’جب آپریشن شروع ہوا تو ہم بنگالیوں کو ملعون کہتے تھے‘
1948
میں علی احمد خان کے گھر والے بغیر کسی جانی نقصان کے پاکستان ہجرت کر گئے تھے
'بیٹا اگر میرے ہاتھ میں بندوق ہو تو میں تین بنگالیوں کو گولی مار دوں ۔۔۔ پھر انھوں نے مجھے یہ کہا کہ کسی کو مت مارنا۔ اس لیے کہ اُس کی ماں کی اُتنی ہی تکلیف ہوگی جنتی مجھے ہو رہی ہے ۔۔۔ وہ ساری زندگی یہ ہی کہتی رہیں کہ کسی کی ماں کو دکھ مت دینا۔
1971 کی جنگ میں مشرقی پاکستان میں شوہر اور تین جوان بیٹوں کے قتل کا صدمہ جھیلنے کے لیے علی احمد خان کی ماں نے اپنے کلیجے پر پتھر نہیں، چٹانیں رکھی ہوں گی!
علی احمد خان بی بی سی اردو کے ہمارے سابق ساتھی ہیں۔ وہ آٹھ سال کے تھے جب ہندوستان تقسیم ہوا۔ان کا خاندان صدیوں پہلے افغانستان سے مشرقی اترپردیش کے ضلع غازی پور کے قصبے زمانیہ میں آ کر آباد ہوا تھا۔
علی احمد خان کی والدہ نے انھیں نصیحت کی کہ کسی کی ماں کو دکھ مت دینا
1948
میں ان کے گھر والے بغیر کسی جانی نقصان کے پاکستان ہجرت کر گئے مگر علی احمد خان کو اس ہجرت کی قیمت 1971 میں پاکستان کی تقسیم کے وقت چکانی پڑی۔تقسیم ہند کے وقت ان کے چچا رائل انڈین ایئرفورس میں ملازم تھے جب انھیں پاکستان یا ہندوستان کا انتخاب کرنے کو کہا گیا۔
علی احمد خان کے دادا نے بہتر مواقع کی امید پر پاکستان جانے کا مشورہ دیا۔اگرچہ ان کے والد پاکستان کے مخالف تھے مگر دادا، علی احمد خان اور ان کے چھوٹے بھائی کو والدین سے جدا کر کے کراچی لے آئے۔وہ کہتے ہیں کہ کراچی آ کر ان کے خاندان والوں میں نمود و نمائش کا عنصر غالب آگیا اور بہت سے لوگ اپنی حیثیت کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنے لگے۔
علی احمد خان کے والد پاکستان کے مخالف تھےجب وہ پشاور گئے تو وہاں انھیں مقامی بچوں سے دور رہنے کو کہا گیا اور پاکستان میں موجود معاشرتی اونچ نیچ اور طبقاتی تفریق نے ان کے معصوم ذہن کو بری طرح متاثر کیا۔اس دوران ان کے والد نے مشرقی پاکستان ہجرت کی اور ضلع دیناج پور میں سکونت اختیار کر کے بچوں کو اپنے پاس بلا لیا۔
1947 میں برِصغیر کے مسلمانوں کو علیحدہ وطن تو ملا مگر نسلی، سماجی اور سیاسی مساوات اور مذہبی رواداری کا خواب پورا نہ ہو سکا۔نتیجہ یہ ہوا کہ مذہب کے نام پر قائم ہونے والا ملک ایک بار پھر نسلی اور لسانی بنیادوں پر بٹ گیا۔علی احمد خان نے صحیح معنوں میں ڈھاکہ ڈوبتے اور اس کے ساتھ اپنے خاندان کو غرقاب ہوتے دیکھا۔
علی احمد خان کے دادا انھیں کراچی لے آئےمشرقی پاکستان میں سیاسی حالات بگڑے تو ان کے والد اور تین بھائی اس وقت کے پاکستانی رہنماؤں کی عاقبت نااندیشی کی بھینٹ چڑھ گئے اور بنگالی شدت پسند تنظیم مکتی باہنی کے ہاتھوں مارے گئے۔اس کے باوجود علی احمد خان بنگالیوں کو الزام نہیں دیتے بلکہ انھیں مظلوم سمجھتے ہیں۔ان کے بقول اگر آپ جمہوریت پر یقین رکھتے ہیں تو 1970 کے عام انتخابات میں زبردست اکثریت کے ساتھ کامیابی کے بعد شیخ مجیب کو اقتدار دیا جانا چاہیے تھا۔ 'ایسا نہیں ہوا اور بنگالیوں کا احساسِ محرومی اور بڑھ گیا۔'
وہ کہتے ہیں کہ غیر بنگالیوں کی بنگالیوں سے نفرت کا یہ عالم تھا کہ 'جب فوجی آپریشن شروع ہوا تو ہم بنگالیوں کو ملعون کہتے تھے۔
http://www.bbc.com/urdu/pakistan-41091083
1948
میں علی احمد خان کے گھر والے بغیر کسی جانی نقصان کے پاکستان ہجرت کر گئے تھے
'بیٹا اگر میرے ہاتھ میں بندوق ہو تو میں تین بنگالیوں کو گولی مار دوں ۔۔۔ پھر انھوں نے مجھے یہ کہا کہ کسی کو مت مارنا۔ اس لیے کہ اُس کی ماں کی اُتنی ہی تکلیف ہوگی جنتی مجھے ہو رہی ہے ۔۔۔ وہ ساری زندگی یہ ہی کہتی رہیں کہ کسی کی ماں کو دکھ مت دینا۔
1971 کی جنگ میں مشرقی پاکستان میں شوہر اور تین جوان بیٹوں کے قتل کا صدمہ جھیلنے کے لیے علی احمد خان کی ماں نے اپنے کلیجے پر پتھر نہیں، چٹانیں رکھی ہوں گی!
علی احمد خان بی بی سی اردو کے ہمارے سابق ساتھی ہیں۔ وہ آٹھ سال کے تھے جب ہندوستان تقسیم ہوا۔ان کا خاندان صدیوں پہلے افغانستان سے مشرقی اترپردیش کے ضلع غازی پور کے قصبے زمانیہ میں آ کر آباد ہوا تھا۔
علی احمد خان کی والدہ نے انھیں نصیحت کی کہ کسی کی ماں کو دکھ مت دینا
1948
میں ان کے گھر والے بغیر کسی جانی نقصان کے پاکستان ہجرت کر گئے مگر علی احمد خان کو اس ہجرت کی قیمت 1971 میں پاکستان کی تقسیم کے وقت چکانی پڑی۔تقسیم ہند کے وقت ان کے چچا رائل انڈین ایئرفورس میں ملازم تھے جب انھیں پاکستان یا ہندوستان کا انتخاب کرنے کو کہا گیا۔
علی احمد خان کے دادا نے بہتر مواقع کی امید پر پاکستان جانے کا مشورہ دیا۔اگرچہ ان کے والد پاکستان کے مخالف تھے مگر دادا، علی احمد خان اور ان کے چھوٹے بھائی کو والدین سے جدا کر کے کراچی لے آئے۔وہ کہتے ہیں کہ کراچی آ کر ان کے خاندان والوں میں نمود و نمائش کا عنصر غالب آگیا اور بہت سے لوگ اپنی حیثیت کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنے لگے۔
علی احمد خان کے والد پاکستان کے مخالف تھےجب وہ پشاور گئے تو وہاں انھیں مقامی بچوں سے دور رہنے کو کہا گیا اور پاکستان میں موجود معاشرتی اونچ نیچ اور طبقاتی تفریق نے ان کے معصوم ذہن کو بری طرح متاثر کیا۔اس دوران ان کے والد نے مشرقی پاکستان ہجرت کی اور ضلع دیناج پور میں سکونت اختیار کر کے بچوں کو اپنے پاس بلا لیا۔
1947 میں برِصغیر کے مسلمانوں کو علیحدہ وطن تو ملا مگر نسلی، سماجی اور سیاسی مساوات اور مذہبی رواداری کا خواب پورا نہ ہو سکا۔نتیجہ یہ ہوا کہ مذہب کے نام پر قائم ہونے والا ملک ایک بار پھر نسلی اور لسانی بنیادوں پر بٹ گیا۔علی احمد خان نے صحیح معنوں میں ڈھاکہ ڈوبتے اور اس کے ساتھ اپنے خاندان کو غرقاب ہوتے دیکھا۔
علی احمد خان کے دادا انھیں کراچی لے آئےمشرقی پاکستان میں سیاسی حالات بگڑے تو ان کے والد اور تین بھائی اس وقت کے پاکستانی رہنماؤں کی عاقبت نااندیشی کی بھینٹ چڑھ گئے اور بنگالی شدت پسند تنظیم مکتی باہنی کے ہاتھوں مارے گئے۔اس کے باوجود علی احمد خان بنگالیوں کو الزام نہیں دیتے بلکہ انھیں مظلوم سمجھتے ہیں۔ان کے بقول اگر آپ جمہوریت پر یقین رکھتے ہیں تو 1970 کے عام انتخابات میں زبردست اکثریت کے ساتھ کامیابی کے بعد شیخ مجیب کو اقتدار دیا جانا چاہیے تھا۔ 'ایسا نہیں ہوا اور بنگالیوں کا احساسِ محرومی اور بڑھ گیا۔'
وہ کہتے ہیں کہ غیر بنگالیوں کی بنگالیوں سے نفرت کا یہ عالم تھا کہ 'جب فوجی آپریشن شروع ہوا تو ہم بنگالیوں کو ملعون کہتے تھے۔
http://www.bbc.com/urdu/pakistan-41091083