UsmanSial
Senator (1k+ posts)
اس تھریڈ کو شروع کرنے کا مقصد یہ ہے کہ بچپن کی کچھ دلچسپ شرارتیں یا حماقتیں شئیر کی جائیں جو اب ماضی کا حصہ بن چکی ہیں مگر آج بھی یاد آئیں تو لبوں پر مسکراہٹ بکھیر دیتی ہیں۔شروع خود سے کرتاہوں۔پہلی حماقت ہے اور دوسری شرارت لیکن دونوں گلے پڑ گئی تھیں۔
چھٹی جماعت میں اپنی نانی جان کے پاس رہتا تھا۔ اس وقت ویڈیو گیمز کی دکان ہر گلی محلے میں ہوتی تھی۔ ایک دن نانی جان نے ہنڈیا پکانے سے پہلے مجھے پیسے دیے کہ ٹماٹر لے آوں اور تاکید کی کہ جلدی لوٹوں تاکہ وہ سالن پکا سکیں۔ میں ٹماٹر خرید کر واپس آرہا تھا۔جیب میں ایک روپیہ بھی تھا اور راستے میں ویڈیو گیمز کی دکان بھی تھی۔ ایک لمحہ کے لیے سوچا پانچ منٹ گیم کھیل لی جائے کوئی حرج نہیں۔بس ایک بار گیم شروع ہوئی تو وقت گزرنے کا احساس ہی نہ رہا اور احساس اس وقت ہوا جب کسی نے ایک زور دار تھپڑ میرے سر پر مارا۔ پیچھے گھوم کر دیکھاتو نانی جان کھڑی تھیں۔ایک لمحے کے لیے دل کی دھڑکن رک سی گئی ۔جی ہاں رنگے ہاتھوں پکڑے جانے پرایسا ہی ہوتا ہے۔اس سے پہلے کہ کوئی بہانہ گھڑا جا سکتا وہ کان سے پکڑ کر سب محلے والوں کے سامنے گھر لے آئیں۔نانی جان کا غصہ بجا تھا کیونکہ ان کو ٹماٹر وں کے لیے ایک گھنٹے سے زائد انتظار کرنا پڑا۔اس واقعے نے پھر گیم کھیلنے کا مزہ ہی کرکرا کر دیا۔ جب بھی گیم کھیلنے جاتامحلے کے لڑکے کہتےاوے تیری نانی آ رہی ہے میرا طراہ نکل جاتااور وہ دانت نکالتے۔
فرسٹ ایئر میں ہمارے ایک ٹیچر تھے جن کو کلاس میں لڑکے تنگ کرتے تھے وہ بلیک بورڈ کے جانب مڑتے تو پیچھے کلاس چڑیا گھر بن جاتی۔ لڑکےمختلف جانوروں کی آوازیں نکالتے جن میں گیڈر، بھینسےاورٹڈو کی آوازیں کافی مقبول تھیں۔ٹیچرکلاس کی طرف مڑتے تو ایک دم سناٹا۔ کلاس میں اتنی کوآرڈینیشن تھی کہ سب ایسے سپاٹ چہروں کے ساتھ بیٹھتے کہ معلوم نہ ہوتا کون یہ حرکتیں کر رہا ہے۔ایک دن میں نے بھی حصہ ڈالنے کا سوچامگر کچھ ٹائمنگ غلط ہو گئی۔ ٹیچر مڑے تو ان کی نظر مجھ پر پڑ گئی۔ فورا بولے کھڑے ہو جاؤ۔ میں ایسی معصومانہ شکل لے نشست سے اٹھ کھڑا ہواکہ ان کو شک گزرا شاید یہ مجرم نہیں۔ بولے آوازیں کون نکال رہا تھا ۔ میں نے جلدی میں اپنے ساتھ بیٹھے ہوئے دوست امین کا نام لے دیا۔امین صاحب نے بلا چون و چرا جرم قبول کر کیا(دوستی چیک کریں)۔ میں تو بچ گیا مگر امین کو کلا س سے نکال دیا گیا۔پیریڈختم کے بعد امین سے ملاقات ہوئی تو اس نےپہلے بہت سی گالیاں دیں اور پھر بولاجو ہونا سی ہو گیا۔ کمینے انسان چل ہن سموسے کھلا۔
چھٹی جماعت میں اپنی نانی جان کے پاس رہتا تھا۔ اس وقت ویڈیو گیمز کی دکان ہر گلی محلے میں ہوتی تھی۔ ایک دن نانی جان نے ہنڈیا پکانے سے پہلے مجھے پیسے دیے کہ ٹماٹر لے آوں اور تاکید کی کہ جلدی لوٹوں تاکہ وہ سالن پکا سکیں۔ میں ٹماٹر خرید کر واپس آرہا تھا۔جیب میں ایک روپیہ بھی تھا اور راستے میں ویڈیو گیمز کی دکان بھی تھی۔ ایک لمحہ کے لیے سوچا پانچ منٹ گیم کھیل لی جائے کوئی حرج نہیں۔بس ایک بار گیم شروع ہوئی تو وقت گزرنے کا احساس ہی نہ رہا اور احساس اس وقت ہوا جب کسی نے ایک زور دار تھپڑ میرے سر پر مارا۔ پیچھے گھوم کر دیکھاتو نانی جان کھڑی تھیں۔ایک لمحے کے لیے دل کی دھڑکن رک سی گئی ۔جی ہاں رنگے ہاتھوں پکڑے جانے پرایسا ہی ہوتا ہے۔اس سے پہلے کہ کوئی بہانہ گھڑا جا سکتا وہ کان سے پکڑ کر سب محلے والوں کے سامنے گھر لے آئیں۔نانی جان کا غصہ بجا تھا کیونکہ ان کو ٹماٹر وں کے لیے ایک گھنٹے سے زائد انتظار کرنا پڑا۔اس واقعے نے پھر گیم کھیلنے کا مزہ ہی کرکرا کر دیا۔ جب بھی گیم کھیلنے جاتامحلے کے لڑکے کہتےاوے تیری نانی آ رہی ہے میرا طراہ نکل جاتااور وہ دانت نکالتے۔
فرسٹ ایئر میں ہمارے ایک ٹیچر تھے جن کو کلاس میں لڑکے تنگ کرتے تھے وہ بلیک بورڈ کے جانب مڑتے تو پیچھے کلاس چڑیا گھر بن جاتی۔ لڑکےمختلف جانوروں کی آوازیں نکالتے جن میں گیڈر، بھینسےاورٹڈو کی آوازیں کافی مقبول تھیں۔ٹیچرکلاس کی طرف مڑتے تو ایک دم سناٹا۔ کلاس میں اتنی کوآرڈینیشن تھی کہ سب ایسے سپاٹ چہروں کے ساتھ بیٹھتے کہ معلوم نہ ہوتا کون یہ حرکتیں کر رہا ہے۔ایک دن میں نے بھی حصہ ڈالنے کا سوچامگر کچھ ٹائمنگ غلط ہو گئی۔ ٹیچر مڑے تو ان کی نظر مجھ پر پڑ گئی۔ فورا بولے کھڑے ہو جاؤ۔ میں ایسی معصومانہ شکل لے نشست سے اٹھ کھڑا ہواکہ ان کو شک گزرا شاید یہ مجرم نہیں۔ بولے آوازیں کون نکال رہا تھا ۔ میں نے جلدی میں اپنے ساتھ بیٹھے ہوئے دوست امین کا نام لے دیا۔امین صاحب نے بلا چون و چرا جرم قبول کر کیا(دوستی چیک کریں)۔ میں تو بچ گیا مگر امین کو کلا س سے نکال دیا گیا۔پیریڈختم کے بعد امین سے ملاقات ہوئی تو اس نےپہلے بہت سی گالیاں دیں اور پھر بولاجو ہونا سی ہو گیا۔ کمینے انسان چل ہن سموسے کھلا۔