A Test Case

Status
Not open for further replies.

نادان

Prime Minister (20k+ posts)
نادان جی آپ نے صرف باتیں سنی ہیں اور کی ہیں ادھر پر آپ نے شہید کے اوپر کوئی کرپشن کا ثبوت یا الزام کسی کا لگا ہو تو بتایے کے کبھی ضیا خبیث نے ہی کچھ کہا ہو جب کے اس نے اینٹ چوٹی کا زور لگایا تھا
جبکے جو آپ کی بات ہے وہ مجھے بتانے کی ضرورت نہیں ہے بھٹو شہید کا کارنامہ کوئی ایک نہیں ہے کچھ تو میں نے گنوا دیے ہیں آپ کے پاس کچھ ہے بتانے کو ؟

آپ کرپشن کسے کہتے ہیں ...یا کرپشن کسے نہیں کہتے
 

Mehmaan

Banned
ملک توڑنے والوں میں آپ کے نام نہاد جمہوریت پسند بھی شامل ہیں ...بی اونیسٹ
ہاں، ضرور ہوتے ہیں جو حکومت کی لالچ میں فوجیوں کے آلہ کار بن جاتے ہیں. اب بھی تو ہیں جو کھل کر اقرار کرتے ہیں کہ دھرنا اسٹبلشمنٹ کے کہنے پر دیا تھا لیکن ملک توڑنے کی زمہ دار صرف اور صرف فوج ہے​
 

نادان

Prime Minister (20k+ posts)

نادان جی! کچھ بڑوں سے بھی پوچھا محبت کے جذبے کو دور ایک کونے میں کھڑا کرکے بغیر کسی خراش،تراش اور تبصرہ کے حاصل جمع کچھ یوں
ہے





[TABLE="class: backGX, width: 0"]
[TR]
[TD]
spacer.gif

[/TD]
[/TR]
[/TABLE]
سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی۔ اس دن کی صبح کسقدر اداس تھی۔از۔صفدر ھمدانی
04.04.2016, 03:45am , سوموار (GMT+1)
صفدر ھمدانی۔لندن

20030822144848zia203.jpg
ایک ایسا تاثراتی کالم جو ہر چار اپریل کو تروتازہ ہو جاتا ہے۔تاریخ کبھی پرانی نہیں ہوتی بلکہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مستند ہوتی چلی جاتی ہے

اپریل کو موسم بہار کا مہینہ کہا جاتا ہے لیکن اسی اپریل میں خون رنگ پھول بھی شاخوں پر جھول جاتے ہیں۔فیض احمد فیض نے بھی جب یہ کہا تھا کہ، ’پھول کھلتے ہیں ان مہینوں میں‘۔ تو نہ جانے انکے ذہن میں یہ پھول بھی تھا کہ نہیں کہ جسے ایک آمر مطلق جنرل نے اپنی انا کی شاخ پر ایسے کھلا دیا تھا کہ آج اسکی خوشبو جمہوریت اور آمریت دشمن بستیوں میں پھیلی ہوئی ہے۔


ذوالفقار علی بھٹو سے ہماری عمر کے لوگوں کی محبت اور عقیدت ان کے اس نظریے کی وجہ سے تھی کہ جس کا مقصد حکومت عوام کی اور عوام کے لیئے قائم کرنا اور ان کے منہہ میں زبان دینا تھی۔


جنرل محمد ایوب خان ملک کے دوسرے صدر تھے جو 11سال اس منصب پرفائز رہے ۔انہوں نے 27 جنوری 1958کو صدر کا عہدہ سنبھالااور 25 مارچ
20060303114029ayub_khan_203.jpg
1969کو اقتدار جنرل یحیْ خان کے سپرد کردیا.صدر جنرل یحیْ خان نے سقوط ڈھاکہ کے 4 روز بعد20 دسمبر 1971 کو اقتدار چھوڑ دیا اور اس طرح پاکستان پیپلز پارٹی کے چیرمین اور سابق وزیرخارجہ ذوالفقار علی بھٹو ملک کے چوتھے صدر بنے۔

1968اور1969میں جب ایوب خان اور یحیٰ خان کے خلاف بھٹو صاحب کی تحریک چل رہی تھی تو میں اسوقت لاہور کے ایف سی کالج میں تعلیم حاصل کر رہا تھا اور یہ وہ کالج تھا جس کے طلبانے کبھی کسی تحریک یا ہڑتال یا مظاہرے میں حصہ نہیں لیا تھا۔

یہ پہلا موقع تھا کہ ایف سی کالج لاہور کے طلبا نے ہڑتالوں اور مظاہروں میں بہت بھر پور طریقے سےحصہ لیا اور صورت حال اس درجہ خراب ہوئی کہ جنرل شیر علی نے ایف سی کالج سے ملحقہ نہر پر باقاعدہ توپیں لگوا دیں کہ طلبا کالج سے نکل نہ سکیں۔
u3_126.jpg

کالج کی انتظامیہ بھی یہی چاہتی تھی کی طلبا باہر نہ جائیں لیکن ہم سب دوست جن میں سید زادہ انجم انور،جمیل الدین راٹھور،طارق چوہدری،راجہ اعجاز اللہ،ندیم افضل اور دیگر ساتھی شامل تھے ہم نے ہیلی کالج آف کامرس کے طالب علم رہنما جہانگیر بدر اور گورنمنٹ کالج کے ثمر خان سے یہ وعدہ کر رکھا تھا کہ ہم جلوس لیکر ہر طرح مال روڈ تک پہنچیں گے اور پھر یونہی ہوا کہ ہم نے طے کیا کہ نہر کے راستے جانے کی بجائے گلبرگ کی طرف سے جایا جائے۔
u3_1.jpg

اسی دوران نیو کیمپس سے نکلنے والا جلوس بھی ایف سی کالج کے قریب پہنچ گیا لیکن پولیس نے سخت لاٹھی چارج اور آنسو گیس پھینک کر جلوس کو منتشر کر دیا تا ہم نیو کیمپس کے طلبا بھی ٹولیوں میں تقسیم ہو کر کسی نہ کسی طرح مال روڈ پر پہنچ گئے اور اسی طرح ہم سب ایف سی کالج سے چھوٹی چھوٹی ٹولیوں میں بکھر کر مال روڈ پہنچے اور ایم اے او کالج سے افتخار فتنہ کی قیادت میں طلبا یہاں پہنچے جہاں جہانگیر بدر کی قیادت میں زبردست جلوس نکلا جس نے انتظامیہ کی نیندیں اڑا دیں اور پولیس نے ہر طرح سے مظاہرین کومنتشر کرنے کا تہیہ کر لیا۔

اسی دوران ثمر خان اور چند دیگر ساتھیوں نے مال روڈ پر واقع ‘‘راجہ وائن‘‘ کی دوکان کو آگ لگا دی تو پولیس نے بیدردی سے طلبا پر لاٹھی چارج کیا۔ مجھے اسوقت خدائی امداد کے طور پر معروف صحافی صالح ظافر نے اپنے ویسپا سکوٹر پر بٹھا کر وہاں سے نکالا اور اس طرح سے اس دن ہماری جان بچ گئی لیکن اگلے روز ہم میں سے بیشتر ساتھی مال روڈ پہنچنے سے پہلے ہی گرفتار کر لیئے گئے۔

screenhunter_02_aug_24_1812.gif
ایف سی کالج کے ساتھیوں میں میرے علاوہ،جمیل الدین راٹھور،راجہ اعجاز اللہ اور کچھ دوسرے طلبا اور اسی طرح ہیلی کالج سے جہانگیر بدر اور گورنمنٹ کالج سے ثمر خان اور کچھ اور طلبا کو شمع سینماکے سامنے کیمپ جیل میں رکھا گیا لیکن جلدہی ذاتی مچلکوں پر رہائی مل گئی۔

میں نے کالج کے بعد صحافت میں ایم کرنے کے لیئے جب پنجاب یونیورسٹی میں داخلہ لیا تو اسوقت تک شعبہ صحافت پر جماعت اسلامی کی گرفت تھی اور شعبے کی صدر ڈاکٹر عبدالسلام خورشید کے علاوہ مرحوم وارث میر اور مسکین علی حجازی کے نظریات و خیالات بھی جماعت اسلامی سے مطابقت رکھتے تھے۔



علامہ علاؤ الدین صدیقی جامعہ پنجاب کے وائس چانسلر تھے اور شعبہ صحافت کے ترقی پسند استاد مہدی حسن کی نوکری اپنے ترقی پسندانہ خیالات کی وجہ سے معطل تھے۔


جامعہ پنجاب میں بائیں بازو کے طلبا کی قیادت اس وقت راجہ انور کر رہے تھے۔لہٰذا ہم سب نے مل کر مہدی حسن صاحب کو بحال کروانے کی تحریک چلائی اوربالآخر انکی بحالی پر جب تقریب منعقد کرنے کے لیئے مرحوم حنیف رامے کو مدعو کیا تو صدرشعبہ ڈاکٹر عبدالسلام خورشید نے رخصت لے لی تا ہم طلبا کے مشیر ہونے کے ناطے وارث میر صاحب نے اس تقریب میں شرکت کی۔

pakteahouse.jpg
یہی وہ زمانہ تھا جب پاک ٹی ہاؤس میں ہم نوجوان لکھاریوں کا گروپ خوب ابھرا تھا جن میں میرے علاوہ زاہد کامران،باصر کاظمی،حسن سلطان کاظمی،اختر کاظمی،شعیب بن عزیز،جاوید سید،راجہ اعجاز،محسن نقوی،اظہر سہیل،افضال سید،سلیم طاہر،ارشاد عرشی وغیرہ شامل تھے۔


پھر جب میں 1974میں ریڈیو پاکستان میں ملازم ہوا تو اپنے ترقی پسندانہ خیالات و نظریات کی وجہ سے ہمیشہ مشکلات کا شکار رہا۔ یہاں بھی ایسے قلم کار ساتھی میسر آئے جنہوں نے اس آتش کو اور بھڑکایا جن میں اقبال فہیم جوزی،مرحومہ شائستہ حبیب،نسرین انجم بھٹی،ستار سید،افضال بیلا خاص طور پر نمایاں تھے۔



u3_sgilani.jpg
اسوقت کے لاہور کے اسٹیشن ڈائریکٹر سلیم گیلانی یوں تو اپنے نظریات میں دائیں بازو کے فرد تھے لیکن ابن الوقتی کے فارمولے سے خوب آشنا ہونے کے باعث انہوں نے مزدور اور کسانوں کے لیے نغمات لکھ کر خود کو بائیں بازو اور ترقی پسند حلقوں میں بھی متعارف کروا لیا تھا



لیکن جب آمر مطلق جنرل ضیاء الحق نے 5جولائی 1977 کو وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کا تختہ الٹنے کے بعد ملک میں مارشل لاء نافذ کردیا تو اس رات ذوالفقار علی بھٹو کی آخری پریس کانفرنس اور جنرل ضیاالحق کی پہلی کانفرنس میں نے خود ریکارڈ کی تھی اور مارشل لا لگنے کی وجہ سے مجھے رات دفتر میں ہی رکنا پڑا اور مارشل لا کا سرکاری اعلان لاہور ریڈیو سے نشر کرنا پڑا۔





لاہور ریڈیو پر بیرونی تقریبات کی ریکارڈنگ کی ٹیم میں میرے علاوہ مرحوم عتیق اللہ شیخ، افضال بیلا،اقبال جوزی تھے اور ہمیں لوگ بھٹو صاحب کی
u3_radiologo.jpg
تقاریر ریکارڈ کر کے نشر کیا کرتے تھے۔ ایسے میں جب بھٹو صاحب کی حکومت کا تختہ الٹا تو لاہور ریڈیو کے اسوقت کے اسٹیشن ڈائریکٹر سلیم گیلانی نے صدر دفتر اور مارشل لا انتظامیہ کو یہ کہہ کر کہ ہم پیپلز پارٹی کے لوگ ہیں ہمیں لاہور سے ٹرانسفر کروا دیا۔ میرا اور عتیق اللہ کا تبادلہ حیدر آباد ہوا اور اقبال جوزی شاید کراچی بھیجا گیا۔

میں نے طے کر لیا کہ حیدر آباد نہیں جاؤں گا. اب جو تگ و دو شروع کی تو میری اہلیہ ماہ پارہ کے ایک رشتے کے چچا مرحوم بریگیڈئر جرار حیدر اسوقت چیف انسپکٹر آف آرمامنٹ تھے اور مارشل لا ڈیوٹی پر تھے،

لہٰذا انکی مدد سے تبادلہ حیدر آباد کی بجائے ریڈیو پاکستان کے اسٹیشن راولپنڈی تھری پر ہو گیاجو ریڈیو تراڑ کھل تھا جہاں اسوقت ہمارے اسٹیشن ڈائریکٹر محمد عمر،پروگرام مینجر بشیر زیدی اسیر اور ترقی پنسد دوستوں میں طاؤس بانہالی،بشیر صرفی ،احمد ظفر اور فقیر حیسن ساحر شامل تھے۔

u3_zbhutocase.jpg
یہ ریڈیو تراڑ کھل پشاور روڈ پر سپریم کورٹ کی اس عمارت کے قریب تھا جہاں بھٹو صاحب پر قتل کا مقدمہ چل رہا تھا۔ یہاں بھی ایک عجیب واقعہ ہوا جو ہماری انٹیلی جنس ایجنسیوں کی نا اہلی کی ایک سچی کہانی ہے۔

ہوا یوں کے قائد اعظم یونیورسٹی کے میرے ایک ہمنام سٹوڈنٹ لیڈر بھی اسوقت راولپنڈی میں تھے اور فلش مین ہوٹل میں بھٹو صاحب کے وکیل یحییٰ بختیار سے ملا بھی کرتے تھے اور مقدمے کی سماعت سننے سپریم کورٹ بھی جایا کرتے تھے لیکن خفیہ والے ساری رپورٹ تو انکی لکھتے لیکن گاڑی کا نمبر میرا لکھ دیتے تھے۔
میرے ایک کالج فیلو اور بہت اچھے دوست سید زادہ انجم انور ان دنوں ‘‘دلائی کیمپ‘‘ سے تبدیل ہو کر راولپنڈی تعینات ہوئے تو انکے خفیہ محکمے نے انہیں پہلا کام یہ سونپا کہ ‘‘صفدر ھمدانی ‘‘ کو اٹھایا جائے۔

سید زادہ نے جب فائل دیکھی تو وہ میرے پاس تراڑکھل ریڈیو آئے اور باتوں باتوں میں اس کا تذکرہ کیا اور وہ فائل بھی دکھائی جو انہیں کے محکمے کے ‘‘فدویوں‘‘ نے تیار کی تھی۔ وہ تو میری قسمت اچھی تھی کہ میں اس ایک غلطی پر بچ گیاکہ فدوی نے ہر بار فائل میں لکھا تھا‘‘صفدر ھمدانی،سٹوڈنٹ لیڈر ریڈیو پاکستان‘‘

logo_ptv.jpg
میرا قیام لالہ زار میں تھا جہاں میرے قریب ہی پی ٹی وی کے شعبہ خبر کے ایڈیٹر مرحوم خالد محمود ربانی بھی رہتے تھے جو اکثر رات کو ٹی وی سے واپسی پر میرے ہاں آ جاتےتھے اور ہم دیر تک حالات حاضرہ پر گفتگو کیا کرتے تھے۔

3 اور 4 اپریل 1979کی درمیانی رات جب خالد محمود ربانی کوئی رات دس بجے میرے ہاں آئے تو انہوں نے بتایا کہ آج علی الصبح بھٹو صاحب کو پھانسی ہو جائے گی۔ میں نے پوچھا کہ یہ کیا آپ کا قیافہ ہے یا کوئی یقینی بات۔ وہ بولے کہ نہیں ،دراصل آج دفتر میں کچھ احکامات ایسے ہیں جن سے یہی لگتا ہے کیونکہ اسلم کیمرہ مین کو بھی فوج نے بلوایا ہے۔(یہ وہی اسلم کیمرہ مین ہے جس نے بھٹو صاحب کے تمام آخری لمحات کی فلم بنائی تھی جسے بعد میں آئی ایس پی آر میں ضائع کر دیا گیا تھا)



_41388440_jail_generic_afp203bod.jpg
چار اپریل کی صبح کوئی چار بجے کے قریب میں اور خالد محمود ربانی جب راولپنڈی جیل کی طرف گئے تو فضا یوم عاشور کی طرح سوگوار تھی لیکن مردہ مردہ سی فضا کسی کے قتل کی خبر دے رہی تھی تا ہم بظاہر جیل اور اسکے اطراف میں کسی قسم کی کوئی غیر معمولی صورت حال نہیں تھی۔

مجھے خالد محمود ربانی کی اطلاع پر یقین نہیں تھا لیکن وہ خود اس خبر پر مصر تھے۔ گھر واپس آکر ہم دونوں سو نہ سکے تا آنکہ ریڈیو پاکستان نے اتنی بڑی خبر کو ایک لائن کی خبر کے طور پر نشر کیا۔ سارے ملک کی فضا سوگوار تھی، دفتر میں طاوس بانہالی،احمد ظفر،بشیر زیدی،محمد عمر سب ایک دوسرے سے مل کر رورہے تھے۔
میں نے اس دن دو غزلیں لکھی تھیں۔ ایک کچھ اس طرح تھی۔
پتہ ہواؤں سے پوچھے کی فاختہ کس کا
چلے گا میرے توسط سے سلسلہ کس کا
۔۔۔۔۔
جہاں پہ کل ابابیلوں نے سنگ پھینکے تھے
لگا ہے آج وہیں پر مجسمہ کس کا
دوسری غزل تھی،
نازک ہے بہت وقت ہواؤں کو بتا دو
کاغذ پہ لکھی آیتیں پانی میں جلا دو
۔۔۔۔۔
ہم بخت جلے لوگوں کے تاریک گھروں میں
بس ایک ضیا ہے اسے سولی پہ چڑھا دو


اس روز پاکستان کے ان گنت گھروں میں چولہا نہیں جلا۔کتنے ہی لوگ اس خبر کو برداشت نہ کر سکے۔ ایک ان کہی دہشت تھی جو ہر طرف برس رہی تھی۔ جیسے گھر میں موت واقع ہونے پر بچے سہم جاتے ہیں۔

20060404112054bhutto_funeral203.jpg
اسی پھانسی پر ادبی جریدے ‘‘فنون‘‘ میں اختر حسین جعفری کی نظم ’نوحہ‘ چھپی تھی جس نے حکومتی حلقوں میں ایک شور مچا دیا تھا اورآمر مطلق ضیا الحق نے اسی نظم کے مصرعے دہرا کے نام نہاد اور ظلم کا ساتھ دینے والے سرکار نواز اہل قلم کانفرنس میں ادیبوں کی خوب گت بنائی تھی۔
اختر حسین جعفری کی نظم ’نوحہ‘
اب نہیں ہوتیں دعائیں مستجاب
اب کسی ابجد سے زندانِ ستم کھلتے نہیں
سبز سجادوں پہ بیٹھی بیبیوں نے
جس قدر حرف عبادت یاد تھے
پو پھٹے تک انگلیوں پہ گن لیے
اور دیکھا رحل کے نیچے لہو ہے
شیشۂ محفوظ کی مٹی ہے سرخ
سطر مستحکم کے اندر بست و در باقی نہیں
ایلچی کیسے بلاد مصر سے
سوئے کنعاں آئے ہیں
اک جلوس بے تماشہ گلیوں بازاروں میں ہے
یا الہی، مرگِ یوسف کی خبر سچی نہ ہو
اب سمیٹو مشک و عنبر
ڈھانپ دو لوح و قلم
اشک پونچھو اور ردائیں نوک پا تک کھینچ لو
کچی آنکھوں سے جنازے دیکھنا اچھا نہیں










اوہ لوگ اب دنیا میں نہیں رہے ..جو آپ کو بتا سکتے تھے ..کہ ان کی کرپشن کیا تھی
 

khan_sultan

Banned
آپ مجھ جیسے فئیر بندے سے یہ توقع کرتے ہیں کہ اگر ایسا ہی ہوتا جیسا کہ آپ کہتے ہیں ..تو میں ایسا نہ کرتی
مجھے افسوس ہے کے آج پ نے بھی ڈنڈی ماری ہے ورنہ شہید سے کوئی نفرت تو کر سکتا ہے پر ان کے کارناموں کو ہر کوئی مانتا ہے اور ان کی کرپشن کا ذکر کوئی نہیں کرتا ہے آپ صرف ہوائی فائر کر رہی ہیں
میرے نظریے کے مطابق
فئیر وہ ہوتا ہے جو حق بات کو مان لے یہ مت دیکھے کے اس سے اس کے مذھب سوچ نظریات کو کوئی نقصان ہو گا اب اس بات کو صرف اپنی طرف مت لیجیے گا میں سب کے لیے یہ کہ رہا ہوں
 

نادان

Prime Minister (20k+ posts)
مجھے افسوس ہے کے آج پ نے بھی ڈنڈی ماری ہے ورنہ شہید سے کوئی نفرت تو کر سکتا ہے پر ان کے کارناموں کو ہر کوئی مانتا ہے اور ان کی کرپشن کا ذکر کوئی نہیں کرتا ہے آپ صرف ہوائی فائر کر رہی ہیں
میرے نظریے کے مطابق
فئیر وہ ہوتا ہے جو حق بات کو مان لے یہ مت دیکھے کے اس سے اس کے مذھب سوچ نظریات کو کوئی نقصان ہو گا اب اس بات کو صرف اپنی طرف مت لیجیے گا میں سب کے لیے یہ کہ رہا ہوں



میں نے کب ڈنڈی ماری ہے ..کارناموں کا آپ نے ذکر کیا ..کیا میں نے کہا کہ ایسا نہیں ہے .

ابھی تو ہم صرف کرپشن کی بات کر رہے ہیں ..اسی پر فوکس کریں

اور ہاں میں نفرت کسی سے بھی نہیں کرتی ..لیکن سچ کو سچ اور غلط کو غلط کہوں گی
 

khan_sultan

Banned
آپ کرپشن کسے کہتے ہیں ...یا کرپشن کسے نہیں کہتے
اس کا دائرہ بہت وسیح ہے ابھی جو بات چل رہی ہے اس کے دائرے میں رہ کر بات کریں تو کون کرپٹ ہے وہ آپ کو بھی معلوم ہے
میری شائد پہلی پوسٹ ہی میں موجود ہو گا کے میں بے نظیر یا زرداری کو فالو نہیں کرتا کیوں کے انہوں نے کرپشن کی .میں جن کو مانتا ہوں وہ سیاست میں وہ پاک ہستیاں تو نہیں ہیں پر شہید ایک ایسی مثال ہے کے کوئی دوسرا ادھر جچتا ہی نہیں بات وہ جو دشمن بھی مانے
 
Last edited:

khan_sultan

Banned
میں نے کب ڈنڈی ماری ہے ..کارناموں کا آپ نے ذکر کیا ..کیا میں نے کہا کہ ایسا نہیں ہے .

ابھی تو ہم صرف کرپشن کی بات کر رہے ہیں ..اسی پر فوکس کریں

اور ہاں میں نفرت کسی سے بھی نہیں کرتی ..لیکن سچ کو سچ اور غلط کو غلط کہوں گی
نادان جی آج آپ دلیل کو کہیں چھوڑ آئ ہیں میں نے آپ سے کی بار گزارش کی کے شہید کی کرپشن پر کوئی ثبوت دیجے پر ہے کوئی جواب آپ کے پاس میرے پاس ثبوت ہے اگر شہید کرپشن کیے ہوتے تو ضیاء کبھی بھی اس بات کو چھپا نہیں رہنے دیتا
آپ ان کو مانتی ہیں جنہوں نے ملک کے لیے کیا کیا ؟ ابھی تو صرف وعدے ہی ہیں نہ جب حکومت اے گی تو میں بھی دیکھوں گا میں پہلے بھی گزارش کر چکا ہوں کے ان سب میں جو ابھی ہیں میں اگر ووٹ دوں تو اسی کو ہی دوں گا پر شید کے ساتھ کسی کا بھی جوڑ نہیں ہے
 

نادان

Prime Minister (20k+ posts)
اس کا دائرہ بہت وسیح ہے ابھی جو بات چل رہی ہے اس کے دائرے میں رہ کر بات کریں تو کون کرپٹ ہے وہ آپ کو بھی معلوم ہے
میری شائد پہلی پوسٹ ہی میں موجود ہو گا کے میں بے نظیر یا زرداری کو فالو نہیں کرتا کیوں کے انہوں نے کرپشن کی .میں جن کو مانتا ہوں وہ سیاست میں وہ پاک ہستیاں تو نہیں ہیں پر شہید ایک ایسی مثال ہے کے کوئی دوسرا ادھر جچتا ہی نھینبات وہ جو دشمن بھی مانے


میرا نیٹ ابھی بہت تنگ کر رہا ہے ..بہت ہی سلو ہے .....رات بھی بیت گئی ہے ..پونے پانچ بجے اٹھنا بھی ہو تا ...کل یہاں سے ہی سلسلہ جوڑیں گے ..جہاں ابھی توڑ کر جا رہی ہوں ..

پس نوٹ ..

اپنے ہمراہ کمک کے طور پر سہراب کا نہ لائیے گا
 

hmkhan

Senator (1k+ posts)
بھٹو کے چاہنے والوں کے ساتھ معزرت ....ذرا اپنے بڑوں سے پوچھیں کہ بھٹو کرپٹ تھا یا نہیں ....

غیر جانبداری ہر حال میں چلے گی ....


جہاں تک نہ بھاگنے کی بات ہے ..سننے میں یہ ہی آیا ہے اعتماد کی مار کھا گئے ..انکو کچھ لوگوں نے یقین دلایا ہوا تھا ان کو کچھ نہیں ہو گا ...ڈٹے رہیں ...


محبت سے ہٹ کر معلومات حاصل کریں


نادان جی! کچھ اور بڑوں سے بھی پوچھنے کی کوشش کی ہے حاضر خدمت ہے میرا تبصرہ پھر کسی اور وقت کے لئے اٹھائے رکھتے ہیں یہ بڑوں کی رمز شناسی ہے ہماری مجال کہاں


ذوالفقار علی بھٹو: عوامی لیڈر کے عدالتی قتل کو 35 برس بیت گئے

آج پاکستان کے سابق وزیراعظم اور ملک کی ایک اہم سیاسی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو کی 35ویں برسی ہے۔ انہیں عدالتی حکم پر چار اپریل 1979ء کو پھانسی دے دی گئی تھی۔[FONT=&amp]
[/FONT]

[FONT=&amp]سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کی 35 ویں برسی کے موقع پر آج ہزاروں کی تعداد میں ان کے چاہنے والے گڑھی خدابخش میں ان کی قبر پر حاضر ہوئے اور انہیں خراج تحسین پیش کیا۔ ان کے سیاسی پیروکار جنرل ضیاء الحق، اس وقت کے چیف جسٹس انوارالحق اور مولوی مشتاق کو ان کے عدالتی قتل کا ذمہ دارقرار دیتے ہیں۔
[FONT=&amp]فرانسسی خبر رساں ایجنسی اے ایف پی سے وابستہ سینیئر صحافی اشرف خان کہتے ہیں ذوالفقارعلی بھٹو کی پھانسی کو پینتیس برس ہوگئے مگران کا نام آج بھی زندہ ہے۔
[FONT=&amp]تجزیہ کار مظہر عباس کا کہنا ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو سے کچھ سیاسی غلطیاں ضرور ہوئیں مگر بھٹو کو پھانسی دینے والے ڈکٹیٹر جنرل ضیاء الحق کا پاکستانی سیاست میں ذکر بھی موجود نہیں ہے۔ بھٹو کا جب عدالت میں ٹرائل ہورہا تھا تو ان کے سینکڑوں حامی وہاں پہنچتے تھے۔ لیکن کسی فوجی ڈکٹیٹر کے ٹرائل کے موقع پر اس کی حمایت میں 150 آدمی بھی نہیں ہوتے جس کی مثال جنرل مشرف ہیں۔[/FONT]
0,,3026641_4,00.jpg

[FONT=&amp]ذوالفقار علی بھٹو کی صاحبزادی اور سابق وزیراعظم بے نظیر بھٹو 2007ء میں راولپنڈی میں قتل کر دی گئی تھیں
[/FONT]

[FONT=&amp]پاکسان پیپلزپارٹی کے بانی رکن اور ذوالفقار علی بھٹو کے معتمد ساتھی معراج محمد خان نے ڈوئچے ویلے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ بھٹو عظیم لیڈر تھا پاکستان کی سیاست بھٹو کے بغیر نا مکمل ہے۔
[/FONT]
[FONT=&amp]پیپلز پارٹی کے موجودہ چیئرمین بلاول بھٹو زرداری اورپیپلزپارٹی کی پوری قیادت کا بھی اس بات پر اتفاق ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو کا عدالتی قتل کیا گیا۔[/FONT][FONT=&amp]اسی باعث ذوالفقاربھٹو کا کیس ری اوپن کرنے کے لیے پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین اور سابق صدر آصف زرداری کے دور میں ایک صدارتی ریفرنس جاری کیا گیا تھا تاہم اب تک اس پر کوئی پیشرفت سامنے نہیں آئی۔ پیپلز پارٹی کے رہنماؤں کے مطابق سپریم کورٹ تاریخ کے آئینے میں اپنا ریکارڈ درست کرے اور ماضی کی غلطی پر معافی مانگتے ہوئے بھٹو قتل کیس کا انصاف پر مبنی فیصلہ جلد سنائے۔[/FONT][FONT=&amp]بلاول بھٹو نے گڑھی خدا بخش میں ذوالفقار علی بھٹو کی برسی کے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے ایک مرتبہ پھر کہا کہ ہمارا سب سے بڑا جرم یہ ہے کہ ہم نے بھٹو کا عدالتی قتل کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ بھٹو ایک فلسفے اور نظام کا نام ہے۔ انہوں نے کہا کہ قوم کو ایک اور بھٹو کا انتظار ہے۔
[/FONT]
[FONT=&amp]بھٹو مخالف سیاسی جماعتیں 1977ء کی تحریک میں بھٹو کے مظالم اور سیاسی مخالفین کو قتل کروانے کے الزامات لگاتی تھیں مگر ان کی سب سے بڑی سیاسی مخالف جماعت اسلامی کے رہنماء پروفیسر غفور احمد محروم، جنرل ضیاء کی کابینہ میں شامل ہونے کو اپنی جماعت کی سیاسی غلطی قرار دیتے تھے۔ انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ اگر بھٹو کو پھانسی نہ دی جاتی تو آج پاکستان سیاست کا منظر نامہ مختلف ہوتا۔[/FONT][FONT=&amp]ذوالفقار علی بھٹو کے آخری دور میں جو کچھ پاکستانی سیاست میں ہوا اس کی گواہی دینے کے لیے بہت کم لوگ زندہ ہیں جن میں سردار شیر باز مزاری عمر رسیدہ ہونے کی وجہ سے بستر علالت پر ہیں۔ وہ تمام تر مخالفت اور خامیوں کے باوجود اب بھی کو بھٹو کو ایک عظیم لیڈر مانتے ہیں۔ ان کے ہم عصر بلوچ رہنماء سردار عطااللہ مینگل اب بھی بھٹو کے حوالے سے کسی بھی قسم کی گفتگو کرنے سے گریزاں ہیں تاہم وہ بھی پاکستان کی اصل مشکلات کے ذمہ دار کسی سیاسی رہنما کی بجائے فوجی ڈکٹیٹرز کو قرار دیتے ہیں۔
[/FONT]
[FONT=&amp]
images
[/FONT]
[FONT=&amp]
http://www.dw.com/ur/



[/FONT]
[/FONT]

[/FONT]


 

khan_sultan

Banned
اوہ لوگ اب دنیا میں نہیں رہے ..جو آپ کو بتا سکتے تھے ..کہ ان کی کرپشن کیا تھی
میں نے کہا نہ کے آج آپ دلیل نام کی چیز کہیں بھول آئی ہیں آپ ابھی جا کر اس کو ڈھونڈیں پھر آئے گا ہم کہیں بھاگے نہیں جا رہے آپ کا یہ قوٹ مجھے ہنسا بھی رہا ہے اور خیر جانے دیں
 

khan_sultan

Banned
میرا نیٹ ابھی بہت تنگ کر رہا ہے ..بہت ہی سلو ہے .....رات بھی بیت گئی ہے ..پونے پانچ بجے اٹھنا بھی ہو تا ...کل یہاں سے ہی سلسلہ جوڑیں گے ..جہاں ابھی توڑ کر جا رہی ہوں ..

پس نوٹ ..

اپنے ہمراہ کمک کے طور پر سہراب کا نہ لائیے گا
نادان جی اس فورم پر تو آپ جانتی ہیں کے اپنی جنگ اس بندہ نا چیز نے خود لڑی ہے اور پورے جتھوں کے ساتھ اس لیے آپ فکر مت کیجیے گا بس وہ دلیل کو ڈھونڈ کر لایے گا جو شائد مل نہ سکے
 

Hardware

MPA (400+ posts)

نادان جی! کچھ بڑوں سے بھی پوچھا محبت کے جذبے کو دور ایک کونے میں کھڑا کرکے بغیر کسی خراش،تراش اور تبصرہ کے حاصل جمع کچھ یوں
ہے



Dear brother, before copy-pasting please make your post illegible by removing or alignment of the post.
You may adjust the images in your post by separating them from written (urdu) contents. Thanks
 

hmkhan

Senator (1k+ posts)
اوہ لوگ اب دنیا میں نہیں رہے ..جو آپ کو بتا سکتے تھے ..کہ ان کی کرپشن کیا تھی





nawaiwaqt_newspaper.png



news-1420461064-2192.jpg




سابق وزیرِاعظم ذوالفقارعلی بھٹو نے انیس سو تہتر میں ملک کو نہ صرف پہلا متفقہ آئین دیا بلکہ ان کے دور میں ہونے والی اسلامی سربراہی کانفرنس کو بھی آج تک ان کی بڑی کامیابی قرار دیا جاتا ہے۔جبکہ پاکستان کا ایٹمی پروگرام شروع کرنے کا سہرا بھی ذوالفقار علی بھٹو کے سرجاتا ہے۔ذوالفقار علی بھٹو نے عوام کو روٹی کپڑا ور مکان کا تاریخی نعرہ دیا۔ ذوالفقار علی بھٹو جنوبی ایشیاء کے عظیم انقلابی رہنما اور دنیا بھر بالخصوص مسلم دنیا کے سربراہ مملکت اُنہیں خاص محبت اور قدر کی نگاہ سے دیکھتے تھے،بھٹو سامراج کے خاتمے،اقتصادی آزادی اور خودکفالت کے حامی اور زندگی بھر اس موقف کے زبردست داعی رہے کہ کسی ملک کے اندرونی معاملے میں مداخلت نہ کی جائے،چھ ستمبر انیس سو پینسٹھ کو رات کے اندھیرے میں جب بھارت نے پاکستان پر حملہ کیا تو اُس وقت ذوالفقار علی بھٹو نے بین الاقوامی محاذ پر پاکستان کی جنگ لڑی اور چین، انڈونیشیا، سعودی عرب، ایران، ترکی، عراق، مصر، اردن، الجزائر، شام، سوڈان، یمن، مراکش، لیبیا، کویت کی حکومتوں کو پاکستان کی اخلاقی اور مالی امداد پر رضامند کیا، ذوالفقار علی بھٹو نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں پاکستان کا مقدمہ لڑتے ہوئے تاریخی تقریر کی، ذوالفقار علی بھٹو نے سقوط ڈھاکہ کے بعد بیس دسمبر انیس سو کہتر کو باقی ماندہ پاکستان کی باگ دوڑ سبنھالی۔ اُن کے دور حکومت کا سب سے بڑا کارنامہ سات ستمبر انیس سو چوہتر کو قومی اسمبلی و سینٹ سے قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دینا اور دس اپریل انیس سو تہتر کو متفقہ آئین کی منظوری تھا


نادان جی! احمدیوں کو غیر مسلم قرارا دینا بھٹو صاحب کا وہ جرم تھا جو قادیانیوں نے آج تک معاف نہیں کیا بھٹو نفرت اور دشمنی میں اغلب یہی جذبہ کار فرما ہے
خدا بھٹو کو اس عزیم کارنامے پر اسے کروٹ،کروٹ جنت نصیب کرے آمین


http://www.nawaiwaqt.com.pk/



ن کی تاریخ کا ایک زندہ اور لازوال کردار ہے، آئین کی بات کی جائے یا ایٹمی پروگرام کی، بھٹو کے دلیرانہ فیصلوں کی مثال کہیں نہیں ملتی



 

Winter Hill

Politcal Worker (100+ posts)
میں نے کب ڈنڈی ماری ہے ..کارناموں کا آپ نے ذکر کیا ..کیا میں نے کہا کہ ایسا نہیں ہے .

ابھی تو ہم صرف کرپشن کی بات کر رہے ہیں ..اسی پر فوکس کریں

اور ہاں میں نفرت کسی سے بھی نہیں کرتی ..لیکن سچ کو سچ اور غلط کو غلط کہوں گی

بی بی رہتی تم امریکا میں ہو بندے یہاں تلاش کر رہی ہو
دوسری بات بھی بتا دوں،کچھ ہم جیسے لوگ آرمی کی بےغیرتی کی وجہ سے بھی نفرت کرتے ہیں اور کرپشن صرف پیسے کی نہیں ہوتی اپنے اختیار ک
ا ناجائز استعمال اور ملکی قانون کی پاسداری نہ کرنا بھی کرپشن ہے
پاکستان
ی کتی فوج لوگوں میں مصنوئی عقیدت مندی پیدا کرتی ہے اور پھر اسکو سیاسی لوگوں کے خلاف استعمال کرتی ہے،پچھلے ٧٠ سال سے کسی نا کسی طرح یہی بےشرم،بےغیرت کے بچے حکومت کرتے آ رہے ہیں اور تم یہاں اپنا راگ الاپ رہی ہو
ایک لفظ انکی مذمت میں بھی لکھو کے فوج کا کام سرحد کی حفاظت ہے پراپرٹی اور کاروبار کرنا نہیں یہ پاکستان آرمی ہے،پاکستان آرمی کار پور
یشن نہیں
میرا یہ کمنٹ تھوڑا سخت ہے اور جو مینے لکھا ہے ثابت بھی کر سکتا ہوں لیکن تم پھر بھی آرمی کی قصیدہ گوئی سے باز نہیں آیو گی کوئی اور چونچلا نکال لو گی اور سیاستدان کو الزام تب دو جب انکے پاس پورا اختیار ہو یا فوجیوں نے بھی وہ سزائیں بھگتی ہوں جو سیاستدان اپنے کردہ،نا کردہ گناہوں کے نتیجے میں بھگت چکے ہیں
 
Last edited:

Winter Hill

Politcal Worker (100+ posts)
میرا نیٹ ابھی بہت تنگ کر رہا ہے ..بہت ہی سلو ہے .....رات بھی بیت گئی ہے ..پونے پانچ بجے اٹھنا بھی ہو تا ...کل یہاں سے ہی سلسلہ جوڑیں گے ..جہاں ابھی توڑ کر جا رہی ہوں ..

پس نوٹ ..

اپنے ہمراہ کمک کے طور پر سہراب کا نہ لائیے گا

یہ دیکھو اپنے لوگوں پر ٹینک چڑھا کر زمین خالی کر وا رہے ہیں

12993449_612982882183781_8245240548512168257_n.jpg
12998696_10209477230476637_7510792823529909580_n.jpg
 

Sohraab

Prime Minister (20k+ posts)


نادان جی! کچھ اور بڑوں سے بھی پوچھنے کی کوشش کی ہے حاضر خدمت ہے میرا تبصرہ پھر کسی اور وقت کے لئے اٹھائے رکھتے ہیں یہ بڑوں کی رمز شناسی ہے ہماری مجال کہاں


ذوالفقار علی بھٹو: عوامی لیڈر کے عدالتی قتل کو 35 برس بیت گئے

آج پاکستان کے سابق وزیراعظم اور ملک کی ایک اہم سیاسی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو کی 35ویں برسی ہے۔ انہیں عدالتی حکم پر چار اپریل 1979ء کو پھانسی دے دی گئی تھی۔[FONT=&amp]
[/FONT]

[FONT=&amp]سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کی 35 ویں برسی کے موقع پر آج ہزاروں کی تعداد میں ان کے چاہنے والے گڑھی خدابخش میں ان کی قبر پر حاضر ہوئے اور انہیں خراج تحسین پیش کیا۔ ان کے سیاسی پیروکار جنرل ضیاء الحق، اس وقت کے چیف جسٹس انوارالحق اور مولوی مشتاق کو ان کے عدالتی قتل کا ذمہ دارقرار دیتے ہیں۔
[FONT=&amp]فرانسسی خبر رساں ایجنسی اے ایف پی سے وابستہ سینیئر صحافی اشرف خان کہتے ہیں ذوالفقارعلی بھٹو کی پھانسی کو پینتیس برس ہوگئے مگران کا نام آج بھی زندہ ہے۔
[FONT=&amp]تجزیہ کار مظہر عباس کا کہنا ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو سے کچھ سیاسی غلطیاں ضرور ہوئیں مگر بھٹو کو پھانسی دینے والے ڈکٹیٹر جنرل ضیاء الحق کا پاکستانی سیاست میں ذکر بھی موجود نہیں ہے۔ بھٹو کا جب عدالت میں ٹرائل ہورہا تھا تو ان کے سینکڑوں حامی وہاں پہنچتے تھے۔ لیکن کسی فوجی ڈکٹیٹر کے ٹرائل کے موقع پر اس کی حمایت میں 150 آدمی بھی نہیں ہوتے جس کی مثال جنرل مشرف ہیں۔[/FONT]
0,,3026641_4,00.jpg

[FONT=&amp]ذوالفقار علی بھٹو کی صاحبزادی اور سابق وزیراعظم بے نظیر بھٹو 2007ء میں راولپنڈی میں قتل کر دی گئی تھیں
[/FONT]

[FONT=&amp]پاکسان پیپلزپارٹی کے بانی رکن اور ذوالفقار علی بھٹو کے معتمد ساتھی معراج محمد خان نے ڈوئچے ویلے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ بھٹو عظیم لیڈر تھا پاکستان کی سیاست بھٹو کے بغیر نا مکمل ہے۔
[/FONT]
[FONT=&amp]پیپلز پارٹی کے موجودہ چیئرمین بلاول بھٹو زرداری اورپیپلزپارٹی کی پوری قیادت کا بھی اس بات پر اتفاق ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو کا عدالتی قتل کیا گیا۔[/FONT][FONT=&amp]اسی باعث ذوالفقاربھٹو کا کیس ری اوپن کرنے کے لیے پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین اور سابق صدر آصف زرداری کے دور میں ایک صدارتی ریفرنس جاری کیا گیا تھا تاہم اب تک اس پر کوئی پیشرفت سامنے نہیں آئی۔ پیپلز پارٹی کے رہنماؤں کے مطابق سپریم کورٹ تاریخ کے آئینے میں اپنا ریکارڈ درست کرے اور ماضی کی غلطی پر معافی مانگتے ہوئے بھٹو قتل کیس کا انصاف پر مبنی فیصلہ جلد سنائے۔[/FONT][FONT=&amp]بلاول بھٹو نے گڑھی خدا بخش میں ذوالفقار علی بھٹو کی برسی کے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے ایک مرتبہ پھر کہا کہ ہمارا سب سے بڑا جرم یہ ہے کہ ہم نے بھٹو کا عدالتی قتل کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ بھٹو ایک فلسفے اور نظام کا نام ہے۔ انہوں نے کہا کہ قوم کو ایک اور بھٹو کا انتظار ہے۔
[/FONT]
[FONT=&amp]بھٹو مخالف سیاسی جماعتیں 1977ء کی تحریک میں بھٹو کے مظالم اور سیاسی مخالفین کو قتل کروانے کے الزامات لگاتی تھیں مگر ان کی سب سے بڑی سیاسی مخالف جماعت اسلامی کے رہنماء پروفیسر غفور احمد محروم، جنرل ضیاء کی کابینہ میں شامل ہونے کو اپنی جماعت کی سیاسی غلطی قرار دیتے تھے۔ انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ اگر بھٹو کو پھانسی نہ دی جاتی تو آج پاکستان سیاست کا منظر نامہ مختلف ہوتا۔[/FONT][FONT=&amp]ذوالفقار علی بھٹو کے آخری دور میں جو کچھ پاکستانی سیاست میں ہوا اس کی گواہی دینے کے لیے بہت کم لوگ زندہ ہیں جن میں سردار شیر باز مزاری عمر رسیدہ ہونے کی وجہ سے بستر علالت پر ہیں۔ وہ تمام تر مخالفت اور خامیوں کے باوجود اب بھی کو بھٹو کو ایک عظیم لیڈر مانتے ہیں۔ ان کے ہم عصر بلوچ رہنماء سردار عطااللہ مینگل اب بھی بھٹو کے حوالے سے کسی بھی قسم کی گفتگو کرنے سے گریزاں ہیں تاہم وہ بھی پاکستان کی اصل مشکلات کے ذمہ دار کسی سیاسی رہنما کی بجائے فوجی ڈکٹیٹرز کو قرار دیتے ہیں۔
[/FONT]
[FONT=&amp]
images
[/FONT]
[FONT=&amp]
http://www.dw.com/ur/



[/FONT]
[/FONT]

[/FONT]



میں نے کہا نہ کے آج آپ دلیل نام کی چیز کہیں بھول آئی ہیں آپ ابھی جا کر اس کو ڈھونڈیں پھر آئے گا ہم کہیں بھاگے نہیں جا رہے آپ کا یہ قوٹ مجھے ہنسا بھی رہا ہے اور خیر جانے دیں

forum par jo naami garami boot paalshiyee hain un ko to sab jante hain , lekin 3 naam aise hain jo asal main boot paalshiyee hain lekin woh chupe huay hain kuin ke woh bohut technique ke saath boot polish karte hain

yeh rahe woh 3 naam , Raaz , Aafaq Chaudhry , Nadan
 
Status
Not open for further replies.

Back
Top