کہانی جمہوری آمریت کی !(حصہ اوّل)
تحریر:سید ظفر بخاری
ہم میں سے اکثر لوگ جمہوریت اور اس کے ثمرات و برکات پہ بہت سارے بھاشن سن سن کے بڑے ہوئے ہیں اور اب تک سن رہے ہیں مگرجب ہم جمہوری نظام کے ماتحت اداروں اور ان کے سربراہوں کا ٹریک ریکارڈ دیکھیں تو ہمیں یہ معلوم ہوتا ہے کہ اکثر اوقات ملک کےاندر فوجی آمریت کی راہ جمہوریت کا راگ الاپنے والے سویلین آمروں نے ہی ہموار کی ہے۔اس کی وجوہات گو کہ بہت زیادہ ہوسکتی ہیںمگر سب سے بڑی اور اہم وجہ سیاسی آمروں کی انا پرستی اور اپنے آپ کو عقل کل سمجھنا ہے۔دنیا کی ہر جمہوریت کے اندرایسا شاید کبھی ہوتا ہو کہ قومی سلامتی کے اداروں سے بالکل ہی بالا بالا تمام فیصلے کیے جاتے ہوں یا ان کا Input نہ لیا جاتا ہومگر پاکستان کا نظام اس معاملے میں بھی سب سے جدا ہے۔اکثر ہم نے یہ دیکھا ہے کہ سویلین اور فوجی قیادت کے اندر اختلافی مسائل پہ بحث اس لیے نہیں ہوپاتی کیونکہ انا پرستی اکثر غالب آجاتی ہے اور دونوں جانب سے غلط فیصلے ہوجاتے ہیں۔
۲۰ دسمبر ۱۹۷۱ کے دن جب موجودہ پاکستان کے سب سے بڑے جمہوریت پسند رہنما ذوالفقار علی بھٹو نے پہلے سویلین مارشل لاءایڈمنسٹریٹر اور سربراہ مملکت کی حیثیت میں حلف اٹھایا تو وہ ملک کے طاقتور ترین فرد تھے کیونکہ وہ فوج جس پہ ہم اکثر یہ الزام لگاتے ہیں کہ وہ سویلین حکومتوں کو بے اختیار رکھتی ہے،اپنی کمزور ترین سطح پہ تھی۔ہزاروں فوجی ہندوستان کی قید میں تھے اورمغربی و مشرقی دونوں محاذوں پہ بد ترین شکست کھانے کے بعد فوج کا مورال پاتال سے بھی نیچے تھا۔عوام کی نفرت کا اندازہ اس باتسے لگایا جاسکتا ہے کہ جب جنرل یحیی۱ اس زلت آمیز شکست کے بعد راولپنڈی میں ایک پھاٹک کے پاس رکا تو کچھ لوگوں نےپہچاننے کے بعد اسے گالیاں دیں اور پتھر اٹھا کے مارے مگر یحیی۱ کے ڈرائیور نے گاڑی بھگادی۔ان حالات میں بھٹو صاحب ایک تھری سٹار جنرل گل حسن خان کو فوج کا سربراہ مقرر کرتے ہیں۔بیان کردہ حالات کی روشنی میں آپ سوچ سکتے ہیں کہ جنرل گل حسن کتنے بااختیار ہونگے۔مگر ایسے بے اختیار جنرل کو بھی ۱۹۷۲ میں نہ صرف یہ کہ برطرف کیا گیا بلکہ گورنر پنجاب غلاممصطفی۱ کھر نے انہیں زدوکوب کیا اور انہیں لات مار کر گاڑی کی پچھلی سیٹ کی طرف دھکا دیا(حوالہ:The Army and Democracy by Aqil Shah P-122).اختلاف کی وجہ بظاہر یہ بنی کہ گل حسن نے اس بات پہ زبان کھولنے کی جسارت کی تھی کہ حمود الرحمان کمیشن کے اندر ان سمیت جن جنرلز کو رگیدا جارہا ہے،انہیں اپنا موقف بیان کرنے کا موقع نہیں دیا جارہا۔
خیر بھٹو صاحب نے ایک ایسے جنرل کو فوج کا سربراہ بنایا جو فوج کے اندر انتہائی زیادہ غیر مقبول تھے اور ان کی پیشہ ورانہ صلاحیتوں کی قلعی مشرقی پاکستان میں کھل چکی تھی(حوالہ:Pakistan’s Drift into by Hassan Abbas P-102Extremism).جنرل ٹکا خان بھٹو صاحب کی بے انتہا خوشامد کرتے تھے (حوالہ:The Pakistan paradox:Instability and Resillience by Chritophe Jaffrelot
P-226).اسی خوشامد کا ہی نتیجہ تھا کہ حمودالرحمان کمیشن رپورٹ کے اندر جنرل ٹکا خان اور جنرل پیرزادہ کے بارے میں ایک بڑاحصہ کلاسیفائی کردیا گیا۔یہیں پر ہی معاملہ رک جاتا اور بھٹو صاحب اپنے چاپلوس جنرل کی طرف سے ۱۹۷۶ میں اپنی سروس کےخاتمے پہ پیش کیے جانے والے آٹھ جنرلز کی سینیارٹی کا خیال رکھتے ہوئے جنرل ضیاء لحق کو فوج کا سربراہ نہ لگاتے تو شاید تاریخ کا دھارا کسی اور سمت چل پڑتا مگر ایسا نہ ہوسکا اور فوج کے اندر پکنے والا لاوا پھٹ پڑا اور اگلے دس سال فوج اور ملک کو فوجی آمریت کا مزا چکھنا پڑا۔
اسی سلسلے کی ایک دوسری کڑی ہمیں تب نظر آتی ہے کہ جب جنرل ضیاء کا طیارہ حادثے کا شکار ہوجاتا ہے اور فوج کی پوری لیڈر شپ انتقال کر جاتی ہے اور ایک جونئیر جنرل اسلم بیگ فوج کے سربراہ بنتے ہیں۔انہیں بے نظیر بھٹو حکومت کے دوران آصف زرداری کی بد عنوانیوں اور صدر اسحاق خان کے ساتھ حکومت کی بد ترین چپقلش کا فائدہ اٹھا کے بڑے آرام سے حکومت کو چلتاکرسکتے تھے مگر انہوں نے خود آنے کے بجائے ایک ایسے بندے پہ انحصار کیا جو ان خطرات سے نمٹنے کا وعدہ کررہا تھا جو پیپلزپارٹی کی حکومت کی جانب سے ایٹمی پروگرام کے حوالے سے امریکیوں کو دی جانے والی یقین دہانیوںکی وجہ سے پیدا ہورہے تھے۔اگلی حکومت نواز شریف کی بنی مگر اپنے مربّی و محسن کے ساتھ نواز شریف کا خلیج کی جنگ کے دوران پھڈا ہوگیا جب امریکی کانگریس کی لائبریری ریکارڈ کے مطابق جنرل بیگ نے فوج سعودی عرب بھیجنے پہ تحفظات کا اظہار کیا تھا۔
۱۹۹۱ میں جنرل آصف نواز جنجوعہ فوج کے سر
براہ بنے اور چوہدری نثار سمیت مسلم لیگ کے اپنے سرکردہ ترین افراد بھی یہ مانتے ہیں کہ وہ ایک پیشہ ور فوجی اور غیر سیاسی جنرل تھے مگر ان کے سربراہ بننے کے کوئی ۲ ماہ بعد ہی نواز شریف کا ان سے اتنا زیادہ پھڈا ہوگیا کہ اگر کراچی میں آپریشن نہ چل رہا ہوتا تو وہ شاید آصف نواز کو برطرف ہی کردیتے۔جنرل آصف نواز کی وفات کے بعد جنرل عبدالوحید کاکڑ افواج پاکستان کےسربراہ بنے۔ایک اور غیر سیاسی اور غیر متنازعہ جنرل سربراہ بن گیا مگر نواز شریف کا غلام اسحاق خان کے ساتھ پھڈا ہوگیا اورغلام اسحاق خان نے اسمبلی برطرف کردی مگر ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ عدلیہ نے وزیراعظم نواز شریف کے حق میں فیصلہ دیاجسے قائد حزب اختلاف بےنظیر بھٹو نے “چمک” کا نتیجہ قرار دیا۔اس دوران بدترین بحران پیدا ہوگیا اور صدر و وزیر اعظم آمنےسامنے آگئے،مملکت کا نظم و نسق نواز شریف کی ہٹ دھرمی کی وجہ سے ٹھپ ہو کر رہ گیا اور بقول چوہدری نثار کے بہت سارےسیاستدان روزانہ کی بنیاد پہ جنرل کاکڑ کو منتیں کرنے لگے کہ آپ حکومت کو چلتا کریں اور خود آجائیں مگر جنرل کاکڑ نے انکارکرتے ہوئے دونوں فریقوں کو استعفے پہ آمادہ کیا،نگران حکومت آئی اور انتخابات ہوئے۔انہی جنرل کاکڑ نے اپنے اور وزیر اعظم بینظیرکو قتل کرنے ایک مبینہ منصوبے کو ناکام بناتے ہوئے فوج کے ایک حاضر سروس جنرل ظہیر الاسلام عباسی اور حرکت الجہاد الاسلام کے کئی لوگوں کو گرفتار کیا اور ان کو سزائیں ہوئیں۔اگرچہ بین الاقوامی جریدوں کی رپورٹس کے مطابق(ASIANOW – Asiaweek (11 March 1995). یہ سویلین حکومت کی طرف سے رچایا گیا ایک ڈرامہ تھا جس کا مقصد کشمیری جدو جہد کی حمایت نہ کرنے کے امریکی دباؤ کو کم کرنا تھا اور اس منصو بے میں فوج نے بھرپور ساتھ دیا۔یہی نہیں بلکہ ۱۹۹۶ میں جنرل کاکڑنے ایکسٹنشن کی آفر قبول نہ کرتے ہوئے ریٹائر منٹ لے لی۔
(جاری ہے)
تحریر:سید ظفر بخاری
ہم میں سے اکثر لوگ جمہوریت اور اس کے ثمرات و برکات پہ بہت سارے بھاشن سن سن کے بڑے ہوئے ہیں اور اب تک سن رہے ہیں مگرجب ہم جمہوری نظام کے ماتحت اداروں اور ان کے سربراہوں کا ٹریک ریکارڈ دیکھیں تو ہمیں یہ معلوم ہوتا ہے کہ اکثر اوقات ملک کےاندر فوجی آمریت کی راہ جمہوریت کا راگ الاپنے والے سویلین آمروں نے ہی ہموار کی ہے۔اس کی وجوہات گو کہ بہت زیادہ ہوسکتی ہیںمگر سب سے بڑی اور اہم وجہ سیاسی آمروں کی انا پرستی اور اپنے آپ کو عقل کل سمجھنا ہے۔دنیا کی ہر جمہوریت کے اندرایسا شاید کبھی ہوتا ہو کہ قومی سلامتی کے اداروں سے بالکل ہی بالا بالا تمام فیصلے کیے جاتے ہوں یا ان کا Input نہ لیا جاتا ہومگر پاکستان کا نظام اس معاملے میں بھی سب سے جدا ہے۔اکثر ہم نے یہ دیکھا ہے کہ سویلین اور فوجی قیادت کے اندر اختلافی مسائل پہ بحث اس لیے نہیں ہوپاتی کیونکہ انا پرستی اکثر غالب آجاتی ہے اور دونوں جانب سے غلط فیصلے ہوجاتے ہیں۔
۲۰ دسمبر ۱۹۷۱ کے دن جب موجودہ پاکستان کے سب سے بڑے جمہوریت پسند رہنما ذوالفقار علی بھٹو نے پہلے سویلین مارشل لاءایڈمنسٹریٹر اور سربراہ مملکت کی حیثیت میں حلف اٹھایا تو وہ ملک کے طاقتور ترین فرد تھے کیونکہ وہ فوج جس پہ ہم اکثر یہ الزام لگاتے ہیں کہ وہ سویلین حکومتوں کو بے اختیار رکھتی ہے،اپنی کمزور ترین سطح پہ تھی۔ہزاروں فوجی ہندوستان کی قید میں تھے اورمغربی و مشرقی دونوں محاذوں پہ بد ترین شکست کھانے کے بعد فوج کا مورال پاتال سے بھی نیچے تھا۔عوام کی نفرت کا اندازہ اس باتسے لگایا جاسکتا ہے کہ جب جنرل یحیی۱ اس زلت آمیز شکست کے بعد راولپنڈی میں ایک پھاٹک کے پاس رکا تو کچھ لوگوں نےپہچاننے کے بعد اسے گالیاں دیں اور پتھر اٹھا کے مارے مگر یحیی۱ کے ڈرائیور نے گاڑی بھگادی۔ان حالات میں بھٹو صاحب ایک تھری سٹار جنرل گل حسن خان کو فوج کا سربراہ مقرر کرتے ہیں۔بیان کردہ حالات کی روشنی میں آپ سوچ سکتے ہیں کہ جنرل گل حسن کتنے بااختیار ہونگے۔مگر ایسے بے اختیار جنرل کو بھی ۱۹۷۲ میں نہ صرف یہ کہ برطرف کیا گیا بلکہ گورنر پنجاب غلاممصطفی۱ کھر نے انہیں زدوکوب کیا اور انہیں لات مار کر گاڑی کی پچھلی سیٹ کی طرف دھکا دیا(حوالہ:The Army and Democracy by Aqil Shah P-122).اختلاف کی وجہ بظاہر یہ بنی کہ گل حسن نے اس بات پہ زبان کھولنے کی جسارت کی تھی کہ حمود الرحمان کمیشن کے اندر ان سمیت جن جنرلز کو رگیدا جارہا ہے،انہیں اپنا موقف بیان کرنے کا موقع نہیں دیا جارہا۔
خیر بھٹو صاحب نے ایک ایسے جنرل کو فوج کا سربراہ بنایا جو فوج کے اندر انتہائی زیادہ غیر مقبول تھے اور ان کی پیشہ ورانہ صلاحیتوں کی قلعی مشرقی پاکستان میں کھل چکی تھی(حوالہ:Pakistan’s Drift into by Hassan Abbas P-102Extremism).جنرل ٹکا خان بھٹو صاحب کی بے انتہا خوشامد کرتے تھے (حوالہ:The Pakistan paradox:Instability and Resillience by Chritophe Jaffrelot
P-226).اسی خوشامد کا ہی نتیجہ تھا کہ حمودالرحمان کمیشن رپورٹ کے اندر جنرل ٹکا خان اور جنرل پیرزادہ کے بارے میں ایک بڑاحصہ کلاسیفائی کردیا گیا۔یہیں پر ہی معاملہ رک جاتا اور بھٹو صاحب اپنے چاپلوس جنرل کی طرف سے ۱۹۷۶ میں اپنی سروس کےخاتمے پہ پیش کیے جانے والے آٹھ جنرلز کی سینیارٹی کا خیال رکھتے ہوئے جنرل ضیاء لحق کو فوج کا سربراہ نہ لگاتے تو شاید تاریخ کا دھارا کسی اور سمت چل پڑتا مگر ایسا نہ ہوسکا اور فوج کے اندر پکنے والا لاوا پھٹ پڑا اور اگلے دس سال فوج اور ملک کو فوجی آمریت کا مزا چکھنا پڑا۔
اسی سلسلے کی ایک دوسری کڑی ہمیں تب نظر آتی ہے کہ جب جنرل ضیاء کا طیارہ حادثے کا شکار ہوجاتا ہے اور فوج کی پوری لیڈر شپ انتقال کر جاتی ہے اور ایک جونئیر جنرل اسلم بیگ فوج کے سربراہ بنتے ہیں۔انہیں بے نظیر بھٹو حکومت کے دوران آصف زرداری کی بد عنوانیوں اور صدر اسحاق خان کے ساتھ حکومت کی بد ترین چپقلش کا فائدہ اٹھا کے بڑے آرام سے حکومت کو چلتاکرسکتے تھے مگر انہوں نے خود آنے کے بجائے ایک ایسے بندے پہ انحصار کیا جو ان خطرات سے نمٹنے کا وعدہ کررہا تھا جو پیپلزپارٹی کی حکومت کی جانب سے ایٹمی پروگرام کے حوالے سے امریکیوں کو دی جانے والی یقین دہانیوںکی وجہ سے پیدا ہورہے تھے۔اگلی حکومت نواز شریف کی بنی مگر اپنے مربّی و محسن کے ساتھ نواز شریف کا خلیج کی جنگ کے دوران پھڈا ہوگیا جب امریکی کانگریس کی لائبریری ریکارڈ کے مطابق جنرل بیگ نے فوج سعودی عرب بھیجنے پہ تحفظات کا اظہار کیا تھا۔
۱۹۹۱ میں جنرل آصف نواز جنجوعہ فوج کے سر
براہ بنے اور چوہدری نثار سمیت مسلم لیگ کے اپنے سرکردہ ترین افراد بھی یہ مانتے ہیں کہ وہ ایک پیشہ ور فوجی اور غیر سیاسی جنرل تھے مگر ان کے سربراہ بننے کے کوئی ۲ ماہ بعد ہی نواز شریف کا ان سے اتنا زیادہ پھڈا ہوگیا کہ اگر کراچی میں آپریشن نہ چل رہا ہوتا تو وہ شاید آصف نواز کو برطرف ہی کردیتے۔جنرل آصف نواز کی وفات کے بعد جنرل عبدالوحید کاکڑ افواج پاکستان کےسربراہ بنے۔ایک اور غیر سیاسی اور غیر متنازعہ جنرل سربراہ بن گیا مگر نواز شریف کا غلام اسحاق خان کے ساتھ پھڈا ہوگیا اورغلام اسحاق خان نے اسمبلی برطرف کردی مگر ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ عدلیہ نے وزیراعظم نواز شریف کے حق میں فیصلہ دیاجسے قائد حزب اختلاف بےنظیر بھٹو نے “چمک” کا نتیجہ قرار دیا۔اس دوران بدترین بحران پیدا ہوگیا اور صدر و وزیر اعظم آمنےسامنے آگئے،مملکت کا نظم و نسق نواز شریف کی ہٹ دھرمی کی وجہ سے ٹھپ ہو کر رہ گیا اور بقول چوہدری نثار کے بہت سارےسیاستدان روزانہ کی بنیاد پہ جنرل کاکڑ کو منتیں کرنے لگے کہ آپ حکومت کو چلتا کریں اور خود آجائیں مگر جنرل کاکڑ نے انکارکرتے ہوئے دونوں فریقوں کو استعفے پہ آمادہ کیا،نگران حکومت آئی اور انتخابات ہوئے۔انہی جنرل کاکڑ نے اپنے اور وزیر اعظم بینظیرکو قتل کرنے ایک مبینہ منصوبے کو ناکام بناتے ہوئے فوج کے ایک حاضر سروس جنرل ظہیر الاسلام عباسی اور حرکت الجہاد الاسلام کے کئی لوگوں کو گرفتار کیا اور ان کو سزائیں ہوئیں۔اگرچہ بین الاقوامی جریدوں کی رپورٹس کے مطابق(ASIANOW – Asiaweek (11 March 1995). یہ سویلین حکومت کی طرف سے رچایا گیا ایک ڈرامہ تھا جس کا مقصد کشمیری جدو جہد کی حمایت نہ کرنے کے امریکی دباؤ کو کم کرنا تھا اور اس منصو بے میں فوج نے بھرپور ساتھ دیا۔یہی نہیں بلکہ ۱۹۹۶ میں جنرل کاکڑنے ایکسٹنشن کی آفر قبول نہ کرتے ہوئے ریٹائر منٹ لے لی۔