طاقت کا مظاہرہ کیا۔ اس میں کو ئی شک نہیں کہ تحریک انصاف کا جلسہ عوام کے سیاسی شعور اور عوام میں تبدیلی کے نعر ے کا منہ بولتا ثبوت تھا۔ عمران خان کی تبدیلی اور شفافیت کے نعرے سے کسی کو بھی اختلاف نہیں، لیکن اس کے ساتھ خان صاحب سے عموماً لوگ یہ توقع لگائے رکھتے ہیں کہ وہ لگی لپٹی بغیر بات کرنے کے عادی ہیں۔ سو عمران خان سے کراچی کے جلسے میں بھی یہ توقعات لگائی جارہی تھیں کہ جس طر ح اسلام آباد میں بیٹھ کر پرائم منسٹر نواز شریف کو للکارتے ہیں۔ جس طر ح پنجاب میں دھاندلی کے الزامات لگاتے ہیں اور جس طرح انہوں نے سابق چیف جسٹس اور الیکشن کمشنر کو آڑے ہاتھوں لیا۔ اس طرح کراچی میں دھاندلی پر عوامی مینڈیٹ پر بات کرینگے۔ ان لوگوں کو للکاریں گے جنہیں وہ پہلے بھی للکارتے رہے ہیں۔ عمرا ن خان کا دھرنا الیکشن میں ہونیوالی دھاندلی کیخلاف تھا اور وہ کراچی میں ہونیوالی دھاندلی کیخلاف بھی کئی بار بول چکے ہیں۔ لہٰذا وہ یقینا بڑی شدت کیساتھ کہیں گے کہ کراچی میں بھی دھاندلی ہوئی ہے۔ اسکی انکوائری ہونی چاہیے۔ حالانکہ الیکشن کمشنر عین انتخابات کے دن یہ اعلان کرچکے تھے کہ کراچی میں ہم ٹھیک طریقے سے انتخابات نہیں کرواسکے ہیں۔ یوں کہیے کہ وہاں الیکشن نہیں، سلکیشن تھی۔
میں خود عینی شاہد ہو ں کہ کراچی میں بہت سارے ٹی وی شوز کیے جن میں الیکشن 2013ء کے حوالے سے بھی تھے۔ الیکشن سے پہلے جب کراچی میں الیکشن کمیشن کی جانب سے ووٹر لسٹوں کی تصدیق کا عمل شروع ہو ا تو اس وقت میں نے ووٹر لسٹوں کو تصدیق کرنیوالے اسٹاف کیساتھ پروگرام کیا، جس میں یہ آن ریکارڈ ہے کہ عملے کی جانب سے بتایا گیا جو کہ اکثریت اسکول ٹیچر تھے کہ ہمیں لسٹوں کو مارک کرکے دیا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ آپ لوگ صر ف سائن کردیں۔ گھر گھر جاکر تصدیق کی ضرورت نہیں اور اگر جانچ کرنے والا عملہ تصدیق کے لیے جاتا ہے تو وہ اپنی جان گنوانے کا ذمہ دار ہوگا۔ یہ سب کچھ کراچی میں ایک مخصو ص سیاسی جماعت کے کہنے پر کیا گیا۔ اس طر ح کراچی میں ووٹر لسٹو ں کی تصدیق کا عمل ہو۔ اب اندازہ لگائیں کہ الیکشن کیسا ہوگا؟ جس الیکشن کو شفاف بنانے اور دھاندلی کیخلاف عمران خان نے اعلانِ جنگ کررکھا ہے اور پنجاب میں دھاندلی کی پالیسی کچھ اور ہے اور کراچی میں دھاندلی کے حوالے سے موقف کچھ اور، اس پر وزیر اطلاعات پرویز رشید نے ٹھیک کہا ہے کہ کراچی میں عمران خان کا جلسہ ایم کیو ایم سے مک مکا ہے۔ دوسری بات عمران خان کو کراچی میں حالیہ ہونیوالی فرقہ وارنہ ٹارگٹ کلنگ میں مرنے والوں کے لیے انصاف کا مطالبہ کرنا چاہیے تھا۔ ڈاکٹر شکیل کے قاتلوں کی گرفتاری کا مطالبہ کرنا چاہیے تھا۔ لوگ یہ توقع بھی لگائے بیٹھے تھے کہ عمران خان جس زہرہ آپا کے قتل میں براہِ راست الزام الطاف حسین پر لگاتے تھے، آج جلسے میں زہرہ کے قاتلوں کا بھی تذکرہ کرینگے اور انہیں کیفرکردار تک نہ پہنچانے پر بھی سندھ حکومت کو آڑے ہاتھوں لیں گے۔
تیسری بات عمران خان نے کراچی میں بہترین بلدیاتی نظام کی بات کی۔ کیا ہی اچھا ہوتا اگر وہ کے پی کے میں بلدیاتی الیکشن کرواکر، پھر کے پی کے میں بلدیاتی نظام کی مثال دیتے۔ ایک چیز اور ہے کہ عمران خان کا رویہ مطالبات منوانے کا نہیں، ان کا انداز بیاں تو الیکشن مہم جیسا ہوتا ہے اور وہ ہی کراچی میں تھا۔ وہ کہتے ہیں جب ہم حکومت میں آئینگے تو امن وامان دینگے انصاف دینگے روزگار دینگے یہ کرینگے، وہ کرینگے۔ یہ تو سب اپنے جلسے میں عوام کیساتھ عہدوپیماں کرتے ہیں۔ کچھ تو ان روایتی سیاسی پارٹیوں اور تحریک انصاف میں مختلف ہونا چاہے، مگر نہیں سب روایتی باتیں۔ وہی اندازِ بیا ں۔ تو کیا فرق ہے عمران خان اور باقی سیاستدانواں میں؟ ہمیں تو کوئی فرق نظر نہیں آیا۔
http://www.nawaiwaqt.com.pk/E-Paper/Lahore/2014-09-23/page-15/detail-13
عمران خان نے کراچی میں بھرپور سیا سی طاقت کا مظاہرہ کیا۔ اس میں کو ئی شک نہیں کہ تحریک انصاف کا جلسہ عوام کے سیاسی شعور اور عوام میں تبدیلی کے نعر ے کا منہ بولتا ثبوت تھا۔ عمران خان کی تبدیلی اور شفافیت کے نعرے سے کسی کو بھی اختلاف نہیں، لیکن اس کے ساتھ خان صاحب سے عموماً لوگ یہ توقع لگائے رکھتے ہیں کہ وہ لگی لپٹی بغیر بات کرنے کے عادی ہیں۔ سو عمران خان سے کراچی کے جلسے میں بھی یہ توقعات لگائی جارہی تھیں کہ جس طر ح اسلام آباد میں بیٹھ کر پرائم منسٹر نواز شریف کو للکارتے ہیں۔ جس طر ح پنجاب میں دھاندلی کے الزامات لگاتے ہیں اور جس طرح انہوں نے سابق چیف جسٹس اور الیکشن کمشنر کو آڑے ہاتھوں لیا۔ اس طرح کراچی میں دھاندلی پر عوامی مینڈیٹ پر بات کرینگے۔ ان لوگوں کو للکاریں گے جنہیں وہ پہلے بھی للکارتے رہے ہیں۔ عمرا ن خان کا دھرنا الیکشن میں ہونیوالی دھاندلی کیخلاف تھا اور وہ کراچی میں ہونیوالی دھاندلی کیخلاف بھی کئی بار بول چکے ہیں۔ لہٰذا وہ یقینا بڑی شدت کیساتھ کہیں گے کہ کراچی میں بھی دھاندلی ہوئی ہے۔ اسکی انکوائری ہونی چاہیے۔ حالانکہ الیکشن کمشنر عین انتخابات کے دن یہ اعلان کرچکے تھے کہ کراچی میں ہم ٹھیک طریقے سے انتخابات نہیں کرواسکے ہیں۔ یوں کہیے کہ وہاں الیکشن نہیں، سلکیشن تھی۔
میں خود عینی شاہد ہو ں کہ کراچی میں بہت سارے ٹی وی شوز کیے جن میں الیکشن 2013ء کے حوالے سے بھی تھے۔ الیکشن سے پہلے جب کراچی میں الیکشن کمیشن کی جانب سے ووٹر لسٹوں کی تصدیق کا عمل شروع ہو ا تو اس وقت میں نے ووٹر لسٹوں کو تصدیق کرنیوالے اسٹاف کیساتھ پروگرام کیا، جس میں یہ آن ریکارڈ ہے کہ عملے کی جانب سے بتایا گیا جو کہ اکثریت اسکول ٹیچر تھے کہ ہمیں لسٹوں کو مارک کرکے دیا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ آپ لوگ صر ف سائن کردیں۔ گھر گھر جاکر تصدیق کی ضرورت نہیں اور اگر جانچ کرنے والا عملہ تصدیق کے لیے جاتا ہے تو وہ اپنی جان گنوانے کا ذمہ دار ہوگا۔ یہ سب کچھ کراچی میں ایک مخصو ص سیاسی جماعت کے کہنے پر کیا گیا۔ اس طر ح کراچی میں ووٹر لسٹو ں کی تصدیق کا عمل ہو۔ اب اندازہ لگائیں کہ الیکشن کیسا ہوگا؟ جس الیکشن کو شفاف بنانے اور دھاندلی کیخلاف عمران خان نے اعلانِ جنگ کررکھا ہے اور پنجاب میں دھاندلی کی پالیسی کچھ اور ہے اور کراچی میں دھاندلی کے حوالے سے موقف کچھ اور، اس پر وزیر اطلاعات پرویز رشید نے ٹھیک کہا ہے کہ کراچی میں عمران خان کا جلسہ ایم کیو ایم سے مک مکا ہے۔ دوسری بات عمران خان کو کراچی میں حالیہ ہونیوالی فرقہ وارنہ ٹارگٹ کلنگ میں مرنے والوں کے لیے انصاف کا مطالبہ کرنا چاہیے تھا۔ ڈاکٹر شکیل کے قاتلوں کی گرفتاری کا مطالبہ کرنا چاہیے تھا۔ لوگ یہ توقع بھی لگائے بیٹھے تھے کہ عمران خان جس زہرہ آپا کے قتل میں براہِ راست الزام الطاف حسین پر لگاتے تھے، آج جلسے میں زہرہ کے قاتلوں کا بھی تذکرہ کرینگے اور انہیں کیفرکردار تک نہ پہنچانے پر بھی سندھ حکومت کو آڑے ہاتھوں لیں گے۔
تیسری بات عمران خان نے کراچی میں بہترین بلدیاتی نظام کی بات کی۔ کیا ہی اچھا ہوتا اگر وہ کے پی کے میں بلدیاتی الیکشن کرواکر، پھر کے پی کے میں بلدیاتی نظام کی مثال دیتے۔ ایک چیز اور ہے کہ عمران خان کا رویہ مطالبات منوانے کا نہیں، ان کا انداز بیاں تو الیکشن مہم جیسا ہوتا ہے اور وہ ہی کراچی میں تھا۔ وہ کہتے ہیں جب ہم حکومت میں آئینگے تو امن وامان دینگے انصاف دینگے روزگار دینگے یہ کرینگے، وہ کرینگے۔ یہ تو سب اپنے جلسے میں عوام کیساتھ عہدوپیماں کرتے ہیں۔ کچھ تو ان روایتی سیاسی پارٹیوں اور تحریک انصاف میں مختلف ہونا چاہے، مگر نہیں سب روایتی باتیں۔ وہی اندازِ بیا ں۔ تو کیا فرق ہے عمران خان اور باقی سیاستدانواں میں؟ ہمیں تو کوئی فرق نظر نہیں آیا۔
http://www.nawaiwaqt.com.pk/E-Paper/Lahore/2014-09-23/page-15/detail-13
Last edited by a moderator: