برادرم عرب خان!۔
جیسا کہ پوسٹ نمبر اٹھارہ میں کہا گیا ہے بعد از تائید میں اُس خیال کو یوں آگے بڑھاؤں گا کہ واقعی آپکی باتوں سے اخلاص عیاں ہے، اگر نہ بھی ہوتا، یہ میرا موضوع تب بھی نہ ہوتا کہ دِلوں کے بھید جاننے کا میرا کوئی دعویٰ نہیں۔
آپ اور آپکے کئی ہم جماعتوں کو خدشہ ہے بلکہ یقین ہے کہ عالمِ اغیار ملالہ کو منفی سوچ کے تحت بڑھاوا دے کر پاکستان کے خلاف استعمال کرنے کی سازش کر رہا ہے۔ ملالہ کے انٹرویوز سے پاکستان کا چہرہ مسخ ہوتا ہے وغیرہ وغیرہ۔
یہ اِسقدر ناقص اور بیہودہ تصور ہے جِس کی کوئی زمینی حقیقت نہیں۔ اِس خیال کی جائے ولادت و ہلاکت خوفزدہ اور تاریک اذہان ہیں ورنہ دُنیا کو آج کا پاکستان ویسا ہی نظر آ رہا ہے جیسا وہ ہے، عمارت باہر سے زیادہ واضح دکھائی دیتی ہے۔ کیا دُنیا اندھی بہری ہے جِسے پاکستان میں پچاس ہزار بیگُناہ بچوں، بوڑھوں، عورتوں کی لاشیں نظر آتی ہیں نہ دھماکوں سے لرزتے پاکستان سے کوئی آواز باہر نکلتی ہے۔ کیا ملالہ کے انٹرویوز کا آہنگ بلند ہے یا دھماکوں کا مسلسل شور؟ آپ کے بقول دُنیا ملالہ کا انٹرویو سُن کر پاکستان کے بارے رائے قائم کر رہی ہے لیکن اُس بہری دُنیا کو دھماکے سُنائی نہیں دیتے، ریاست کے اندر ریاستیں، بھتے، شہریوں کا اِغوا برائے تاوان، پھوُل کی پتیوں ایسی پانچ سالہ سنبل دِکھتی ہے نہ افلاس کے میناروں سے کود کر خود کُشی کرتی غریب رعایا، بد عنوانی میں سرِ فہرست، تعلیمی معیار گراوٹ کا شکار اور رزق ملاوٹ کا، دوائیں شفا کی بجائے موت کا سندیسہ، قومی املاک اشرافیہ کا سامانِ عیاشی، ریلوے، پی آئی اے جسکی ایک آدھ مثال ہیں۔
بھائی صاحب، لوڈ شیڈنگ کے اندھیروں میں غرق پاکستان سے بلند ہوتے قتل وغارت و افلاس کے شعلے دُنیا خوب دیکھ رہی ہے آپ اور آپکے ہم جماعت ہی آنکھیں کھولنے کو آمادہ نہیں تو ہم آپکو جگانے کیلئے کیا چبھوئیں۔ یہ تصور کیسا بچگانہ و فضول لگتا ہے جیسے ملالہ نے پاکستان کا نام خراب کر دیا ہے ورنہ ہمارا دیس تو علم و ہُنر کا بُقعہ نور تھا، ہماری دانشگاہوں سے تحقیقی مقالے دُنیا کی رہنُمائی کرتے تھے، کینسر سے لیکر ہیپا ٹائتس تک ہر موذی مرض کا شافی و کافی علاج ہم نے ہی دریافت کیا تھا۔ ایجادات کا شُمار تھا نہ حساب۔ جمہوری، اخلاقی و انسانی قدار کو اوجِ ثُریا تک پہنچایا تھا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ساٹھ سال میں چار بار فوجی "جمہور" کو لِتر مار کر تیس سال ڈندا دے کر سواری کر گئے، عالمی کرپشن کے سٹڈی کیسز کے طور پر ہمارے صدر کا نام آتا ہے، وزیرِ اعظم کا بیٹا سمگلر ہے اور پرائم منسٹر ہاؤس میں اسکے سودے طے ہوئے، ہر جگہ سفارش، امتحانات میں نقل، دین کے نام پر جذبات فروشی، وطن کے نام پر جہالت کا دھندہ جیسی لاکھوں بیماریاں ہمارے جسدِ پاش پاش کو لاحق ہیں آپ کہتے ہیں ملالہ کاغذ کے پھوُلوں پر عطر چھڑکے اور دُنیا کو گلاب بنا کر بیچ دے۔
کاغذ کے پھول سر پہ سجا کے چلی حیات
نکلی برونِ شہر تو بارش نے آ لیا
موسیقی حرام، آرٹ لغو، سائنس باطل، جِدت مکروہ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ آخر آپکو کِس شعبے میں نوبل پرائز دیا جائے۔ اگر اپنے بھائیوں کی گردنیں کاٹنے، دھماکوں سے اپنی بستیاں اُجاڑنے پر کوئی انعام ہوتا تو نوبل نہیں ہمیں "گلوبل پرائز" مِلتا۔ شُکر کریں ایک غیر ذمہ دار ریاست اور دِن بدن ایک دہشت گرد (درحقیقت دہشت زدہ) مشہور ہوتے مُلک سے ایک بچی اٹھی جِس نے جھُکنے سے انکار کیا مرنے سے انکار کیا۔ وہ تعلیم کی بات کرتی ہے، علم دوستی کی بات کرتی ہے۔ آپ جتنا نہ سہی تھوڑا بہت مغرب ہم نے بھی دیکھا ہے۔ میری دانست میں اِس سے کِسی قوم کا منفی تاثر نہیں بنتا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ منفی تو تب ہو جیسے ملالہ سے پہلے ہم دُنیا کا سوئتزر لینڈ تھے۔
آخر میں ایک مختلف زاویے کیطرف متوجہ کروں گا۔
میں بھی ملالہ کو آپکی نگاہ سے ہی دیکھتا لیکن میرے سامنے باب العلم کا قول ہے، "چیزیں اپنی ضد سے پہچانی جاتی ہیں" ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اگر ملالہ کے مخالف یہ مریض لوگ صف آراء نہ ہوتے تو شاید میری نگاہ بھی تشکیک کا شکار ہوتی لیکن چیزیں اپنی ضد سے پہچانی جاتی ہیں۔