ایلان مر گیا- روز مرتی ہوئی انسانیت کے لئے اپنی موت اور اس کے بعد ساحل پر اس کی تصویر کشی کے بعد شاید بہتوں کو وہ سکھا گیا جو مجھ سے تلچھٹ اٹھا کر کاغذ پر پوت دینے اور اسے تحریر کا نام دینے والے کبھی نہ سکھا پاییں- شاید کا لفظ اس لئے استعمال کیا کہ سیکھنا ہی تو معدوم ہوتا جا رہا ہے- چھوٹے بچے بہت بار ایسے ہی سوتے ہوئے پاے جاتے ہیں اور دیکھنے والوں کو اپنی معصومیت سے مبہوت کر دیتے ہیں جب کہ قریبی رشتہ داراور والدین قربان ہی جاتے ہیں مگر جب وہ اسی معصومیت سے معمور اور اسی انداز میں مگر زندگی سے خالی اور ریت پر پڑے ہوں تو دیکھنے والے کا (اگر وہ ذہنی طور پر انسان ہو تو) اعتبار انسانیت سے اٹھتا نہیں تو قائم بھی نہیں رہ پاتا-پتہ تو کسی کو بھی نہیں ہوتا کہ وہ آخری سفر پر جا رہا ہے لیکن جب کوئی ایسا معصوم راضی برضا ہو کر اپنی چھوٹی سی انگلی اپنے ماں یا باپ کے ہاتھ میں پکڑا دیتا ہے (اس بات سے بےنیاز ہو کر کہ انجام کیا ہو گا کیونکہ وہ انجام کی پروا ہی نہیں کرتا) کہ جہاں بھی لے جایئں گے سلامتی ہی ہوگی
اور جب موت آ لینے کو ہوتی ہے تو یہ کوئی نہیں جان سکتا کہ اس معصوم کی کیا کیفیت ہوگی- یہ بات البتہ طے ہے کہ شاید اس بچے کی بے یقینی، حیرت اور عدم سلامتی کے احساس کو الفاظ نہ تو بیان کر سکتے ہیں اور نہ ہی اس چھوٹے سے ذہن میں اس وقت موجود کبھی نہ حل ہونے والے سوالات کو تحریر میں لایا جا سکتا ہے- شاید الفاظ پر افسانوی گرفت رکھنے والا کوئی ایسی کوشش کر پاے مگر وہ بھی صرف کوشش ہی ہو گی اور ایلان کے ساتھ مزید زیادتی بھی کیونکہ وہ تو بہت ڈرا ہوا تھا اور بہت الجھا ہوا ہونے کے ساتھ ناقابل بیان تکلیف میں بھی- باپ پر بےپناہ یقین کے ساتھ ساتھ ایک چھوٹے سے بچے کا ٹوٹتا ہوا اعتبار کہ وہ اسے بچا نہیں سکتا یا بچانا نہیں چاہتا یا شاید کچھ اور- چند ہی لحظے میں تین سال کے بچے کا زندگی کی تلخ ترین حقیقتوں کی آگہی کا سفر اور پھر
سب کچھ معدوم ہو جانا کیا کوئی الفاظ کا بادشاہ بیان کر پاے گا؟
اس سب کی وجوہات اور پس منظر کو کیا بیان کروں؟ کیا باطل جہادی نظریات کی ترویج اور ان کی بے جا حمایت کا ذکر کروں یا دولت اسلامیہ کے جانباز سپاہیوں کی فتوحات کا جس کے نتیجہ میں ایلان اور اس جیسے کئی کو در بدر ہونا پڑا- کیا ذکر کروں کہ اسرائیل کی ریاست بری ہے کہ قبضہ کیے جاتی ہے اور جب جہاز سے بمباری کی جاتی ہے تو وہ بم تفریق نہیں کر پاتے کہ نیچے حماس کا حمایت یافتہ جنگجو کھڑا ہے یا کچھ دیر پہلے اسی جنگجو کے ہاتھوں زد و کوب ہو کر ہراساں ہوا بچہ؟ کیا اب بھی تمام کہانیاں سنائی جانا مقصود ہیں جب ہم نے اپنی ہی مٹی پر ایسے کئی معصوموں کا خون یکلخت بہتے دیکھا اور پھر عزم کا اظہار کیا
کہ اس سب سے ذاتی سطح پر بھی لڑیں گے؟ کیا ابھی بھی ایسے لوگوں کا ذکر کیا جائے اور یہ بتانے کی کوشش کی جائے کہ جناب یہ ہیں وہ لوگ جن کی وجہ سے یہ آگ و خون کا کھیل یہاں تک پہنچا اور نام دین اسلام کا استعمال ہوا؟ یا اس رومان کا ذکر کیا جائے جو ایسے جہاد کے نام پر ڈھونگ کرنے والوں سے منسوب ہے اور اس عمل میں بیگناہوں کے خون سے ہاتھ رنگنے کو بڑے مقاصد کے لئے چھوٹی قربانی سمجھ کر درگزر کر دیا جاتا ہے؟ ایسے اشخاص جو اعلانیہ طور پر ساری زندگی ان سب کی ہر ممکن حمایت چاہے وہ نظریاتی ہو یا عملی انہیں اس لئے خراج تحسین پیش کیا جائے کہ آپ کو غداری کی سند عطا نہ ہو جائے اور اس لئے کہ ساری عمر ایسے لوگ ایسے اقدامات کرتے رہے کہ بالآخر ہمیں نقصان ہی ہوا
اور صرف اپنی زبان سے اپنے آپ کو مخلص ثابت کرتے رہے؟ اس میں صرف ایک شخص نہیں کئی ایسے اشخاص آتے ہیں- اس سب کا ذکر کرنے کا فائدہ کیا ہے جب ہم بحیثیت مجموعی سدھرنے پر آمادہ ہی نہیں اور جب معاشرہ کے شعوری ارتقاء کی بات کی جائے تو عقیدہ اور مذہب سے بالاتر ہو کر اس کی طرف عملی قدم اٹھانے کی بجاے ضد پر اڑے رہنے کو تفاخر کا تمغہ سمجھا جاتا ہے- آج کل کے تقریباً تمام سنجیدہ قاریوں کو ان تمام پہلوؤں کا ادراک ہے بس کہیں پر ڈار سے بچھڑ جانے کا خوف، کہیں راندہ درگاہ قرار دیے جانے کا ڈر اور کہیں صرف وراثت میں ملے نظریات کی حفاظت کا احساس ہی تاریخ کے حقیقی نظر سے جائزہ اور معاشرتی ارتقاء کی جانب قدم بڑھانے سے روک دیتا ہے- کوئی کسر باقی رہ جائے تو تحقیق شروع ہونے سے پہلے یا اس کی سمت جانے بغیر ہی اس کے مذھب سے متصادم ہونے کا فتویٰ لگا دیا جاتا ہے تاکہ "برائی" کو سر ہی نہ اٹھانے دیا جائے-
ہم میں سے کئی ایسے بھی ہیں جو اس سب کی مذمت کرتے ہیں لیکن جب بات نظریاتی حمایت کی آتی ہے
تو ایسے واقعات کا سبب بننے والے لوگوں کا دفاع شد و مد سے کرتے ہیں- پھر جب ایلان جیسے معصوم زندگی کی بازی سے ہاتھ دھوتے ہیں تو ہمیں افسوس ہوتا ہی کیوں ہے؟ چھوڑئیے صاحب سب ٹھیک ہو جائے گا تو بچے اور بےقصور بھی مرنا بند ہو جاییں گے- یہ وقتی ہمدردی یا دل میں اتر آنے والا درد تو نظریات کو نقصان ہی پہنچاتا ہے نا؟ کیا ہوا جو ایلان نے سوچا ہوگا کہ سانس کیوں نہیں آ رہی، کوشش تو کرتا ہوں پر یہ ناقابل برداشت درد کیوں ہوتا ہے، ایسا درد اس وقت تو نہ ہوا تھا جب گھر سے پہلی دفعہ ماں باپ کے ساتھ بھاگا تھا، سانس بھی ایسے نہ رکتا تھا- پھر جب گھر کی بجاے اس عجیب سی جگہ پر رہنا پڑا اور کھانے کو بھی وہ برا سا کھانا ملنے لگا تو بھی ایسی تکلیف تو نہ ہوتی تھی-
کیا ہوا جو اس نے تکلیف کی شدت سے اپنے چھوٹے چھوٹے ہاتھوں سے پانی کو ایسے پکڑا ہو گا کہ سمندر کا سینہ بھی شق ہو گیا ہوگا مگر سمندر تو جس انسان کو بھی اپنے اندر سموتا ہے وہ جانبر نہیں ہو سکتا پر اس گرفت پر تو سمندر بھی رو پڑا ہوگا- شاید یہ سمندر کے آنسوؤں کی زیادتی ہی تھی جس کے نتیجہ میں وجود میں آنے والی موجوں نے بالآخر ایلان کو ساحل پر دھکیل دیا-
پھر دنیا میں اور سوشل میڈیا پر اس تصویر کو جگہ جگہ شیئر کیا جانے لگا اور لوگوں نے اپنے غم و غصہ کا اظہار شروع کر دیا- کیا ہم یہ سمجھیں کہ اس تصویر اور اس سے جڑے واقعہ نے عالمی شعور کو جھنجوڑ دیا ہے؟ ایسا بالکل نہیں ہے- یہ تصویر بار بار دکھانا اور اس پر جذبات کا اظہار جبکہ مقتدر طبقات کی جانب سے مختلف بیانات صرف ایک ایسے رجحان کا تسلسل ہیں جو دنیا میں کچھ عرصۂ سے فروغ پا چکا ہے- ایسے کئی واقعیات کئی دفعہ رونما ہو چکے ہیں لیکن وہ سب ماضی کی خاک اور قصّہ پارینہ بن کر رہ گئے- فلسطینی بچے ہوں یا روہنگیا یا پھر یہ واقعہ، سب اچانک مشتہر ہوتا ہے اور چند ہی گھنٹوں میں لوگ معلومات اور نئی سے نئی خبروں کے جنون میں سب بھول جاتے ہیں- وہ درد، وہ تکلیف اور وہ جذبات کسی نئی بات پر مرتکز ہو جاتے ہیں- نیوزچینلز اور سوشل میڈیا نے عالمی معاشرہ کو تقریباً بے حس ہی کر دیا ہے- اس بات میں کوئی شک نہیں کہ بہت سے لوگ اب بھی حقیقی جذبات رکھتے ہیں لیکن عام طور پر جذبات کے اظہار کو ہی اصل کیفیت سمجھ لیا جاتا ہے-
اور پھر اس سب سے کیا حاصل؟ جب بھی کچھ ایسا ہونا شروع ہوتا ہے جس کے نتیجہ میں ایسے دلخراش سانحات وقوع پذیر ہوتے ہیں،اسی طرح شور مچایا جاتا ہے لیکن کرنے والے اپنی کاروائیاں پوری کر کے ہی دم لیتے ہیں اور پھر یہ تاثر پیدا کیا جاتا ہے کہ شاید اس طریقہ سے آواز بلند کرنے سے ہی فرق پڑا ہے- یہ سب کہنے کا مقصد یہ نہیں کے ایسا کیا نہیں جانا چاہیے مگر اس بات کی نشاندہی کرنا ہے کہ کوئی بھی عملی قدم اٹھانے کی بجاے صرف شور مچانے تک ہی محدود رہا جاتا ہے
اور وقت گزرنے کے ساتھ یہ بے حسی بڑھتی جا رہی ہے اور سوچنے والوں کے لئے یہ اندازہ لگانا محال نہیں کہ ایسی بے حسی کہاں منتج ہوتی ہے- ہم آج کل ہی دیکھتے ہیں کہ کوئی واقعہ رونما ہوتا ہے تو لوگوں کی اکثریت مدد کی بجاے اپنے فون نکال کر اسے فلم بند کرنے میں مصروف ہو جاتی ہے- تو یہ سب شیئر ضرور کیجئے مگر احساس کی موت نہ ہونے دیجئے ورنہ ہم ہی نہیں آنے والی نسلیں بھی ایسے کئی ایلان دیکھتی رہیں گی-
SOURCE
اور جب موت آ لینے کو ہوتی ہے تو یہ کوئی نہیں جان سکتا کہ اس معصوم کی کیا کیفیت ہوگی- یہ بات البتہ طے ہے کہ شاید اس بچے کی بے یقینی، حیرت اور عدم سلامتی کے احساس کو الفاظ نہ تو بیان کر سکتے ہیں اور نہ ہی اس چھوٹے سے ذہن میں اس وقت موجود کبھی نہ حل ہونے والے سوالات کو تحریر میں لایا جا سکتا ہے- شاید الفاظ پر افسانوی گرفت رکھنے والا کوئی ایسی کوشش کر پاے مگر وہ بھی صرف کوشش ہی ہو گی اور ایلان کے ساتھ مزید زیادتی بھی کیونکہ وہ تو بہت ڈرا ہوا تھا اور بہت الجھا ہوا ہونے کے ساتھ ناقابل بیان تکلیف میں بھی- باپ پر بےپناہ یقین کے ساتھ ساتھ ایک چھوٹے سے بچے کا ٹوٹتا ہوا اعتبار کہ وہ اسے بچا نہیں سکتا یا بچانا نہیں چاہتا یا شاید کچھ اور- چند ہی لحظے میں تین سال کے بچے کا زندگی کی تلخ ترین حقیقتوں کی آگہی کا سفر اور پھر
سب کچھ معدوم ہو جانا کیا کوئی الفاظ کا بادشاہ بیان کر پاے گا؟
اس سب کی وجوہات اور پس منظر کو کیا بیان کروں؟ کیا باطل جہادی نظریات کی ترویج اور ان کی بے جا حمایت کا ذکر کروں یا دولت اسلامیہ کے جانباز سپاہیوں کی فتوحات کا جس کے نتیجہ میں ایلان اور اس جیسے کئی کو در بدر ہونا پڑا- کیا ذکر کروں کہ اسرائیل کی ریاست بری ہے کہ قبضہ کیے جاتی ہے اور جب جہاز سے بمباری کی جاتی ہے تو وہ بم تفریق نہیں کر پاتے کہ نیچے حماس کا حمایت یافتہ جنگجو کھڑا ہے یا کچھ دیر پہلے اسی جنگجو کے ہاتھوں زد و کوب ہو کر ہراساں ہوا بچہ؟ کیا اب بھی تمام کہانیاں سنائی جانا مقصود ہیں جب ہم نے اپنی ہی مٹی پر ایسے کئی معصوموں کا خون یکلخت بہتے دیکھا اور پھر عزم کا اظہار کیا
کہ اس سب سے ذاتی سطح پر بھی لڑیں گے؟ کیا ابھی بھی ایسے لوگوں کا ذکر کیا جائے اور یہ بتانے کی کوشش کی جائے کہ جناب یہ ہیں وہ لوگ جن کی وجہ سے یہ آگ و خون کا کھیل یہاں تک پہنچا اور نام دین اسلام کا استعمال ہوا؟ یا اس رومان کا ذکر کیا جائے جو ایسے جہاد کے نام پر ڈھونگ کرنے والوں سے منسوب ہے اور اس عمل میں بیگناہوں کے خون سے ہاتھ رنگنے کو بڑے مقاصد کے لئے چھوٹی قربانی سمجھ کر درگزر کر دیا جاتا ہے؟ ایسے اشخاص جو اعلانیہ طور پر ساری زندگی ان سب کی ہر ممکن حمایت چاہے وہ نظریاتی ہو یا عملی انہیں اس لئے خراج تحسین پیش کیا جائے کہ آپ کو غداری کی سند عطا نہ ہو جائے اور اس لئے کہ ساری عمر ایسے لوگ ایسے اقدامات کرتے رہے کہ بالآخر ہمیں نقصان ہی ہوا
اور صرف اپنی زبان سے اپنے آپ کو مخلص ثابت کرتے رہے؟ اس میں صرف ایک شخص نہیں کئی ایسے اشخاص آتے ہیں- اس سب کا ذکر کرنے کا فائدہ کیا ہے جب ہم بحیثیت مجموعی سدھرنے پر آمادہ ہی نہیں اور جب معاشرہ کے شعوری ارتقاء کی بات کی جائے تو عقیدہ اور مذہب سے بالاتر ہو کر اس کی طرف عملی قدم اٹھانے کی بجاے ضد پر اڑے رہنے کو تفاخر کا تمغہ سمجھا جاتا ہے- آج کل کے تقریباً تمام سنجیدہ قاریوں کو ان تمام پہلوؤں کا ادراک ہے بس کہیں پر ڈار سے بچھڑ جانے کا خوف، کہیں راندہ درگاہ قرار دیے جانے کا ڈر اور کہیں صرف وراثت میں ملے نظریات کی حفاظت کا احساس ہی تاریخ کے حقیقی نظر سے جائزہ اور معاشرتی ارتقاء کی جانب قدم بڑھانے سے روک دیتا ہے- کوئی کسر باقی رہ جائے تو تحقیق شروع ہونے سے پہلے یا اس کی سمت جانے بغیر ہی اس کے مذھب سے متصادم ہونے کا فتویٰ لگا دیا جاتا ہے تاکہ "برائی" کو سر ہی نہ اٹھانے دیا جائے-
ہم میں سے کئی ایسے بھی ہیں جو اس سب کی مذمت کرتے ہیں لیکن جب بات نظریاتی حمایت کی آتی ہے
تو ایسے واقعات کا سبب بننے والے لوگوں کا دفاع شد و مد سے کرتے ہیں- پھر جب ایلان جیسے معصوم زندگی کی بازی سے ہاتھ دھوتے ہیں تو ہمیں افسوس ہوتا ہی کیوں ہے؟ چھوڑئیے صاحب سب ٹھیک ہو جائے گا تو بچے اور بےقصور بھی مرنا بند ہو جاییں گے- یہ وقتی ہمدردی یا دل میں اتر آنے والا درد تو نظریات کو نقصان ہی پہنچاتا ہے نا؟ کیا ہوا جو ایلان نے سوچا ہوگا کہ سانس کیوں نہیں آ رہی، کوشش تو کرتا ہوں پر یہ ناقابل برداشت درد کیوں ہوتا ہے، ایسا درد اس وقت تو نہ ہوا تھا جب گھر سے پہلی دفعہ ماں باپ کے ساتھ بھاگا تھا، سانس بھی ایسے نہ رکتا تھا- پھر جب گھر کی بجاے اس عجیب سی جگہ پر رہنا پڑا اور کھانے کو بھی وہ برا سا کھانا ملنے لگا تو بھی ایسی تکلیف تو نہ ہوتی تھی-
کیا ہوا جو اس نے تکلیف کی شدت سے اپنے چھوٹے چھوٹے ہاتھوں سے پانی کو ایسے پکڑا ہو گا کہ سمندر کا سینہ بھی شق ہو گیا ہوگا مگر سمندر تو جس انسان کو بھی اپنے اندر سموتا ہے وہ جانبر نہیں ہو سکتا پر اس گرفت پر تو سمندر بھی رو پڑا ہوگا- شاید یہ سمندر کے آنسوؤں کی زیادتی ہی تھی جس کے نتیجہ میں وجود میں آنے والی موجوں نے بالآخر ایلان کو ساحل پر دھکیل دیا-
پھر دنیا میں اور سوشل میڈیا پر اس تصویر کو جگہ جگہ شیئر کیا جانے لگا اور لوگوں نے اپنے غم و غصہ کا اظہار شروع کر دیا- کیا ہم یہ سمجھیں کہ اس تصویر اور اس سے جڑے واقعہ نے عالمی شعور کو جھنجوڑ دیا ہے؟ ایسا بالکل نہیں ہے- یہ تصویر بار بار دکھانا اور اس پر جذبات کا اظہار جبکہ مقتدر طبقات کی جانب سے مختلف بیانات صرف ایک ایسے رجحان کا تسلسل ہیں جو دنیا میں کچھ عرصۂ سے فروغ پا چکا ہے- ایسے کئی واقعیات کئی دفعہ رونما ہو چکے ہیں لیکن وہ سب ماضی کی خاک اور قصّہ پارینہ بن کر رہ گئے- فلسطینی بچے ہوں یا روہنگیا یا پھر یہ واقعہ، سب اچانک مشتہر ہوتا ہے اور چند ہی گھنٹوں میں لوگ معلومات اور نئی سے نئی خبروں کے جنون میں سب بھول جاتے ہیں- وہ درد، وہ تکلیف اور وہ جذبات کسی نئی بات پر مرتکز ہو جاتے ہیں- نیوزچینلز اور سوشل میڈیا نے عالمی معاشرہ کو تقریباً بے حس ہی کر دیا ہے- اس بات میں کوئی شک نہیں کہ بہت سے لوگ اب بھی حقیقی جذبات رکھتے ہیں لیکن عام طور پر جذبات کے اظہار کو ہی اصل کیفیت سمجھ لیا جاتا ہے-
اور پھر اس سب سے کیا حاصل؟ جب بھی کچھ ایسا ہونا شروع ہوتا ہے جس کے نتیجہ میں ایسے دلخراش سانحات وقوع پذیر ہوتے ہیں،اسی طرح شور مچایا جاتا ہے لیکن کرنے والے اپنی کاروائیاں پوری کر کے ہی دم لیتے ہیں اور پھر یہ تاثر پیدا کیا جاتا ہے کہ شاید اس طریقہ سے آواز بلند کرنے سے ہی فرق پڑا ہے- یہ سب کہنے کا مقصد یہ نہیں کے ایسا کیا نہیں جانا چاہیے مگر اس بات کی نشاندہی کرنا ہے کہ کوئی بھی عملی قدم اٹھانے کی بجاے صرف شور مچانے تک ہی محدود رہا جاتا ہے
اور وقت گزرنے کے ساتھ یہ بے حسی بڑھتی جا رہی ہے اور سوچنے والوں کے لئے یہ اندازہ لگانا محال نہیں کہ ایسی بے حسی کہاں منتج ہوتی ہے- ہم آج کل ہی دیکھتے ہیں کہ کوئی واقعہ رونما ہوتا ہے تو لوگوں کی اکثریت مدد کی بجاے اپنے فون نکال کر اسے فلم بند کرنے میں مصروف ہو جاتی ہے- تو یہ سب شیئر ضرور کیجئے مگر احساس کی موت نہ ہونے دیجئے ورنہ ہم ہی نہیں آنے والی نسلیں بھی ایسے کئی ایلان دیکھتی رہیں گی-
SOURCE
- Featured Thumbs
- https://pbs.twimg.com/media/CN5VtdsUsAAr02T.jpg
Last edited by a moderator: