Dharne our Selaab !! Amir ul Azeem !

hmkhan

Senator (1k+ posts)
یہ سب پیپلز پارٹی کے کرتوت ہیں ،اب اور سر کھپاتا رہ ،یہ پاکستان کی تاریخ میں لکھا جا چکا کہ پاکستان توڑنے والی جماعت تھی ،الزلفقار نامی دہشت گرد تنظیم بھی پیپلز پارٹی کا ایک حصہ تھی جس نے پی آئی اے کا جہاز اغوا کیا اور کابل لے گئے ،یہ کام دہشت گرد ہی کرتے ہیں


حقیقت یہ ہے کہ جماعت اسلامی ضیا الحق مردود کے زانو پر بیٹھ کراپنی تسکین کے آتش شوق کو بھڑکواتی رہی

zia-ul-haq-signs-bhutto-execution-order.jpg


[تحریر: لال خان
]
آج سے 37 سال قبل اس ملک کی تاریخ کے سب سے سیاہ اور مکروہ باب کا آغاز ہوا۔ 4 جولائی کی تاریک رات کو ہونے والے فوجی کُو کے داغ اس سماج پر سے آج تک نہیں مٹ پائے۔ ملک کے پہلے عام انتخابات میں سوشلسٹ پروگرام کی بنیاد پر برسر اقتدار آنے والے وزیر اعظم کو معزول کر کے سامراج کی ایما پر شو ٹرائل کے بعد پھانسی دے دی گئی۔ ضیا الحق کی جابرانہ آمریت میں نہ صرف عوام کو سیاسی، سماجی اور معاشی طور پر کچلا گیا بلکہ ان گیارہ اذیت ناک سالوں نے محنت کش طبقے کے شعور کو مجروح کر کے مزدور تحریک کو بھی پیچھے دھکیل دیا۔
ماضی میں جھانکا جائے تو ضیا آمریت کا دور ایک بھیانک خواب معلوم ہوتا ہے۔ ہزاروں لوگوں کو سر عام کوڑے مارے گئی، فوجی اور سول عدالتوں نے سینکڑوں سیاسی مخالفین کوپھانسیاں دیں، ٹارچر سیلوں میں جا کر واپس نہ لوٹنے والوں اور ماورائے عدالت کی جانے والی ریاستی قتل و غارت گری کا کوئی حساب نہیں ہے۔ بائیں بازو اور پیپلز پارٹی کے سیاسی کارکنان، ٹریڈ یونین سے وابستہ مزدور رہنماؤں، بے زمین کسانوں، مظلوم قومیتوں، خواتین اور سماج کے دوسرے محروم طبقات کو خاص طور پر ریاستی جبر کا نشانہ بنایا گیا۔ 1978ء میں کالونی ٹیکسٹائل مل ملتان کے محنت کشوں کے قتل عام سے لے کر 1983ء میں سندھ کے ہاریوں کی نسل کشی تک، استحصالی نظام اور محرومی کے خلاف ابھرنے والی ہر بغاوت کو بے دردی سے کچل دیا گیا۔ جماعت اسلامی اور دوسری مذہبی جماعتوں نے ضیاالحق کی بی ٹیم کا کردار ادا کیا۔ ان جماعتوں سے وابستہ غنڈہ گرد عناصر اور فاشسٹ گروہ آمریت مخالف سیاسی کارکنان کی جاسوسی، گرفتاری، تشدد اور قتل میں ریاست کی بھرپور معاونت کرتے رہے۔ کفر کے فتووں کی بوچھاڑ بھی جاری و ساری رہی۔​
 

Afaq Chaudhry

Chief Minister (5k+ posts)
حقیقت یہ ہے کہ جماعت اسلامی ضیا الحق مردود کے زانو پر بیٹھ کراپنی تسکین کے آتش شوق کو بھڑکواتی رہی

[تحریر: لال خان
]
آج سے 37 سال قبل اس ملک کی تاریخ کے سب سے سیاہ اور مکروہ باب کا آغاز ہوا۔ 4 جولائی کی تاریک رات کو ہونے والے فوجی کُو کے داغ اس سماج پر سے آج تک نہیں مٹ پائے۔ ملک کے پہلے عام انتخابات میں سوشلسٹ پروگرام کی بنیاد پر برسر اقتدار آنے والے وزیر اعظم کو معزول کر کے سامراج کی ایما پر شو ٹرائل کے بعد پھانسی دے دی گئی۔ ضیا الحق کی جابرانہ آمریت میں نہ صرف عوام کو سیاسی، سماجی اور معاشی طور پر کچلا گیا بلکہ ان گیارہ اذیت ناک سالوں نے محنت کش طبقے کے شعور کو مجروح کر کے مزدور تحریک کو بھی پیچھے دھکیل دیا۔
ماضی میں جھانکا جائے تو ضیا آمریت کا دور ایک بھیانک خواب معلوم ہوتا ہے۔ ہزاروں لوگوں کو سر عام کوڑے مارے گئی، فوجی اور سول عدالتوں نے سینکڑوں سیاسی مخالفین کوپھانسیاں دیں، ٹارچر سیلوں میں جا کر واپس نہ لوٹنے والوں اور ماورائے عدالت کی جانے والی ریاستی قتل و غارت گری کا کوئی حساب نہیں ہے۔ بائیں بازو اور پیپلز پارٹی کے سیاسی کارکنان، ٹریڈ یونین سے وابستہ مزدور رہنماؤں، بے زمین کسانوں، مظلوم قومیتوں، خواتین اور سماج کے دوسرے محروم طبقات کو خاص طور پر ریاستی جبر کا نشانہ بنایا گیا۔ 1978ء میں کالونی ٹیکسٹائل مل ملتان کے محنت کشوں کے قتل عام سے لے کر 1983ء میں سندھ کے ہاریوں کی نسل کشی تک، استحصالی نظام اور محرومی کے خلاف ابھرنے والی ہر بغاوت کو بے دردی سے کچل دیا گیا۔ جماعت اسلامی اور دوسری مذہبی جماعتوں نے ضیاالحق کی بی ٹیم کا کردار ادا کیا۔ ان جماعتوں سے وابستہ غنڈہ گرد عناصر اور فاشسٹ گروہ آمریت مخالف سیاسی کارکنان کی جاسوسی، گرفتاری، تشدد اور قتل میں ریاست کی بھرپور معاونت کرتے رہے۔ ’کفر‘ کے فتووں کی بوچھاڑ بھی جاری و ساری رہی۔​

لال بجکھڑ خان ،اس دن بیزار گروہ سے تعلق رکھتا ہے جو ابھی تک لکیر کو پیٹ رہا ہے ،بھٹو نے اسلامی سوشلزم کا نعرہ لگا کر قوم کو بے وقوف بنانے کی کوشش کی ،لیکن خود اپنے نامزد کردہ جنرل سے بے وقوف بن گیا ، ستم ظریفی یہ کہ کیمونزم اور سوشلزم کو افغانیوں نے پہاڑوں میں مار پیٹ کر دریائے آمو کے پار ہمیشہ کے لئے دفن کر دیا ، اور سید مودودی کی یہ پیشن گوئی پوری ہو گئی کہ کیمونزم اور سوشلزم کو ماسکو میں پناہ نہیں ملے گی اور یہ سچ حقیقت بن گیا ،ضیاء کو الزام دینے والے اپنے اعمال کی سزا پا گئے ،جو کچھ ضیاء کے ساتھ ہوا وہ بھی ایک دن اس قوم کو ضرور پتا چل جائے گا جس دن کوئی غیرت مند حکمران اس ملک میں آ گئے

اب "لال بجکھڑ" پتا نہیں کب تک لکیر کا فقیر بنا رہے گا ،اور کتنوں کو گمراہ کرتا رہے گا ،ویسے پیپلز پارٹی سے ضرور پوچھو چھیڑنے کے لئے کہ اسلامی سوشلزم کا نعرہ کیا ہوا ،اور چالیس سال میں ٤ دفعہ اقتدار میں رہنے کے باوجود روٹی ،کپڑا اور مکان عوام کو کیوں نہیں ملا ؟

 

Back
Top