alibaba007
Banned
یوم شہادت حضرت علی علیہ السلام
ولادت
[FONT=&]جت حضرت علی (ع) کی ولادت کا وقت قریب آیا تو فاطمه بنت اسد کعبه کے پاس ائیں اور آپنے جسم کو اس کی دیوار سے مس کر کے عرض کیا:[/FONT]
[FONT=&]پروردگارا ! میں تجھ پر، تیرےنبیوں پر، تیری طرف سے نازل شده کتابوں پر اور اس مکان کی تعمیر کرنے والے، آپنے جد ابراھیم (ع) کے کلام پر راسخ ایمان رکھتی ھوں ۔[/FONT]
[FONT=&]پروردگارا ! تجھے اس ذات کے احترام کا واسطہ جس نے اس مکان مقدس کی تعمیر کی اور اس بچه کے حق کا واسطه جو میرے شکم میں موجود ھے، اس کی ولادت کو میرے لئے آسان فرما ۔[/FONT]
[FONT=&]ابھی ایک لمحہ بھی نھیں گزرا تھا که کعبہ کی جنوبی مشرقی دیوار ، عباس بن عبد المطلب اور یزید بن تعف کی نظروں کے سامنے شگافته ھوئی، فاطمه بنت اسد کعبہ میں داخل ھوئیں اور دیوار دوباره مل گئی ۔ فاطمه بنت اسد تین دن تک روئے زمین کے اس سب سے مقدس مکان میں اللہ کی مھمان رھیں اور تیره رجب سن ۳۰/ عام الفیل کو بچہ کی ولادت ھوئی ۔ ولادت کے بعد جب فاطمه بنت اسد نے کعبہ سے باھر آنا چاھا تو دیوار دو باره شگافتہ ھوئی، آپ کعبه سے باھر تشریف لائیں اور فرمایا : میں نے غیب سے یہ پیغام سنا ھے که اس بچے کا نام علی رکھنا ۔[/FONT]
بچپن ا ور تربیت
[FONT=&]حضرت علی (ع) تین سال کی عمر تک آپنے والدین کے پاس رہے اور اس کے بعد پیغمبر اسلام (ص) کے پاس آگئے۔ کیون کہ جب آپ تین سال کے تھےاس وقت مکہ میں بھت سخت قحط پڑا ۔جس کی وجہ سے رسول الله (ص) کے چچا ابو طالب کو اقتصادی مشکل کابہت سخت سامنا کرنا پڑا ۔ رسول الله (ص) نے آپنے دوسرے چچا عباس سے مشوره کرنے کے بعد یہ طے کیا کہ ھم میں سے ھر ایک، ابو طالب کے ایک ایک بچے کی کفالت آپنے ذمہ لے لے تاکہ ان کی مشکل آسان ھو جائے ۔ اس طرح عباس نے جعفر اور رسول الله (ص) نے علی (ع) کی کفالت آپنے ذمہ لے لی ۔[/FONT]
[FONT=&]
حضرت علی (ع) پوری طرح سے پیغمبر اکرم (ص) کی کفالت میں آگئے اور حضرت علی علیہ السّلام کی پرورش براهِ راست حضرت محمد مصطفےٰ کے زیر نظر ہونے لگی ۔ ا ٓ پ نے انتہائی محبت اور توجہ سے آپنا پورا وقت، اس چھوٹے بھائی کی علمی اورا خلاقی تربیت میں صرف کیا. کچھ تو حضرت علی (ع) کے ذاتی جوہر اور پھراس پر رسول جیسے بلند مرتبہ مربیّ کافیض تربیت ، چنانچہ علی علیہ السّلام دس برس کے سن میں ہی اتنی بلندی پر پہنچ گئے کہ جب پیغمبر اسلام (ص) نے رسالت کا دعوی ک یا، تو آپ نے ان کی تصدیق فرمائ ۔ آپ ھمیشه رسول الله (ص) کے ساتھ رھتے تھے، یہاں تک کہ جب پیغمبر اکرم (ص) شھر سے باھر، کوه و بیابان کی طرف جاتے تھے تو آپ کو آپنے ساتھ لے جاتے تھے ۔[/FONT]
[FONT=&]
پیغمبر اکرم (ص) کی بعثت اور حضرت علی (ع)[/FONT]
[FONT=&]جب حضرت محمد مصطفے ( ص ) چالیس سال کے ہوئے تو اللہ نے انہیں عملی طور پر آپنا پیغام پہنچانے کے لئے معین فرمایا ۔ اللہ کی طرف سے پیغمبر (ص) کو جو یہ ذمہ داری سونپی گئ ، اسی کو بعثت کہتے ہیں .[/FONT]
[FONT=&]حضرت محمد (ص) پر وحی الٰھی کے نزول و پیغمبری کے لئے انتخاب کے بعدکی تین سال کی مخفیانہ دعوت کے بعد بالاخرخدا کی طرف سے وحی نازل ھوئ اور رسول الله (ص) کو عمومی طور پر دعوت اسلام کا حکم دیا گیا ۔[/FONT]
[FONT=&]اس دوران پیغمبراکرم (ص) کی الٰھی دعوت کے منصوبوں کو عملی جامہ پھنانے والے تنھا حضرت علی (ع) تھے۔ جب رسول الله (ص) نے اپنے اعزاء و اقرباء کے درمیان اسلام کی تبلیغ کے لئے انہیں دعوت دی تو آپ کے ھمدرد و ھمدم، تنھا حضرت علی (ع) تھے ۔[/FONT]
[FONT=&]اس دعوت میں پیغمبر خدا (ص) نےحاضرین سے سوال کیا کہ آپ میں سے کون ہے جو اس راه میں میری مدد کرے اور آپ کے درمیان میرا بھائی، وصی اور جانشین ھو؟[/FONT]
[FONT=&]
اس سوال کا جواب فقط حضرت علی (ع) نے دیا : اے پیغمبر خدا ! میں اس راه میں آپ کی نصرت کروں گا ۔ پیغمبر اکرم (ص) نے تین مرتبه اسی سوال کی تکرار اور تینوں مرتبہ حضرت علی (ع) کا جواب سننے کے بعد فرمایا :[/FONT]
[FONT=&]اے میرے خاندان والوں ! جان لو که علی میرا بھائی اور میرے بعد تمھارے درمیان میرا وصی و جانشین ھے ۔[/FONT]
[FONT=&]علی (ع) کے فضائل میں سے ایک یہ بھی ھے کہ آپ (ع) رسول الله (ص) پر ایمان لانے والے سب سے پھلے شخص ھیں ۔ اس سلسلے میں ابن ابی الحدید لکھتے ھیں :[/FONT]
[FONT=&]بزرگ علماء اور گروه معتزلہ کے متکلمین کے درمیان اس میں کوئی اختلاف نھیں ھے کہ علی بن ابی طالب (ع) وه پھلے شخص ھیں جو پیغمبر اسلام پر ایمان لائے اور پیغمبر خدا (ص) کیتصدیق کی ۔ [/FONT]
[FONT=&]
رسول اسلام کی بعثت، زمانہ , ماحول, شہر اور آپنی قوم و خاندان کے خلاف ایک ایسی مہم تھی ، جس میں رسول کا ساتھ دینے والا کوئی نظر نہ ی اتا تھا ۔ بس ایک علی علیہ السّلام تھے کہ جب پیغمبر نے رسالت کا دعویٰ کیا تو انہوں نے سب سے پہلے ا ن کی تصدیق کی اور ان پر ایمان کااقرارکیا . دوسری ذات جناب خدیج ۃ ال کبریٰ کی تھی، جنھوں نے خواتین کے طبقہ میں سبقتِ اسلام ک ا شرف حاصل کیا۔[/FONT]
[FONT=&]پیغمبر کادعوائے رسالت کرنا تھا کہ مکہ کا ہر آدمی رسول کادشمن نظر انے لگا . وہی لوگ جو کل تک آپ کی سچائی اورامانتداری کادم بھرتے تھے اج آپ کو ( معاذ الله ( یوانہ، جادو گر اور نہ جانے کیا کیا کہنے لگے۔ اللہ کے رسول کے راستوں میں کانٹے بچھائے جاتے، انہیں پتھر مارے جاتے اور ان کے سر پر کوڑا کرکٹ پھینکا جاتا تھا. اس مصیبت کے وقت میں رسول ک ے شریک صرفاور صرف حضرت علی علیہ السّلام تھے، جو بھائی کاساتھ دینے میں کبھی بھی ہمت نہیں ہار تے تھے ۔ وہ ہمیشہ محبت ووفاداری کادم بھرتے رہےاور ہرموقع پر رسول کے سینہ سپر رہے۔ یہاں تک کہ وہ وقت بھی ایا جب مخالف گروہ نے انتہائی سختی کے ساتھ یہ طے کرلیا کہ پیغمبر اور ان کے تمام گھر والوں کا بائیکاٹ کیا جائے۔ حالات اتنے خراب تھے کہ جانوں کے لالے پڑ گئے تھے .حضرت ابو طالب علیہ السّلام نے آپنے تمام ساتھیوں کو حضرت محمدمصطفےٰ سمیت ایک پہاڑ کے دامن میں محفوظ قلعہ میں بند کردیا۔
وہان پر تین برس تک قید وبند کی زندگی بسر کرنی پڑی . کیون کہ اس دوران ہر رات یہ خطرہ رہتا تھا کہ کہیں دشمن شب خون نہ مار دے . اس لئے ابو طالب علیہ السّلام نے یہ طریقہ اختیار کیا تھا کہ وہ رات بھر رسول کو ایک بستر پر نہیں رہنے دیتے تھے، بلکہ ک بھی رسول کے بستر پر جعفر کو اور جعفر کے بستر پر رسول کو ک بھی عقیل کے بستر پر رسول کو اور رسول کے بستر پر عقیل کو ک بھی علی کے بستر پر رسول کو اور رسول کے بستر پر علی علیہ السّلام کو لٹا تے رہتے تھے. مطلب یہ تھا کہ اگر دشمن رسول کے بستر کا پتہ لگا کر حملہ کرنا چاہے تو میرا کوئ بیٹا قتل ہوجائے مگر رسول کا بال بیکانہ ہونے پائے . اس طرح علی علیہ السّلام بچپن سے ہی فدا کاری اور جان نثاری کے سبق کو عملی طور پر دہراتے رہے .[/FONT]
رسول کی ہجرت اور حضرت علی (ع)
[FONT=&]حضرت علی (ع) کے دیگر افتخارات میں سے ایک یہ ھے کہ جب شب ھجرت مشرک دشمنوں نے رسول الله (ص) کے قتل کی سازش رچی تو آپ (ع) نے پوری شجاعت کے ساتھ رسول الله (ص) کے بستر پر سو کر انکی سازش کو نا کام کر دیا۔[/FONT]
[FONT=&]حضرت ابو طالب علیہ السّلام کی وفات سے پیغمبر کا دل ٹوٹ گیا اور آپ نے مدینہ کی طرف ہجرت کاارادہ کرلیا ۔ دشمنوں نے یہ سازش رچی کہ ایک رات جمع ہو کر پیغمبر کے گھر کو گھیر لیں اور حضرت کو شہید کرڈالیں۔ جب حضرت کو اس کی اطلاع ہوئی تو آپ نے آپنے جاں نثار بھائی علی علیہ السّلام کو بلا کر اس سازش کے بارے میں اطلاع دی اور فرمایا کہ میری جان اس طرح بچ سکتی ہے اگر آج رات آپ میرے بستر پر میری چادر اوڑھ کر سو جاؤ اور میں مخفی طور پر مکہ سے روانہ ہوجاؤں . کوئی دوسرا ہوتاتو یہ پیغام سنتے ہی اس کا دل دہل جاتا، مگر علی علیہ السّلام نے یہ سن کر کہ میرے ذریعہ سے رسول کی جان کی حفاظت ہوگی، خدا کاشکر ادا کیا اور بہت خوش ہوئے کہ مجھے رسول کافدیہ قرار دیا جارہا ہے۔
یہی ہوا کہ رسالت ماب شب کے وقت مکہ معظمہ سے مدینہ منورہ کی طرف روانہ ہوگئے اور علی بن ابی طالب علیہ ما السّلام رسول کے بستر پر سوئے۔ چاروں طرف خون کے پیاسے دشمن تلواریں کھینچے نیزے لئے ہوئے مکان کوگھیرے ہوئے تھے . بس اس بات کی دیر تھی کہ ذرا صبح ہو اور سب کے سب گھر میں داخل ہو کر رسالت ما ٓ ب کو شہید کر ڈالیں . علی علیہ السّلام اطمینان کے ساتھ بستر پرارام کرتے رہے اور اپنی جان کا ذرا بھی خیال نہ کیا۔ جب دشمنوں کو صبح کے وقت یہ معلوم ہوا کہ محمد نہیں ہیں تو انھوں نے آپ پر یہ دباؤ ڈالا کہ آپ بتلادیں کہ رسول کہا ںگئے ہیں ? مگر علی علیہ السّلام نے بڑے بہادرانہ انداز میں یہ بتانے سے قطعیطور پر انکار کردیا . اس کا نتیجہ یہ ہواکہ رسول الله (ص) مکہ سے کافی دور تک بغیر کسی پریشانی اور رکاوٹ کے تشریف لے جاسکیں.علی علیہ السّلام تین روز تک مکہ میں رہے . جن لوگوں کی امانتیں رسول الله کے پاس تھیں ان کے سپرد کر کےخواتین ُبیت ُ رسالت کو آپنے ساتھ لے کرمدینہ کی طرف روانہ ہوئے . آپ کئ روز تک رات دن پیدل چلے کر اس حالت میں رسول کے پاس پہنچے کہ آپ کے پیروں سے خون بہ رہا تھا. اس واقعہ سے ثابت ہوتا ہے کہ علی علیہ السّلام پر رسول کو سب سے زیادہ اعتماد تھااور جس وفاداری , ہمت اور دلیری سے علی علیہ السّلام نے اس ذمہ داری کو پورا کیا ہے وہ بھی آپنی آپ میں ایک مثال ہے
[/FONT]

ولادت
[FONT=&]جت حضرت علی (ع) کی ولادت کا وقت قریب آیا تو فاطمه بنت اسد کعبه کے پاس ائیں اور آپنے جسم کو اس کی دیوار سے مس کر کے عرض کیا:[/FONT]
[FONT=&]پروردگارا ! میں تجھ پر، تیرےنبیوں پر، تیری طرف سے نازل شده کتابوں پر اور اس مکان کی تعمیر کرنے والے، آپنے جد ابراھیم (ع) کے کلام پر راسخ ایمان رکھتی ھوں ۔[/FONT]
[FONT=&]پروردگارا ! تجھے اس ذات کے احترام کا واسطہ جس نے اس مکان مقدس کی تعمیر کی اور اس بچه کے حق کا واسطه جو میرے شکم میں موجود ھے، اس کی ولادت کو میرے لئے آسان فرما ۔[/FONT]
[FONT=&]ابھی ایک لمحہ بھی نھیں گزرا تھا که کعبہ کی جنوبی مشرقی دیوار ، عباس بن عبد المطلب اور یزید بن تعف کی نظروں کے سامنے شگافته ھوئی، فاطمه بنت اسد کعبہ میں داخل ھوئیں اور دیوار دوباره مل گئی ۔ فاطمه بنت اسد تین دن تک روئے زمین کے اس سب سے مقدس مکان میں اللہ کی مھمان رھیں اور تیره رجب سن ۳۰/ عام الفیل کو بچہ کی ولادت ھوئی ۔ ولادت کے بعد جب فاطمه بنت اسد نے کعبہ سے باھر آنا چاھا تو دیوار دو باره شگافتہ ھوئی، آپ کعبه سے باھر تشریف لائیں اور فرمایا : میں نے غیب سے یہ پیغام سنا ھے که اس بچے کا نام علی رکھنا ۔[/FONT]
بچپن ا ور تربیت
[FONT=&]حضرت علی (ع) تین سال کی عمر تک آپنے والدین کے پاس رہے اور اس کے بعد پیغمبر اسلام (ص) کے پاس آگئے۔ کیون کہ جب آپ تین سال کے تھےاس وقت مکہ میں بھت سخت قحط پڑا ۔جس کی وجہ سے رسول الله (ص) کے چچا ابو طالب کو اقتصادی مشکل کابہت سخت سامنا کرنا پڑا ۔ رسول الله (ص) نے آپنے دوسرے چچا عباس سے مشوره کرنے کے بعد یہ طے کیا کہ ھم میں سے ھر ایک، ابو طالب کے ایک ایک بچے کی کفالت آپنے ذمہ لے لے تاکہ ان کی مشکل آسان ھو جائے ۔ اس طرح عباس نے جعفر اور رسول الله (ص) نے علی (ع) کی کفالت آپنے ذمہ لے لی ۔[/FONT]
[FONT=&]
حضرت علی (ع) پوری طرح سے پیغمبر اکرم (ص) کی کفالت میں آگئے اور حضرت علی علیہ السّلام کی پرورش براهِ راست حضرت محمد مصطفےٰ کے زیر نظر ہونے لگی ۔ ا ٓ پ نے انتہائی محبت اور توجہ سے آپنا پورا وقت، اس چھوٹے بھائی کی علمی اورا خلاقی تربیت میں صرف کیا. کچھ تو حضرت علی (ع) کے ذاتی جوہر اور پھراس پر رسول جیسے بلند مرتبہ مربیّ کافیض تربیت ، چنانچہ علی علیہ السّلام دس برس کے سن میں ہی اتنی بلندی پر پہنچ گئے کہ جب پیغمبر اسلام (ص) نے رسالت کا دعوی ک یا، تو آپ نے ان کی تصدیق فرمائ ۔ آپ ھمیشه رسول الله (ص) کے ساتھ رھتے تھے، یہاں تک کہ جب پیغمبر اکرم (ص) شھر سے باھر، کوه و بیابان کی طرف جاتے تھے تو آپ کو آپنے ساتھ لے جاتے تھے ۔[/FONT]
[FONT=&]
پیغمبر اکرم (ص) کی بعثت اور حضرت علی (ع)[/FONT]
[FONT=&]جب حضرت محمد مصطفے ( ص ) چالیس سال کے ہوئے تو اللہ نے انہیں عملی طور پر آپنا پیغام پہنچانے کے لئے معین فرمایا ۔ اللہ کی طرف سے پیغمبر (ص) کو جو یہ ذمہ داری سونپی گئ ، اسی کو بعثت کہتے ہیں .[/FONT]
[FONT=&]حضرت محمد (ص) پر وحی الٰھی کے نزول و پیغمبری کے لئے انتخاب کے بعدکی تین سال کی مخفیانہ دعوت کے بعد بالاخرخدا کی طرف سے وحی نازل ھوئ اور رسول الله (ص) کو عمومی طور پر دعوت اسلام کا حکم دیا گیا ۔[/FONT]
[FONT=&]اس دوران پیغمبراکرم (ص) کی الٰھی دعوت کے منصوبوں کو عملی جامہ پھنانے والے تنھا حضرت علی (ع) تھے۔ جب رسول الله (ص) نے اپنے اعزاء و اقرباء کے درمیان اسلام کی تبلیغ کے لئے انہیں دعوت دی تو آپ کے ھمدرد و ھمدم، تنھا حضرت علی (ع) تھے ۔[/FONT]
[FONT=&]اس دعوت میں پیغمبر خدا (ص) نےحاضرین سے سوال کیا کہ آپ میں سے کون ہے جو اس راه میں میری مدد کرے اور آپ کے درمیان میرا بھائی، وصی اور جانشین ھو؟[/FONT]
[FONT=&]
اس سوال کا جواب فقط حضرت علی (ع) نے دیا : اے پیغمبر خدا ! میں اس راه میں آپ کی نصرت کروں گا ۔ پیغمبر اکرم (ص) نے تین مرتبه اسی سوال کی تکرار اور تینوں مرتبہ حضرت علی (ع) کا جواب سننے کے بعد فرمایا :[/FONT]
[FONT=&]اے میرے خاندان والوں ! جان لو که علی میرا بھائی اور میرے بعد تمھارے درمیان میرا وصی و جانشین ھے ۔[/FONT]
[FONT=&]علی (ع) کے فضائل میں سے ایک یہ بھی ھے کہ آپ (ع) رسول الله (ص) پر ایمان لانے والے سب سے پھلے شخص ھیں ۔ اس سلسلے میں ابن ابی الحدید لکھتے ھیں :[/FONT]
[FONT=&]بزرگ علماء اور گروه معتزلہ کے متکلمین کے درمیان اس میں کوئی اختلاف نھیں ھے کہ علی بن ابی طالب (ع) وه پھلے شخص ھیں جو پیغمبر اسلام پر ایمان لائے اور پیغمبر خدا (ص) کیتصدیق کی ۔ [/FONT]
[FONT=&]
رسول اسلام کی بعثت، زمانہ , ماحول, شہر اور آپنی قوم و خاندان کے خلاف ایک ایسی مہم تھی ، جس میں رسول کا ساتھ دینے والا کوئی نظر نہ ی اتا تھا ۔ بس ایک علی علیہ السّلام تھے کہ جب پیغمبر نے رسالت کا دعویٰ کیا تو انہوں نے سب سے پہلے ا ن کی تصدیق کی اور ان پر ایمان کااقرارکیا . دوسری ذات جناب خدیج ۃ ال کبریٰ کی تھی، جنھوں نے خواتین کے طبقہ میں سبقتِ اسلام ک ا شرف حاصل کیا۔[/FONT]
[FONT=&]پیغمبر کادعوائے رسالت کرنا تھا کہ مکہ کا ہر آدمی رسول کادشمن نظر انے لگا . وہی لوگ جو کل تک آپ کی سچائی اورامانتداری کادم بھرتے تھے اج آپ کو ( معاذ الله ( یوانہ، جادو گر اور نہ جانے کیا کیا کہنے لگے۔ اللہ کے رسول کے راستوں میں کانٹے بچھائے جاتے، انہیں پتھر مارے جاتے اور ان کے سر پر کوڑا کرکٹ پھینکا جاتا تھا. اس مصیبت کے وقت میں رسول ک ے شریک صرفاور صرف حضرت علی علیہ السّلام تھے، جو بھائی کاساتھ دینے میں کبھی بھی ہمت نہیں ہار تے تھے ۔ وہ ہمیشہ محبت ووفاداری کادم بھرتے رہےاور ہرموقع پر رسول کے سینہ سپر رہے۔ یہاں تک کہ وہ وقت بھی ایا جب مخالف گروہ نے انتہائی سختی کے ساتھ یہ طے کرلیا کہ پیغمبر اور ان کے تمام گھر والوں کا بائیکاٹ کیا جائے۔ حالات اتنے خراب تھے کہ جانوں کے لالے پڑ گئے تھے .حضرت ابو طالب علیہ السّلام نے آپنے تمام ساتھیوں کو حضرت محمدمصطفےٰ سمیت ایک پہاڑ کے دامن میں محفوظ قلعہ میں بند کردیا۔
وہان پر تین برس تک قید وبند کی زندگی بسر کرنی پڑی . کیون کہ اس دوران ہر رات یہ خطرہ رہتا تھا کہ کہیں دشمن شب خون نہ مار دے . اس لئے ابو طالب علیہ السّلام نے یہ طریقہ اختیار کیا تھا کہ وہ رات بھر رسول کو ایک بستر پر نہیں رہنے دیتے تھے، بلکہ ک بھی رسول کے بستر پر جعفر کو اور جعفر کے بستر پر رسول کو ک بھی عقیل کے بستر پر رسول کو اور رسول کے بستر پر عقیل کو ک بھی علی کے بستر پر رسول کو اور رسول کے بستر پر علی علیہ السّلام کو لٹا تے رہتے تھے. مطلب یہ تھا کہ اگر دشمن رسول کے بستر کا پتہ لگا کر حملہ کرنا چاہے تو میرا کوئ بیٹا قتل ہوجائے مگر رسول کا بال بیکانہ ہونے پائے . اس طرح علی علیہ السّلام بچپن سے ہی فدا کاری اور جان نثاری کے سبق کو عملی طور پر دہراتے رہے .[/FONT]
رسول کی ہجرت اور حضرت علی (ع)
[FONT=&]حضرت علی (ع) کے دیگر افتخارات میں سے ایک یہ ھے کہ جب شب ھجرت مشرک دشمنوں نے رسول الله (ص) کے قتل کی سازش رچی تو آپ (ع) نے پوری شجاعت کے ساتھ رسول الله (ص) کے بستر پر سو کر انکی سازش کو نا کام کر دیا۔[/FONT]
[FONT=&]حضرت ابو طالب علیہ السّلام کی وفات سے پیغمبر کا دل ٹوٹ گیا اور آپ نے مدینہ کی طرف ہجرت کاارادہ کرلیا ۔ دشمنوں نے یہ سازش رچی کہ ایک رات جمع ہو کر پیغمبر کے گھر کو گھیر لیں اور حضرت کو شہید کرڈالیں۔ جب حضرت کو اس کی اطلاع ہوئی تو آپ نے آپنے جاں نثار بھائی علی علیہ السّلام کو بلا کر اس سازش کے بارے میں اطلاع دی اور فرمایا کہ میری جان اس طرح بچ سکتی ہے اگر آج رات آپ میرے بستر پر میری چادر اوڑھ کر سو جاؤ اور میں مخفی طور پر مکہ سے روانہ ہوجاؤں . کوئی دوسرا ہوتاتو یہ پیغام سنتے ہی اس کا دل دہل جاتا، مگر علی علیہ السّلام نے یہ سن کر کہ میرے ذریعہ سے رسول کی جان کی حفاظت ہوگی، خدا کاشکر ادا کیا اور بہت خوش ہوئے کہ مجھے رسول کافدیہ قرار دیا جارہا ہے۔
یہی ہوا کہ رسالت ماب شب کے وقت مکہ معظمہ سے مدینہ منورہ کی طرف روانہ ہوگئے اور علی بن ابی طالب علیہ ما السّلام رسول کے بستر پر سوئے۔ چاروں طرف خون کے پیاسے دشمن تلواریں کھینچے نیزے لئے ہوئے مکان کوگھیرے ہوئے تھے . بس اس بات کی دیر تھی کہ ذرا صبح ہو اور سب کے سب گھر میں داخل ہو کر رسالت ما ٓ ب کو شہید کر ڈالیں . علی علیہ السّلام اطمینان کے ساتھ بستر پرارام کرتے رہے اور اپنی جان کا ذرا بھی خیال نہ کیا۔ جب دشمنوں کو صبح کے وقت یہ معلوم ہوا کہ محمد نہیں ہیں تو انھوں نے آپ پر یہ دباؤ ڈالا کہ آپ بتلادیں کہ رسول کہا ںگئے ہیں ? مگر علی علیہ السّلام نے بڑے بہادرانہ انداز میں یہ بتانے سے قطعیطور پر انکار کردیا . اس کا نتیجہ یہ ہواکہ رسول الله (ص) مکہ سے کافی دور تک بغیر کسی پریشانی اور رکاوٹ کے تشریف لے جاسکیں.علی علیہ السّلام تین روز تک مکہ میں رہے . جن لوگوں کی امانتیں رسول الله کے پاس تھیں ان کے سپرد کر کےخواتین ُبیت ُ رسالت کو آپنے ساتھ لے کرمدینہ کی طرف روانہ ہوئے . آپ کئ روز تک رات دن پیدل چلے کر اس حالت میں رسول کے پاس پہنچے کہ آپ کے پیروں سے خون بہ رہا تھا. اس واقعہ سے ثابت ہوتا ہے کہ علی علیہ السّلام پر رسول کو سب سے زیادہ اعتماد تھااور جس وفاداری , ہمت اور دلیری سے علی علیہ السّلام نے اس ذمہ داری کو پورا کیا ہے وہ بھی آپنی آپ میں ایک مثال ہے
[/FONT]
[FONT=&]
حضرت علیہ ااسلام ، پیغمبراسلام (ص) کے بھائی [/FONT]
[FONT=&]پیغمبراسلام (ص) نےمدینے پہنچ کر مسلمانوں کے درمیان بھائ کا رشتہ قائم کیا۔ عمر کو ابو بکر کا بھائ بنا بنا یاطلہ کو زبیر کا بھائ قرار دیا و۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور حضرت علی (ع)کو رسول الله (ص) نے اپنا بھائ بنایا اور حضرت علی (ع) سے فرمایا :[/FONT]
[FONT=&] تم دنیا اور آخرت میں میرے بھائی ھو، اس خدا کی قسم جس نے مجھے حق کے ساتھ مبعوث فرمایا ۔۔۔ میں تمھیں آپنی اخوت کے لئے انتخاب کرتا ھوں ، ایک ایسی اخوت جو دونوں جھان میں بر قرار رھے ۔[/FONT]
[FONT=&]حضرت علی علیہ السلام اور اسلا می جہاد [/FONT]
[FONT=&]اسلام کے دشمنوں نے پیغمبراسال (ص) کو مدینہ میں چین سے نہ بیٹھنے دیا. جو مسلمان مکہ میں تھے انھیں طرح طرح کی تکلیفیں دی گئیں کچھ کو قتل کر دیا گیا، کچھ کو قیدی بنا لیاگیا اور کچھ کو مارا پیٹاگیا. یہی نہیں بلکہانہوں نے اسلحہ اور فوج جمع کر کے خود رسول کے خلاف مدینہ پر چڑاھئی کردی۔ اس موقع پر رسول اللہ (ص) کا اخلاقی فرض تھا کہ وہ مدینہ والوں کے گھروں کی حفاظت کریں، کیوں کہ انھوں نے آپ کو پریشانی کے عالم میں پنا ہ دی تھی اور آپ کی نصرت و مداد کاوعدہ کیا تھا، لہذا آپ نے یہ کسی طرح پسند نہ کیا کہ آپ شہر کے اندر رہ کر دشمن کا مقابلہ کریں اور دشمن کو مدینہ کی پر امن ابادی میں داخل ہونے اور عورتوں اور بچوں کو پریشان کرنے کا موقع دیں. آپ کے ساتھیوں تعداد بہت کم تھی۔ آپ کے پاس کل تین سو تیرہ آدمی تھے اور مب کے پاس ہتھیار بھی نہیں تھے، مگر آپ نے یہ طے کیا کہ ہم مدینے سے باہر نکل کر دشمن کا مقابلہ کریں گے۔
چنانچہ یہ اسلام کی پہلی جنگ ہوئی جوآگے چل کر جنگِ بدر کے نام سے مشہور ہوئ . اس جنگ میں رسول اللہ (ص) نے آپنے عزیزوں کو زیادہ آگے رکھا، جس کی وجہ سے آپ کے چچا زاد بھائی عبید ابن حارث ابن عبدالمطلب اس جنگ میں شہید ہوگئے . علی علیہ السّلام ابن ابی طالب کو جنگ کا یہ پہلا تجربہ تھا۔ اس وقت ان کی عمر صرف ۲۵برس تھی مگر جنگ کی فتح کا سہرا علی علیہ السّلام کے سر ہی بندھا۔ جتنے مشرکین قتل ہوئے ان میں سے ادھےحضرت علی علیہ السّلام کے ہاتھ سے اور ادھے، باقی مجاہدین کے ہاتھوں قتل ہوئے تھے۔ اس کے بعد ،اُحد، خندق،خیبراور اخر میں حنین یہ وہ بڑی جنگیں تھیں جن میں حضرت علی علیہ السّلام نے رسول کے ساتھ رہ کر اپنی بہادری کے جوہر دکھا ئے۔ تقریباً ان تمام جنگوں میں علی علیہ السّلام کو علمداری کا عہدہ بھی حاصل رہا . اس کے علاوہ بہت سی جنگیں ایسی تھیں جن میں رسول نےحضرت علی علیہ السّلام کو تنہا بھیجا اورانھوں نے اکیلے ہی بہادری اور ثابت قدمی کے ساتھ فتح حاصل کی اور استقلال،تحمّل اور شرافت ُ نفس کا وہ مطاہرہ کیا کہاس کا اقرار خود ان کے دشمن کو بھی کرنا پڑا۔ جب خندق کی جنگ میں دشمن کے سب سے بڑے سورماعمر وبن عبدود کو آپ نے مغلوب کر لیا اور اس کاسر کاٹنے کے لیے اس کے سینے پرسوار ہوئے تو اس نے آپ کے چہرے پر لعب دہن پھینک دیا۔
آپ کو غصہ اگیا اور آپ اس کے سینے سے اتر ا ٓئے . صرف اس خیال سے کہ اگراس غصّےکی حالت میں اس کو قتل کیا تو یہ عمل خواہش نفس کے مطابق ہوگا، خدا کی راہ میں نہ ہوگا۔ اسی لئے آپ نے اس کو کچھ دیر کے بعد قتل کیا۔ اس زمانے میں دشمن کو ذلیل کرنے کے لیے اس کی لاش کو برہنہ کردیتے تھے، مگر حضرت علی علیہ السّلام نے اس کی زرہ نہیں اُتاری جبکہ وہ بہت قیمتی تھی . چناچہجب عمرو کی بہن آپنے بھائی کی لاش پر ائی تو اس نے کہا کہاگر علی کے علاوہ کسی اور نے میرے بھائی کوقتل کیا ہوتا تو میں عمر بھر روتی، مگر مجھے یہ دیکھ کر صبر اگیا کہ اس کاقاتل شریف انسان ہے جس نے آپنے دشمن کی لاش کی توہین گوارا نہیں کی۔ آپ نے کبھی دشمن کی عورتوں یابچّوں پر ہاتھ نہیں اٹھا یا اور نہ کبھی مالِ غنیمت کی طرف رخ کیا .[/FONT]
غدیر خم
[FONT=&]پیغمبر اکرم (ص) آپنی پر برکت زندگی کے آخری سال میں حج کا فریضہ انجام دینے کے بعد مکہ سےمدینے کی طرف پلٹ رہے تھے، جس وقت آپ کا قافلہ جحفه کے نزدیک غدیر خم نامی مقام پر پہنچا تو جبرئیل امین یہ آیہ بلغ لیکرنازل ہوئے، پیغمبر اسلام (ص)نے قافلےکو ٹھرنے کا حکم دیا ۔[/FONT]
[FONT=&]نماز ظھر کے بعد پیغمبر اکرم (ص) اونٹوں کے کجاوں سے بنے منبر پر تشریف لے گئے اور فرمایا :[/FONT]
[FONT=&] ایھا الناس ! وہ وقت قریب ھے که میں دعوت حق پر لبیک کہتے ھوئے تمھارے درمیان سے چلا جاؤں ،لہذا بتاو کہ میرے بارے میں تمہاری کیا رای ہے؟ [/FONT]
[FONT=&]سب نے کہا : ھم گواھی دیتے ھیں آپ نے الٰھی آئین و قوانین کی بہترین طریقے سے تبلیغ کی ھے رسول الله (ص) نے فرمایا کیا تم گواھی دیتے ہو کہ خدائے واحد کے علاوہ کوئی دوسرا خدا نھیں ھے اور محمد خدا کا بندہ اور اس کا رسول ھے ۔[/FONT]
[FONT=&]پھر فرمایا: ایھا الناس ! مومنوں کے نزدیک خود ان سے بھتر اور سزا وار تر کون ھے ؟۔[/FONT]
[FONT=&]لوگوں نے جواب دیا : خدا اور اس کا رسول بھتر جانتے ھیں ۔[/FONT]
[FONT=&]پھر رسول الله (ص) نے حضرت علی (ع) کے ھاتھ کو پکڑ کر بلند کیا اور فرمایا[/FONT]
[FONT=&]: ایھا الناس ! من کنت مولاہ فھذا علی مولاہ۔ جس جس کا میں مولا ہوں اس اس کے یہ علی مولا ہیں ۔ [/FONT]
[FONT=&]رسول الله (ص) نے اس جملے کی تین مرتبہ تکرار کی ۔[/FONT]
[FONT=&]اس کے بعد لوگوں نے حضرت علی (ع) کواس منصب ولایت کے لئے مبارک باددی اور آپ (ع) کے ھاتھوں پر بیعت کی ۔[/FONT]
حضرت علی علیہ السلام، پیغمبر اسلام (ص) کی نظر میں
[FONT=&]علی علیہ السّلام کے امتیازی صفات اور خدمات کی بنا پر رسول ان کی بہت عزت کرتے تھے او آپنے قول اور فعل سے ان کی خوبیوں کو ظاہر کرتے رہتے تھے کبھی یہ کہتے تھے کہ علی مجھ سے ہیں اور میں علی سے ہوں .کبھی یہ کہا کہ میں علم کاشہر ہوں اور علی اس کا دروازہ ہے . کبھی یہ کہا آپ سب میں بہترین فیصلہ کرنے والا علی ہے . کبھی یہ کہاعلی کومجھ سے وہی نسبت ہے جو ہارون کو موسیٰ علیہ السّلام سے تھی . کبھی یہ کہاعلی مجھ سے وہ تعلق رکھتے ہیں جو روح کو جسم سے یاسر کو بدن سے ہوتا ہے .,,[/FONT]
[FONT=&]کبھی یہ کہوہ خدا اور رسول کے سب سے زیادہ محبوب ہیں ,, یہاں تک کہ مباہلہ کے واقعہ میں علی علیہ السّلام کو نفسِ رسول کاخطاب ملا. عملی اعزاز یہ تھا کہ جب مسجدکے صحن میں کھلنے والے، سب کے دروازے بند ہوئے تو علی کادروازہ کھلا رکھا گیا . جب مہاجرین وانصار میں بھائی کا رشتہ قائم کیا گیا تو علی علیہ السّلام کو پیغمبر نے آپنا بھائی قرار دیا۔
اور سب سے اخر میں غدیر خم کے میدان میں مسلمانوں کے مجمع میں علی علیہ السّلام کو اپنے ہاتھوں پر بلند کر کے یہ اعلان فرما دیا کہ جس طرح میں تم سب کا حاکم اور سرپرست ہوں اسی طرح علی علیہ السّلام، تم سب کے سرپرست اور حاکم ہیں۔ یہ اتنا بڑا اعزاز ہے کہ تمام مسلمانوں نے علی علیہ السّلام کو مبارک باد دی اور سب نے سمجھ لیا کہ پیغمبر نے علی علیہ السّلام کی ولی عہدی اور جانشینی کااعلان کردیا ہے .[/FONT]
حضرت علی علیہ السلام کی شہادت
[FONT=&]جنگ نھروان کے بعد خوارج میں سے کچھ لوگ جیسے عبد الرحمن بن ملجم مرادی ، ومبرک بن عبد الله تمیمی اور عمر و بن بکر تمیمی ایک رات میں ایک جگہ جمع ہوئےاور نھروان میں مارے گئے اپنےساتھیوں کو یاد کیا کرتے ہوئے ان دنوں کے حالات اور داخلی جنگوں کے بارے میں تبادلہ خیال کرنےلگے۔ بالآخروہ اس نتیجہ پر پھونچے که اس قتل و غارت کی وجہ حضرت علی (ع) معاویہ اورعمرو عاص ھیں اور اگر ان تینوں افراد کو قتل کر دیا جائے تو مسلمان اپنے مسائل کوخود حل کر لیں گے۔ لھذا انھوں نے آپس میں طےکیا کہ ھم میں سے ھر ایک آدمی ان میں سے ایک ایک کو قتل کرے گا ۔[/FONT]
[FONT=&]ابن ملجم نے حضرت علی (ع) کے قتل کا عھد کیا اور سن۴۰ ہجری قمری میں انیسویں رمضان المبارک کی شب کو کچھ لوگوں کے ساتھ مسجد کوفہ میں آکر بیٹھ گیا ۔ اس شب حضرت علی (ع) اپنی بیٹی کے گھر مھمان تھے اور صبح کو واقع ھونے والے حادثہ سے با خبر تھے۔ لھذا جب اس مسئلہ کو اپنی بیٹی کے سامنے بیان کیا تو ام کلثوم نے کہا کہ کل صبح آپ ۔۔۔کو مسجد میں بھیج دیجئے ۔[/FONT]
[FONT=&]حضرت علی (ع) نے فرمایا : قضائے الٰھی سے فرار نھیں کیا جا سکتا۔ پھر آپنے کمر کے پٹکے کو کس کر باندھا اور اس شعر کو گنگناتےہوئے مسجد کی طرف روانہ ھوگئے ۔[/FONT]
[FONT=&] اپنی کمر کو موت کے لئے کس لو ، اس لئے کہ موت تم سے ملاقات کرے گی ۔[/FONT]
[FONT=&]اور جب موت تمھاری تلاش میں آئے تو موت کے ڈر سے نالہ و فریاد نہ کرو ۔[/FONT]
[FONT=&]حضرت علی (ع) سجده میں تھے کہ ابن ملجم نے آپ کے فرق مبارک پر تلوار کا وار کیا۔ آپ کے سر سے خون جاری ھواآپ کی داڑھی اور محراب خون سے رنگین ہو گئ۔ اس حالت میں حضرت علی (ع) نے فرمایا : فزت و رب الکعبه کعبہ کے رب کی قسم میں کامیاب ھو گیا۔ پھر سوره طہ کی اس آیت کی تلاوت فرمائی :[/FONT]
[FONT=&]ھم نے تم کو خاک سے پیدا کیا ھے اور اسی خاک میں واپس پلٹا دیں گے اور پھر اسی خاک تمھیں دوباره اٹھائیں گے ۔ [/FONT]
[FONT=&]حضرت علی (ع) اپنی زندگی کے آخری لمحات میں بھی لوگوں کی اصلاح و سعادت کی طرف متوجہ تھے۔ انہوں نے اپنے بیٹوں، عزیزوں اور تمام مسلمانوں سے اس طرح وصیت فرمائی :[/FONT]
[FONT=&] میں تمہیں پرھیز گاری کی وصیت کرتا ھوں اور وصیت کرتا ھوں کہ تم اپنے تمام امور کو منظم کرو اور ھمیشه مسلمانوں کے درمیان اصلاح کی فکر کرتے رھو ۔ یتیموں کو فراموش نہ کرو ۔ پڑوسیوں کے حقوق کی رعایت کرو ۔ قرآن کو اپنا عملی نصاب قرار دو ،نماز کی بہت زیادہ قدر کرو، کیوں کہ یہ تمھارے دین کا ستون ھے ۔ [/FONT]
[FONT=&]آپ کے رحم وکرم اور مساوات پسندی کا عالم یہ تھا کہ جب آپ کے قاتل کو گرفتار کرکے آپ کے سامنے لا یا گیا، اورآپ نے دیکھا کہ اس کاچہرہ زرد ہے اور انکھوں سے انسو جاری ہیں، تو آپ کو اس پر بھی رحم اگیا۔ آپنے اپنے دونوں بیٹوں امام حسن علیہ السّلام وامام حسین علیہ السّلام کو ہدایت فرمائی کہ یہ ہمارا قیدی ہے اس کے ساتھ کوئی سختی نہ کرنا، جو کچھ خود کھانا وہ اسے کھلانا، اگر میں صحتیاب ہو گیا تو مجھے اختیار ہے کہ چاہے اسے سزا دوں یا معاف کردوں اور اگر میں دنیا میں نہ رہا اور آپ نے اس سے انتقام لینا چاہا تو اسے ایک ہی ضربت لگاناکیونکہ اس نے مجھے ایک ہی ضربت لگائی ہے ۔ اور ہر گز اس کے ہاتھ پاؤں وغیرہ قطع نہ کرنا کیوں کہ یہ اسلامی تعلیم کے خلاف ہے۔
[/FONT]
http://ur.abna24.com
http://urdu.duas.org/masoomeen/chodah_sitaray/002.html
حضرت علیہ ااسلام ، پیغمبراسلام (ص) کے بھائی [/FONT]
[FONT=&]پیغمبراسلام (ص) نےمدینے پہنچ کر مسلمانوں کے درمیان بھائ کا رشتہ قائم کیا۔ عمر کو ابو بکر کا بھائ بنا بنا یاطلہ کو زبیر کا بھائ قرار دیا و۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور حضرت علی (ع)کو رسول الله (ص) نے اپنا بھائ بنایا اور حضرت علی (ع) سے فرمایا :[/FONT]
[FONT=&] تم دنیا اور آخرت میں میرے بھائی ھو، اس خدا کی قسم جس نے مجھے حق کے ساتھ مبعوث فرمایا ۔۔۔ میں تمھیں آپنی اخوت کے لئے انتخاب کرتا ھوں ، ایک ایسی اخوت جو دونوں جھان میں بر قرار رھے ۔[/FONT]
[FONT=&]حضرت علی علیہ السلام اور اسلا می جہاد [/FONT]
[FONT=&]اسلام کے دشمنوں نے پیغمبراسال (ص) کو مدینہ میں چین سے نہ بیٹھنے دیا. جو مسلمان مکہ میں تھے انھیں طرح طرح کی تکلیفیں دی گئیں کچھ کو قتل کر دیا گیا، کچھ کو قیدی بنا لیاگیا اور کچھ کو مارا پیٹاگیا. یہی نہیں بلکہانہوں نے اسلحہ اور فوج جمع کر کے خود رسول کے خلاف مدینہ پر چڑاھئی کردی۔ اس موقع پر رسول اللہ (ص) کا اخلاقی فرض تھا کہ وہ مدینہ والوں کے گھروں کی حفاظت کریں، کیوں کہ انھوں نے آپ کو پریشانی کے عالم میں پنا ہ دی تھی اور آپ کی نصرت و مداد کاوعدہ کیا تھا، لہذا آپ نے یہ کسی طرح پسند نہ کیا کہ آپ شہر کے اندر رہ کر دشمن کا مقابلہ کریں اور دشمن کو مدینہ کی پر امن ابادی میں داخل ہونے اور عورتوں اور بچوں کو پریشان کرنے کا موقع دیں. آپ کے ساتھیوں تعداد بہت کم تھی۔ آپ کے پاس کل تین سو تیرہ آدمی تھے اور مب کے پاس ہتھیار بھی نہیں تھے، مگر آپ نے یہ طے کیا کہ ہم مدینے سے باہر نکل کر دشمن کا مقابلہ کریں گے۔
چنانچہ یہ اسلام کی پہلی جنگ ہوئی جوآگے چل کر جنگِ بدر کے نام سے مشہور ہوئ . اس جنگ میں رسول اللہ (ص) نے آپنے عزیزوں کو زیادہ آگے رکھا، جس کی وجہ سے آپ کے چچا زاد بھائی عبید ابن حارث ابن عبدالمطلب اس جنگ میں شہید ہوگئے . علی علیہ السّلام ابن ابی طالب کو جنگ کا یہ پہلا تجربہ تھا۔ اس وقت ان کی عمر صرف ۲۵برس تھی مگر جنگ کی فتح کا سہرا علی علیہ السّلام کے سر ہی بندھا۔ جتنے مشرکین قتل ہوئے ان میں سے ادھےحضرت علی علیہ السّلام کے ہاتھ سے اور ادھے، باقی مجاہدین کے ہاتھوں قتل ہوئے تھے۔ اس کے بعد ،اُحد، خندق،خیبراور اخر میں حنین یہ وہ بڑی جنگیں تھیں جن میں حضرت علی علیہ السّلام نے رسول کے ساتھ رہ کر اپنی بہادری کے جوہر دکھا ئے۔ تقریباً ان تمام جنگوں میں علی علیہ السّلام کو علمداری کا عہدہ بھی حاصل رہا . اس کے علاوہ بہت سی جنگیں ایسی تھیں جن میں رسول نےحضرت علی علیہ السّلام کو تنہا بھیجا اورانھوں نے اکیلے ہی بہادری اور ثابت قدمی کے ساتھ فتح حاصل کی اور استقلال،تحمّل اور شرافت ُ نفس کا وہ مطاہرہ کیا کہاس کا اقرار خود ان کے دشمن کو بھی کرنا پڑا۔ جب خندق کی جنگ میں دشمن کے سب سے بڑے سورماعمر وبن عبدود کو آپ نے مغلوب کر لیا اور اس کاسر کاٹنے کے لیے اس کے سینے پرسوار ہوئے تو اس نے آپ کے چہرے پر لعب دہن پھینک دیا۔
آپ کو غصہ اگیا اور آپ اس کے سینے سے اتر ا ٓئے . صرف اس خیال سے کہ اگراس غصّےکی حالت میں اس کو قتل کیا تو یہ عمل خواہش نفس کے مطابق ہوگا، خدا کی راہ میں نہ ہوگا۔ اسی لئے آپ نے اس کو کچھ دیر کے بعد قتل کیا۔ اس زمانے میں دشمن کو ذلیل کرنے کے لیے اس کی لاش کو برہنہ کردیتے تھے، مگر حضرت علی علیہ السّلام نے اس کی زرہ نہیں اُتاری جبکہ وہ بہت قیمتی تھی . چناچہجب عمرو کی بہن آپنے بھائی کی لاش پر ائی تو اس نے کہا کہاگر علی کے علاوہ کسی اور نے میرے بھائی کوقتل کیا ہوتا تو میں عمر بھر روتی، مگر مجھے یہ دیکھ کر صبر اگیا کہ اس کاقاتل شریف انسان ہے جس نے آپنے دشمن کی لاش کی توہین گوارا نہیں کی۔ آپ نے کبھی دشمن کی عورتوں یابچّوں پر ہاتھ نہیں اٹھا یا اور نہ کبھی مالِ غنیمت کی طرف رخ کیا .[/FONT]
غدیر خم
[FONT=&]پیغمبر اکرم (ص) آپنی پر برکت زندگی کے آخری سال میں حج کا فریضہ انجام دینے کے بعد مکہ سےمدینے کی طرف پلٹ رہے تھے، جس وقت آپ کا قافلہ جحفه کے نزدیک غدیر خم نامی مقام پر پہنچا تو جبرئیل امین یہ آیہ بلغ لیکرنازل ہوئے، پیغمبر اسلام (ص)نے قافلےکو ٹھرنے کا حکم دیا ۔[/FONT]
[FONT=&]نماز ظھر کے بعد پیغمبر اکرم (ص) اونٹوں کے کجاوں سے بنے منبر پر تشریف لے گئے اور فرمایا :[/FONT]
[FONT=&] ایھا الناس ! وہ وقت قریب ھے که میں دعوت حق پر لبیک کہتے ھوئے تمھارے درمیان سے چلا جاؤں ،لہذا بتاو کہ میرے بارے میں تمہاری کیا رای ہے؟ [/FONT]
[FONT=&]سب نے کہا : ھم گواھی دیتے ھیں آپ نے الٰھی آئین و قوانین کی بہترین طریقے سے تبلیغ کی ھے رسول الله (ص) نے فرمایا کیا تم گواھی دیتے ہو کہ خدائے واحد کے علاوہ کوئی دوسرا خدا نھیں ھے اور محمد خدا کا بندہ اور اس کا رسول ھے ۔[/FONT]
[FONT=&]پھر فرمایا: ایھا الناس ! مومنوں کے نزدیک خود ان سے بھتر اور سزا وار تر کون ھے ؟۔[/FONT]
[FONT=&]لوگوں نے جواب دیا : خدا اور اس کا رسول بھتر جانتے ھیں ۔[/FONT]
[FONT=&]پھر رسول الله (ص) نے حضرت علی (ع) کے ھاتھ کو پکڑ کر بلند کیا اور فرمایا[/FONT]
[FONT=&]: ایھا الناس ! من کنت مولاہ فھذا علی مولاہ۔ جس جس کا میں مولا ہوں اس اس کے یہ علی مولا ہیں ۔ [/FONT]
[FONT=&]رسول الله (ص) نے اس جملے کی تین مرتبہ تکرار کی ۔[/FONT]
[FONT=&]اس کے بعد لوگوں نے حضرت علی (ع) کواس منصب ولایت کے لئے مبارک باددی اور آپ (ع) کے ھاتھوں پر بیعت کی ۔[/FONT]
حضرت علی علیہ السلام، پیغمبر اسلام (ص) کی نظر میں
[FONT=&]علی علیہ السّلام کے امتیازی صفات اور خدمات کی بنا پر رسول ان کی بہت عزت کرتے تھے او آپنے قول اور فعل سے ان کی خوبیوں کو ظاہر کرتے رہتے تھے کبھی یہ کہتے تھے کہ علی مجھ سے ہیں اور میں علی سے ہوں .کبھی یہ کہا کہ میں علم کاشہر ہوں اور علی اس کا دروازہ ہے . کبھی یہ کہا آپ سب میں بہترین فیصلہ کرنے والا علی ہے . کبھی یہ کہاعلی کومجھ سے وہی نسبت ہے جو ہارون کو موسیٰ علیہ السّلام سے تھی . کبھی یہ کہاعلی مجھ سے وہ تعلق رکھتے ہیں جو روح کو جسم سے یاسر کو بدن سے ہوتا ہے .,,[/FONT]
[FONT=&]کبھی یہ کہوہ خدا اور رسول کے سب سے زیادہ محبوب ہیں ,, یہاں تک کہ مباہلہ کے واقعہ میں علی علیہ السّلام کو نفسِ رسول کاخطاب ملا. عملی اعزاز یہ تھا کہ جب مسجدکے صحن میں کھلنے والے، سب کے دروازے بند ہوئے تو علی کادروازہ کھلا رکھا گیا . جب مہاجرین وانصار میں بھائی کا رشتہ قائم کیا گیا تو علی علیہ السّلام کو پیغمبر نے آپنا بھائی قرار دیا۔
اور سب سے اخر میں غدیر خم کے میدان میں مسلمانوں کے مجمع میں علی علیہ السّلام کو اپنے ہاتھوں پر بلند کر کے یہ اعلان فرما دیا کہ جس طرح میں تم سب کا حاکم اور سرپرست ہوں اسی طرح علی علیہ السّلام، تم سب کے سرپرست اور حاکم ہیں۔ یہ اتنا بڑا اعزاز ہے کہ تمام مسلمانوں نے علی علیہ السّلام کو مبارک باد دی اور سب نے سمجھ لیا کہ پیغمبر نے علی علیہ السّلام کی ولی عہدی اور جانشینی کااعلان کردیا ہے .[/FONT]
حضرت علی علیہ السلام کی شہادت
[FONT=&]جنگ نھروان کے بعد خوارج میں سے کچھ لوگ جیسے عبد الرحمن بن ملجم مرادی ، ومبرک بن عبد الله تمیمی اور عمر و بن بکر تمیمی ایک رات میں ایک جگہ جمع ہوئےاور نھروان میں مارے گئے اپنےساتھیوں کو یاد کیا کرتے ہوئے ان دنوں کے حالات اور داخلی جنگوں کے بارے میں تبادلہ خیال کرنےلگے۔ بالآخروہ اس نتیجہ پر پھونچے که اس قتل و غارت کی وجہ حضرت علی (ع) معاویہ اورعمرو عاص ھیں اور اگر ان تینوں افراد کو قتل کر دیا جائے تو مسلمان اپنے مسائل کوخود حل کر لیں گے۔ لھذا انھوں نے آپس میں طےکیا کہ ھم میں سے ھر ایک آدمی ان میں سے ایک ایک کو قتل کرے گا ۔[/FONT]
[FONT=&]ابن ملجم نے حضرت علی (ع) کے قتل کا عھد کیا اور سن۴۰ ہجری قمری میں انیسویں رمضان المبارک کی شب کو کچھ لوگوں کے ساتھ مسجد کوفہ میں آکر بیٹھ گیا ۔ اس شب حضرت علی (ع) اپنی بیٹی کے گھر مھمان تھے اور صبح کو واقع ھونے والے حادثہ سے با خبر تھے۔ لھذا جب اس مسئلہ کو اپنی بیٹی کے سامنے بیان کیا تو ام کلثوم نے کہا کہ کل صبح آپ ۔۔۔کو مسجد میں بھیج دیجئے ۔[/FONT]
[FONT=&]حضرت علی (ع) نے فرمایا : قضائے الٰھی سے فرار نھیں کیا جا سکتا۔ پھر آپنے کمر کے پٹکے کو کس کر باندھا اور اس شعر کو گنگناتےہوئے مسجد کی طرف روانہ ھوگئے ۔[/FONT]
[FONT=&] اپنی کمر کو موت کے لئے کس لو ، اس لئے کہ موت تم سے ملاقات کرے گی ۔[/FONT]
[FONT=&]اور جب موت تمھاری تلاش میں آئے تو موت کے ڈر سے نالہ و فریاد نہ کرو ۔[/FONT]
[FONT=&]حضرت علی (ع) سجده میں تھے کہ ابن ملجم نے آپ کے فرق مبارک پر تلوار کا وار کیا۔ آپ کے سر سے خون جاری ھواآپ کی داڑھی اور محراب خون سے رنگین ہو گئ۔ اس حالت میں حضرت علی (ع) نے فرمایا : فزت و رب الکعبه کعبہ کے رب کی قسم میں کامیاب ھو گیا۔ پھر سوره طہ کی اس آیت کی تلاوت فرمائی :[/FONT]
[FONT=&]ھم نے تم کو خاک سے پیدا کیا ھے اور اسی خاک میں واپس پلٹا دیں گے اور پھر اسی خاک تمھیں دوباره اٹھائیں گے ۔ [/FONT]
[FONT=&]حضرت علی (ع) اپنی زندگی کے آخری لمحات میں بھی لوگوں کی اصلاح و سعادت کی طرف متوجہ تھے۔ انہوں نے اپنے بیٹوں، عزیزوں اور تمام مسلمانوں سے اس طرح وصیت فرمائی :[/FONT]
[FONT=&] میں تمہیں پرھیز گاری کی وصیت کرتا ھوں اور وصیت کرتا ھوں کہ تم اپنے تمام امور کو منظم کرو اور ھمیشه مسلمانوں کے درمیان اصلاح کی فکر کرتے رھو ۔ یتیموں کو فراموش نہ کرو ۔ پڑوسیوں کے حقوق کی رعایت کرو ۔ قرآن کو اپنا عملی نصاب قرار دو ،نماز کی بہت زیادہ قدر کرو، کیوں کہ یہ تمھارے دین کا ستون ھے ۔ [/FONT]
[FONT=&]آپ کے رحم وکرم اور مساوات پسندی کا عالم یہ تھا کہ جب آپ کے قاتل کو گرفتار کرکے آپ کے سامنے لا یا گیا، اورآپ نے دیکھا کہ اس کاچہرہ زرد ہے اور انکھوں سے انسو جاری ہیں، تو آپ کو اس پر بھی رحم اگیا۔ آپنے اپنے دونوں بیٹوں امام حسن علیہ السّلام وامام حسین علیہ السّلام کو ہدایت فرمائی کہ یہ ہمارا قیدی ہے اس کے ساتھ کوئی سختی نہ کرنا، جو کچھ خود کھانا وہ اسے کھلانا، اگر میں صحتیاب ہو گیا تو مجھے اختیار ہے کہ چاہے اسے سزا دوں یا معاف کردوں اور اگر میں دنیا میں نہ رہا اور آپ نے اس سے انتقام لینا چاہا تو اسے ایک ہی ضربت لگاناکیونکہ اس نے مجھے ایک ہی ضربت لگائی ہے ۔ اور ہر گز اس کے ہاتھ پاؤں وغیرہ قطع نہ کرنا کیوں کہ یہ اسلامی تعلیم کے خلاف ہے۔
[/FONT]
http://ur.abna24.com
http://urdu.duas.org/masoomeen/chodah_sitaray/002.html
Last edited: