یوم شہادت حضرت علی علیہ السلام

Status
Not open for further replies.

alibaba007

Banned
یوم شہادت حضرت علی علیہ السلام




135578914355819ed3ca3d9_shadatimamAli.jpg


ولادت



[FONT=&amp]جت حضرت علی (ع) کی ولادت کا وقت قریب آیا تو فاطمه بنت اسد کعبه کے پاس ائیں اور آپنے جسم کو اس کی دیوار سے مس کر کے عرض کیا:[/FONT]
[FONT=&amp]پروردگارا ! میں تجھ پر، تیرےنبیوں پر، تیری طرف سے نازل شده کتابوں پر اور اس مکان کی تعمیر کرنے والے، آپنے جد ابراھیم (ع) کے کلام پر راسخ ایمان رکھتی ھوں ۔[/FONT]
[FONT=&amp]پروردگارا ! تجھے اس ذات کے احترام کا واسطہ جس نے اس مکان مقدس کی تعمیر کی اور اس بچه کے حق کا واسطه جو میرے شکم میں موجود ھے، اس کی ولادت کو میرے لئے آسان فرما ۔[/FONT]
[FONT=&amp]ابھی ایک لمحہ بھی نھیں گزرا تھا که کعبہ کی جنوبی مشرقی دیوار ، عباس بن عبد المطلب اور یزید بن تعف کی نظروں کے سامنے شگافته ھوئی، فاطمه بنت اسد کعبہ میں داخل ھوئیں اور دیوار دوباره مل گئی ۔ فاطمه بنت اسد تین دن تک روئے زمین کے اس سب سے مقدس مکان میں اللہ کی مھمان رھیں اور تیره رجب سن ۳۰/ عام الفیل کو بچہ کی ولادت ھوئی ۔ ولادت کے بعد جب فاطمه بنت اسد نے کعبہ سے باھر آنا چاھا تو دیوار دو باره شگافتہ ھوئی، آپ کعبه سے باھر تشریف لائیں اور فرمایا : میں نے غیب سے یہ پیغام سنا ھے که اس بچے کا نام علی رکھنا ۔[/FONT]

بچپن ا ور تربیت



[FONT=&amp]حضرت علی (ع) تین سال کی عمر تک آپنے والدین کے پاس رہے اور اس کے بعد پیغمبر اسلام (ص) کے پاس آگئے۔ کیون کہ جب آپ تین سال کے تھےاس وقت مکہ میں بھت سخت قحط پڑا ۔جس کی وجہ سے رسول الله (ص) کے چچا ابو طالب کو اقتصادی مشکل کابہت سخت سامنا کرنا پڑا ۔ رسول الله (ص) نے آپنے دوسرے چچا عباس سے مشوره کرنے کے بعد یہ طے کیا کہ ھم میں سے ھر ایک، ابو طالب کے ایک ایک بچے کی کفالت آپنے ذمہ لے لے تاکہ ان کی مشکل آسان ھو جائے ۔ اس طرح عباس نے جعفر اور رسول الله (ص) نے علی (ع) کی کفالت آپنے ذمہ لے لی ۔[/FONT]
[FONT=&amp]
حضرت علی (ع) پوری طرح سے پیغمبر اکرم (ص) کی کفالت میں آگئے اور حضرت علی علیہ السّلام کی پرورش براهِ راست حضرت محمد مصطفےٰ کے زیر نظر ہونے لگی ۔ ا ٓ پ نے انتہائی محبت اور توجہ سے آپنا پورا وقت، اس چھوٹے بھائی کی علمی اورا خلاقی تربیت میں صرف کیا. کچھ تو حضرت علی (ع) کے ذاتی جوہر اور پھراس پر رسول جیسے بلند مرتبہ مربیّ کافیض تربیت ، چنانچہ علی علیہ السّلام دس برس کے سن میں ہی اتنی بلندی پر پہنچ گئے کہ جب پیغمبر اسلام (ص) نے رسالت کا دعوی ک یا، تو آپ نے ان کی تصدیق فرمائ ۔ آپ ھمیشه رسول الله (ص) کے ساتھ رھتے تھے، یہاں تک کہ جب پیغمبر اکرم (ص) شھر سے باھر، کوه و بیابان کی طرف جاتے تھے تو آپ کو آپنے ساتھ لے جاتے تھے ۔
[/FONT]
[FONT=&amp]
پیغمبر اکرم (ص) کی بعثت اور حضرت علی (ع)
[/FONT]
[FONT=&amp]جب حضرت محمد مصطفے ( ص ) چالیس سال کے ہوئے تو اللہ نے انہیں عملی طور پر آپنا پیغام پہنچانے کے لئے معین فرمایا ۔ اللہ کی طرف سے پیغمبر (ص) کو جو یہ ذمہ داری سونپی گئ ، اسی کو بعثت کہتے ہیں .[/FONT]
[FONT=&amp]حضرت محمد (ص) پر وحی الٰھی کے نزول و پیغمبری کے لئے انتخاب کے بعدکی تین سال کی مخفیانہ دعوت کے بعد بالاخرخدا کی طرف سے وحی نازل ھوئ اور رسول الله (ص) کو عمومی طور پر دعوت اسلام کا حکم دیا گیا ۔[/FONT]
[FONT=&amp]اس دوران پیغمبراکرم (ص) کی الٰھی دعوت کے منصوبوں کو عملی جامہ پھنانے والے تنھا حضرت علی (ع) تھے۔ جب رسول الله (ص) نے اپنے اعزاء و اقرباء کے درمیان اسلام کی تبلیغ کے لئے انہیں دعوت دی تو آپ کے ھمدرد و ھمدم، تنھا حضرت علی (ع) تھے ۔[/FONT]
[FONT=&amp]اس دعوت میں پیغمبر خدا (ص) نےحاضرین سے سوال کیا کہ آپ میں سے کون ہے جو اس راه میں میری مدد کرے اور آپ کے درمیان میرا بھائی، وصی اور جانشین ھو؟[/FONT]
[FONT=&amp]
اس سوال کا جواب فقط حضرت علی (ع) نے دیا : اے پیغمبر خدا ! میں اس راه میں آپ کی نصرت کروں گا ۔ پیغمبر اکرم (ص) نے تین مرتبه اسی سوال کی تکرار اور تینوں مرتبہ حضرت علی (ع) کا جواب سننے کے بعد فرمایا :
[/FONT]
[FONT=&amp]اے میرے خاندان والوں ! جان لو که علی میرا بھائی اور میرے بعد تمھارے درمیان میرا وصی و جانشین ھے ۔[/FONT]
[FONT=&amp]علی (ع) کے فضائل میں سے ایک یہ بھی ھے کہ آپ (ع) رسول الله (ص) پر ایمان لانے والے سب سے پھلے شخص ھیں ۔ اس سلسلے میں ابن ابی الحدید لکھتے ھیں :[/FONT]
[FONT=&amp]بزرگ علماء اور گروه معتزلہ کے متکلمین کے درمیان اس میں کوئی اختلاف نھیں ھے کہ علی بن ابی طالب (ع) وه پھلے شخص ھیں جو پیغمبر اسلام پر ایمان لائے اور پیغمبر خدا (ص) کیتصدیق کی ۔ [/FONT]
[FONT=&amp]
رسول اسلام کی بعثت، زمانہ , ماحول, شہر اور آپنی قوم و خاندان کے خلاف ایک ایسی مہم تھی ، جس میں رسول کا ساتھ دینے والا کوئی نظر نہ ی اتا تھا ۔ بس ایک علی علیہ السّلام تھے کہ جب پیغمبر نے رسالت کا دعویٰ کیا تو انہوں نے سب سے پہلے ا ن کی تصدیق کی اور ان پر ایمان کااقرارکیا . دوسری ذات جناب خدیج ۃ ال کبریٰ کی تھی، جنھوں نے خواتین کے طبقہ میں سبقتِ اسلام ک ا شرف حاصل کیا۔
[/FONT]
[FONT=&amp]پیغمبر کادعوائے رسالت کرنا تھا کہ مکہ کا ہر آدمی رسول کادشمن نظر انے لگا . وہی لوگ جو کل تک آپ کی سچائی اورامانتداری کادم بھرتے تھے اج آپ کو ( معاذ الله ( یوانہ، جادو گر اور نہ جانے کیا کیا کہنے لگے۔ اللہ کے رسول کے راستوں میں کانٹے بچھائے جاتے، انہیں پتھر مارے جاتے اور ان کے سر پر کوڑا کرکٹ پھینکا جاتا تھا. اس مصیبت کے وقت میں رسول ک ے شریک صرفاور صرف حضرت علی علیہ السّلام تھے، جو بھائی کاساتھ دینے میں کبھی بھی ہمت نہیں ہار تے تھے ۔ وہ ہمیشہ محبت ووفاداری کادم بھرتے رہےاور ہرموقع پر رسول کے سینہ سپر رہے۔ یہاں تک کہ وہ وقت بھی ایا جب مخالف گروہ نے انتہائی سختی کے ساتھ یہ طے کرلیا کہ پیغمبر اور ان کے تمام گھر والوں کا بائیکاٹ کیا جائے۔ حالات اتنے خراب تھے کہ جانوں کے لالے پڑ گئے تھے .حضرت ابو طالب علیہ السّلام نے آپنے تمام ساتھیوں کو حضرت محمدمصطفےٰ سمیت ایک پہاڑ کے دامن میں محفوظ قلعہ میں بند کردیا۔

وہان پر تین برس تک قید وبند کی زندگی بسر کرنی پڑی . کیون کہ اس دوران ہر رات یہ خطرہ رہتا تھا کہ کہیں دشمن شب خون نہ مار دے . اس لئے ابو طالب علیہ السّلام نے یہ طریقہ اختیار کیا تھا کہ وہ رات بھر رسول کو ایک بستر پر نہیں رہنے دیتے تھے، بلکہ ک بھی رسول کے بستر پر جعفر کو اور جعفر کے بستر پر رسول کو ک بھی عقیل کے بستر پر رسول کو اور رسول کے بستر پر عقیل کو ک بھی علی کے بستر پر رسول کو اور رسول کے بستر پر علی علیہ السّلام کو لٹا تے رہتے تھے. مطلب یہ تھا کہ اگر دشمن رسول کے بستر کا پتہ لگا کر حملہ کرنا چاہے تو میرا کوئ بیٹا قتل ہوجائے مگر رسول کا بال بیکانہ ہونے پائے . اس طرح علی علیہ السّلام بچپن سے ہی فدا کاری اور جان نثاری کے سبق کو عملی طور پر دہراتے رہے .
[/FONT]

رسول کی ہجرت اور حضرت علی (ع)



[FONT=&amp]حضرت علی (ع) کے دیگر افتخارات میں سے ایک یہ ھے کہ جب شب ھجرت مشرک دشمنوں نے رسول الله (ص) کے قتل کی سازش رچی تو آپ (ع) نے پوری شجاعت کے ساتھ رسول الله (ص) کے بستر پر سو کر انکی سازش کو نا کام کر دیا۔[/FONT]
[FONT=&amp]حضرت ابو طالب علیہ السّلام کی وفات سے پیغمبر کا دل ٹوٹ گیا اور آپ نے مدینہ کی طرف ہجرت کاارادہ کرلیا ۔ دشمنوں نے یہ سازش رچی کہ ایک رات جمع ہو کر پیغمبر کے گھر کو گھیر لیں اور حضرت کو شہید کرڈالیں۔ جب حضرت کو اس کی اطلاع ہوئی تو آپ نے آپنے جاں نثار بھائی علی علیہ السّلام کو بلا کر اس سازش کے بارے میں اطلاع دی اور فرمایا کہ میری جان اس طرح بچ سکتی ہے اگر آج رات آپ میرے بستر پر میری چادر اوڑھ کر سو جاؤ اور میں مخفی طور پر مکہ سے روانہ ہوجاؤں . کوئی دوسرا ہوتاتو یہ پیغام سنتے ہی اس کا دل دہل جاتا، مگر علی علیہ السّلام نے یہ سن کر کہ میرے ذریعہ سے رسول کی جان کی حفاظت ہوگی، خدا کاشکر ادا کیا اور بہت خوش ہوئے کہ مجھے رسول کافدیہ قرار دیا جارہا ہے۔

یہی ہوا کہ رسالت ماب شب کے وقت مکہ معظمہ سے مدینہ منورہ کی طرف روانہ ہوگئے اور علی بن ابی طالب علیہ ما السّلام رسول کے بستر پر سوئے۔ چاروں طرف خون کے پیاسے دشمن تلواریں کھینچے نیزے لئے ہوئے مکان کوگھیرے ہوئے تھے . بس اس بات کی دیر تھی کہ ذرا صبح ہو اور سب کے سب گھر میں داخل ہو کر رسالت ما ٓ ب کو شہید کر ڈالیں . علی علیہ السّلام اطمینان کے ساتھ بستر پرارام کرتے رہے اور اپنی جان کا ذرا بھی خیال نہ کیا۔ جب دشمنوں کو صبح کے وقت یہ معلوم ہوا کہ محمد نہیں ہیں تو انھوں نے آپ پر یہ دباؤ ڈالا کہ آپ بتلادیں کہ رسول کہا ںگئے ہیں ? مگر علی علیہ السّلام نے بڑے بہادرانہ انداز میں یہ بتانے سے قطعیطور پر انکار کردیا . اس کا نتیجہ یہ ہواکہ رسول الله (ص) مکہ سے کافی دور تک بغیر کسی پریشانی اور رکاوٹ کے تشریف لے جاسکیں.علی علیہ السّلام تین روز تک مکہ میں رہے . جن لوگوں کی امانتیں رسول الله کے پاس تھیں ان کے سپرد کر کےخواتین ُبیت ُ رسالت کو آپنے ساتھ لے کرمدینہ کی طرف روانہ ہوئے . آپ کئ روز تک رات دن پیدل چلے کر اس حالت میں رسول کے پاس پہنچے کہ آپ کے پیروں سے خون بہ رہا تھا. اس واقعہ سے ثابت ہوتا ہے کہ علی علیہ السّلام پر رسول کو سب سے زیادہ اعتماد تھااور جس وفاداری , ہمت اور دلیری سے علی علیہ السّلام نے اس ذمہ داری کو پورا کیا ہے وہ بھی آپنی آپ میں ایک مثال ہے
[/FONT]
[FONT=&amp]
حضرت علیہ ااسلام ، پیغمبراسلام (ص) کے بھائی
[/FONT]

[FONT=&amp]پیغمبراسلام (ص) نےمدینے پہنچ کر مسلمانوں کے درمیان بھائ کا رشتہ قائم کیا۔ عمر کو ابو بکر کا بھائ بنا بنا یاطلہ کو زبیر کا بھائ قرار دیا و۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور حضرت علی (ع)کو رسول الله (ص) نے اپنا بھائ بنایا اور حضرت علی (ع) سے فرمایا :[/FONT]
[FONT=&amp] تم دنیا اور آخرت میں میرے بھائی ھو، اس خدا کی قسم جس نے مجھے حق کے ساتھ مبعوث فرمایا ۔۔۔ میں تمھیں آپنی اخوت کے لئے انتخاب کرتا ھوں ، ایک ایسی اخوت جو دونوں جھان میں بر قرار رھے ۔[/FONT]
[FONT=&amp]حضرت علی علیہ السلام اور اسلا می جہاد [/FONT]
[FONT=&amp]اسلام کے دشمنوں نے پیغمبراسال (ص) کو مدینہ میں چین سے نہ بیٹھنے دیا. جو مسلمان مکہ میں تھے انھیں طرح طرح کی تکلیفیں دی گئیں کچھ کو قتل کر دیا گیا، کچھ کو قیدی بنا لیاگیا اور کچھ کو مارا پیٹاگیا. یہی نہیں بلکہانہوں نے اسلحہ اور فوج جمع کر کے خود رسول کے خلاف مدینہ پر چڑاھئی کردی۔ اس موقع پر رسول اللہ (ص) کا اخلاقی فرض تھا کہ وہ مدینہ والوں کے گھروں کی حفاظت کریں، کیوں کہ انھوں نے آپ کو پریشانی کے عالم میں پنا ہ دی تھی اور آپ کی نصرت و مداد کاوعدہ کیا تھا، لہذا آپ نے یہ کسی طرح پسند نہ کیا کہ آپ شہر کے اندر رہ کر دشمن کا مقابلہ کریں اور دشمن کو مدینہ کی پر امن ابادی میں داخل ہونے اور عورتوں اور بچوں کو پریشان کرنے کا موقع دیں. آپ کے ساتھیوں تعداد بہت کم تھی۔ آپ کے پاس کل تین سو تیرہ آدمی تھے اور مب کے پاس ہتھیار بھی نہیں تھے، مگر آپ نے یہ طے کیا کہ ہم مدینے سے باہر نکل کر دشمن کا مقابلہ کریں گے۔

چنانچہ یہ اسلام کی پہلی جنگ ہوئی جوآگے چل کر جنگِ بدر کے نام سے مشہور ہوئ . اس جنگ میں رسول اللہ (ص) نے آپنے عزیزوں کو زیادہ آگے رکھا، جس کی وجہ سے آپ کے چچا زاد بھائی عبید ابن حارث ابن عبدالمطلب اس جنگ میں شہید ہوگئے . علی علیہ السّلام ابن ابی طالب کو جنگ کا یہ پہلا تجربہ تھا۔ اس وقت ان کی عمر صرف ۲۵برس تھی مگر جنگ کی فتح کا سہرا علی علیہ السّلام کے سر ہی بندھا۔ جتنے مشرکین قتل ہوئے ان میں سے ادھےحضرت علی علیہ السّلام کے ہاتھ سے اور ادھے، باقی مجاہدین کے ہاتھوں قتل ہوئے تھے۔ اس کے بعد ،اُحد، خندق،خیبراور اخر میں حنین یہ وہ بڑی جنگیں تھیں جن میں حضرت علی علیہ السّلام نے رسول کے ساتھ رہ کر اپنی بہادری کے جوہر دکھا ئے۔ تقریباً ان تمام جنگوں میں علی علیہ السّلام کو علمداری کا عہدہ بھی حاصل رہا . اس کے علاوہ بہت سی جنگیں ایسی تھیں جن میں رسول نےحضرت علی علیہ السّلام کو تنہا بھیجا اورانھوں نے اکیلے ہی بہادری اور ثابت قدمی کے ساتھ فتح حاصل کی اور استقلال،تحمّل اور شرافت ُ نفس کا وہ مطاہرہ کیا کہاس کا اقرار خود ان کے دشمن کو بھی کرنا پڑا۔ جب خندق کی جنگ میں دشمن کے سب سے بڑے سورماعمر وبن عبدود کو آپ نے مغلوب کر لیا اور اس کاسر کاٹنے کے لیے اس کے سینے پرسوار ہوئے تو اس نے آپ کے چہرے پر لعب دہن پھینک دیا۔

آپ کو غصہ اگیا اور آپ اس کے سینے سے اتر ا ٓئے . صرف اس خیال سے کہ اگراس غصّےکی حالت میں اس کو قتل کیا تو یہ عمل خواہش نفس کے مطابق ہوگا، خدا کی راہ میں نہ ہوگا۔ اسی لئے آپ نے اس کو کچھ دیر کے بعد قتل کیا۔ اس زمانے میں دشمن کو ذلیل کرنے کے لیے اس کی لاش کو برہنہ کردیتے تھے، مگر حضرت علی علیہ السّلام نے اس کی زرہ نہیں اُتاری جبکہ وہ بہت قیمتی تھی . چناچہجب عمرو کی بہن آپنے بھائی کی لاش پر ائی تو اس نے کہا کہاگر علی کے علاوہ کسی اور نے میرے بھائی کوقتل کیا ہوتا تو میں عمر بھر روتی، مگر مجھے یہ دیکھ کر صبر اگیا کہ اس کاقاتل شریف انسان ہے جس نے آپنے دشمن کی لاش کی توہین گوارا نہیں کی۔ آپ نے کبھی دشمن کی عورتوں یابچّوں پر ہاتھ نہیں اٹھا یا اور نہ کبھی مالِ غنیمت کی طرف رخ کیا .
[/FONT]

غدیر خم



[FONT=&amp]پیغمبر اکرم (ص) آپنی پر برکت زندگی کے آخری سال میں حج کا فریضہ انجام دینے کے بعد مکہ سےمدینے کی طرف پلٹ رہے تھے، جس وقت آپ کا قافلہ جحفه کے نزدیک غدیر خم نامی مقام پر پہنچا تو جبرئیل امین یہ آیہ بلغ لیکرنازل ہوئے، پیغمبر اسلام (ص)نے قافلےکو ٹھرنے کا حکم دیا ۔[/FONT]
[FONT=&amp]نماز ظھر کے بعد پیغمبر اکرم (ص) اونٹوں کے کجاوں سے بنے منبر پر تشریف لے گئے اور فرمایا :[/FONT]
[FONT=&amp] ایھا الناس ! وہ وقت قریب ھے که میں دعوت حق پر لبیک کہتے ھوئے تمھارے درمیان سے چلا جاؤں ،لہذا بتاو کہ میرے بارے میں تمہاری کیا رای ہے؟ [/FONT]
[FONT=&amp]سب نے کہا : ھم گواھی دیتے ھیں آپ نے الٰھی آئین و قوانین کی بہترین طریقے سے تبلیغ کی ھے رسول الله (ص) نے فرمایا کیا تم گواھی دیتے ہو کہ خدائے واحد کے علاوہ کوئی دوسرا خدا نھیں ھے اور محمد خدا کا بندہ اور اس کا رسول ھے ۔[/FONT]
[FONT=&amp]پھر فرمایا: ایھا الناس ! مومنوں کے نزدیک خود ان سے بھتر اور سزا وار تر کون ھے ؟۔[/FONT]
[FONT=&amp]لوگوں نے جواب دیا : خدا اور اس کا رسول بھتر جانتے ھیں ۔[/FONT]
[FONT=&amp]پھر رسول الله (ص) نے حضرت علی (ع) کے ھاتھ کو پکڑ کر بلند کیا اور فرمایا[/FONT]
[FONT=&amp]: ایھا الناس ! من کنت مولاہ فھذا علی مولاہ۔ جس جس کا میں مولا ہوں اس اس کے یہ علی مولا ہیں ۔ [/FONT]
[FONT=&amp]رسول الله (ص) نے اس جملے کی تین مرتبہ تکرار کی ۔[/FONT]
[FONT=&amp]اس کے بعد لوگوں نے حضرت علی (ع) کواس منصب ولایت کے لئے مبارک باددی اور آپ (ع) کے ھاتھوں پر بیعت کی ۔[/FONT]

حضرت علی علیہ السلام، پیغمبر اسلام (ص) کی نظر میں


[FONT=&amp]علی علیہ السّلام کے امتیازی صفات اور خدمات کی بنا پر رسول ان کی بہت عزت کرتے تھے او آپنے قول اور فعل سے ان کی خوبیوں کو ظاہر کرتے رہتے تھے کبھی یہ کہتے تھے کہ علی مجھ سے ہیں اور میں علی سے ہوں .کبھی یہ کہا کہ میں علم کاشہر ہوں اور علی اس کا دروازہ ہے . کبھی یہ کہا آپ سب میں بہترین فیصلہ کرنے والا علی ہے . کبھی یہ کہاعلی کومجھ سے وہی نسبت ہے جو ہارون کو موسیٰ علیہ السّلام سے تھی . کبھی یہ کہاعلی مجھ سے وہ تعلق رکھتے ہیں جو روح کو جسم سے یاسر کو بدن سے ہوتا ہے .,,[/FONT]
[FONT=&amp]کبھی یہ کہوہ خدا اور رسول کے سب سے زیادہ محبوب ہیں ,, یہاں تک کہ مباہلہ کے واقعہ میں علی علیہ السّلام کو نفسِ رسول کاخطاب ملا. عملی اعزاز یہ تھا کہ جب مسجدکے صحن میں کھلنے والے، سب کے دروازے بند ہوئے تو علی کادروازہ کھلا رکھا گیا . جب مہاجرین وانصار میں بھائی کا رشتہ قائم کیا گیا تو علی علیہ السّلام کو پیغمبر نے آپنا بھائی قرار دیا۔

اور سب سے اخر میں غدیر خم کے میدان میں مسلمانوں کے مجمع میں علی علیہ السّلام کو اپنے ہاتھوں پر بلند کر کے یہ اعلان فرما دیا کہ جس طرح میں تم سب کا حاکم اور سرپرست ہوں اسی طرح علی علیہ السّلام، تم سب کے سرپرست اور حاکم ہیں۔ یہ اتنا بڑا اعزاز ہے کہ تمام مسلمانوں نے علی علیہ السّلام کو مبارک باد دی اور سب نے سمجھ لیا کہ پیغمبر نے علی علیہ السّلام کی ولی عہدی اور جانشینی کااعلان کردیا ہے .
[/FONT]

حضرت علی علیہ السلام کی شہادت

[FONT=&amp]جنگ نھروان کے بعد خوارج میں سے کچھ لوگ جیسے عبد الرحمن بن ملجم مرادی ، ومبرک بن عبد الله تمیمی اور عمر و بن بکر تمیمی ایک رات میں ایک جگہ جمع ہوئےاور نھروان میں مارے گئے اپنےساتھیوں کو یاد کیا کرتے ہوئے ان دنوں کے حالات اور داخلی جنگوں کے بارے میں تبادلہ خیال کرنےلگے۔ بالآخروہ اس نتیجہ پر پھونچے که اس قتل و غارت کی وجہ حضرت علی (ع) معاویہ اورعمرو عاص ھیں اور اگر ان تینوں افراد کو قتل کر دیا جائے تو مسلمان اپنے مسائل کوخود حل کر لیں گے۔ لھذا انھوں نے آپس میں طےکیا کہ ھم میں سے ھر ایک آدمی ان میں سے ایک ایک کو قتل کرے گا ۔[/FONT]
[FONT=&amp]ابن ملجم نے حضرت علی (ع) کے قتل کا عھد کیا اور سن۴۰ ہجری قمری میں انیسویں رمضان المبارک کی شب کو کچھ لوگوں کے ساتھ مسجد کوفہ میں آکر بیٹھ گیا ۔ اس شب حضرت علی (ع) اپنی بیٹی کے گھر مھمان تھے اور صبح کو واقع ھونے والے حادثہ سے با خبر تھے۔ لھذا جب اس مسئلہ کو اپنی بیٹی کے سامنے بیان کیا تو ام کلثوم نے کہا کہ کل صبح آپ ۔۔۔کو مسجد میں بھیج دیجئے ۔[/FONT]
[FONT=&amp]حضرت علی (ع) نے فرمایا : قضائے الٰھی سے فرار نھیں کیا جا سکتا۔ پھر آپنے کمر کے پٹکے کو کس کر باندھا اور اس شعر کو گنگناتےہوئے مسجد کی طرف روانہ ھوگئے ۔[/FONT]
[FONT=&amp] اپنی کمر کو موت کے لئے کس لو ، اس لئے کہ موت تم سے ملاقات کرے گی ۔[/FONT]
[FONT=&amp]اور جب موت تمھاری تلاش میں آئے تو موت کے ڈر سے نالہ و فریاد نہ کرو ۔[/FONT]
[FONT=&amp]حضرت علی (ع) سجده میں تھے کہ ابن ملجم نے آپ کے فرق مبارک پر تلوار کا وار کیا۔ آپ کے سر سے خون جاری ھواآپ کی داڑھی اور محراب خون سے رنگین ہو گئ۔ اس حالت میں حضرت علی (ع) نے فرمایا : فزت و رب الکعبه کعبہ کے رب کی قسم میں کامیاب ھو گیا۔ پھر سوره طہ کی اس آیت کی تلاوت فرمائی :[/FONT]
[FONT=&amp]ھم نے تم کو خاک سے پیدا کیا ھے اور اسی خاک میں واپس پلٹا دیں گے اور پھر اسی خاک تمھیں دوباره اٹھائیں گے ۔ [/FONT]
[FONT=&amp]حضرت علی (ع) اپنی زندگی کے آخری لمحات میں بھی لوگوں کی اصلاح و سعادت کی طرف متوجہ تھے۔ انہوں نے اپنے بیٹوں، عزیزوں اور تمام مسلمانوں سے اس طرح وصیت فرمائی :[/FONT]
[FONT=&amp] میں تمہیں پرھیز گاری کی وصیت کرتا ھوں اور وصیت کرتا ھوں کہ تم اپنے تمام امور کو منظم کرو اور ھمیشه مسلمانوں کے درمیان اصلاح کی فکر کرتے رھو ۔ یتیموں کو فراموش نہ کرو ۔ پڑوسیوں کے حقوق کی رعایت کرو ۔ قرآن کو اپنا عملی نصاب قرار دو ،نماز کی بہت زیادہ قدر کرو، کیوں کہ یہ تمھارے دین کا ستون ھے ۔ [/FONT]
[FONT=&amp]آپ کے رحم وکرم اور مساوات پسندی کا عالم یہ تھا کہ جب آپ کے قاتل کو گرفتار کرکے آپ کے سامنے لا یا گیا، اورآپ نے دیکھا کہ اس کاچہرہ زرد ہے اور انکھوں سے انسو جاری ہیں، تو آپ کو اس پر بھی رحم اگیا۔ آپنے اپنے دونوں بیٹوں امام حسن علیہ السّلام وامام حسین علیہ السّلام کو ہدایت فرمائی کہ یہ ہمارا قیدی ہے اس کے ساتھ کوئی سختی نہ کرنا، جو کچھ خود کھانا وہ اسے کھلانا، اگر میں صحتیاب ہو گیا تو مجھے اختیار ہے کہ چاہے اسے سزا دوں یا معاف کردوں اور اگر میں دنیا میں نہ رہا اور آپ نے اس سے انتقام لینا چاہا تو اسے ایک ہی ضربت لگاناکیونکہ اس نے مجھے ایک ہی ضربت لگائی ہے ۔ اور ہر گز اس کے ہاتھ پاؤں وغیرہ قطع نہ کرنا کیوں کہ یہ اسلامی تعلیم کے خلاف ہے۔
[/FONT]
http://ur.abna24.com

http://urdu.duas.org/masoomeen/chodah_sitaray/002.html

 
Last edited:

Alp Arsalan

Banned
Re: یوم شہادت امیرالمومنین حضرت علی علیہ الس&a

[FONT=&amp]اے میرے خاندان والوں ! جان لو که علی میرا بھائی اور میرے بعد تمھارے درمیان میرا وصی و جانشین ھے ۔[/FONT]"
This statement of yours is highly controversial. The sequence of Khilafat after Prophet Mohemmed (P.B.U.H) is known and agreed upon by majority of Muslims.

He was among the first child/boy to accept Islam at the age of 12. The first adult male who accepted Islam was Abu Bakr Siddique R.A.

Your quotation about Ghadeer is also dubious and considered nullified on different historical references. We can discuss it. Just for reference purpose, the best place for such announcement would be either Khutbah-Hajjatul Wida or Masjid Nabvi(on return). Second point is that try to find the reason that why nt all the listeners protested againts the caliphate of Abu Bakr R.A.

And Allah knows the best
 

Afaq Chaudhry

Chief Minister (5k+ posts)


”ھم نے تم کو خاک سے پیدا کیا ھے اور اسی خاک میں واپس پلٹا دیں گے اور پھر اسی خاک تمھیں دوباره اٹھائیں گے “۔
حضرت علی (ع) اپنی زندگی کے آخری لمحات میں بھی لوگوں کی اصلاح و سعادت کی طرف متوجہ تھے۔ انہوں نے اپنے بیٹوں، عزیزوں اور تمام مسلمانوں سے اس طرح وصیت فرمائی :
” میں تمہیں پرھیز گاری کی وصیت کرتا ھوں اور وصیت کرتا ھوں کہ تم اپنے تمام امور کو منظم کرو اور ھمیشه مسلمانوں کے درمیان اصلاح کی فکر کرتے رھو ۔ یتیموں کو فراموش نہ کرو ۔ پڑوسیوں کے حقوق کی رعایت کرو ۔ قرآن کو اپنا عملی نصاب قرار دو ،نماز کی بہت زیادہ قدر کرو، کیوں کہ یہ تمھارے دین کا ستون ھے “۔
________________________________________________________________________________

الله سے سب دعا کریں کہ ہم سب مسلمانوں کو اصلاح کی طرف راغب کرے نہ کہ تفریق کی طرف ، یہ ہی سب زندگی اور قربانیوں کا نچوڑ ہے


 

alibaba007

Banned
Re: یوم شہادت امیرالمومنین حضرت علی علیہ الس&a

[FONT=&amp]اے میرے خاندان والوں ! جان لو که علی میرا بھائی اور میرے بعد تمھارے درمیان میرا وصی و جانشین ھے ۔[/FONT]"
This statement of yours is highly controversial. The sequence of Khilafat after Prophet Mohemmed (P.B.U.H) is known and agreed upon by majority of Muslims.

He was among the first child/boy to accept Islam at the age of 12. The first adult male who accepted Islam was Abu Bakr Siddique R.A.

Your quotation about Ghadeer is also dubious and considered nullified on different historical references. We can discuss it. Just for reference purpose, the best place for such announcement would be either Khutbah-Hajjatul Wida or Masjid Nabvi(on return). Second point is that try to find the reason that why nt all the listeners protested againts the caliphate of Abu Bakr R.A.

And Allah knows the best
دعوت ذوالعشيرہ
بعثت كے ابتدائي تين سالوں كے بعد ايك اہم، جديد اوركٹھنمرحلہ كا آغاز ہوا اور وہ تھا اسلام كى طرف اعلانيہ دعوت كا مرحلہ_
پہلے پہل نسبتاً ايك محدود دائرے سے اس كى ابتدا ہوئي كيونكہ خدا كى جانب سے يہ آيت نازل ہوئي_ (وانذر عشيرتك الاقربين) (1) يعنى اپنے نزديكى رشتہ داروں كو (كفر و گمراہى كے عذاب سے) ڈراؤ_
مؤرخين كے بقول ( الفاظ تاريخ طبرى كے ہيں) جب يہ آيت نازل ہوئي تو آنحضرت(ص) نے حضرت علي(ع) كو بلاكر كھانا تيار كرنے اور بنى عبدالمطلب كو دعوت دينے كا حكم ديا تاكہ آپ(ص) ان كے ساتھ گفتگو كركے حكم الہى كو ان تك پہنچاسكيں_
پس حضرت علي(ع) نے ايك صاع (تقريباً تين كلو) آٹے كى روٹياں تيار كرائيں اور بكرے كى ايك ران بھى پكالى نيز دودھ كا كاسہ بھى بھر كر ركھ ديا_ بعدازاں انہيں دعوت دى حالانكہ اس وقت ان كى تعداد چاليس كے لگ بھگ تھى جن ميں آنحضرت(ص) كے چچا ابوطالب، حمزہ، عباس اور ابولہب بھى شامل تھے_ حضرت على (ع) كا
--------------------------------------------------------------------------------
1_ سورہ شعرائ، آيت 214_


19
بيان ہے كہ انہوں نے پيٹ بھر كر كھانا كھايا ليكن كھانا جوں كا توں رہا صرف انگليوں كے نشان دكھائي دے رہے تھے_ قسم ہے اس خدا كى جس كے ہاتھ ميں على كى جان ہے وہ كھانا جو ميں نے ان كيلئے تيار كيا وہ سارے كا سارا ان ميں سے ايك آدمى كھا سكتا تھا_ اس كے بعد آنحضرت(ص) نے انہيں دودھ پلانے كا حكم ديا_ ميں دودھ كا برتن ليكر ان كے پاس آيا انہوں نے جى بھر كر پيا_ خدا كى قسم وہ سارا دودھ ان ميں سے اكيلا آدمى پى سكتا تھا_ اس كے بعد جب پيغمبر اكرم(ص) نے ان سے گفتگو كرنى چاہى تو ابولہب نے پہل كرتے ہوئے كہا كہ تمہارے ساتھى نے تم پر كيسا سخت جادو كرديا_ يہ سن كر وہ لوگ متفرق ہوگئے اور رسول(ص) خدا ان سے گفتگو نہ كرسكے_
دوسرے دن آپ(ص) نے حضرت على (ع) كو حسب سابق دعوت دينے كا حكم ديا_ چنانچہ جب لوگ كھا پى كر فارغ ہوگئے تو حضور(ص) نے ان سے فرمايا:'' اے آل عبدالمطلب خدا كى قسم جہاں تك مجھے علم ہے عرب كا كوئي جوان آج تك اپنى قوم كيلئے كوئي ايسا تحفہ ليكر نہيں آيا جس قسم كا تحفہ ميں لايا ہوں_ ميں تمہارے لئے دنيا و آخرت كى سعادت كا تحفہ ليكر آيا ہوں خدا نے مجھے حكم ديا ہے كہ تمہيں اس كى طرف دعوت دوں_
اب تم ميں سے كوئي ہے جو اس امر ميں ميرا ہاتھ بٹائے تاكہ وہ ميرا بھائي، ميرا وصى اور تمہارے درميان ميرا جانشين قرار پائے''_ يہ سن كر سب چپ ہوگئے حضرت على (ع) نے عرض كيا: ''اے الله كے نبي(ص) ميں اس امر ميں آپ(ص) كا ہاتھ بٹاؤں گا''_ (حضرت على (ع) كہتے ہيں كہ) يہ سن كر حضور(ص) نے ميرے كندھے پر ہاتھ ركھا اور فرمايا: ''بے شك يہ ميرا بھائي، ميرا وصى اور تمہارے درميان ميرا جانشين ہے، پس اس كى بات سنو اور اس كى اطاعت كرو''_
حضرت على (ع) كا كہنا ہے كہ وہ لوگ ہنستے ہوئے اور جناب ابوطالب سے يہ كہتے ہوئے چلے گئے كہ لو اب اس نے تجھے حكم ديا ہے كہ اپنے بيٹے كى بات سنو اور اس كى اطاعت كرو_ بعض روايات ميں صريحاً بيان ہوا ہے كہ جب حضرت علي(ع) نے اٹھ كر جواب ديا تو آنحضرت(ص) نے آپ كو بٹھا ديا اور اپنى بات كا تكرار كيا_ حضرت علي(ع) نے بھى دوبارہ وہى جواب ديا_ پيغمبر اكرم(ص) نے پھر آپ كو بٹھا ديا اور حاضرين كے سامنے تيسرى بار اپنى بات دہرائي_ ليكن سوائے علي(ع) كے كسى نے بھى جواب نہ ديا_ اس وقت آپ(ص) نے مذكورہ كلمات ارشاد فرمائے_


1_ اس واقعہ كے سلسلہ ميں مراجعہ ہو، تاريخ طبرى ج 2 ص 63، مختصر التاريخ ابوالفدء ج 2 ص 14 (دار الفكر بيروت)، شواہد التنزيل ج 1 ص 372 و ص 421 و كنز العمال طبع دوم ج 15 ص 116_117 و 113 و 130 از ابن اسحاق و ابن جريرجبكہ احمد، ابن ابوحاتم، ابن مردويہ، ابونعيم اور بيہقى نے الدلائل ميں اور تاريخ ابن عساكر ميں اسے صحيح ہے ،تاريخ ابن عساكر نيز زندگى نامہ امام على (بتحقيق محمودي) ج1، ص 87_88، شرح نہج البلاغة (معتزلي) ج 13 ص 244 از اسكافي، حيات محمد ( ھيكل) طبع اول ص 286 و كامل ابن اثير ج

 

There is only 1

Chief Minister (5k+ posts)
بہادری ، سخاوت ، ایثار ، علم ، فہم و فراست ، رسول سے محبت ، سچائی ، غرض جس پہلو کو بھی دیکھیں تو لگتا ہے کہ حضرت علی کا یہ وصف ان کی تمام خوبیوں سے ممتاز ہے لیکن سچ تو یہ ہے کہ حضرت علی ہر خوبی میں اپنی مثال آپ تھے
 

Ali raza babar

Chief Minister (5k+ posts)
Zaat e Ali pur Israr tareen Zaat rahi.
Na paidaish samajh aa saki na Shahadat.
Aik farmaan yaad hay Maula Aleh Assalam nay farmaya.
Mein Asman kay rastay zameen kay raston say ziada janta hun
 

insaan

MPA (400+ posts)
امیر المومنین حضرت علی بن ابی طالب علیہ السلام وہ ناشناختہ گوہر ہیں جنہیں اللہ اور اس کے رسول کے علاوہ کوئی پہچان نہ سکا۔ رسول اسلام کا یہ معروف فقرہ یا علی میرے اور تمہارے علاوہ کسی نے اللہ کو نہیں پہچانا اور تمہارے اور اللہ کے علاوہ کسی نے مجھے نہیں پہچانا اور میرے اور اللہ کے علاوہ کسی نے تمہیں نہیں پہچانا اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ علی علیہ السلام کی ذات ناشناختہ اس دنیا سے اٹھ گئی۔
رسول اسلام (ص) نے اپنی زندگی کے قدم قدم پر آپ کی شخصیت کو پہچنوانے کی کوشش کی، ہر زاویے اور ہر رخ سے آپ کے فضائل بیان کئے لیکن مسلمانوں نے سنی ان سنی کر دی اور اس گوہر نایاب کو نہ کماحقہ پہچان سکے اور نہ اس سے فائدہ اٹھا سکے۔

 

There is only 1

Chief Minister (5k+ posts)
امیر المومنین حضرت علی بن ابی طالب علیہ السلام وہ ناشناختہ گوہر ہیں جنہیں اللہ اور اس کے رسول کے علاوہ کوئی پہچان نہ سکا۔ رسول اسلام کا یہ معروف فقرہ ’’یا علی میرے اور تمہارے علاوہ کسی نے اللہ کو نہیں پہچانا اور تمہارے اور اللہ کے علاوہ کسی نے مجھے نہیں پہچانا اور میرے اور اللہ کے علاوہ کسی نے تمہیں نہیں پہچانا ‘‘ اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ علی علیہ السلام کی ذات ناشناختہ اس دنیا سے اٹھ گئی۔
رسول اسلام (ص) نے اپنی زندگی کے قدم قدم پر آپ کی شخصیت کو پہچنوانے کی کوشش کی، ہر زاویے اور ہر رخ سے آپ کے فضائل بیان کئے لیکن مسلمانوں نے سنی ان سنی کر دی اور اس گوہر نایاب کو نہ کماحقہ پہچان سکے اور نہ اس سے فائدہ اٹھا سکے۔


مجھے تو اس وقت کا بار بار خیال آتا ہے جب حضرت علی نے کہا تھا کہ پوچھو مجھ سے جو پوچھنا چاہتے ہو اور میں زمین کی گہرائیوں سے زیادہ آسمان کے راستوں سے واقف ہوں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور ناصبیوں کی بد بختی دیکھیں کہ وہ پوچھتے ہیں کہ بتائیے میری مٹھی میں کیا ہے

آپ نے ٹھیک کہا کہ انسانوں نے ان کی قدر نہیں کی ۔ ورنہ حضرت علی نے کاتب وحی کا کام بھی کیا اور قرآن جمع کرنے کا بھی ، ہر سوال کا جواب دیا اور ہر مشکل کا حل بتایا الغرض حقیقی معنی میں موسیٰ کا ہارون بن کر دکھایا ۔لیکن یہ جلن کے مارے لوگ تھے کہ اپنے فائدے کی چیزوں کو ٹھکراتے رہے اور حضرت علی کا انکار کرتے رہے
 

There is only 1

Chief Minister (5k+ posts)
علی حق دے نال
حق علی دے نال

پاک نبی دے دل دی دھڑکن
رب سوہنے دا خاص ولی

یا علی یا علی
 

alibaba007

Banned

میسر نگردد بہ کس این سعادت
بہ کعبہ ولادت بہ مسجد شہادت
01.jpg


میسر نہیں کسی کو یہ سعادت



بہ کعبہ ولادت بہ مسجد شہادت










 

alibaba007

Banned



على حبه جنه‏
قسيم النار و الجنة
وصى المصطفى حقا
إمام الإنس و الجنة


محمد بن ادريس شافعى، در عظمت امام على (ع)

1388645700.jpg










 

Ahud1

Chief Minister (5k+ posts)
man_konto_mola.jpg

امام احمد حنبل نے اپنی مسند میں حدیث غدیر کو سلسلہ روات کے ساتھ یوں بیان کیا ہے:

حدثنا عبد اللہ، حدثنی ابی، ثنا عفان، ثنا حماد بن سلمہ، انا علی بن زید، عن عدی بن ثابت ، عن البراء بن عازب، قال: کنا مع رسول اللہ[ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم] فی سفر فنزلنا بغدیر خم فنودی فینا: الصلاۃ جامعۃ، و کسح لرسول اللہ[ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم] تحت شجرتین فصلی الظھر و اخذ بید علی [رضی اللہ عنہ] فقال: الستم تعلمون انی اولی بکل مومن من نفسہ؟ قالوا: بلی ، قال فاخذ بید علی فقال: من کنت مولاہ فعلی مولاہ اللھم وال من والاہ و عاد من عاداہ۔ قال فلقیہ عمر بعد ذلک فقال لہ: ھنیئا یابن ابی طالب اصبحت و امسیت مولی کل مومن و مومنۃ۔ [1]براء بن عازب کا کہنا ہے: ایک سفر میں ہم رسول خدا [ ص] کے ہمراہ تھے غدیر خم کے مقام پر پہنچے ایک آواز دی گئی: الصلاۃ جامعۃ، [ نماز جماعت کے لیے تیار ہو جاو] دو درختوں کے نیچے رسول خدا [ص] کے لیے انتظام کیا گیا رسول خدا نماز بجا لائے اور پھر حضرت علی کا ہاتھ پکڑ کر فرمایاکیا میں سب کی جان و مال کا مالک نہیں ہوں؟ سب نے کہا ہاں آپ ہماری جان و مال کے مالک ہیں۔ پھر آپ نے فرمایا جس جس کا میں مولا ہوں اس اس کے یہ علی مولا ہیں خدایا اس کو دوست رکھ جو علی کو دوست رکھےاور اس سےد شمنی رکھ جو علی سے دشمنی کرے۔ پھرعمرآپ کے گلے ملے اور کہا مبارک ہو اے ابو طالب کے بیٹے تم نے صبح وشام کی ہے اس حالت میں کہ تم ہر مومن مرد و عورت کے مولا ہو۔یہ روایت[مسند احمد ] میں مختلف مقامات پربہت زیادہ سندوں کے ساتھ نقل ہوئی ہے۔[2]حافظ ابن عبداللہ نیشاپوری نے بھی مستدرکمیں مختلف الفاظ میں مختلف مقامات پر حدیث غدیر کو نقل کیا ہے۔منجملہ:حدثنا ابوالحسین محمد بن احمد بن تمیم الحنظلى ببغداد، ثنا ابوقلابة عبدالملک بن محمد الرقاشى، ثنا یحیى بن حماد، وحدثنى ابوبکر محمد بن احمد بن بالویه وابوبکر احمد بن جعفر البزاز، قالا ثنا عبدالله بن احمد بن حنبل، حدثنى ابى، ثنا یحیى بن حماد و ثنا ابونصر احمد بن سهل الفقیه ببخارى، ثنا صالح بن محمد الحافظ البغدادى، ثنا خلف بن سالم المخرمى، ثنا یحیى بن حماد، ثنا ابوعوانة، عن سلیمان الاعمش، قال ثنا حبیب بن ابى ثابت عن ابى الطفیل، عن زید بن ارقم ـ رضى اللّه عنه ـ قال: لمّا رجع رسول اللّه ـ صلى اللّه علیه وآله وسلم ـ من حجة الوداع ونزل غدیرخم امر بدوحات فقممن فقال: کانّى قد دعیت فاجبت. انى قد ترکت فیکم الثقلین احدهما اکبر من الآخر: کتاب اللّه تعالى وعترتى فانظروا کیف تخلفونى فیهما فانّهما لن یفترقا حتى یردا علىّ الحوض. ثم قال: ان اللّه ـ عزّ وجلّ ـ مولاى وانا مولى کل مؤمن. ثم اخذ بید علی ـ رضى اللّه عنه ـ فقال: من کنت مولاه فهذا ولیّه، اللهم وال من والاه وعاد من عاداه. و ذکر الحدیث بطوله. هذا حدیث صحیح على شرط الشیخین ولم یخرجاه بطوله.[3]
اسی کتاب میں اس حدیث کے نقل کرنے کے بعد دوسری سندوں کے ساتھ اسی روایت کو تکرار کیا ہے دونوں میں صرف اتنا فرق ہے کہ جملہ" من کنت مولاہ " سے پہلے کہتے ہیں:
ثم قال: أن تعلمون انى اولى بالمؤمنین من انفسهم ثلاث مرات قالوا: نعم فقال: رسول اللّه ـ صلى اللّه علیه وآله ـ من کنت مولاه فعلى مولاه.[4]حدیث غدیر سنن ابن ماجہ اور ترمذی میںابن ماجہ لکھتے ہیں:حدثنا على بن محمد، ثنا ابوالحسین، اخبرنى حماد بن سلمه، عن على ابن زید بن جدعان، عن عدىّ بن ثابت، عن البراء بن عازب، قال: اقبلنا مع رسول اللّه ـ صلى اللّه علیه وآله ـ فى حجّته التى حجّ فنزل فى بعض الطریق فامر الصلاة جامعة فأخذ بید علی فقال: ألست اولى بالمؤمنین من انفسهم؟ قالوا: بلى قال: الست اولى بکل مؤمن من نفسه؟ قالوا: بلى. قال: فهذا ولىّ من أنا مولاه، اللهم وال من والاه اللهم عاد من عاداه۔[5]ترمذی بھی " سنن" میں اسی مضمون کے ساتھ اس حدیث کو نقل کرتے ہیں۔[6]

[1]امدي، علي* بن محمد؛ الاحكام؛ بيروت: مؤسسه النور، 1387ق.

[2]ابن ابي* الحديد؛ شرح نهج*البلاغه؛ بيروت: داراحياء الكتب العربيه، [بي*تا

[3]ابن ابي* شيبه كوفي؛ لامصنف؛ بيروت: دارالفكر، [بي*تا].

[4]ابن* اثير، علي؛ اسدالغابه؛ تهران: اسماعيليان، [بي*تا].

[5]ابن* الجارود نيشابوري؛ المنتقي؛ بيروت: مؤسسه الكتب الثقافيه، [بي*تا].

[6]ابن الدمياطي، المستفاد؛ بيروت: دارالكتب العلميه، [بي*تا].


 

alibaba007

Banned

شہادت حضرت علی میر انیس کی زبانی

انیسویں تاریخ کی لکھی ہے یہ اخبار
مسجد میں گئے بہر عبادت شہہ ابرار

جب سجدہ اول میں گئے حیدر کرار
قاتل نے لگائی سر پُرنور پر تلوار

سر ہوگیا دو ٹکڑے محمد کے وصی کا
پھر دو سرے سجدے کو اٹھا سر نہ علی کا

دریا کی طرح خون ہوا زخموں سے جاری
مسجد میں تڑپنے لگا وہ عاشق باری

طاقت نہ سنبھلنے کی رہی غش ہوا طاری
سرپیٹ کے سب کرنے لگے گریہ و زاری

رونے جو ملک ما سبق کن فیکون کو
اک زلزلہ تھا منبر و محراب و ستوں کو

افلاک پر سر پیٹ کے جبرئیل پکارے
فریاد ہے ظالم نے ید اللہ کو مارا

سر ہوگیا سجدے میں دو نمازی کا دو پارا
ہے غرق نجوں برج امامت کا ستارا

ماتم کا ہوا جوش صف جن و ملک میں
فرق آیا ضیائے ماہ و خورشید فلک میں

مارا اسے جو زینت افلاک و زمیں تھا
مارا اسے جو خاتم قدر کا نگیں تھا

مارا اسے جو راز امامت کا امیں تھا
مارا اسے جو شاہنشہاہ دیں تھا

پہنچاتا تھا جو روزہ کشائی فقراء کو
ان روزوں میں زخمی کیا مہمان خدا کو

کوفہ میں یکایک یہ خبر ہوئی جب تشہیر
سر پیٹتے مسجد میں گئے شبر و شبیر

روتے تھے جو لوگ ان سے یہ کی دونوں نے تقریر
تھا کون عدو کس نے لگائی ہے یہ شمشیر

ہم دیکھ لیں مہر رخ تابان علی کو
دو بہرہ خدا راہ یتیمان علی کو

شہزادوں کے منہ دیکھ کے خلقت نے جو دی راہ
ڈوبے ہوائے خون میں نظر آئے اسد اللہ

عماموں کو سر پر سے پٹک دونوں نے کی آہ
اور گر کے لگے آنکھوں سے ملتے قدم ِشاہ

چلاتے تھے بیٹوں کی کمر توڑ چلے آپ
دکھ سہنے کو دنیا میں ہمیں چھوڑ چلے آپ

بیٹوں کے جو رونے کی صدا کان میں آئی
تھے غش میں مگر چونک کے آواز سنائی

کیوں روتے ہو کیوں پیٹ کے دیتے ہو دھائی
ہوتی نہیں کیا باپ کی بیٹوں سے جدائی

تھا تنگ بہت فرقہ اعداء کے ستم سے
دنیا کے میں اب چھوٹ گیا رنج و الم سے

غش طاری ہے مسجد سے مجھے لے چلو اب گھر
گھر سے نہ چلی آئے کہیں زینب مضطر

بابا کو اٹھا لائے جو سبطین پیامبر
دروازے پہ روتے تھے حرم کھولے ہوئے سر

خوں دیکھا محاسن پہ امام مدنی کا
غل خانہ زہرا پہ ہوا سینہ زنی کا

فرزندوں نے حجرے میں جو بستر پر لٹایا
زینب کو پدر کا سر زخمی نظر آیا

چلائی کہ یہ کیا مجھے قسمت نے دکھایا
ماں سے بھی چھٹی باپ کا بھی اٹھتا ہے سایہ

کیوں دیدۂ حق بین کو نہیں کھولتے بابا
کیسا یہ غش آیا کہ نہیں بولتے بابا

یہ کہتی تھی اور باپ کا غم کھاتی تھی زینب
سم کا اثر اک ایک کو دکھلاتی تھی زینب

سر بھائی جو ٹکراتے تھے گھبراتی تھی زینب
تھے شیر خدا غش میں موئی جاتی تھی زینب

چلاتی تھی سر پیٹ کے اے وائے مقدر
میں باپ کے آگے نہ موئی ہائے مقدر

دو دون کبھی ہوشیار تھے حیدر کبھی بے ہوش
قاتل کو بھی بھیجا وہی جو آپ کیا نوش

ہاں حیدریوں بزم میں رقت کو ہواجوش
شمع حرم لم یزل ہوتی ہے خاموش

دعوی ہے اگر تم کو مولائے علی کا
مجلس میں ہو غل ہائے علی ، ہائے علی کا

چہرے میں جب ہویدا ہوئے جب موت کے آثار
سدھے ہوئے قبلہ کی طرف حیدر کرار

لب پہ صلوات اور کلمہ تھا جاری ہر بار
ہنگام قضا ہاتھ اٹھا کر بدل زار

فرزند و اقارب میں لگا چھاتی سے سب کو
دنیا سے سفر کر گئے اکیسویں شب کو

ہاں اہل عزا روؤ کہ یہ وقت بکا ہے
پیٹو کے محمد کا وصی قتل ہوا ہے

ہادی جو تمہارا تھا وہ دنیا سے اٹھا ہے
دن آج کا سوچو تو قیامت سے سوا ہے

اک شور ہے ماتم کو بپا گھر میں علی کے
بیٹے لیئے جاتے ہیں جنازہ کے علی کو

خاموش انیس اب کےنہیں طاقت گفتار
سینہ میں تپاں صورت بسمل ہے دل زار

خالق سے دعا مانگ کہ یا ایزد غفار
آباد رہیں خلق میں حیدر کے عزادار

کیا روتے ہیں ماتم میں امام ازلی کے
حقا کہ یہ سب عاشق صادق ہیں علی کے

میر انیس
 

karachiwala

Prime Minister (20k+ posts)
بہادری ، سخاوت ، ایثار ، علم ، فہم و فراست ، رسول سے محبت ، سچائی ، غرض جس پہلو کو بھی دیکھیں تو لگتا ہے کہ حضرت علی کا یہ وصف ان کی تمام خوبیوں سے ممتاز ہے لیکن سچ تو یہ ہے کہ حضرت علی ہر خوبی میں اپنی مثال آپ تھے


تمام سنّی مسلمان حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی یہ تمام اور اس کے علاوہ انگنت خوبیوں کے سے خوب متعرف ہیں اور حضرت علی ہر سنّی مسلمان کے لیئے اس کی جان سے زیادہ محبوب ہیں۔ آپ شیعہ حضرات خوب انکی تعریف کریں ہمیں خوشی ہوگی مگر مبالغہ اور جان بوجھ کر ایسے الفاظ کا استعمال جس میں سنّی مسلمانوں کیلیئے طنز ہو یہ برداشت نہیں ہوگا۔ شیعہ حضرات کو یہ بات اچھی طرح ممعلام ہے کہ یہ ایک سنّ اکثیریتی ملک ہے اور یہاں اہل سنّت کا قانون چلتا ہے۔ لہذا شیعہ حضرات کو چاہیئے کہ عام مسلمانوں کے جذبات کا خیال رکھیں۔ اور مسلمانوں کو دکھ دیے والے الفاظ بولنے سے پہلے یہ ضرور دیکھیں کہ ایران میں سنّیوں کو ایسی کوئی بات کرنے کے کیا حقوق ہیں؟ کسی شیعہ کو نا کوئی گالی دیگا نا کوئی سزا دیگا اگر شیعہ مسجد کے باہر کھڑے ہوکر حضرت علی کی تعریف کرے لیکن اگر کوئی سنّی ایران میں کسی مسجد کے باہر کھڑا ہو کر حضرت عمر اور حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہما کی تعریف کرے تو کتنے شیعہ اس کو برادشت کریں گے۔ یہ موقع نہیں ورنہ میں آپ کو آپ کی کتب سے ثابت کردوں کہ دونوں گروہوں میں سے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے صحیح مبت کون کرتا ہے۔ امید ہے آپ حجرات بات سمجھ جائیں گے۔
 

alibaba007

Banned


پیغمبر اسلام کے کلام میں مومن اور منافق کی پہچان کا معیار



حضرت علی علیہ السلام کا نام نامی اور اسم گرامی محتاج تعارف نہیں ہے انکا جو تعلق اسلام اور مسلمانوں سے ہے وہ کسی پر پوشیدہ نہیں ہے آپ کو اہلبیت اطہار (ع)اور اکابر صحابہ میں جو امتیازی اور اختصاصی شان حاصل ہے وہ بھی محتاج بیا ن نہیں ہے چنانچہ ارشاد امام احمد و نسائی میں بیان ہوا ہے کہ:
ماجاء لاحدمن اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم من الفضائل ماجاء لعلی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ آنحضرت کے اصحاب میں سے کسی کے اس قدر فضائل بیان نہیں ہوئے ہیں جتنے حضرت علی علیہ السلام کے متعلق وارد ہوئے ہیں .(1)
حضرت علی علیہ السلام مومن اور منافق کی پہچان کا ذریعہ اور وسیلہ ہیں اگر آپ کسی مومن یا منافق کو پہچاننا چاہتے ہیں تو یہ دیکھیں کہ یہ شخص حضرت علی (ع) سے بغض و عداوت اور دشمنی رکھتا ہےکہ نہیں، اگر یہ شخص حضرت امیر (ع) کی محبت و الفت سے سرشار ہے تو مومن ہے اور اگر حضرت کے ساتھ بغض و عداوت رکھتاہے تو منافق ہے لہذا پیغمبر اسلام نے مومن و منافق کی پہچان کے لئے حضرت علی علیہ السلام کے ساتھ محبت و دوستی اور انکے ساتھ عداوت اور دشمنی کو معیار قرار دیا ہے اس سلسلے میں آنحضرت کا ارشاد ہے قال صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لعلی لا یحبک الا مومن ولا یبغضک الا منافق پیغمبر اکرم نے فرمایا کہ اے علی مومن تم سے محبت اور دوستی رکھے گا اور منافق تم سے بغض و عداوت رکھے گا. (2)
پیغمبر اکرم کے ایک برجستہ صحابی ابو سعید خدری فرماتے ہیں کہ ہم منافقین کو حضرت علی علیہ السلام کی عداوت اور دشمنی کے ذریعہ پہچانا کرتے تھے.
آنحضرت نے فرمایا کہ من سب علیا فقد سبنی ومن سبنی فقد سب اللہ (3) جس نے علی کو گالی دی اس نے مجھے گالی دی اور جسنے مجھے گالی دی اس نے اللہ کو گالی دی .
آنحضرت نے فرمایا کہ من آذی علیا فقد آذانی ومن آذانی فقد آذی اللہ جس نے علی کو اذیت دی اس نے مجھے اذیت دی اور جسنے مجھے اذیت دی اس نے خدا کو اذیت دی .(4)
مذکورہ احادیث سے صاف واضح ہوجاتا ہے کہ علی کا مرتبہ گھٹانے والا انکو برا کہنے والا اور انھیں اذیت پہنچانے والا کبھی بھی مسلمان نہیں ہوسکتا.
بنی امیہ کے دور حکومت میں امیر معاویہ نے اپنی بیعت کے شرائط میں یہ شرط بھی رکھی تھی کہ لوگ حضرت علی علیہ السلام پر سب و لعن کیا کریں (5)ان کے نزدیک بغیر اس شرط کے بیعت مستند اور قابل حجت نہیں ہوسکتی تھی معاویہ نے سعد بن ابی وقاص سے بھی کہا تھا کہ علی کو گالیاں دینے سے تمہیں کس نے منع کیا ہے ما منعک ان تسب ابا تراب (6)لہذا حضرت علی علیہ السلام اور انکے اہلبیت اطہار(ع) کے لئے معاویہ اور اسکے بعد آنے والے بنی امیہ کے بادشاہوں کا دور تاریک ترین دور رہا ہے اور آنحضور (ص) کی اولاد کے خلاف یہ بھیانک صورتحال عمر بن عبدالعزیز کے دور حکومت تک جاری رہی اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ تمام وہ لوگ جو بنی امیہ کی طرف منتسب یا انکے زیر اثر یا انکے جال میں پھنسے ہوئے تھے وہ لوگ حضرت علی اور اہلبیت نبی (ص) کے ساتھ دشمنی اور عداوت کو دینی فرائض میں سمجھنے لگے اور بعد کی نسلوں میں بھی آج تک یہ جذبہ کار فرما ہے چنانچہ جن لوگوں نے اہلبیت (ع) کے ساتھ ذرا سی بھی محبت اور الفت کا اظہار یا اعلان کرنے کی کوشش کی انکو بنی امیہ اور ان کے حواریوں نے ظلم و بربریت کا نشانہ بنایا اگر چہ حضرت علی (ع) پر سر ممبر سب و شتم جو معاویہ کے دور حکومت سے شروع ہوا تھاوہ عمر بن عبد العزیز کی حکومت کے دوران بند ہوگیا لیکن حضرت امیر اور اہلبیت رسول اکرم (ص) کے خلاف جو فضا بنی امیہ نے مکدر کردی تھی اس کا اثر خلفاء بنی عباس کے دور حکومت میں بھی نمایاں رہا چنانچہ بنی عباس کے دور حکومت میں سادات اور اہلبیت (ع) کے دوستداروں کو بنی امیہ کے دور سے کہیں زیادہ مشکلات کا سامنا کرنا پڑااور اب بھی اس کی مثالیں ملتی ہیں شیعیان علی علیہ السلام کو آج بھی اہلبیت اطہار(ع) کی محبت کی سزا میں مختلف قسم کے مشکلات کا سامنا ہے اہلبیت اطہار کی محبت میں سرشار لوگوں کو شیعہ یا **************************************** کہتے ہیں حالانکہ شیعہ کہتے ہی ان لوگوں کو ہیں جنکے دل محمد و آل محمد کی محبت و الفت کے جذبے سے سرشار ہوتے ہیں اور محبت اہلبیت کے اس گرانقدر سرمایہ کی حفاظت کے لئے وہ کسی بھی قسم کی قربانی سے دریغ نہیں کرتے ہیں امام شافعی کہتے ہیں کہ اگر علی (ع) اور اہلبیت کی محبت سے سرشار ہونا رفض ہے توپھر میں سب سے بڑا **************************************** ہوں امام شافعی کہتے ہیں.
ان کان حب الولی رفضا ۔۔۔۔۔ فاننی ارفض العبادی
ان کان رفضا حب آل محمد ۔۔۔۔ فلیشہد الثقلان انی رافض

اگرعلی (ع) کی محبت رفض ہے تو دونوں جہان گواہ رہیں کہ میں سب سے بڑا **************************************** ہوں
اور اگر آل محمد کی محبت رفض ہے تو دونوں جہان والے جان لیں کہ میں **************************************** ہوں.
آل محمد (ص)کی محبت کے جرم میں جن لوگوں نے امام شافعی ، نسائی اور دوسرے بزرگوں کو بھی معاف نہیں کیا، وہ عام شیعیان اہلبیت کو کب معاف کریں گے کیوں کہ انکو تو بتایا ہی یہ گیا ہے معاویہ ہی سب کچھ ہے حالانکہ معاویہ کے سیاہ کارناموں سے اسلام کا دامن آج بھی داغ دار ہے اور معاویہ کے سیاہ کارناموں میں وہ لوگ بھی جو معاویہ کے مددگار اور پشتیباں رہے ہیں یہ امر مسلم ہے کہ کتنی ہی اچھی چیز کیوں نہ ہو اگر اس کی برائی کسی کے سامنے برابر اور مسلسل بیان کی جائے تو کچھ دنوں کے بعد سننے والے کے خیالات برگشتہ ہو جائیں گے اور بالکل یہی صورت بری چیز کی بھی ہوتی ہے کہ سنتے سنتے انسان بری چیز کو اچھا سمجھنے لگتا ہے امیر المومنین علی علیہ السلام اور معاویہ کے معاملےمیں بھی بالکل یہی صورت نظر آتی ہے امير المؤمنين حضرت علي عليہ السلام نے كہا تھا كہ معاويہ مجھ سے زيادہ ہوشمند نہيں ہےليكن كيا كروں ميرے اقدامات ميں دين حائل ہوجاتاہے اور معاويہ كو دين كي كوئي پرواہ نہيں ہے.
امام حسن مجتبي (ع) نے معاويہ كے ساتھ صلح نامہ ميں دو بنيادي شرطيں ركھيں پہلي شرط يہ ہے كہ حاكم شام (معاويہ ) كو كتاب اور سنت پر عمل كرنا ہوگااور دوسري شرط يہ ہے كہ اميرالمومنين حضرت علي عليہ السلام پر سب وشتم كے سلسلے كو بند كرنا پڑے گامعاويہ نے صلح نامہ كےتمام شرائط كو قبول كرليا ليكن كچھ ہي عرصہ كے بعد امام حسن(ع) كے ساتھ كئے گئے عہد و پيمان كو توڑ ديا مذکورہ احدیث کی روشنی میں مومن اور منافق کی پہچان کا صرف ایک ہی معیار ہے کہ جو حضرت علی مشکل کشا علیہ السلام اور انکی اولاد کے ساتھ عملی طور پر محبت اوردوستی رکھے گا وہ مومن ہے اور جو انکے ساتھ دشمنی اور عداوت رکھے گا وہ منافق ہے
[h=5]1۔ ارشاد امام احمد ونسائی
2۔ ترمذی ونسائی و ابن ماجہ بروایت ام سلمہ اور کنزالعمال جلد2
3۔ امام احمد بروایت ام سلمہ والحاکم صححہ اور کنزالعمال جلد6
4۔ کنزالعمال بروایت امام احمد و حاکم جلد 6 ص 152
5۔عقد الفرید جلد 2
[/h]

 
Last edited:

There is only 1

Chief Minister (5k+ posts)
تمام سنّی مسلمان حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی یہ تمام اور اس کے علاوہ انگنت خوبیوں کے سے خوب متعرف ہیں اور حضرت علی ہر سنّی مسلمان کے لیئے اس کی جان سے زیادہ محبوب ہیں۔ آپ شیعہ حضرات خوب انکی تعریف کریں ہمیں خوشی ہوگی مگر مبالغہ اور جان بوجھ کر ایسے الفاظ کا استعمال جس میں سنّی مسلمانوں کیلیئے طنز ہو یہ برداشت نہیں ہوگا۔ شیعہ حضرات کو یہ بات اچھی طرح ممعلام ہے کہ یہ ایک سنّ اکثیریتی ملک ہے اور یہاں اہل سنّت کا قانون چلتا ہے۔ لہذا شیعہ حضرات کو چاہیئے کہ عام مسلمانوں کے جذبات کا خیال رکھیں۔ اور مسلمانوں کو دکھ دیے والے الفاظ بولنے سے پہلے یہ ضرور دیکھیں کہ ایران میں سنّیوں کو ایسی کوئی بات کرنے کے کیا حقوق ہیں؟ کسی شیعہ کو نا کوئی گالی دیگا نا کوئی سزا دیگا اگر شیعہ مسجد کے باہر کھڑے ہوکر حضرت علی کی تعریف کرے لیکن اگر کوئی سنّی ایران میں کسی مسجد کے باہر کھڑا ہو کر حضرت عمر اور حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہما کی تعریف کرے تو کتنے شیعہ اس کو برادشت کریں گے۔ یہ موقع نہیں ورنہ میں آپ کو آپ کی کتب سے ثابت کردوں کہ دونوں گروہوں میں سے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے صحیح مبت کون کرتا ہے۔ امید ہے آپ حجرات بات سمجھ جائیں گے۔

اس دنیا میں میرے لئے قانون صرف الله کا ہے ۔ انسان کے بناے ظالم قانون میرے لئے کچھ اہمیت نہیں رکھتے

لہٰذا آپ مجھے سنی قانون نہ پڑھائیں یہ بتایں کہ میں نے کیا غلط کہا ہے میں درستگی کرنے پر آپ کا مشکور رہوں گا

اور جب میں کہوں کہ آپ نے یہ غلط کہا ہے تو یا خود درستگی کر لیا کریں یا میری غلطی دور کر دیا کریں

اس بات پر میں متفق ہوں کہ گالی گلوچ اور نا شائستہ زبان کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔
 

karachiwala

Prime Minister (20k+ posts)
اس دنیا میں میرے لئے قانون صرف الله کا ہے ۔ انسان کے بناے ظالم قانون میرے لئے کچھ اہمیت نہیں رکھتے

لہٰذا آپ مجھے سنی قانون نہ پڑھائیں یہ بتایں کہ میں نے کیا غلط کہا ہے میں درستگی کرنے پر آپ کا مشکور رہوں گا

اور جب میں کہوں کہ آپ نے یہ غلط کہا ہے تو یا خود درستگی کر لیا کریں یا میری غلطی دور کر دیا کریں

اس بات پر میں متفق ہوں کہ گالی گلوچ اور نا شائستہ زبان کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔



بہتر ہوگا خود اپنے ساتھیوں کی پوسٹ پڑہو اور پھر آکر کچھ کہو۔ یہ ڈرامہ بازی کہ میں نے کیا کہا چھوڑو۔ آنکھیں ہیں دیکھو تمہارے شیعہ کیا لکھ رہے ہیں اور کیوں دوسروں کواکسا رہے ہیں۔
 

There is only 1

Chief Minister (5k+ posts)


بہتر ہوگا خود اپنے ساتھیوں کی پوسٹ پڑہو اور پھر آکر کچھ کہو۔ یہ ڈرامہ بازی کہ میں نے کیا کہا چھوڑو۔ آنکھیں ہیں دیکھو تمہارے شیعہ کیا لکھ رہے ہیں اور کیوں دوسروں کواکسا رہے ہیں۔

یہی تو کہہ رہا ہوں کہ وہ کہاں جھوٹ بول رہے ہیں مجھے بتایں میں درستگی پر آپ کا مشکور ہوں گا

اور ان لوگوں کی ابھی کی پوسٹ تو دور میں نے تو گالی گلوچ کرنے والے شیعہ لوگوں کو بھی روکا تھا وہ کہتے تھے کہ آپ نے پہلے آئمہ کی شان میں گستاخی کی ہے اور میں اپنا سا منہ لے کر رہ گیا
 
Status
Not open for further replies.

Back
Top