ہے جستجو کہ خوب سے ہے خوب تر کہاں
اب ٹھیرتی ہے دیکھئے جا کر نظر کہاں
ہیں دورِ جامِ اوّلِ شب میں خودی سے دُور
ہوتی ہے آج دیکھئے ہم کو سحر کہاں
یارب، اس اختلاط کا انجام ہو بخیر
تھا اس کو ہم سے ربط مگر اس قدر کہاں
کون و مکاں سے ہے دلِ وحشی کنارہ گیر
اس خانماں خراب نے ڈھونڈا ہے گھر کہاں
خواجہ الطاف حسین حالی
اِک عمر چاہیے کہ گوارا ہو نیشِ عشق
رکھّی ہے آج لذّتِ زخمِ جگر کہاں
بس ہو چکا بیاں کَسَل و رنج و راہ کا
خط کا مرے جواب ہے اے نامہ بر کہاں
ہم جس پہ مر رہے ہیں وہ ہے بات ہی کچھ اور
عالم میں تجھ سے لاکھ سہی، تُو مگر کہاں
ہوتی نہیں قبول دعا ترکِ عشق کی
دل چاہتا نہ ہو تو زباں میں اثر کہاں
حالی نشاطِ نغمہ و مے ڈھونڈتے ہو اب
آئے ہو وقتِ صبح، رہے رات بھر کہاں
(خواجہ الطاف حسین حالی)