خطہ ارض پر پچاس سے اوپر اسلامی ممالک ہیں۔یعنی وہ ممالک جن میں مسلمانوں کی اکثریت ہے۔ آپ ایک ایک کرکے ان تمام ممالک کو جانچتے جائیں، سوائے وہ ممالک جن کو اتفاق سے تیل کی قدرتی دولت مل گئی ہے، باقی ممالک میں مسلمانوں کا حال کیا ہے۔۔ ان مسلمان ممالک میں آپ کو جمہوریت کہیں نظر نہیں آئے گی، امن کہیں نظر نہیں آئے گا، خوشحالی کہیں نظر نہیں آئے گی۔ ان ممالک میں آپ کو شہریوں کے درمیان مذہب کے نام پر تفریق نظر آئے گی، مذہب مسلک کے نام پر لوگ ایک دوسرے کی سر پھٹول کرتے نظر آئیں گے۔ ان میں آپ کو سائنسدان، ادیب اور مفکر نہیں ملیں گے، ہاں مولوی، مفتی اور مذہبی پیشوا بے شمار ملیں گے۔ جدید دنیا کی تشکیل میں ان ممالک کا کوئی حصہ نہیں۔
پاکستان سے شروع ہوجائیں، افغانستان، عراق، شام، ایران، بنگلہ دیش، لبنان، سعودی عرب، انڈونیشیا، ملائشیا، ترکی، مصر، یمن، تیونس، لیبیا، سوڈان، اومان وغیرہ وغیرہ وغیرہ سب کو کھنگال لیں، کہیں سے کوئی ایجاد، کوئی دریافت، کوئی قابلِ ذکر سائنسدان، انسانی ذہانت کا کوئی کرشمہ آپ کو نظر نہیں آئے گا۔۔ یہ سب یورپ کی ایجادات سے مستفید ہورہے ہیں۔
آپ اسلامی دنیا یعنی اسلامی ممالک پر ایک نظر ڈالیں تو آپ کو علم ہوگا کہ اپنے ہی اکثریتی ممالک میں مسلمان خوش نہیں ہیں، خوش حال نہیں ہیں۔ ان ممالک میں یہ بدحال، خجل خوار مسلمان آپ کو ہر وقت اپنے حکمرانوں کو یا پھر کافروں کو کوستے نظر آئیں گے۔ اگر آپ نے خوش اور خوشحال مسلمان ڈھونڈنے ہیں تو وہ آپ کو سیکولر مغربی ممالک میں نظر آئیں گے۔ آپ امریکہ، کینیڈا، انگلینڈ، جرمنی، سوئٹزرلینڈ، ناروے جیسے کافر ممالک میں مسلمانوں سے ملیں، یہ مسلمان وہاں بڑی خوشحال اور محفوظ زندگی بسر کررہے ہیں، ان سے پوچھیں یہ کبھی واپس ان جہالت بھرے ممالک میں نہیں جائیں گے جہاں ان کی اپنی قوم کی اکثریت ہے۔۔ انہوں نے اپنے معاشروں کو اس قابل نہیں بنایا کہ وہاں کوئی خوشحال اور محفوظ زندگی بسر کرسکے۔ یہ بھاگے بھاگے ان معاشروں میں آگئے جہاں کافر، سیکولر لوگوں نے ایسے معاشرے تشکیل دیئے جہاں سے جانے کو ان کا من نہیں کرتا اور جہاں غیر قانونی طور پر پہنچنے کیلئے پاکستان جیسے ممالک سے ہر سال کتنے ہی لوگ جان کی بازی گنوا بیٹھتے ہیں۔۔
اے مسلمانو! کبھی غور کیا کہ ایسا کیوں ہے؟ تم صرف مغربی سیکولر خطوں میں ہی خوش کیوں ہو؟ تم اپنے اکثریتی ممالک میں خوش کیوں نہیں؟ اس کی سیدھی سیدھی وجہ ہے، تم نے اس دنیا کو اپنی دنیا سمجھا ہی نہیں، تم نے مذہبی جہالت کو چن لیا، تم نے ایک خیالی دنیا کو اپنی مستقل ہمیشگی کی دنیا مان لیا اور اس نام نہاد خیالی جنت کے حصول کیلئے تم نے ایک دوسرے کا خون بہانا، قتل و غارتگری کرنا، مذہب کی بنیاد پر نفرت کرنا اپنا شعار بنایا۔ یورپ نے برسوں پہلے یہ سیکھ لیا تھا کہ اگر پرامن معاشرے تشکیل دینے ہیں تو انسانوں کے درمیان، رنگ ، نسل مذہب کی بنیاد پر تفریق ختم کرنی ہوگی، مذہب کو ریاست کے امور سے نکال کر فرد کا پرائیویٹ معاملہ قرار دینا ہوگا۔۔ تم لوگ آج بھی مذہب کے نام پر انسانوں میں تفریق کرتے ہو۔۔۔جب تک کوئی قوم خود اپنی خامیوں کو شناخت کرکے ان کو دور نہیں کرتی، کوئی ان کی مدد نہیں کرسکتا۔
پاکستان سے شروع ہوجائیں، افغانستان، عراق، شام، ایران، بنگلہ دیش، لبنان، سعودی عرب، انڈونیشیا، ملائشیا، ترکی، مصر، یمن، تیونس، لیبیا، سوڈان، اومان وغیرہ وغیرہ وغیرہ سب کو کھنگال لیں، کہیں سے کوئی ایجاد، کوئی دریافت، کوئی قابلِ ذکر سائنسدان، انسانی ذہانت کا کوئی کرشمہ آپ کو نظر نہیں آئے گا۔۔ یہ سب یورپ کی ایجادات سے مستفید ہورہے ہیں۔
آپ اسلامی دنیا یعنی اسلامی ممالک پر ایک نظر ڈالیں تو آپ کو علم ہوگا کہ اپنے ہی اکثریتی ممالک میں مسلمان خوش نہیں ہیں، خوش حال نہیں ہیں۔ ان ممالک میں یہ بدحال، خجل خوار مسلمان آپ کو ہر وقت اپنے حکمرانوں کو یا پھر کافروں کو کوستے نظر آئیں گے۔ اگر آپ نے خوش اور خوشحال مسلمان ڈھونڈنے ہیں تو وہ آپ کو سیکولر مغربی ممالک میں نظر آئیں گے۔ آپ امریکہ، کینیڈا، انگلینڈ، جرمنی، سوئٹزرلینڈ، ناروے جیسے کافر ممالک میں مسلمانوں سے ملیں، یہ مسلمان وہاں بڑی خوشحال اور محفوظ زندگی بسر کررہے ہیں، ان سے پوچھیں یہ کبھی واپس ان جہالت بھرے ممالک میں نہیں جائیں گے جہاں ان کی اپنی قوم کی اکثریت ہے۔۔ انہوں نے اپنے معاشروں کو اس قابل نہیں بنایا کہ وہاں کوئی خوشحال اور محفوظ زندگی بسر کرسکے۔ یہ بھاگے بھاگے ان معاشروں میں آگئے جہاں کافر، سیکولر لوگوں نے ایسے معاشرے تشکیل دیئے جہاں سے جانے کو ان کا من نہیں کرتا اور جہاں غیر قانونی طور پر پہنچنے کیلئے پاکستان جیسے ممالک سے ہر سال کتنے ہی لوگ جان کی بازی گنوا بیٹھتے ہیں۔۔
اے مسلمانو! کبھی غور کیا کہ ایسا کیوں ہے؟ تم صرف مغربی سیکولر خطوں میں ہی خوش کیوں ہو؟ تم اپنے اکثریتی ممالک میں خوش کیوں نہیں؟ اس کی سیدھی سیدھی وجہ ہے، تم نے اس دنیا کو اپنی دنیا سمجھا ہی نہیں، تم نے مذہبی جہالت کو چن لیا، تم نے ایک خیالی دنیا کو اپنی مستقل ہمیشگی کی دنیا مان لیا اور اس نام نہاد خیالی جنت کے حصول کیلئے تم نے ایک دوسرے کا خون بہانا، قتل و غارتگری کرنا، مذہب کی بنیاد پر نفرت کرنا اپنا شعار بنایا۔ یورپ نے برسوں پہلے یہ سیکھ لیا تھا کہ اگر پرامن معاشرے تشکیل دینے ہیں تو انسانوں کے درمیان، رنگ ، نسل مذہب کی بنیاد پر تفریق ختم کرنی ہوگی، مذہب کو ریاست کے امور سے نکال کر فرد کا پرائیویٹ معاملہ قرار دینا ہوگا۔۔ تم لوگ آج بھی مذہب کے نام پر انسانوں میں تفریق کرتے ہو۔۔۔جب تک کوئی قوم خود اپنی خامیوں کو شناخت کرکے ان کو دور نہیں کرتی، کوئی ان کی مدد نہیں کرسکتا۔