ustadjejanab
Chief Minister (5k+ posts)
پرانی عادتوں میں خرابی یہ ہوتی ھے کہ ان سے جان چھڑانا مشکل نہیں اکثر نا ممکن ہی ہوتا ھے
اور اگر نیتوں میں فتور ھو پھر یہ کوشش جان لیوا بھی ہو سکتی ہے
دربار عالیہ نورا شریف کے ملنگوں اور گڑھی خدا بخش کے مجاوروں کے ساتھ ہمیشہ یہ معاملہ رہا کہ جب بھی ان کی کرپشن ، اقربا پروری یا فراڈ کی نشاندھی کی جاۓ یہ بجاۓ اپنی صفائی دینے کے جھٹ سے جوابی الزام لگا دیتے ہیں ..ایک لحاظ سے یہ ان کے جرم کا اقرار بھی ہوتا ہے کہ جی ہم نے تو لوٹا سو لوٹا ، آپ بھی تو اسی حمام میں موجود تھے
آسان الفاظ میں اسے نورا کشتی کہتے ہیں جو ہم گزشتہ کئی دھائیوں سے دیکھتے اور محظوظ ہوتے چلے آ رہے ہیں
یہ ملنگ اور مجاور اگر آپس میں یہ کھیل کھیلتے رہتے تو ہمیں کوئی اعتراض نہیں تھا لیکن ہمیں اس سے باہر ہی رکھا جاۓ تو بہتر ہے
اس سال دیئے جانے والے ہلال امتیاز میں جب بھاڑے کے ٹٹووں یعنی قاسمی اور عرفان صدیقی کو ہلال امتیاز دینے پر اعتراض کیا گیا تو نوروں نے حسب سابق اس کا جواب دینے کی بجاۓ زہرا شاہد مرحومہ کو ملنے والے ایوارڈ کا ذکر چھیڑ دیا کہ اگر انہیں ایوارڈ مل سکتا ہے تو راۓ ونڈ کے نمک خوار قلم فروشوں کو کیوں نہیں
مختصرا عرض یہ ھے کہ محترمہ زہرا شاہد مرحومہ کو تمغہ شجاعت تحریک انصاف سے وابستگی یا ایک سیاسی کارکن کی حیثیت سے نہیں بلکہ سماجی خدمات اور تعلیم کے شعبے میں ان کی گراں قدر خدمات کی بناء پر ملا ہے . .ساٹھ کی دہائی میں لندن سکول آف اکنامکس سے ماسٹرز کرنے کے بعد وہ پندرہ بیس برس تک کراچی یونیورسٹی اور دوسرے کئی تعلیمی اداروں میں تدریس کے شعبے سے وابستہ رہیں
بعد ازاں سندھ اور بالخصوص بلوچستان کے دیہات میں طویل عرصہ تک تعلیمی اور سماجی سرگرمیوں میں مصروف کار رہیں .. تمام زندگی انہوں نے ایک سوشل ورکر کی حیثیت سے غریب اور پسے ھوے طبقات میں تعلیمی شعور لانے کے لئے وقف کی جس کا اعتراف قومی اور بین الاقوامی ادارے مختلف مواقع پر کر چکے ہیں ..ان کی انہی خدمات کے سلسلے میں انہیں بعد از مرگ یہ ایوارڈ دیا جا رہا ھے
اس ایوارڈ کی سفارش بھی خصوصی کمیٹی نے کی ھے ورنہ وڈے نورے میں اتنی جرات کہاں کہ وہ اپنے تازہ ترین سیاسی رفیق الطاف بھائی کے براہ راست احکامات پر قتل ہونے والی اس سیاسی اور سماجی کارکن کو کوئی ایوارڈ دینے کے بارے میں سوچ بھی سکے کجا کہ وہ صدر کو ان کا نام بھیجے
