Mujahid Ali Awan
Minister (2k+ posts)
بیگم: مہنگائی بہت ہوگئی ہے، میرا خرچہ بڑھائیں
شوہر: میری تنخواہ اتنی کی اتنی ہے، کہاں سے بڑھاؤں؟
بیگم: ساری دنیا کی تنخواہیں بڑھتی ہیں، آپ کی تنخواہ وہیں کی وہیں رہتی ہے
شوہر: کہنا کیا چاہتی ہو؟ میں تم سے تنخواہ چھپاتا ہوں؟
بیگم: ہوسکتا ہے، آپ سے کچھ بعید نہیں
شوہر: زبان سنبھال کر بات کرو، مجھے تمہارے باپ نے نوکری نہیں دلوائی تھی کہ جس میں ہر سال تنخواہ بڑھتی
بیگم: میرے باپ کو بیچ میں لائے تو میری زبان بھی چپ نہیں رہے گی
شوہر: کیا کہو گی؟
بیگم: آپ کے باپ نے بھی میرے لئے کوئی خزانے نہیں چھوڑے کہ جن سے میں گھر کا خرچہ چلا سکوں
شوہر نے بیگم کے زناٹے دار تھپڑ رسید کیا، بیگم اٹھی اور اس نے اٹیچی کیس میں اپنے کپڑے پیک کرنا شروع کردیئے ۔ ۔ ۔ شوہر دفتر چلا گیا اور بیگم کپڑے پیک کرتی رہی۔
شام کو گھر آیا تو بیگم اور شوہر دونوں کا منہ بنا ہوا تھا ۔ ۔ ۔ کھانا چپ چاپ خاموشی سے کھایا، خبریں سنیں، بچوں کو بستر پر لٹایا اور خود بھی بستر پر چلے گئے۔
تھوڑی دیر خاموشی سے گزری، پھر شوہر نے بیگم کو ٹہوکا دیا ۔ ۔ بیگم نے ناراضگی سے منہ دوسری طرف پھیر لیا، شوہر نے پھر ہاتھ بڑھا کر بیگم کا کندھا اپنی طرف کھینچا۔
بیگم (کسلمندی سے): بچے جاگ جائیں گے
شوہر: پہلے کبھی جاگے ہیں جو آج جاگیں گے
بیگم: لائٹ جانے والی ہے، خوامخواہ تنگی ہوگی
شوہر: یو پی ایس کی بیٹری نئی ہے، پنکھا چلتا رہے گا، پسینہ نہیں آئے گا
بیگم: صبح جلدی اٹھنا ہے
شوہر: الارم لگا لیں گے
بیگم: میرے سر میں درد ہے
شوہر: تھوڑی دیر بعد ٹھیک ہوجائے گی
بیگم: اچھا چلیں جلدی کرلیں
شوہر: لیمپ کی لائٹ بند کرکے بیگم کے پاس پہنچ گیا ۔ ۔ ۔
اگلی صبح بیگم نے پھر خرچے کا مطالبہ کردیا اور ایک مرتبہ پھر بات پیکنگ تک پہنچ گئی۔
یہ کہانی پاکستان کے گھر گھر کی ہے، ایک طرف میاں بیوی کی سارا سال لڑائی رہتی ہے، دوسری طرف ہر سال ایک عدد بچہ بھی پیدا کرلیتے ہیں۔
یہی حال جماعت اسلامی کا بھی ہے ۔ ۔ ۔ ہر وقت ن لیگ اور پیپلزپارٹی کی لوٹ مار اور کرپشن کا رونا روتی رہتی ہے لیکن جونہی رات ہوتی ہے، ن لیگ یا پی پی والے جماعت اسلامی کو ٹہوکا دیتے ہیں، تو تھوڑی سی ناراضگی کے بعد جماعت اسلامی فوراً بتی بھجا کر ان کی بانہوں میں چلی جاتی ہے ۔ ۔ ۔ اگلی صبح پھر کرپٹ سیاستدانوں کے خلاف کاروائی کا مطالبہ کرتی نظر آتی ہے ۔ ۔
ساری دنیا جانتی تھی کہ کل کی افطاری مریم اور بلاول کی ' ابا بچاؤ تحریک ' تھی، جس میں ملا فضلو اس لئے شامل تھا کہ ان دونوں جماعتوں کو اقتدار دلا کر پرانی بہاروں کا مزہ دوبارہ لوٹ سکے۔ جماعت اسلامی والے بتائیں کہ ان کا اپوزیشن کے الائنس میں شامل ہونے کا کیا مقصد تھا؟ کیا یہ بھی نوازشریف اور زرداری کو بچانے کی جدوجہد میں شامل ہیں؟
یقینناً یہی بات ہوگی ۔ ۔ ۔ جس طرح بیگم کا اپنا دل آدھی رات کو گڑمچو، گڑمچو کررہا ہوتا ہے اور پھر وہ مچل کر شوہر کی بانہوں میں چلی جاتی ہے، بالکل اسی طرح جماعت اسلامی کا دل بھی ن لیگ اور پی پی کے قدموں میں لوٹنے کو مچل رہا ہوتا ہے۔
پھر بھی یہ لوگ حیران ہوتے ہیں کہ انہیں 592 ووٹ کیوں ملتے ہیں!!!
شوہر: میری تنخواہ اتنی کی اتنی ہے، کہاں سے بڑھاؤں؟
بیگم: ساری دنیا کی تنخواہیں بڑھتی ہیں، آپ کی تنخواہ وہیں کی وہیں رہتی ہے
شوہر: کہنا کیا چاہتی ہو؟ میں تم سے تنخواہ چھپاتا ہوں؟
بیگم: ہوسکتا ہے، آپ سے کچھ بعید نہیں
شوہر: زبان سنبھال کر بات کرو، مجھے تمہارے باپ نے نوکری نہیں دلوائی تھی کہ جس میں ہر سال تنخواہ بڑھتی
بیگم: میرے باپ کو بیچ میں لائے تو میری زبان بھی چپ نہیں رہے گی
شوہر: کیا کہو گی؟
بیگم: آپ کے باپ نے بھی میرے لئے کوئی خزانے نہیں چھوڑے کہ جن سے میں گھر کا خرچہ چلا سکوں
شوہر نے بیگم کے زناٹے دار تھپڑ رسید کیا، بیگم اٹھی اور اس نے اٹیچی کیس میں اپنے کپڑے پیک کرنا شروع کردیئے ۔ ۔ ۔ شوہر دفتر چلا گیا اور بیگم کپڑے پیک کرتی رہی۔
شام کو گھر آیا تو بیگم اور شوہر دونوں کا منہ بنا ہوا تھا ۔ ۔ ۔ کھانا چپ چاپ خاموشی سے کھایا، خبریں سنیں، بچوں کو بستر پر لٹایا اور خود بھی بستر پر چلے گئے۔
تھوڑی دیر خاموشی سے گزری، پھر شوہر نے بیگم کو ٹہوکا دیا ۔ ۔ بیگم نے ناراضگی سے منہ دوسری طرف پھیر لیا، شوہر نے پھر ہاتھ بڑھا کر بیگم کا کندھا اپنی طرف کھینچا۔
بیگم (کسلمندی سے): بچے جاگ جائیں گے
شوہر: پہلے کبھی جاگے ہیں جو آج جاگیں گے
بیگم: لائٹ جانے والی ہے، خوامخواہ تنگی ہوگی
شوہر: یو پی ایس کی بیٹری نئی ہے، پنکھا چلتا رہے گا، پسینہ نہیں آئے گا
بیگم: صبح جلدی اٹھنا ہے
شوہر: الارم لگا لیں گے
بیگم: میرے سر میں درد ہے
شوہر: تھوڑی دیر بعد ٹھیک ہوجائے گی
بیگم: اچھا چلیں جلدی کرلیں
شوہر: لیمپ کی لائٹ بند کرکے بیگم کے پاس پہنچ گیا ۔ ۔ ۔
اگلی صبح بیگم نے پھر خرچے کا مطالبہ کردیا اور ایک مرتبہ پھر بات پیکنگ تک پہنچ گئی۔
یہ کہانی پاکستان کے گھر گھر کی ہے، ایک طرف میاں بیوی کی سارا سال لڑائی رہتی ہے، دوسری طرف ہر سال ایک عدد بچہ بھی پیدا کرلیتے ہیں۔
یہی حال جماعت اسلامی کا بھی ہے ۔ ۔ ۔ ہر وقت ن لیگ اور پیپلزپارٹی کی لوٹ مار اور کرپشن کا رونا روتی رہتی ہے لیکن جونہی رات ہوتی ہے، ن لیگ یا پی پی والے جماعت اسلامی کو ٹہوکا دیتے ہیں، تو تھوڑی سی ناراضگی کے بعد جماعت اسلامی فوراً بتی بھجا کر ان کی بانہوں میں چلی جاتی ہے ۔ ۔ ۔ اگلی صبح پھر کرپٹ سیاستدانوں کے خلاف کاروائی کا مطالبہ کرتی نظر آتی ہے ۔ ۔
ساری دنیا جانتی تھی کہ کل کی افطاری مریم اور بلاول کی ' ابا بچاؤ تحریک ' تھی، جس میں ملا فضلو اس لئے شامل تھا کہ ان دونوں جماعتوں کو اقتدار دلا کر پرانی بہاروں کا مزہ دوبارہ لوٹ سکے۔ جماعت اسلامی والے بتائیں کہ ان کا اپوزیشن کے الائنس میں شامل ہونے کا کیا مقصد تھا؟ کیا یہ بھی نوازشریف اور زرداری کو بچانے کی جدوجہد میں شامل ہیں؟
یقینناً یہی بات ہوگی ۔ ۔ ۔ جس طرح بیگم کا اپنا دل آدھی رات کو گڑمچو، گڑمچو کررہا ہوتا ہے اور پھر وہ مچل کر شوہر کی بانہوں میں چلی جاتی ہے، بالکل اسی طرح جماعت اسلامی کا دل بھی ن لیگ اور پی پی کے قدموں میں لوٹنے کو مچل رہا ہوتا ہے۔
پھر بھی یہ لوگ حیران ہوتے ہیں کہ انہیں 592 ووٹ کیوں ملتے ہیں!!!