WatanDost
Chief Minister (5k+ posts)
Re: یوم شہادت امیرالمومنین حضرت علی علیہ الس&a
اتر گئی تیری ساری ملمع سازی پتہ نہیں کہاں سے حدیث کا گھریلو ساختہ ایک جعلی صفحہ جس میں نہ صفحہ کا نمبر نہ کتاب کا نام جبکہ میں نے جو عکس لگایا ہے اس میں تیری بخاری کانام صفحہ نمبر تک ہے اپنی خود ساختہ سکین میں بریکٹ لگاکر بوسے اورمباثرت کے مطلب کو جسم سے لگانے کا اضافہ لگا کر جعل سازی کا مرتکب ہوا ہے تو
مباثرت یا یباثر کے لغت میں ہرگز وہ مطلب یا ترجمہ نہیں
اب اگر تیری خود ساختہ مباثرت کے معنی کو بحث برائے بحث مان بھی لیا جائے تو روزہ کا سارا فلسفہ ہی زمیں بوس ہوجاتا ہے روزہ نام ہے اپنے نفس کو قابو میں رکھنے کا کیا توھین رسالت کا مرتکب ہوا ہے تو نعوذبا اللہ، استغفر اللہ نقل کفر،کفر نہ باشد جو نبی(ص) معلم اخلاق، قران و حکمت کی تعلیم دینے والا ہمارے نفسوں کو پا ک اور ان پر اپنا تصرف رکھنے والے کا استغفراللہ خود اپنا نفس کنڑول میں نہ اورحالت روزہ میں راپنی بیویوں کے بوسے اور ان کے جسموں کو ٹٹو لتا تھا یا اللہ مجھے معاف کرنا استغفر اللہ،استغفر اللہ، استغفر اللہ
اورہاں میں نے پہلے بھی کہا ہے سوا ل ہم کریں گے جواب اورصفائی تیرے ذمہ
یہ ہے اصل
![]()
اور یہ ہے تیری جعلسازی بریکٹ لگا کر
![]()
بخاری کی روزے کی حالت مباشرت والی حدیث کی حقیقت:
جن لوگوں نے طے کرلیا ہے کہ احادیث کے تمام ذخیرہ کو کسی نہ کسی ناقابل اعتبار ٹھیرا کر دین کا حلیہ بگاڑ دیں گے اور قرآن کو من مانے مفاہیم کا جامعہ پہنائیں گے، انکا مشغلہ ہی یہ ہوتا ہے کہ جس طرح ہوسکے احادیث کے غلط سلط معانی مشہور کریں اور لوگوں کے قلوب و اذہان میں وسوسے ڈالیں۔
صحیح بخاری کی کتاب الصوم میں یہ حدیث ہے:
عن عائشہ قالت کان النبی صلی اللہ علیہ وسلم یقبل ویباشر وھو صائم وکان املکم لاربہ
ترجمہ: حضرت عائشہؓ نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ روزے کی حالت میں بوسے بھی لیتے تھے اور مباشرت بھی فرماتے تھے اور وہ تم سب سے زیادہ ضبط نفص پر قادر تھے۔
اس روایت کو کسی معترض کو لفظ مباشرت نظر آیا اور پھر اسکو یہ دیکھنے کی ضرورت نہیں ہوئی کہ عنوان بان کیا ہے ؟ اسی عنوان میں خود حضرت عائشہؓ ہی زبان مبارک سے مباشرت کی تشریح موجود ہے اور روایت کا سیاق و سباق کیا کہ رہا ہے، اسکو تو احادیث کا مضحکہ اڑانے اور کم علم عوام کو وسوسوں میں مبتلا کرنے سے کام ہے۔ ذرا دیکھئے عنوان باب کیا ہے صحیح بخاری میں جسکے تحت یہ حدیث آتی ہے۔
المباشرۃ للصائم وقالت عائشہ یحرم علیہ فرجھا۔
ترجمہ: باب روزے دار کے لئے جواز مباشرت میں۔ اور حضرت عائشہؓ نے فرمایا کے روزے دار پر عورت کی فرج حرام کردی گئی ہے۔
اندازہ کیجئے کیا کسی احمق سے احمق آدمی کو بھی یہ گمان ہوسکتا ہے کہ یہاں مباشرت سے مراد وطی (صحبت) ہے۔ اگر یہی مراد ہوتی تو ساتھ ساتھ مباشرت کی تشریح میں حضرت عائشہؓ کے ارشاد کی کیا تک تھی۔نیز یہ کس کے تصور میں آسکتا ہے کہ روزے کی حالت میں حرمت وطی کے صریح حکم قرآنی کے ہوتے ہوئے کوئی امام بخاری رحمہ اللہ جیسے مسلمہ امام تو کیا ایک معمولی عالم بھی یہ حماقت کرسکتا ہے، کہ اپنی کتاب میں جواز وطی فی الصوم کا عنوان باندھے۔ اور اگر یہ حماقت کسی سے عالم دیونگی میں سرزد ہو ہی جائے تو سینکڑوں برس کی تمام امت مسلمہ اتنی پاگل کیسے ہوسکتی ہے کہ ایسے احمق و دیوانے کو اپنا سرتاج مان کر اسکی کتاب کو اصح الکتاب بعد ازکتاب اللہ کا درجہ دیدے۔ ظاہر ہے اس عنوان کے بعد کسی کو شک و شبہ کی گنجائش ہی نہیں رہتی کہ مباشرت کا مطلب وطی لیا جائے۔ اس لئے شروع سے آج تک کسی معروف و مستند عالم نے اسطرح کا شبہ نہیں کیا۔
آگے حدیث پر نظر کیجئے۔ اگر یباشر کا مطلب یہ ہوتا کہ حضور ﷺ حالت صوم میں بیویوں کے ساتھ وطی بھی فرمالیتے تو بوسہ لینے کی بات حضرت عائشہ کیوں فرماتی۔ ظاہر ہے کہ اگر وطی ہی تک نوبت ہنچ جاتی تو بوس و کنار کس شمار رہ جاتے ہیں۔ پھر وکان وکان املکم لاربہ بھی مہمل ہوجاتا ہے، اگر مباشرت کا مفہوم وطی ہے۔ یہ جملہ اسی لئے تو کہا گیا تھا کہ حضور ﷺ باوجود بوسے لینے اور جسم کا لمس کرنے کے نفس پر اس قدر قادر تھے کہ شہوانی جذبہ نہیں بھڑکتا تھا، لیکن تم سب اتنے ضابط اور قادر علی النفس نہیں ہوسکتے ہو، لہذہ بہتر ہے کہ بوس وکنار وغیرہ سے پرھیز کرو۔ اب جو شخص مباشرت کے معنی یہاں وطی لینے پر تلا ہوا ہے، وہ بتائے کہ وطی کے بعد کونسا درجہ رہ جاتا ہے جسکے لئے قدرت علی النفس اور حوائج پر کنٹرول کا سبق آموذ تذکرہ کرنا حضرت عائشہؓ نے ضروری سمجھا۔ یعنی حضور ﷺ نے اگر وطی ہی کی ہوتی تو اس جملے کا صدور ہی ممکن نہ تھا۔ افسوس ہے ان لوگوں پر جو یا سخت قسم کے جہل کی رو میں یا پھر سوچی سمجھی عداوت حدیث کے تحت ام المونین حضرت عائشہؓ اور سرور کونین ﷺ کے آبرو تک سے کھیلنے میں دریغ نہیں کرتے۔
ایسے موقع پر یہ لوگ کہا کرتے ہیں کہ اچھا مان لیا مطلب وہ نہیں ہے جو ظاہری لفظ سے سمجھ میں آرہا ہے، لیکن ایسی ظاہر فریب اور وحشتناک روایت کو محفوظ کرنے کی ضرورت ہی کیا تھی؟ تو جواب یہ ہے کہ فاسد ذہنوں کی وحشت و فریب خوردگی کا لحاظ کیا جاتا تو آج امت ان تمام صنفی و جنسی مسائل کی شرعی حیثیت سے بے خبر ہوتی جنھیں اہل علم و اجتہاد نے اسی طرح کی روایات سے اخذ کیا ہے۔
روزے میں کیا کس حد تک جائز ہے اور کیا کس حد تک حرام۔ اسکی ٹھیک ٹحیک واقفیت کے لئے کیا اسکے سوا بھی کوئی چارہ تھا کہ رسول اللہ ﷺ کے قول و فعل کا پتہ چلایا جاتا اور جو روایات بھی نقد کی کسوٹی پر کھری اترتیں انھیں محفوظ کرکے استنباط ا وستخراج کی راہ اہل نظر کے لئے کھولی جاتی۔ قرآن تبیان لکل شئی کے باوجود ان امور میں تجمل ہے جنکا امت تک پہچانا حضور ﷺ ہی کے قول و فعل کے ذریعہ مشیت کو مقصود تھا۔ اگر روایت یہ نہ بتائے کہ حضور اکرم ﷺ حالت صوم میں بیویوں کے ساتھ بے تکلفانہ رہن سہن سے پرھیز نہیں کرتے تھے اور بیوی سے بیتکلفی برتنا جائز ہے بشرطیکہ صائم اپنے نفس اور حاجت پر اس حد تک قادر ہو کہ اس طرح کے طرز عمل سے شہوانی مدہوشی کا شکار ہوجائے۔ اسی شرط کی طرف سیدہ عائشہ نے اشارہ کیا تھا۔
مباشرہ عموما وطی ہی کے لئے بولا جاتا ہے، لیکن کبھی اس خاص قسم کے بے تکلفانہ رہن سہن کے لئے بھی بولا جاتا ہے جو زن و شوہر کے درمیان مخصوص ہے اور جس میں وطی داخل نہیں ہے۔ کوئی اگر یہ خیال کرے کے چلئے اگر معترض کا اعتراض تو ختم ہوا، لیکن یہ نا محمود خیال تو ضرور ہی اس روایت سے پیدا ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ جیسا زاہد و متقی نبی روزے میں اس طرح کا طرز عمل بھی اختیار کرسکتا ہے۔
تو گذارش یہ ہے کہ وہ شادہ شدہ حضرات جنھیں اپنی بیویوں سے گہری محبت ہے ایماندارانہ اپنا جائزہ لیں کہ کیا بوسہ یا جسم کا بے تکلفانہ لمس ہمیشہ شہوت ہی تحت ہوتا ہے؟ ہم سمجھتے ہیں۔۔ اور بالکل صحیح سمجھتے ہیں کہ محبوب بیوی کا بوسہ یا اسکے جسم کا لمس بسا اوقات اس محبت اور پیار کے تحت بحی ہوتا ہے جسمیں شہوت کا ہیجان شامل نہیں ہوتا۔ کسی غیر عورت کے بارے میں تو سمجھا جاسکتا ہے اسکا بوسہ یا لمس، مرد میں لازما جذبہ شہوت کو بھڑکا دے گا، لیکن اس بیوی کے لئے مرد اتنا ذکی الحس نہیں رہ جاتا جس کے جسم پر اسے ہمہ وقت آذادانہ دسترس حاصل ہے، جس سے وہ برابر سیری حاصل کررہا ہے اور جسکی صنفی کہابائیت اسکے لئے اپنی شدت ختم کرچکی ہے۔ رسول اللہ ﷺ کو اپنی بیویوں سے محبت تھی۔ خصوصا حضرت عائشہ سے۔ ماہ رمضان میں اگر آپ نے بوسہ لیا اور کوئی بے تکلفی برتی تو ہمیں یقین ہے اور سیرت رسول ﷺ کی روشنی میں ہر شخص جسے اللہ نے عقل سلیم دی ہے، اسکو بھی یہ یقین کرلینا چاہئے کہ اس طریق عمل کے پیچھے جنسی اشتعال کرفرما نہیں ہوگا، بلکہ اسکا محرک وہ پیار اور قلبی تعلق ہوگا، جو شہوت رانی سے بالاتر ہوتا ہے، اور جسمیں کبھی دلداری اور کبھی اظہار سفقت و موانست مقصود ہوتا ہے۔ بوسہ ایک بچے کا بھی لیا جاتا ہے اور جسم ایک ننھی بچی کا بھی ہاتھوں سے مس ہوتا ہے تو کیا اسے بھی جنسیت سے جوڑ دیا جائے گا۔ نہیں۔ یہ امور ہمیشہ ہی شہوت انگیز یا نتیجہ شہوت نہیں ہوتے اور سورج کی طرح روشن ہے کہ جس مباشرت کا ذکر ذیرتذکرہ روایت میں ہے و ہ جنسی لگاوٹوں سے بالا تر ہی ہوگی کہ رسول اکرم ﷺ سے حالت صوم میں جنسی تلذذ کی توقع ان کی سیرت مطہرہ اور سرشت مقدسہ کے بالکل منافی ہے۔
جن لوگوں نے طے کرلیا ہے کہ احادیث کے تمام ذخیرہ کو کسی نہ کسی ناقابل اعتبار ٹھیرا کر دین کا حلیہ بگاڑ دیں گے اور قرآن کو من مانے مفاہیم کا جامعہ پہنائیں گے، انکا مشغلہ ہی یہ ہوتا ہے کہ جس طرح ہوسکے احادیث کے غلط سلط معانی مشہور کریں اور لوگوں کے قلوب و اذہان میں وسوسے ڈالیں۔
صحیح بخاری کی کتاب الصوم میں یہ حدیث ہے:
عن عائشہ قالت کان النبی صلی اللہ علیہ وسلم یقبل ویباشر وھو صائم وکان املکم لاربہ
ترجمہ: حضرت عائشہؓ نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ روزے کی حالت میں بوسے بھی لیتے تھے اور مباشرت بھی فرماتے تھے اور وہ تم سب سے زیادہ ضبط نفص پر قادر تھے۔
اس روایت کو کسی معترض کو لفظ مباشرت نظر آیا اور پھر اسکو یہ دیکھنے کی ضرورت نہیں ہوئی کہ عنوان بان کیا ہے ؟ اسی عنوان میں خود حضرت عائشہؓ ہی زبان مبارک سے مباشرت کی تشریح موجود ہے اور روایت کا سیاق و سباق کیا کہ رہا ہے، اسکو تو احادیث کا مضحکہ اڑانے اور کم علم عوام کو وسوسوں میں مبتلا کرنے سے کام ہے۔ ذرا دیکھئے عنوان باب کیا ہے صحیح بخاری میں جسکے تحت یہ حدیث آتی ہے۔
المباشرۃ للصائم وقالت عائشہ یحرم علیہ فرجھا۔
ترجمہ: باب روزے دار کے لئے جواز مباشرت میں۔ اور حضرت عائشہؓ نے فرمایا کے روزے دار پر عورت کی فرج حرام کردی گئی ہے۔
اندازہ کیجئے کیا کسی احمق سے احمق آدمی کو بھی یہ گمان ہوسکتا ہے کہ یہاں مباشرت سے مراد وطی (صحبت) ہے۔ اگر یہی مراد ہوتی تو ساتھ ساتھ مباشرت کی تشریح میں حضرت عائشہؓ کے ارشاد کی کیا تک تھی۔نیز یہ کس کے تصور میں آسکتا ہے کہ روزے کی حالت میں حرمت وطی کے صریح حکم قرآنی کے ہوتے ہوئے کوئی امام بخاری رحمہ اللہ جیسے مسلمہ امام تو کیا ایک معمولی عالم بھی یہ حماقت کرسکتا ہے، کہ اپنی کتاب میں جواز وطی فی الصوم کا عنوان باندھے۔ اور اگر یہ حماقت کسی سے عالم دیونگی میں سرزد ہو ہی جائے تو سینکڑوں برس کی تمام امت مسلمہ اتنی پاگل کیسے ہوسکتی ہے کہ ایسے احمق و دیوانے کو اپنا سرتاج مان کر اسکی کتاب کو اصح الکتاب بعد ازکتاب اللہ کا درجہ دیدے۔ ظاہر ہے اس عنوان کے بعد کسی کو شک و شبہ کی گنجائش ہی نہیں رہتی کہ مباشرت کا مطلب وطی لیا جائے۔ اس لئے شروع سے آج تک کسی معروف و مستند عالم نے اسطرح کا شبہ نہیں کیا۔
آگے حدیث پر نظر کیجئے۔ اگر یباشر کا مطلب یہ ہوتا کہ حضور ﷺ حالت صوم میں بیویوں کے ساتھ وطی بھی فرمالیتے تو بوسہ لینے کی بات حضرت عائشہ کیوں فرماتی۔ ظاہر ہے کہ اگر وطی ہی تک نوبت ہنچ جاتی تو بوس و کنار کس شمار رہ جاتے ہیں۔ پھر وکان وکان املکم لاربہ بھی مہمل ہوجاتا ہے، اگر مباشرت کا مفہوم وطی ہے۔ یہ جملہ اسی لئے تو کہا گیا تھا کہ حضور ﷺ باوجود بوسے لینے اور جسم کا لمس کرنے کے نفس پر اس قدر قادر تھے کہ شہوانی جذبہ نہیں بھڑکتا تھا، لیکن تم سب اتنے ضابط اور قادر علی النفس نہیں ہوسکتے ہو، لہذہ بہتر ہے کہ بوس وکنار وغیرہ سے پرھیز کرو۔ اب جو شخص مباشرت کے معنی یہاں وطی لینے پر تلا ہوا ہے، وہ بتائے کہ وطی کے بعد کونسا درجہ رہ جاتا ہے جسکے لئے قدرت علی النفس اور حوائج پر کنٹرول کا سبق آموذ تذکرہ کرنا حضرت عائشہؓ نے ضروری سمجھا۔ یعنی حضور ﷺ نے اگر وطی ہی کی ہوتی تو اس جملے کا صدور ہی ممکن نہ تھا۔ افسوس ہے ان لوگوں پر جو یا سخت قسم کے جہل کی رو میں یا پھر سوچی سمجھی عداوت حدیث کے تحت ام المونین حضرت عائشہؓ اور سرور کونین ﷺ کے آبرو تک سے کھیلنے میں دریغ نہیں کرتے۔
ایسے موقع پر یہ لوگ کہا کرتے ہیں کہ اچھا مان لیا مطلب وہ نہیں ہے جو ظاہری لفظ سے سمجھ میں آرہا ہے، لیکن ایسی ظاہر فریب اور وحشتناک روایت کو محفوظ کرنے کی ضرورت ہی کیا تھی؟ تو جواب یہ ہے کہ فاسد ذہنوں کی وحشت و فریب خوردگی کا لحاظ کیا جاتا تو آج امت ان تمام صنفی و جنسی مسائل کی شرعی حیثیت سے بے خبر ہوتی جنھیں اہل علم و اجتہاد نے اسی طرح کی روایات سے اخذ کیا ہے۔
روزے میں کیا کس حد تک جائز ہے اور کیا کس حد تک حرام۔ اسکی ٹھیک ٹحیک واقفیت کے لئے کیا اسکے سوا بھی کوئی چارہ تھا کہ رسول اللہ ﷺ کے قول و فعل کا پتہ چلایا جاتا اور جو روایات بھی نقد کی کسوٹی پر کھری اترتیں انھیں محفوظ کرکے استنباط ا وستخراج کی راہ اہل نظر کے لئے کھولی جاتی۔ قرآن تبیان لکل شئی کے باوجود ان امور میں تجمل ہے جنکا امت تک پہچانا حضور ﷺ ہی کے قول و فعل کے ذریعہ مشیت کو مقصود تھا۔ اگر روایت یہ نہ بتائے کہ حضور اکرم ﷺ حالت صوم میں بیویوں کے ساتھ بے تکلفانہ رہن سہن سے پرھیز نہیں کرتے تھے اور بیوی سے بیتکلفی برتنا جائز ہے بشرطیکہ صائم اپنے نفس اور حاجت پر اس حد تک قادر ہو کہ اس طرح کے طرز عمل سے شہوانی مدہوشی کا شکار ہوجائے۔ اسی شرط کی طرف سیدہ عائشہ نے اشارہ کیا تھا۔
مباشرہ عموما وطی ہی کے لئے بولا جاتا ہے، لیکن کبھی اس خاص قسم کے بے تکلفانہ رہن سہن کے لئے بھی بولا جاتا ہے جو زن و شوہر کے درمیان مخصوص ہے اور جس میں وطی داخل نہیں ہے۔ کوئی اگر یہ خیال کرے کے چلئے اگر معترض کا اعتراض تو ختم ہوا، لیکن یہ نا محمود خیال تو ضرور ہی اس روایت سے پیدا ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ جیسا زاہد و متقی نبی روزے میں اس طرح کا طرز عمل بھی اختیار کرسکتا ہے۔
تو گذارش یہ ہے کہ وہ شادہ شدہ حضرات جنھیں اپنی بیویوں سے گہری محبت ہے ایماندارانہ اپنا جائزہ لیں کہ کیا بوسہ یا جسم کا بے تکلفانہ لمس ہمیشہ شہوت ہی تحت ہوتا ہے؟ ہم سمجھتے ہیں۔۔ اور بالکل صحیح سمجھتے ہیں کہ محبوب بیوی کا بوسہ یا اسکے جسم کا لمس بسا اوقات اس محبت اور پیار کے تحت بحی ہوتا ہے جسمیں شہوت کا ہیجان شامل نہیں ہوتا۔ کسی غیر عورت کے بارے میں تو سمجھا جاسکتا ہے اسکا بوسہ یا لمس، مرد میں لازما جذبہ شہوت کو بھڑکا دے گا، لیکن اس بیوی کے لئے مرد اتنا ذکی الحس نہیں رہ جاتا جس کے جسم پر اسے ہمہ وقت آذادانہ دسترس حاصل ہے، جس سے وہ برابر سیری حاصل کررہا ہے اور جسکی صنفی کہابائیت اسکے لئے اپنی شدت ختم کرچکی ہے۔ رسول اللہ ﷺ کو اپنی بیویوں سے محبت تھی۔ خصوصا حضرت عائشہ سے۔ ماہ رمضان میں اگر آپ نے بوسہ لیا اور کوئی بے تکلفی برتی تو ہمیں یقین ہے اور سیرت رسول ﷺ کی روشنی میں ہر شخص جسے اللہ نے عقل سلیم دی ہے، اسکو بھی یہ یقین کرلینا چاہئے کہ اس طریق عمل کے پیچھے جنسی اشتعال کرفرما نہیں ہوگا، بلکہ اسکا محرک وہ پیار اور قلبی تعلق ہوگا، جو شہوت رانی سے بالاتر ہوتا ہے، اور جسمیں کبھی دلداری اور کبھی اظہار سفقت و موانست مقصود ہوتا ہے۔ بوسہ ایک بچے کا بھی لیا جاتا ہے اور جسم ایک ننھی بچی کا بھی ہاتھوں سے مس ہوتا ہے تو کیا اسے بھی جنسیت سے جوڑ دیا جائے گا۔ نہیں۔ یہ امور ہمیشہ ہی شہوت انگیز یا نتیجہ شہوت نہیں ہوتے اور سورج کی طرح روشن ہے کہ جس مباشرت کا ذکر ذیرتذکرہ روایت میں ہے و ہ جنسی لگاوٹوں سے بالا تر ہی ہوگی کہ رسول اکرم ﷺ سے حالت صوم میں جنسی تلذذ کی توقع ان کی سیرت مطہرہ اور سرشت مقدسہ کے بالکل منافی ہے۔
- 0
علم حاصل کرو۔ مہد سے لحد تک
جس نےمیرے صحابہ سے بغض رکھا، اس نے گویا مجھ سے بغض رکھا
فرمان رسول صلی اللہ علیہ وسلم
جس نےمیرے صحابہ سے بغض رکھا، اس نے گویا مجھ سے بغض رکھا
فرمان رسول صلی اللہ علیہ وسلم