کل عمران خان نے کہا کہ میں نے جمائما کو مسلمان کرکے اس سے شادی کی اور وہ پاکستان آنے
پر تیار ہوئی لیکن مولانا فضل الرحمٰن اور نواز شریف جیسے لوگوں نے اسے یہودی لابی کا حصہ
کہہ کہہ اسلام سے بددل کردیا ان جیسے لوگوں کی وجہ سے ہی میرا گھر خراب ہوا۔ بچوں سے دور
رہنا میری زندگی کی سب سے بڑی تکلیف اور آزمائش تھی۔ جمائما نے بہت اصرار کیا کے برطانیہ
شفٹ ہو جاتے ہیں لیکن میں نے پاکستان نہیں چھوڑا ۔ سیاست اپنی جگہ لیکن بہت دکھ ہوا یہ سن کر
اور یہ بالکل سچ ہے۔
عمران خان کا ماضی جیسا بھی تھا لیکن اگر آپ سیاسی بغض کی عینک اتار کر دیکھیں تو آپ کو
بھی نظر آجائے گا کہ اللہ تعالٰی نے اسے ہدایت اور توبہ کی توفیق عطا فرمائی۔ کرسٹینا بیکر کی
کتاب، فرام ایم ٹی وی ٹو ًًمکہ پڑھیں تو پتا چلتا ہے کہ کس طرح عمران خان نے اسے اسلام کی
طرف راغب کیا۔ اس کے علاوہ اور بھی بہت سے لوگ ہیں جو عمران خان کی وجہ سے اسلام کی
طرف راغب ہوئے۔ عمران خان ہی ہے جس کی وجہ سے لیڈی ڈیانا جیسی شخصیت پاکستان جیسے
ملک میں آئی۔ میں نے بی بی سی اردو کی ایک ویڈیو دیکھی جس میں انگلینڈ کے لوگوں سے سوال
کیا جارہا ہے کہ وہ پاکستان کے بارے میں کیا جانتے ہیں۔ اکژ لوگ یہ نام پہلی بار سن رہے تھے اور
جو لوگ جانتے تھے ان کا حوالہ عمران خان تھا۔
جب ١١ مئی کی رات گیارہ بجے نواز شریف اور شہباز شریف وکٹری سپیچ کررہے تھے تو وہ
لمحات مجھ سمیت ان لاکھوں لوگوں پر قیامت کی طرح تھے جو بچپن سے ان کی شکلیں دیکھ دیکھ
کر اکتا چکے ہیں اور پاکستان میں ایک نئی لیڈرشپ دیکھنا چاہتے ہیں۔ لیکن مجھ سب سے زیادہ دکھ
وہ غرور، تکبر اور نفرت سے بھرے ہوئے الفاظ سن کر ہوا جو شہباز شریف نے کہے۔ اس نے کہا
عمران خان اپنے سسرالیوں کے تمام تر وسائل استعمال کرکے بھی کامیاب نہ ہوسکا۔ جمائما سے
عمران خان کی شادی اور علیحدگی کو عرصہ بیت گیا لیکن ان جیسے کم ظرف لوگ اس انتہائی حد
تک نجی مسئلہ کو بھی سیاست کے لیے استعمال کرتے ہیں اور مجھ سمیت بہت سے لوگوں کی ان
سے انتہائی نفرت کی ایک وجہ یہ بھی ہے۔
فضل الرحمٰن جیسے لوگ جو خود کو اسلام کا داعی کہتے ہیں انکی وجہ سے اسلام دنیا میں ایک
خوفناک دین کے طور پر متعارف ہوا ہے۔ جس میں صرف قتل و غارت گری، بے جا پابندیاں،
ماردھاڑ، نفرت و تشدد ہے۔ اللہ معاف کرے لیکن اگر آپ ان لوگوں کا چلن دیکھیں تو ایک اچھا خاصہ
دین دار شخص بھی یہ سوچنے پر مجبور ہو جاتا کہ غیر مسلم ہی شاید ہم سے اچھے ہیں۔ حقیقت میں
اسلام تو دینِ فطرت ہے جس کا مطلب ہی سلامتی ہے۔ لیکن ان جیسے لوگوں نے اپنے ذاتی مفاد کے
لیے اللہ کے دین کو بھی نہ چھوڑا۔ ذرا تصور کریں اگر ان کی نفرت آمیز باتیں سن کر دنیا کا کوئی
ایک انسان بھی اسلام سے بددل ہوا تو اللہ کے نزدیک ان کی حیثیت کیا ہوگی۔
یہ تلوار، نفرت اور فتوٰے نہ تھے بلکہ آقا صلی اللہ علیہ وآلہ واصحابہِ وسلم کا اُسوہ اور اخلاق تھا کہ
عرب کے بدو بھی آپ کے گرویدہ ہو گئے۔ اللہ تعالٰی تو انسان کو اس کے توبہ کے ایک بول پر
معافی عطا فرمادیتا ہے لیکن اس کے بندے ہیں کہ وہ مرتے دم تک انسانوں کو اس کے گناہ یاد
دلاتے رہتے ہیں۔ اللہ تعالٰی اس شخص پر بہت غیض وغصب نازل فرماتا ہے جو بندوں کو ان کے
گناہ اور عیب یاد دلا کر شرمندہ کرتا ہے جبکہ وہ تائب ہو چکے ہوں۔ ایک حدیثِ پاک کا مفہوم ہے
کہ جو شخص کسی انسان کو اس کے گناہ یاد کرواتا ہے جن پر وہ توبہ کرچکا تو اللہ تعالٰی اس
شخص کو انھیں گناہوں میں مبتلا کیے بغیر موت نہیں دیتا۔
اس لیے دین کو کبھی سیاسی مقاصد کے لیے استعمال نہ کریں اور اللہ اور اسکے بندوں کے جو آپس
کے معاملات ہیں ان میں آپ جج نہ بنیں۔ ہاں سیاستدانوں اور لیڈرز کی سب سے بڑی ذمہ داری
حقوق العباد ہیں۔ جن سے ہم براہِ راست یا بالواسطہ متاثر ہوتے ہیں یا استفادہ حاصل کرتے ہیں اس پر
کھل کر بحث کریں۔
(محمد تحسین)
https://www.facebook.com/Muhammad.Tahseen.ch