Aevaano K Talibaan -Aliya Tabassum

writeup

Politcal Worker (100+ posts)
عالیہ تبسم
ایوانوں کے طالبان
خواجہ خان محمد ہوتی جو غالباً آ جکل مسلم لیگ نوازکے ساتھ ہیں جب اے این پی میں تھے توان کی خواہش تھی کہ صوبہ سرحد کا نام تبدیل ہونا چاہیے ۔وہ اکثریہ کہتے سنے گئے کہ پنجابیوں کے اکثریتی صوبے کو پنجاب ،سندھیوں کے صوبے کا نام سندھ اسی طرح بلوچیوں کاصوبہ بلوچستان ہے لیکن یہ عجیب سی بات ہے کہ پختونوں کے صوبہ کا نام وہاں بسنے والوں سے مطابقت نہیں رکھتا ۔یہ سوچ نہ صرف خواجہ محمد خان ہوتی کی تھی بلکہ ان کی جماعت اے این پی کی قیادت سمیت سبھی راہنماؤں کی تھی ،اُس وقت میرا خیال تھا کہ ہوتی صاحب اور اے این پی والے جو کچھ کہہ رہے ہیں شاید ان کے علاقے کے لوگوں کی یہی سوچ ہو لیکن بعد میں خیبر پختوانخواہ کے کچھ افراد کی زبانی یہ معلوم ہوا کہ اس صوبے کا نام بدلنا نہ تو لوگوں کی رائے ہے اور نہ ہی اے این پی پر اس کا دباؤ ہے عام شہری کو اس سے کوئی سروکار بھی نہیں ہے،یہ سیاسی تماشہ اے این پی کا ذاتی ہے ،یہ ایک ایسا اقدام تھا جس سے ملک یا خیبر پختوانخواہ کو کوئی فائدہ تو حاصل نہیں ہوا بہر حال کوئی بہت بڑا نقصان بھی نہیں ہوااور جہاں تک اے این پی کی بات ہے تواسے اس حد تک فائدہ ضرور ہوا ہے کہ آنے والے انتخابات میں اسے ایک سیاسی نعرہ مل گیاہے ۔لیکن اب جو کھیل کچھ طاقتیں کھیلنا چاہتی ہیں وہ سب جانتے ہیں کہ یہ نہ صرف سیاسی نقشہ بدلنے کے لیے کھیلا جا رہا ہے بلکہ اس سے قومی نقشہ بگاڑنے کی بھی کوشش کی جارہی ہے۔دو روز قبل قومی اسمبلی میں نئے صوبے کی تخلیق کے بارے پارلیمانی کمیشن کی رپورٹ پیش کی گئی جس پر کئی جانب سے اعتراضات اُٹھائے گئے، کئی اراکین واک آؤٹ کر گئے اور کئی سیاستدانوں نے تو جواب میں صوبہ ہزارہ اورصوبہ فاٹا کے مطالبات تک کر ڈالے ۔بہاولپور صوبہ ،جس کے سب سے بڑے حامی محمد علی درانی مشرف کے دور حکومت میں ان کے بہت قریب رہنے کے باوجود’’ یس سر ‘‘سے زیادہ کی جسارت نہیں کرتے تھے اب بہاولپور کو صوبہ بنانے میں سب سے زیادہ سرگرم ہیں۔وفاقی وزیر رہنے والے اور سابق جنرل مشرف کے اتنا قریب ہونے کے باوجود موصوف کو کبھی بہاولپور صوبہ بنانے کا خیال نہ آیا حالانکہ سابق صدر مشرف کو کبھی بہت طاقتور شخصیت مانا جاتا تھا اور اگروہ باوردی صدارت کے دوران بہاولپور کو صوبہ کیا ،ایک الگ ملک بھی بنا دیتے تو کسی سیاستدان میں کچھ بولنے کی جرأت نہ تھی، لیکن درانی صاحب نے نئے صوبے کی فرمائش اس وقت کی جب ملک میں ایک ناکام اور نالائق جمہوریت ہے اور وہ بھی ایسی جس کی جڑیں عوام میں ہونے کے بجائے اسلام آباد تک محدود اور سطح زمین سے اوپر ہیں ،ایسے حالات میں ان سمیت کچھ لوگوں کی جانب سے بہاولپور ،فاٹا اور ہزارہ سمیت دیگر محروم علاقوں میںیونیورسٹیاں ،سکول ،کالج ،ہسپتال ،سڑکیں اور پارک بنانے کے نعرے نہیں لگے ،جب ان کے عوام گرمی میں بجلی،سردی میں گیس ،بھوک میں روٹی اور پیاس میں پینے کے صاف پانی سے محروم ہیں یہ ایشو انہیں نظر نہیں آتے اورصرف وقتی سیاسی مفاد ات کے لیے وہ لسانیت کی بنیاد پر صوبوں کے ’’بانی ‘‘کہلانے کے لیے مرے جا رہے ہیں ۔ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کی رپورٹ کے مطابق گزشتہ برس کراچی میں 3ہزار سے زائد لوگ قتل کر دئیے گئے ان میں عام شہریوں کے علاوہ ،سیاسی شخصیات ،پولیس اہلکار اور مذہبی افراد بھی شامل ہیں ۔کچھ ہی روز قبل سی سی ٹی وی فوٹیج میں علمائے کرام کی گاڑی کو جس بے خوفی سے روک کر دن دیہاڑے ایک شخص تین افراد پرگولیاں برساتا ہے وہ سب نے دیکھااور یہ سب جانتے ہیں کہ نہ تو یہ پہلا واقعہ ہے اور نہ یہ سلسلہ رکتا دکھائی دیتا ہے ۔کراچی میں مذہبی اور لسانی بنیادوں پر قتل و غارت ایک معمول بن چکا ہے اس صورتحال میں اگر لسانی بنیادوں پر تقسیم کی جائے توکراچی میں کافی شہر بن سکتے ہیں،کیا ان زنگ آلود دماغوں میں یہ بات نہیں آتی کہ ایک سیاستدان اٹھ کرلندن میں بیٹھے الطاف کی شان میں گستاخی کرتا ہے اور کراچی میں قتل و غارت شروع ہو جاتی ہے ۔کیا کراچی کو دوحصوں میں تقسیم کیا جا نا اس کا حل ہے یہ۔ درحقیقت اب عوام نے اپنے ملک کی باگ کسی کے ہاتھ میں دینے سے پہلے یہ پختہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ ان سیاسی دکانداروں کو اپنی سیاست کے عوض ملک اور عوام کا سودا کرنے کا کوئی حق نہیں ہے ،کیا یہ سیاسی دکاندار اور عوام کے ٹھیکے دار ہمارے ملک کے سب سے بڑے دشمن اور قوم کے غدار نہیں ہیں کیاانہیں اس بات کا ادراک نہیں ہے کہ لسانی اور مذہبی بنیادوں پرجو ہماری تقسیم ہو چکی ہے وہی ہم سے قابو نہیں ہو رہی ۔یہ کیسے ہمارے لیڈر ہیں جو اقتدار میں ہوں تو ملک میں آگ لگی ہوتی ہے تو یہ چین کی بانسری بجاتے ہیں یا پھر سوئے رہتے ہیں اور جب اقتدار سے باہر ہوتے ہیں تویہی ملک کو آگ لگانے والے بن جاتے ہیں ،ہم کہتے ہیں کہ طالبان ہمارے لیے دنیا بھر میں بدنامی کا باعث ہیں گو کہ یہ حقیقت ہے لیکن طالبان کے علاوہ ہمارے پارلیمنٹ میں بیٹھے طالبان ہمارے لیے سب سے بڑا خطرہ ہیں یہ وہ طالبان ہیں جو بھائی کو بھائی سے لڑا کر اس کا خون کراتے ہیں پھر اس کے خون پر سیاست کرتے ہیں ،ملک میں جو جرائم ہو رہے ہیں ان میں ان جمہوری اداکاروں کی پوچھ سب سے پہلے ہونی چاہیے ۔ایک طرف دیکھا جائے تو آپ کو چھپر ہوٹل میں بیٹھا غریب آدمی ،حجام ،ان پڑھ سبزی فروش یا تنور والے کی سیاسی سوچ بالغ اور پختہ نظر آتے گی یہ وہ لوگ ہیں جوپاکستان کے لیے سوچ رکھتے ہیں اور اپنے ملک کو خوشخال دیکھنا چاہتے ہیں اور جب انہیں کوئی اُمید نظر آتی ہے تو یہ طاہر القادری جیسے لوگوں کے پیچھے چلنے کو بھی تیار ہو جاتے ہیں لیکن جب انتخابات آتے ہیں تو ان کے سامنے بس دو ہی آپشن ہوتے ہیں ایک کریلا اور دوسرا نیم چڑا۔ اس بارعمران خان اور پرویز مشرف کے انتخابات میں حصہ لینے سے حالات شاید کچھ بہترہوں اور ہو سکتا ہے کہ لاشوں اور دھماکوں کی سیاست کرنے والوں کے غرور میں تھوڑا سا خم آ جائے ۔عوام کو سوچنا چاہیے کہ لسانی اور مذہبی بنیادوں پر ان کو استعمال کرنے والے ان کے ہمدرد نہیں ہیںیہ ان کے اپنے سیاسی نعرے ہیں ۔ہمارے جو چار پانچ صوبے بن چکے ہیں اس کے بعد ہمارا یہ حال ہے کہ ایک صوبہ دوسرے صوبے کے لوگوں کے لیے’’ نو گو ایریا‘‘ بن چکا ہے ،پاکستان میں پہلے سے جتنے صوبے موجود ہیں وہ ایک دوسرے سے اتنے ہی دور ہوچکے ہیں جتنا پاکستان سے آسٹریلیا اور امریکہ ۔ اور سب سے بڑی بات یہ مت بھولیں کہ جب مشرقی پاکستان (موجودہ بنگلہ دیش)مغربی پاکستان سے الگ ہوا تھا تو اس سازش کی تکمیل کے لیے لسانیت کو ہوا دی گئی تھی ،سانحہ 71ء سے سبق سیکھیں اور اپنے اوپر مسلط ان طالبانوں کو پہچانیں ۔
 
Last edited:

rtabasum2

Chief Minister (5k+ posts)
U stole my name:angry_smile::angry_smile::angry_smile::angry_smile::angry_smile::angry_smile::angry_smile: